22 مارچ 2025 کی صبح، جب سورج اپنی نرم کرنوں کے ساتھ
آسمان کی گہرائیوں میں روشنی بکھیر رہا تھا۔اچانک فیس بک پر ایک پوسٹ نظر آئی،
جو میرے اندر کی گہرائیوں تک ہلچل پیدا کر گئی، جیسے کسی نے میرے دل کو چھو کر ایک
زوردار جھٹکا دیا ہو۔ وہ پوسٹ، جس کا ایک جملہ میری آنکھوں کے سامنے آیا، میں نے
اسے بار بار پڑھا اور پھر میری نظریں اس ایک جملے پر جاکر ٹھہر گئیں ’’شعبۂ اردو
کی سابق صدر اور دہلی یونیورسٹی کی سابق ڈین، پروفیسر نجمہ رحمانی اس دنیا سے رخصت
ہو گئیں۔‘‘یہ الفاظ، جیسے کسی نے میری روح کو چاک کر دیا ہو، دماغ میں ایک شدید
سناٹا چھا گیا۔ اچانک میرے ارد گرد کی دنیا ماند پڑ گئی اور میرے اندر کی آوازبھی
مدھم ہو گئی۔ وقت کا گزرنا جیسے رک سا گیا ہو اور دنیا کی تمام گردشیں ایک لمحے کے
لیے تھم سی گئی ہوں۔ ایک گہری آہ، جو بے بسی اور غم کے طوفان کی نمائندہ تھی، میرے
اندر سے گزر کر ایک کرب کی صورت میں جمع ہو گئی۔
میراایک بہت عزیز دوست جو اس وقت دوسرے کمرے میں تھا، وہ
فوراً میرے پاس آیا، جیسے اس کے قدموں میں کسی انجانے خوف کی سرسراہٹ ہو۔ گھبرا
کر اس نے پوچھا، ’’کیا ہوا؟ اتنی شدت سے مجھے کیوں پکارا؟‘‘ اس کی آنکھوں میں ایک
بے چینی کی لہر تھی، جیسے اسے ایک غیر متوقع آفت کا گمان ہو۔ میری نظریں اس پر
مرکوز ہو گئیں اور زبان جیسے مٹھی بھر کٹھن الفاظ کے درمیان پھنس گئی تھی۔ الفاظ
زبان سے ادا کرنا مشکل ہو رہا تھا اور میں جیسے ان الفاظ کو جوڑنے کی کوشش میں
ناکام ہو رہا تھا۔ بہرحال، کسی طرح سے میں نے اسے وہ خبر سنائی، جو نہ صرف دل کو
دہلا دینے والی تھی، بلکہ اتنی بھیانک اور غیر تصدیق شدہ تھی کہ مجھے خود یقین نہیں
آ رہا تھا۔ وہ چند لمحوں کے لیے خاموش رہا، جیسے جادو کی کوئی قوت اسے اپنی گرفت
میں لے چکی ہو،پھر اس نے کہا، ’’یہ جھوٹی خبر ہوگی! کسی سے تصدیق کرو!‘‘
میں نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے پروفیسر مظہر احمد کو فون کیا۔
فون کے اس طرف مکمل خاموشی تھی، جیسے فضا میں کوئی آواز نہ ہو، جیسے پوری دنیا میں
بس سناٹا پھیل چکا ہو۔ پھر، پروفیسر احمد کی آواز آئی، مگر وہ بھی کچھ ایسی لرزتی
ہوئی تھی کہ گویا وہ بھی اس حقیقت کو قبول کرنے میں مشکل محسوس کر رہے ہوں۔ ان کا
لرزتا ہوا لہجہ، میری آخری امید کے چراغ کو جیسے ایک دم سے ہوا کے زور سے بجھانے
کا سبب بن گیا۔’’ہاں، یہ خبر سچ ہے... نجمہ نہیں رہیں...‘‘ یہ الفاظ میرے دل پر ایسے
گرے جیسے کسی بھاری پتھر کا گرنا اور وہ پتھر میرے دل کی گہرائیوں میں ایک شاک
چھوڑ گیا۔ کمرے میں ایک عجیب سناٹا چھا گیا۔ میرا دوست، جو ابھی تک مجھے تسلی دے
رہا تھا، وہ بھی اپنے اندر کی گہری ویرانی کو محسوس کر رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں
نمی کا ایک سمندر تھا، جیسے وہ بھی اس تکلیف کا بوجھ اپنے اندر سنبھالنے کی کوشش
کر رہا ہو۔ وہ کچھ نہیں کہہ سکا، بس خاموش ہو کر میرے ساتھ اس غم کی گہرائی میں
ڈوب گیا۔ جہاں ہر آواز اور ہر روشنی ختم ہو چکی ہو۔
نجمہ رحمانی کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے ایک پردے کی طرح
گھومنے لگا، جیسے وہ ہر لمحہ میرے ساتھ تھی، جیسے اس کی مسکراہٹ، شفقت اور قہقہے کی
گونج اب بھی فضا میں رچی ہوئی ہو۔ اس کی علمی مجلسیں، اس کی نصیحتیں، اس کی پر اثر
تقریریں — یہ سب کچھ میری یادوں میں ابھرنے لگا تھا، لیکن اب وہ خود ان یادوں کا
حصہ بن چکی تھی۔ یادیں بعض اوقات بادلوں کی طرح ہوتی ہیں، جو بے خبری میں آ کر یکدم
ہم پر چھا جاتی ہیں اور ماضی کے دھیمے اور پر سکون منظر پر اپنی گہری چھاؤں ڈال دیتی
ہیں۔ وہ بادل جو اچانک گھیر کر، آسمان کو بھی سیاہ کر دیتے ہیں، اور پھر ان کی
گزرگاہ میں ایک سنسان خاموشی چھا جاتی ہے۔ جیسے ان بادلوں نے میرے اندر ایک طوفان
برپا کر دیا ہو اور ماضی کے دریا کی گہرائیوں سے نکل کر، ہزاروں یادیں، بے شمار
لمحے، ان گنت مسکراہٹیں اور باتیں، سب ایک ہی وقت میں آنکھوں کے پردے پر ایک فلم
کی طرح چلنے لگیں۔ وقت جیسے اپنی رفتار کو الٹ کر، سب کچھ فلیش بیک میں دکھا رہا
ہو اور وہ لمحے جیسے دوبارہ جیتے جاگتے سامنے آ گئے ہوں۔
دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں میرا داخلہ 1986 میں ہوا
تھا اور نجمہ رحمانی نے 1987 میں وہاں قدم رکھا تھا۔ میں یہ نہیں بتا سکتا کہ ہماری
پہلی ملاقات کس دن یا کس مہینے میں ہوئی تھی، مگر اتنا ضرور یاد ہے کہ جیسے ہی وہ
ہمارے شعبے میں آئی، سب کچھ بدل گیا۔ نجمہ کوئی معمولی طالبہ نہیں تھی۔اس کی
موجودگی جیسے ایک تازہ ہوا کا جھونکا تھی، جو آتی اور اپنی ہنسی کے ساتھ ماحول میں
خوشگوار تبدیلی لا دیتی۔ اس کی ہنسی میں ایک خاص مسرت تھی، جیسے درختوں پر بیٹھے
ہوئے پرندے جب آپس میں بات کرتے ہیں، یا جیسے بہتے جھرنے خوشی کے ساتھ اپنا راستہ
بناتے ہیں۔نجمہ کی بے فکری اور شوخی اس میں ایک قدرتی دلکشی پیدا کرتی تھی اور وہ
ہر لمحہ اس ماحول کو بہتر بنانے کی کوشش کرتی رہتی تھی۔ اس کی مسکراہٹیں اور باتیں
ہر کسی کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی تھیں اور اس کا ہر لفظ اپنے اندر ایک نئی دنیا کی
تخلیق کر رہا ہوتا تھا۔ وہ شعبہ اردو کے ہر کونے میں اپنی باتوں سے موجود رہتی اور اس کی ہنسی، اس کی باتیں، ہر دل میں ایک
خاص گونج چھوڑ جاتی تھیں۔نجمہ کی یہ قدرتی کشش، اس کی محنت اور اس کا دوستانہ رویہ
ہر کسی کو اپنی طرف کھینچتا تھا۔ وہ ہمیشہ دوسروں کے ساتھ اپنے خیالات بانٹنے میں
خوش رہتی اور ہر ایک سے دل کی باتیں کرتی، جیسے وہ چاہتی ہو کہ ہر شخص اس کے ساتھ
خوش رہے اور ایک دوسرے کا ساتھ دے۔ اس کی باتوں میں ایک خاص محبت اور خلوص تھا، جو
اس کے کردار کا حصہ بن چکا تھا۔اب، جب وہ نہیں رہی، تو اس کی یادیں، اس کی مسکراہٹ،
وہ سب اب بس یادوں میں ہے، جو کبھی بھی دم توڑنے والی نہیں ہیں، بلکہ ہمیشہ ایک
نرم اور پیاری یاد کے طور پر دل میں باقی رہیں گی۔
نجمہ رحمانی کی یادیں میرے ذہن میں ایک کھلی کتاب کی طرح پھیلی
ہوئی ہیں، جس کے ہر صفحے پر ایک الگ کہانی اور ایک منفرد لمحہ چھپا ہوا ہے۔ مگر اب
اس کتاب کا ایک بہت اہم باب بند ہو چکا ہے اور اس باب کا اختتام، گویا کسی کہانی
کے اختتام کا پیغام دے رہا ہو۔ نجمہ کی ہنسی، جو کبھی پورے ماحول کو خوشی سے بھر دیتی
تھی، اب خاموش ہو چکی ہے۔ جیسے کسی پھول کا کھلنا اور پھر خود بخود مٹ جانا، لیکن
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جسمانی طور پر تو ہمارے درمیان نہیں رہتے، لیکن ان کی یادیں،
ان کے الفاظ اور ان کی مسکراہٹیں ہمیشہ کے لیے ہمارے دلوں میں زندہ رہتی ہیں۔ نجمہ
بھی ان لوگوں میں سے ایک تھی، جس کی موجودگی کا اثر ہمیشہ باقی رہے گا۔
دہلی یونیورسٹی کی راہداریوں میں، ایم اے، ایم فل، اور پی ایچ
ڈی کے دوران ہم نے اپنے تعلیمی سفر کو ایک ساتھ طے کیا۔ وہی کلاس رومز، وہی پروفیسرز،
اور وہی تحقیقی دن جب ہم اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش کر رہے تھے۔
شعبۂ اردو کے ریسرچ فلور پر ہم سب گھنٹوں بیٹھ کر اپنے کام میں مگن رہتے، کبھی کسی
تھیسس میں غرق، کبھی مقالے کی تیاری میں مشغول اور کبھی کتابوں کے ڈھیر میں کھوئے
ہوئے۔ نجمہ کے ساتھ یہ پورا سفر ایک یادگار تجربہ تھا، جیسے ہم صرف علمی دنیا میں
ہی نہیں، بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں ایک دوسرے کے ساتھ چل رہے ہوں۔لنچ کے دوران ہم
سب مل کر کھاتے، چائے کے وقفے میں ہنسی مذاق کرتے اور پھر دوبارہ اپنے کام میں لگ
جاتے۔ ان لمحات کی خوشبو اور رنگینی ہمیشہ دل کے قریب رہی ہیں، لیکن یہ تعلق ہمیشہ
ہموار نہیں تھا۔ کبھی باتوں میں اختلاف آجاتا، کبھی کوئی غلط فہمی ہمیں چند دنوں
کے لیے دور کر دیتی، کبھی مزاج کی سختی یا نرمی ہمارے بیچ آ جاتی۔ اور اس میں صرف
نجمہ ہی نہیں، بلکہ مظہر احمد، سراج اجملی، رضی الرحمن اور کچھ اور دوست بھی ہوتے
تھے جو ہمارے گروپ کا حصہ تھے۔ یہ سب مختلف مزاج رکھتے تھے اور کبھی نہ کبھی آپس
میں لڑتے یا جھگڑتے رہتے تھے۔ کبھی کوئی چھوٹی سی بات بڑی تکرار کا سبب بن جاتی،
کبھی مذاق میں کہا گیا کوئی جملہ تلخی کی شکل اختیار کر لیتا۔ ان تمام اختلافات کے
باوجود، ہم سب کا تعلق کبھی بھی ٹوٹا نہیں تھا۔ ہم لڑتے تھے، لیکن پھر جلد ہی وہ
اختلافات ماضی کا حصہ بن جاتے اور ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے اور بات کرنے
کے لیے دوبارہ تیار ہو جاتے۔یہ سلسلہ برسوں تک یونہی جاری رہا— کبھی گپ شپ اور
مذاق سے بھرا، کبھی تلخ باتوں اور اختلافات کی صورت میں، لیکن آخرکار، کسی نہ کسی
طریقے سے ہم سب کا رشتہ برقرار رہتا۔ ان لڑائیوں اور اختلافات کے باوجود، وقت
گزرنے کے ساتھ، ہم اپنے مسائل کو حل کر لیتے اور دوبارہ ایک دوسرے سے بات کرتے
ہوئے زندگی کے روزمرہ معمولات میں واپس آ جاتے۔ ہر بار یہی ہوتا کہ اختلافات کے
بعد، جب ہم سب ایک ساتھ ہوتے، تو وہ پرانی باتیں اور جھگڑے ماضی کی گزر چکی چیزیں بن
جاتے اور ہم سب دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ خوشی سے وقت گزارتے اور آج جب ان دنوں کی
یادیں واپس آتی ہیں، تو وہ لمحے دوبارہ دل میں زندہ ہو جاتے ہیں۔ کبھی وہ قہقہے،
کبھی وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہونے والی بحثیں، کبھی وہ بظاہر معمولی لڑائیاں اور
پھر ان کے بعد دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ ملنا — یہ سب یادیں ہمارے ذہن و دل میں ہمیشہ
تازہ رہیں گی اور ان میں شامل تمام دوستوں کی موجودگی، ان کے قہقہوں، ان کی باتوں،
ان کی لڑائیوں اور پھر دوبارہ دوستی کے لمحوں کی یادیں ہمیشہ میرے ذہن میں ایک
روشن تصویر کی طرح چمکیں گی۔
1994 کا سال میرے لیے ایک نیا موڑ لے کر آیا۔ میرا
تقرر ستیہ وتی کالج، دہلی یونیورسٹی میں لیکچرر
کی حیثیت سے ہوگیا اور یوں میں اپنی تدریسی مصروفیات میں اس قدر منہمک ہوگیا کہ
شعبۂ اردو کے ریسرچ فلور پر جانا کم ہوگیا۔
دوستوں کے ساتھ دن رات کی محفلیں، علمی گفتگواور وہ بے فکری کے لمحات— سب رفتہ
رفتہ ماضی کا حصہ بنتے گئے۔ زندگی ایک نئے رخ پر چل نکلی، جہاں طالب علموں کو
پڑھانا ہی میرا سب سے بڑا مشن بن گیا۔ادھر نجمہ رحمانی کے علمی سفر میں بھی ایک نیا
باب کھلا۔ کچھ سالوں بعد اس کا تقرر6جولائی
2000 میں نیشنل ڈیفینس اکیڈمی،پونے میں ہوگیا، جہاں وہ فوجی افسران کو اردو زبان و
ادب پڑھاتی تھی۔ وہ اپنے انداز کی منفرد اور بے حد متحرک شخصیت تھی، جہاں جاتی،
اپنی چھاپ چھوڑ جاتی۔ پونے میں بھی وہ خوش تھی، مگر شاید کسی تخلیقی پرندے کی طرح،
جو کھلے آسمان میں پرواز کرنا چاہتا ہے مگر محدود فضاؤں میں قید ہو جاتا ہے،
نجمہ کو لگتا تھا کہ اس کی صلاحیتوں کا مکمل استعمال وہاں نہیں ہو رہا۔ دو یا تین
سال بعد، جب قسمت نے دہلی یونیورسٹی کے دروازے اس کے لیے دوبارہ کھول دیے اور دہلی
یونیورسٹی میں 3فروری 2003 میں شعبہ
اردو میں تقرر ہوگیا، تو وہ بے حد خوش
ہوئی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ایک بار پھر اپنی حقیقی دنیا میں واپس
آگئی ہو، جہاں اس کے علم، اس کے تخلیقی جوہر اور اس کی تدریسی صلاحیتوں کو پہچان
مل رہی تھی۔ دہلی یونیورسٹی اس کے لیے محض ایک تدریسی ادارہ نہیں تھا، بلکہ ایک ایسا
میدان تھا جہاں وہ اپنی مکمل توانائی، اپنی ذہانت اور اپنی تحقیقی لگن کے ساتھ جی
سکتی تھی، سیکھ سکتی تھی اور سکھا سکتی تھی۔نجمہ رحمانی کی یہ واپسی نہ صرف اس کی
ذات کے لیے خوش آئند تھی، بلکہ دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے لیے بھی ایک قیمتی
اثاثہ ثابت ہوئی۔ وہ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں، منفرد تدریسی انداز اور گہری علمی
بصیرت کے ساتھ اس شعبے میں ایک مضبوط اور روشن مقام بنانے میں کامیاب رہی۔
پروفیسر نجمہ رحمانی کا علمی و تدریسی سفر اس کی محنت، لگن
اور علمی بصیرت کی روشن مثال ہے۔ اس کی شخصیت صرف ایک استاد تک محدود نہیں تھی،
بلکہ وہ ایک ماہرِ تحقیق، منتظم اور ادبی دنیا میں اپنی انفرادیت قائم رکھنے والی
دانشور بھی تھی۔نجمہ کا تدریسی سفر دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں شروع ہوا،
جہاں اس نے پوسٹ گریجویٹ سطح پر کلاسیکی و جدید شاعری، عروض اور اردو تنقید پڑھانے
کا بیڑہ اٹھایا۔ شاعری میں اس کی خصوصی دلچسپی تھی اور اسی محبت نے اسے اردو شاعری
میں علامتی رجحانات پر تحقیق کی طرف مائل کیا۔اس کا ایم فل کا مقالہ آزادی کے بعد
جدید اردو شاعری کے رجحانات پر تھا، جب کہ اس کی پی ایچ ڈی کی تحقیق خواتین کی
شاعری، خاص طور پر برصغیر میں نسوانیت کے رجحانات پر مرکوز رہی۔ اس نے ہندوستان اور پاکستان کی شاعرات کا گہرا
مطالعہ کیا اور دونوں ممالک میں نسوانی
شاعری کے فرق اور ارتقا پر تحقیق کی۔ اس کا ماننا تھا کہ پاکستان میں شاعرات نے
اپنی شاعری کو حقوقِ نسواں کی تحریک کا ہتھیار بنایا، جب کہ ہندوستان میں یہ رجحان
اتنا واضح نہیں تھا۔ فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید جیسی شاعرات کی تخلیقات کا گہرا
تجزیہ کرتے ہوئے اس نے ان کی شاعری میں سماجی احتجاج کے عناصر کو اجاگر کیا۔ نجمہ
نے اردو شاعری اور فکشن کے حوالے سے بہت اچھا اور معیاری تحقیقی کام کیا ہے۔ آزادی
کے بعد ہندوستان کی جدید شاعرات پر اس کی کتاب ایک وقیع علمی کاوش ہے اور وہ
ہندوستان و پاکستان کی نسوانی شاعری پر ایک تقابلی مطالعہ بھی شائع کرنے کا ارادہ
رکھتی تھی۔اس کا خیال تھا کہ اردو افسانہ جدید دور میں دیگر زبانوں کے مقابلے میں
قدرے پیچھے رہ گیا ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ عالمی معیاری افسانوں کے اردو تراجم کی
کمی ہے۔ وہ اردو میں ترجمہ کے رجحان کو فروغ دینا چاہتی تھی تاکہ اردو کے تخلیقی
افسانہ نگار جدید عالمی ادب سے روشنی حاصل کر سکیں۔
نجمہ نہ صرف ادبیات کی ایک شناور تھی بلکہ ایک کامیاب منتظم
بھی تھی۔ اس نے نیشنل ڈیفنس اکیڈمی، پونے میں مختلف انتظامی ذمے داریاں نبھائی،
جہاں وہ کیڈٹس کی اہم نصابی سرگرمیوں کی انچارج، ڈسپلن کمیٹی کی ممبر اور گولف
اسکواڈرن کیڈٹ کونسلر کے طور پر خدمات انجام دیتی رہی۔دہلی یونیورسٹی میں بھی وہ
کئی اہم کمیٹیوں کا حصہ رہی۔ وہ پوسٹ گریجویٹ کورسز، آنرز کورسز، ایم فل اور فیکلٹی
آف آرٹس کی رکن رہی اور مختلف نصابی اور غیر نصابی منصوبوں میں فعال کردار ادا
کرتی رہی۔مختصر یہ کہ پروفیسر نجمہ رحمانی کا علمی سفر محض ایک استاد کا سفر نہیں
تھا، بلکہ یہ اردو زبان و ادب کے فروغ، تحقیق اور تدریسی نظام میں بہتری کے لیے ایک
سنجیدہ کوشش تھی۔ ان کی زندگی ہم سب کے لیے ایک مثال ہے کہ ایک استاد کا کردار محض
کلاس روم تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنے علم و بصیرت سے ایک پورے تعلیمی ماحول کو
تشکیل دیتا ہے۔
پونے میں قیام کے دوران بھی نجمہ سے میرا رابطہ برقرار رہا۔
وہ اکثر اپنے تجربات، اپنی تدریسی ذمے داریوں اور وہاں کے ماحول کے بارے میں مجھے
بتایا کرتی تھی۔ اس کی گفتگو میں ہمیشہ ایک خاص جوش اور سچائی ہوتی تھی۔وہ اپنے
حالات کی سچائیوں سے بھی پردہ نہیں اٹھاتی تھی اور نہ ہی کسی خوش فہمی میں مبتلا
تھی۔ وہ جانتی تھی کہ ہر جگہ اپنی مشکلات ہوتی ہیں، مگر ان سے نمٹنے کا حوصلہ
رکھنے والے لوگ ہی اصل فاتح ہوتے ہیں۔دہلی واپسی کے بعد، ہماری ملاقاتیں پہلے جیسی
تو نہیں رہیں، لیکن ٹیلی فون پر باتوں کا سلسلہ چلتا رہا۔
نجمہ کا دل تعلیمی اداروں میں ہونے والی بدامنی سے بے حد
دکھی ہوتا تھا۔ جب بھی دہلی یونیورسٹی میں کوئی ناانصافی یا بدنظمی دیکھتی، وہ
مجھے فون کرکے تفصیل سے بتاتی۔ اس کے لہجے میں درد ہوتا، مگر ساتھ ہی ایک عزم بھی
جھلکتا کہ وہ اس سب کے خلاف آواز بلند کرے گی۔ دراصل، نجمہ ایک بے حد ایماندار
اور اصول پسند استاد تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ تعلیمی ادارے، سیاست اور بدنظمی کے چنگل
سے آزاد ہوں، مگر یہ جنگ آسان نہ تھی۔دہلی یونیورسٹی کی سیاست میں وہ نہ صرف
سرگرم تھی بلکہ اکثر ایک اکیلی جنگجو بھی تھی۔ وہ ہر غلط چیز کے خلاف بولتی، ہر
ناانصافی پر سوال اٹھاتی، چاہے اس کے نتائج کچھ بھی ہوں۔ شاید یہی اس کی سب سے بڑی
خوبی تھی— وہ نہ کبھی ڈری، نہ کبھی جھکی اور نہ کبھی خاموش ہوئی۔تمام نشیب و فراز
کے باوجود، نجمہ رحمانی نے اپنی لگن اور غیر معمولی صلاحیتوں کے بل پر کامیابی کی
وہ منزلیں طے کیں، جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہیں۔ساڑھے تین سال قبل، وہ نہ صرف شعبۂ اردو کی صدر بنی
بلکہ فیکلٹی آف آرٹس کی ڈین کے منصب پر بھی فائز ہوئی۔ یہ اس کی محنت، قابلیت کا
منہ بولتا ثبوت تھا۔ وہ جانتی تھی کہ یہ راستہ آسان نہیں، مگر وہ ہمیشہ چیلنجز سے
نبرد آزما ہونے کا حوصلہ رکھتی تھی۔27ستمبر 2018
سے 27ستمبر 2023 کے درمیان، میں قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان وزارت
تعلیم، حکومت ہند میں ڈیپوٹیشن پر ڈائریکٹر کی حیثیت سے فائز تھا۔ دورانِ عہدہ، میں
نے کئی بار اسے کونسل میں مدعو کیا، جہاں ہم مختلف علمی و ادبی موضوعات پر تبادلہ
خیال کرتے۔ اس کے علاوہ بھی اکثر شعبۂ اردو اور ڈین کے دفتر میں ملاقاتوں کا
سلسلہ جاری رہا۔ وہ ہمیشہ گرمجوشی سے ملتی، گویا برسوں کی رفاقت کا ایک غیر محسوس
سا رشتہ تھا جو کسی بھی رسمی منصب سے بالاتر تھا۔
ایک دن، شعبہ اردو میں کلاسیکی غزل پر ایک لیکچر کا انعقاد
ہوا، جہاں علی گڑھ یونیورسٹی کے نامور اساتذہ، پروفیسر قاضی جمال اور پروفیسر قاضی
افضال مدعو تھے۔ قاضی افضال اس خصوصی لیکچر کے کلیدی مقرر تھے، جبکہ قاضی جمال
صدارت کر رہے تھے۔ اس خاص موقع پر، نجمہ نے مجھے بطور چیف گیسٹ مدعو کیا۔ جب میں
نے اسے کہا کہ میرے ہی شعبہ اردو میں مجھے مہمان خصوصی کی حیثیت سے بلانا شاید
مناسب نہیں ہوگا، تو نجمہ نے مسکرا کر کہا، ’’تم اس وقت قومی کونسل کے ڈائریکٹر بھی
ہو، اس لیے تمھیں بلانا بالکل درست ہے۔‘‘ اس کی بات میں ایک ایسا خلوص اور گہرائی
تھی کہ میں نے فوراً اس کی بات مان لی، کیونکہ یہ میرے لیے ایک بہت بڑا اعزاز
تھا۔جب میں نے اپنی تقریر مکمل کی، تو نجمہ نے نہ صرف میری باتوں کی دل سے تعریف کی
بلکہ بعد میں بھی کئی مرتبہ اس خطاب کا ذکر کیا۔ نجمہ کا انداز ہمیشہ ایسا ہوتاتھا
کہ وہ ہر فرد کی صلاحیتوں کا پورا اعتراف کرتی اور اس کی تعریف کرنے میں کبھی بھی
بخل سے کام نہیں لیتی۔ وہ کسی کی بھی صلاحیت
کو نظرانداز نہیں کرتی تھی اور ہمیشہ دوسروں کو اپنی پوری ہمت سے آگے بڑھانے کی
کوشش کرتی۔ اس کا خیال تھا کہ ہر انسان کی محنت اور قابلیت کو عزت ملنی چاہیے اور اس
کے دل میں کسی قسم کی بے انصافی یا کمزوری کے لیے جگہ نہیں تھی۔شاید یہی وجہ تھی
کہ نجمہ صرف ایک استاد یا افسر نہیں، بلکہ ایک تحریک بن گئی تھی، ایک ایسا نمونہ
جو ہر کسی کے دل میں اپنی ایک الگ چھاپ چھوڑ گیا۔ اس کا رویہ، اس کی جدوجہد اور اس
کی شخصیت، سب کچھ اس کی انسانیت کی گہرائیوں سے جڑا ہوا تھا۔ وہ صرف علم کی درس دینے
والی نہیں، بلکہ زندگی کو جینے کا ایک بہتر طریقہ سکھانے والی شخصیت بن چکی تھی۔
ایک سال قبل کی ایک شام، جب زندگی اپنے معمول کی راہ پر
گامزن تھی، اچانک ایک منحوس خبر نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا— ’’نجمہ کو کینسر ہوگیا
ہے۔‘‘ یہ الفاظ میرے کانوں میں زہر گھول گئے، جیسے کسی نے میرے دل پر برف کی سل
رکھ دی ہو۔ میں لرز گیا، ایک دم ساکت ہوگیا، جیسے وقت تھم گیا ہو، جیسے کسی نے میری
ہنستی مسکراتی یادوں کے دریچے پر زنگ آلود تالے ڈال دیے ہوں۔میرے ہاتھ میں موبائل
تھا، لیکن میری ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ میں نجمہ کو فون کرکے اس خبر کی تصدیق
کروں۔ کیسے پوچھتا؟ کیا کہتا؟ کیا میری زبان یہ کہنے کی طاقت رکھتی تھی کہ ’’نجمہ،
سنا ہے تم بیمار ہو؟‘‘ یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ میرا دل ماننے کو تیار نہیں تھا اور میرے
دل کے کسی گوشے سے یہ آواز آرہی تھی کہ یہ خبر جھوٹی ہے، افواہ ہے۔ مگر جب میں
نے پروفیسر مظہر احمد کو کال کی، تو انھوں نے تصدیق کر دی—’’ہاں، نجمہ کو کینسر ہوگیا
ہے، اس کا علاج چل رہا ہے لیکن نہ تم اس
کو کال کرنا اور نہ ہی اس کے گھر جانا۔‘‘
یہ سنتے ہی میری آنکھوں کے سامنے وہ ہنستی، کھلکھلاتی نجمہ آ گئی، جو ہمیشہ زندگی
سے بھرپور نظر آتی تھی۔ وہ نجمہ، جو کبھی مایوس نہیں ہوتی تھی، جو ہر حال میں
مسکراتی تھی، جو لڑتی تھی، ڈٹ کر کھڑی رہتی تھی۔ اور آج وہی نجمہ ایک مہلک بیماری
سے جنگ لڑ رہی تھی۔چونکہ مظہر احمد نے مجھے منع کیا کہ میں اسے کال نہ کروں۔ انھوں
نے کہا، ’’وہ کسی کا فون نہیں اٹھاتی، نہ کسی سے ملنا چاہتی ہے۔‘‘ ہم دونوں نے فیصلہ
کیا کہ ایک دن ساتھ چل کر اس سے ملیں گے۔ لیکن وہ دن کبھی نہ آ سکا۔ زندگی کی
مصروفیات، وقت کی بے رحم گردش اور ہماری اپنی کوتاہیاں— سب نے ہمیں اس ملاقات سے
محروم کر دیا۔کبھی خبر ملتی کہ نجمہ ٹھیک ہو رہی ہے، شعبہ اردو میں آنا جانا شروع
کر دیا ہے۔ کبھی سننے کو ملتا کہ وہ اپنے گھر پر رہ رہی ہے اور ساری سرکاری فائلیں
گھر بھیج دی جاتی ہیں تاکہ وہ صدر شعبہ کی ذمہ داری نبھا سکے۔ میں نے سوچا، شاید
اب وہ ٹھیک ہے، شاید اب وہ بہتر محسوس کر رہی ہے۔ لیکن حقیقت وہ نہ تھی جو میں دیکھنا
چاہتا تھا۔پھر، دس پندرہ دن پہلے، میرے ایک عزیز دوست، پروفیسر ششی شیکھر سنگھ نے
بتایا کہ نجمہ کی طبیعت پھر بہت بگڑ گئی ہے۔ میرا دل دھڑک اٹھا، میں نے فوراً اسے
کئی بار کال کیا، مگر کوئی جواب نہیں آیا۔ ہر بارا سکرین پر اس کا نام ابھرتا اور
اگلے ہی لمحے وہ خاموشی میں تحلیل ہوجاتا۔ جیسے میری التجائیں کسی صحرائی ہوا میں
بکھر رہی ہوں، پریشانی کے عالم میں، میں شعبہ اردو پہنچا۔ وہاں پروفیسر ابوبکر
عباد سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا، ’’وہ آج کل شعبے نہیں آ رہی، آپ ان کے گھر
جا کر مل لیجیے۔‘‘ میں امید کی کرن لیے اس کے گھر پہنچا، مگر وہاں دروازہ بند
ملا۔دل بے چین ہوگیا، جیسے کسی طوفان کے آنے کی آہٹ سنائی دے رہی ہو۔ پھر میں نے
دوبارہ مظہر احمد کو فون کیا۔ اس بار ان کی آواز میں بھی وہی بے بسی تھی جو میرے
دل میں تھی۔ انھوں نے کہا، ’’نجمہ ہسپتال میں ہے۔‘‘ میں نے التجا کی، ’’ہم دونوں ایک ساتھ چل کر اس
سے ملتے ہیں۔‘‘ مظہر نے کہا، ’’ہسپتال سے لوٹنے دو، پھر چلیں گے۔‘‘
جمعہ کا دن تھا، جب وہ ہسپتال سے واپس تو آئی، لیکن اس کی
حالت میں ایک ایسی خاموشی چھائی ہوئی تھی، جیسے کسی طوفان کی گہری خاموشی ہو۔ وہ
ابھی ہمارے درمیان تھی، مگر زندگی اور موت کے بیچ ایک بہت ہی باریک سی لکیریں بن
چکی تھیں، جنھیں پار کرنے کا فیصلہ کسی بھی انسان کے بس میں نہیں ہوتا۔ جیسے کوئی
دریا کی گہری لہریں کسی کشتی کو اپنی گہرائیوں میں دبوچ لیتی ہیں، ویسے ہی موت کی یہ
لکیریں اسے اپنے ساتھ لے جا رہی تھیں۔ وہ شب بھر زندگی کو تھامے ہوئے تھی، جیسے
کوئی آسمان سے گرا ستارہ دوبارہ چمکنے کی کوشش کر رہا ہو، مگر موت نے اس کی
آنکھوں سے ہمیشہ کے لیے یہ خواب چھین لیا۔ اور میں… میں اس کی آخری جھلک بھی دیکھنے
سے محروم رہا۔ اس کے چہرے پر جو مسکراہٹ تھی، وہ اب صرف میری یادوں کا حصہ بن گئی۔
پھر، جیسے فیس بک پر ایک ماتمی جلوس نکل آیا۔ ہر طرف اس کے
انتقال کی خبریں آ رہی تھیں، جیسے کوئی گہرا سناٹا چاروں طرف پھیل رہا ہو۔ ہر ایک
نے اپنی پوسٹ میں افسوس بھری تحریریں لکھیں، دل کی گہرائیوں سے تعزیت پیش کی اور جیسے
اس کے جانے کا نوحہ شروع ہو گیا ہو۔ لوگ اس کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کر
رہے تھے، مگر میں… میں کچھ نہیں لکھ سکا۔ کیسے لکھتا؟ کیسے مان لیتا کہ نجمہ اب
ہمارے درمیان نہیں رہی؟ وہ نجمہ، جو ہمیشہ مسکراتی، زندگی کی خوشبو کو ہر لمحے میں
سموئے ہوئے تھی، اب بس ماضی کا حصہ بن چکی تھی۔ اس کی مسکراہٹ، اس کی ہنسی، اس کا
چہرہ جو زندگی کی تیز دھار پر چل رہا تھا، اب ان سب باتوں کا وجود صرف یادوں میں
تھا۔نہیں، میں نے کچھ نہیں لکھا۔ کیونکہ کچھ بھی لکھنا اس حقیقت کو بدل نہیں سکتا
تھا، جسے میرا دل ابھی تک قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ نجمہ رحمانی، تمھاری مسکراہٹ،
تمھاری باتیں، تمھاری بے باکی، تمھاری سچائی اور تمھاری بہادری ہمیشہ ہمارے دلوں میں
زندہ رہیں گی۔ تمھارے جانے کے باوجود تم ہمیشہ ہماری یادوں میں مسکراتی رہو گی اور
ہم ہمیشہ تمھیں اپنے دلوں میں زندہ رکھیں گے، جیسے ایک کہانی جو کبھی ختم نہیں ہوتی،
جیسے ایک چمکتا ہوا ستارہ جو رات کی تاریکی میں ہمیں اپنا نور دیتا رہتا ہے۔
Prof. Shaikh Aquil Ahmad(Ex. Director, NCPUL, Ministry of Eduction,Govt of India)# Cottage 42, Shipra Sun City, IndirapuramGhaziabad- 201014 (UP)Mob.: 9911796552aquilahmad2@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں