2/12/25

عابد رضا بیدار: ایک مثالی شخصیت، مضمون نگار: اسلم جاوداں

 اردو دنیا، مئی 2025


مشہور دانشور شخصیت ڈاکٹر عابد رضا بیدار اگرچہ عظیم آباد کے نہیں تھے، مگر وہ اتنے طویل عرصے تک اپنی شخصیت کی پوری ہمہ ہمی کے ساتھ یہاں رہے کہ عظیم آباد سے ان کا رشتہ جزوِلا ینفک ہو گیا۔ آپ کسی سے بھی کہیے ’عابد رضا بیدار‘ ، پھر آپ کو یہ بتانے کی نوبت نہیں آئے گی کہ کون عابد رضا بیدار بلکہ مخاطب خود بخود سمجھ جائے گا کہ یہ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کے سابق ڈائرکٹر ڈاکٹر عابد رضا بیدار کی بات کر رہے ہیں۔ حالانکہ ان کو یہاں سے سبکدوش ہوئے 30  برس کا طویل عرصہ گزر چکا ہے ، مگر     ع

ذہن میں آج بھی ہیں زہرہ جمالوں کی طرح

ڈاکٹر عابد رضا بیدار اپنے قد و قامت ، اپنے حلیے اور اپنے جثے سے بھی منفرد نظر آتے تھے، ان کی زلفیں، ان کا چوڑا خط، ان کی گھنی مونچھیں، ان کی آنکھیں، ان کا چہرہ، ریشمی ڈوری سے بندھا سینے پر جھولتا ہوا چشمہ، خاص انداز کا شرٹ اور پینٹ  اور اس پر طرہ یہ کہ سر پر ایک خاص انداز کا کیپ۔ یہ ساری چیزیں انھیں ایک غیر معمولی شخصیت اور بڑے دانشور کی شکل میں ہمارے سامنے پیش کرتیں۔ ان سے پہلی بار ملنے والا کوئی بھی شخص ان کی ظاہری وضع قطع کو دیکھ کر ہی ایک قابل رشک تصور قائم کر لیتا تھا۔ گویا عابد رضا بیداراپنی خارجی شخصیت کے اعتبار سے بھی متاثر کن رہے۔

عابد رضا بیدار کی پیدائش آج سے 91 برس قبل 12 ؍اگست  1933 میں ہوئی تھی۔ تعلیمی اعتبار سے اسلامک اسٹڈیز اور اردو میں ماسٹر ڈگری لینے کے بعد B.Lib. Sc.کیا پھر قانون کی بھی ڈگری لی (بشمول مسلم لا )۔ رضا لائبریری رام پور میں 1959 سے لے کر 1964 تک اپنی خدمات دیں۔ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ میں 1972 سے لے کر اپریل 1996 تک ایک تاریخ ساز ڈائرکٹر کی حیثیت سے مشہور اور معروف رہے۔

عابد رضا بیدار کی علمیت اور لیاقت میں مثالی تھے۔ اردو، فارسی، عربی،انگریزی، ہندی اور بقدر ضرورت فرانسیسی زبان سے واقف تھے۔انگلش، عربی فارسی اور اردو میں 40 سے زائد کتابیں تصنیف کیں نیز تقریبا  200 کتابیں ان کی مرتب کردہ ہیں۔ انھوں نے کیمبرج، آکسفورڈ، مانچسٹر، لندن، پیرس، قاہرہ، کراچی، ماسکو اور تہران یونیورسٹی کے دورے کے ساتھ ان کی لائبریریوں کو بھی دیکھا۔

ان کی سب سے بڑی خوبی ان کی غیرمعمولی انتظامی صلاحیت تھی۔ اتنا اچھا اور کامیاب ایڈمنسٹریٹر میں نے زندگی میں سوائے امتیاز احمد کریمی (سابق ڈائرکٹر اردو ڈائرکٹوریٹ، حکومت بہار ) کے نہیں دیکھا۔ انھوں نے اپنی بہترین انتظامی و انصرامی صلاحیت سے خدا بخش لائبریری کو جو رنگ وآہنگ عطا کیا، اس کو جس بلندی کمال تک پہنچایا، اسے بلا خوف تردید تاریخی اور مثالی کہا جا سکتا ہے۔ ان کے عہد میں لائبریری میں جو نظم و ضبط اور انتظام و انصرام کی کیفیت تھی اور اس دور میں لائبریری کے اسٹاف کی جو  چستی، مستعدی اور حاضر باشی دیکھی گئی، وہ نہ اس سے پہلے تھی اور نہ اس کے بعد کبھی دیکھی گئی۔ کئی بار ایسا بھی دیکھا گیا کہ بیدار صاحب خود کھڑے ہو کر کسی قاری کی مدد کر رہے ہیں۔ اس کی ضرورت کو سمجھ رہے ہیں ، تحقیق کے معاملے میں رہنمائی فرما رہے ہیں یا اس کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ بلا شبہ انھوں نے خدا بخش لائبریری کو ایک نہایت معیاری اور مثالی لائبریری کے مقام تک پہنچا دیا تھا۔ وہ دور خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کا عہد زریں تھا۔ میرے اس خیال کی تصدیق بی بی سی لندن کے مشہور عالم اناؤنسر رضا علی عابدی کے اس قول سے ہوتی ہے کہ  :

’’عابد رضا بیدار نے خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کو عالمی معیار کا بنا دیا ہے۔‘‘ یہ بات انھوں نے معروف صحافی ڈاکٹر نسیم اختر کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہی تھی اور یہ انٹرویو بہار کے مشہور اردو روزنامے ’سنگم‘ میں شائع ہوا تھا۔ بعد میں نسیم اختر نے اس انٹرویو کو اپنی کتاب ’باتیں‘ میں شائع کیا۔ اس کتاب کے صفحہ 61 اور 62 پر خدا بخش لائبریری سے متعلق رضا علی عابدی کے خیالات درج ہیں۔ قابل ذکر یہ بھی ہے کہ ان کی خوش انتظامی کا اعتراف ان کا بڑے سے بڑا مخالف اس دور میں بھی بڑی خندہ جبینی سے کرتا تھا اور آج بھی کرتا ہے ۔

عابد رضا  بیدار کی شخصیت کا دوسرا روشن پہلو ان کی علم دوستی اور ادب پروری ہے۔ وہ دانشوروں اور صاحب علم حضرات کے بڑے قدردان تھے۔ پروفیسر حسن عسکری، علامہ واقف عظیم آبادی، تقی رحیم ، عطا اللہ پالوی، احمد یوسف، شاہ اسماعیل روح، کامریڈ حبیب الرحمن وغیرہ جیسی شخصیتوں کی انھوں نے بڑی حکمت عملی کے ساتھ معاونت اور خدمت کی۔ ان کی بے پایاں علمیت، ذکاوت اور صلاحیت کے پیش نظر ان کی ناز برداری بھی کی۔ ان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی سبیل نکالی۔ یہ سب کے سب علم و آگہی کے درجہ کمال کو پہنچنے ہوئے باکمال اصحاب تھے۔ ان میں سے کچھ مالی اعتبار سے کمزور اور لا ئق نگہداشت بھی تھے۔ بیدار صاحب نے ان سب کی علمیت اور صلاحیت کا پورا پورا فیض لائبریری کو پہنچایا اور ان کو بھی۔ اس طرح ان کا یہ فیض دو جہتی تھا۔ اس کو ان کی بہترین حکمت عملی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

محمد حسن عسکری سے انھوں نے نہ جانے کتنے فارسی مخطوطوں کے راز ہائے سربستہ کھلوائے۔ تقی رحیم سے ’ہندوستان کی آزادی میں بہار کے مسلمانو ں کا حصہ ‘جیسی گرا ں قدر ضخیم تاریخی کتاب لکھوالی اور اس کو شائع بھی کیا۔ علامہ واقف سے انھوں نے ایسی تاریخ لکھوائی جو بڑی مفصل اور بیش بہا ہے۔ ڈاکٹر نسیم اختر نے بتایا کہ انھوں نے 12 جلدوں پر مشتمل ’نگار شات واقف‘ کے نام سے اس کتاب کا مسودہ دیکھا ہے۔یہ کتاب شہر آرہ کی تاریخ سے شروع ہوتی ہے ،پھر ریاست بہار کی تاریخ ہے ، اس کے بعد ہندستان کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے بعدہٗ اس کا دائرہ وسیع کر کے پورے عالم میں پھیلا دیا گیا ہے۔( اس کو لوگ عام طور سے بہار کے شہر آرہ کی تاریخ سمجھتے ہیں)۔ یہ طویل ترین مفصل تاریخ ابھی مسودے کی شکل میں خدا بخش لائبریری میں محفوظ ہے۔ دیکھیے تاریخ کا یہ قیمتی سرمایہ علم، کب پکی روشنائی میں منتقل ہوتا ہے۔ مشہور فکشن نگار احمد یوسف سے انھوں نے ’ بہار اردو لغت‘ کی تدوین کا نادر کام لے لیا۔جناب شاہ اسماعیل روح کی خدمات حاصل کرکے ان کی صلاحیت، ذکاوت اور ذہانت سے لائبریری کو مسلسل فیضیاب کرتے رہے۔ عطا اللہ پالوی نے بھی کئی اعلی علمی اور تحقیقی کتابیں تصنیف کیں۔ یہ سب عابد رضا بیدار کی غیر معمولی ذہانت اور اختراعی شخصیت کا کمال تھا، جس کی کوئی ہمسری نہیں کر سکا۔

عابد رضا  بیدار اس لیے بھی قابل ذکر ہیں کہ ان کے دور میں جو سیمینار اور اجلاس ہوئے وہ تاریخی اور یادگار ہونے کے ساتھ بڑے علم خیز اور فکر انگیز ہوتے تھے۔ ان سے فکر و نظر اور علم و ادب کی جو شعاعیں پھوٹیں، انھوں نے ہمیں کئی جہتوں سے منور کیا۔ سمینار کے عنوانات بھی خوب ہوتے تھے اور ان کے شرکا بھی صلاحیت اور قابلیت میں اپنی مثال آپ ہوا کرتے تھے۔ ’اردو ریسرچ کانگریس‘ کے نام سے ان کے چار پروگرام بے حد یادگار اور تاریخی رہے۔ یہ پروگرام غالبا ًسہ روزہ ہوا کرتا  تھا۔ معیار تحقیق کے عنوان سے ’اردو ریسرچ کانگریس‘ اپنی نوعیت کا یہ بڑا منفرد اور کامیاب پروگرام رہا۔ پورے ملک کے دانشوران اردو اس میں یکجا ہوئے اور غیر معمولی نوعیت کے مقالے پڑھے گئے۔ ان تمام مقالوں کو جمع کر کے خدا بخش جرنل میں شائع کیا گیا۔ ’اردو میں دانشوری ‘ کے عنوان سے منعقدہ ریسرچ کانگریس بھی مثالی رہا۔ اس میں پڑھے گئے مقالے ’ اردو مسئلہ‘ کے نام سے ایک کتاب میں شائع کیے گئے۔

عابد رضا بیدار کے سمینار اور اجلاس کا معیار کیا ہوتا تھا اور اس میں کیسے کیسے علم و ادب کے لعل و گہر شریک ہوا کرتے تھے اس کا اندازہ آپ اس فہرست سے لگا سکتے ہیں ، جو 1989 عیسوی میں خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کے ’ اردو دانشوری ‘ سمینار کے لیے مرتب کی گئی تھی۔ چند شرکا کے نام ملاحظہ فرما ئیں:

قرۃ العین حیدر، ڈاکٹر مسعود حسین خاں، جمنا داس اختر، سید حامد، غلام سرور، گوپی چند نارنگ، شفیع مشہدی، مظہر امام، رشید حسن خاں، خلیق انجم، پروفیسر محمد محسن، نواب رحمت اللہ خاں شیروانی، تقی رحیم، کامریڈ حبیب الرحمن، انیس رفیع اور ان جیسے ایک درجن مزید اہم حضرات۔

اب آپ اندازہ لگا لیجیے کہ ان کے ذریعے منعقدہ سمینار کس نوعیت اور کس معیار کے حامل ہوتے ہوں گے۔ اس کا آپ کو مزید اندازہ لگانا ہو تو خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کے زیر اہتمام اردو دانشوری سمینار کے مقالوں پر مشتمل  شائع شدہ کتاب ’اردو مسئلہ: جڑوں کی آبیاری یا پتیوں پر چھڑکاؤ ‘ کا مطالعہ کر لیجیے۔ عابد رضا بیدار کی مرتب کردہ یہ کتاب اردو کے مسئلے پر اتنی وقیع، علمی،  دانشورانہ ، معلوماتی اور فکر انگیز ہے کہ اس کا جتنی بار مطالعہ کیا جائے ہمیشہ نئی لگتی ہے اور نئی روشنی دیتی ہے۔ اس میں فکر ونظر کی ایک دنیا آباد ہے۔

میں جب اردو ڈائرکٹوریٹ کے ترجمان ’ بھاشا سنگم‘ کا نائب مدیر تھا، تو میں نے اس کتاب میں شائع شدہ عابد رضا بیدار کی پرسوز اور پرمغز تحریر ’ ماں کی ردا : جو دن ہوئے نیلام ہو چکی‘ شائع کی تھی ، نیز اس کتاب کے کئی اہم اقتباسات کو بھی زینت رسالہ کیا تھا۔ اردو کے مداحوں اور خیر خواہوں نے اگر یہ کتاب نہیں پڑھی ہے تو یہ ان کے مطالعوں کے ذخیرے کی  ایک بڑی کمی ہے۔ گویا عابد رضا بیدار نے سمینار، اجلاس اور علمی مذاکروں کے نام پر بھی اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔

عابد رضا بیدار کی شخصیت کا ایک قابل رشک اور درخشندہ پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ناداروں اور مجبوروں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ان کے اندر انسان دوستی بدرجہ اتم تھی۔ اس سلسلے میں کئی واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔ جس کی ایک زندہ مثال علامہ واقف عظیم آبادی ہیں۔ جو بہار کے مشہور شہر آرہ کے رئیس خانوادے سے تھے۔ بعد میں جب سب لٹ پٹ گیا تو عظیم آباد چلے آئے۔ دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ رہے تھے۔ دانشوری اور علم کا ایک بہتا چشمہ علامہ واقف عظیم آباد تھے۔ وہ قلندر صفت تھے، بھوکے رہ جاتے ، مگر کبھی دست سوال نہیں دراز کرتے۔  عابد رضا بیدار کی غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ لہٰذا انھوں نے ایک دن علامہ واقف عظیم آبادی کو لائبریری میں بلا کر بڑے احترام کے ساتھ کہا ’’ حضور! آپ کی یادداشت بہت قیمتی ہے ، انھیں قلم بند کیجیے اور روزانہ فی صفحے کے حساب سے مجھے نذرانہ پیش کرنے کی اجازت دیجیے ‘‘۔ واقف تیار ہو گئے۔ روزانہ جتنے صفحے لکھتے عابد رضا بیدار شام میں حساب کر کے رقم ان کے حوالے کر دیتے ۔ دفتری اوقات میں ان کے خورد ونوش کا بھی انتظام کرتے۔ حالانکہ واقف عظیم آبادی عالم جذب میں ایک صفحے پر چند سطور ہی لکھتے۔ اس طرح صفحات کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے۔ مگر عابد رضا بیدار نے کبھی اس کا نوٹس ہی نہیں لیا۔ان کا مقصد تو کچھ اور ہی تھا ۔ عابد رضا بیدار کی اس طرح کی نجیبانہ کفالت کے کئی مثالیں ہیں۔

عابد رضا  بیدار ایک درد مند انسان تھے۔ ان میں انسانی ہمدردی بھی خوب تھی۔ لائبریری کا کوئی اسٹاف اگر کئی دنوں تک بیمار رہتا اور عابد رضا بیدار کو اطلاع ملتی کہ وہ مالی تنگی کا شکار ہے تو بلا تامل خاموشی کے ساتھ کسی کو بھیج کر اس کی مالی اعانت فرما دیتے۔ اکثر خود ڈاکٹر کو لے کر وہاں پہنچ جاتے اور اس کے عیادت اور اعانت دونوں کرتے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ اگر لائبریری کے کسی عملے کے گھر میں کوئی مالی پریشانی ہے تو وہ اس کو چھٹی کے بعد روک لیتے ہیں اور اس سے دو گھنٹے زائد از وقت (Overtime) کام کراتے اور فورا ًہی ضرورت سے زیادہ اجرت ادا کر دیتے۔ یہ تھی ان کی درد مندی اور انسان دوستی اور انداز ایسا حکیمانہ کہ کسی کی غیرت کو ٹھیس بھی نہ لگے۔

محنت کش کا پسینہ خشک ہونے سے قبل وہ اس کی اجرت دینے کے قائل تھے۔ اس لیے وہ تنخواہ بہ تاکید وقت پر ادا کرتے تھے۔ کسی سے اگر فاضل اوقات میں کام لیا تو اس کی اجرت بھی بہ عجلت ادا کرتے۔ لائبریری کے ایک سابق اسسٹنٹ انور علی وارثی نے بتایا کہ ایک بار عابد رضا بیدار مہینے کے آخری دن دلی کے لیے روانہ ہو گئے اور تنخواہ کے چیک پر دستخط کرنا بھول گئے، جس میں وارثی صاحب کا چیک بھی تھا۔ جب عابد رضا بیدار کی گاڑی پٹنہ مارکٹ کے پاس پہنچی تو انھیں یاد آگیا۔ انھوں نے ڈرائیور کو گاڑی موڑنے کے لیے کہا۔پھر وہ لائبریری پہنچے اور تمام چیک پر دستخط کیے۔ اس کے بعد ہی وہ اسٹیشن کے لیے روانہ ہوئے۔ حالانکہ انھیں دو دن بعد ہی واپس ہونا تھا۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے کہ مہینے کی آخری تاریخ کو وہ مگدھ ایکسپریس سے دلی سے لوٹ رہے تھے۔گاڑی بہت لیٹ ہو چکی تھی۔ جمعہ کا دن تھا۔ دوسرے دن سنیچر اور پھر اتوار تھا۔ بینک کے بند ہونے کا وقت ہورہا تھا۔ انھوں نے گاڑی کے پٹنہ پہنچنے سے کچھ قبل ہی اسٹیٹ بینک آف انڈیا، جو ہٹہ برانچ کے منیجر کو فون کیا کہ آپ آج بینک دیر سے بند کریں گے، مجھے کچھ ارجنٹ چیک جمع کرانا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے لائبریری کے ایک اسٹاف کو کچھ ہدایت دی اور سیدھے بینک پہنچ گئے، اور ملازمین کی تنخواہ کی رقم جمع کرائی۔ اس قدر اصول پسند تھے ہمارے عابد رضا بیدارجن کی مثال ملنی دشوار ہے ۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عابد رضا بیدار کی سخت اصول پسندی اور سخت گیری کے سبب لائبریری میں ان کے مخالفین کی بھی ایک خاصی تعداد تھی۔ اس کے علاوہ کچھ اہالیان شہر اور اصحاب اردو بھی ان سے ناراض رہا کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کے خلاف کئی بار تاریخی مورچہ بندی بھی ہوئی۔ بڑے سے بڑا مخالفت کا طوفان بھی آیا ، مگر عابد رضا بیدار پہاڑ کی طرح جمے رہے۔ کبھی نا تو ڈرے اور نہ پیچھے ہٹے، مورچے پر اڑے اور جم کے لڑے۔ بالآخر مخالفین کو خاموش ہونا پڑا۔ ان کی شخصیت کا یہ پہلو بھی ان کو غیر معمولی بناتا ہے۔

عابد رضا بیدار کی شخصیت کے آمیزے میں خوش انتظامی، علم پروری، اصول پسندی اور انسان دوستی بدرجہ اتم شامل رہی اور ان اوصاف نے مجتمع ہوکر انھیں ایک در نایاب بنا دیا۔

28؍ مارچ 2025 کو 10 بجے صبح میں اس مثالی شخصیت کا رام پور(  اتر پردیش ) میں انتقال ہو گیا اور اسی روز رات میں انھیں رام پور کے ہی قبرستان میں دفن کردیا گیا ، لیکن وہ ہمارے دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑ گئے، جو ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔

 

Aslam Jawedan

Darul Gheyas

Near Hotel Blue Diamond

Jamunagali, Sabzi Bagh

Patna- 800004 (Bihar)

jawedanaslam@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

عابد رضا بیدار: ایک مثالی شخصیت، مضمون نگار: اسلم جاوداں

  اردو دنیا، مئی 2025 مشہور دانشور شخصیت ڈاکٹر عابد رضا بیدار اگرچہ عظیم آباد کے نہیں تھے، مگر وہ اتنے طویل عرصے تک اپنی شخصیت کی پوری ہم...