کتابیں
پڑھنا دنیوی زندگی کا ایک بہترین عمل ہے۔دنیا میں کچھ ایسی عظیم شخصیات بھی گزری ہیں،
جنھوں نے اپنی پوری زندگی کتابوں کی ورق گردانی میں صرف کی۔کتابیں انسانی فکر کو
ارتقاء کی بلند منزلوں تک پہنچانے میں نمایاں رول ادا کرتی ہیں۔ کتب بینی سے جہاں
معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، وہیں ان کے مطالعے سے فکرمیں بالیدگی،طبیعت میں نشاط
وانبساط، نگاہوں میں تیزی اور ذہن و دماغ کو تازگی حاصل ہوتی ہے۔ کچھ کتابیں ایسی
ہوتی ہیں جنھیں پڑھ کرانسانی ذہن پر گہرا نقش قائم ہوتا ہے۔ بلکہ یوں کہنا مناسب
ہوگا کہ ان کتابوں کی گہرائی وگیرائی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ان کے فکروخیال کی
چھاپ ہمارے اوپر مستقل کسی نہ کسی حد تک موجود رہتی ہے۔کونسل سے شائع ہونے والا
ماہنامہ ’اردو دنیا‘ نے منتخب کتابوں سے متاثر ہوکر قلمکار کو اپنی آرا دوسروں تک
شیئر کرنے لیے ایک نیا انداز اپنایا ہے۔ جس میں یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جن
کتابوں نے آپ کو مطالعہ کے دوران زیادہ متاثر کیا۔ان کے ادبی پہلواور معنوی محاسن
اردو کے عام قارئین تک پہنچائیں۔راقم ا لحروف نے بھی کچھ منتخب کتابوں سے متاثر ہو
کر اردو زبان کے شائقین کو متعارف کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔
اگرچہ
شعر گوئی اور مضمون نگاری کا ذوق مجھے وراثت میں نہیں ملا تھا، لیکن میںبچپن سے ہی
شعر گوئی اور کتابوں کے مطالعے کو ایک بہترین عمل تصور کرتا تھا۔ مجھ میں زندگی میں
جن کتابوں نے مطالعے کا شوق پیدا کیا ان میں سب سے پہلے علامہ اقبال کی مایہ ناز
تصنیف ’کلیات اقبال ‘ ہے۔ہوش سنبھالتے ہی جب میں نے تعلیم وتربیت کے لیے مختلف
اسکولوں کی طرف رخ کیا تو وہاں دیواروں پر اقبال کے اشعار جلی حروف میں کندہ پائے۔
اس کے علاوہ جب بھی میں نے کسی استاد یا کسی مذہبی اسکالر کو تقریر کرتے ہوئے پایا
تو دوران ِتقریر ان کی زبان سے علامہ اقبال کے اشعار سننے کو ضرور ملتے۔اس لحاظ سے
اقبال کی شاعری کا شیدائی ہونے لگا۔ یہ کتاب ایک صدی سے اردو میں شائع ہونے والی
مقبول ترین کتاب ہے اور دنیا کی متعدد زبانوں میں اس کے تراجم بھی ہوچکے ہیں۔
کلام
اقبال کے بعد اردو کے عظیم اور فلسفی شاعر مرزا غالب کے دیوان نے میرے دل کے اندر
مطالعے کا شوق پیدا کیا۔ دیوانِ غالب کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا
جاسکتا ہے کہ اردو کے مشہور نقاد عبد الرحمن بجنوری نے یہاں تک لکھا ہے کہ ’’
ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں۔وید ِمقدس اور دیوانِ غالب‘‘۔ غالب کی شاعری میں
جو تنوع ہے کسی اور کے یہاں کم ہی نظر آتا ہے۔ غالب کا کلام آج بھی اتنی مدت
گزرنے کے باوجود ایک نئی فکر اور ایک نیا احساس دے کر ہمیں اپنی طرف متوجہ کر رہا
ہے۔غالب نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونک دی۔اسے نئے نئے موضوعات بخشے اور اس
میں ایک نیا رنگ وڈھنگ پیدا کرکے اردو شاعری کو عظمت کی بلندیوں تک پہنچانے میں
نمایاں رول ادا کیا۔ان کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات جابجا ملتے ہیں۔ غالب کا
انداز بیان ہی ان کی شاعری کا وہ عنصر ہے جس نے ایک عالم کو گرویدہ کرلیا ہے۔ان کا
ڈکشن منفرد ہے۔ غالب کے ہاں فکراورموضوع کچھ اس طرح ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔کہ ان کے
اسلوب میں تخیل کی بلند پروازی،تہہ داری اور فارسیت کا غلبہ ہونے کے باوجود ان کا
کلام قاری کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔
اردو سوانح نگاری میں
مولانا حالی نے اردو تنقید کی طرح سب سے پہلے خشتِ اول قائم کی تھی۔شبلی نعمانی نے
بھی کچھ کامیاب سوانح عمریاں لکھ کر اردو ادب میںایک عظیم مرتبہ حاصل کیا۔ علامہ
شبلی نعمانی نے اگرچہ مختلف اصناف سخن پر طبع آزمائی کرکے درجنوں کتابیں لکھی تھیں۔لیکن
ان سب میں نے جس کتاب کو پڑھ کر زیادہ اثر قبول کیا،وہ خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق
کی سوانح ’الفاروق‘ ہے۔ اپنی نوعیت کی یہ منفرد کتاب ہے۔جس کی مقبولیت اس حد تک
ہوئی کہ فارسی، ترکی، انگریزی اور عربی زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے ہیں۔یہ کتاب
دو حصوں پر مشتمل ہے۔ سوانح کے پہلے حصے میں حضرت عمر فاروق کے سلسہ نسب، ولادت،
بچپن، جوانی کے ایاّم، دور جاہلیت، قبولِ اسلام اور ہجرت، اسلامی خلافت کا انتخاب
اور فتوحاتِ خلافت وغیرہ کا ذکر کیا گیا ہے۔کتاب کے دوسرے حصے میں ان کے انتظام
ِسلطنت،ملک کی تقسیم، عہدے داران کا تقرر، انتظام اور تنخواہوں سے متعلق تفصیلات دی
گئی ہیں۔
اردو
تنقید نگاری میں اگرچہ حالی کو تنقید نگاری کا موجد مانا جاتا ہے لیکن تقابلی تنقید
میں علامہ شبلی نعمانی کو ایک خاص دسترس حاصل ہے۔ شبلی کی تصنیف’موازنہ انیس ودبیر‘
پڑھ کر میں بے حد متاثر ہوا۔ اردو میں باقاعدہ طور پر تقابلی تنقید کا آغاز اسی تصنیف
سے ہوتا ہے۔ اس کتاب میںانھوں نے اردو کے دو عظیم مرثیہ نگاروں میر انیس اور مرزا
دبیر کے کلام کا شاعری کے بعض اہم اصولوں کی روشنی میں جائزہ لیا ہے اس میں ان کی
بعض اہم خصوصیات کی طرف توجہ دلائی ہے۔شاعری اور معیار شعر کے بعد مرثیہ گوئی کی
اجمالی تاریخ بھی موجود ہے۔ بعد ازاں انیس کی خصوصیات کا آغاز ہوتا ہے جس میں
فصاحت و بلاغت،تشبیہ و استعارہ،صنائع بدائع، محاورہ کی تعریف کرتے ہوئے ان کا
انطباق میر انیس کے کلام پر کیا گیا ہے۔یہیں محاکات،واقعہ نگاری،منظر نگاری،کردار
نگاری جیسے عنوانات قائم کرتے ہوئے انیس کے کلام سے بحث کی گئی ہے اور دبیر و انیس
کے کلام کا موازنہ اور تقابل ان خصوصیات کی روشنی میں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اردو
سوانح نگاری میں سب سے معتبر نام مولانا الطاف حسین حالی کا ہے۔حالی ہی کی بدولت
اردو میں سوانح نگاری کی بنیاد پڑی۔انھوں نے اردو ادب کی تین معتبر شخصیات پر
سوانح لکھ کر اردو میں ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ان تین سوانح عمریوں میںحیات سعدی،
یادگار غالب اور حیات جاوید قابل ذکر ہیں۔ حیات سعدی کو اردو کی اولین سوانح عمری
ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ’یاد گار غالب‘ ایسی کتاب ہے جوتقریباً غالب کی زندگی کے سبھی
گوشوں کے بارے میں واقفیت فراہم کرنے میںاہم رول ادا کر رہی ہے۔ دوسری جانب یہ
کتاب سوانحی کتب میں اپنے مواد اور اسلوب کے لحاظ سے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ یاد
گار غالب دو حصوں پر مشتمل ہے،پہلا حصہ ان کی زندگی کے واقعات اور حادثات کو پیش
کرتا ہے۔جس میں تاریخ ولادت، خاندان، مسکن، سفر کلکتہ، اہل کلکتہ سے مجادلہ، قیام
لکھنو، ملازمت سے انکار، قید ہونا، قلعہ سے تعلق، وظیفہ، قاطع برہان اور اس کا
تنازع اور دیگر علوم و فنون کی واقفیت سے بحث ہے۔ اسی حصے کا دوسرا گوشہ مرزا کی
شخصیت یعنی ان کے اخلاق وعادات،رہن سہن اور خوردونوش پر مشتمل ہے۔جس میں ان کے
اخلاق، شوخی بیان، مروت و خودداری پر خاص زور دیا گیا ہے۔ درمیان میں چھوٹے چھوٹے
مزاح سے پر واقعات بھی پیش کیے گئے ہیں۔اردو فارسی اشعار کو و اقعات کے سیاق میں پیش
کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کتا ب کادوسرا
حصہ مرزا کے منتخب کلام اورفارسی نظم و نثر پر ایک مکمل اور جامع تنقیدی تبصرہ
ہے۔حالی نے ایران کے بلندپایہ شعرا کے کلام کا موازنہ اور تقابل بھی غالب کے کلام
سے کیا ہے۔کتاب کے خاتمے پر ایک مختصر تبصرہ غالب کی حیات اور انشاپردازی سے متعلق
موجود ہے جسے حاصل کلام کا درجہ بھی دیا جاسکتا ہے۔
اردو
خود نوشت سوانح پر اگرچہ بہت کچھ لکھا گیا ہے اور شاید ایک دفتر میں بھی نہ
سمائے۔لیکن جس خودنوشت نے سب سے پہلے ذہن وقلب کواپنی جانب متوجہ کیا۔ وہ امام
الہند مولانا ابولکلام آزاد کی ’خودنوشت‘ ہے۔ اس کتا ب کا دیپاچہ پڑھتے ہی ذہن اس
بات کے لیے تیار ہوگیا کہ پوری کتاب کا مطالعہ ضروری ہے، کیونکہ اس خود نوشت سوانح
میں مولانا کے خاندان، سلسلہ نسب، تعلیم، گھر کے علمی آغوش میں پرورش حاصل
کرنا،مولانا کا کتابیں پڑھنے کا شوق خصوصاََجب انھیں سرسید کالٹریچر پڑھنے کا شوق
پیدا ہوا۔ وہ اس کتاب میں گھرکی تعلیمی سرگرمیوں کواجاگر کرتے ہوئے اپنے والد کا
حافظہ اور اپنی ذہانت کا احساس دلاتے ہیں۔ خود نوشت سوانح میںجوش ملیح آبادی کی ’یادوں
کی بارات‘ کا مطالعہ کیا۔ جوش نے اس خود نوشت کو پانچ حصوں میں تقسیم کر کے مختلف
زاویوں سے نگاہ ڈال کر ایک نیا انداز بیان اپنایا ہے۔جوش نے اپنی اس سوانح میں
اپنے عہد کی تہذیبی، سیاسی اور معاشرتی سرگرمیوں کو درج کردیا ہے۔ساتھ ہی ساتھ اپنی
زندگی کے بیشتر واقعات کو موثر کن اور شاعرانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ کہیں کہیںمبالغے
کا گمان گزرنے لگتا ہے۔کتاب کے مطالعے سے جوش کی شخصیت،نظریات اور عقائد کے بارے میں
بہت سی معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔یہ کتاب اردو خود نوشت سوانح عمریوں میں سب سے
منفرد اور سب سے زیادہ دلچسپ کہی جاسکتی ہے۔کیونکہ جوش نے اس کتاب میں اپنی خوبیوں
کے ساتھ ساتھ اپنی کمزوریوں، کوتاہیوں، گمراہیوں، آوارگیوں، شرارتوں، معاشقوں پر
خامہ فرسا ئی کرنے سے احتراز نہیں کیا ہے۔ساتھ ہی وہ اپنے زوال آمادہ خاندان اور
معاشرے سے پردہ اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔ غالباً کتاب کا ایک بڑا حسن قرار دیا جاسکتا
ہے۔ ’یادوں کی بارات‘ میں جوش نے جس انداز سے اردو شعرا کی پیکر تراشی کی ہے وہ شاید
کسی اور شاعر نے نہ کی ہو۔ انھوں نے اس کتاب میں ساٹھ سے زائد اشخاص کی قلمی تصویر
یں کھینچ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جوش کو فن ِپیکر تراشی کے شرائط، لوازم اور پابندیوں کا بڑی حد تک ادراک
حاصل تھا۔منجملہ یہ کہ ’یادوں کی بارات‘ ایک ایسی خود نوشت سوانح حیات ہے۔جس میں
جوش نے اپنی زندگی سے وابستہ ہر قسم کے ڈھکے چھپے احوال و کوائف درج کردیے ہیں اور
اس عہد کی تہذیبی و معاشرتی مرقع نگاری کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے۔کتاب کو پڑھ کر
جوش کی شخصیت، زندگی، عہد اور ان کے کارناموں سے پوری آشنائی حاصل کی جاسکتی ہے
اور ساتھ ساتھ زبان و بیان کی سطح پر ایک اعلیٰ ترین فن پارے سے لطف اندوز ہونے کا
موقع بھی ہاتھ آجاتا ہے۔
اردو
مکتوب نگاری میں مجھے سب سے زیادہ غالب کے بے تکلّفانہ لکھے ہوئے خطوط نے متاثر کیا
ہے۔ کیونکہ غالب اردو کے وہ عظیم شاعر اور مکتوب نگار ہیں جنھوں نے سب سے پہلے ایک
نئی روش کے تحت اردو مکتوب نگاری کی بنیاد ڈالی۔ نیز غالب نے اپنے اردو خطوط میں
جن موضوعات پر لب کشائی کی ہے ان میں کچھ کا تو ان کی ذاتی زندگی سے سروکار ہے۔لیکن
انھوں نے اپنے خطوط میں اپنے عہد کے مسائل ومباحث خاص طور پر غدر سے پہلے اور غدر
کے بعد دہلی کی ابتر حالت کا جو تذکرہ کیا ہے اس کے سوا کہیں اور نہیں ملتا۔ ان ہی
وجوہات کی بنا پر ان کے اردو مکتوبات میں نقوشِ گزراں کی متحرک تصویریں اپنی جانب
متوجہ کرتی ہیں۔ غالب کے خطوط کا شیدائی میں اس وقت ہونے لگا جب درس وتدریس میں
مجھے غالب کے خطوط پڑھانے کا موقع میسر ہوا۔ تب ان خطوط کا یہ عالم تھا کہ چند ہی
خطوط پڑھانے کے باوجود میں غالب کے دونوں مجموعوں کا مطالعہ کرنے لگا۔ ان کے خطوط
پڑھ کر اس بات کا بین ثبوت ملنے لگا، کہ انھوں نے اپنے خطوط کے ذریعے اردو نثر میں
بڑی لچک اور وسعت پیدا کرکے دنیا کے تمام موضوعات کو اپنے خطوط میں قید کر لیا ہے۔
انھوں نے خطوط نگاری کے قدیم انداز کو ترک کیا اور اردو نثر کو قافیہ اور مسجع کی
جکڑ بندیوں سے آزاد کرکے،سادہ سلیس اور راست انداز میں مدعا بیان کرنے کی طرح ڈالی۔تحریر
کو تقریر کے قریب کردیا اور یوں ’مراسلے کو مکالمہ‘بنادیا۔غالب نے اپنے خطوط میں
عصری زندگی کی ایسی عکاسی کی ہے۔کہ وہ اپنے دور کی تاریخ بھی بن گئی ہے۔
اردو
مکتوبات کے سلسلے میں مولانا ابوالکلام آزاد کی مایہ ناز تصنیف ’غبار خاطر‘سے
واقفیت حاصل ہوئی۔ مولانا آزاد کی تصانیف میں مذہبی موضوعات پر ان کی کتابوں میں
’ترجمان القران ‘ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ ادبی اور علمی موضوعات پر
سب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت ’ غبار خاطر ‘ کو ہی حاصل ہوئی۔ مولانا صبح کے وقت
اپنے صدیق مکرم کے الفاظ سے ہر خط شروع کر کے مختلف موضوعات پر گفت وشنید کرکے قمیتی
جواہر پارے بکھیر دیتے ہیں۔مولانا نے ’غبار خاطر‘ کے خطوط کو ’نج کے خطوط ‘ کہا ہے
اوران خطوط میں مولانا نے اپنی زندگی کے تجربوں، قید وبند کی صعوبتوں اور دیگر
مسائل سے متعلق شاعرانہ انداز میں بحث کی ہے۔ ان خطوط میں بظاہر مولانا آزاد کا
تخاطب ان کے دوست حبیب الرحمن شیروانی سے ہے۔لیکن یہ تخاطب محض رسما ہے، ورنہ حقیقت
یہ ہے کہ انھوں نے اپنے خیالات کو خطوط کی شکل دے دی ہے۔ انھوں نے خطوط میں ’ چڑے
چڑیاکی کہانی‘ اور ’حکایت ِزاغ وبلبل‘ اور
چائے جیسے موضوعات کو بھی بہت ہی دلکش انداز میں بیان کیا ہے۔ ’غبارخاطر ‘ کے
مطالعے سے مولانا کا وسیع مطالعہ،غیر معمولی قوت حافظہ،مختلف علوم کے بارے میں ان
کی معلومات،فارسی،عربی اور اردو پر ان کی پوری دسترس کا پتا چلتا ہے۔بظاہر یہ ایک
خطوط کا مجموعہ ہے لیکن اسے اردو ادب کے بہترین تاریخی، سیاسی،سماجی،فنی اور سوانحی
مضامین کے ساتھ ساتھ انشاپردازی کا عمدہ نمونہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔
اردو
ادب میں طنزومزاح کو ایک انفرادی حیثیت حاصل ہے۔اس صنف سے تعلق رکھنے والوں میں رشید
احمد صدیقی اور پطرس بخاری کے طنزیہ مضامین پڑھنے کاموقع ملا۔مضامین رشید کے کچھ
مضامین جن سے میں بے حد متاثر ہوا ان میں خاص طور پر ’الیکشن ‘ اور ’چارپائی‘ قابل ذکر ہے۔ الیکشن مضمون میں
مصنف نے بڑے دلچسپ انداز میں الیکشن کا نقشہ کھینچا ہے۔ جیسا کہ ووٹر کو لبھانے کے
لیے امیدوار ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ الیکشن کے دوران مصنف مختلف امیدواروں کے بیچ
میںپھنس جاتا ہے اور اس کی حالت بری ہوجاتی ہے۔
رشید احمد صدیقی کے طنزو مزاح کا سارے نقادوں نے اعتراف کیا ہے۔اور ان کے
فن کا زیادہ انحصار ان کے فقروں اور بذلہ سنجی پر ہے۔وہ دراصل الفاظ کے استعمال
اور اپنے اسلوب سے مزاح پیدا کرتے ہیں۔
پطرس
بخاری کی کتاب’پطرس کے مضامین ‘ کا مطالعہ کیا۔اس کا اشتیاق پیدا ہوا، اس وقت جب
مجھے بارہویں جماعت کے نصاب میں شامل ایک مضمون ’مرحوم کی یادمیں‘ پڑھا یا گیا۔ اس
مضمون سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مرزا کے پردے میں ہزاروں ایسے چالاک،عیار و مکار اور
دھوکے باز لوگ ہیں جو دوستی کی آڑ میں بھولے بھالے لوگوں کو ٹھگ لیتے ہیں اور
اپنے دامن سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔ اس کتاب میں کل گیارہ مضامین ہیں۔ان میں’سنیما کا
عشق ‘ اور’سویرے جوآنکھ میری کھلی‘ خاص
طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان مضامین کا گہرا نقش آج بھی میرے ذہن پر قائم ہے۔ اس کتاب
میں سب سے پہلے انھوں نے اظہار عقیدت کے طور پر اپنے محسن و مربی استاد محترم سعید
احمد صاحب کا شکریہ ادا کیا ہے۔ پھر دیپاچہ کی ابتدا یوں ہوتی ہے۔ ’’ اگر یہ کتاب
آپ کو کسی نے مفت بھیجی تو مجھ پر احسان کیا۔ اگر آپ نے کہیں سے چرائی تو میں
آپ کے ذوق کی داد دیتاہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے،اب
بہتر یہی ہے کہ آپ اس کتاب کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں‘‘۔
غرض ان سارے مضامین کا اندا ز بیان ہی ایسا ہے کہ قاری پل بھر میں ہی پطرس کی ذہنی
اپج اور افتادِ طبع سے واقف ہوکر مضامین کا مطالعہ ایک نئے جوش وجذبے کے ساتھ شروع
کردیتا ہے۔
Dr Showket Ahmad Dar
Gaddapora Shopian-
192231 (J & K)
Cell: 9419294917
Email:u.darshowkat@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں