29/8/22

ہندوستانی آئین میں اردو زبان کا مقام - مضمون نگار: آفتاب عالم

 



انسانی زندگی میں زبان کی اہمیت

 انسان فطری طورپر معاشرے میںایک ساتھ زندگی گزارنا پسند کرتاہے اسی وجہ سے بنی نوعِ انسان نے موجودہ معاشرے کی تشکیل کی ہے۔ زبان انسانی تعلق کا ایک اہم جز ہے۔اگر چہ تمام انواع کے جاندار کے رابطے کے طریقے الگ الگ ہیں لیکن انسان کے رابطے کا ذریعہ صرف زبان ہے۔زبان میں معاشرے کو بنانے اور تباہ کرنے دونوں کی طاقت ہے۔انسان کی زندگی میں زبان کی اہمیت نا قابلِ تردید ہے کیوںکہ جذبات، احساسات اور نظریات کے اظہار اور آپسی تعامل اور تہذیب و تمدن کے تحفظ اور ترسیل کا واحد ذریعہ زبان ہے۔زبان ہی ہے جو انسان کو تمام جاندا ر سے ممتاز کرتی ہے اور اہم، بے مثال اور اعلی ترین مخلوق بناتی ہے۔ زبان صرف ذریعہ مواصلات ہی نہیں بلکہ جب ہم بات کرتے ہیں، پڑھتے اور لکھتے ہیں یہاں تک کہ جب ہم سماج بنانے کے عمل میں ہوتے ہیں، گاڑی چلاتے ہیں یا تجارت کرتے ہیں ہر جگہ زبان کو کسی نہ کسی شکل میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ زندگی کے ہر پہلومیں زبان شامل ہے۔ زبان کی اصطلاحی تعریف یہ کی جاسکتی ہے کہ زبان الفاظ، علامتوں، نشانیوں، آوازوں، اشاروں کا ایک نظام ہے جس کا استعمال ایک طبقہ،قوم اور ایک ثقافت کے لوگوں میں عام ہوتاہے۔

زبان اور ثقافت

زبان اور ثقافت میں ایک گہراربط ہے اور دونوں کے مابین جز اور کل کا رشتہ ہے۔ہر زبان کسی نہ کسی مخصوص قوم اورلوگوں کی جماعت کی نشاندہی کرتی ہے اور اس کی ثقافت کا اظہار اسی زبان کے ذریعے ہوتاہے۔ جب ہم کسی دوسری زبان والے کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس ثقافت کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں۔دنیا کی کسی بھی ثقافت تک رسائی اور اس کی سمجھ بغیر اس کے متعلق زبان کے نہیں ہوسکتی۔ کرامچ (1991)  نے کہا ہے کہ زبان اور ثقافت دونوں لازم اور ملزوم ہیں اور ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ زبان اور ثقافت دونوں ہی انسانی زندگی کے لازمی جز ہیں نیز زبان ثقافت کا تعین کرتی ہے اور اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ثقافت کے بغیر زبان مردہ ہے اور زبان کے بغیر ثقافت کی کوئی شکل نہیں ہوگی۔ زبان انسان کی شخصیت او ر اس کی تہذیب و ثقافت کا لازمی جز ہے جس کا کردار نوع انسانی کو وحشت سے نکال کر معاشرتی زندگی میں لانے میں اہم ہے۔ایک نسل سے دوسری نسل تک تہذیب و ثقافت اور علوم و فنون منتقل کرنے میں زبان کا رول ناقابل فراموش اور ناقابل تردیدہے۔

اردو زبان اور اس کی مقبولیت

اردو زبان خالص ایک ہندوستانی زبان ہے جس میں اتنی شیرینی ہے کہ اس کو محبت کی زبان کہاجاتاہے اور اس کی ابتدا بھی غزل اور عشق و عاشقی کی شاعری سے ہوئی ہے۔ آزادی سے پہلے اور اس کے بعد بھی اس زبان کی مقبولیت میں کبھی کمی نہیں آئی بلکہ بر صغیر کی نہایت مقبول اور ہندوستان کی آئینی زبانوں میں سے ایک ہے۔اس زبان پر عربی اور فارسی کے اثرات ہونے کے باوجود ہندی کی طرح ایک ہند آریائی زبان ہے جس کی پیدائش اور ترقی برّ صغیر ہند میں ہوئی۔اردو اور ہندی دونوں جدید ہند آریائی زبانیں ہیں اور دونوں کی اساس یکساں ہے، صوتی اور قواعدی سطح پر دونوں زبانیں اتنی قریب ہیں کہ ایک زبان معلوم ہوتی ہیں لیکن طریقۂ استعمال اور رسم الخط کی سطح پر دونوں میں فرق نمایاں ہے۔

اردو جنوبی ایشیا کی اہم اور بڑی عوامی زبانوں میں سے ایک ہے اور روز بہ روز اس کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہورہاہے۔ حقیقت میں یہ زبان عوامی تہذیب کی سطح پر ترسیل کا ذریعہ ہے اور فلموں، ڈراموں اور تمام طرح کے تفریحی پروگرام میں وسیع پیمانے پر استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود کہ اردو دنیا کی نئی زبانوں میں سے ایک ہے لیکن اپنے پاس معیاری ادب اوراس کا ایک وسیع ذخیرہ رکھتی ہے اور خصوصاًجنوبی ایشیائی زبانوں میں یہ اپنی شاعری کے حوالے سے مشہوراورمعروف ہے۔

 ہندوستان میں زبان کی پالیسی

ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک میں زبان، تہذیب و تمدن، نسل،مذہب اور ذات و غیرہ کا تنوع نہایت ہی قدیم اور مضبوط ہے۔تنوع اس ملک کی شناخت ہے اورا س کثیر ثقافتی اور کثیرلسانی معاشرے میں موجود امن و شانتی اور بھائی چارے کی وجہ ہے کہ تنوع میں وحدت  کے لیے دنیا میں ہندوستان کی مثال دی جاتی ہے۔ آزادی کے بعدمجلس دستور ساز نے آئین ہند میں بھی اس تنوع کا پاس و لحاظ رکھا ۔ عہد قدیم اور عہد وسطی نیز عہد جدید میں بھی ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مختلف حکمرانوں کی حکومت ہو نے کی وجہ سے مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں۔ اس ملک میں افراد بیک وقت کئی زبانیں استعمال کرتے ہیں مثلاًایک زبان معاشرے میں دوسری زبان آفس میں اور تیسری زبان مذہبی معلومات اور رسومات میں۔ تاریخی طور پر اکثر ممالک میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ہمیشہ مذہبی رسومات، عدالت اور اشراف کی زبان، تعلیم اور ادب و ثقافت کی زبان  اور گھر اور معاشرے کی ایک زبان ہوتی ہے اوراعلی تعلیم اور اشراف کی زبان کا  ہی غلبہ رہتاہے لیکن ہمارا ملک ہندوستان اس معاملے میں منفرد ہے کیوں کہ ہندوستان میں ہر 60-80 کیلومیٹر میں زبانیں بدل جاتی ہیں اور کسی ایک زبان کا غلبہ بھی نہیں ہے۔ ویدک عہد میں رابطے کی زبان سنسکرت تھی،  اس کے بعد پالی، عہد وسطی میں فارسی اورپھر اردو اور انگریزوں کے دور میں انگریزی اور آزادی کے بعد ہندوستان کے مختلف حصوں میں ہندی کے ساتھ اردو بھی رابطے کی زبان ہے۔


آئین ہند

یہ آئین جمہوریہ ہند کا دستور اعلی اور دنیا کا سب سے ضخیم تحریری دستور ہے جس میں جمہوریت کے بنیادی سیاسی نکات اور حکومتی اداروں کے ڈھانچے، طریقہ کار، اختیارات اور ذمے داریوں نیز شہریوں کے بنیادی حقوق، رہنما اصول اور ان کی ذمے داریاں شامل ہیں۔ اس دستور کا معماراعظم ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر  ہیں جو آئین ہند کی مجلس مسودہ سازی کے صدر تھے۔ آئین ہند کے مطابق دستور کو موجودہ پارلیمان  پر فوقیت حاصل ہے لہذا پارلیمان اس دستور کو معطل نہیں کر سکتی ہے۔ آئین ہند کو مجلس دستور سازنے 26 نومبر 1949 کو تسلیم کیا اور 26 جنوری 1950 کو نافذ کیا۔ نفاذ کے وقت یہ دستور 22 ابواب، 8درج فہرست اور 395پر مشتمل تھا اور جنوری 2019 کے ڈاٹا کے اعتبار سے103 ترمیم کے بعد اس دستور میں 25 ابواب، 12 درج فہرست اور 448 ہیں۔ اس ملک کے عاملہ، مقننہ اور عدلیہ کو اختیار اسی دستور سے ملتا ہے اور سب اسی کے پابند ہیں۔

دستور ہندکی دفعہ 21 اور21  اے

 دفعہ21کے تحت اس ملک کے ہر شہری کو اپنی زندگی اور ذاتی آزادی کے تحفظ کا حق حاصل ہے۔ قانون کے ذریعے قائم کردہ طریقہ کار کے علاوہ کسی بھی شخص کو اس کی زندگی اور ذاتی آزادی  سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ دفعہ21 اے شہریوں کو یہ بنیادی حق دیتا ہے کہ ریاست چھ سے چودہ سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم مہیا کرے اور اس کے لیے ریاست قانون بناسکتی ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں چودہ کی عمر کو بڑھا کر 18 کردیاہے۔اب اس میں اسکول کی مکمل تعلیم آجاتی ہے جو مفت اور لازمی اس ملک کے ہر بچے کو دی جائے گی۔

دونوں دفعات سے یہ استخراج ہوتا ہے کہ اس ملک کا ہر شہری اپنی مرضی سے جینے اور آ زادی سے جینے کا بنیادی اور آئینی حق رکھتاہے  اور اس آزادی سے جینے میں اپنے تہذیب و تمدن، ثقافت اور ریتی رواج کے ساتھ جینا شامل ہے۔ 2009 میں Right to Education (آر ٹی ای )ایکٹ پاس ہوا جس کا مقصد اس ملک کے ہر بچے کو مفت اور لازمی اسکو ل کی تعلیم دیناہے۔ لہٰذا وہ اپنے آئینی حقوق، ذمے داریاں اور تہذیب و تمدن، ثقافت اور ریتی رواج اور اس کی اہمیت سے بخوبی واقف ہو جا ئیں گے اور ان کے تحفظ کے لیے اقدامات بھی اٹھاسکیں گے۔جس فرد اور شہری کی تہذیب و تمدن، ثقافت کا حصہ اردو زبان ہے وہ صرف اس کے ساتھ جینے پر اکتفا نہ کرکے اس کے تحفظ کے لیے اپنے آئینی حقوق کا استعمال اور اقدامات بھی اٹھائیں گے۔

ہر مذہب اس کی تعلیمات کسی نہ کسی زبان کے سہارے لوگوں تک پہنچتی ہیں۔اردو کی ابتدائی دور میں ترویج و اشاعت اور ترقی میں صوفیائے کرام کا ناقابل فراموش کردار رہا ہے اور شروع سے ہی مدارس اور مکاتب بھی اس ضمن میں نہات ہی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہندوستان بلکہ اس بر صغیر میں اسلامی تعلیمات اور مذہبی معلومات کا سب سے  بڑا ذخیرہ اردوزبان میں موجود ہے۔مذکورہ بالا دفعات کے ذریعے حاصل شدہ بنیادی حقوق کے حصول کے ضمن میں اردو زبان کا تحفظ اور ترویج و اشاعت کی جا سکتی ہے۔آئینِ ہندمذہب کے تعلق سے جو بنیادی حقوق فراہم کرتاہے اس کے ذریعے مختلف زبانوں کو تخفظ حاصل ہے اور ان کی وجہ سے زبان کی بھی حفاظت کی جاسکتی ہے۔  

دستور ہندکی دفعہ 29 اور 30

دفعہ 29 اور 30 دونوں اقلیتوں کو کچھ مخصوص حقوق کی ضمانت دیتی ہیں۔دفعہ 29 اقلیتوں کے مفاد کا تحفظ اس طرح کرتی ہے کہ کوئی بھی الگ زبان، رسم الخط اور ثقافت رکھنے والے شہری اور قوم کو اپنے ان امور کے تحفظ کا مکمل حق حاصل ہے۔ ان دفعات کے تحت کسی کے ساتھ بھی مذہب، نسل، ذات، زبان یا ان میں کسی کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کیا جاسکتا۔دفعہ 30 اقلیتوں (مذہب یا زبان کی بنیاد پر ہو)  اس بات کا حق دیتا ہے کہ وہ اپنے اعتبار سے تعلیمی ادارے قائم کریں اور انتظام کریں۔ حکومت اقلیتوں کے اداروں میں مداخلت نہیں کرسکتی  اور ناہی ان کے ساتھ امتیازی سلوک کر تے ہوئے ان کی امدادروک سکتی ہے۔لسانی اور مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے قومی اقلیتی کمیشن کا قیام عمل میں آیاہے۔

یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ زبان افراد کی ثقافت اورتہذیب و تمدن کا ایک جزوِلاینفک ہے  اور جن لوگوں کی زبان اردو ہے یہ ان کی بھی ثقافت کا ایک حصہ ہے۔ لہذا اس کے بولنے والوں کو مکمل آئینی حق حاصل ہے کہ اس کا تحفظ کریں اور اس غرض سے اپنے تعلیمی ادارے قائم کریں اور حکومت سے امداد بھی حاصل کریں۔آئین ہند کی یہ دو دفعات اردو  زبان والوں کو بنیادی حق دیتی ہیں کہ اس زبان کے فروغ اور ترقی کے لیے ہمہ جہت کوششیں کریں۔ان ہی دفعات کے تحت ملک میں لاکھوں لسانی اقلیتی تعلیمی ادارے قائم ہیں اور لسانی خدمات میںمشغول ہیں خصوصی طورپر اردو زبان میں تعلیم دینے والے تعلیمی ادارے لا محدود ہیں جن سے اردو زبان کابراہ راست فروغ ہورہاہے۔

دستور ہند کی دفعہ 350، 350اے اور 350 بی

دفعہ 350 ہر شہری کو حق دیتی ہے کہ وہ اپنی شکایت کے ازالے کے لیے یونین اور صوبے کے کسی افسر یا اتھارٹی کے پاس اس ملک میں استعمال ہونے والی کسی بھی زبان میں اپنی نمائندگی پیش کرے۔ 350 اے کے تحت اس ملک کی ہر ریاست اور مقامی اتھارٹی کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ لسانی اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو تعلیم کے بنیادی مرحلے میں مادری زبان میں تعلیم کے لیے مناسب سہولیات مہیا کریں۔ صدر جمہوریہ کسی بھی ریاست کو اس طرح کی ہدایات جاری کرسکتے ہیں اگر وہ اس طرح کی سہولیات کی فراہمی کو محفوظ بنانے کے لیے ضروری یا مناسب سمجھتاہے۔ 350 بی کے تحت  لسانی اقلیتوں کے لیے ایک خصوصی افسرکی تقرری  صدر جمہوریہ کے ذریعے کی جائے گی۔یہ افسر آئین کے تحت لسانی اقلیتوں کو حاصل شدہ حقوق کی حفاظت سے متعلق تمام معاملا ت کی تحقیقات کرے گا اور صدر جمہوریہ کو رپورٹ کرے گا، یہ رپورٹیں ہرسال ایوان کے سامنے رکھی جائیں گی اور متعلقہ ریاستوں کی حکومتوں کو بھی بھیجی جائیں گی۔ ان دفعات کے مدنظر اردو کے محبین حکومتی معاملات میں اردو زبان کا کثرت سے استعمال کرسکتے ہیں اور حکومتوں کو پابند کراسکتے ہیں کہ ان کے بچوںکو اردو زبان میں ہی بنیادی تعلیم مہیاکرائیں اور ایسا نہ ہونے پر اس کی شکایت اس افسر سے کرسکتے ہیں۔

دستور ہندکی دفعہ 345 اور 347

دفعہ 345 ملک کی ہر ریاست کو حق دیتی ہے کہ وہ اپنی مقننہ کے ذریعے ریاست میں بولی جانے والی زبانوں میں سے کسی ایک یا زیادہ زبان کو سرکاری زبان کے طورپر اپنا سکے۔دفعہ 347 کے تحت ریاستیں اپنی عوام کے ایک مخصوص طبقے کے ذریعے بولی جانے والی زبان کو پوری ریاست میں یا کسی خاص حصے میں ان عوام کے تقاضے پر حکومتی زبان کے طورپر مان سکتی ہیں اور مخصوص انتظامات کرسکتی ہیں۔

نئی تعلیمی پالیسی2020 اور ہندوستانی زبانوں کا فروغ

 نئی تعلیمی پالیسی ہندوستان کی اکیسویں صدی کی سب سے اہم تعلیمی پالیسی ہے جو ایک لمبے انتظار کے بعد 2019 میں ایک مسودے کی شکل میں پیش کی گئی۔ ہندوستان کی یونین کابینہ نے اس مسودے کو 29 جولائی 2020 کو اپنی منظوری دی۔ یہ پالیسی ہر زاویے سے انقلابی، دوررس اور جامع ہے اور تعلیم کے تمام پہلوؤ ں جیسے بنیادی تعلیم، اعلی تعلیم، درس و تدریس، نصاب، تعلیمی نظم و نسق،صنعتی تعلیم، تعلیمی سرمایہ کاری، تعلیم بالغان اور تکنیکی تعلیم وغیرہ پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اس پالیسی نے ملک کے تعلیمی ڈھانچے کے سارے زاویے جیسے قوانین، انتظام اور نظم و ضبط وغیرہ میں تصحیح اور سدھار کی پیشکش کی تا کہ ایک ایسا نیا نظام تیار کیا جا ئے جو اکیسویں صدی کے مقاصد کو پورا کرے اورامیدوں پر کھڑاترے۔

اس پالیسی کے ذریعے تمام ہندوستانی زبانوںجن میں اردو بھی شامل ہے کے تحفظ، نشو و نما اور فروغ کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس پالیسی میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہر علاقے کی ثقافت وروایات کی صحیح شمولیت، اس کا تحفظ اور اسکولوں میں تمام طلبا کی صحیح تفہیم اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب قبائلی زبانوں سمیت تمام ہندوستانی زبانوں کو مناسب احترام دیاجائے۔ اس طرح صحیح معنوں میں ہندوستان کی زرخیززبانوں جیسے اردو زبان اور ادبیات کا تحفظ کرنا با لکل ناگزیر ہے۔ اس پالیسی میں اس کی یقین دہانی کی گئی ہے کہ پورے ہندوستان میں مضبوط قومی اور علاقائی زبان اور ادب کے پروگراموں، اساتذہ کی تقرری، تحقیق اور کلاسیکی زبانوں کے فروغ کے ذریعے زبان، ادب اور سائنسی الفاظ پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔کلاسیکی زبان و ادب کے فروغ کے لیے موجودہ قومی اداروں کو مضبوط کیا جائے گا اور ایک قومی انسٹی ٹیوٹ برائے پالی، فارسی اور پراکرت بھی قائم کیا جائے گا۔سائنسی اور تکنیکی اصطلاحات کے کمیشن (Commission for Scientific and Technical Terminology)کا منشور اور فرمان یعنی ملک بھر میں یکساں استعمال کے لیے ذخیرہ الفاظ تیار کیا جائے گا۔

خاتمہ

مذکورہ بالا آئین کی دفعات اور ان میں اس ملک کے شہریوں کو دیے گئے حقوق اردو کی ترقی اور فروغ کا ضامن ہیںبشرطیکہ اس زبان کے بولنے والے اور اس کی محبت کا دعوی کرنے والے ان دفعات اور حقوق سے واقف ہوں۔ محض واقفیت بھی کافی نہیں ہے بلکہ اس زبان کی ترقی اور فروغ کے لیے دیگر زبانوں کی طرح سعی مسلسل کی ضرورت ہے۔

اس زبان کی ترقی کے لیے خلوص کے ساتھ اس زبان کا کثرت سے استعمال کرنے، تعلیمی ادارے جہاں ذریعہ تعلیم اردو ہوقائم کرنے، اور اردو زبان کے فروغ کے لیے اس ملک میں قائم اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔اس زبان کے تحفظ کے لیے آئین ہند کی جانکاری اور اس کی تعمیل نیز جمہوری اقدار اور طریقہ کار کو اپنانے کی ضرورت ہے۔اس زبان میں اتنی حلاوت ہے کہ یہ زبان بذات خود ترقی کی راہ طے کرے گی بشرطہ کہ اس کے راستے میں رکاوٹ پیدانہ ہو اور اگر ہو تو اس کو دور کیا جائے۔

 

Aftab Alam

College of Teacher Education,

MANUU)Darbhanga, Ilyas Ashraf Nagar

Chndanpatti, Laheria Sarai

Darbhanga- 846002 (Bihar)

Mob.: 8285835517

 






یوسف ناظم جہان طنز و مزاح کا لاثانی ناظم - مضمون نگار : قیصر الحق

 



 یوسف ناظم کا اصل نام سید محمد یوسف تھا اور تخلص ناظم۔ ادبی دنیا میں یوسف ناظم کے قلمی نام سے مشہور ہیں۔ آبائی وطن جالنہ جوکہ اب ریاست مہاراشٹرا کا ایک ضلع ہے۔ ان کی ولادت 18 نومبر 1918 کو اسی مقام (جالنہ)پر ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اورنگ آباد اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ عثمانیہ حیدر آباد چلے گئے۔ نوکری کے سلسلے میں مہاراشٹر کے لیبر آفیسر تعینات ہوئے اور 1976میں بحیثیت اسسٹنٹ کمشنر آف لیبر وظیفے پر سبکدوش ہوئے۔ ان کی وفات 23 جولائی 2009 کو مہاراشٹر میں ہی ہوئی۔

یوسف ناظم نے مزاح نگاری کی شروعات 1944 میں کی۔ مزاحیہ تحریر کو پڑھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے تقریباً خالی الذہن ہو کر شروع کیجیے اور بے جھجک تحریر کی شاہراہ پر گامزن ہوجائیے۔ یوسف ناظم اپنے مزاح کا خمیر تو زندگی ہی سے اٹھاتے ہیں۔ان کے لیے خیال یا زندگی کا ہر وہ واقعہ ہدف ہے، جس سے مزاح پیدا ہوسکے۔ مولوی سے لے کر موت تک وہ ہر شے پر مسکراتے ہیں، مگر یہ مسکراہٹ کسی دل آزار طنز میں تبدیل نہیں ہوتی۔ یوسف ناظم کے مزاح کی شائستگی بنیادی طور پر دلآزاری کے خلاف معلوم ہوتی ہے۔ ظرافت میں وہ پست ہمتی کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ زندہ اور جاں بخش فضا قائم کرتے ہیں۔ کامل نظم و نسق سے یوسف ناظم زندگی کی تلخ حکایتوں اور حقیقتوں کی طرف ہلکے ہلکے خیال افروز اشارے کر کے قاری کو اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ یوسف ناظم شریفانہ مزاح کے قائل نظر آتے ہیں۔ مثال ملاحظہ کیجیے:

’’اگر یہ بات مان لی گئی ہے کہ آدمی حیوان ظریف ہے تو یہ بھی تسلیم کر لینا چاہیے کہ دنیا کی تخلیق ظرافت کی خاطر ہوئی ہے........ علاوہ ازیں اس کتاب کا نام میں نے ’فی الفور‘ یہ سوچ کر رکھا تھا کہ یہ جلد شائع ہوگی۔ ہمارے یہاں ہر وہ کام جو دو سال کی تاخیر سے انجام پائے ’فوری‘ ہی سمجھا جاتاہے۔‘‘ (فی الفور، یوسف ناظم،ص3-4)

یوسف ناظم وہ طنز و مزاح نگار ہیں جنہوں نے زود نویسی کے باوجود تحریروں میں اپنے معیار کو زیادہ تر برقرار رکھا ہے۔ ان کے یہاں مشاہدے کی تیزی بھی ہے اور گہرائی بھی۔ بظاہر وہ دنیا سے بے نیاز معلوم ہوتے ہیں لیکن ان کی تحریروں میں زندگی کی رنگارنگی، تگ ودو، کشمکش،نشیب و فراز اور خوب و خراب کی تمام تر عکاسی ملتی ہے۔ یوسف ناظم لگتا ہے جتنا وقت لکھنے پر صرف کرتے ہیں، اس سے زیادہ وقت کیا لکھیں اور کیسے لکھیں پر صرف کرتے ہیں۔یہ فقط طنز و مزاح کا کمال نہیں بلکہ موضوعات اور مسائل کا گہرائی اور گیرائی کے ساتھ مطالعہ کرنے اور ان کو ایک خاص زاویے سے دیکھنے کی دلیل بھی ہے۔ یہاں تذکرہ شادی کے دعوت ناموں کا،نامی گرامی پر یس کی بیمار مشین کا اور اردو کے رسائل کی تاخیر سے چھپنے پر تیکھا وار نظر آتا ہے۔ مثلاً یہ اقتباس:

’’کوئی نامی گرامی پریس اسے چھاپنے کے لیے رضامند نہیں ہوتا کیونکہ ان کی مشین اکثر بیمار رہتی ہے۔ بہت اصرار کیا جائے تو جواب ملتا ہے کہ کارڈ تو ہم چھاپ دیں گے لیکن یہ کام شادی کی تاریخ گزرنے کے بعد ہی پایہ تکمیل کو پہنچ پائے گا۔ چاق و چوبند رکن خاندان پریس کے منیجر کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ بھائی صاحب شادی کا دعوت نامہ ہے اردو کا کوئی رسالہ نہیں ہے کہ جب چاہے چھاپ دیا جائے۔‘‘ (فی الحقیقت، یوسف ناظم،ص37)

یوسف ناظم کی وطن دوستی،استحصال کے خلاف احتجاج، معاشی بدحالی،کساد بازاری، معاشرتی انتشار، اقدار کی زوال پذیری،برسر اقتدار طبقے کی بے راہ روی اور سیاستدانوں کی خرمستیوں پر ان کے بے لوث اور مخلصانہ ردعمل نے ان کی تحریروں میں جاذبیت پیدا کردی ہے۔ یوسف ناظم کو اپنے قلم کی نمائش منظور نہیں، وہ ہنسنے ہنسانے کا سامان قاری کو فراہم تو کرتا ہے لیکن اس سے ماورا معاشرتی صلاح و فلاح کا مقصد ان کے مضامین سے مترشح ہوتا ہے۔ عصر حاضر میں انسانی فطرت کے ایک پہلو پر بے حد بلیغ اور دوٹوک طنز ملاحظہ ہو:

’’ اب ایسی مشینیں بن گئی ہیں جو یہ بتاسکتی ہیں کہ آدمی سچ بول رہا ہے یا جھوٹ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آخر یہ تجربہ کس امید پر کیا جارہا ہے۔ کیا اب بھی کوئی ایسا بدنصیب ہے جو سچ بولے۔‘‘ (بالکلیات، یوسف ناظم،ص47)

یوسف ناظم کا مزاح ان کی شوخ طبیعت اور زبان کی شگفتگی و شیرینی کے توازن سے تخلیق پاتا ہے۔ فکرو خیال اور الفاظ و امثال کی ہم آہنگی سے بڑا لطف پیدا ہوجاتا ہے۔ ان کی تشبیہات میں بلاکی ندرت ہے جس سے حسِ مزاح کو تحریک ملتی ہے۔ ان کی کم و بیش ہر تحریر میں ظرافت و شگفتگی،بذلہ سنجی و برجستگی،سادگی و سلاست، مدھم لہجہ اور فکر انگیز خیالات کے دل نشین جلوئے نظر آتے ہیں۔ سبک خرامی یوسف ناظم کی تحریر کا ایک اہم وصف ہے۔ اگر آپ ان کی تحریروں میں دریائوں کی روانی کو محسوس کرنا چاہیں تو شاید آپ کو مایوسی ہوگی۔ کیونکہ یوسف ناظم رک رک کر لکھنے کے عادی اور تھم تھم کر بہنے کے قائل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آنسو اگر اصلی ہوں تو نمکین ضرور ہوں گے۔لکھتے ہیں:

’’ آدمی کے آنسو ذائقے میں نمکین ہوتے ہیں، شرط یہ ہے کہ آنسو اصلی ہوں...... آنسوئوں کے نمکین ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی جب بھی اپنے منہ کا مزہ بدلنا چاہتا ہے، اپنے آنسو پی لیتا ہے۔(آدمی کتنا خود مکتفی ہے)

(فی الحال،یوسف ناظم،ص15)

مندرجہ بالا اقتباس کا آخری جملہ قوسین یعنی Brackets میں ہے۔ غور کیجیے کہ اس جملے میں کیسی زبردست چوٹ گئے ہیں۔ اس طرح کے قوسینی جملے یوسف ناظم کی اہم خصوصیت ہے۔ وہ اپنے تقریباً ہر اہم نثر پارے کے اختتام پر ایک چھوٹا سا جملہ قوسین میںلکھتے ہیں۔یوسف ناظم کے قوسینی جملوں کے چرچے جہانِ ادب میں ہر سو پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک مزاح نگار مسیح انجم نے انھیں ’یوسفِ قوسین‘ کا خطاب بھی دیا۔ یوسف ناظم کی مزاحیہ خاکہ نویسی میں فن اور شخصیت کا سنگم نظر آتا ہے۔  وہ شخصیت پر لکھتے ہیں تو فن کی پر تیں کھلنے لگتی ہیں اور فن پر لکھتے ہیں تو شخصیت ابھرنے لگتی ہے۔ زمانے کی تلخی اگر زبان کی تلخی میں بدل جائے تو یہ مزاح نہیں مذاق ہے لیکن اگر زمانے کی تلخیوں کو گھول کراس میں ظرافت کی شیرینی پیداکی جائے تو یہ مزاح ہے جو فن کارکے باطن سے پھوٹتا ہے۔ یوسف ناظم کی نگارشات میں سطحی تمسخر نہیں بلکہ گہرائی ہے کیونکہ طنزو مزاح ان کے درون سے پھوٹ رہا ہے۔ ان کے فنی کمالات میں عالمانہ شان اور ان کے مختصر جملوں میں شاعرانہ آن بان محسوس ہوتی ہے۔ وہ ظریفانہ واقعات، عملی مذاق اور تمسخر سے مزاح پیدا نہیں کرتے بلکہ فضابندی، ماحول آفرینی،مرقع نگاری اور اسلوب کے ذریعے مزاح کی محفلیں سجاتے ہیں۔ طولِ کلام سے اجتناب کی رعایت، محاوروں کا برجستہ برتائو وغیرہ ان کے اہم تخلیقی اوصاف تصور کیے جاتے ہیں۔ وہ زندگی کے معمولی واقعے یا عام مشاہدے کو بھی تلازمات،تعبیروں اور منفرد تاویلوں کے طفیل لطف انگیز بناتے ہیں۔ ان کے یہاں نہ شکوہ و شکایت ہے نہ نصیحت و فہمائش، ان کی تمام تر جستجو فرد اور اجتماعیت کی قباحتوں کو دیکھنے اوردکھانے کی آرزو سے تعبیر کی جاسکتی ہے۔

یوسف ناظم کے طنز و مزاح کا قوی موضوع معاشرہ ہے۔اس کے خدوخال کی مختلف شکلوں کو انھوں نے اپنی تحریروں میں خوبصورتی کے ساتھ جگہ دی ہے۔ سماج میں طویل مدت سے رہائش پذیر خاندانوں کی منفرد طرزِ حیات کے متنوع گوشے اور میل جول کی روایتی وابستگی کا احساس یوسف ناظم کے فن پاروں میں نظر آتا ہے۔ وہ کسی بھی شخص کی ذات کو طنز کا نشانہ نہیں بناتا بلکہ خوشگوار انداز میں شخصیت کی آبرو اور وقار کا لحاظ رکھتا ہے۔ طنز کی اعلیٰ قسم وہی ہے جو شخص کے ذاتی معاملات اور نجی جذبات کی نشترزنی سے پر ہیز کر کے اس کے ظاہر و باطن پر یکساں اور فلاحی سوچ رکھتا ہو۔ خیال رہے کہ مزاح مذاق نہ بن جائے اور طنز تشدد کا روپ نہ اختیار کرے۔ یوسف ناظم ان نازک مراحل کو فنکارانہ مہارت کے ساتھ طے کرتے ہیں۔ اس تعلق سے آفاق صدیقی لکھتے ہیں:

’’یوسف ناظم کا طنز ان کی خود کی ذات کی الجھنوں اور ذاتی معاملات کی تلخیوں کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کے طنز و مزاح کی اساس ذاتی اغراض و مقاصد پر مبنی ہے، بلکہ اپنی تحریروں میں انھوں نے اپنے عہد کے مختلف النوع معاملات اور گوناگوں ناہمواریوں اور عام زندگی کے بے ڈھنگے پن کو طنز و مزاح کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا معاشرہ ان کے طنز و مزاح کا موضوع ہے اور اسی معاشرے سے انھوں نے طنز و مزاح کا مواد حاصل کیا ہے۔‘‘

(مضمون ’طنز و مزاح اور یوسف ناظم‘،آفاق حسین صدیقی، ماہنامہ ’شاعر‘ فروری 1980،ص22)

یوسف ناظم کے فنِ طنز و مزاح کو جو عناصر نکھارتے اور سنوارتے ہیں، ان میں انشا پردازی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ان کو بات کہنے ہی کا نہیں بلکہ بات سے بات نکالنے کا ہنر بھی خوب آتا ہے۔ اس لیے ان کے یہاں موضوعات کا وافر ذخیرہ دستیاب ہوتا ہے۔ ان کے اسلوب میں متنوع رنگ جھلکتے ہیں اور لوچ و لچک ایسی کہ جس موضوع پر قلم آرائی کرتے ہیں، وہ اپنے اسلوب سے ہم آہنگ نظر آتا ہے، گویا یہ اسلوب اسی موضوع کا متقاضی ہے۔ زبان و بیان پر قدرت ہو تو طنز ومزاح نگار کے نقش و نگار ابھر آتے ہیں۔ یوسف ناظم نے اپنے مضمون ’انگریز ہندوستان میں۔ تاریخ جدید‘ میں برطانوی عہد کی تاریخ کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ واقعات میں بنیادی طور پرکسی تبدیلی کے باوجود برطانوی سامراج کے ظلم و ستم، مالی استحصال، چیرہ دستی، درندگی، سفاکیت اور مردم آزاری تمام وکمال اجاگر ہوجاتی ہے۔ ایسے مضامین میں ان کا فن بامِ عروج پر ہوتا ہے۔ وہ کچھ نہیں کرتے،صرف اپنے اسلوب سے کام لیتے ہیں۔ الفاظ کا الٹ پھیر،دھیما اور مدھم لہجہ بات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے۔ گورنر جنرل لارڈ کارنوالس کے حوالے سے ملاحظہ ہو، برطانوی سامراج پرلطیف اور بھرپور طنز:

’’ کارنوالس پہلا انگریز تھا جس نے ہندوستان جیسے ملک میں مرنا قبول کیا۔ تاہم یہ بات یاد دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ جس وقت کارنوالس ہندوستان میں مرا، ہندوستان انگریزوں کے لیے ’دیارِغیر‘ نہیں بلکہ ان کا اپنا ہی وطن تھا۔‘‘ (دامنِ یوسف، عنایت علی، ص29)

اسلوب سے طنز و مزاح پیدا کرنا اس فن کی اعلیٰ سطح ہے۔ یوسف ناظم کے یہاں اس کی خوبصورت مثالیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ انھوں نے اکثر و بیشتر مراحل پر طنز نگار کی ذمے داری نبھائی ہے۔ وہ اپنے طنز کو مزاح کے شیریں کیپسول میں پیش کرتے ہیں۔ طنز کے بغیر مزاح پھکڑپن اور سرکس بازی کے مسخروں کی حرکتیں بن جاتا ہے۔ مزاح کے بغیر طنز بھی واعظ خشک کی نصیحتیں،تلخ و ترش اور زہرناکی کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ یوسف ناظم کے یہاں طنز کا پلڑا بھاری ہونے کے باوجود مزاح کی آمیزش کچھ یوں ہوتی ہے کہ دونوں کو علیحدہ کرنا مشکل کام معلوم ہوتا ہے۔ عمومی طنز اور تیر بہ ہدف طنز یونہی معرضِ وجود میں نہیں آتا بلکہ اس کے لیے غورفکر کی عمیق ضرورت ہوتی ہے۔ طنزو مزاح کی فنی پختگی کا راز یہی ہے کہ قلمکار کو منجملہ زندگی کے تمام نشیب و فراز سے علم و آگہی حاصل ہونی چاہیے، تب جاکر ادب عالیہ کے اہم فن پارے وجود میں آتے ہیں۔

طنز و مزاح نگاری میں یوسف ناظم کا منفرد اسلوب اپنی مثال آپ ہے۔ اردو زبان کی باریکیوں پر انھیں خلاقانہ دسترس حاصل ہے۔ الفاظ اور محاوروں کو نئی معنوی جہات دے کر مزاح اور طنز کے نت نئے پہلو تراشنے میں وہ حقیقی فنکار معلوم ہوتے ہیں۔ یوسف ناظم ادب کے علاوہ ہمعصر عالمی صورت حال، سیاست، معیشت اور کلچر کے باہمی رشتوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کی تخلیقات میں پختہ سماجی شعور اور ادبی بصیرت کے گوناگوں رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کا مزاح جہاں بادِ نشاط پلاتا ہے وہیں زخم پنہاں کا بھی پتہ دیتا ہے۔ مزاح کی شوخی گفتار میں دانش و بینش کی ایک دنیا آباد ہے۔ انھوں نے اپنی شگفتہ تحریروں سے دکھی دلوں کی مسیحائی کی اور زندگی کے ستائے انسانوں کو زندگی کی ناہموار یوں پر ماتم کرنے کے بجائے زندہ دلی سے مسکرانے کا سلیقہ سکھایا۔ یوسف ناظم اپنے فن کے ذریعے پوری دیانت داری، خلوص اور انہماک کے ساتھ اس کا رِ خیر میں مصروف رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے فن کا رشتہ عام انسانوں اور انسانی فطرت کے مشترکہ عناصر سے جوڑے رکھا۔

 

Qaisarul Haq

Research Scholar (SRF)

Dept of Urdu, University of Kashmir

Hazratbal

Srinagar - 190006 (J&K)

Mob.: 6005283230

 





26/8/22

بہار میں شعری ادب اطفال - مضمون نگار : رئیس انور

 



ادب کا بنیادی مقصد انسانی جذبات و احساسات کی ترجمانی ہے اوریہ ترجمانی ایسے دلکش، چنندہ اور مؤثر لفظوں کی بہترین ترتیب میں ہوتی ہے کہ پڑھنے والا مسرور اور محظوظ ہوتا ہے۔ اس پر ایک کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اس کی آگہی میں اضافہ ہوتاہے۔ ذہن و دل میں زندگی کی نا آشنا سچائیوں کے ستارے جھلملا اٹھتے ہیں۔ اس طرح ادب کا کام محض خیال یا احساس کی ترجمانی کرنا اور قاری کوحظ پہنچانا نہیں، عرفان و آگہی کی روشنی بکھیرنا بھی ہے۔

بات اگر ادب اطفال کی ہو تو اس تعریف میں قدرے ترمیم لازمی ہے کیونکہ بالغ اور باشعور قاری کی فہم و فراست اور نفسیات پختہ اور بالیدہ ہوتی ہے۔ وہ لفظوں کی ترتیب و تزئین کے اشاروں اور معنیاتی دائروں سے واقف ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس بچوں (جن کی عمر چار سال سے بارہ سال تک کے درمیان ہو) کی سمجھ کی سطح، ان کی دلچسپیاں، ان کی خواہشیں، ان کی خیالی دنیا، ان کے خواب، ان کے الفاظ کا ذخیرہ، ان کا لسانی شعور اور ان کا موسیقیاتی لگائو بالکل الگ ہوتا ہے۔

بچے قوم و ملک کے بیش قیمت اثاثہ ہیں۔ جس طرح ان کی جسمانی پرورش و پرداخت کے لیے انھیں صاف ستھری آب و ہوا اور صحت بخش غذا فراہم کی جاتی ہے، اسی طرح ان کی ذہنی نشو و نما کے لیے صالح، روشن خیال، نصیحت آمیز اور اخلاقیات پر مبنی ادب سے ہم آہنگ کیا جاتا ہے تاکہ ان کی جسمانی اور ذہنی بالیدگی توازن کے ساتھ ہوسکے۔اس اہم اور بنیادی فریضے کا آغاز ماں کی گود سے ہوتاہے۔ بہت سی بامعنی اور بے معنی باتیں سنتے سنتے بچہ جب کچھ بولنے کے مرحلے میں آتا ہے تو اپنے آس پاس کی دنیا ہی نہیں، زمین سے آسمان تک نظر آنے والی ساری چیزوں کے متعلق سوال کرتا ہے۔ اپنے ٹیڑھے میڑھے اور اٹ پٹے سوالوں کے ذریعے دراصل وہ اپنے خاندان، سماج اور کائنات سے جڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ چار سال کی عمر کے بعد بچوں کا شعور بیدار ہونے لگتا ہے اور اسی کے ساتھ ان کا زبانی درس، تحریری صورت میں ڈھلنا شروع ہوجاتا ہے۔ لوریوں سے آگے نکل کر بچے پریوں کی کہانیوں، دیومالائی اور اساطیری قصوں، کرشماتی اور جادوئی واقعات، اخلاقی اور مذہبی حکایتوں اور پہیلیوں میں دلچسپی دینے لگتے ہیں۔ یہ سب نہ صرف بڑے چائو سے سنتے ہیں بلکہ یاد رکھنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ ہلکی پھلکی نظمیں اور گیت بھی مزے لے لے کر دہرانے لگتے ہیں۔ بچوں کی زندگی کا یہ دور بہت اہم ہوتا ہے۔ ا ن کی تربیت کے لیے ہر زبان کے قلمکاروں نے ایسے ادب پاروں کی تخلیق کی ہے جن کا مقصد انھیں لفظوں کی نغمہ بار لہروں میں ہچکولے دلانا، ہلکی پھلکی سچائیوں سے آگاہ کرنا اور ان کے اندر ایک پرتجسس، رنگا رنگ اور جگمگاتی دنیا خلق کرنا ہے۔

اردو میں ادب اطفال کی ایک بسیط تاریخ اور توانا روایت موجود ہے۔ غالباًاس کی شروعات تُک بندی والی لوریوں اور پہیلیوں وغیرہ سے ہوئی۔ ابتدائی نمونے کے طور پر محققوں نے تیرہویں صدی عیسوی کے مشہور فارسی شاعر امیر خسرو سے منسوب کئی ہندوی ؍  دہلوی دو سخنے، کہہ مکرنیاں اور پہیلیاں پیش کی ہیں۔ یہاں ان میں سے چند درج کی جاتی ہیں            ؎        

دو سخنے:

 

انار کیوں نہ چکھّا

وزیر کیوں نہ رکھّا

(دانا نہ تھا)

 

 

سموسہ کیوں نہ کھایا

جوتا کیوں نہ پہنا

(تلا نہ تھا)

کہہ مکرنی:

 

وہ آئے تب شادی ہوئے

اس میں دوجا اور نہ کوئے

 

 

 

میٹھے لاگیں اس کے بول

اے سکھی ساجن نہ سکھی ڈھول

(ڈھول)

پہیلی:

(1)

فارسی بولوں آئینہ

ترکی ڈھونڈھی پائی نہ

 

 ہندی بولوں آرسی آئے

خسرو کہے نہ کوئی بتائے

(آئینہ)

 

(2)

ایک کہانی میں کہوں سن لے میرے پُوت

 بن پنکھوں وہ گیا، باندھ گلے میں سوت 

(پتنگ)

فی الحال اس سے بحث نہیں کہ یہ تخلیقات امیر خسرو کی ہیں یا نہیں، دیکھنا صرف یہ ہے کہ قدیم صنفوں کے ان نمونوں میں بالکل سامنے کی باتیں آسان لفظوں اور دلچسپ انداز میں کہی گئی ہیں۔ ان میں ہندوستانی Textureہے اور ہندوستانی بچوں کے مزاج کی ترجمانی ہے۔ بعد کے دور میں جب اردو کا چوکھا رنگ ابھر کر سامنے آیا تو میر، نظیر اکبر آبادی، اسماعیل میرٹھی، آزاد اور حالی سے علقمہ شبلی، محبوب راہی، سراج انور اور حافظ کرناٹکی تک شاعروں، فکشن نگاروں اور مضمون نگاروں نے ادب اطفال پر بھی توجہ دی اور ایک قابل قدر ذخیرہ ہوگیا۔

بہار میں بھی نہ ادب اطفال کی کمی ہے اور نہ قلمکاروں کی۔ کئی جانے مانے قلمکاروں نے کبھی کبھی اپنی تخلیقی صلاحتیں بچوں کے لیے وقف کی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ مختلف شہروں سے بچوں کے لیے رسالے بھی نکلتے اور بند ہوتے رہے ہیں۔ خوبصورت تصویری کتابچے بھی بڑے اہتمام سے شائع ہوئے ہیں۔ جہاں تک شعری ادب اطفال کا تعلق ہے، پچھلی صدی میں شاد عظیم آبادی کو اولیت حاصل ہے۔ انھوں نے نہ صرف مختلف اصناف پر طبع آزمائی کی اور نو کلاسیکی غزل گو کی حیثیت سے اپنی ایک پہچان بنائی بلکہ بچوں کے لیے بھی عمدہ نظمیں لکھیں۔ انھوں نے اپنی نظموں میں بچوں کے فکر و شعور اور سہل زبان کا خاص لحاظ رکھا ہے۔ نظم ’نیند سے چونکو‘ میں وہ بچوں سے کتنے پیار بھرے لہجے میں مخاطب ہوتے ہیں          ؎

گہری نیند سے سونے والو

وقت کو اپنے کھونے والو

رات کٹی کچھ تم کو خبر ہے

چونکو، چونکو وقت سحر ہے

چاند کی رنگت ہوگئی میلی

دیکھو چمک سورج کی پھیلی

——

کوئلیں کوکیں، کُو کُو، کُو کُو

یاہو بولے، یاہُو، یاہُو

نیند سے چونکے پنکھ پکھیرو

بول رہے ہیں شاخوں پر ہر سو

کھِل گئیں کلیاں باغ کی ساری

چار طرف ہیں نہریں جاری

——

اٹھو، اٹھو احمد اٹھو

منہ کو دھوکر کپڑے پہن لو

سیر کرو، میداں کی نکل کر

پھول کو دیکھو، باغ میں چل کر

شاد عظیم آبادی نے اس نظم میں چھوٹے بچوں کا دل لبھانے کے لیے باغ، پھول، چرند پرند اور صبح کے خوبصورت نظارے کا ذکر کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انھیں سویرے اٹھنے اور وقت کی قدر کرنے کی ہدایت دی ہے۔

شاد نے اور بھی نظمیں بچوں کے لیے لکھی ہیں۔ ایک نظم ’گائے‘ پر بھی ہے مگر اس کے مقابلے میں ان کے معاصر اسماعیل میرٹھی کی مشہور نظم ’ہماری گائے‘ کی زبان و بیان زیادہ سلیس اور رواں ہے۔

بہرحال ان کے بعد عبدالغفو ر شہباز ایسے شاعر ہیں جنہوں نے کئی نظمیں بچوں کے لیے لکھیں مثلاً بیر، جلیبی، پڑھنا، کھیل، ہنر مند گڑیا، ولایتی گڑیا، سہیلی کا بیاہ، شکریۂ پنیر، باغ کی بہار، چڑیا چڑے کی کہانی وغیرہ۔ شہباز کے یہاں دو طرح کا اسلوب ملتا ہے۔ پہلے نظم ’پڑھنا‘ کے یہ اشعار دیکھیے        ؎

ہنر کی راہ میں بڑھو

خرد کے بام پر چڑھو

پڑھو، پڑھو، پڑھو، پڑھو

لگائو علم و فن سے لو

ہے جس میں مہر و مہ کی ضو

کتابیں یاں ہیں نو بہ نو

پڑھو، پڑھو، پڑھو، پڑھو

جلائو علم کا دیا

کہ کرنے کی ہے بدّیا

پڑھو، پڑھو، پڑھو، پڑھو

ہے زنگ دل میں جو لگا

ہنر ہے اس کا مصقلا

جو چاہو دل میں ہو جلا

پڑھو، پڑھو، پڑھو، پڑھو

——

کتاب ہے عجیب شے

یہی دلاتی ہے روپے

پڑھو، پڑھو، پڑھو، پڑھو

کتاب نوکری دلائے

یہی خوشی کی مے پلائے

یہی خدا سے بھی ملائے

پڑھو، پڑھو، پڑھو، پڑھو

عبدالغفور شہباز کی ایک اور آسان اور رواں نظم ’کھیل‘ ہے۔ اس میں بھی تخاطب کا وہی انداز ہے جو ’پڑھنا ‘ میں ہے۔ بچوں کی ذہنیت کے لحاظ سے باتوں کو دو سطری اور تین سطری بندوں میں ترتیب دیا گیا ہے تاکہ انھیں یاد کرنے میں سہولت ہو۔ نمونہ دیکھیے      ؎

کھیل کاوقت ہے آؤ کھیلو

کھیل سے دل کو لگاؤ کھیلو

کھیلو، کھیلو، کھیلو، کھیلو

آئو دماغ کو دو کچھ راحت

دوڑو دکھائے پاؤں کی طاقت

جانو اس فرصت کو غنیمت

کھیلو، کھیلو، کھیلو، کھیلو

بیٹ اک ہاتھ میں لے لو کھیلو

کشتی لرو اور ڈنٹر پیلو، کھیلو

کھیلو، کھیلو، کھیلو، کھیلو

شطرنج اور پچیسی کھیلو

فٹ بال اور کبڈی کھیلو

گھر میں آنکھ مچولی کھیلو

کھیلو، کھیلو، کھیلو، کھیلو

لڑکی ہو تو گڑیا کھیلو

نہیں تو گلّی ڈنڈا کھیلو

کھیلو، کھیلو، کھیلو، کھیلو

شہباز نے بچوں کے لیے کئی بہت اچھی نظمیں اور رباعیاں لکھی ہیں مگر ان کی بعض نظمیں طویل بھی ہیں اور اسلوب کی سطح پر قدرے مشکل بھی۔ ان کی نظموں کے مجموعی مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی طبع بہت موزوں اور رواں تھی۔ وہ جب کوئی موضوع بچوں کی دلچسپی کے مطابق منتخب کرتے ہیں تو مصرع لگانے کے دوران اکثر بچوں کی خام سمجھ اور ناپختہ ذہن کو فراموش کر دیتے ہیں۔ شعر اور مصرعے ڈھلتے چلے جاتے ہیں، جن کے الفاظ اور تراکیب میں ثقالت آجاتی ہے۔ اس کے ساتھ اظہار وبیان کی طوالت ایسی چیزوں کو بچوں سے دور کردیتی ہے۔ ولایتی گڑیا، ہنر مند گڑیا، بیر، شکریہ پنیر، بھنگانامہ وغیرہ اسی طرح کی نظمیں ہیں جو بچوں کے جذبات، احساسات، سوچ سمجھ اور دلچسپی سے بالاتر ہوگئی ہیں۔

پرویز شاہدی نے ساٹھ کی دہائی میں ایک بہت ہی چبھتی ہوئی نظم ’بے چہرگی‘ لکھ کر عصری سماج کی کھردری سچائیوں کو بے نقاب کیا تھا اور ارد ونظم نگاری میں ایک معنویت سے بھرپور اصطلاح کا اضافہ کیا تھا۔ بہت کم قارئین جانتے ہیں کہ انھوں نے بچوں کے لیے بھی چند نظمیں لکھی ہیں جو عموماً کلکتہ کے اخبارات میں دفن ہوچکی ہیں۔ ایک نظم ’دوڑو لڑکو‘ کے چند ٹکڑے دیکھیے        ؎

دوڑو  لڑکو،  دوڑو  لڑکو

کیسا کھلونا لایا ہوں میں

ماں کا سپنا لایا ہوں میں

باپ کی آشا لایا ہوں میں

ہار دعا کا لایا ہوں میں

کیسا سندر ہے یہ کھلونا

رات کو جیسے چاند کا مکھڑا

دن کا اجالا لایا ہوں میں

بھر لو من میں گیت کوی کا

سن لو تم سنگیت خوشی کا

سندر باجا لایا ہوں میں

دوڑو  لڑکو،  دوڑو  لڑکو

پیار کوی کا لایا ہوں میں

کیسا کھلونا لایا ہوں میں

پرویز شاہدی کی نظم نگاری کا یہ ایک نیا روپ ہے۔ وہ جس طرح اردو ہندی کے آسان لفظوں اور روزمرہ سے مصرعے ڈھالتے ہیں وہ بچوں کی مزاج شناسی اور عصری تقاضے کا علامیہ ہے۔

جدید لب و لہجے کے معروف شاعر مظہر امام کی نظم ’ہم ایک ہیں‘ سمجھ دار بچوں کے فکر و شعور کی ترجمان ہے۔ چند شعر ملاحظہ ہوں           ؎

رشک جناں ہندوستاں

ہندو ہیں اس کے باغباں

مسلم بہارِ گل فشاں

مہمل ہے فرق این و آں

ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں

دو ہیں رگیں اور اک لہو

دو پھول اور ایک بو

پیمانے دو اور اک سبو

پیکر ہیں دو اور ایک خو

ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں

مظہر امام نے اس نظم میں محض ایک پیغام ہی نہیں دیا ہے، شاعری بھی کی ہے۔ کئی مصرعوں سے شعریت کی خوشگوار پھوہار ہوتی ہے۔

ناوک حمزہ پوری ایک مستند عروض داں اور استاد شاعر ہیں۔ مختلف شعری صنفوں اور ہیئتوں میں ان کی ایک الگ پہچان ہے۔ انہوں نے بچوں کے لیے بڑی تعداد میں عمدہ نظمیں لکھی ہیں۔ مختلف نظموں کے درج ذیل ٹکڑوں سے ان کا طرز بیان عیاں ہوتا ہے      ؎

جاڑا         ؎

جاڑا آیا، جاڑا آیا

ہم بچوں کو دل سے بھایا

سویئٹر، موزے ہم لائیں گے

نئی رضائی سلوائیں گے

دادی اماّں آگ جلاؤ

مت یوں کٹ کٹ دانت بجائو

دھوپ میں بیٹھے پڑھتے ہیں ہم

نہیں یہ موسم نعمت سے کم

گنگا کا پیغام          ؎

سارے جگ میں نام ہے میرا

چلتے رہنے کام ہے میرا

ہر آفت سے میں ٹکرائی

مشکل سے میں کب گھبرائی

اٹھلاتی ہوں، بل کھاتی ہوں

بہتی ہوں، بہتی جاتی ہوں

چل نکلو تو چلتے جاؤ

بڑھ جائو تو بڑھتے جاؤ

رکنا اور ٹھہرنا کیسا

کٹھنائی سے ڈرنا کیسا

منزل پالوگے تم اپنی

بچو! ہے یہ بات یقینی

ناوک حمزہ پوری ادب اطفال کی مبادیات اورجزئیات سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ ننھے منے بچوں کی نفسیات، ان کی دلچسپیوں اور زبان کا خیال رکھتے ہیں۔ اس لیے سامنے کے ایسے موضوعات پر نظمیںکہتے ہیں، جن کی طرف بچے فوراً ملتفت ہوتے ہیں۔ ان کی نظموں کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ نظمیں موضوع اور زبان دونوں سطح پر بچوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ سادہ اور سہل الفاظ میں ایسے رواں شعر ڈھلتے ہیں کہ بچے مزے لے لے کرآسانی سے یاد کرسکتے ہیں۔

طلحہ رضوی برق کی شعری کائنات غزلوں،نظموں، رباعیوں اور قطعۂ تاریخ سے جگمگا رہی ہے۔ یوں تو انھوں نے زیادہ تر سنجیدہ اور پختہ شعور قارئین کے لیے سامان بصیرت و بصارت فراہم کیا ہے مگر ان کی نظموں اور رباعیوں میں اخلاقیات اور پند و نصیحت بھی ہے۔ اکثر رباعیوں کا اسلوب قرآن کریم کی آیتوں کے حوالوں، احادیث مبارکہ کے اشاروں اور اسلامیات کے تلازموں سے مزین ہے۔ انھوں نے بعض رباعیاں ہوشمند بچوں کی ذہنی اصلاح کے لیے بھی کہیں ہیں۔ یہ مثالیں دیکھیے       ؎

ہر نیک اور بد کا ہے رزاق خدا

ہلتا نہیں بے حکم یہاں اک پتا

سب کچھ اسی دنیا کو سمجھنے والو

تعلیم سے غفلت کا نتیجہ ہے برا

——

آواز اگر دیں تو توقف نہ کرو

نقصان بھی کچھ ہو تو تاسف نہ کرو

جھڑکو نہ انھیں، بچھادو بازو جھک کر

ماں باپ کی خدمت میں کبھی اف نہ کرو

مناظر عاشق ہرگانوی نے ادب اطفال پر خاصی توجہ دی ہے۔ مضامین، کہانیاں اور نظمیں تواتر سے لکھی ہیں۔ ان کی اس ادبی ریاضت کا باضابطہ اعتراف بھی کیا گیا ہے۔ بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیوں کے مجموعے ’جیسے کو تیسا‘ پر انھیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ مل چکا ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں بچوں کے معصوم مزاج اور ناپختہ ذہن کی تربیت پر خاص توجہ دیتے ہیں۔صنعت توشیح میں ان کی ایک نظم ہے جس میں حروف تہجی کے لحاظ سے ہر حرف پر ایک مصرع کہنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دیکھیے نظم کے آخری سات مصرعے         ؎

ک:

کار خیر عبادت ہے

ل:

لیتے کام جو ہیں اس سے

م:

مقصد اپنا وہ پاتے

ن:

نیکی کرنا ہے اچھا

و:

وقت کا رہ پابند سدا

ہ:

ہوتے ہیں وہ لوگ بھلے

ی:

یاد خدا کو جو کرتے

 ادب اطفال میں ذکی احمد چندن پٹوی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نے مختلف عمر کے بچوں کے لیے بڑی تعداد میں نظمیں لکھی ہیں۔ وہ بنیادی طور پر استا د ہیں، اس لیے ان کی نظموں میں درس اخلاق اور ذہنی تربیت کی جہد مسلسل ملتی ہے۔ دیکھیے مختلف نظموں کے چند ٹکڑے         ؎

میری بات مانو،میرے دل کے پیارو

کبھی بھول کر تتلیوں کو نہ مارو

کہ تم بھی تگ و دو میں جیون گزارو

ان ہی کی طرح تم بھی ہمت نہ ہارو

(تتلیوں کو نہ مارو)

نظم ’منشی جی کے دانت‘ کا یہ حصہ بھی بڑا عمدہ اور غنائی ہے         ؎

منشی جی دانت نرالے

اجلے پیلے، بھورے، کالے

کرتے تھے اپنی من مانی

دانتوں کی کچھ قدر نہ جانی

ان کے دانت ہوئے دو نسلی

آدھے نقلی، آدھے اصلی

منشی جی کے دانت کا بیان ان کا اصل مقصد نہیں ہے۔ اس حوالے سے وہ بچوں کو درس دینا چاہتے ہیں۔ دیکھئے ان تین شعروں میں وہ کس خوبصورتی سے ننھے بچوں کو سمجھاتے ہیں          ؎

تم نہ صفائی سے منہ موڑو

ایسی گندی عادت چھوڑو

تھوڑی کسرت اورپڑھائی

دانتوں کی دو وقت صفائی

تم نہ کبھی پچھتائو ایسے

منشی جی پچھتائے جیسے

عبدالمنان طرزی اپنی زبردست موزونی طبع اور قادرالکلامی کے سبب منظوم تذکرہ، سوانح و سیرت، تنقید اور تبصرے لکھنے میں طاق ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی عمدہ نظمیں لکھی ہیں۔ ان کی نگاہ میں بچوں کی نفسیات اور ان کا لسانی شعور ہے۔ اس لیے مختلف عمر کے بچوں کے ذہن اور فہم کا لحاظ کرتے ہوئے نظمیں لکھتے ہیں۔ نمونے کے طور پر دیکھیے، یہ حصے      ؎

چڑیا رانی گھر آئی ہے

چونچ میں اپنی کچھ لائی ہے

ممی میں اک بات بتائوں

میرے من کو وہ بھائی ہے

چڑیا رانی گھر آئی ہے

چونچ   میں   اپنی کچھ  لائی  ہے

 

(چڑیا)

کتنے سلیس، رواں اور سامنے کے الفاظ ہیں کہ تین چار سال کے بچے آسانی سے یاد کرلیں۔ چڑیا ہر چھوٹے بچے کی دلچسپی کا مرکز رہی ہے۔ اس کی چہچہاہٹ سے گھر گلزار بنا رہتا ہے۔ ذکی چندن پٹوی نے بھی چڑیا پر بڑی تعداد میں نظمیں لکھی ہیں۔ مذکورہ بالا نظم میں جناب طرزی نے بچے کی ننھی منی زبان میں قافیہ پیمائی کی ہے اور تین شعروں کی نظم میں پہلے شعر کو آخر میں دہرا کر Stressدیا ہے اور بچے کی دلچسپی بڑھائی ہے۔ اسی طرح کی آسان نظم ’کاغذ کے پھول‘ ہے جو کچھ بڑے بچوں کے لیے لکھی گئی ہے        ؎

ہم نے گھر پر پھول بنایا

اپنے ٹیچر کو دکھلایا

ویری گڈ‘ ریمارکس ملا ہے

پاپا نے انعام دیا ہے

پھول جو میرے ہیں کاغذ کے

خالی لیکن ہیں خوشبو سے

ان پھولوں کو عطا لگاکے

اسکول اپنے لے جائیں گے

آندھی، مفلس،کوئل، پبلک اسکول، سرکس، جامن وغیرہ پر بھی انھوں نے خیال آرائی کی ہے۔ وہ ممی، پاپا، ٹیچر، ویری گڈ وغیرہ جیسے انگریزی کے الفاظ بھی بے محابا استعمال کرتے ہیں جو ہمارے روز مرہ کا حصہ بن چکے ہیں۔

ظفر کمالی نے بھی بچوں کے ذہن و فکر اور ان کی پسند یا شوق کی مناسبت سے قابل قدر نظمیں لکھی ہیں۔ ان کی مشہور نظم ’پانی‘ کا یہ ٹکڑا دیکھیے        ؎

زندگی کا مدار ہے پانی

اس چمن کی بہار ہے پانی

اس سے ہے آن بان مٹی کی

ہے یہ پانی ہی جان مٹی کی

بے مزا ہے حیات اس کے بغیر

کچھ نہیں کائنات اس کے بغیر

راحتوں میں یہ بڑی راحت ہے

یہ خداکی عظیم نعمت ہے

کتنے خوبصورت اور آسان لفظوںمیں ایک حقیقت بیان کردی ہے۔ شعریت سے پُر مصرعے بھی تراش دیے ہیں۔ یہی کمال شاعری ہے۔

ان ہی کی طرح شبنم کمالی بھی آسان اور عام فہم لفظوں سے بچو ں کے لیے ایک شگفتہ اور رواں نظمیہ اسلوب تراشتے ہیں۔ ان کی نظم ’بھائی ہمارا‘ کے یہ شعر کتنے برجستہ ہیں    ؎

بھولا بھالا پیارا پیارا

ننھا منا بھائی ہمارا

گود میں امی کے بیٹھا ہے

سب کو ٹکٹک دیکھ رہا ہے

میٹھی میٹھی بولی اس کی

کتنی پیاری کتنی اچھی

یہ بچے کا مشاہدہ ہے اور اس کا بیان بھی بچے کی زبان سے ہے۔ ’ادب اطفال‘کی ایسی تخلیق یقینا بہت مقبولیت حاصل کرتی ہے۔

عطا عابدی اردوکے اچھے اور کہنہ مشق شاعر ہیں۔ نثر میں بھی ان کی تنقیدی تحریریں موجود ہیں۔ انھوں نے کئی نظمیں بچوں کے لیے لکھی ہیں۔ ان کا انداز عموماً ناصحانہ ہے۔ نظم ’علم‘ کایہ حصہ بڑا رواں اور شعریت سے بھرپور ہے       ؎

علم ایک ایسی دولت ہے

کوئی بانٹ نہ اس کو پائے

کوئی چھانٹ نہ اس کو پائے

ہرسو اس کی دھاک ہے ایسی

کوئی ڈانٹ نہ اس کو پائے

علم ایک ایسی دولت ہے

اب آخر کے یہ پانچ مصرعے دیکھیے۔ ان میں شاعر کے اندر کا استاد، باپ یا ناصح کھل کر سامنے آجاتا ہے       ؎

اس دولت کو پائو بچو

آپس میں پھیلاؤبچو

اونچا نام کمائو بچو

سب کو یہ بتلائو بچو

علم بڑی اک دولت ہے

تازہ دم شاعر امان ذخیروی نے بچوں کے لیے نظمیں لکھنے پر خاصی توجہ دی ہے۔ ادھر ان کی کئی عمدہ نظمیں منظر عام پر آئی ہیں۔ ان کی ایک بالکل نئی نظم ’خالو جان‘ کے چند شعر یہاں درج کیے جاتے ہیں       ؎

ایک دن بلی نے چوہے سے کہا

تجھ کو خالہ جان سے ہے کیا گلہ

تو کبھی بھی میرے گھر آتا نہیں

اپنی پیاری شکل دکھلاتا نہیں

تجھ کو کچھ اپنی صحت کا ہے خیال

دیکھ توکیا ہوگیا ہے تیرا حال

میری چاہت کا اگر کر احترام

کرمرے گھر میں ہی تو آکر قیام

بات بلی کی سنی چوہے نے جب

کھول کر گویا ہوا وہ اپنے لب

سوچتاہوں میں بھی تیرے گھر رہوں

میں ترا لخت جگر بن کر رہوں

پر اسی اک وہم سے مجبور ہوں

آج تک میں گھر سے تیرے دور ہوں

بات یہ کہتاہوںمیں ایمان سے

مجھ کو ڈر لگتا ہے خالو جان سے

آسان الفاظ میں لکھی گئی یہ نظم بھی قدرے طویل ہے۔ مختصر ہوتی تو بچوں کے لیے زیادہ کارگر اور مفید ہوتی۔  انھیں کی طرح ڈاکٹر ضیا الرحمن جعفری بھی اچھی نظمیں لکھ رہے ہیں۔ نظم ’کانٹے بھی ہیں’ کے یہ چار شعر دیکھیے      ؎

رنگ برنگے پھول ہیں ایسے

ہیں دنیا میں بچے جیسے

بات بات پر یہ کھل جائیں

غیر بھی ہو تو یہ مل جائیں

بچے پڑھ کر بنیں گے افسر

پھول بچھیں گے ان پر آکر

پھول میںلیکن کانٹے بھی ہیں

پر نٹ کھٹ تو بچے بھی ہیں

ڈاکٹر جعفری کی نظموں میں بیان کی سادگی اور روانی ہے تاہم زبان مزید توجہ چاہتی ہے۔

نوجوان شاعر منصور خوشتر نے بھی بچوں کے لیے بڑی تعداد میں نظمیں لکھی ہیں۔ ان کے موضوعات کا دائرہ پھیلا ہوا ہے۔ وہ روز مرہ کی زندگی میں نظر آنے والی چیزوں پر قلم اٹھاتے ہیں۔ سبزیوں کے ٹھیلے شہر کی ہر گلی سے گذرتے ہیں اور عموماً عورتیں تازہ سبزیاں خریدتی ہیں۔ ایک بچے کے بھولے بھالے جذبات کس طرح ابھرتے ہیں منصور نے اس نظم میں اس کی ترجمانی کی کوشش کی ہے          ؎

سبزی والے سبزی والے/کیا کیا ٹھیلے پر ہیں تیرے/ آلو، بیگن، سیم اور گوبھی/ ساگ ٹماٹر کدو چھیمی/ اس ٹھیلے پر بھی ہوگا/ سیب، انگور، امرود اور کیلا/ لے گی تجھ سے میری ممّی/ تازہ تازہ لیکن لانا/میرے گھر میں سب ہیں کھاتے

نئی نسل کے اور بھی کئی شاعر ہیں جو بچوں کے لیے اچھی نظمیں لکھنے میں مشغول ہیں اور ادب اطفال کے ذخیرے میں اضافہ کررہے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پچھلے سو سوا سو سال کے دوران بہار کے شاعروں نے جس طرح بچوں کے لیے نظمیہ شاعری کی ہے، ان کی دلچسپیوں، ان کی سمجھ بوجھ، ان کے مشاہدوں اور تصورات کو ان ہی کی آسان، رواں اور بھولی بھالی زبان میں پیش کیا ہے، وہ شعری سطح پر ادب اطفال کی روایت میں استحکام اور اس کے سرمایے میں اضافے کا باعث ہے۔ اب رہا سوال ان نگارشات کو تنقید کی کسوٹی پر پرکھنے کا تو اس ضمن میں ماننا پڑے گا کہ اردوکے نقادوں کی اکثریت اپنے پختہ اور بالیدہ فکر وشعور کے مطابق شعر وادب کے مطالعے میں محو رہتی ہے اور اسی کی تفہیم اورتجزیے سے ان کی پہچان بنتی ہے۔ بچوں کے لیے لکھی جانے والی ہلکی پھلکی نظمیں انھیں سطحی، خام اور محض تُک بندی معلوم ہوتی ہیں۔ حالاں کہ ادب اطفال کے پس پردہ کار فرما محرکات پر نظر رکھی جائے اور اس کا تناظرات کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو ایک دھنک رنگ منظر نامہ ملے گا۔ جس میں لسانی، جمالیاتی اور فنی نیرنگی اور بوقلمونی ملے گی۔ اخلاقیات اور پند و نصیحت کے ذریعے مثبت انداز سے ذہن سازی کی دلکش کوشش نظر آئے گی۔ سیدھی سادی اور بھولی بھالی مسرت آمیز باتوں کے ستارے ٹمٹماتے نظر آئیں گے۔ ہر زبان میں ایسی تحریریں نوخیز بچوں کی ذہنی روئیدگی، فہم و فراست کی نموپذیری، قوت بیان میں جولانی، ذخیرئہ الفاظ میں افزونی اور ادبی جمالیات کی آگہی کا سبب بنتی ہیں۔ بچے سن شعور کو پہنچتے پہنچتے مربوط، متین اور سنجیدہ ادب کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ بہار کے تازہ دم قلمکاروں کی بڑی تعداد اس کی زندہ مثال ہے۔ ان کی لسانی اور فکری تربیت نیز مطالعے اور خامہ فرسائی کی عادت میں دوسرے اسباب کے ساتھ ساتھ ادب اطفال بالخصوص منظومات کا اہم حصہ ہے۔






Prof. Rais Anwar

Raj Toli Lane, Vigo

Darbhanga - 846004 (Bihar)