اردو دنیا،مئی 2025
انسان کی تہذیبی تاریخ کا جب ہم قدامت کے نقطۂ نظر سے جائزہ لیتے ہیں تو سب سے قدیم تاریخ ڈاکٹر ہنری اسمتھ ولیم کی دریافت کے مطابق میسو پوٹامیا کی تہذیب کہی جاسکتی ہے جس کا تاریخی زمانہ سات ہزار سال ق م یا آج سے تقریباً نو ہزار سال ق م پہلے سے شروع ہوا۔ سابق میسوپوٹامیا، دریائے دجلہ اور فرات کے درمیان ایک نہایت شاداب اور زرخیز علاقہ تھا۔ اس سرزمین نے یکے بعد دیگرے کئی تہذیبیں پیدا کیں اور بہت عروج تک ان کو پہنچانے کے بعد اپنی گود میں چھپا لی-
سمیری تہذیب
چار ہزار سے تین ہزار سال ق م تک: میسوپوٹامیا میں سب سے پہلے سمیری قوم کے
نشانات ملتے ہیں۔ جو مشرق کے کسی حصے سے ترکِ وطن کرکے آئے تھے اور دریائے فرات
کے کنارے چلتے ہوئے خلیج فارس کے قریب تک پہنچ گئے تھے۔ غالباً سب سے پہلے وہ خلیجی
علاقے میں آباد ہوئے۔ یہ سرزمین انھیں اس قدر سازگار ہوئی کہ وہاں انھوں نے اپنی
خانہ بدوش زندگی کو ایک اعلیٰ قبائلی معاشرے تک ترقی دی اور اس کے آگے ملوکی نظام
قائم کرلیا تھا۔ ان کی تہذیبی ترقی کے نشانات چار ہزار برس ق م سے بھی بہت آگے کے
ملتے ہیں۔ انھوں نے بڑے بڑے شہر آباد کیے تھے جن میں ارلیگاش اور عظیم الشان شہر
نپور کے آثار دریافت ہوچکے ہیں۔ ان کی پھولتی پھلتی آبادیاں شمال کی طرف بڑھتی
ہوئی دور تک پھیل گئی تھیں۔ چند صدیوں میں ان کی معاشرت تہذیب کے اس اعلیٰ مقام تک
پہنچ گئی تھی کہ انھوں نے اپنا ایک تصویری طرز تحریر ایجاد کرلیا تھا۔ لکھائی کا
جو سب سے قدیم نمونہ اس خطے سے دستیاب ہوسکا وہ تین ہزار پانچ سو ق م کا خیال کیا
جاتا ہے۔ یہ تصویری علامتوں (Pictography) گچ پتھر پر ہڈی یا پتھر کے قلم سے لکھی ہوئی لوح جو زرعی پیداوار
کی ایک رپورٹ ہے۔
تین ہزار ق م سے دو ہزار ق م تک: تقریباً دو ہزار نو سو
ق م میں تحریر کیا ہوا سمیری قوم کا جو
کتبہ ملا وہ پہلے کتبے سے کافی ترقی یافتہ ہے۔ پانچ چھ سو سال میں انھوں نے حقیقی
تصویری خط (Pictography) سے آگے بڑھ کر تصوری خط (Idiography) ایجاد کرلیا تھا۔ ایک طرف رسم الخط کو ایک منزل آگے بڑھایا، دوسری
طرف سمیریوں نے لکھائی کے سامان میں ایک نئی چیز دریافت کی۔ اب تک انسان نے جتنی
تصویریں، نشانات اور لکیریں کھینچی تھیں ان کی کافی لمبی فہرست ہے جس میں چھال، پتیاں،
ہڈی، سینگ اور پتھر کی چٹانیں اور سلیں خاص طور پر تھیں لیکن اب جو نئی چیز انھیں
سوجھی تھی وہ نرم گندھی ہوئی مٹی تھی۔ بمقابلہ پچھلی تمام چیزوں کے اس پر لکھنا کہیں
آسان تھا، جلدی بھی لکھا جاسکتا تھا اور خوبصورت نقوش بھی بن سکتے تھے۔ چنانچہ
اسے مقبولیت حاصل ہوئی اور زمانۂ دراز تک اس کا رواج رہا۔ سمیریوں نے دجلہ و فرات
کے دو آبے میں بافراط چکنی مٹی دیکھی اور اس کے اعلیٰ نفیس مصرف کا انھیں ادراک
ہوا۔ انھوں نے مٹی کی ہموار چپٹی تختیاں تیار کیں جن کی سطح خوب چکنی ہوتی تھی۔
ابتدا میں ان تختیوں کا سائز بارہ انچ لمبائی اور آٹھ انچ چوڑائی کے لگ بھگ ہوتا
تھا۔ دریا کے کنارے بکثرت نرقل اور کلک اگا ہوا تھا۔ اس کے نوک دار ترچھے قط سے
چکنی مٹی کی تختیوں پر خوبصورت نیم تصویری رسم خط کے تصوری خاکے نفاست سے کھینچنا
بمقابلہ پتھر پر نقوش کھودنے کے بہت آسان نظر آیا اور بہت کم وقت میں نہایت عمدہ
لکھائی ہونے لگی۔ وہ لوگ لکھائی کے بعد نرم مٹی کی تختیوں کو دھوپ میں خشک کرتے
تھے اور پھر بھٹی میں پکا کر اینٹوں کی طرح پختہ بھی کرلیتے تھے جس سے اندازہ ہوتا
ہے کہ ان تختیوں پر نقش کی ہوئی تحریروں کی انھیں بہت حفاظت مدنظر تھی۔ شاید شروع
میں کچی ہی تختیاں کچھ زمانے تک رہی ہوں جو ضائع ہوکر اس زمانے تک نہیں پہنچ سکیں
اور یہ مضبوط پختہ تختیاں پانچ چھ ہزار سال کا سفر کرکے یہاں تک آئی ہیں اس عہد
کے عجائب خانوں میں مقام کیے ہوئے ہیں۔
اگلے سات سو برس میں سمیریوں نے اس مصوری طرزِ تحریر کو ترقی
دے کر ایک بالکل مختلف انداز کے حروف کا اپنے تصوری خط میں اضافہ کرلیا۔ یہ حروف
لوہے کی میخ یا برنجی، کیل جیسی شکل سے مشابہت رکھتے تھے۔ ان سے معنی کے علاوہ کچھ
صوتی مخرج کی بھی نمائندگی ہوتی تھی جو تصوری شکلوں سے ممکن نہ تھی۔ اگرچہ وہ بہت
کم صوتی علامات تھیں لیکن فن تحریر کی ترقی کے لیے ایک عظیم الشان پہلا قدم تھا۔
نئے حروف کی تمام شکلیں ایک میخی نشان سے مرکب تھیں۔
سمیری قوم نے طرزِ تحریر میں تو یہ ترقی کی تھی مگر مٹی کی
تختیوں کا کوئی بدل اس قوم کی تاریخ میں دور تک نظر نہیں آتا۔ اسی جسامت کی نقش کی
ہوئی بکثرت تختیاں نپور اور دوسرے شہروں کی عبادت گاہوں کے کتب خانوں، تجارتی مرکز
اور دفاتر میں اکٹھا ہوتی رہیں۔ چنانچہ ان قدیم ترین شہروں کے کھنڈرات سے موجودہ
زمانے میں مٹی کی تختیوں پر کتبوں کا بہت بڑا ذخیرہ برآمدہوا ہے، یہ کتابیں جو ان
کے کتب خانوں سے نکلی ہیں۔ مذہبی عقائد اور طریق عبادت، معبودوں کے بھجن وغیرہ پر
بکثرت ہیں، لیکن سیاسی اور مملکتی دستاویزات، تجارتی لیکن دین اور قرضوں کے بہی
کھاتے یا دوا علاج کے نسخے اور دیگر علوم و فنون سے متعلق کتابیں بھی کم نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ نجی خطوط بھی بہت زیادہ ہیں۔
عکاد۔ بابل اور عاشوری تہذیبیں
زمانہ دو ہزار ق م سے ایک ہزار ق م تک: دو ہزارسال ق م سے
کچھ پہلے ہی سمیری قوم کی خانہ بدوش زندگی تہذیب و معاشرت میں ترقی کرتی ہوئی ایک
عظیم نظام مملکت تک پہنچ کر زوال پذیر ہونا شروع ہوگئی تھی۔ اسی زمانے میں دریائے
دجلہ اور فرات کے شمالی حصے میں عکادی قوم ابھر رہی تھی۔ عکاد سامی نسل سے تھے۔ اس
وقت سے ہزاروں سال آگے تک تہذیبی قیادت اور سیاسی اقتدار اسی نسل کے ہاتھوں میں
رہا۔ دو ہزار ق م میں وہ سمیری قوم سے بہت کچھ حاصل کرکے اتنے طاقتور ہوگئے تھے کہ
جب سمیریوں کا زوال ہوا تو انھوں نے بحسن و خوبی، ان کی عظیم مملکت کا انتظام
سنبھال لیا اور میسوپوٹامیا کے سرسبز علاقے میںا ن کا تسلط ہوگیا۔ آگے چل کر ان
سے دو عظیم الشان جڑواں تہذیبیں وجودمیں آئیں جو بابل اور عاشوری سے موسوم ہیں۔
علم و فن کی ارتقا اور کثیر تعداد میں بابل۔ عاشوری ادب پر کتابوں کی تخلیق ان کا
شاندار تاریخی باب ہے۔ ان کی زبان لسانی سائنس اور فن تحریر کے اعتبار سے پندرہویں
صدی ق م میں دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور مستند قرار دی گئی۔
انھوں نے سمیری قوم سے پائی ہوئی کیوئی فارم مخروطی حروف کی
چند مختصر شکلوں کو جن کے ساتھ بکثرت تصویری اور تصوری علامتیں شامل تھیں، ترقی دے
کر بتیس حروف کے باقاعدہ ایک صوتی رسم الخط کا خیال دنیا میں سب سے پہلے پیش کیا
اور تحریر و سماعت کے درمیان پہلا نزدیکی رشتہ پیدا کیا جس سے فن تحریر میں رکن
تہجی کا آغاز ہوا۔ ان کی وضع کی ہوئی تحریری علامتوں کو نہ صرف جلد اور آسانی سے
نقش کیا جاسکتا تھا بلکہ چھپائی کا امکان بھی پیدا ہوا اور بابل۔ عاشوری عہد میں
بکثرت کچی مٹی کی تختیوں پر کتابیں چھاپی گئیں جو چھپنے کے بعد بھٹی میں پکا کر
پختہ کرلی جاتی تھیں۔ یہ ابتدائی طباعت لکڑی کے بیلنوں پر مطلوبہ عبارت کندہ کرکے
کچی مٹی پر پھیرنے سے عمل میںا ٓتی تھی۔
ان کی وضع کی ہوئی بتیس حرو ف کی ایک تختی شامی ساحل سے
متصل اُگارت مقام پر مٹی کی سیکڑوں دوسری تختیوں کے ساتھ 1929 میں آثارِ قدیمہ کی
کھدائی کے دوران ملی تھی، جس سے پتہ چلتا ہے کہ کسی زمانے میں وادیِ دجلہ و فرات
سے ساحل روم تک پورا علاقہ عاشوریوں کے زیرنگیں تھا۔ مٹی کی تختیوں پر میخی حروف
کے رسم خط کی کتابیں نہ صرف بابل اور عاشوری تہذیبوں میں رائج تھیں بلکہ ان کے تہذیبی
اثرات ایشیائے کوچک کی حتی قوم نے بھی قبول کرلیے تھے اگرچہ علامات میں کچھ فرق
تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقے میں کتاب کے لیے اس سے بہتر چیز کا ادراک
کافی زمانے تک انسان کو نہ ہوسکا۔ روز بروز ان اوراق کی تیاری کے لیے زیادہ اچھی
مٹی کا انتخاب ہوتا گیا جس سے زیادہ چکنی اور نفیس تختیاں ترقی پذیر ہوتی رہیں۔
آگے ان کی بناوٹ، شکل اور سائز میں بھی کچھ تبدیلیاں ہوئیں۔
بابل کے رسم خط میں چھ سو چالیس تحریری علامتیں رائج تھیں
اور عاشوریوں کے یہاں پانچ سو دس تھیں جن میں تین سو علامتیں عام طور پر مستعمل تھیں۔
ان کی تحریروں میں سو سے ایک سو بیس تک رکنی علامات رائج تھیں جب کہ سمیریوں کے
دور میں چھ سو قسم کی مکمل لفظی علامتیں تحریر میں پائی گئیں۔
بابل اور عاشوریوں کے علمی ذوق و شوق اور فنی تجربات کی
سرگرمی نے لکھنے کا مواد اس قدر پیدا کردیا تھا۔ لکھنے کا سامان اتنا ارزاں اور
سہل الحصول تھا اور لکھائی اور چھپائی کا طریقہ ایسا آسان اور تیز رفتار تھا کہ
تہذیب کے اس ابتدائی دور میں انسان نے جتنی کثیر تعداد میں کتابیں تصنیف کیں اور
جس وسیع پیمانے پر کتب خانے تعمیر کیے ان کے بچے کھچے آثار دیکھ کر آج کا انسان
بھی حیرت زدہ ہوجاتا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ میسوپوٹامیا کے
علاقے میں صرف تین جگہوں پر کھدائی سے پانچ لاکھ سے زائد مٹی کی تختیاں برآمد ہوئیں
جن کی یورپ اور امریکہ کے میوزیم نمائش کررہے ہیں۔ ان کے علاوہ بیس ہزار تختیاں
برطانوی ماہر آثار قدیمہ سر آسٹن لے یارڈ نے عاشوری دارالسلطنت نینوا کے کھنڈروں
سے 1853 میں نکالی تھیں جہاں ان کے آخری تاجدار آشربانی پال کا عظیم الشان کتب
خانہ تھا۔ یہ اب برٹش میوزیم کی بے بہا دولت ہے۔ اس ذخیرے میں اس عہد کا ایک ادبی
شاہکار منظوم داستان گلگامیش بھی ہے جس کا انگریزی ترجمہ این کے سینڈرس کے مقدمے
کے ساتھ پنگوئن کے ادب عالیہ اشاعتی سلسلے میں بار بار شائع ہوکر مقبول عام ہوا۔
ان کے کچھ علمی جواہر پارے فراعینِ مصر نے حاصل کرکے اپنے شاہی دفاتر میں جگہ دی
تھی جو وادیِ نیل کے قدیم شہر الامرناس کے کھنڈروں سے برآمد ہوئے ہیں۔ کیونی فارم
حروف کی مقبولیت پندرہویں صدی ق م سے اس قدر عروج پر تھی کہ وادی فرات سے سواحل
روم تک، فلسطین، شام، لبنان اور حتیوں کے دارالسلطنت بوغازکول جو موجودہ استنبول
کے قرب میں واقع تھا یا قدیم ایران اور ایلم کے سرزمین ہر جگہ سے اس زمانے کے
آثار ان حروف میں لکھی کتابیں برآمد کررہے ہیں۔
حتی قوم (Hittities) کی تحریریں
زمانہ پانچ سو سے دو ہزار ق م تک: ایشیائے کوچک (موجودہ ترکی)
کے علاقے میں اس قوم کے آباد ہونے کا سب سے قدیم سراغ تین ہزار سال ق م سے ملتا
ہے۔ ان کی قومیت اور زبان ہند یوروپی شاخ سے تعلق رکھتی ہے۔ اسی لیے ان کی زبان میں
اکثر ہندوستانی اور ایرانی الفاظ بہت قدامت سے
پائے جاتے ہیں۔ یکے بعد دیگرے ان کے یہاں دو خط رائج ہوئے، تصویری اور میخی۔
تصویری خط تین دور کا ہے مکمل تصویری خیالات۔ نیم تصویری ا ور آخری دو تصویری
اظہارمطالب۔ ان ادوار کی تحریریں پتھر پر کھدی ہوئی ملی ہیں جن کی ایک سطر دائیں
سے بائیں دوسری بائیں سے دائیں ہل چلانے کے طرز پر۔ تصویری خط میں ان کے یہاں چار
سو پچاس معنوی علامتیں تھیں جن میں دو سو پچیس کثیرالاستعمال ہیں۔ بعد میں بابل
عاشوری اثرات نے یہاں میخی خط رائج کردیا جو بابلی سے ماخوذ ہے۔ ڈاکٹر گیلب نے ان
کے خط میں ساٹھ رکنی علامات دریافت کی ہیں۔ بابلی خط میں کچھ علامتیں پورے لفظ یا
ایک کلمے کے لیے موضوع تھیں اور بعض صرف ایک جز یا صوتی رکن کے لیے۔ پہلی صورت میںحتیوں
نے بابلی خط کی علامتوں کو اصلی شکل میں اپنی زبان میں ترجمہ کرکے مستعمل کرلیا لیکن
دو یا زائد رکنی علامتوں کے قائم مقام اپنی زبان کے الفاظ کے لیے نئی علامات وضع کیں۔
1906 میں ڈاکٹر ہیوگوونکلر (Dr. Hugs
Winklar) نے بوغازکول کے کھنڈروں سے کھدائی کرکے میخی خط کی
بیس ہزار تختیاں مٹی کی برآمد کیں جن کا زمانہ تحریر 1200 ق م سے 500 ق م تک
برآمد ہوتا ہے۔ حتیوں کی تختیاں بمقابلہ بابلی عاشوری تختیوں کے سائز میں بہت بڑی
ہیں۔ 717 ق م میں حتیوں کی طاقت کو زوال ہوا اور عاشوری حکمراں سارگون نے ان کو
شکست دے کر ان کی سرزمین اپنی مملکت میں شامل کرلی۔ لیکن حتیوں کا خط 500 ق م تک
باقی رہا۔
حتی کہ میخی خط کے علاوہ ایشیائے کوچک میں ایک اور پیکانی y خط کے آثار دریافت ہوئے ہیں جو قدیم ایرانی خط سے توسل رکھتا ہے۔ اس کی بہت سی تختیاں
قدیم شہر قیصریہ کے آس پاس اور دوسرے مقامات پر ملی ہیں جن کے زمانہ تحریر کا
اندازہ دو ہزار تین سو برس ق م کا لگایا جاتا ہے۔ ان میں سوا ایک تختی کے جو قوانین
کا کنبہ ہے باقی سب تجارتی کاروبار سے متعلق ہیں۔ یہ تختیاں شامی تاجروں سے منسوب
کی جاتی ہیں۔ رسم خط عاشوریوں سے مشابہ ہے جس مقام پر یہ دستیاب ہوئی ہیں اس کا
پرانا نام کیسپاڈوشیا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں