دنیا کی
تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہر چھوٹی بڑی تحریک
کے پس منظر میں صنف نازک کا دست عمل کارفرما نظر آتا ہے بظاہر وہ منظر عام پر
نہیں آتی لیکن ہر تحریک میں اس کا اثر جاری و ساری ہے زندگی کے ہر شعبے میں عورت
کا دخل رہا ہے یورپ ہو یا ایشیا، عرب ہو یا عجم، عالمی
سطح پر،
ثقافت علم و ہنر یا پھر ادب ہر شعبے میں نمایاں کا میابی حاصل کی ہے۔
ابتدائی
زمانے میں عورت اور مرد کا رشتہ برابری کا تھا تاریخ کا وہ ابتدائی زمانہ یاد کریں
جب مادری نظام رائج تھا، لیکن سماج جیسے جیسے ارتقا کی منازل طے کر رہا تھا ویسے
ویسے عورت اپنی اصل مساویانہ حیثیت کھوتی چلی جا رہی تھی آہستہ آہستہ مردوں کا
عورت پر تسلط بڑھتا چلا جا رہا تھا نتیجے کے طور پر عورت محکوم ہوگئی اور پدرانہ
نظام قائم ہوتا چلا گیا۔مردوں کا تسلط اس حد تک قائم ہوا کہ زبان بندی کو عورت کے
لیے وقار سمجھا گیا۔
’’خاموشی عورت کومناسب وقار عطا کرتی ہے۔‘‘
—سوفو کلیز
ادب کی
دنیا میں قدم رکھنا تو دور عورت کو اپنے
احساس و جذبات کا برملا اظہار بھی معیوب سمجھا گیا۔ مگر وقت نے کروٹ لی اور
انیسویں صدی تک آتے آتے تعلیم کے فروغ اور مختلف تحریکوں کی ملی جلی آوازوں نے
مرد کی بالا دستی کے باوجود عورت نے بھی اپنی قابلیت اور لیاقت کا لوہا منوا ہی
لیا ہندوستانی ادب بھی اس سے اچھوتا نہ رہ سکا۔عورت فطرتاً قصہ گو ہوتی ہے اپنے
بچوں کو اصل یافرضی قصے کہانیاں سنانا عورت کابہترین مشغلہ رہا ہے یہ عورت ماں ہو
یا دادی، نانی اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قدرت نے عورت کو ام القصص بنایا ہے
مگر یہ عجیب بات ہے کہ اگر یہی عورت قصہ کہانی لکھتی ہے تو اسے معیوب قرار دیا
جاتا ہے:
’’نانی اماں کہانی سنائیں اس روایت کو ہر نئے پرانے نے مانا
مگرنانی اماں خود اپنی کہانی لکھیں اس پر نئے اور پرانوں نے تیور بدلے، تیوریاں
چڑھیں، انگلیاں اٹھیں، فسانے کے فسانے بنیں، عزت کو بٹہ لگا، گھر کی بات دہلیز کے
باہر نکلی، آنکھوں دیکھی کانوں نے سنی لفظ کا لباس پہن کر بے نقاب ہوئی۔‘‘
(خواتین افسانہ نگار 1930سے 1990مرتب کشور ناہید، ص 6)
عورت کا
لکھنا مذہبی اور معاشرتی رسوائی کاسبب تھا، مگر عورت کے اندر اپنی شناخت قائم کرنے
کی تڑپ اور خود داری نے اسے اکسایا اب وہ اپنے اندر چھپے ہوئے سوالوں کے جواب
چاہتی تھی۔
انیسویں
صدی کے آخر سے خواتین کے لکھنے کی ابتدا قصہ کہانیوں سے ہوئی۔ خواتین کہانی کاروں
میں اکبری بیگم، محمدی بیگم، صغریٰ ہمایوں، خاتون اکرم، عباسی بیگم، مسز عبد
القادراور نذر سجاد حیدر قابل ذکر ہیں اور یہی وہ خواتین ہیں جنھوںنے تمام خواتین
کو حوصلہ اور اعتماد دیا۔
عورت کی
آواز کی گونج رسائل میں سنائی دینے لگی اب خواتین کی خاصی تعداد نکل کر سامنے
آئی، عورت کے احساسات، جذبات اور مسائل فن میں ڈھل کر اردو ادب کی مختلف اصناف
میں بکھرنے لگے۔
مذکورہ
خواتین اس وقت مرد حضرات کی مقلد تھیں مگر ان کے اندرکی بے چینی اور کشمکش کو صاف
محسوس کیا جاسکتا تھا۔ وہ چہار دیواری کی قید بندیوں کو قبول نہیں کر پارہی تھیں
اور نتیجے کے طور پر’گودڑ کا لال' جیسے افسانے منظر عام پر آئے۔ ان خواتین کے قلم کے ذریعے گھریلو
زندگی کے بہت سے مسائل سامنے آئے۔ مثلاً بچپن کی شادی، مرد کی دوسری شادی، بیوہ
عورت کا درد وغیرہ کو موضوع بنایا۔
اس کے بعد
کا دور، ان افسانہ نگاروں سے ایک قدم آگے کا دور تھا۔ اب خواتین مرد حضرات کے
اصلاحی اور مقصدی مشن سے بغاوت کر کے ان سوالات کے جواب چاہتی تھیں جو ان کے دل و
دماغ میں کوند رہے تھے ان کے ذہن کی اس کشمکش اور تصادم نے انھیں زمانے کے مصلحین
سے سوال کرنے پر مجبور کر دیا رومانی تحریک کے زیر اثر بہت سی کہانیاں وجود میں
آئیں۔اس کی ایک بہترین مثال ’بیمار غم‘ ہے۔ اس افسانے میں حجاب امتیاز علی کے
باغیانہ تیور صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔
’’اللہ کیا مشرقی لڑکی محض اسی لیے پیدا ہوئی کہ وہ دوسروں کی خوشیوں پر بھینٹ چڑھا دی جائے؟ کیا اسے خود اپنی زندگی کے معاملے میں بھی دخل دینے کا اختیار نہیں، کدھر ہیں وہ ریفارمر جو قوم کے آگے لمبی لمبی تقریریں کرتے اور بیہودی قوم کا ترانہ بڑے زور شور سے گاتے ہیں۔ اسٹیجوں پر کھڑے ہو کر اپنے سینے پر ہاتھ رکھ قومی درد جتانے والے ریفارمر کدھر ہیں؟ وہ گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ انھوں نے اپنی ماؤں کے لیے کیا کیا؟ لڑکیوں کے لیے کیا کیا جو کل قوم کی مائیں بننے والی ہیں کیا ان کا، ہمدردی اور قوم کے عشق سے لبریز دل مظلوم لڑکیوں کی آہ سے تھرّا نہیں اٹھتا، کیا ان کی تمام ہمدردی تمام درد محض فرق رجال ہی تک محدود ہے ؟ تو پھر یہ بزرگ کس منہ سے قوم کے امام بنے پھرتے ہیں پھر وہ کیوں اس نام سے منسوب کیے جاتے ہیں کیا وہ عورت کو قوم سے خارج سمجھتے ہیں کیا قوم صرف مردوں ہی کے احتجاج کا نام ہے اے خدا ان بزرگوں نے ہمارے لیے کیا کیا، کچھ بھی نہیں کیا آہ کچھ بھی نہیں کیا۔ان سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ ہم کو زندگی کے اس نازک ترین مسئلے میں رائے دینے کا اختیار دے دیں۔ جس پر ہر مرد اور عورت کی آئندہ خوشیوں کا انحصار ہوتا ہے۔‘‘
(خواتین افسانہ نگار 1930سے 1990مرتب کشور ناہید،ص 42)
اب یہ
چنگاری دھیرے دھیرے شعلہ بن رہی تھی بغاوت کی لہر تیز ہوئی اور اسی زمانے میں
انگارے والی رشید جہاں منظر عام پر آ گئیں۔رشید جہاں کے خلاف فتوے بھی جاری ہو
گئے مگر ڈاکٹر رشید جہاں جو پیشے سے ڈاکٹر تھیں معاشرے کی سسکتی بسورتی مظلوم
عورتوں نے ان سے دیوار کے پیچھے، سودا،
چھدا کی ماں جیسے افسانے لکھوا لیے۔ رشید جہاں کی عورت اپنی منفرد شناخت
چاہتی تھی۔
انیسویں
صدی کے آخر سے عہد حاضر تک اپنے علمی وجود کو ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش ہوتی
رہی۔ اب یہ کارواں چل پڑا حجاب امتیاز علی، رشید جہاں، مسز عبد القادر، شکیلہ
اختر، صالحہ عابد حسین، صدیقہ بیگم وغیرہ زمانی طور پر رشید جہاں سے تعلق رکھتی
تھیں۔ ان خواتین نے جو براہ راست ترقی پسند تحریک سے متاثر ہوئیںان میں اہم نام
رضیہ سجاد ظہیر کا ہے۔ دھیمے اور نرم لہجے میں اپنی بات کہنے والی یہ افسانہ نگار
رشید جہاں جیسی بے باکی تو نہیں رکھتی مگر ان کے افسانوی مجموعے اللہ کی مرضی، رنگ
روتے ہیںسے ان کا نقطۂ نظر واضح ہوتا ہے۔ وہ عورت کو خوددار خود اعتماد اور خود
کفیل دیکھنا چاہتی ہیں۔ وہ عورت کی معاشی آزادی کی طالب ہیں۔
تحریک
نسواں اور حقوق نسواں کی عمارت کا سنگ میل رکھنے والی رشید جہاں کی آواز کی گونج
بعد میں آنے والی خواتین افسانہ نگاروں نے صاف سنیںاور عورت کے بے جان جسم میں
روح پھونکنے کا کام رشید جہاں نے کیا اور اس روح کو حیات جاودانی دینے والی خاتون
عصمت چغتائی ہیں۔
عصمت کے
قلم کو تلوار کی سی تیزی عطا کرنے والی رشید جہاں ہیں۔عصمت لکھتی ہیں:
’’ جب غور سے اپنی کہانیوں کے بارے میں سوچتی ہوں تو معلوم ہوتا ہے
کہ میں نے صرف ان کی بے باکی اور صاف گوئی کو گرفت میں لیا ہے۔ ان کی بھرپور سماجی
شخصیت میرے قابو میں نہ آئی مجھے روتی بسورتی حرام کے بچے جنتی عورت، ماتم کرتی
نسوانیت سے ہمیشہ نفرت تھی۔ خواہ مخواہ کی وفا اور وہ جملہ خوبیاں جو مشرقی عورت کا
زیور سمجھی جاتی ہیں مجھے لعنت معلوم ہوتی ہیں۔ جذباتیت سے مجھے سخت کوفت ہوتی ہے۔
عشق قطعی وہ آگ نہیں جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے۔عشق میں محبوب کی جان کو
لاگو ہو جانا، خود کشی کرنا، واویلا میرے مذہب میں جائز نہیں عشق مقویِ دل و دماغ
ہے جی کا روگ نہیں۔
(آپ بیتی فن و شخصیت عصمت چغتائی)
عصمت
چغتائی کی ست رنگی فکر نے انھیں ایک ایسا رنگین پیراہین عطا کیا جس میں عورت سے
ہمدردی، محبت ان کے مسائل کا احساس، قید بندی، جنسی گھٹن اور عورت کی نفسیات شامل
ہے۔ مگر ان عنوانات کو بے خوف وخطر لکھنا یہ عصمت کا جگر ہے۔ لحاف، دو ہاتھ، ننھی
کی نانی، بچھو پھوپھی اور ہندوستان چھوڑو اس کی خصوصی مثال ہیں۔
جنس نگاری
میں واجدہ تبسم عصمت کی پیروی کرتی ملیں لیکن واجدہ تبسم کے افسانوں میں وہ نفاست
اور پاکیزگی نہیں جو عصمت کے یہاں ہے۔ اترن، جھوٹن، نولکھا ہاراسی طرز کے افسانے
ہیں۔
خدیجہ
مستور نے روایت کی پیروی کی ان کے افسانے کی عورت تعلیم یافتہ ہے،سیاسی شعور رکھتی
ہے جنسی گھٹن اور طبقاتی تقسیم جیسے موضوعات بھی ان کے قلم کی زد میں ہیں۔
ہاجرہ
مسرور بھی ہائے اللہ، تل اونٹ پہاڑ، نیلم، میرا بھائی، فیروزاں اور بندر گھاؤ
جیسے افسانوں کے ذریعے ادب میں اپنا منفرد مقام بنا چکی ہیں افسانہ بندر گھاؤ کے
ذریعے وہ اس دوغلے معاشرے پر کاری ضرب لگاتی ہیں جہاں مرد کا ہر گناہ معاف مگر
عورت کو اس کے ناکردہ گناہوں کی بھی ایسی سزا دی جاتی ہے کہ روح کانپ اٹھے۔
کتنے ہی
مہینے گزر گئے اس واقعے کو وہ سمجھتی تھیں جس طرح بڑے بھائی کی عیاشیاں ’سیانے
ہیں‘یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے کہہ کر بھلا دی جاتی ہے، اسی طرح اس کے عزم گناہ کو
بھی فراموش کر دیا جائے گا۔ لیکن پگلی عورت کی حیثیت کو بھول گئی۔ عورت ایک کٹھ پتلی ہے جس کی ڈور سماج
کے کوڑھی ہاتھوں میں ہے اور ان کوڑھی ہاتھوں میں جب چل ہونے لگتی ہے تو ڈور کے
جھٹکوں سے کٹھ پتلی نچائی جاتی ہے لیکن اگر اس کٹھ پتلی میں جان پڑ جائے تو سماج
کا لوتھ پڑا ہوا سڑاندھ جسم کس سے دلچسپی لے ؟ وہ سوچتی کہ جس طرح اس کے گھر والے
اس کے جوانی کے تقاضوں کی طرف سے کان بہرے کر کے بیٹھ گئے ہیں اسی طرح اس واقعے کو
بھول کر اپنی غلطی کو تسلیم کر لیں گے۔ مگر یہ محض اس کا خیال تھا اس کے فرشتہ صفت
سر پرستوں کی نظر میں اس کی زندگی پر گناہ کی جو خراش آ گئی تھی بھلا وہ کبھی
مندمل ہو سکتی تھی۔
(خواتین افسانہ نگار 1930سے 1990مرتب کشور ناہیدص 54)
انگریزی اور
فرانسیسی ادب و تنقید سے واقفیت رکھنے والی ممتاز شیریں افسانہ نگار بھی ہیںا ور
ناقد بھی آپ کا پہلا افسانہ ’انگڑائی‘ ہے۔یہ افسانہ معاشرے کی نفسیاتی جنسی گھٹن
کو پیش کرتا ہے۔جہاں مرد ایک شجر ممنوعہ ہے افسانوں کا پہلا مجموعہ اپنی نگریا کے
عنوان سے شائع ہوا ممتاز شیریں کی تنقیدی صلاحیت نے ان کے افسانوں کو سنجیدگی اور
پختگی عطا کی۔ ’میگھ ملہار‘ تک آتے آتے یہ پختگی واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔
تقسیم اور
ہجرت کے موضوع پر لکھے گئے افسانوں میں جمیلہ ہاشمی کے افسانے ’آتش رفتہ ‘ اور بن
باس‘ خصوصیت کے حامل ہیں عورت کی روحانی تنہائیوںکو ان افسانوں میں جس طرح پیش کیا
گیا ہے وہ صرف ایک خاتون افسانہ نگار کے لیے ہی ممکن تھا۔
قرۃ العین حیدر کے افسانوں کی عورت جذباتی اور ذہنی طور پر طاقتور ہے جو مرد اور مرد کی دنیا دونوں کے ساتھ بلا جھجک قدم بڑھا رہی ہے۔ جیلانی بانو لکھتی ہیں:
قرۃ العین
حیدر نے افسانے کو عورت کے ایسے کردار دیے جو دنیا کی تہذیب کو اور ان کی تبدیلیوں
کو سمجھتی ہے وہ با شعور، صاحب رائے، اور عالمی ادب اور تاریخ پر نظر رکھتی ہے۔
ایسی عورت جو ایک طرف زندگی کی تیز رفتاری میں شریک ہے اور دوسری طرف اپنی ذات کے
دکھ اور خاندان اور معاشرے کے دباؤ کو بھی سہتی ہے ان کے افسانوں خصوصاً ہاؤسنگ
سوسائٹی، سیتاہرن، اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو، میں ہمیں زندگی اسرار کھوجتی ہوئی
ہندوستانی عورت کے مختلف کردار ملتے ہیں۔
بلاشبہ قرۃ
العین حیدر نے افسانوں کو عالمی ادب کی سطح پر پہنچا دیا اور قصہ گوئی کے فن کے
ساتھ انصاف کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد بھی افسانہ نگار خواتین میں
خاص طور پر ذکیہ مشہدی، بشریٰ رحمٰن، زاہدہ حنا، خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور کو
بے حد اہمیت حاصل ہے دور حاضر کی افسانہ نگاروں میں نگار عظیم، ترنم ریاض، غزال
ضیغم، نعیمہ ضیاء الدین، قمر جمالی،صادقہ نواب سحر، ثروت خان وغیرہ کا نام قابل
ذکر ہے اور ادب کو ان سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔
اس مختصر
جائزے سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ خواتین افسانہ نگار مسلسل جد و جہد کے سبب
ابتدائی منزل سے مرد حضرات کے ساتھ ساتھ اصلاحی، رومانی حقیقت پسند افسانہ لکھتی
آ رہی ہیں وقت اور حالات تبدیل ہوئے تو عورت کے احساسات اور جذبات میں بھی تبدیلی
آئی خاتون افسانہ نگاروں نے اس تبدیلی کو محسوس کیا اور ایک وقت آیا جب ایک
تعلیم یافتہ باشعور اور سنجیدہ عورت کہانی کا موضوع بنی۔
آج کی اس
تیز رفتار زندگی میں مشینی دور نے انسانوں کو نئے نئے عنوانات اور نئے رنگ و آہنگ
عطا کیے ہیں۔ خواتین افسانہ نگار سیاسی، سماجی، دہشت گردی جیسے نازک مسائل پر قلم
اٹھا رہی ہیں آج کی افسانہ نگار کی کہانی روایت سے ہٹ کر عورت کی شناخت اس کی
آزادی اور حیثیت کا مسئلہ ہے اس کی کہانی فن اور فن کارکی زندگی کے مختلف
پہلوؤں، نفسیاتی اور جذباتی الجھنوں کو پیش کر رہی ہے۔ عہد حاضر کی کہانی کار
قدیم سماجی روایات، قید بندی، پابندیاں،قدامت پسندی، ظلم و ستم اور عورت کی ناقدری
پر ماتم نہیں کر رہی بلکہ بغاوت کا اعلان کررہی ہے۔
مگر جہد
مسلسل کے باجود خواتین آج بھی فرسودہ
سماجی قدروں کا شکار ہیں۔ مرد افسانہ نگار کی اس بھیڑ میں عورت کو اوسط درجہ دے کر
نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ مولوی نذیر احمد، راشد الخیری، پریم چند وغیرہ
نے اصلاح خواتین کے لیے بے شک بہت کوششیں کیں لیکن وہ بھی عورت کے فکری نہاں خانوں
تک نہ پہنچ سکے۔ عورت کی نفسیاتی کشمکش جنسی،معاشی، معاشرتی اور گھریلو مسائل کو
سمجھنے اور اس کی دکھتی ہوئی نبض پر ہاتھ رکھنے کا کام خواتین افسانہ نگاروں نے ہی
کیا ہے۔ اب خواتین افسانہ نگار بہت آگے نکل آئی ہیں دور جدید میں ان کے افسانوں
میں نئے رنگ، جذبات، احساسات اوروہ نفسیاتی پہلو نظر آتے ہیں جو اب سے پہلے نہیں
تھے یہ طرز افسانہ نگاری کو نئی جہت عطا کرتا ہے۔
Dr. Hina Afshan
Dayanand Girls P G College
Kanpur- 208001 (UP)
Mob.: 8840555327
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں