نجم الدین
شاہ مبارک آبرو شمالی ہند کے اولین اردو شعرا میں منفرد شخصیت کے مالک ہیں۔ان کی
زندگی کے حالات وکوائف کے تعلق سے کسی بھی تذکرہ نگار کی تحریر سے خاطر خواہ وضاحت
نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ محققین نے بھی
تذکرہ نگاروں سے آبرو کے بارے میں کافی اطلاعات نہ ملنے کے باعث پیدائش کے متعلق
کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی ہے۔ ہاں ان کی سنہ وفات کے تعلق سے کئی مصدقہ معلومات
ملتی ہیں۔اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ان کے کلیات یادیوان کے ہنوز سات مخطوطے دریافت
ہوچکے ہیں۔ پروفیسر عبدالحق کے ذاتی علمی مخزونہ میں'دیوان
آبرو' کا مخطوطہ ہے۔
آبرو کے
کلام میں لسانی اہمیت کے مدنظر چند معروضات پیش ہیں۔ ان کا عہد ریختہ یعنی اردو کا
تشکیلی دور تھا۔ اردو زبان اپنے وجود کے ساتھ فروغ کی راہ پر گامزن تھی۔ فارسی کے
اثرات کم ہونے لگے تھے۔ خواص بھی اردو کو منہ لگانے لگے تھے۔ دکن میں ولی نے ریختہ
گوئی میں اپنا سکہ جمادیا تھا۔ان کی دلی آمد سے قبل ہی دہلی کے ادبا اور شعرا نے
ان کے کلام کو خوش آمدید کہا۔ اور اس کے تتبع کو غنیمت جان کر فارسی کو چیلنج کردیا۔آبرو،
حاتم اور ناجی وغیرہ نے ریختہ گوئی میں اپنے مافی الضمیر کا بھرپور اظہار کیا اور
خوب کیا۔ ان حضرات کے کلام کے سرسری مطالعے سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی
ہے۔ کسی بھی زبان میں جملوں کی ساخت بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اردوزبان کے جملوں
کی ساخت کھڑی بولی کے طرز پر ہے۔جو دلی کے گرد ونواح کے عین مطابق ہے۔ اسی فضا
وماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے آبرو نے فارسی سے انحراف کرتے ہوئے یہ اعلان کیا ؎
وقت جن کا
ریختے کی شاعری میں صرف ہے
ان سیتی
کہتا ہوں بوجھو صرف میرا زرف (ظرف) ہے
جو کہ لاوے
ریختے میں فارسی کے فعل و حرف
لغو میں
افعال اس کے ریختے میں حرف ہے
شاہ مبارک
آبرو کا یہ اعلان عوام کے لب ولہجہ کا لسانی اعتراف تھا۔ اس عہد کی عوامی زبان سے
شغف رکھنے والے شعرا نے فطری تقاضے کے باعث آبرو کو اپنے ہم خیال پایا۔ انھوں نے
آبرو کی حمایت کے ساتھ اردو کو فارسی کے مقابل لانے کی شعوری کوشش بھی کی۔ یہ
لسانی رجحان ریختہ یعنی اردو کے وجود اورارتقأ میں بے حد مفید ثابت ہوا۔ اردوزبان
عربی، فارسی اور علاقائی لفظیات کو اپنے مزاج کے مطابق تشکیل دے رہی تھی۔مزید اس کی
لطافت اور شیرینی بھی دو چند ہورہی تھی۔ اس کی کشش نے اشرافیہ طبقے کو بھی اپنی
جانب متوجہ کرلیا تھا، جس کے باعث شعر وسخن میں انقلاب آفریں ماحول بن گیا۔حتیٰ
کہ تمام طبقات کے عوام وخواص میں سخنور پیداہونے لگے۔ انھوں نے تخلیقی ادب کو
حددرجہ فروغ بخشا۔ اردوزبان میں تھوڑے عرصے میں ہی بڑے فنکار یعنی سخن ور پیدا
ہوئے، یہ اردو زبان کے لیے بڑا اعجاز تھا۔ بقول عبدالحق
"دیکھتے دیکھتے شاعری میں انقلاب پیدا ہوگیا، ہر طبقے اور ہر پیشے
سے اہل فن پیدا ہونے لگے۔ پہلے ہی دور میں شعرا کی کہکشاں کا ظہور ہوا۔ انھوں نے
اردو کے تخلیقی ادب کو مہمیز کیا اور توانائی بخشی۔ تھوڑے ہی عرصے میں یعنی نصف صدی
بھی گزرنے نہ پائی تھی کہ شاعری کے عہد زریں کا وجود ونمود حیرت فزائی کا سبب بنا،
زبان کے آغاز اور عہد زریں میں زمانے کا بہت کم فاصلہ ہے۔ مگر شہ پاروں کی وقعت
وکثرت ایک عجوبہ سے کم نہیں ہے۔ کم وبیش صرف نصف صدی میں ایک گرتی پڑتی زبان کا یہ
عروج اور استعداد حاصل کرنا شاید دنیا کی ادبی تاریخ میں تنہا مثال ہو۔ اردو، فارسی
کے روبرو کھڑی ہوگئی۔"
) دیوان زادہ،مرتبہعبدالحق،ناشرنیشنل مشن فار مینسکرپٹس،2011
، ص 53(
ولی دکنی
کا دیوان دہلی پہنچا تو دہلی کے عوام اور سخنوروں نے اسے آسمانی صحیفہ سمجھ کر
استقبال کیا۔ جس کے باعث دہلی کے ہر طبقے وپیشے سے تعلق رکھنے والے شعرا پیش پیش
نظر آنے لگے۔ شاہ مبارک آبرو، حاتم، شرف الدین مضمون، مرزا مظہر جان جاناں، شیخ
احسن اللہ بیاں، میرشاکر ناجی اور یک رنگ وغیرہ نے عوامی زبان وبیان میں ریختہ کو
فروغ بخشا۔ پروفیسر عبدالحق اس عہد کی عوامی زبان کے تعلق سے لکھتے ہیں:
"عوامی بول چال کو معیار مقرر کیا گیا۔ یہی زبان کا فطری بہاؤ صحیح
میلان اور اصولی تقاضا تھا۔ الفاظ کے مرقع بول چال کے صوتی نظام سے مربوط تھے۔
عوام کی زبان خرادیا ٹکسالی تھی۔ اس خراد پر الفاظ بنتے اور ڈھلتے تھے۔ پھر قبول
عام میں چلن پاکر درجۂ استناد کو پہنچے تھے۔ یہی زبان اور تلفظ شاعری میں تخلیقی
عمل کا فطری جز قرار پایا۔"(ایضاً، ص 54(
ہر عہد کے
عوام کے جذبات واحساسات کی ترجمانی شاعر وفنکار کرتے رہے ہیں۔ وہ اس عہد کی زبان
سے فطری طور پر واقف ہوتے ہیں۔ آبرو، حاتم، شرف الدین مضمون وغیرہ کا کلام زبان کی
ابتدائی صورت حال کے ساتھ اردو زبان کے لسانیاتی ارتقا کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا
حامل ہے۔ آبرو صاحب دیوان شاعر ہیں۔ انھیں عوامی زبان اور اس کے متعلقات سے بڑی
واقفیت تھی۔ شاہ مبارک آبرو اور حاتم کا دور ایک ہی ہے دونوں سخنور اپنے عہد اور
اردو ادبی تاریخ کے بڑے معتبر نام ہیں۔ پروفیسر عبدالحق حاتم کے حوالے سے زبان وبیان
کے بارے میں لکھتے ہیں جس کا اطلاق ہم آبرو کے کلام میں مستعمل الفاظ پر بھی
کرسکتے ہیں۔ عوام کو مدنظر رکھتے ہوئے انھوں نے تحریر کیا ہے
"یہی جمہوریت کی متابعت تھی جس نے ابتدائی کلام کو جمہور کی ترجمانی
کے لیے مجبور کیا تھا۔ وہ جمہور جو ابھی صوتیات کی تراش خراش کو خاطر میں نہیں
لارہی تھی بلکہ وہ تلفظ اور تحریر میں کسی فرق کی روا دار نہ تھی۔ حاتم کے یہاں ایسے
الفاظ کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ وو، اوس، اوتر، اوپر اوٹھ اوسے اوجالا اوتار اونے
اوڑے اوٹھوں جیسے الفاظ زائدوا کے ساتھ مستعمل تھے۔ بعد کی اصلاحات نے اسے حذف
کرکے پیش کی آواز برقرار رکھی اور یہ متروک سمجھے گئے۔ سیں سوں کوں چوں، توں، جیوں
تیں، تئیں، سیتی، کبھو، کسو، ٹک، کن، لکن، کتے، آگیں، مجے، مج، منے، کثرت استعمال
سے زبان کا جز بن چکے تھے۔ اس دور کی شاعری میں یہ متروکات کثرت سے استعمال کیے
گئے ہیں" (ایضاً، ص 55(
بالا
اقتباس میں مذکورہ باتوں کے متعلق یہ عرض کرنا برمحل ہے کہ الفاظ کی املائی صورت یعنی
رسم الخط، اہل سخن اور پڑھے لکھے حضرات نے تحریروگفتگو میں متروک کردیا ہے۔ جس سے
اردو زبان کا معیار متعین ہوتا ہے۔ مگر یہ الفاظ ہنوز دہلی اور اس کے گرد ونواح کے
عوام کی بول چال میں فطری طور پر رواں دواں ہیں۔ جن کے اثرات سے ان علاقوں کے پڑھے
لکھے حضرات بھی بے تکلف گفتگو میں ان الفاظ کی ادائیگی میںبولی کے فطری لہجے کے
مرتکب ہوتے رہتے ہیں اور زبان داں طبقہ اہل زبان کے فطری لہجہ یعنی اردو زبان کے
خاص مجہول لہجے کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ مزیدطرفہ تو یہ ہے لسانی جہالت کا ثبوت
فراہم کرتے ہوئے ان پر استہزا بھی کرتا ہے۔ مزید بہت سے الفاظ کو انفیانے یعنی ناک
میں صوت کی گردش ہونا نہ صرف اس عہد میں رائج تھا بلکہ دہلی کے قرب وجوار میں آج
بھی عوام میں رائج ہے۔ اس انفیانے کے میلان کے بارے میں پروفیسر عبدالحق رقم طراز
ہیں:
"لفظوں کی دوسری صورت بھی دیکھنے میں آتی ہے جن میں بعض آوازیں
زاید تھیں اور ان کا عام تلفظ بھی صوتیات سے ہم آہنگ تھا۔ تھنبا، چونبا، کونچے،
گانو، ماناں، ناں، آناں، نانوں، سنتیں، اپناں، میں بھی انفیانے کامیلان موجود ہے
اور بعد میں کچھ صورتوں میں یہ آواز ‘م’ سے تبدیل ہوگئی یا نون حذف ہوگیا۔" (ایضاً،
ص 55(
دراصل کسی
زبان میں لسانیاتی سطح پر عوامی بول چال کے ذریعے تبدیلی اور ارتقا کے ساتھ لفظ
اپنی ساخت اور تلفظ کی نوتشکیل سے گزرتے رہتے ہیں۔ جس سے انکار ممکن نہیں اور بہت
سے الفاظ صدی درصدی بھی عوام میں اپنی آواز کی اصل کو برقرار رکھتے ہیں پھر بھی
وہ لغت کا حصہ نہیں بنتے یا بنائے نہیں جاتے۔ ہمارے اردو کے ابتدائی معتبر شعرا کے
یہاں بھی ایسے الفاظ موجود ہیں بلکہ ان کی شاعری میں اپنے صوتی لب ولہجے میںہی
اچھے لگتے ہیں مگر وہ متروک ہیں۔مگر عوام کے لسانی لہجے میں تین صدی کا طویل عرصہ
گزرنے کے بعد آج بھی بدستور رائج ہیں۔ پروفیسرعبدالحق ایسے لب ولہجے کو فن میں
فطری سادگی کا مرقع تسلیم کرتے ہیں:
"بول چال کی یہ زبان لب ولہجے میں تبدیل ہوچکی تھی۔ اس کا تعلق لغت
سے کم تھا۔ یہی لب و لہجہ شاعری میں بھی رائج تھا جس کی وجہ سے فن میں فطری سادگی
وپرکاری کے مرقعے دکھائی دیتے ہیں۔ صوتیات میں آواز ہی اصل ہے باقی فروعات ہیں
اورآواز وہ جو استعمال عام میں ہے۔ اسی آواز سے زبان کی تشکیل ہوتی ہے۔ حاتم نے
ایسے الفاظ کے تلفظ کواصل املا سے مطابقت دی ہے۔گویا تقریر و تحریر کافرق بے بنیاد
دکھائی دیتا ہے، یہ اس دور کی لسانی خوبی ہے اور ولی، آبرووغیرہ کے یہاں عام ہے
مصطفا، مرتضا، مجتبا، کسائی، چمیلی، تسبی وغیرہ۔"(ایضاً، ص 55(
آبرو اور
ان کے عہد کے شعرا میں زبان کے تعلق سے بڑی بیداری تھی۔ انھوں نے دیگر زبان کے
الفاظ کے املے اور تلفظ میں تصرف رواں رکھا، جو دہلی اور گردونواح کے فطری لہجے کے
مطابق تھا۔ مگر بعد میں زبان دانوں کی تحریک کے باعث ایسے الفاظ اصلاح کی خاطر
کالعدم قرار دے دیے گئے اوراہل زبان علمأ نے بھی اسے لبیک کہا مگر عوام کی صورت
حال آج بھی جوں کی توں دکھائی دیتی ہے۔ اس بحث سے قطع نظر آبرو اور حاتم کا عہد
ایک ہی ہے اور زبان کے تعلق سے دونوں کا لسانی مزاج یکساں ہے۔ تو ان کے یہاں الفاظ
وحروف کا استعمال بھی عین فطری یکسانیت رکھتاہے۔ پروفیسر عبدالحق نے اپنے مطالعے
اور علم ودانش کی رو سے حاتم کے کلام میں استعمال کیے گئے الفاظ پر طویل بحث کی ہے
جو آبرو کے کلام پربھی صادق آتی ہے۔
زبانیں قدیم
ہوںیا جدید سب بنی نوع انسان کی بول چال سے وجود میں آئی ہیں اور سب زبانوں نے کم
و بیش اپنے قریب کی زبانوں سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک دوسری
زبان کے الفاظ میں املائی، تلفظی اور معنی کے اعتبار سے فطری طور پر تصرف کرلیاہے۔
اردو زبان نے براہِ راست فارسی اورعربی کے ذخیرئہ الفاظ سے سب سے زیادہ استفادہ کیا
ہے۔ مگران الفاظ کو اپنے مزاج کے مطابق ڈھالنے کا بڑا کام ہمارے شعرا وادبا نے کیاہے۔
اسی طرح دیگر زبانوں میں ترکی،پنجابی، سنسکرت کے الفاظ بھی اپنے خمیر کے مطابق تبدیل
کیے ہیں۔ اردو زبان دیگر زبانوں کے باہمی رشتے اور ان کے الفاظ کی آمیزش سے تشکیل
پائی۔ آبرو اور ان کے معاصرین نے اردو زبان کی نشوونما میں بڑی توجہ صرف کی۔
آبرو کے کلام میں ہندوستانی یعنی دہلی و گرد و نواح کا ماحول اورعوام کالب و لہجہ
اچھی طرح منتقل ہوگیا جو اردو کا خاص اسلوب بھی ہے۔ آبرو کے کلام میں اردو زبان
کافطری حسن اپنی دلکشی کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ جس میں خاص طورسے اسلامی اور ہندوستانی
تہذیبوں کی آمیزش بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ اسی امتزاج سے اردو کی بنیاد ہموار ہوئی۔
آبرو اور ان کے معاصرین کے کلام میں ہندوستانیت کا رچاؤ بساؤ اپنے لطیف حسن کا
غماز ہے۔ وہ الفاظ اہل زبان کو آج بھی نہ گراں گزرتے ہیں اور نہ ہی غیرمانوس
محسوس ہوتے ہیں۔ مندرجہ ذیل الفاظ جو زبان داں طبقے کے ذریعے متروک قرارپائے اور
اہل زبان اشرافیہ طبقے نے بھی ان متروکات کو قبول کیا۔ یہ الفاظ عوام کے فطری جذبے
میں آج بھی رچے بسے ہیں۔الفاظ کا مطالعہ کیجیے:
"آؤنا، آلا، اڑسنا، انمناہٹ، امول، اچرج، اناڑی، انوٹھا، اگن،
اتیت، اکھیاں، اوپھنتا، اندھیاری، اجان، اہیر، ایس، بان، برن، بالم، برہ بر، بچن،
بیوڑا، بس ملا، برکا، برہن، بڑمارنا، باؤلی، بھاؤنا، بھانت، بھال، بھسم، بجھالے،
بھونچال، بیڑے، پھوہا، پھپھولا، پھندیت، پچھڑنا، پریاں، پنھ، پن، تسی، تماکو،
تاڑنا، تجا، ٹھاٹھ، ٹھٹھک، ٹھکرا، ٹھاڑا، ٹھاڑی، بگ، جھمکی، جنگلا، جی کھپانا، چیتا،
چنچل، چلبلا، چھتیوی، چاؤں، چھٹکی، درس، دیوڑا، دیہہ، دوالی کا دیا، دوش دینا،
دبدبا، دھمال، دھس کر، دنگل، دھڑی، ڈھنڈال، راوت، رسیا، رکھاوٹ، رکت، رجھانا،
دسرت، سوہا، سنمکھ، سدھ، سگھڑ، سٹکنا، سبدھی، سادھنا، سریجن، سمرن، سبارش، سوہنے،
سناہنا، کنچنی، کنڈل مارنا، کال، کاڈھ، کش، کنٹھا، کاڑھا، کوڑی، کھیوا، کٹار، کدو،
کھویا، کاجر، کپٹ، کالک، گیان، گیتا، گھنڈی، گٹکنا، گورائی، گپ چپ، گودنا، گور، گھٹا،
مکھ، مگن، مورکھ، نام دھروانا، نگر، نکٹ، نیاری، نراشی، ہاٹ، ہٹ دھرم وغیرہ۔"
آبرو کے
دور میں اسما کی جمع بنانے میں ؤں کے علاوہ اں کا استعمال رائج تھا اور افعال کے
استعمال میں کافی فرق تھا۔ اس تعلق سے بہت سے اشعار نذرناظرین ہیں ؎
بوسا لباں
سیں دینے کہا کہہ کے پھر گیا
پیالا بھرا
شراب کا افسوس گر گیا
سب عاشقاں
میں ہم کوں مژدا ہے آبرو کا
ہے قصد اگر
تمہارے دل بیچ امتحاں کا
رقیباں کی
ہوا ناچیز باتاں سن کے یوں بدخو
وگرنہ جگ میں
شہرا تھا صنم کی خوش خصالی کا
خوباں میں
سب جگت کے تو خوب زور ہے ممولا
سارے جہاں
میں تیرا اب شور ہے ممولا
خوش یوں قد
خم شیخ کا ہے معتقداں کوں
جیوں کشاں
کوں کب جا لگے کوب پیارا
آبرو غم
کے بھنور میں دل خدا سیتی لگا
ناخدا کچھ
کام نہیں آتا ہے منجھدہاراں کے بیچ
آن ہے درد
کے ضعیفاں پر
آہ دل کی
الف ہے قد نوں ہے
ناقص تھی
عاشقی کی تدبیر میں زلیخا
رکھنے کوں یوسفاں
کے ایک دل کی چاہ بس ہے
دشمناں کو
طعنے نے زخمی کیا
بات ان سب
کی کٹاری ہے
Dr. Safaraz Javed
R-155, Gali No.: 6, Sir
Syed Road
Jogabai Ext, Jamia Nagar,
Okhla
New Delhi - 110025
نجم الدین
شاہ مبارک آبرو شمالی ہند کے اولین اردو شعرا میں منفرد شخصیت کے مالک ہیں۔ان کی
زندگی کے حالات وکوائف کے تعلق سے کسی بھی تذکرہ نگار کی تحریر سے خاطر خواہ وضاحت
نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ محققین نے بھی
تذکرہ نگاروں سے آبرو کے بارے میں کافی اطلاعات نہ ملنے کے باعث پیدائش کے متعلق
کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی ہے۔ ہاں ان کی سنہ وفات کے تعلق سے کئی مصدقہ معلومات
ملتی ہیں۔اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ان کے کلیات یادیوان کے ہنوز سات مخطوطے دریافت
ہوچکے ہیں۔ پروفیسر عبدالحق کے ذاتی علمی مخزونہ میں'دیوان
آبرو' کا مخطوطہ ہے۔
آبرو کے
کلام میں لسانی اہمیت کے مدنظر چند معروضات پیش ہیں۔ ان کا عہد ریختہ یعنی اردو کا
تشکیلی دور تھا۔ اردو زبان اپنے وجود کے ساتھ فروغ کی راہ پر گامزن تھی۔ فارسی کے
اثرات کم ہونے لگے تھے۔ خواص بھی اردو کو منہ لگانے لگے تھے۔ دکن میں ولی نے ریختہ
گوئی میں اپنا سکہ جمادیا تھا۔ان کی دلی آمد سے قبل ہی دہلی کے ادبا اور شعرا نے
ان کے کلام کو خوش آمدید کہا۔ اور اس کے تتبع کو غنیمت جان کر فارسی کو چیلنج کردیا۔آبرو،
حاتم اور ناجی وغیرہ نے ریختہ گوئی میں اپنے مافی الضمیر کا بھرپور اظہار کیا اور
خوب کیا۔ ان حضرات کے کلام کے سرسری مطالعے سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی
ہے۔ کسی بھی زبان میں جملوں کی ساخت بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اردوزبان کے جملوں
کی ساخت کھڑی بولی کے طرز پر ہے۔جو دلی کے گرد ونواح کے عین مطابق ہے۔ اسی فضا
وماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے آبرو نے فارسی سے انحراف کرتے ہوئے یہ اعلان کیا ؎
وقت جن کا
ریختے کی شاعری میں صرف ہے
ان سیتی
کہتا ہوں بوجھو صرف میرا زرف (ظرف) ہے
جو کہ لاوے
ریختے میں فارسی کے فعل و حرف
لغو میں
افعال اس کے ریختے میں حرف ہے
شاہ مبارک
آبرو کا یہ اعلان عوام کے لب ولہجہ کا لسانی اعتراف تھا۔ اس عہد کی عوامی زبان سے
شغف رکھنے والے شعرا نے فطری تقاضے کے باعث آبرو کو اپنے ہم خیال پایا۔ انھوں نے
آبرو کی حمایت کے ساتھ اردو کو فارسی کے مقابل لانے کی شعوری کوشش بھی کی۔ یہ
لسانی رجحان ریختہ یعنی اردو کے وجود اورارتقأ میں بے حد مفید ثابت ہوا۔ اردوزبان
عربی، فارسی اور علاقائی لفظیات کو اپنے مزاج کے مطابق تشکیل دے رہی تھی۔مزید اس کی
لطافت اور شیرینی بھی دو چند ہورہی تھی۔ اس کی کشش نے اشرافیہ طبقے کو بھی اپنی
جانب متوجہ کرلیا تھا، جس کے باعث شعر وسخن میں انقلاب آفریں ماحول بن گیا۔حتیٰ
کہ تمام طبقات کے عوام وخواص میں سخنور پیداہونے لگے۔ انھوں نے تخلیقی ادب کو
حددرجہ فروغ بخشا۔ اردوزبان میں تھوڑے عرصے میں ہی بڑے فنکار یعنی سخن ور پیدا
ہوئے، یہ اردو زبان کے لیے بڑا اعجاز تھا۔ بقول عبدالحق
"دیکھتے دیکھتے شاعری میں انقلاب پیدا ہوگیا، ہر طبقے اور ہر پیشے
سے اہل فن پیدا ہونے لگے۔ پہلے ہی دور میں شعرا کی کہکشاں کا ظہور ہوا۔ انھوں نے
اردو کے تخلیقی ادب کو مہمیز کیا اور توانائی بخشی۔ تھوڑے ہی عرصے میں یعنی نصف صدی
بھی گزرنے نہ پائی تھی کہ شاعری کے عہد زریں کا وجود ونمود حیرت فزائی کا سبب بنا،
زبان کے آغاز اور عہد زریں میں زمانے کا بہت کم فاصلہ ہے۔ مگر شہ پاروں کی وقعت
وکثرت ایک عجوبہ سے کم نہیں ہے۔ کم وبیش صرف نصف صدی میں ایک گرتی پڑتی زبان کا یہ
عروج اور استعداد حاصل کرنا شاید دنیا کی ادبی تاریخ میں تنہا مثال ہو۔ اردو، فارسی
کے روبرو کھڑی ہوگئی۔"
) دیوان زادہ،مرتبہعبدالحق،ناشرنیشنل مشن فار مینسکرپٹس،2011
، ص 53(
ولی دکنی
کا دیوان دہلی پہنچا تو دہلی کے عوام اور سخنوروں نے اسے آسمانی صحیفہ سمجھ کر
استقبال کیا۔ جس کے باعث دہلی کے ہر طبقے وپیشے سے تعلق رکھنے والے شعرا پیش پیش
نظر آنے لگے۔ شاہ مبارک آبرو، حاتم، شرف الدین مضمون، مرزا مظہر جان جاناں، شیخ
احسن اللہ بیاں، میرشاکر ناجی اور یک رنگ وغیرہ نے عوامی زبان وبیان میں ریختہ کو
فروغ بخشا۔ پروفیسر عبدالحق اس عہد کی عوامی زبان کے تعلق سے لکھتے ہیں:
"عوامی بول چال کو معیار مقرر کیا گیا۔ یہی زبان کا فطری بہاؤ صحیح
میلان اور اصولی تقاضا تھا۔ الفاظ کے مرقع بول چال کے صوتی نظام سے مربوط تھے۔
عوام کی زبان خرادیا ٹکسالی تھی۔ اس خراد پر الفاظ بنتے اور ڈھلتے تھے۔ پھر قبول
عام میں چلن پاکر درجۂ استناد کو پہنچے تھے۔ یہی زبان اور تلفظ شاعری میں تخلیقی
عمل کا فطری جز قرار پایا۔"(ایضاً، ص 54(
ہر عہد کے
عوام کے جذبات واحساسات کی ترجمانی شاعر وفنکار کرتے رہے ہیں۔ وہ اس عہد کی زبان
سے فطری طور پر واقف ہوتے ہیں۔ آبرو، حاتم، شرف الدین مضمون وغیرہ کا کلام زبان کی
ابتدائی صورت حال کے ساتھ اردو زبان کے لسانیاتی ارتقا کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا
حامل ہے۔ آبرو صاحب دیوان شاعر ہیں۔ انھیں عوامی زبان اور اس کے متعلقات سے بڑی
واقفیت تھی۔ شاہ مبارک آبرو اور حاتم کا دور ایک ہی ہے دونوں سخنور اپنے عہد اور
اردو ادبی تاریخ کے بڑے معتبر نام ہیں۔ پروفیسر عبدالحق حاتم کے حوالے سے زبان وبیان
کے بارے میں لکھتے ہیں جس کا اطلاق ہم آبرو کے کلام میں مستعمل الفاظ پر بھی
کرسکتے ہیں۔ عوام کو مدنظر رکھتے ہوئے انھوں نے تحریر کیا ہے
"یہی جمہوریت کی متابعت تھی جس نے ابتدائی کلام کو جمہور کی ترجمانی
کے لیے مجبور کیا تھا۔ وہ جمہور جو ابھی صوتیات کی تراش خراش کو خاطر میں نہیں
لارہی تھی بلکہ وہ تلفظ اور تحریر میں کسی فرق کی روا دار نہ تھی۔ حاتم کے یہاں ایسے
الفاظ کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ وو، اوس، اوتر، اوپر اوٹھ اوسے اوجالا اوتار اونے
اوڑے اوٹھوں جیسے الفاظ زائدوا کے ساتھ مستعمل تھے۔ بعد کی اصلاحات نے اسے حذف
کرکے پیش کی آواز برقرار رکھی اور یہ متروک سمجھے گئے۔ سیں سوں کوں چوں، توں، جیوں
تیں، تئیں، سیتی، کبھو، کسو، ٹک، کن، لکن، کتے، آگیں، مجے، مج، منے، کثرت استعمال
سے زبان کا جز بن چکے تھے۔ اس دور کی شاعری میں یہ متروکات کثرت سے استعمال کیے
گئے ہیں" (ایضاً، ص 55(
بالا اقتباس میں مذکورہ باتوں کے متعلق یہ عرض کرنا برمحل ہے کہ الفاظ کی املائی صورت یعنی رسم الخط، اہل سخن اور پڑھے لکھے حضرات نے تحریروگفتگو میں متروک کردیا ہے۔ جس سے اردو زبان کا معیار متعین ہوتا ہے۔ مگر یہ الفاظ ہنوز دہلی اور اس کے گرد ونواح کے عوام کی بول چال میں فطری طور پر رواں دواں ہیں۔ جن کے اثرات سے ان علاقوں کے پڑھے لکھے حضرات بھی بے تکلف گفتگو میں ان الفاظ کی ادائیگی میںبولی کے فطری لہجے کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں اور زبان داں طبقہ اہل زبان کے فطری لہجہ یعنی اردو زبان کے خاص مجہول لہجے کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ مزیدطرفہ تو یہ ہے لسانی جہالت کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے ان پر استہزا بھی کرتا ہے۔ مزید بہت سے الفاظ کو انفیانے یعنی ناک میں صوت کی گردش ہونا نہ صرف اس عہد میں رائج تھا بلکہ دہلی کے قرب وجوار میں آج بھی عوام میں رائج ہے۔ اس انفیانے کے میلان کے بارے میں پروفیسر عبدالحق رقم طراز ہیں:
"لفظوں کی دوسری صورت بھی دیکھنے میں آتی ہے جن میں بعض آوازیں
زاید تھیں اور ان کا عام تلفظ بھی صوتیات سے ہم آہنگ تھا۔ تھنبا، چونبا، کونچے،
گانو، ماناں، ناں، آناں، نانوں، سنتیں، اپناں، میں بھی انفیانے کامیلان موجود ہے
اور بعد میں کچھ صورتوں میں یہ آواز ‘م’ سے تبدیل ہوگئی یا نون حذف ہوگیا۔" (ایضاً،
ص 55(
دراصل کسی زبان میں لسانیاتی سطح پر عوامی بول چال کے ذریعے تبدیلی اور ارتقا کے ساتھ لفظ اپنی ساخت اور تلفظ کی نوتشکیل سے گزرتے رہتے ہیں۔ جس سے انکار ممکن نہیں اور بہت سے الفاظ صدی درصدی بھی عوام میں اپنی آواز کی اصل کو برقرار رکھتے ہیں پھر بھی وہ لغت کا حصہ نہیں بنتے یا بنائے نہیں جاتے۔ ہمارے اردو کے ابتدائی معتبر شعرا کے یہاں بھی ایسے الفاظ موجود ہیں بلکہ ان کی شاعری میں اپنے صوتی لب ولہجے میںہی اچھے لگتے ہیں مگر وہ متروک ہیں۔مگر عوام کے لسانی لہجے میں تین صدی کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد آج بھی بدستور رائج ہیں۔ پروفیسرعبدالحق ایسے لب ولہجے کو فن میں فطری سادگی کا مرقع تسلیم کرتے ہیں:
"بول چال کی یہ زبان لب ولہجے میں تبدیل ہوچکی تھی۔ اس کا تعلق لغت
سے کم تھا۔ یہی لب و لہجہ شاعری میں بھی رائج تھا جس کی وجہ سے فن میں فطری سادگی
وپرکاری کے مرقعے دکھائی دیتے ہیں۔ صوتیات میں آواز ہی اصل ہے باقی فروعات ہیں
اورآواز وہ جو استعمال عام میں ہے۔ اسی آواز سے زبان کی تشکیل ہوتی ہے۔ حاتم نے
ایسے الفاظ کے تلفظ کواصل املا سے مطابقت دی ہے۔گویا تقریر و تحریر کافرق بے بنیاد
دکھائی دیتا ہے، یہ اس دور کی لسانی خوبی ہے اور ولی، آبرووغیرہ کے یہاں عام ہے
مصطفا، مرتضا، مجتبا، کسائی، چمیلی، تسبی وغیرہ۔"(ایضاً، ص 55(
آبرو اور
ان کے عہد کے شعرا میں زبان کے تعلق سے بڑی بیداری تھی۔ انھوں نے دیگر زبان کے
الفاظ کے املے اور تلفظ میں تصرف رواں رکھا، جو دہلی اور گردونواح کے فطری لہجے کے
مطابق تھا۔ مگر بعد میں زبان دانوں کی تحریک کے باعث ایسے الفاظ اصلاح کی خاطر
کالعدم قرار دے دیے گئے اوراہل زبان علمأ نے بھی اسے لبیک کہا مگر عوام کی صورت
حال آج بھی جوں کی توں دکھائی دیتی ہے۔ اس بحث سے قطع نظر آبرو اور حاتم کا عہد
ایک ہی ہے اور زبان کے تعلق سے دونوں کا لسانی مزاج یکساں ہے۔ تو ان کے یہاں الفاظ
وحروف کا استعمال بھی عین فطری یکسانیت رکھتاہے۔ پروفیسر عبدالحق نے اپنے مطالعے
اور علم ودانش کی رو سے حاتم کے کلام میں استعمال کیے گئے الفاظ پر طویل بحث کی ہے
جو آبرو کے کلام پربھی صادق آتی ہے۔
زبانیں قدیم
ہوںیا جدید سب بنی نوع انسان کی بول چال سے وجود میں آئی ہیں اور سب زبانوں نے کم
و بیش اپنے قریب کی زبانوں سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک دوسری
زبان کے الفاظ میں املائی، تلفظی اور معنی کے اعتبار سے فطری طور پر تصرف کرلیاہے۔
اردو زبان نے براہِ راست فارسی اورعربی کے ذخیرئہ الفاظ سے سب سے زیادہ استفادہ کیا
ہے۔ مگران الفاظ کو اپنے مزاج کے مطابق ڈھالنے کا بڑا کام ہمارے شعرا وادبا نے کیاہے۔
اسی طرح دیگر زبانوں میں ترکی،پنجابی، سنسکرت کے الفاظ بھی اپنے خمیر کے مطابق تبدیل
کیے ہیں۔ اردو زبان دیگر زبانوں کے باہمی رشتے اور ان کے الفاظ کی آمیزش سے تشکیل
پائی۔ آبرو اور ان کے معاصرین نے اردو زبان کی نشوونما میں بڑی توجہ صرف کی۔
آبرو کے کلام میں ہندوستانی یعنی دہلی و گرد و نواح کا ماحول اورعوام کالب و لہجہ
اچھی طرح منتقل ہوگیا جو اردو کا خاص اسلوب بھی ہے۔ آبرو کے کلام میں اردو زبان
کافطری حسن اپنی دلکشی کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ جس میں خاص طورسے اسلامی اور ہندوستانی
تہذیبوں کی آمیزش بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ اسی امتزاج سے اردو کی بنیاد ہموار ہوئی۔
آبرو اور ان کے معاصرین کے کلام میں ہندوستانیت کا رچاؤ بساؤ اپنے لطیف حسن کا
غماز ہے۔ وہ الفاظ اہل زبان کو آج بھی نہ گراں گزرتے ہیں اور نہ ہی غیرمانوس
محسوس ہوتے ہیں۔ مندرجہ ذیل الفاظ جو زبان داں طبقے کے ذریعے متروک قرارپائے اور
اہل زبان اشرافیہ طبقے نے بھی ان متروکات کو قبول کیا۔ یہ الفاظ عوام کے فطری جذبے
میں آج بھی رچے بسے ہیں۔الفاظ کا مطالعہ کیجیے:
"آؤنا، آلا، اڑسنا، انمناہٹ، امول، اچرج، اناڑی، انوٹھا، اگن، اتیت، اکھیاں، اوپھنتا، اندھیاری، اجان، اہیر، ایس، بان، برن، بالم، برہ بر، بچن، بیوڑا، بس ملا، برکا، برہن، بڑمارنا، باؤلی، بھاؤنا، بھانت، بھال، بھسم، بجھالے، بھونچال، بیڑے، پھوہا، پھپھولا، پھندیت، پچھڑنا، پریاں، پنھ، پن، تسی، تماکو، تاڑنا، تجا، ٹھاٹھ، ٹھٹھک، ٹھکرا، ٹھاڑا، ٹھاڑی، بگ، جھمکی، جنگلا، جی کھپانا، چیتا، چنچل، چلبلا، چھتیوی، چاؤں، چھٹکی، درس، دیوڑا، دیہہ، دوالی کا دیا، دوش دینا، دبدبا، دھمال، دھس کر، دنگل، دھڑی، ڈھنڈال، راوت، رسیا، رکھاوٹ، رکت، رجھانا، دسرت، سوہا، سنمکھ، سدھ، سگھڑ، سٹکنا، سبدھی، سادھنا، سریجن، سمرن، سبارش، سوہنے، سناہنا، کنچنی، کنڈل مارنا، کال، کاڈھ، کش، کنٹھا، کاڑھا، کوڑی، کھیوا، کٹار، کدو، کھویا، کاجر، کپٹ، کالک، گیان، گیتا، گھنڈی، گٹکنا، گورائی، گپ چپ، گودنا، گور، گھٹا، مکھ، مگن، مورکھ، نام دھروانا، نگر، نکٹ، نیاری، نراشی، ہاٹ، ہٹ دھرم وغیرہ۔"
آبرو کے
دور میں اسما کی جمع بنانے میں ؤں کے علاوہ اں کا استعمال رائج تھا اور افعال کے
استعمال میں کافی فرق تھا۔ اس تعلق سے بہت سے اشعار نذرناظرین ہیں ؎
بوسا لباں
سیں دینے کہا کہہ کے پھر گیا
پیالا بھرا
شراب کا افسوس گر گیا
سب عاشقاں
میں ہم کوں مژدا ہے آبرو کا
ہے قصد اگر
تمہارے دل بیچ امتحاں کا
رقیباں کی
ہوا ناچیز باتاں سن کے یوں بدخو
وگرنہ جگ میں
شہرا تھا صنم کی خوش خصالی کا
خوباں میں
سب جگت کے تو خوب زور ہے ممولا
سارے جہاں
میں تیرا اب شور ہے ممولا
خوش یوں قد
خم شیخ کا ہے معتقداں کوں
جیوں کشاں
کوں کب جا لگے کوب پیارا
آبرو غم
کے بھنور میں دل خدا سیتی لگا
ناخدا کچھ
کام نہیں آتا ہے منجھدہاراں کے بیچ
آن ہے درد
کے ضعیفاں پر
آہ دل کی
الف ہے قد نوں ہے
ناقص تھی
عاشقی کی تدبیر میں زلیخا
رکھنے کوں یوسفاں
کے ایک دل کی چاہ بس ہے
دشمناں کو
طعنے نے زخمی کیا
بات ان سب
کی کٹاری ہے
Dr. Safaraz Javed
R-155, Gali No.: 6, Sir Syed Road
Jogabai Ext, Jamia Nagar, Okhla
New Delhi - 110025
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں