روایتی
طور پر فلسفے کے نفس موضوع میں منطق، مابعدالطبیعیات (Metaphysics)،
طبیعیات (Physics)، اخلاقیات اور
جمالیات وغیرہ جیسے موضوعات کو شامل کیا جاتا رہا ہے، جدید دور میں فلسفے کے خاص
طور پر درج ذیل شعبے متعین کیے جاتے ہیں:
.1 مابعدالطبیعیات
(Metaphysics) سے مراد فلسفے کی وہ شاخ ہے جو اس بنیادی
عنصر کے تفتیش سے متعلق ہے جو اس کائنات کی بنیاد میں مضمر ہے یعنی جس سے مادی دنیا
پیدا ہوتی ہے، درحقیقت فلسفے کا تعلق شروع سے ہی اس فلسفیانہ تجسس کو جاننے سے رہا
ہے۔ جو دانشور اس بنیادی عنصر کو طبیعی (مادی) مانتے ہیں وہ مادہ پرست کہلاتے ہیں
جب کہ جو اسے روحانی مانتے ہیں انھیں روحانیت پرست کہا جاتا ہے۔ فلسفے کے اس شعبے
میں بنیادی عنصر کے علاوہ مادہ،من ، روح، دوبارہ جنم، خدا وغیرہ پر غور و خوض کیا
جاتا ہے، پلیٹو، ارسطو، اور ہیگل نے فلسفے کے اس شعبے کو زیادہ اہمیت دی ہے اور
فلسفے کی تعریف اسی بنیادی عنصر کو اساس مان کرکی ہے۔ مثال کے لیے ارسطو کے الفاظ
میں ’فلسفہ وہ سائنس ہے جو بنیادی عنصر کی حقیقی شک کی تلاش کرتا ہے۔‘‘
.2 علمیات
(Epistemology) فلسفے کا دوسرا شعبہ علمیات ہے جس میں
علم کی شکل، علم کے ذرائع اور علم کی سند وغیرہ پر غور کیا جاتا ہے۔ جو عالم علم
کا ماخذ عقل مانتے ہیں انھیں عقلیت پسند کہا جاتا ہے، جب کہ تجربے کو علم کا ذریعہ
ماننے والے عالم کو تجربیت پسند کہا جاتا ہے۔ کانٹ اور فکٹے نے فلسفے کو علم کے
حصول اور اس کی نظر ثانی کو سائنس مانا ہے۔
.3 علم الاقدار
(Axiology) فلسفے کی یہ شاخ انسانی زندگی کی قدروں سے
متعلق ہے اور ان قدروں پر منطقی، اخلاقی اور جمالیاتی نگاہ سے غور کرتی ہے، اس لیے
اس شعبے میں منطق، اخلاقیات اور جمالیات اہم اجزا مانے جاتے ہیں۔ منطق سچائی سے
متعلق ہے، اخلاقیات فلاح سے جب کہ جمالیات، جمال سے متعلق ہے۔
اگرچہ
فلسفے کے درج بالا تینوں شعبے اپنی اپنی اہمیت رکھتے ہیں تاہم سماجی علوم میں ہونے
والی تحقیق کی نظر سے علم الاقدار کا مقام سب سے اوپر ہے۔ اسے علم کا ماخذ بھی کہا
جاتا ہے ،جدید دور میں فلسفیوں نے مابعدالطبیعیات اور علم الاقدار سے کہیں زیادہ
اہمیت علمیات کو دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خدا، روح، بنیادی عنصر وغیرہ کو جاننے سے
پہلے ہمیں جان لینا ضروری ہے کہ ہماری عقل ان کا علم حاصل کرنے میں اہل ہے یا نہیں،
اگر اہل ہے تو کتنی؟ علمیات خاص طور پر اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ
علم اور صداقت کی سائنس ہے۔
علمیات
میں علم کی شکل، علم کے ذرائع اور علم کے وثوق وغیرہ پر غور کیا جاتا ہے۔ جے این فیئر
نے اپنی کتاب انسٹی ٹیوٹ آف میٹافزکس (1854) میں علم کے ذریعے، نوعیت اور سند سے
متعلق عام جانچ کو علمیات (epistemology) کہا
ہے۔ یہ لفظ یونانی زبان کے ایپسٹیم اور لوگوز لفظ سے مل کر بنا ہے جس کا مطلب ہے
’علم کا سائنس‘ یا علم کی تفتیش اس لیے علمیات کو علم کا نظریہ بھی کہا جاتا ہے۔
کئی دانشوروں نے فلسفے کی تعریف میں علم کے ذرائع اور سند کو ہی بنیاد مانا ہے
مثال کے طو رپر کانٹ کے مطابق ’’فلسفہ علم حاصل کرنے کے فن کی سائنس اور اس کی تنقید
ہے۔اس طرح، فکٹے نے لکھا ہے کہ ’’فلسفہ علم کا سائنس ہے (Philosophy is a
science of Knowledge) اسی طرح، علمیات میں حقیقت، غیر
حقیقت، وثوق، بھرم، علم کی حد اور علم کی نوعیت وغیرہ کی تفتیش کی جاتی ہے۔
جدید
علمیات میں یہ سوال کافی متنازع رہا ہے کہ حقیقت کے ذرائع کیا ہیں یعنی ہمیں علم
حقیقت کا حصول عقل کے ذریعے یا تجربہ (حسی اعانت) کے ذریعے ہوتا ہے، عقل کو سبھی
علم کا ذریعہ ماننے والے نظریے کو عقلیت پرست کہا جاتا ہے، جب کہ تجربہ یا حسی
اعضا کو سبھی علم کا ذریعہ ماننے والے نظریات کو تجربیت پسندی کہا جاتا ہے۔
جدید
فلسفے کے نئے دور میں کئی فلسفیوں جیسے ڈیکارٹ، اسپنوزا، لاسینز وغیرہ نے عقلیت
پرستی کی تائید کی ہے جب کہ لاک، برکلے، ہیوم وغیرہ نے تجربیت پرستی کی حمایت کی
ہے جرمنی فلسفی کانٹ نے دونوں کو یک رخی بتایا ہے اور علم کی تخلیق میں دونوں کو یکساں
طور پر ضرور مانا ہے۔ ان کا نظریہ تنقیدی نظریے (Critical Theory) کے نام سے جانا جاتا ہے، اس طرح علمیات علم انسانی کی حد اور کسوٹی کا
مطالعہ کرتی ہے۔
آج
علم کے نظریے یا علمیات میں درج ذیل تین باتوں کو شامل کیا جاتا ہے:
(i) علم کا ذریعہ، عقلیت
پرستی اور تجربیت پرستی کے باہم متضاد نظریوں کا تنقیدی مطالعہ۔
(ii) علم کا وثوق، حقیقت
پسندی اور تصوریت یا مثالیت کے تناظر میں علم کی توثیق کرنے کی کوشش۔
(iii) علم اور حقیقت کا
نظریہ۔
درج
بالا تفتیش سے واضح ہوجاتا ہے کہ علمیات فلسفے کی وہ شاخ ہے جس میں علم سے متعلق
سوالوں اور امور کی تفتیش کی جاتی ہے۔ اس میں خاص طور پر درج ذیل امور پر غور کیا
جاتا ہے:
(i) علم کیا ہے؟ کیا ذی
علم کا علم ممکن ہے؟ اگر نہیں تو علم کس کا ہوتا ہے؟ اگر علم شے کا ہوتا ہے تو وہ
شے کیا ہے؟ کیا شے کا وجود علم کے بغیر بھی ممکن ہے؟ کیا شے کا وجود ذی علم کے
وجود پر منحصر ہے؟ حقیقی اور غیرحقیقی علم کیا ہے؟
(ii) ذی علم کا علم سے کیا
تعلق ہے؟
(iii) کیا علم کا مواد حقیقی
بیرونی شے کی طرح ہوتا ہے یا ان دونوں میں کوئی فر قپایا جاتا ہے؟
(iv) یہ کیسے معلوم کیا
جاسکتا ہے کہ ہماراعلم شے کا حقیقی علم ہے؟
(v) علم کے حدود کیا ہیں؟
(vi) علم کے ذرائع کیا ہیں؟
(vii) علم کی توثیق کیسے کی
جاسکتی ہے؟ کون سا علم مستند ہے؟
(viii)علم کے عمل میں کون کون سی بھولیں ممکن ہیں؟
(ix) کیا حقیقت میں کوئی
متعین علم ہوتا ہے یا علم کو متعین ماننا ہمارے ادراک اور روح پر مبنی ہے۔
(x) کچھ عقیدے دیگر عقیدوں
سے زیادہ مستند مانے جاتے ہیں؟
(xi) علم کے مختلف طریقوں،
ادراک، راست آگاہی، خیال وغیرہ میں کیا فرق ہے؟
(xii) علم کا سائنس سے کیا
تعلق ہے؟
علم
کی شکلیں اور اقسام (Forms and Types of Knowledge)
یونانی
فلسفے میں علم کو ادراک (Perception) کہتے
ہیں، لیکن علم کو ادراک کہنا مناسب نہیں ہے، کیونکہ یہ مختلف افراد کے لیے لمحاتی
اور نسبتی ہوتا ہے۔ جو غذا یا پھل صحت مندی کی حالت میں میٹھا لگتا ہے، غیرصحت مندی
اور بخار کی حالت میں ویسا نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس علم ہمیشہ ہر فرد کے لیے کچھ نہ
کچھ ہوتا ہے، سقراط اور پلیٹو کے مطابق علم وہ ہے جو ہمہ گیر اور مستند ہے یعنی جو
ہم آہنگ ہے نہ کہ متناقض (یعنی تضاد سے آزاد) (Knowledge means what
is universal and valid that is consistent and free from contradiction) پلیٹو کے مطابق علم مطلق کے بارے میں محض شعور ہے اسے سمجھنے
والے ذی علم سے اس کا آزادانہ وجود ہے۔ تجربیت پرستی کے نقطہ نگاہ سے علم کسی
باہری شے کے تعین فکر کے نتیجے میں فروغ
پاتا ہے۔ علم یا حقیقی ہوتا ہے یا غیرحقیقی، اگر ایک پاگل شخص جو تخیل کرتا ہے یا
ایک نوزائیدہ بچہ جو دیکھتا ہے یا بے عقل جانور جو محسوس کرتا ہے اور ایک صحت مند
شخص جو احساس کرتا ہے یکساں طور پر حقیقت ہے تو فطری طور پر کیا حقیقت ہے کیا اور
غیرحقیقی اس میں کوئی فرق نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اگر ہم ایک آنکھ کھلی رکھیں اور
دوسری بند کرلیں تو ہم ایک آنکھ سے جاننے کی کوشش کرتے ہیںا ور دوسری ا ٓنکھ سے
نہیں، لہٰذا ایک ہی شخص ایک ہی وقت پر جانتا بھی ہے اور نہیں بھی جانتا ہے، حتمی
طور پر جو کسی کو سچ دکھائی دیتا ہے وہ اس کی مخالف شکل کو غیرحقیقی مان لیتا ہے۔
تجربیت پرست اور منطق پرستوں کے مطابق علم عقلی تجربہ یا تنظیمی تجربہ ہے، علم ایک
منظم تجربہ ہے اور تجربہ بے جان اور روعمل دونوں کو ہی شامل کرنا ہے، اس بندوبست
کے عمل میں حافظہ، فکر اور منطق یا استدلال وغیرہ سبھی شامل ہوتے ہیں۔
علم
کئی طرح کا ہوتا ہے ہر طرح کے علم کے فروغ اور ترسیل کا مخصوص طریقہ ہوتا ہے، ہر ایک
کی سماج کے ذریعے تسلیم شدہ قدر ہوتی ہے، سب سے اچھا علم وہ مانا جاتا ہے جو رسمی
(باضابطہ) ہوتا ہے اور اس کی ترسیل کتابوں اور فکر کے ذریعہ ہوتا ہے۔ اس کی اہم
شکلیں اور قسم درج ذیل ہیں:
(i) مابعد علم
(Meta Knowledge): یہ علم ثقافتی اور فلسفیانہ عقیدے پر
مبنی ہوتا ہے۔
(ii) ماحول
(Milieu): یہ ماحول کے بارے میں علم فراہم کرتا ہے۔
(iii) اتفاقی علم
(Contingent Knowledge): اس طرح کا علم کسی مخصوص ماحول
سے نام نہاد اطلاع پر مبنی ہوتا ہے، یہ ایک طرح سے موقع پر سیکھنے لائق علم کی طرح
ہوتا ہے۔
(iv) خاموش علم
(Tacit Knowledge): اس طرح کا علم روایت اور تجربے پر
مبنی ہوتا ہے۔ اس کی منتقلی تربیت کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔
(v) غیررسمی اور رسمی
علم (Informal and Formal Knowledge): غیررسمی
علم خاص طور پر زبانی نوعیت کا ہوتا ہے، لیکن اسے تحریری طور پر ترسیل کیا جاسکتا
ہے، اس کے برعکس رسمی علم خاص طور پر نظریات اور فارمولوں کے طور پر تحریری طور پر
دستیاب ہوتا ہے۔
(vi) راست اور بالواسطہ
علم (Direct and Indirect Knowledge): راست
علم وہ ہے جس کے ذریعے ہمیں کسی شے کا سیدھا علم حاصل ہوتا ہے اسے حسی اعضا کے ذریعے
حاصل راست علم کہا جاتا ہے۔ بالواسطہ علم وہ ہوتا ہے جو کہ اشیا کے سیدھے رابطے سے
نہ ہوکر کسی دیگر علم کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ اندازہ یا شہادت بالواسطہ علم کے دو
اہم ذرائع مانے جاتے ہیں۔ بالواسطہ علم کے حصول کے لیے استدلال یا منطق کی ضرورت
ہوتی ہے۔
(vii) آلاتی علم
(Instrumental Knowledge): اس طرح کا علم آلات اور ساز
و سامان سے متعلق ہوتا ہے۔ اس طرح کے علم کی بنیاد غیررسمی اور رسمی ہوسکتی ہے۔ اس
کا استعمال زیادہ جدید تکنیکوں کو استعمال کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
ہیبرماس
(Hebermas) نے اپنے تنقیدی نظریے (Critical Theory) کے ڈھانچہ کے تجزیے کے لیے اپنی دو کتابوں
(The Logic of the Social Sciences 1970) اور
(Knowledge and Human Interest, 1970) میں علم کی عملی
ضرورتوں اور مفاد کی بنیاد پر درج ذیل تین شکلوں یا اقسام کا ذکر کیا ہے:
(i) تجرباتی، تجزیاتی
علم (Empirical Analytical Knowledge): اس میں
علم کی ان شکلوں کو شامل کیا جاتا ہے جو دنیا کے اصولوں کے مطابق خصوصیات کو
سمجھنے سے متعلق ہوتا ہے۔ اسی طرح کے علم کا فروغ ماحول پر تکنیکی کنٹرول کے لیے کیا
جاتا ہے۔ کام (Work) اسی طرح کے علم کا اہم ذریعہ
مانا جاتا ہے۔
(ii) تفسیری تاریخی علم
(Hermeneutic Historical Knowledge): اسی طرح کا علم معنیٰ
کو سمجھنے سے متعلق ہوتا ہے۔ اس طرح کے علم کا فروغ سماجی تعلقات کے تسلسل کے لیے
دیگر افراد کی انفرادی حالتوں کی تفسیر کو سمجھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ زبان
(Language) اس طرح کے علم کا اہم ذریعہ ہے۔
(iii) تنقیدی علم
(Critical Knowledge): اسی طرح کا علم دباؤاور غلبہ
(Constraint and domination) کی حالتوں کو معلوم کرنے سے
متعلق ہوتا ہے۔ اسی طرح کے علم کا فروغ مثالی خواہشات کے نتیجے میں غیرضروری غلبے
سے آزادی کے لیے ہوتا ہے۔ اقتدار (Authority) اسی
طرح کے علم کا اہم ذریعہ ہے۔
علم
کے ذرائع (Sources of Knowledge)
علم
کے ذرائع کے بارے میں کئی رائے ظاہر کی گئی ہے، خاص طور پر انھیں دو زمروں میں تقسیم
کیا جاسکتا ہے۔ پہلا ان ماہرین کا ہے جن کا کہنا ہے کہ کل علم عقل پر مبنی ہوتا
ہے۔ عقل پیدائش سے ہی حاصل ہوتی ہے اور اس کی قوت لامحدود ہوتی ہے، عقل کے ذریعہ ہی
ہمیں مکمل وجود کا علم ہوتا ہے، کیونکہ وجود کا تعلق بنیادی طور پر عقل سے ہے۔ ڈیکارٹ
اسپنوزا، لائبز وغیرہ ماہرین نے عقل کو ہی علم کا اہم ذریعہ مانا ہے، ان کی رائے
کو عقلیت (Rationalism) کے
نام سے جانا جاتا ہے۔ عقلیت پسندوں کے مطابق من بے عمل نہ ہوکر متحرک ہوتا ہے اور
سبھی بنیادی علم پیدائشی ہوتے ہیں، صرف عقل کے ذریعے متعین وجود اور ہمہ گیر علم
حاصل کیا جاسکتا ہے۔ عقل ہی علم کی آخری سند ہے، مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ عقلیت
علمیات کا وہ نظریہ ہے جس کے مطابق انسان کے حقیقی علم کا واحد ذریعہ عقل کو مانا
جاتا ہے، لہٰذا سبھی علم مقدم یا پہلے (Prior) ہوتا ہے۔
عقل خود آگاہ، ہمیشہ سرگرم، تجربے سے عاری اور پیدائشی ہوتی ہے۔جس طرح ریاضی کے
قواعد ہمہ گیر اورلازمی ہوتے ہیں اسی طرح ہمارا سارا عقل پر مبنی علم بھی ہمہ گیر
ہوتا ہے، عقلیت پسند ریاضی کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیںا ور منطق کی اہمیت کو تسلیم
کرتے ہیں اس لیے کبھی کبھی اس رائے کو ریاضیاتی عقلیت (Mathematical
Rationalism) بھی کہا جاتا ہے۔
دوسری
رائے ان ماہرین کی ہے جو تجربیت کو علم کی اہم بنیاد مانتے ہیں، لاک، برکلے، ہیوم
وغیرہ عالموں کے ذریعے فروغ پانے والے اسی نظریہ کو تجربیت، (Empiricism) کہتے
ہیں۔ اس نظریے کے مطابق انسان کے مختلف حسی اعضا کے ذریعہ احساسات حاصل ہوتے ہیں۔
تجربیت پسند پیدائشی علم کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ پیدائش کے وقت بچے کا ذہن ایک
خالی سلیٹ کی طرح ہوتا ہے جیسے جیسے وہ بیرونی دنیا کے رابطے میں آتا ہے احساس کے
طور پر فکری عمل کے ذریعے اسے اشیا کا علم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ تجربیت پسند کسی
بھی ایسے مادے کو نہیں مانتے جو کہ تجربے سے ثابت نہ ہوتا ہو۔ تجربیت کے مطابق اشیا
ہمارے تجربے کا موضوع ہیں اس لیے شے اور اس کے علم کے مواد میں کوئی فرق نہیں
ہوتا۔ اشیا جیسی ہیں ویسی ہی دکھائی پڑتی ہیںا ور جیسی دکھائی پڑتی ہیں ویسی ہی
ہونی چاہیے۔ اشیا کا تجربہ انفرادی ہوتا ہے، سچ کا حصول بھی تجربے کے بعد ہی ہوتا
ہے، مختصراً تجربیت علمیات کا وہ اصول ہے جو کل علم کا ذریعے بیرونی حسی اعضا کے
ذریعے حاصل تجربے کو مانتا ہے، یہ کل علم
کو تجربے کے بعد کا علم مانتا ہے، تجربیت پسندوں کے مطابق ہمارا علم آمد کے نظام
سے وضع ہوتا ہے جیسے ہم رام، شیام اور موہن کو مرتے دیکھتے ہیں تو معلومات عامہ کو
وضع کرلیتے ہیں کہ رام، شیام اور موہن چونکہ انسان ہیں اور انسان مرنے والی مخلوق
ہے۔
درج
بالا توضیح سے ظاہر ہے کہ عقلیت اور تجربیت علم کی توثیق کی دوباہم متضاد رائے ہیں۔
ان دونوں میں درج ذیل فرق پایا جاتا ہے:
(i) عقلیت کے مطابق حقیقی
علم کا حصول صرف عقل سے ہوسکتا ہے، جب کہ تجربیت کا علم انھیں حسی اعضا سے حاصل کیا
جاتا ہے۔
(ii) عقلیت کے مطابق علم
کی بنیاد عقل ہے، جب کہ تجربیت کے مطابق علم کی بنیاد تجربیت ہے۔
(iii) عقلیت کے مطابق حقیقت
تجربے سے پہلے ہے، جب کہ تجربیت کے مطابق حقیقت تجربے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔
(iv) عقلیت کے مطابق علم
میں ذہن یا من سرگرم ہوتا ہے، جب کہ تجربیت کے مطابق علم میں من بے عمل ہوتا ہے۔
(v) عقلیت کے مطابق علم
کی حد عقل کی حد ہے، جب کہ تجربیت کے مطابق علم کی حد تجربے کی حد ہے۔
ایمینوئل
کانٹ نے عقلیت اور تجربیت کے نظریوں کے نقائص کو دور کرکے دونوں کی خوبیوں کو
مربوط کرتے ہوئے ایک نیا نظریہ قائم کیا جسے علم کا تنقیدی نظریہ
(Critical theory of knowledge) کہا جاتا ہے۔ ان کے
مطابق علم کو وضع کرنے میں عقل اور تجربہ دونوں ہی لازم ہیں، ایک کے بغیر دوسرے کا
کسی طرح بھی کام نہیں چل سکتا۔ عقل اگر لنگڑی ہے اور تجربہ اندھا ہے جس طرح کسی
جنگل کو پار کرنے کے لیے اندھے اور لنگڑے دونوں کا ساتھ ساتھ مل کر چلنا ضروری ہے،
اسی طرح علم کے میدان میں آگے بڑھنے کے لیے لنگڑی عقل اور اندھے تجربے کا ساتھ ساتھ
رہنا ضروری ہے۔
کانٹ
کے مطابق باہری دنیا سے ہماری حسی اعضا جو احساسات حاصل کرتے ہیں وہ علم کا کچا
مال ہے یہ احساسات بکھرے ہوئے منتر اور بے معنی ہوتے ہیں، سب سے پہلے یہ عقل میں
واقع دو شکلوں، مقام، اور وقت (مکان و زمان) کی مہر اپنے اوپر لگواتے ہیں اور پھر
عقل میں واقع ڈھانچوں میں ڈھل کر مختلف قسم کے علم کو وضع کرتے یں۔ اسی لیے کانٹ
نے تجربے کو علم کا مواد اور عقل کو دنیا کی شکل میں مانا ہے، ان دونوں سے ہمارے
علم کی تخلیق ہوتی ہے، علم کے عمل میں درج ذیل تین قوتیں کام کرتی ہیں:
(i) حساس پذیری کی قوت
(The Faculty of Sensibility) جیسے ہی ہم کسی شے کو دیکھتے
ہیں تو اس کا مرئی ہونا ایک مخصوص مکان و زمان (Space time) کے حوالے سے ہوتا ہے، اس لیے سبھی دکھائی دینے والی حالتوں
مکان و زمان کی دو شکل موجود ہوتی ہے۔
(ii) سمجھنے کی قوت
(The Faculty of Understanding) کسی بھی شئے کے بارے میں
سبب و اثر کے اصول ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ من میں مطلق طور پر تجربے کی کچھ علامات
موجود ہوتی ہیں بیرونی مواد کو شکل خود من کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔
(iii) استدلال کی قوت
(The Faculty of Reasoning) استدلال کی قوت کے ذریعے
روح، دنیا اور ایشور شعور کے ان تین تصورات کی تشریح کی جاتی ہے۔ ہمارے من کی طاقت
بکھرے ہوئے طاقت کا ارتباط کرتی ہے۔
معتبری
یہ ثابت کرتی ہے کہ علم قابل اعتبار کلام کے ذریعے معتبر یا یقینی ہوتا ہے مسلک
تشکیک کے مطابق کوئی حقیقی عمل ہوتا ہی نہیں، مسلک تشکک میں حافظے کو علم کی سب سے
غیریقینی بنیاد مانا جاتا ہے۔ لہٰذا وہ علم جو ماضی سے حاصل ہوتا ہے اور مستقبل کی
برتری قائم کرتا ہے صرف کورا نام ہے۔ باطنیت یا واصلیت (Mysticism) میں
ادراک اور مباحثے پر مبنی فکر کو علم کا ایک اہم ذریعہ مانا جاتا ہے۔ مسلک ذہانت
کے مطابق جسے ہم عام طور پر علم سمجھتے ہیں وہ منطقی، ناقابل فہم اور غلط ہوتا ہے۔
علم کے اہم ذرائع ضمنی عقیدے ہوتے ہیں جو فطری طور پر حقیقت کو غلط کردیتے ہیں۔ حقیقت
کا علم حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ باطنی فہم ہے۔ منطقی عقلیت کے مطابق ہم علم کی یقینیت
دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ علم میں منطقی نتیجے کی توثیق کی علامت ہوتی ہے۔ حسی تجربیت
کے مطابق علم کا ذریعہ اور وثوق تجربے کے حسی تجربے کے پہلو سے دیکھا جاسکتا ہے۔
علم
کی توثیق (Validation of Knowledge)
علمیات
میں جو امور اٹھائے جاتے ہیں ان میں علم کی حقیقت اور توثیق کا مسئلہ سب سے زیادہ
اہم مانا جاتا ہے۔ علم کی توثیق کے بارے میں دو خیال رائج ہیں۔ ایک حقیقت
(Realism) اور دوسرا، مثالیت (Idealism)، حقیقت کے مطابق علم ایک ایسی شے کی تلاش ہے جس کا سامنا ہمیشہ
ذہن سے ہوتا ہے، اس میں اشیا کے اقدار کو تسلیم کیا جاتا ہے اور علم اور شے کو دو
الگ الگ اقتدار مانا جاتا ہے۔ اس رائے کے مطابق ذی علم شئے کا بالواسطہ طور پر
مشاہدہ کرتا ہے اور شئے کو ویسا ہی دیکھتا ہے جیسا کہ وہ رہتی ہے۔ دوسرے الفاظ میںیہ
کہا جاسکتا ہے کہ اشیا حقیقت میں ویسی یہ ہیں جیسا ہم انھیں دیکھتے ہیں اور ہم انھیں
اسی شکل میں دیکھتے ہیں جیسی کہ وہ حقیقت میں ہیں۔ علمیاتی نقطہ نگاہ سے اس رائے
کو شے ناوابستگی بھی کہا جاتا ہے۔ ہابس، ڈیکارٹ، لاک، ریڈ وغیرہ اس رائے کے حمایتی
مانے جاتے ہیں۔
مثالیت
پسند خود کے عنصر کی توثیق کے لیے کسی سند کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ ہم ہر شے کے وجود
میں شک کرسکتے ہیں، لیکن اپنے وجود کے تعلق سے کبھی شک نہیں کرسکتے۔ سوچنے کا عمل
مفکر کے وجود کو ثابت کرتا ہے۔ علمیاتی نقطہ نگاہ کی بنیاد پر جب مثالوں پر غور کیا
جاتا ہے تو اسے اثباتیت کانام دیا جاتا ہے۔ اس کے مطابق بیرونی دنیا کی اشیا مادی
نہ ہوکر ہمارے ذہن کا محض ادراک اور ہمارے ذہن سے آزاد ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔
شے کا علم سے باطنی تعلق ہوتا ہے۔ گرین کے مطابق شعور نہ صرف فطرت کی تعمیر کرتا
ہے بلکہ اس کی تخلیق کرتا ہے۔
جواز
کاری کے نظریے کے تحت ہم کسی بھی مابعد الطبیعیات (Metaphysics) کے
جملے یا تعارف کی سچائی اور معنویت کی جانچ کرسکتے ہیں۔ یہاں پر کسی جملے کی سچائی
کی کسوٹی اس کی بیرونی دنیا میں وجود کی توثیق کرتی ہے۔ سچائی اور غیرحقیقت کے لیے
ہمیں بیرونی دنیا کا معائنہ کرنا پڑتا ہے، منطق کی بنیاد پر بھی علم کی حقیقت کی
جانچ کی جاسکتی ہے۔
حقیقت
اور مثالیت کے درمیان جو دشواری پیدا ہوجاتی ہے اسے کبھی کبھی انا مرکز مخمصہ
(Ego-centric Predicament) کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے
مطابق ہم یہ کبھی بھی نہیں جان سکتے کہ اشیا اپنے آپ میں کیا ہوتی ہے۔ ہم صرف یہی
جان سکتے ہیں کہ وہ کیسی دکھائی دے سکتی ہیں، جانے جاسکنے کے لیے موضوع، ایک معلوم
موضوع ہے جس کا تعلق علم حاصل کرنے والے فرد کے ساتھ اقراری ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہا
جاسکتا ہے، اس تعلق سے پرے وہ کیا ہوگا، کیونکہ جیسے ہی آپ جاننے کی کوشش کریں گے
کہ وہ کیا ہے وہ آپ کے ساتھ اقراری تعلق قائم کرلیتا ہے۔ وہ ہمیشہ جانے جانے والی
شئے ہوتی ہے، کوئی اپنے آپ میں آزاد شئے نہیں ہوتی۔
معتبری
کے مطابق علم قابل اعتبار کلام کے ذریعے ثابت یا یقینی ہوتا ہے۔ چونکہ انسان فطری
طور پر تجویز کو اختیار کرلیتا ہے اور علم کی سبھی باتوں کو ثابت کرنے کی حالت میں
نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ نظریہ زیادہ تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اگر افراد کی ایک بہت بڑی
برادری کسی نظریے کے بارے میں مانتی ہے کہ وہ نظریہ صحیح ہے تو خیال طویل عرصے سے
تسلیم ہوتے آئے اور اچھے اقتدار پر مبنی علم مان لیے جاتے ہیں۔ ہمارا زیادہ تر
سائنسی علم شہرت پر مبنی ہوتا ہے۔
ماخذ:
سماجی تحقیق، مصنف: عذرا عابدی، پہلی اشاعت: 2018، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ
اردو زبان، نئی دہلی

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں