29/8/22

ہندوستانی آئین میں اردو زبان کا مقام - مضمون نگار: آفتاب عالم

 



انسانی زندگی میں زبان کی اہمیت

 انسان فطری طورپر معاشرے میںایک ساتھ زندگی گزارنا پسند کرتاہے اسی وجہ سے بنی نوعِ انسان نے موجودہ معاشرے کی تشکیل کی ہے۔ زبان انسانی تعلق کا ایک اہم جز ہے۔اگر چہ تمام انواع کے جاندار کے رابطے کے طریقے الگ الگ ہیں لیکن انسان کے رابطے کا ذریعہ صرف زبان ہے۔زبان میں معاشرے کو بنانے اور تباہ کرنے دونوں کی طاقت ہے۔انسان کی زندگی میں زبان کی اہمیت نا قابلِ تردید ہے کیوںکہ جذبات، احساسات اور نظریات کے اظہار اور آپسی تعامل اور تہذیب و تمدن کے تحفظ اور ترسیل کا واحد ذریعہ زبان ہے۔زبان ہی ہے جو انسان کو تمام جاندا ر سے ممتاز کرتی ہے اور اہم، بے مثال اور اعلی ترین مخلوق بناتی ہے۔ زبان صرف ذریعہ مواصلات ہی نہیں بلکہ جب ہم بات کرتے ہیں، پڑھتے اور لکھتے ہیں یہاں تک کہ جب ہم سماج بنانے کے عمل میں ہوتے ہیں، گاڑی چلاتے ہیں یا تجارت کرتے ہیں ہر جگہ زبان کو کسی نہ کسی شکل میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ زندگی کے ہر پہلومیں زبان شامل ہے۔ زبان کی اصطلاحی تعریف یہ کی جاسکتی ہے کہ زبان الفاظ، علامتوں، نشانیوں، آوازوں، اشاروں کا ایک نظام ہے جس کا استعمال ایک طبقہ،قوم اور ایک ثقافت کے لوگوں میں عام ہوتاہے۔

زبان اور ثقافت

زبان اور ثقافت میں ایک گہراربط ہے اور دونوں کے مابین جز اور کل کا رشتہ ہے۔ہر زبان کسی نہ کسی مخصوص قوم اورلوگوں کی جماعت کی نشاندہی کرتی ہے اور اس کی ثقافت کا اظہار اسی زبان کے ذریعے ہوتاہے۔ جب ہم کسی دوسری زبان والے کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس ثقافت کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں۔دنیا کی کسی بھی ثقافت تک رسائی اور اس کی سمجھ بغیر اس کے متعلق زبان کے نہیں ہوسکتی۔ کرامچ (1991)  نے کہا ہے کہ زبان اور ثقافت دونوں لازم اور ملزوم ہیں اور ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ زبان اور ثقافت دونوں ہی انسانی زندگی کے لازمی جز ہیں نیز زبان ثقافت کا تعین کرتی ہے اور اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ثقافت کے بغیر زبان مردہ ہے اور زبان کے بغیر ثقافت کی کوئی شکل نہیں ہوگی۔ زبان انسان کی شخصیت او ر اس کی تہذیب و ثقافت کا لازمی جز ہے جس کا کردار نوع انسانی کو وحشت سے نکال کر معاشرتی زندگی میں لانے میں اہم ہے۔ایک نسل سے دوسری نسل تک تہذیب و ثقافت اور علوم و فنون منتقل کرنے میں زبان کا رول ناقابل فراموش اور ناقابل تردیدہے۔

اردو زبان اور اس کی مقبولیت

اردو زبان خالص ایک ہندوستانی زبان ہے جس میں اتنی شیرینی ہے کہ اس کو محبت کی زبان کہاجاتاہے اور اس کی ابتدا بھی غزل اور عشق و عاشقی کی شاعری سے ہوئی ہے۔ آزادی سے پہلے اور اس کے بعد بھی اس زبان کی مقبولیت میں کبھی کمی نہیں آئی بلکہ بر صغیر کی نہایت مقبول اور ہندوستان کی آئینی زبانوں میں سے ایک ہے۔اس زبان پر عربی اور فارسی کے اثرات ہونے کے باوجود ہندی کی طرح ایک ہند آریائی زبان ہے جس کی پیدائش اور ترقی برّ صغیر ہند میں ہوئی۔اردو اور ہندی دونوں جدید ہند آریائی زبانیں ہیں اور دونوں کی اساس یکساں ہے، صوتی اور قواعدی سطح پر دونوں زبانیں اتنی قریب ہیں کہ ایک زبان معلوم ہوتی ہیں لیکن طریقۂ استعمال اور رسم الخط کی سطح پر دونوں میں فرق نمایاں ہے۔

اردو جنوبی ایشیا کی اہم اور بڑی عوامی زبانوں میں سے ایک ہے اور روز بہ روز اس کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہورہاہے۔ حقیقت میں یہ زبان عوامی تہذیب کی سطح پر ترسیل کا ذریعہ ہے اور فلموں، ڈراموں اور تمام طرح کے تفریحی پروگرام میں وسیع پیمانے پر استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود کہ اردو دنیا کی نئی زبانوں میں سے ایک ہے لیکن اپنے پاس معیاری ادب اوراس کا ایک وسیع ذخیرہ رکھتی ہے اور خصوصاًجنوبی ایشیائی زبانوں میں یہ اپنی شاعری کے حوالے سے مشہوراورمعروف ہے۔

 ہندوستان میں زبان کی پالیسی

ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک میں زبان، تہذیب و تمدن، نسل،مذہب اور ذات و غیرہ کا تنوع نہایت ہی قدیم اور مضبوط ہے۔تنوع اس ملک کی شناخت ہے اورا س کثیر ثقافتی اور کثیرلسانی معاشرے میں موجود امن و شانتی اور بھائی چارے کی وجہ ہے کہ تنوع میں وحدت  کے لیے دنیا میں ہندوستان کی مثال دی جاتی ہے۔ آزادی کے بعدمجلس دستور ساز نے آئین ہند میں بھی اس تنوع کا پاس و لحاظ رکھا ۔ عہد قدیم اور عہد وسطی نیز عہد جدید میں بھی ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مختلف حکمرانوں کی حکومت ہو نے کی وجہ سے مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں۔ اس ملک میں افراد بیک وقت کئی زبانیں استعمال کرتے ہیں مثلاًایک زبان معاشرے میں دوسری زبان آفس میں اور تیسری زبان مذہبی معلومات اور رسومات میں۔ تاریخی طور پر اکثر ممالک میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ہمیشہ مذہبی رسومات، عدالت اور اشراف کی زبان، تعلیم اور ادب و ثقافت کی زبان  اور گھر اور معاشرے کی ایک زبان ہوتی ہے اوراعلی تعلیم اور اشراف کی زبان کا  ہی غلبہ رہتاہے لیکن ہمارا ملک ہندوستان اس معاملے میں منفرد ہے کیوں کہ ہندوستان میں ہر 60-80 کیلومیٹر میں زبانیں بدل جاتی ہیں اور کسی ایک زبان کا غلبہ بھی نہیں ہے۔ ویدک عہد میں رابطے کی زبان سنسکرت تھی،  اس کے بعد پالی، عہد وسطی میں فارسی اورپھر اردو اور انگریزوں کے دور میں انگریزی اور آزادی کے بعد ہندوستان کے مختلف حصوں میں ہندی کے ساتھ اردو بھی رابطے کی زبان ہے۔


آئین ہند

یہ آئین جمہوریہ ہند کا دستور اعلی اور دنیا کا سب سے ضخیم تحریری دستور ہے جس میں جمہوریت کے بنیادی سیاسی نکات اور حکومتی اداروں کے ڈھانچے، طریقہ کار، اختیارات اور ذمے داریوں نیز شہریوں کے بنیادی حقوق، رہنما اصول اور ان کی ذمے داریاں شامل ہیں۔ اس دستور کا معماراعظم ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر  ہیں جو آئین ہند کی مجلس مسودہ سازی کے صدر تھے۔ آئین ہند کے مطابق دستور کو موجودہ پارلیمان  پر فوقیت حاصل ہے لہذا پارلیمان اس دستور کو معطل نہیں کر سکتی ہے۔ آئین ہند کو مجلس دستور سازنے 26 نومبر 1949 کو تسلیم کیا اور 26 جنوری 1950 کو نافذ کیا۔ نفاذ کے وقت یہ دستور 22 ابواب، 8درج فہرست اور 395پر مشتمل تھا اور جنوری 2019 کے ڈاٹا کے اعتبار سے103 ترمیم کے بعد اس دستور میں 25 ابواب، 12 درج فہرست اور 448 ہیں۔ اس ملک کے عاملہ، مقننہ اور عدلیہ کو اختیار اسی دستور سے ملتا ہے اور سب اسی کے پابند ہیں۔

دستور ہندکی دفعہ 21 اور21  اے

 دفعہ21کے تحت اس ملک کے ہر شہری کو اپنی زندگی اور ذاتی آزادی کے تحفظ کا حق حاصل ہے۔ قانون کے ذریعے قائم کردہ طریقہ کار کے علاوہ کسی بھی شخص کو اس کی زندگی اور ذاتی آزادی  سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ دفعہ21 اے شہریوں کو یہ بنیادی حق دیتا ہے کہ ریاست چھ سے چودہ سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم مہیا کرے اور اس کے لیے ریاست قانون بناسکتی ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں چودہ کی عمر کو بڑھا کر 18 کردیاہے۔اب اس میں اسکول کی مکمل تعلیم آجاتی ہے جو مفت اور لازمی اس ملک کے ہر بچے کو دی جائے گی۔

دونوں دفعات سے یہ استخراج ہوتا ہے کہ اس ملک کا ہر شہری اپنی مرضی سے جینے اور آ زادی سے جینے کا بنیادی اور آئینی حق رکھتاہے  اور اس آزادی سے جینے میں اپنے تہذیب و تمدن، ثقافت اور ریتی رواج کے ساتھ جینا شامل ہے۔ 2009 میں Right to Education (آر ٹی ای )ایکٹ پاس ہوا جس کا مقصد اس ملک کے ہر بچے کو مفت اور لازمی اسکو ل کی تعلیم دیناہے۔ لہٰذا وہ اپنے آئینی حقوق، ذمے داریاں اور تہذیب و تمدن، ثقافت اور ریتی رواج اور اس کی اہمیت سے بخوبی واقف ہو جا ئیں گے اور ان کے تحفظ کے لیے اقدامات بھی اٹھاسکیں گے۔جس فرد اور شہری کی تہذیب و تمدن، ثقافت کا حصہ اردو زبان ہے وہ صرف اس کے ساتھ جینے پر اکتفا نہ کرکے اس کے تحفظ کے لیے اپنے آئینی حقوق کا استعمال اور اقدامات بھی اٹھائیں گے۔

ہر مذہب اس کی تعلیمات کسی نہ کسی زبان کے سہارے لوگوں تک پہنچتی ہیں۔اردو کی ابتدائی دور میں ترویج و اشاعت اور ترقی میں صوفیائے کرام کا ناقابل فراموش کردار رہا ہے اور شروع سے ہی مدارس اور مکاتب بھی اس ضمن میں نہات ہی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہندوستان بلکہ اس بر صغیر میں اسلامی تعلیمات اور مذہبی معلومات کا سب سے  بڑا ذخیرہ اردوزبان میں موجود ہے۔مذکورہ بالا دفعات کے ذریعے حاصل شدہ بنیادی حقوق کے حصول کے ضمن میں اردو زبان کا تحفظ اور ترویج و اشاعت کی جا سکتی ہے۔آئینِ ہندمذہب کے تعلق سے جو بنیادی حقوق فراہم کرتاہے اس کے ذریعے مختلف زبانوں کو تخفظ حاصل ہے اور ان کی وجہ سے زبان کی بھی حفاظت کی جاسکتی ہے۔  

دستور ہندکی دفعہ 29 اور 30

دفعہ 29 اور 30 دونوں اقلیتوں کو کچھ مخصوص حقوق کی ضمانت دیتی ہیں۔دفعہ 29 اقلیتوں کے مفاد کا تحفظ اس طرح کرتی ہے کہ کوئی بھی الگ زبان، رسم الخط اور ثقافت رکھنے والے شہری اور قوم کو اپنے ان امور کے تحفظ کا مکمل حق حاصل ہے۔ ان دفعات کے تحت کسی کے ساتھ بھی مذہب، نسل، ذات، زبان یا ان میں کسی کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کیا جاسکتا۔دفعہ 30 اقلیتوں (مذہب یا زبان کی بنیاد پر ہو)  اس بات کا حق دیتا ہے کہ وہ اپنے اعتبار سے تعلیمی ادارے قائم کریں اور انتظام کریں۔ حکومت اقلیتوں کے اداروں میں مداخلت نہیں کرسکتی  اور ناہی ان کے ساتھ امتیازی سلوک کر تے ہوئے ان کی امدادروک سکتی ہے۔لسانی اور مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے قومی اقلیتی کمیشن کا قیام عمل میں آیاہے۔

یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ زبان افراد کی ثقافت اورتہذیب و تمدن کا ایک جزوِلاینفک ہے  اور جن لوگوں کی زبان اردو ہے یہ ان کی بھی ثقافت کا ایک حصہ ہے۔ لہذا اس کے بولنے والوں کو مکمل آئینی حق حاصل ہے کہ اس کا تحفظ کریں اور اس غرض سے اپنے تعلیمی ادارے قائم کریں اور حکومت سے امداد بھی حاصل کریں۔آئین ہند کی یہ دو دفعات اردو  زبان والوں کو بنیادی حق دیتی ہیں کہ اس زبان کے فروغ اور ترقی کے لیے ہمہ جہت کوششیں کریں۔ان ہی دفعات کے تحت ملک میں لاکھوں لسانی اقلیتی تعلیمی ادارے قائم ہیں اور لسانی خدمات میںمشغول ہیں خصوصی طورپر اردو زبان میں تعلیم دینے والے تعلیمی ادارے لا محدود ہیں جن سے اردو زبان کابراہ راست فروغ ہورہاہے۔

دستور ہند کی دفعہ 350، 350اے اور 350 بی

دفعہ 350 ہر شہری کو حق دیتی ہے کہ وہ اپنی شکایت کے ازالے کے لیے یونین اور صوبے کے کسی افسر یا اتھارٹی کے پاس اس ملک میں استعمال ہونے والی کسی بھی زبان میں اپنی نمائندگی پیش کرے۔ 350 اے کے تحت اس ملک کی ہر ریاست اور مقامی اتھارٹی کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ لسانی اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو تعلیم کے بنیادی مرحلے میں مادری زبان میں تعلیم کے لیے مناسب سہولیات مہیا کریں۔ صدر جمہوریہ کسی بھی ریاست کو اس طرح کی ہدایات جاری کرسکتے ہیں اگر وہ اس طرح کی سہولیات کی فراہمی کو محفوظ بنانے کے لیے ضروری یا مناسب سمجھتاہے۔ 350 بی کے تحت  لسانی اقلیتوں کے لیے ایک خصوصی افسرکی تقرری  صدر جمہوریہ کے ذریعے کی جائے گی۔یہ افسر آئین کے تحت لسانی اقلیتوں کو حاصل شدہ حقوق کی حفاظت سے متعلق تمام معاملا ت کی تحقیقات کرے گا اور صدر جمہوریہ کو رپورٹ کرے گا، یہ رپورٹیں ہرسال ایوان کے سامنے رکھی جائیں گی اور متعلقہ ریاستوں کی حکومتوں کو بھی بھیجی جائیں گی۔ ان دفعات کے مدنظر اردو کے محبین حکومتی معاملات میں اردو زبان کا کثرت سے استعمال کرسکتے ہیں اور حکومتوں کو پابند کراسکتے ہیں کہ ان کے بچوںکو اردو زبان میں ہی بنیادی تعلیم مہیاکرائیں اور ایسا نہ ہونے پر اس کی شکایت اس افسر سے کرسکتے ہیں۔

دستور ہندکی دفعہ 345 اور 347

دفعہ 345 ملک کی ہر ریاست کو حق دیتی ہے کہ وہ اپنی مقننہ کے ذریعے ریاست میں بولی جانے والی زبانوں میں سے کسی ایک یا زیادہ زبان کو سرکاری زبان کے طورپر اپنا سکے۔دفعہ 347 کے تحت ریاستیں اپنی عوام کے ایک مخصوص طبقے کے ذریعے بولی جانے والی زبان کو پوری ریاست میں یا کسی خاص حصے میں ان عوام کے تقاضے پر حکومتی زبان کے طورپر مان سکتی ہیں اور مخصوص انتظامات کرسکتی ہیں۔

نئی تعلیمی پالیسی2020 اور ہندوستانی زبانوں کا فروغ

 نئی تعلیمی پالیسی ہندوستان کی اکیسویں صدی کی سب سے اہم تعلیمی پالیسی ہے جو ایک لمبے انتظار کے بعد 2019 میں ایک مسودے کی شکل میں پیش کی گئی۔ ہندوستان کی یونین کابینہ نے اس مسودے کو 29 جولائی 2020 کو اپنی منظوری دی۔ یہ پالیسی ہر زاویے سے انقلابی، دوررس اور جامع ہے اور تعلیم کے تمام پہلوؤ ں جیسے بنیادی تعلیم، اعلی تعلیم، درس و تدریس، نصاب، تعلیمی نظم و نسق،صنعتی تعلیم، تعلیمی سرمایہ کاری، تعلیم بالغان اور تکنیکی تعلیم وغیرہ پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اس پالیسی نے ملک کے تعلیمی ڈھانچے کے سارے زاویے جیسے قوانین، انتظام اور نظم و ضبط وغیرہ میں تصحیح اور سدھار کی پیشکش کی تا کہ ایک ایسا نیا نظام تیار کیا جا ئے جو اکیسویں صدی کے مقاصد کو پورا کرے اورامیدوں پر کھڑاترے۔

اس پالیسی کے ذریعے تمام ہندوستانی زبانوںجن میں اردو بھی شامل ہے کے تحفظ، نشو و نما اور فروغ کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس پالیسی میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہر علاقے کی ثقافت وروایات کی صحیح شمولیت، اس کا تحفظ اور اسکولوں میں تمام طلبا کی صحیح تفہیم اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب قبائلی زبانوں سمیت تمام ہندوستانی زبانوں کو مناسب احترام دیاجائے۔ اس طرح صحیح معنوں میں ہندوستان کی زرخیززبانوں جیسے اردو زبان اور ادبیات کا تحفظ کرنا با لکل ناگزیر ہے۔ اس پالیسی میں اس کی یقین دہانی کی گئی ہے کہ پورے ہندوستان میں مضبوط قومی اور علاقائی زبان اور ادب کے پروگراموں، اساتذہ کی تقرری، تحقیق اور کلاسیکی زبانوں کے فروغ کے ذریعے زبان، ادب اور سائنسی الفاظ پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔کلاسیکی زبان و ادب کے فروغ کے لیے موجودہ قومی اداروں کو مضبوط کیا جائے گا اور ایک قومی انسٹی ٹیوٹ برائے پالی، فارسی اور پراکرت بھی قائم کیا جائے گا۔سائنسی اور تکنیکی اصطلاحات کے کمیشن (Commission for Scientific and Technical Terminology)کا منشور اور فرمان یعنی ملک بھر میں یکساں استعمال کے لیے ذخیرہ الفاظ تیار کیا جائے گا۔

خاتمہ

مذکورہ بالا آئین کی دفعات اور ان میں اس ملک کے شہریوں کو دیے گئے حقوق اردو کی ترقی اور فروغ کا ضامن ہیںبشرطیکہ اس زبان کے بولنے والے اور اس کی محبت کا دعوی کرنے والے ان دفعات اور حقوق سے واقف ہوں۔ محض واقفیت بھی کافی نہیں ہے بلکہ اس زبان کی ترقی اور فروغ کے لیے دیگر زبانوں کی طرح سعی مسلسل کی ضرورت ہے۔

اس زبان کی ترقی کے لیے خلوص کے ساتھ اس زبان کا کثرت سے استعمال کرنے، تعلیمی ادارے جہاں ذریعہ تعلیم اردو ہوقائم کرنے، اور اردو زبان کے فروغ کے لیے اس ملک میں قائم اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔اس زبان کے تحفظ کے لیے آئین ہند کی جانکاری اور اس کی تعمیل نیز جمہوری اقدار اور طریقہ کار کو اپنانے کی ضرورت ہے۔اس زبان میں اتنی حلاوت ہے کہ یہ زبان بذات خود ترقی کی راہ طے کرے گی بشرطہ کہ اس کے راستے میں رکاوٹ پیدانہ ہو اور اگر ہو تو اس کو دور کیا جائے۔

 

Aftab Alam

College of Teacher Education,

MANUU)Darbhanga, Ilyas Ashraf Nagar

Chndanpatti, Laheria Sarai

Darbhanga- 846002 (Bihar)

Mob.: 8285835517

 






کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں