29/8/22

یوسف ناظم جہان طنز و مزاح کا لاثانی ناظم - مضمون نگار : قیصر الحق

 



 یوسف ناظم کا اصل نام سید محمد یوسف تھا اور تخلص ناظم۔ ادبی دنیا میں یوسف ناظم کے قلمی نام سے مشہور ہیں۔ آبائی وطن جالنہ جوکہ اب ریاست مہاراشٹرا کا ایک ضلع ہے۔ ان کی ولادت 18 نومبر 1918 کو اسی مقام (جالنہ)پر ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اورنگ آباد اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ عثمانیہ حیدر آباد چلے گئے۔ نوکری کے سلسلے میں مہاراشٹر کے لیبر آفیسر تعینات ہوئے اور 1976میں بحیثیت اسسٹنٹ کمشنر آف لیبر وظیفے پر سبکدوش ہوئے۔ ان کی وفات 23 جولائی 2009 کو مہاراشٹر میں ہی ہوئی۔

یوسف ناظم نے مزاح نگاری کی شروعات 1944 میں کی۔ مزاحیہ تحریر کو پڑھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے تقریباً خالی الذہن ہو کر شروع کیجیے اور بے جھجک تحریر کی شاہراہ پر گامزن ہوجائیے۔ یوسف ناظم اپنے مزاح کا خمیر تو زندگی ہی سے اٹھاتے ہیں۔ان کے لیے خیال یا زندگی کا ہر وہ واقعہ ہدف ہے، جس سے مزاح پیدا ہوسکے۔ مولوی سے لے کر موت تک وہ ہر شے پر مسکراتے ہیں، مگر یہ مسکراہٹ کسی دل آزار طنز میں تبدیل نہیں ہوتی۔ یوسف ناظم کے مزاح کی شائستگی بنیادی طور پر دلآزاری کے خلاف معلوم ہوتی ہے۔ ظرافت میں وہ پست ہمتی کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ زندہ اور جاں بخش فضا قائم کرتے ہیں۔ کامل نظم و نسق سے یوسف ناظم زندگی کی تلخ حکایتوں اور حقیقتوں کی طرف ہلکے ہلکے خیال افروز اشارے کر کے قاری کو اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ یوسف ناظم شریفانہ مزاح کے قائل نظر آتے ہیں۔ مثال ملاحظہ کیجیے:

’’اگر یہ بات مان لی گئی ہے کہ آدمی حیوان ظریف ہے تو یہ بھی تسلیم کر لینا چاہیے کہ دنیا کی تخلیق ظرافت کی خاطر ہوئی ہے........ علاوہ ازیں اس کتاب کا نام میں نے ’فی الفور‘ یہ سوچ کر رکھا تھا کہ یہ جلد شائع ہوگی۔ ہمارے یہاں ہر وہ کام جو دو سال کی تاخیر سے انجام پائے ’فوری‘ ہی سمجھا جاتاہے۔‘‘ (فی الفور، یوسف ناظم،ص3-4)

یوسف ناظم وہ طنز و مزاح نگار ہیں جنہوں نے زود نویسی کے باوجود تحریروں میں اپنے معیار کو زیادہ تر برقرار رکھا ہے۔ ان کے یہاں مشاہدے کی تیزی بھی ہے اور گہرائی بھی۔ بظاہر وہ دنیا سے بے نیاز معلوم ہوتے ہیں لیکن ان کی تحریروں میں زندگی کی رنگارنگی، تگ ودو، کشمکش،نشیب و فراز اور خوب و خراب کی تمام تر عکاسی ملتی ہے۔ یوسف ناظم لگتا ہے جتنا وقت لکھنے پر صرف کرتے ہیں، اس سے زیادہ وقت کیا لکھیں اور کیسے لکھیں پر صرف کرتے ہیں۔یہ فقط طنز و مزاح کا کمال نہیں بلکہ موضوعات اور مسائل کا گہرائی اور گیرائی کے ساتھ مطالعہ کرنے اور ان کو ایک خاص زاویے سے دیکھنے کی دلیل بھی ہے۔ یہاں تذکرہ شادی کے دعوت ناموں کا،نامی گرامی پر یس کی بیمار مشین کا اور اردو کے رسائل کی تاخیر سے چھپنے پر تیکھا وار نظر آتا ہے۔ مثلاً یہ اقتباس:

’’کوئی نامی گرامی پریس اسے چھاپنے کے لیے رضامند نہیں ہوتا کیونکہ ان کی مشین اکثر بیمار رہتی ہے۔ بہت اصرار کیا جائے تو جواب ملتا ہے کہ کارڈ تو ہم چھاپ دیں گے لیکن یہ کام شادی کی تاریخ گزرنے کے بعد ہی پایہ تکمیل کو پہنچ پائے گا۔ چاق و چوبند رکن خاندان پریس کے منیجر کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ بھائی صاحب شادی کا دعوت نامہ ہے اردو کا کوئی رسالہ نہیں ہے کہ جب چاہے چھاپ دیا جائے۔‘‘ (فی الحقیقت، یوسف ناظم،ص37)

یوسف ناظم کی وطن دوستی،استحصال کے خلاف احتجاج، معاشی بدحالی،کساد بازاری، معاشرتی انتشار، اقدار کی زوال پذیری،برسر اقتدار طبقے کی بے راہ روی اور سیاستدانوں کی خرمستیوں پر ان کے بے لوث اور مخلصانہ ردعمل نے ان کی تحریروں میں جاذبیت پیدا کردی ہے۔ یوسف ناظم کو اپنے قلم کی نمائش منظور نہیں، وہ ہنسنے ہنسانے کا سامان قاری کو فراہم تو کرتا ہے لیکن اس سے ماورا معاشرتی صلاح و فلاح کا مقصد ان کے مضامین سے مترشح ہوتا ہے۔ عصر حاضر میں انسانی فطرت کے ایک پہلو پر بے حد بلیغ اور دوٹوک طنز ملاحظہ ہو:

’’ اب ایسی مشینیں بن گئی ہیں جو یہ بتاسکتی ہیں کہ آدمی سچ بول رہا ہے یا جھوٹ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آخر یہ تجربہ کس امید پر کیا جارہا ہے۔ کیا اب بھی کوئی ایسا بدنصیب ہے جو سچ بولے۔‘‘ (بالکلیات، یوسف ناظم،ص47)

یوسف ناظم کا مزاح ان کی شوخ طبیعت اور زبان کی شگفتگی و شیرینی کے توازن سے تخلیق پاتا ہے۔ فکرو خیال اور الفاظ و امثال کی ہم آہنگی سے بڑا لطف پیدا ہوجاتا ہے۔ ان کی تشبیہات میں بلاکی ندرت ہے جس سے حسِ مزاح کو تحریک ملتی ہے۔ ان کی کم و بیش ہر تحریر میں ظرافت و شگفتگی،بذلہ سنجی و برجستگی،سادگی و سلاست، مدھم لہجہ اور فکر انگیز خیالات کے دل نشین جلوئے نظر آتے ہیں۔ سبک خرامی یوسف ناظم کی تحریر کا ایک اہم وصف ہے۔ اگر آپ ان کی تحریروں میں دریائوں کی روانی کو محسوس کرنا چاہیں تو شاید آپ کو مایوسی ہوگی۔ کیونکہ یوسف ناظم رک رک کر لکھنے کے عادی اور تھم تھم کر بہنے کے قائل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آنسو اگر اصلی ہوں تو نمکین ضرور ہوں گے۔لکھتے ہیں:

’’ آدمی کے آنسو ذائقے میں نمکین ہوتے ہیں، شرط یہ ہے کہ آنسو اصلی ہوں...... آنسوئوں کے نمکین ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی جب بھی اپنے منہ کا مزہ بدلنا چاہتا ہے، اپنے آنسو پی لیتا ہے۔(آدمی کتنا خود مکتفی ہے)

(فی الحال،یوسف ناظم،ص15)

مندرجہ بالا اقتباس کا آخری جملہ قوسین یعنی Brackets میں ہے۔ غور کیجیے کہ اس جملے میں کیسی زبردست چوٹ گئے ہیں۔ اس طرح کے قوسینی جملے یوسف ناظم کی اہم خصوصیت ہے۔ وہ اپنے تقریباً ہر اہم نثر پارے کے اختتام پر ایک چھوٹا سا جملہ قوسین میںلکھتے ہیں۔یوسف ناظم کے قوسینی جملوں کے چرچے جہانِ ادب میں ہر سو پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک مزاح نگار مسیح انجم نے انھیں ’یوسفِ قوسین‘ کا خطاب بھی دیا۔ یوسف ناظم کی مزاحیہ خاکہ نویسی میں فن اور شخصیت کا سنگم نظر آتا ہے۔  وہ شخصیت پر لکھتے ہیں تو فن کی پر تیں کھلنے لگتی ہیں اور فن پر لکھتے ہیں تو شخصیت ابھرنے لگتی ہے۔ زمانے کی تلخی اگر زبان کی تلخی میں بدل جائے تو یہ مزاح نہیں مذاق ہے لیکن اگر زمانے کی تلخیوں کو گھول کراس میں ظرافت کی شیرینی پیداکی جائے تو یہ مزاح ہے جو فن کارکے باطن سے پھوٹتا ہے۔ یوسف ناظم کی نگارشات میں سطحی تمسخر نہیں بلکہ گہرائی ہے کیونکہ طنزو مزاح ان کے درون سے پھوٹ رہا ہے۔ ان کے فنی کمالات میں عالمانہ شان اور ان کے مختصر جملوں میں شاعرانہ آن بان محسوس ہوتی ہے۔ وہ ظریفانہ واقعات، عملی مذاق اور تمسخر سے مزاح پیدا نہیں کرتے بلکہ فضابندی، ماحول آفرینی،مرقع نگاری اور اسلوب کے ذریعے مزاح کی محفلیں سجاتے ہیں۔ طولِ کلام سے اجتناب کی رعایت، محاوروں کا برجستہ برتائو وغیرہ ان کے اہم تخلیقی اوصاف تصور کیے جاتے ہیں۔ وہ زندگی کے معمولی واقعے یا عام مشاہدے کو بھی تلازمات،تعبیروں اور منفرد تاویلوں کے طفیل لطف انگیز بناتے ہیں۔ ان کے یہاں نہ شکوہ و شکایت ہے نہ نصیحت و فہمائش، ان کی تمام تر جستجو فرد اور اجتماعیت کی قباحتوں کو دیکھنے اوردکھانے کی آرزو سے تعبیر کی جاسکتی ہے۔

یوسف ناظم کے طنز و مزاح کا قوی موضوع معاشرہ ہے۔اس کے خدوخال کی مختلف شکلوں کو انھوں نے اپنی تحریروں میں خوبصورتی کے ساتھ جگہ دی ہے۔ سماج میں طویل مدت سے رہائش پذیر خاندانوں کی منفرد طرزِ حیات کے متنوع گوشے اور میل جول کی روایتی وابستگی کا احساس یوسف ناظم کے فن پاروں میں نظر آتا ہے۔ وہ کسی بھی شخص کی ذات کو طنز کا نشانہ نہیں بناتا بلکہ خوشگوار انداز میں شخصیت کی آبرو اور وقار کا لحاظ رکھتا ہے۔ طنز کی اعلیٰ قسم وہی ہے جو شخص کے ذاتی معاملات اور نجی جذبات کی نشترزنی سے پر ہیز کر کے اس کے ظاہر و باطن پر یکساں اور فلاحی سوچ رکھتا ہو۔ خیال رہے کہ مزاح مذاق نہ بن جائے اور طنز تشدد کا روپ نہ اختیار کرے۔ یوسف ناظم ان نازک مراحل کو فنکارانہ مہارت کے ساتھ طے کرتے ہیں۔ اس تعلق سے آفاق صدیقی لکھتے ہیں:

’’یوسف ناظم کا طنز ان کی خود کی ذات کی الجھنوں اور ذاتی معاملات کی تلخیوں کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کے طنز و مزاح کی اساس ذاتی اغراض و مقاصد پر مبنی ہے، بلکہ اپنی تحریروں میں انھوں نے اپنے عہد کے مختلف النوع معاملات اور گوناگوں ناہمواریوں اور عام زندگی کے بے ڈھنگے پن کو طنز و مزاح کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا معاشرہ ان کے طنز و مزاح کا موضوع ہے اور اسی معاشرے سے انھوں نے طنز و مزاح کا مواد حاصل کیا ہے۔‘‘

(مضمون ’طنز و مزاح اور یوسف ناظم‘،آفاق حسین صدیقی، ماہنامہ ’شاعر‘ فروری 1980،ص22)

یوسف ناظم کے فنِ طنز و مزاح کو جو عناصر نکھارتے اور سنوارتے ہیں، ان میں انشا پردازی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ان کو بات کہنے ہی کا نہیں بلکہ بات سے بات نکالنے کا ہنر بھی خوب آتا ہے۔ اس لیے ان کے یہاں موضوعات کا وافر ذخیرہ دستیاب ہوتا ہے۔ ان کے اسلوب میں متنوع رنگ جھلکتے ہیں اور لوچ و لچک ایسی کہ جس موضوع پر قلم آرائی کرتے ہیں، وہ اپنے اسلوب سے ہم آہنگ نظر آتا ہے، گویا یہ اسلوب اسی موضوع کا متقاضی ہے۔ زبان و بیان پر قدرت ہو تو طنز ومزاح نگار کے نقش و نگار ابھر آتے ہیں۔ یوسف ناظم نے اپنے مضمون ’انگریز ہندوستان میں۔ تاریخ جدید‘ میں برطانوی عہد کی تاریخ کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ واقعات میں بنیادی طور پرکسی تبدیلی کے باوجود برطانوی سامراج کے ظلم و ستم، مالی استحصال، چیرہ دستی، درندگی، سفاکیت اور مردم آزاری تمام وکمال اجاگر ہوجاتی ہے۔ ایسے مضامین میں ان کا فن بامِ عروج پر ہوتا ہے۔ وہ کچھ نہیں کرتے،صرف اپنے اسلوب سے کام لیتے ہیں۔ الفاظ کا الٹ پھیر،دھیما اور مدھم لہجہ بات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے۔ گورنر جنرل لارڈ کارنوالس کے حوالے سے ملاحظہ ہو، برطانوی سامراج پرلطیف اور بھرپور طنز:

’’ کارنوالس پہلا انگریز تھا جس نے ہندوستان جیسے ملک میں مرنا قبول کیا۔ تاہم یہ بات یاد دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ جس وقت کارنوالس ہندوستان میں مرا، ہندوستان انگریزوں کے لیے ’دیارِغیر‘ نہیں بلکہ ان کا اپنا ہی وطن تھا۔‘‘ (دامنِ یوسف، عنایت علی، ص29)

اسلوب سے طنز و مزاح پیدا کرنا اس فن کی اعلیٰ سطح ہے۔ یوسف ناظم کے یہاں اس کی خوبصورت مثالیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ انھوں نے اکثر و بیشتر مراحل پر طنز نگار کی ذمے داری نبھائی ہے۔ وہ اپنے طنز کو مزاح کے شیریں کیپسول میں پیش کرتے ہیں۔ طنز کے بغیر مزاح پھکڑپن اور سرکس بازی کے مسخروں کی حرکتیں بن جاتا ہے۔ مزاح کے بغیر طنز بھی واعظ خشک کی نصیحتیں،تلخ و ترش اور زہرناکی کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ یوسف ناظم کے یہاں طنز کا پلڑا بھاری ہونے کے باوجود مزاح کی آمیزش کچھ یوں ہوتی ہے کہ دونوں کو علیحدہ کرنا مشکل کام معلوم ہوتا ہے۔ عمومی طنز اور تیر بہ ہدف طنز یونہی معرضِ وجود میں نہیں آتا بلکہ اس کے لیے غورفکر کی عمیق ضرورت ہوتی ہے۔ طنزو مزاح کی فنی پختگی کا راز یہی ہے کہ قلمکار کو منجملہ زندگی کے تمام نشیب و فراز سے علم و آگہی حاصل ہونی چاہیے، تب جاکر ادب عالیہ کے اہم فن پارے وجود میں آتے ہیں۔

طنز و مزاح نگاری میں یوسف ناظم کا منفرد اسلوب اپنی مثال آپ ہے۔ اردو زبان کی باریکیوں پر انھیں خلاقانہ دسترس حاصل ہے۔ الفاظ اور محاوروں کو نئی معنوی جہات دے کر مزاح اور طنز کے نت نئے پہلو تراشنے میں وہ حقیقی فنکار معلوم ہوتے ہیں۔ یوسف ناظم ادب کے علاوہ ہمعصر عالمی صورت حال، سیاست، معیشت اور کلچر کے باہمی رشتوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کی تخلیقات میں پختہ سماجی شعور اور ادبی بصیرت کے گوناگوں رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کا مزاح جہاں بادِ نشاط پلاتا ہے وہیں زخم پنہاں کا بھی پتہ دیتا ہے۔ مزاح کی شوخی گفتار میں دانش و بینش کی ایک دنیا آباد ہے۔ انھوں نے اپنی شگفتہ تحریروں سے دکھی دلوں کی مسیحائی کی اور زندگی کے ستائے انسانوں کو زندگی کی ناہموار یوں پر ماتم کرنے کے بجائے زندہ دلی سے مسکرانے کا سلیقہ سکھایا۔ یوسف ناظم اپنے فن کے ذریعے پوری دیانت داری، خلوص اور انہماک کے ساتھ اس کا رِ خیر میں مصروف رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے فن کا رشتہ عام انسانوں اور انسانی فطرت کے مشترکہ عناصر سے جوڑے رکھا۔

 

Qaisarul Haq

Research Scholar (SRF)

Dept of Urdu, University of Kashmir

Hazratbal

Srinagar - 190006 (J&K)

Mob.: 6005283230

 





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں