31/1/24

راسخ عظیم آبادی شخصیت اور شاعری: امام الدین امام

راسخ عظیم آبادی اُردوکے معروف شاعرگزرے ہیں۔ ان کاتعلق عہد میروسوداسے ہے۔ان نابغۂ روزگار شعرا کے عہدمیں ہونے کے باوجود راسخ کی اہمیت مسلم ہے کیونکہ میراوردردکے عہد میں صنف شاعری کی زلفیں سنوارنا اور ان کی موجودگی میں اپنی شناخت کو قائم  رکھناہی ان کی شعری عظمت کی دلیل۔

راسخ نے شاعری میں غزل، رباعی، مرثیہ، نعت، قصیدہ وغیرہ جیسی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی تصانیف میں کلیات راسخ ہے جس میںبقول حمیدعظیم آبادی نو، دس قصیدے، چودہ مثنویاں، متعدد قطعے، رباعیاں اور متعدد غزلیں ہیں۔ (راسخ، مؤلفہ:حضرت حمیدعظیم آبادی، ص29)، پروفیسروہاب اشرفی اورلطف الرحمن نے راسخ کی مثنوی کی تعداد19 بتائی ہے۔  وہاب اشرفی نے لطف الرحمن اور ممتاز احمد کی تحقیق کی تفصیل نام اور نمبر شمار کے ساتھ تاریخ ادب اردوجلد اوّل میں نقل کردی ہے۔ راسخ کی مثنویوں میں میرکی جھلک نظرآتی اور انداز و اسلوب میں ان کا رنگ بھی غالب نظر آتا ہے۔ گیان چندجین نے اپنی کتاب میں اس بات کی طرف کئی جگہ اشارہ کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں  :

’’راسخ کی مثنوی جذب عشق و کشش عشق میں بھی میرکی دریائے عشق کے اجزا ہیں۔‘‘

(اردومثنوی شمالی ہند میں(جلداوّل)ڈاکٹرگیان چندجین،انجمن ترقی اردوہند، دہلی، 1987، ص 226)

راسخ کے نام اور تاریخ پیدائش کے بارے میں کئی اقوال ملتے ہیں۔شادعظیم آبادی نے ان کی تاریخ پیدائش وغیرہ کے حوالے سے اپنی تحقیقی رائے پیش کی تھی جس کی تردیدپروفیسر مختارالدین آرزو نے علی گرھ میگزین کی جلد 24بابت 1948-49،میں کی۔ انھوں نے شادکی رائے کی تردیدکرنے کے بعد کسی نئی تاریخ کاتعین نہیں کیااورنہ یہ کہاکہ فلاں تاریخ ان کے نزدیک صحیح ہے۔بلکہ مختارالدین صاحب نے صرف شاد کی رائے سے اختلاف کرنا ہی کافی سمجھا، اس حوالے سے قاضی عبدالودود ایک مضمون میں جو کہ’نوائے ادب‘ بمبئی کے جنوری 1959 کے شمارے میں شائع ہواتھااپنی رائے کا اظہار کیاتھا، ملاحظہ فرمائیں  :

’’حقیقت یہ ہے کہ شاد پہلے شخص ہیں جنھوں نے یہ سنہ ولادت(1162ھ)بتایاہے۔ان کے بعد لکھنے والوں نے ان سے بالواسطہ یابلاواسطہ نقل کیا ہے۔اس کی تغلیط کے لیے یہ کافی ہے کہ عبرتی عظیم آبادی نے جو رحلت راسخ کے وقت نوجوان تھے،’ریاض الافکار‘نسخہ خدابخش میں بتایاہے کہ راسخ کی وفات ساٹھ برس میں ہوئی۔ چونکہ تذکرہ مذکورمیں سال وفات 1236ھ ہے، مرقوم ہے، عبرتی کے حساب سے سال ولادت 1176ھ قرار پاتاہے لیکن صحیح سال وفات 1238ھ ہے،اس وقت اگر ساٹھ برس کے تھے تو پیدائش 1178ھ کے قریب ٹھہرتی ہے۔میرا خیال ہے کہ 1167ھ سے چند سال قبل متولد ہوئے۔1171ھ کے لگ بھگ۔‘‘

(راسخ عظیم آبادی (مونوگراف) لطف الرحمن، ص)

قاضی عبدالودو ایک جگہ اور لکھتے ہیں  :

’’ہماری رائے میں قدیم روایات کی عدم موجودگی میں سال ولادت کا تعین ناممکن ہے۔رہا1162 وہ کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا۔عبرتی نے جو بقول بعض شاد مرحوم کے اساتذہ میں تھے اپنے تذکرے میں لکھا ہے کہ راسخ نے 60 برس کی عمر پائی۔اس حساب سے سال ولادت 1180 کے لگ بھگ ٹھہرتا ہے،ہماراذاتی خیال ہے کہ 1170 زیادہ قرین قیاس ہے۔ہم اپنے دلائل اس موقع پر پیش کرنا نہیں چاہتے۔‘‘

(معیار، مرتب: قاضی عبدالودود، مئی، 1936، ص243)

حمیدعظیم آبادی نے لکھا ہے کہ راسخ مرحوم کے سال پیدائش میں کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن یہ بات سچ نہیں ہے کیونکہ قاضی عبدالودودکی مذکورہ عبارت میں ہی الگ الگ تاریخ پیدائش ملتی ہے اوردوسری طرف رسالہ سالنامہ ’سہیل‘ علی گڑھ 1936 (مرتبہ:رشید احمدصدیقی) کے شمارے میں ایک مضمون ’بہاراوراردوشاعری‘ کے عنوان سے لکھاگیا ہے۔اس میں بھی مضمون نگار نے شادکی پیش کی گئی تاریخ پیدائش 1162ھ اور تاریخ وفات 1238ھ کوہی درج کیاہے۔اس حوالے سے بات کرتے ہوئے قاضی عبدالودود لکھتے ہیں’’سال وفات اورشاگرد سودا اورتپاں کے متعلق مضمون نگارکی رائے صحیح ہے۔‘‘

(معیار،مرتب:قاضی عبدلودود،مئی 1936، ص243)

قاضی عبدالودونے مضمون نگار کی اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ سودااورتپاںراسخ کے استاد نہیں ہیں اورراسخ کی تاریخ وفات1238ھ ہے۔تاریخ پیدائش سے قاضی صاحب نے اتفاق نہیں کیایہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمام تذکرہ نویس اور محققین 1262ھ سے متفق نہیں ہیں۔

حمیدصاحب کی رائے ملاحظہ کیجیے:

’’راسخ مرحوم کے سالِ ولادت میں کوئی اختلاف نہیں۔ تمام تذکرہ نویس متفق ہیں کہ آپ کی ولادت کا سال 1162ہجری ہے۔‘‘

(راسخ عظیم آبادی،مؤلفہ:حضرت حمیدعظیم آبادی، ص28)

راسخ کی پیدائش کے بارے میں پروفیسر وہاب اشرفی لکھتے ہیں  :

’’راسخ عظیم آبادی کی پیدائش پٹنہ سٹی یعنی عظیم آباد میں ہوئی۔سال پیدائش1757کے لگ بھگ ہے۔‘‘

(تاریخ ادب اُردو،وہاب اشرفی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 2007،ص264)

راسخ عظیم آبادی کی تاریخ پیدائش اور وفات میں اختلاف کے حوالے سے معروف ومستندمحقق قاضی عبدالودود کے رسالہ ’معیار‘میں بھی کچھ باتیں ملتی ہیں۔یہ عبارت آرزوجلیلی کی ہے،واضح رہے کہ آرزو جلیلی قاضی عبدالودود کے معاون کی حیثیت سے ’معیار‘کے کاموں میں شامل تھے۔ملاحظہ فرمائیں  :

’’راسخ عظیم آبادی کے سنہ وفات کے متعلق مرتب نے صرف گارساں دتاسی کا قول نقل کیا ہے،جونہایت بے پرواتذکرہ نگار ہے۔دتاسی نے سال وفات 1240ھ لکھا ہے، لیکن صحیح سال وفات1238ھ ہے جو’سخن شعرا‘ مرتبہ نساخ میں درج ہے۔یاس آروی کے دیوان میں راسخ کی وفات کاقطعہ تاریخ ہے جس سے 1283ھ نکلتا ہے۔‘‘

(معیار، مرتب: قاضی عبدالودود، بانکی پور (پٹنہ) اپریل 1936، ص119-20)

اسی تاریخ وفات سے حمیدعظیم آبادی نے بھی اتفاق کیاہے۔ وہ اپنی کتاب ’راسخ عظیم آبادی‘ کے صفحہ 19پر اسی تاریخ1238ھ سے اتفاق کرتے ہیں جوکہ یاس آروی اورمولوی عبدالحئی صاحب گل رعنا کی بھی رائے ہے۔ 

راسخ کے مکمل حالات زندگی کے بارے میں بھی صحیح اور پختہ معلومات نہیں ملتیں۔ اس حوالے سے وہاب اشرفی فرماتے ہیں  :

’’راسخ کی زندگی کے تفصیلی احوال نہیں ملتے لیکن اتنا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ عربی اور فارسی زبان پر خاصی دسترس رکھتے تھے۔عروض وبلاغت پربھی قدرت تھی۔‘‘

(تاریخ ادب اُردو،ص265)

راسخ عظیم آبادی نے شاعری میں کس کی شاگردی اختیار کی اس حوالے سے کئی نام سامنے آتے ہیں جن میں سودا،شرر،تپاں، میرتقی میراور فدوی وغیرہ کانام شامل ہے۔ ان ناموں میںیہ بات ضرور صحیح ہے کہ راسخ نے شروع میں فدوی کو اپنے کلام دکھلائے اور بعدمیں میر تقی میرکی شاگردی اختیار کرلی۔ایک شعرسے فدوی کی شاگردی کا اندازہ ہوتا ہے وہ شعرملاحظہ فرمائیں            ؎

شاگرد ہوں گے حضرت فدوی کے بے شمار

راسخ ہوں ایک میں بھی ولے کس شمار میں

وہ میرتقی میرکے بھی شاگرد ہیں اور اس کا اعتراف انھوں نے متعدداشعارمیں کیاہے۔ان کا ایک بہت مشہور شعراس حوالے سے ہے     ؎

شاگرد ہیں ہم میر سے استاد کے راسخ

استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا

دوشعراورملاحظہ فرمائیں جن سے میر سے تلمذکاصاف اندازہ ہوتاہے   ؎

راسخ کو ہے میر سے تلمذ

یہ فیض ہے ان کی تربیت کا

 

یارب رہیں سلامت تاحشر حضرت میر

فیض سخن نے ان کے میرا سخن بنایا

مذکورہ اشعار کی روشنی میں میرتقی میرکی شاعرانہ عظمت کا بھی بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ کس طرح راسخ  اپنی قسمت پرنازاں ہیں کہ ان کااستاد میرتقی میرہے جو استادوں کا استاد ہے۔

محمدحسین آزاد نے سوداکو بھی راسخ کااستاد بتایا ہے لیکن اس بات کی تردید وہاب اشرفی اور دیگر اہل علم نے کی ہے۔آزاد لکھتے ہیں:

’’راسخ عظیم آبادی کا دیوان میں نے دیکھا ہے۔ بہت سنجیدہ کلام ہے۔پرانے مشاق تھے اور سب ادھرکے لوگ انھیں استاد مانتے تھے۔مرزاکے پاس شاگرد ہونے کوآئے۔مرزانے کہاشعرسنائیے۔انھوں نے پڑھا        ؎

ہوئے ہیں ہم ضعیف اب دیدنی رونا ہمارا ہے

پلک پر اپنی آنسو صبح پیری کا ستارا ہے

مرزانے اٹھ کر گلے لگالیا۔‘‘

(آبِ حیات، محمدحسین آزاد، اُترپردیش اُردواکادمی، 2021، ص174)

محمدحسین آزادکی مذکورہ بات کی تردیداس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جس طرح سے راسخ نے فدوی اور میرتقی میرکو اپنا استاد ماننے سے انکار نہیں کیااوراشعارمیں اس بات کا اعتراف کیا ہے اگر سوداراسخ کے استاد ہوتے توضرورراسخ اس امر کا اعتراف کرتے کیونکہ سوداسے شرف تلمذ کوچھپانے کی کوئی وجہ نظرنہیں آتی۔ سودابھی میرتقی میرکے برابر ہیں بلکہ بعض معاملوں(مثلاًقصیدہ) میں میرسے آگے بھی نظرآتے ہیں۔

حمیدعظیم آبادی نے شادعظیم آبادی کے حوالے سے لکھا ہے کہ :

’’جناب شاداِن کو مرزاشرر(تلمیذ تحقیق)کابھی شاگرد لکھتے ہیں۔شیخ صاحب نے اپنے بالکل ابتدائی کلام پرمرزاشرر سے اصلاح لی تھی۔‘‘

(راسخ عظیم آبادی،مؤلفہ:حضرت حمیدعظیم آبادی، ص22)

وہاب اشرفی نے راسخ کے اساتذہ کے بارے میں لکھتے ہوئے محمدحسین آزاد، شادعظیم آبادی اور ان کی رائے کو نقل کرنے والے حمیدعظیم آبادی کی باتوں کی تردید کی ہے  :

’’راسخ عظیم آبادی کس کے شاگرد تھے۔اس باب میں خاصی بحث ملتی ہے۔ان کے استادوں میں شرر، تپاں اور سوداکابھی نام آتاہے۔لیکن ان سب کی تردیدہوچکی ہے۔ابتدا میں موصوف نے فدوی سے ضرور اصلاح لی تھی لیکن وہ اصلاًمیرتقی میر کے شاگردتھے۔‘‘

(تاریخ ادب اُردو، ص، 265)

راسخ کی شاعری میں صوفیانہ کلام بھی وافر مقدار میں پایا جاتا ہے جیساکہ دبستان دہلی کی خصوصیات میں سے تصوف ایک بڑی خصوصیت ہے۔ اس لیے اس رنگ میں رنگ جاناراسخ کے لیے کوئی عجیب بات نہیں تھی۔ان کی طبیعت میں استغنااور بے نیازی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ان کی ذاتی زندگی بھی خوشحال نہیں تھی میرکی طرح ان کی مثنویوں میں بھی معاشی بدحالی اور غزل میں بھی زندگی کے نشیب و فرازوغیرہ کا ذکر خوب ملتا ہے۔ کہاجاتاہے کہ انسان جب عشق مجازی میں تپ کرکندن ہوجاتا ہے تب وہ عشق حقیقی کی طرف بڑھتا ہے۔ راسخ کے وہ اشعارملاحظہ فرمائیں جن میں تصوف کی جھلک ملتی ہے   ؎

مجکو دیوانہ بنا گلیوں میں پھروانا نہ تھا

پردہ کرنا تھا تو پہلے جلوہ دکھلانا نہ تھا

 

دھواں آہوں کا پہنچے آسماں تک

محبت آتش افگن ہو یہاں تک

راسخ کاکلام کئی اعتبارسے اہمیتوں کاحامل ہے ان کی زبان صاف ستھری اور سہل ہے کہیں کہیں پرانے طرز کی اُردوکی وجہ سے ثقالت اور بھاری پن کااحساس بھی ہوتا ہے۔لیکن ان کے کلام میں ایسے اشعارکثرت سے ملتے ہیں جن میں شستہ، آسان، دلکش انداز و اسلوب اور زبان کا استعمال ہوا ہے۔جن کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قاری روبہ رو باتیں کررہا ہو۔اشعارملاحظہ فرمائیں      ؎

کس مسرت سے جی دیا ہوگا

کیا ہوا ہوگا کیا ہوا ہوگا

 

کس طرح یقین آوے مجھے آنے کا تیرے

اِک بار اگر ہاں ہے تو سو بار نہیں ہے

 

جینا دشوار ہو گیا ہے

میرا تو چھری تلے گلا ہے

راسخ نے کبھی کسی شاعرکی ہجو نہیں لکھی جیساکہ اس وقت کا عام رواج تھا کہ ایک شاعر دوسرے کی جو ہلکی سی بات پر کہہ دیتا تھا، ان میں میراورسوداوغیرہ کانام سرِ فہرست ہے لیکن اس ماحول اور عہد میں رہتے ہوئے بھی راسخ نے اس سے اپنے دامن کو محفوظ رکھا۔

راسخ کے کلام میں ایسے اشعاربھی موجودہیں جن میں انسانی و معاشرتی زندگی اور ان میں پیش آنے والی انسانی جبلتوں کا ذکر ہوا ہے۔جس سے اس وقت کی اخلاقی اور معاشرتی زندگی پر بھی روشنی پڑتی ہے    ؎

کیا عہد ہے کہ سچے کو احمق کہے ہے خلق

دانا وہی ہے اب جو کہے سر بسر دروغ

راسخ کے کلام میں نصیحت آموز اور سبق دینے والے اشعاربھی ہیںجن کو اصلاحی بھی کہہ سکتے ہیں    ؎

وہ سعی کر کہ تجکو حاصل ہو دولت دیں

منعم متاعِ دنیا، کتنی ہے، کس قدر ہے

 

کورانہ، نہ طے کیجو راہِ طلب یار

ہاں دیکھیو پامال کوئی خار نہ ہووے

راسخ عظیم آبادی کے اشعارمیں صنائع بدائع کااستعمال بھی خوبصورتی کے ساتھ آب و تاب سے ہوا ہے۔ان کے یہاں ایک ہی جگہ آمداورآوردکی عمدہ مثال دیکھنے کو ملتی ہے      ؎

ترے ہاتھوں ارباب دیں خوار ہیں

ترے ہاتھوں تسبیحیں زنار ہیں

 

وہ آزاد مردِ خرد مند تھا

کہ دام محبت کا پابند تھا

راسخ کے یہاں گوشت پوست کے محبوب کی محبت کاپاکیزہ بیان اوراس کی بے اعتنائی، دلکشی،دلفریبی، شوخی اور نزاکت کے ساتھ ساتھ اس کی اداؤں اورشوخیوں کی خوش نمائی کابھی بیان خوب ہوا ہے۔ان کے یہاں میرکی طرح آنسواوررونے دھونے کابھی ذکر ملتاہے۔ مثلاً       ؎

یہ کم کم دیکھنا بھی اِک ادا ہے

حجاب آمیز شوخی، خوش نما ہے

 

نہ تارِ پیرہن زنہار بھاویں

مجھے آنسوؤں کے تار بھاویں

جگہ جگہ تعلّی کی مثالیں بھی ملتی ہیں  جن میں انھوں نے اپنے اشعارکو میرکے بعد عمدہ اشعار گردانا ہے۔ان اشعار کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ راسخ عظیم آبادی خود کو میر کاوارث مانتے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ میرتقی میرچونکہ استاد تھے اسی لیے استاد کا رنگ شاگرد (راسخ) کے کلام پر چھا گیا ہے اور وہ خود کو میر کے بعد سب سے اہم شاعر گردانتے ہیں۔اشعار دیکھیے        ؎

ہیں میر گزشتہ کے بدل حضرت راسخ

اب ان کو سلامت رکھے اللہ تعالیٰ

 

زندہ ہے نام میر راسخ سے

کون ہے شاعروں میں ایسا آج

راسخ کو اپنے اہل وطن سے بھی شکایت ہے ان کاماننا ہے کہ ان کی قدر جس طرح ہونی چاہیے تھی اس طرح نہیں ہوئی ہے اور ان کی تربت بھی ایک چادر کوترس رہی ہے۔ ایسالگتا ہے کہ شایدشادنے انھیں کاروناروتے ہوئے پردہ پوشان وطن سے شکایت کی تھی۔ چنانچہ وہ متعدد اشعارمیں اس بات کی شکایت اہلِ وطن سے کرتے ہیں جن میں زبان حال سے ان کی بے اعتنائی کا شکوہ ہے      ؎

نظر والے نہیں ہیں درمیاں اب

کریں عرضِ ہنر جاکر کہاں اب

ان باتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ راسخ کافکری اور فنی دائرہ محدود نہیں تھابلکہ وہ ایک وسیع کینوس کے شاعر ہیں۔وہ بیک وقت اپنے اشعارکے ذریعے کئی معرکے سر کرتے چلتے ہیں۔ ان کے سینے میں دھڑکتاہوا دل ہے،تو ساتھ ہی اس دل میں سارے جہان کا دردبھی موجود ہے۔ ان کے کلام میں زبان اور بیان کی صفائی ہے تو موسیقی سے شغف کی وجہ سے اشعارمیں نغمگی، تازگی اورروانی کا بھی بھرپورامتزاج ہے۔عروض اور بلاغت پر دسترس ہونے کی وجہ سے وہ بہترین آہنگ کی بحروں کا استعمال کرتے ہیںاوراسی کی مناسبت سے عمدہ الفاظ کا انتخاب بھی کرنے میں پیچھے نہیں رہتے۔وہ ایسے ایسے خوبصورت الفاظ کا استعمال فنکارانہ انداز میں کرتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زبان و بیان پر انھیں غیرمعمولی قدرت حاصل تھی۔

 

Imamuddin Imam

Research Scholar

Deptt. of Urdu

University of Delhi

Mob.- +91 62061 43783

30/1/24

وحید عرشی: اپنے عصر کا عبقری علمی و ادبی فنکار: علی شاہد دلکش

 

نشاط کلکتہ سے تقریباً 36 کلومیٹر کی دوری پر نواحی علاقہ کانکی نارہ ہے۔ دریائے ہگلی کے دونوں کناروں پر متعدد جوٹ ملوں کے قائم ہونے کے بعد یہاں کی بستیاں دھڑلے سے آباد ہوئیں۔لگ بھگ47.57   مربع کلومیٹر پر پھیلا ہواکانکی نارہ بھی ان ہی بستیوں میں سے ایک ہے۔ کانکی نارہ علم و ادب کی رو سے بھی ایک زرخیز علاقہ رہا ہے۔ اس سر زمین کو جید عالم دین مولانا یعقوب رحمہ(وحیدعرشی کے سگے نانا)، مولوی حبیب الرحمن، مولوی عظیم الدین(ابتدائی کانکی نارہ حمایت الغربا ہائی اسکول میں فارسی کے استاذ)، مولوی عظیم الدین(اردو کے استاذ اور کھولا مسجد کے پیش امام)، مولانا حسین احمد مدنی کے شاگرد مولوی محمد حنیف(وحید عرشی کے والد بزرگوار)،  وحید عرشی کے برادر کبیرپروفیسرخواجہ مجیب الحق ( دارجلنگ گورنمنٹ کالج اور مولانا آزاد کالج کلکتہ میں فلسفہ کے پروفیسر)،بنگال کے اولین ناول نگار محمد بشیرالدین ظامی اورعامل عالم دین مولانا عبدالحمید قاسمی رحمہ جیسی قدآور علمی و ادبی شخصیات نے اپنے لہو سے سینچا۔ 

مغربی بنگال کے ضلع شمالی چوبیس پرگنہ میں اسی کانکی نارہ- نارائن پور کی سر زمیں پر خواجہ خانوادے میں ایک ہونہار بچے نے 27؍ستمبر 1943 کو غلام ہندوستان میں جنم لیا۔ مگر ذہنی غلام نہیں رہا۔ قلم کی طاقت پر اپنے قلمی نام وحید عرشی سے اپنی منفرد شناخت بنائی جب کہ کانکی نارہ نیابازار کو اپنا مسکن بنانے والے ان کے والدین مولوی محمد حنیف و زبیدہ خاتون نے ان کا اصل نام خواجہ وحید الحق رکھا تھا۔ یاد رہے کہ ان کی وفات 3؍ فروری 1986 کو ہوئی۔ موت کی وجہ جرسام(پھیپھڑے میں پانی کا آ جانا) نامی بیماری ٹھہری۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ موصوف بے ثبات زندگی کی صرف 43 بہاریں و خزائیں ہی دیکھ پائے ہوں گے۔ واضح ہو کہ دنیا کی ادبی تاریخ میں ایسے کئی ادیب اور شاعر گزرے ہیں، جنھوں نے کم عمری میں نام کمایا لیکن جلد ہی دارِ فانی سے حیات ِ جاودانی کی جانب کُوچ کر گئے۔ انگریزی ادب کے بعض بڑے نام مثلاً جان کیِٹس، شیلے، ایملی برونٹے اور لارڈ بائرن ایسے فن کاروں میں شامل ہیں جنھوں نے نوجوانی ہی میں اپنا لوہا منوا لیا تھا۔ مگر زندگی نے انھیں زیادہ مہلت نہیں دی۔ جان کیٹس جیسا بے مثل رومانی شاعر پچیس سال کی عمر میں ٹی بی کا شکار ہوکر دنیا سے چلا گیا۔ شیلے جیسا مفکر شاعر انتیس برس میں اس وقت ڈوب کر موت کی وادی میں اتر گیا جب اٹلی میں اس کی کشتی طوفان میں پھنس گئی تھی۔ ٹھیک اسی طرح خواجہ وحید الحق کو بھلے ہی زندگانی نے طویل مہلت نہیںدی مگر انھوں نے اسی قلیل مدت میں اپنی علمی و ادبی خدمات سے بہت کچھ ثابت کیا۔ مثال کے طور پر صاحب کتاب شاعر و ادیب زماں قاسمی اپنے مضمون بہ عنوان  ’وحید عرشی: بحیثیت نثر نگار‘  میں یوں رقم طراز ہیں:

’’ تاریخی مجلہ ’آکاش پتر‘ کے ذریعے انھوں (وحید عرشی) نے کانکی نارہ اور بھاٹ پاڑہ کی پرانی تاریخ اور اس زمانے کی ادبی، سماجی اور سیاسی سرگرمیوں سے روشناس کرایا۔ جو یقیناایک کارنامہ ہے۔‘‘  

(وحید شناسی، مرتب: محمد طیب نعمانی،ص:31)

کانکی نارہ حمایت الغربا ہائی اسکول سے وحید عرشی فارغ ہوئے تھے۔ انھوں نے اسی اسکول میں تقریباََ اٹھارہ 18 سالوں تک پڑھایا بھی۔ خواجہ وحید الحق 1959  میں میٹرک کے امتحان میں کامیاب ہوئے۔ 1962  میں آئی اے اور بی اے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد 1968 میں کلکتہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کرتے ہوئے گولڈ میڈل کے حقدار بنے۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق کلکتہ کے اطراف کے اضلاع کا پہلا (اردو میڈیم میں) گولڈ میڈلسٹ خواجہ وحید الحق ٹھہرائے گئے۔ واضح ہو کہ موصوف جس وقت کلکتہ یونیورسٹی سے اردو میں پوسٹ گریجویشن کر رہے تھے۔ اس وقت کلکتہ یونیورسٹی میں صدر شعبۂ  اردو محترم پرویز شاہدی تھے۔ اس لحاظ سے وہ پرویز شاہدی کے بھی شاگرد ٹھہرے۔

وحید عرشی کل وقتی طور پر مذکورہ اسکول میں تدریسی فرائض کی ذمہ داری نباہ ہی رہے تھے مگر اپنے بڑے بھائی پروفیسر خواجہ مجیب الحق (پروفیسر مولانا آزاد کالج، کلکتہ) کے نقش قدم پر چلنے کی سعی میں مصروف ِ عمل ہوئے۔ لہٰذا 1975 میں گھر سے چالیس 40 کلومیٹر دور بھوانی پور ایجوکیشنل سوسائٹی (کالج)، کلکتہ میں اردو شعبے کی بنیاد رکھنے والوں کے ساتھ ہو کر تگ و دو کرنے والوں میں شریکِ عمل ہوئے۔نیز فروغِ اردو کے لیے شمعِ اردو جلانے کی غرض سے متذکرہ کالج میں اردو شعبے کے قیام کے لیے ہائر سکنڈری اسکول کی اپنی کُل وقتی سرکاری ملازمت کی قربانی دے کر بھوانی پور کالج میں جز وقتی لیکچرار کے عہدے کو گلے لگایا۔

تنگ نظر نیز وسیع نظر لوگ انھیں کسی بھی آنکھ سے دیکھیں اور کسی زاویے سے پیش کریں مگر اردو کی محبت میں مستقل ملازمت کو چھوڑ کر عارضی کو اپنانا نیز آدھی سے بھی کم تنخواہ پر گھرسے چار قدم کی روزی کو چھوڑ کر روزانہ چالیس کلومیٹر دور کی مسافت کو گلے لگا لینا ایک قابل غور اور لائق ِ تحسین اقدام کو ظاہر کرتا ہے۔ اس قدر ایثار کا جذبہ معدودے چند اشخاص میں ہی ہوتا ہے۔ ایسے ہی لوگ کچھ الگ کر دکھاتے ہیں۔ مگر ان کے حصے میں جو مصائب کا پہاڑ ہوتا ہے، ماضی کی فراوانی کے فوراً بعد حال میں جو قلت ہوتی ہے، اس کا قیاس لگانا قطعی آسان نہیں ہے۔ حال کے متاعِ غم کے سبب جب ماضی کی خوشگوار یادیں پکارتی ہیں تو کیسا کرب جسد ِ خاکی کے دل و جاں پر گزرتا ہے، اندازہ کریں۔ اوپر بیان کی گئی باتوں کے منظر اور پس منظر میں اپنے تخیلات کو وحید عرشی جیسا حساس شاعر شعری لبادے میں یوں کہتا ہے          ؎

راہ ِ منزل چھوڑ دیتا ہوں ہمیشہ اس لیے

مل گئی منزل تو جہد ِ زندگی مر جائے گی

 کیسے سناؤں غم کی کہانی سانسوں پر ہے بار بہت 

ماضی کہتا ہے، کہہ جاؤ، حال کو ہے انکار بہت

وحید عرشی کثیر الجہات شخص تھے۔ وہ بیک وقت ایک کامیاب شاعر، افسانہ نگار، نثر نگار اور معلم ہو نے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین مصور بھی تھے۔ لکڑی پر بنائی گئی غالب و ٹیگور کی تصویریں، لکڑی پر کندہ کرکے ریڈیو کا نقشہ، اپنے دستخط کا ابھارا ہوا نقشہ اور پتھر کو تراش کر بنائی گئی تصویریں بین ثبوت ہیں۔وحید عرشی کے اندر ایک ساتھ کئی فنکار سانس لے رہے تھے۔مزے کی بات اور عش عش کا مقام ہے کہ موصوف نے اپنے اندر کے اُن سارے فن کاروں کو مساوی اختیار دے رکھا تھا۔ معلمی سے ذرا سی فراغت ملنے پر برش اٹھا لیتے اور قرطاس ِ ابیض پر اپنے خیالات کو رنگین نقوش کے ساتھ ابھار دیتے۔ جب چاہتے مٹی کو اظہار کا ذریعہ بنا ڈالتے۔ مزید برآں تجسّس، جنون اور اپنی لگن کو لکڑی، مٹی اور پتھروں کی زبان بنا لیتے۔ بے کار پڑے پلاسٹک کو اٹھا کر دیدہ زیب بٹن بنا دیتے۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں تھا۔ جس طرح جگدیش چندر بوس پودوں سے باتیں کرتے اسی طرح وحید عرشی بھی رات گئے جب کبھی نیل گگن پر تاروں کی بارات نکلتی تو اپنی فکر، آہنگ اور آسماں خیال سے ان کے ساتھ بھی محو گفتگو ہوجاتے، نیز احساسات کو قرطاس پر بکھیرنے کے لیے پھر برش رکھ کر اپنا قلم اٹھا لیتے۔ خیال رہے کہ موصوف نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا۔ کم عمری میں وفات کے باعث ان کی شاعری کے خزینہ میں شعری افراطِ زر نہیں ہے تاہم جتنا کچھ ہے وہ قیمتی سرمائے سے کم بھی نہیں ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں کی تعداد کم ہونے کے باوجود اپنے اندر گہری معنویت رکھتی ہیں۔ وحید  عرشی کی شاعری سے افہام و تفہیم، مضبوط ربط، شگفتگی اور سلیقگی کا بھر پور عکس عیاں ہوتاہے۔ اس کے علاوہ ان کے اشعار میں منفرد آہنگ، اسلوب، انوکھا خیال ا ور حسن ِبیان  ملتا ہے۔ساتھ ہی ساتھ سلاست کا بھی احساس ہوتا ہے۔ دلیل کے طور پر وحید عرشی کے اشعار سے محظوظ ہوں         ؎

کس کو کہیے گا خرد اور کس کو کہیے گا جنوں

اِک خودی نا آشنا، اِک بے خودی میں مبتلا

 دل کا سارا درد سمٹ آیا ہے میری پلکوں میں 

کتنے تاج محل ڈوبیں گے پانی کی ان بوندوں میں

وحید  عرشی کے چند اشعار اور ملاحظہ فرمائیں:

بحر غم دوراں میں اک اک چیز تمہاری پھینک دی میں نے

یاد مگر بن بیٹھی ساحل ،  ڈوب سکی نہ موجوں میں

 ٹوٹا ماضی کا آئینہ ،  بکھری یادوں کی کرچیں

زخمی ہیں احساس کے تلوے، چلنے سے بیزار بہت

 بے اختیار آج بھی آنسو نکل پڑے

کیسے تجھے بھلانے کی کوشش کرے کوئی 

’یادوں کا زنداں‘ وحید عرشی کا اولین شعری مجموعہ ہے، جس کو موصوف کی موت کے بعد دہلی کے ذاکر نگر میں مقیم معروف شاعر و ادیب کمال جعفری(آل انڈیا ریڈیو دہلی میں پروگرام ایگزیکٹیو) نے سال 1991 میں مرتب کیا تھا۔ اس کتاب میں غزلیں، قطعات، متفرق اشعار کے علاوہ نظمیں بھی ہیں۔مطالعے کی میز پر کتاب رکھنے کے بعد معلوم پڑتا ہے۔ 88 اٹھاسی صفحات پر مبنی اس شعری آئینے میں ہم ایک ایسے شاعر کی تصویر دیکھتے ہیں جس کے سینے میں ایک حساس دل تھا۔ موصوف کی شاعری میں زندگی کے نشیب و فراز کی کہانیوں کے علاوہ روز مرہ میں واقع ہونے والے ان تمام واقعات کی روداد ملتی ہے جو ایک فنکار کے فن کو اجاگر کرسکے۔اس مناسبت سے مزید تالیفی کاز بھیرب گانگولی کالج، بیلگھریا، کلکتہ میں شعبۂ اردو پی جی کے کوآرڈینیٹر محمد طیب نعمانی نے  اپنی مرتب کردہ کتاب’وحید شناسی‘2011کی شکل میں کیا ہے۔

وحید عرشی کی شاعری کو کلاسیکی شاعری کے زمرے میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔دراصل کلاسیکی شاعری میں درد سے مراد دل کا درد ہے جو عشق میں حاصل ہوتاہے اور یہی عاشق کا سرمایہ مانا جاتا ہے۔ عمر بھر سوز ِ دل کی حفاظت ہی اس کا مقدر ہوتا ہے۔ وہ اسے آب پاشی کی مانند سسکیوں اور آنسوؤں سے سینچتا رہتا ہے۔ درد کا یہ پُراثر بیانیہ شاعری میں دور تک پھیلا ہوا ہے۔ جدید شاعری میں درد کے اوربھی بہت سے محرکات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ وحید  عرشی کی شاعری میں اس کے گہرے نقوش ملتے ہیں۔اس پیرائے میں چند اشعار ملاحظہ کریں        ؎

ترک تعلق سے اک میرا دل ہی نہیں ہے کچھ زخمی 

تیر ہوئے ہی ہوں گے تیرے سینے کے بھی پار بہت

 بھاگ چلوں یادوں کے زنداں سے اکثر سوچا لیکن 

جب بھی قصد کیا تو دیکھا،اونچی ہے دیوار بہت

ایسے کثیرالجہات شخص کی شاعری کا اختصاص وانفراد اس کا اپنا اسلوب ہے۔ موصوف نے شاعری میں پیشکش سے زیادہ خیال کو ترجیح دی۔ لہٰذا ! باآسانی کہا جا سکتا ہے کہ جیسی وحید عرشی کی شخصیت منفرد تھی ویسی ہی ان کی شاعری بھی۔ ان کی شاعری ذاتی تجربے کی بنیاد پر ہے۔ موصوف کی شاعری میں رشتوں کے انتشار کا کرب بھی ہے اور امید کے روشن چراغ کی لوَ بھی۔ان کی غزلوں کے موضوعات میں’یاد‘ کو مرکزیت حاصل ہے۔ ایک حساس دل لاکھ کوشش کرلے ان یادوں کے زنداں سے چنداں نہیں نکل سکتا۔’ یادیں‘ وہ اثاثہ ہیں جس سے سکون بھی ملتا ہے اور بے سکونی بھی۔ اور یہ دونوں حالتیں حساس دلوں پر خوب گزرتی ہیں۔ الگ ڈکشن مزید ندرت خیال و الے وحید  عرشی کے زیر ِ نظر اشعار کے ساتھ اس سلسلے کو یہیں اختصار دے دیتا ہوں:

کس کے جنونِ عشق کا چرچا ابھی سے ہے

سمٹی ہوئی جو وسعت صحرا ابھی سے ہے

 بہرِ تسکین، خاطرِ ناشاد

تم تصور ہی میں چلے آو

 ارماں کے تابوت میں جب میں وقت کی کیلیں گاڑ چکوں گا 

پھر جب بھی تم یاد آؤ گے بہہ جاؤ گے اشکوں میں

وحید عرشی اپنی تمام تر ہمہ گیریت کے ساتھ ایک اچھے نثار بھی تھے۔ ان کے مضامین میں بھرپور روانی، برجستگی، شگفتگی اور انوکھاپن کے ساتھ غنائیت بھی ہے۔ کم عمری میں وفات پانے والے معروف و مقبول شاعر وکیل اختر پر ان کی خامہ فرسائی بہ عنوان ’بجھے لمحوں کی یاد‘ پڑھنے سے بہت کچھ ظاہر ہوتا ہے۔ موسیقی سے بھی انھیں خاصا شغف تھا۔ ایک جانب وحید عرشی کامرس کے طالب علموں کی خاطر کمرشیل الفاظ کی ڈائریکٹری تیار کر رہے تھے تو دوسری جانب ’ترجمہ اور اس کا فن‘ نامی کتاب کی تصنیف میں ہمہ تن مصروف تھے۔ گردش ِزمانہ کب کس کا ہوا ہے۔ وقت نے حیات کا دامن کسا اور مالی تنگیوں نے شکنجہ۔ لہذا سب دھرا کا دھرا رہ گیا۔ موصوف شاعری، افسانہ نگاری اور مضمون نگاری میں ایک فلسفی سے تھے ہی۔ وہ معاشرے میں بلا امتیاز سبھوں کے ساتھ میل ملاپ رکھتے۔ دکھوں میں لوگوں کے ساتھ رہتے۔لہٰذا معاشرے میں وحید  عرشی ایک اچھے فنکار ہی نہیں بلکہ ایک اچھے انسان بھی تھے۔

Ali Shahid Dilkash

Coochbehar Govt

Engineering College

Vill: Harinchawarh

Po.: Ghughumari- 736167

Mob. No.: 8820239345

29/1/24

خواتین افسانہ نگاروں کی عورتیں: آفرین

 

منطقی لحاظ سے اس مفروضے کو ردّ کر نے میں کوئی کلام نہیں کہ مرد صاحبِ فہم ہے اور عورت ناقص العقل۔ دونوں میں ہر طرح سے مساوی خوبیاں اور خامیاں موجود ہیں۔ عورت کو جس معاشرے میں مساوی حقوق نہیں ملے، اس معاشرے میں مذہب او رمعاشرت کے حوالے دیے گئے۔ ظاہرہے یہ حوالے یا واسطے مردحضرات ہی نے دیے۔ مرد اساس معاشرے میں سماجی رسوم اور صحائف میں عورتوں کے تعلق سے بیان کی روشنی میں مردعالموں کی یک رخی تصویر وتعبیر نے اسے کم فہم، کم زور، کم حیثیت، کم علم اورکم ظرف ثابت کرنے میں مسلسل کوشش کی۔ یہ کوششیں صدیوں تک کامیاب رہیں، نتیجتاً عورت گھر کے حصار میں قید ایک مظلوم کی طرح زندگی کے فرائض انجام دیتی رہی۔اس کی مظلوم والی تصویر ہی ادیبوں کو بھی پسند آئی۔وہ نذیر احمد ہوں کہ رشیدۃ النسا بیگم،راشد الخیری ہوں کہ پریم چند، کسی کی تخلیقات میں  عورت مرد کے ہم پلہ نظر نہیں آئی۔یہ سلسلہ عبّاسی بیگم ’گرفتار قفس‘ (1915)، نذر سجاد حیدر’خونِ ارمان‘  (1915)، آصف جہاں ’شش و پنج‘ (1915)، انجم ارا ’ریل کا سفر‘ (1915)  یا پھر امت الوحی کا افسانہ’شا ہد وفا‘ (1927) تک تقریباً ایک ہی نہج پر جاری و ساری رہا۔ البتہ حجاب امتیاز علی اپنی والدہ عبّاسی بیگم یا مذکورہ دیگر خواتین افسانہ نگاروں کے مقابلے مختلف و ممتاز نظر آتی ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ ان کے افسانوں میں رومانیت کا غلبہ اور دیگر علوم کے معاملات کو مشرقیت کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے برتنے کا رویہ بھی ملتا ہے،ورنہ تو رومانی افسانہ نویس خواتین میں زبیدہ سلطان، سعیدہ عبدل،سعیدہ بزمی، نجمہ انوار الحق نے بھی متعدد رومانی افسانے لکھے۔ اسی طریقے سے فلمی اداکاراؤں میں خورشید، کنیز فاطمہ عرف نر گس، منورما اور روشنی آرا عرف حسنہ بانو نے بھی رومانی افسانے لکھے۔ یہاں تک افسانوں میں عورت کی شبیہ چھوئی موئی سی تھی۔

رشید جہاں پہلی افسانہ نگار ہیں جن کا تیور باغیانہ تھا۔ ان کا تیکھا انداز افسانہ ’سودا‘ میں اپنی معراج پر نظر آتا ہے۔ اس ضمن میں اب شکیلہ اختر کا ذکر خال خال ہی ہوتا ہے لیکن چالیس کے دہے میں انھوں نے افسانہ نگاری کو مختلف رنگ و ڈھنگ اور انداز و آواز سے روشناس کروایا۔ درپن، آنکھ مچولی، ڈاین اور’آگ میں پھول‘ ان کے افسانے بھی ہیں اور افسانوی مجموعے بھی۔ان کے علاوہ کچے دھاگے، سہاگ، سڑک پر، بن تتلی، آنکھ مچولی، آخری سلام ایسے افسانے ہیں جن میں عورت کے مسائل و معاملات اورسماجی حقیقت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ خواتین افسانہ نگاروں میں رضیہ سجاد ظہیر کو بھی فراموش کرنا ادبی بددیانتی ہوگی۔رضیہ سجاد ظیہر سماجی نا انصافی کے خلاف بغاوت کرنے اور بغاوت کو ظاہرکرنے کے لیے افسانہ نگاری کو ذریعہ بنانے والی خاتون تھیں۔ ان کے مشہور افسانوں میں نیچ، معجزہ، لنگڑی ممانی اور ’نئی نویلی‘ کا شمار ہوتا ہے۔ اب تک کی خواتین افسانہ نگاروں میں رشید جہاں اپنے باغیانہ طریق اور مستورا تی بے با کی کی بنیاد پر ہر چند کہ بڑی اہمیت کی حامل ہیں لیکن عصمت چغتائی ان معاملات میں لا ثانی تسلیم کی جاتی ہیں۔گو کہ ان کی افسانہ نگاری کا آغاز بھی خالص بلکہ روایتی رومانیت کے زیر اثر ہی ہوا لیکن بہت جلد وہ ترقی پسند نقطۂ نظر اور اشتراکی فکر کی نمائندگی کرنے لگیں۔عصمت چغتائی نے ہندوستانی معاشرے کی نبض پر انگلیاں کچھ اس طرح رکھیں کہ اپنے عہد کی سب سے اہم نباض ثابت ہوئیں۔ عصمت آپا کا صرف لہجہ ہی باغیانہ نہیں تھا، صرف تیور بیباک نہیں تھے،صرف مستورا تی لسانی کلیشے پر گرفت نہیں تھی بلکہ ان میں وہ جرأت رندانہ بھی تھی جس کا استعمال انھوں نے مرد اساس معاشرے میں گھروں کے اندر کی غلاظت کو بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ مرد کے اذہان کی گندگی کو بھی سامنے لانے کی غرض سے کیا۔ لحاف، چھوئی موئی، جڑیں، ننھی کی نانی، دوہاتھ، پہلی لڑکی اور ’چوتھی کا جوڑا‘ ان کے شاہکار ہیں۔

اب تک کے سر سری محا کمے کی روشنی میں یہاں دو مختلف تخلیقی رویوں کی جانب اشارہ کرنا مناسب ہوگا۔ ایک غالب رویہ تو یہ تھا کہ عورت کو مشرقیت، ہندوستانیت اور مذہبی تقدس کے نام پر ایسے کردار کی صورت میں پیش کیا گیا جو ردّ سے ناواقف، قبول کی پرستار ہے،جو بیباک گویائی پر خاموشی یا پھر دبی دبی، گھٹی گھٹی مریل آوازیں کچھ باتیں عرض کرنے کو‘ تہذیب سمجھتی ہے۔ اس طرح کی عورتوں کو کردار بنانے والی خاتون افسانہ نگاروں میں رشیدۃ النسا بیگم، عباسی بیگم، نذر سجاد حیدر اور حجاب امتیاز علی کو اولیت حاصل ہے۔ان افسانہ نگاروں کی تخلیقی قوت پر شبہ نہیں کیا جاسکتا لیکن اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ خواتین افسانہ نگار ڈپٹی نذیر احمد اور راشدالخیری کے زیرِ اثر اصلاحی اور رومانی افسانے لکھنے پر اکتفا کرتی رہیں۔ انھوں نے روایت سے بغاوت کی جرأت نہیں کی بہ الفاظ دیگران میں Poetics of disobidiance کا خاصا فقدان تھا۔ان روایتی طرز کی افسانہ نگار خواتین کے مقابلے رشید جہاں اور عصمت چغتائی نے تخلیقی فرمانبرداری کے مقابلے نافرمانی، سرکشی اور بغاوت کو اپنا شیوہ بنایا۔ اس معاملے میں عصمت چغتائی تو آخری دم تک ثابت قدم رہیں۔ان کا یہ باغیانہ رویہ ان کی عملی زندگی میں بھی متحرک رہا اور تخلیقات میں بھی۔ ان کی خودنوشت ہو کہ ان کی خاکہ اور افسانہ نگاری، ہر جگہ وہ زبان و بیان (Naration) اور کردار کی شبیہ سازی میں خوف اور کمتری کے احساس کی روایت سے بغاوت کرتی نظر آتی ہیں۔ عصمت کی روایت بلکہ ان کے تخلیقی رویوں سے مشابہ رویہ اختیار کرنے والی افسانہ نگاروں میں شکیلہ اختر،صغریٰ مہدی، جیلانی بانو، ہاجرہ مسرور، بشریٰ رحمن، واجدہ تبسّم اور غزال صیغم اہمیت کی حامل افسانہ نگار ہیں۔ مذکورہ افسانہ نگاروں کے مقابلے جن خواتین افسانہ نگاروں نے عورت یا یوں کہیں کہ گھر میں رہنے والی عورت کے علاوہ گھر کے باہر مختلف قسم کے مسائل اور Struggle سے دوچار ہو رہی عورتوں کو افسانوں کا مرکز بنایا ان میں ظاہر ہے کہ قرۃ العین حیدر ایک لیجنڈ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے طویل افسانوں یا ناولٹ کے علاوہ مختصر افسانوں میں بھی عورت اپنے ثقافتی ربط و تعلق اور داخلی کیفیت و افکار کی بنیاد پر زیادہ تہہ دار، بردبار، مضبوط اور رکھ رکھاؤ والے وجود کی مالکن نظر آتی ہیں  سیتا ہرن، اگلے جنم موہے بیٹیا نہ کیجو، چائے کے باغ، پت جھڑ کی آواز، کار من کی عورتیں مضبوط ارادے کی مالکن ہیں۔ وہ سہارے تلاش کرنے یا کسی مرد کے سہارے زندگی کا سفر طے کرنے کے بجائے "Self dependent" ہیں۔ دوسری بات ان کی زبان مستورا تی ذخیرۂ الفاظ، روز مر و ں، صرفیاتی تعمیر کی پابند ہیں۔

ظاہر ہے کہ ساٹھ سے اسّی کے اوائل تک کی خواتین افسانہ نگاروں پر بھی جدیدیت کا اثر رہا لہٰذا انھوں نے بھی ترقی پسندوں کے بر عکس خارج کے مقابلے داخل اور اجتماعیت کے بر عکس انفرادیت کو قابلِ قبول سمجھا لیکن 80 کے دہے میں جدیدیت سے ایک قدم آگے بڑھ کر مابعد جدیدیت، نسائیت اور آزادانہ تخلیقی طریق کے تحت افسانہ لکھنے کا چلن زیادہ مقبول ہوا۔ اس ضمن میں ذکیہ مشہدی، ترنم ریاض، عذرا نقوی، نگار عظیم، تسنیم کوثر، غزال ضیغم، شائستہ فاخری، ثمینہ سید،شہیرہ مسرور، بانوسرتاج، ثروت خا ن اورصادقہ نواب سحر کاذکرکرنالازماًہوگا۔

80 کی دہائی میں جو نام ابھر کر آئے ان میں افسانہ نگاری کے طریقۂ کار کو لے کر ایک مشترک بات یہ ہے کہ اس نے معاشرے اور قاری سے اپنا رشتہ استوار کیا۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جدیدیت نے تجریدی، علامتی، وجودی اور خالص داخلی یا فر د کے احساس پر مشتمل افسانے کی جو بنا رکھی تھی اس سے بڑی حد تک انحرافی رویہ اختیار کیا گیا۔ دوسری بات یہ کہ کرداروں کی نمائندگی کے مقابلے تھیم اور بیانیے پر زیادہ توجہ دی گئی۔تیسری بات عصری معاملات ومسائل کے سماجی، سیاسی،اقتصادی، نفسیاتی، صنعتی،صارفیتی،تہذیبی مسائل ومعاملات سے متعلق تیز رفتار تبدیلی اورسائنسی ایجادات کے ساتھ ساتھ انسانوںکی مشینی طرزِزندگی کوموضوع کے طورپر کثرت سے برتاگیا۔

انسانوں کے بدلتے آدرش اور ایک نئی دنیا خلق کرنے کی دھن میں ضروریات پر Luxary اشیا حاصل کرنے کے جنون کو زندگی کے اہم مقاصد میں شامل کر لیا گیا۔ گویہ اس عہد میں خواتین افسانہ نگاروں نے موضوعات، تکنیک، اسلوب اور بیانیے کی سطح پر فیشن کے بجائے فطرت کے قریب جاکر افسانے خلق کیے۔ ان میں ایک بہت اہم نام ذکیہ مشہدی کا ہے۔ گوکہ ذکیہ مشہدی 80 کی دہائی سے پہلے بھی لکھتی رہیں اور فی الحال بھی لکھ ر ہی ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ خود کو دہرانے سے محفوظ رکھنے کا جتن کرتی رہتی ہیں۔ انھوں  نے افسانہ ’ بکسا‘ میں ایک ایسی ما ں کی شبیہ کو اکیرا ہے جو اپنی وصیت میں گھر کی مرمت کو ہی فوقیت دیتی ہے۔ظاہر ہے کہ وہ روایتی فکر کی ماں ہے لیکن ذکیہ کی لسانی پختگی اور بیانیے پر قدرت نے اس میں ایک نوع کی تازگی پیدا کر دی ہے۔ تقریباً یہی اوصاف ’پرائے چہرے‘، ’تاریک راہوں کے مسافر‘ اور ’ صدائے باز گشت‘ جیسے افسانوں میں بھی موجود ہیں۔ذکیہ مشہدی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ معمول کے واقعات کو جادوئی حقیقت نگاری کے دائرے میں شامل کر دیتی ہیں۔ ذکیہ مشہدی کے بعد جس خاتون افسانہ نگار پر نظر ٹھہرتی ہے وہ ترنم ریاض ہیں۔’ابابیلیں لوٹ آئیں گی‘ سے ان کو بڑی شہرت ملی حالانکہ اس مجموعے سے پہلے ’ ننگ زمین ‘ کے نام سے ان کا افسانہ اور اسی نام سے مجموعہ منظر عام پر آچکا تھا لیکن اس مجموعے میں شامل افسانے فنی پختگی کے لحاظ سے نسبتاًکچّی مٹی کے بت ثابت ہوئے تھے البتہ ’ یمبر زل‘ (2004) اور’میرا رخت سفر‘ (2008) میں ان کے شعور کے ساتھ ساتھ ان کا اسلوب اور فنی سروکار بھی پختہ نظر آئے۔ ترنم ریاض بھی اپنی تمام تر آزاد خیالی کے باوجود اکثر گھر، خاندان اور عورت کے مختلف رشتوں پر ہی توجہ مرکوز کرتی رہیں۔ عورت کو ذات کی حیثیت سے برتنے میں ان کی دلچسپی بڑی حد تک مایوس کن رہی ہے۔

ترنم کے مقابلے میں ثروت خا ن نے عورت کو ازدواجی حصار سے آزاد کرکے بھی پرکھنے کی کوشش کی ہے۔وہ عورت کی مشرقیت، اس کے عورت پن اور اس کی نفسیات کے علاوہ اس کی تہذیب کو بھی خاطر میں لانے کی خوگر نظر آتی ہیں۔ ان کا مجموعہ’ذروں کی حرارت‘ میں شامل افسانہ’میں مرد مار بھلی‘ عورت کی پابندی و آزادی کا بہترین نمونہ ہے۔جس طرح ذکیہ مشہدی نے بہار، ترنم ریاض نے کشمیر اور ثروت خان نے راجستھان کے سماجی اور تہذیبی تناظر میں وہاں کی عورتوں کا جائزہ لیا ہے اسی طریقے سے نگار عظیم، ثمینہ سید اور شائستہ فاخری نے اپنی توجہ کاسمو پولیٹین شہروں پر دی ہے لیکن ان کا سابقہ جن کلاس کی عورتوں سے زیادہ پڑا وہ متوسط طبقے ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ ان کے یہاں بھی عورت گھر، خاندان اور رشتے ناطے کے حصار سے آزاد نظر نہیں آتی۔البتہ یہ جب شہری زندگی کے مسائل پیش کرتی ہیں تو ان عورتوں کے تیور قصبات کی عورتوں سے مختلف ضرور نظر آتے ہیں۔مثلاً ثمینہ سید نے جس طریقے سے honour killingجیسی سماجی بلکہ Genetic بیماری کو ’بی بی حجرے والی‘ میں برتا ہے اس سے معاشرے اور فرد کو دیکھنے کے تعلق سے ان کے Microscopic ہنر کا انداز ہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ تقریباً ایسا ہی بے باک اور قدرے مزاحمت آمیز رویّہ تبسّم فاطمہ نے افسانہ’حجاب ‘ میں اپنایا ہے۔اس افسانے میں honour killing کی بجائے بدلتی ہوئی دنیا اور تبدیل ہوتے رویوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔لیکن اس افسانے کا راوی ہی ایک ما ں کے کردار میں ہے جو بہت سارے سوالات قائم کرنے کی جرأ ت رکھتی ہے۔80 کی دہائی میں ایک دھیمی دھیمی آنچ پر زندگی کے معاملات و مسائل، خاص کر عورت کے تمام تر پہلوئوں کو حدت و حرارت کے ساتھ پیش کرنے والی افسانہ نگار، نگار عظیم نے اپنے مجموعے ’ عکس‘، ’ گہن‘ اور ’عمارت‘ میں شامل افسانوں کے ذریعے عورت کے رشتوں میں پرو کر بھی دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے اور آزادانہ طور پر بھی پرکھا ہے۔ وہ غزال ضیغم کی طرح Loudness یا تبسم فاطمہ کی طرح شدید بغاوت کی قائل نہیں ہیں۔ جس طریقے سے غزال ضیغم ’نیک پروین‘ میں شوہروں کی اقسام بتاتے ہوئے انھیں ’بل ڈاگ‘ جرمن شیفرڈ، السیشین، گرے ہانڈ، پامیرین اور دیسی کتوں سے تشبیہ دیتی ہیں اس طریقے کے اظہار سے نگار عظیم گریز کرتی ہیں۔ جہاں تک سوال باغیانہ رویے اور احتجاجی آہنگ کا ہے تو تبسم فاطمہ کے یہاں زیادہ بے باکی اور تیکھے پن کے ساتھ نموپذیر ہوتے ہیں لیکن تبسم فاطمہ، غزال ضیغم کی طرح واقعات بیان کرنے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ واقعات کو ہوتا ہوا دکھا نا ان کا ہنر ہے۔ ان کا نظریہ اسلوب انھیں اپنے معاصرین میں ممتاز کرتا ہے۔ البتہ غزال ضیغم تاریخ سے دلچسپی اور تہذیب سے تعلق کی بنیاد پر قرۃ العین حیدر اور زاہدہ حنا کے تخلیقی رویوں سے قریب ہو جاتی ہیں۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ’ ایک ٹکڑا دھوپ‘ میں شامل بیشتر افسانوں، بالخصوص ’بھولے بسرے لوگ‘ اور ’سوریہ و نشی چندر وَنشی‘ میں تاریخ و تہذیب کے دریچے اسی طرح کھلتے نظر آتے ہیں جس طرح قرۃ العین اور زاہدہ حنا کے یہاں قدرے گہرائی، تہہ داری اور فنی دبازت کے ساتھ واہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں ’ زندہ آنکھیں مردہ آنکھیں‘ اور ’مدھوبن میں رادھیکا‘ کا مطالعہ سود مند ہوگا۔ان افسانوں میں احتجاج کی لویں بغاوت کے شعلوں میں تبدیل ہوتی نظر آتی ہیں لیکن جامعیت وتہہ داری کا فقدان بھی اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔

بے باکی، انفرادیت، احتجاج اور بغاوتی رویوں کے ساتھ ساتھ عورت کی بردباری اور زبان کے محاوراتی بانکپن کے لحاظ سے جس افسانہ نگار پر ہر با شعور و سنجیدہ قاری کی نظر سب سے زیادہ دیر تک رکی رہتی ہے وہ واجدہ تبسم ہیں۔ واجدہ کو فحش نگار کہہ کر افسانے کی شعریات سے نابلد قارئین بلکہ ناقدین نے پڑھا تو خوب، لکھا بہت کم۔ واجدہ نے جس طرح حیدرآباد کی نوّابیت اور نوابین کے عیش پرستوں کی سفاک و بے باک انداز میں اظہار کیا ہے وہ اندازیا تو عصمت چغتائی کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے یا پھر مرد افسانہ نگاروں میں منٹو اور شموئل احمد کے یہاں۔ واجدہ نے نوابین و بیگمات کے روز و شب، عیش و عشرت، جنس پرستی اور جسم و روح کی خواہشات کو حویلیوں، آرام گاہوں اور کمرے سے نکال کر چوک اور چوراہوں پر لا کھڑا کیا۔بس یہی ان کا گناہ ہے۔ورنہ تو انھوںنے جس ہنر مندی سے خواتین کے استحصال، ان کی نفسیات و جنسی ہیجان اور پورے ماحول کی عکاسی کی ہے اس طرح کی تقلید کرنے میں اچھے اچھوں کے قلم کی روشنائی خشک ہو جاتی ہے۔ اترن،  شہر ممنوعہ، آیا بسنت اور نتھ سریز کے طویل افسانے / ناولٹ کو پڑھ کر ان کی حدت کی آب تاب لانا سب کے بس کی بات نہیں۔البتہ فنی لحاظ سے مجموعہ ’کیسے کاٹوں رات اندھیری‘ میںشامل افسانے زندگی میں جنس اورافسانے میں فن کی اہمیت کے عمدہ نمونے ہیں۔واجدہ بعد میں کچھ زیادہ ہی جذباتی اور راست گوہوگئیں۔

اس محا کمے سے کچھ ایسانتیجہ بر آمد ہوتا ہے کہ مرد اساس سماج نے انسانی اوصاف کومرد اور عورت کے خانوں میں تقسیم کرکے صبرو تحمل،محبت و شفقت،اجابت و اطاعت،بے لوث و بے زبانی،پاک دامانی وقربانی کو عورت سے متصل و مختص کرکے اسے اس شرط پر قابلِ تحسین تسلیم کیا کہ وہ ممتا کی مو رت بنی رہے گی۔جو عورتیں مرد حضرات اور ان کی ہم خیال مرتبے اور رشتے میں بزرگی حاصل کرنے والی عورتوں کے مرتب کردہ اصول و ضوابط سے انحراف کریں گی وہ نافرمان، حرافہ،دریدہ دہن اور بد تہذیب و بد عمل کہلائیں گی۔یہی وجہ ہے کہ اردو فکشن میں عورت ایک آزاد وجودیا انسان کی بجائے ایک تانیثی وجود یا جنس(Feminine Gender) کی حیثیت سے ہی برتی گئی۔ گویا اس کو ہمارے فکشن میں ایک اسٹیریو ٹائپ شے کے طور پر برتنے کا رجحان غالب رہا۔ البتہ عصمت چغتائی،قرۃالعین حیدر، ممتاز شیریں اور واجدہ تبسم نے عورت کو قدرے بے باک، مزاحمتی، نافرمان اور باغی کی صورت میں بھی پورٹریٹ کیا۔ 1980  کے بعد تانیثیت کی تحریک کے زیر ِاثر اس کے اطوار و کردار میں تبدیلی آئی اور اب وہ ایک آزاد وجود کے طور پر سماج کی آدھی آبادی کی قوت بن کر ابھرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اردو افسانے کے تا نیثی منظر نامے پر سنجیدہ نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ اردو افسانے میں عورت مغربی تانیثیت یا White Feminisms کے اثر میں آکر مرد کے خلاف نازیبا حد تک جارحانہ انداز اختیار نہیں کرتی بلکہ اکثر وہ اپنی بات تہذیب کے دائرے میں رہ کر ہی کرتی ہے یہاں تک کہ اس کے انکار، اس کی بغاوت، اس کی نافرمانی اور اس کا اندازِ تخاطب عورت پن کے دائرے سے تجاوز کے قائل نہیں ہیں۔ البتہ اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ خال خال ہی سہی لیکن فیشن کے طور پر مغربی تانیثیت کی تقلید بھی کی گئی ہے۔

بہر حال 80 سے پہلے یا بعد کی افسانہ نگار خواتین نے اردو افسانے میں عورت کی ذات کے اصرار،انکار، اقرار، گفتار اور کردار کو بروئے کار لانے میں اہم رول ادا کیا۔ خاتون افسانہ نگاروں کے تخلیقی تسلسل پرنظر ڈالی جائے تو رشید جہاں سے جو سلسلہ شروع ہوتا ہے وہ عصمت چغتائی، قرۃالعین حیدر، ممتاز شیریں، ذکیہ مشہدی، واجدہ تبسم، نگار عظیم،تبسم فاطمہ، ترنم ریاض، ثروت خان اور غزال ضیغم تک آتے آتے نہ صرف ایک مضبوط روایت کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے بلکہ معاشرے کی آدھی آبادی کی زندگی اور طرزِ زندگی کی تاریخ بھی بن جاتا ہے۔

 

Afreen Raza

Research Scholar,Centre for Advanced Study

Department or Urdu

Aligarh Muslim Univeristy

Aligarh- 202001 (UP)

Email.: afreenraza205@gmail.com

جمہوری افکار و اقدار کا فروغ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری: پر وفیسر دھننجے سنگھ

 

قومی اردو کونسل میں یوم جمہوریہ کے موقعے پر تقریب پرچم کشائی

نئی دہلی: جمہوریت بہت اہم چیز ہے مگر جمہوریت میں بہت سے چیلنجز بھی ہوتے ہیں۔ آج جمہوریت اور بنیادی حقوق کو سیلیبریٹ کرنے کی شدید ضرورت ہے۔  یہ باتیں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر پروفیسر دھننجے سنگھ نے یوم جمہوریہ کے موقعے پر پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔  انھوں نے مزید کہا کہ ہم آج یہ جشن مناتے ہیں تاکہ پورے سال ہم یہ یاد رکھیں کہ بھارت ایک جمہوری ملک ہے اور اسی کی ترقی کے لیے ہم سب مل جل کر کام کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ قومی اردو کونسل ایک بڑا ادارہ ہے جو اردو کے فروغ کے لیے کام کررہا ہے اور اس زبان کا جمہوریت سے گہرا رشتہ ہے۔ جمہوری اقدار و افکار کے فروغ و اشاعت میں اردو شاعری اور صحافت نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس موقعے پر قومی اردو کونسل کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر (ایڈمین) جناب محمد احمد، ریسرچ آفیسر ڈاکٹر کلیم اللہ اور جونیئر کم آفیسر محترمہ نیلم رانی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ قبل ازاں قومی اردو کونسل کے صدر دفتر جسولہ میں پرچم کشائی تقریب کا نہایت تزک و احتشام سے اہتمام کیا گیا۔ قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر پروفیسر دھننجے سنگھ نے پرچم کشائی کی۔ کونسل کے عملے نے قومی ترانہ گایااور ترنگے کو سلامی دی۔

25/1/24

میر کی شاعری میں مستعمل تلمیحات اور مضمون آفرینی:عبدالرحمن

خیالات کوایک دوسرے تک پہونچانے کے عمل کو ترسیل کہا جاہے۔ براہ راست ترسیل خیال میں تحریر، تقریر اور اشارے کو اہمیت حاصل ہے۔یعنی تحریرو تقریر اظہار خیال کے دو ایسے ذرائع ہیں جن میں بیان کی مختلف شکلوں(نثر اورنظم ) کی تمیز کی جاسکتی ہے۔نظمیہ عبارت میں ایجاز وجامعیت کو اولیت حاصل ہے جس کے حصول کے لیے بلاغت کلام میں رائج مختلف صنائع وبدائع کا استعمال کیا جاتاہے۔ابوالفیض سحرلکھتے ہیں:

چونکہ شاعری خوب صورت اظہار کا فن ہے اس لیے حسن بیان کی جوقدریں اس میں موجود ہوں گی وہ اس کی جمالیات کا حصہ ہوں گی۔ چنانچہ شاعری میں ایسے پیرایۂ اظہار اور اسلوب بیان کا اہتمام کرنا جو محض اداے مطلب کے لیے ضروری نہیں بلکہ کلام میں مزید حسن و لطافت اور مزید معنی پیدا کرے صنعت کہلاتاہے۔

...چونکہ کسی منظر یا حالت یا واقعے یا خیال کے بیان سے شاعر کا مقصد کوئی خاص اثر پیدا کرنا ہوتا ہے۔اس لیے وہ اپنے انداز بیان کے ذریعے اس منظر یا حالت یا واقعے یا خیال کے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتاہےجس سے وہ مطلوبہ اثر پیدا کرنے میں کامیاب ہوسکتاہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے صنعتوں کا سہارا اکثر ناگزیر ہوجاتاہے۔ 1

مندرجہ بالا اقتباس سے واضح ہوتاہے کہ شاعری میں حسن وایجاز پیدا کرنے کے لیے مختلف صنعتوں کا استعمال کیا جاتاہے۔چوں کہ شاعری سمندر کو کوزے میں بھرنے کا عمل ہے۔ اس لیے یہاں صنعتوں سے گریز ممکن نہیں بلکہ علم بیان کے ساتھ علم معانی کا کردار اہم ہوتا ہے۔ تلمیح علم معانی کا ایک اہم جز ہے، جس سے کلام میں ایجاز، سلاست، تہداری اور خوبصورتی پیدا کی جاتی ہے۔ بقول ثوبان سعید :

’’نثر میں ادیب کو یہ آزادی رہتی ہے کہ وہ اپنے تصورات اور خیالات کو تفصیل اور وضاحت سے پیش کرسکے لیکن شاعرکے لیے آزادی اور رعایت کی جولان گاہ اتنی وسیع نہیں ہوتی۔ اس لیے شاعر سے اس امر کا تقاضا کیا جاتاہے کہ وہ رموز وعلائم، اختصار اور ایجاز کے سروسامان کے ساتھ وادی شعر کا سفر طے کرے۔ اس زاویے سے ’تلمیح ‘ ایک مہتم بالشان صنعت ہے کہ اس کی مدد سے شاعر بڑی سے بڑی بات کو اور طول طویل واقعات کو چند لفظوں کی مدد سے بہ سہولت اداکردیتاہے۔ ‘‘ 2

مذکورہ بالا اقتباس سے معلوم ہوتاہے کہ تلمیح ایک ایسی صنعت ہے جس کے ذریعے کلام میںایجاز و اختصار کے ساتھ حسن وتاثیر پیدا کیا جاتاہے۔ متکلم شعری حسن کو برقرار کھتے ہوئے کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معلومات پیش کرنے کا اہل ہوجاتاہے۔اور مخاطب بغیر کسی اکتاہٹ کے ان معلومات سے آگہی حاصل کرتا ہے۔ اس صنعت کی بڑی خوبی یہ ہے کہ شاعرتلمیحاتی لفظ اور اس لفظ سے منسوب واقعے کے ذریعے ایک ایسا معنی خلق کرتاہے جو بسا اوقات نہ تو اس لفظ میں موجودہوتاہے اور نہ ہی اس لفظ سے منسوب واقعے میں بلکہ ان دونوں (لفظ اور منسوب واقعے )کے درمیان ایک باریک روہوتی ہے جس کے ارتباط سے موجودہ واقعے میں معانی کا نیا کینوس بلند ہوتاہے۔اس عمل کوخیال بندی اورمضمون آفرینی سے تعبیر کیا جاتاہے۔مثال کے طور پرمیر کا یہ شعر دیکھیں          ؎

جہاں میں گریہ نہ پہنچا بہم مجھے دل خواہ

پہ نوح کے سے میں طوفاں ہزار لایا ہوں

(میرمحمد تقی میر)

 شعری لفظیات پر غورکریں تو معلوم ہوگا کہ عاشق وصال یار میں بہر ممکن سرگرداں ہے لیکن محبوب کی طرف سے کوئی ایسا اشارہ نہیں مل رہا ہے جس سے اس کی مراد پوری ہو۔حد تو یہ ہے کہ معشوق عاشق کی گریہ وزاری سے لاعلم ہے۔اس لیے عاشق کہتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے کہ میرے معشوق کو میری آہ وبکا کی خبر نہ ہو جب کہ شدت عشق کی وجہ سے جو آنسو نکل رہے ہیں اس سے ’طوفان نوح ‘ کا منظر بپا ہے۔یہاں لفظ ’طوفان نوح‘ ایک تلمیح ہے۔متکلم نے نوح (علیہ السلام) کی قوم پروقوع پذیر طوفان کی تفصیل بتانے کے بجائے صرف ’طوفان نوح‘ کہہ کر عاشق کے الحاح وزاری کی شدت کو اجاگر کیاہے۔

ظاہر ہے کہ آنسو سے ’طوفان نوح‘ کی طرح پوری دنیا کا سیلاب زدہ ہونا ناممکن ہے۔لیکن اس طوفان میں پانی اتنا زیادہ تھا کہ ساری دنیا اس میں غرق تھی، اس لیے یہاں پانی کی کثرت سے آنسو کی کثرت کامنظر نکالا گیا ہے اور اس منظر سے یہ ثابت کیا ہے کہ محبوب کی  تڑپ میں عاشق کا رورو کر برا حال ہوگیاہے۔لیکن اس شعر میں مضمون آفرینی یہ کی گئی ہے کہ جب عاشق کے رونے کی وجہ سے پوری دنیامیں سیلاب نوح (علیہ السلام) کا منظر ہے تو یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے کہ محبوب کومیری جگرسوزی کا علم نہ ہو!سچ تو یہ ہے کہ اسے مجھ سے کوئی رغبت ہی نہیں۔

معشوق کی اس طرح کی بے وفائی اور بے توجہی کے مفاہیم کو اکثر شعرا نے اپنے اپنے انداز سے برتاہے لیکن میر کے اس شعر میں جو فنی چابک دستی نظر آتی ہے وہ انھیں کے دوسرے اشعار میں دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ شعر دیکھیں:

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

(میرمحمد تقی میر)

آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ دوسرے شعر میں موجود عاشق صابر ہے اور قانع ہے۔ جب کہ پہلے شعر کا عاشق جوجھارو اورمعشوق کی چوکھٹ کی مٹی کھانے والا ہے۔ یعنی پہلے شعر کے عاشق کو یقین ہے کہ اس کی لگن اورمحبت کی خبر اس کے محبوب کو مل چکی ہے۔اس لیے وہ محبوب کی اس لا علمی پر سوال بھی قائم کرتاہے۔جب کہ دوسرے شعر کا عاشق قناعت پسند ہے اور وہ کسی طرح کی کوئی دلیل نہیں دیتا بلکہ کہتا ہے کہ اگر میرا محبوب میری تڑپ کونہیں سمجھتا ہے تو کوئی بات نہیں معشوق کے تئیں میری تڑپ تو سارے عالم پر آشکارہے۔

غورکریں تو معلومو ہوگا کہ دونوں ہی شعر کا مضمون ایک ہے۔لیکن جس شعر میں ’تلمیح‘ کا استعمال کیا گیا ہے اس کی معنویت اور تہداری کی وسعت زیادہ ہے۔ مختصر لفظوں میں کہا جاسکتاہے کہ میر نے اس تلمیح کے ذریعے عاشق نامراد کے آنسو بہانے کی کیفیت کو’ طوفان نوح‘ کی کیفیت سے مشابہت دے کر عاشق کی ’الحاح وزاری‘ کے ساتھ ساتھ معشوق کے تجاہل عارفانہ پرسوال قائم کیا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے اسی طرح کی معنوی ترسیل کو مضمون آفرینی قرار دیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:

’’آج میں نے ایک غزال دیکھا،

شیخ جرجانی کہتے ہیں کہ اس متن میں یہ کہا گیا ہے کہ آج میں نے ایک حسین عورت دیکھی، کیونکہ ’غزال‘ سے حسین عورت کا استعارہ کرتے ہیں... شیخ جرجانی کے خیال میں استعارہ براہ راست معنی کا حامل ہوتا ہے، اس لیے ہم ’غزال‘ کے معنی ’حسین عورت‘ قرار دے سکتے ہیں، لیکن خود جرجانی نے کہا ہے کہ ’حسین عورت‘ کا ترجمہ ’غزال‘ نہیں ہے اور نہ ’غزال‘ کا ترجمہ ’حسین عورت‘ ہے۔ یعنی جب آپ یہ کہیں کہ میں نے ایک حسین عورت دیکھی، تو آپ یہ نہیں کہہ رہے ہیں میں نے ایک غزال دیکھا۔ علی ہٰذالقیاس، یہ درست نہیں کہ جب میں کہتا ہوں ’ میں نے ایک غزال دیکھا‘ تو اس کا ترجمہ ’میں نے ایک حسین عورت دیکھی‘ ہوسکتاہے۔ لہٰذا معنی اور مضمون آفرینی ایک ہی شے نہیں ہیں۔

اصل صورت حال یہ ہے کہ ہر متن کسی استعارے، کنائے، یا استعاراتی طرز فکر کو کام میں لاتا ہے۔ مثلا ’سورج نکلا‘کنایہ ہے (1) رات ختم ہونے کا (2) صبح ہونے کا (3) بادل یا تاریکی کے چھٹ جانے کا۔ لہٰذا ’سورج نکلا‘ میں سورج کے نکلنے کا مضمون ہے اور یہ جن جن چیزوں کا کنایہ ہے، وہ سب اس کے معنی ہیں... پھر یہ تینوں کنایاتی معنی مزید استعاراتی یا کنایاتی جہت کے حامل ہوسکتے ہیں۔مثلاً ’بادل کا چھٹ جانا کنایہ/استعارہ ہوسکتاہے ظلم واستبداد کا دور ختم ہوجانے کا۔مثلاً ہم کہہ سکتے ہیں ’’ لوگ ظلم کے اندھیروں میں سسک رہے تھے۔ جب سورج نکلا تو ان کا رنج دورہوا‘‘۔ اس کے معنی ہوئے ’’ لوگوں پر ظلم وستم کی تاریکی (=ظلم وستم کی لائی ہوئی بے چارگی) حاوی تھی۔ جب وہ ختم ہوئی (ظلم وستم ختم ہوئے = بے چارگی ختم ہوئی) تو ان کی مصیبت کٹی‘‘۔ لہٰذا ’سورج نکلا‘ کا مضمون اور معنی برابر نہیں ہیں۔ بلکہ یہاں تو اس فقرے کے معنی کے بھی معنی ہیں۔3

مندرجہ بالا اقتباس پر غورکریں تو معلوم ہوگاکہ جس طرح ایک مخصوص پس منظر میں ’سورج کے نکلنے کا‘ معنی مختلف ہوجاتاہے اسی طرح تلمیحاتی الفاظ کے معانی بھی وقت اور حالت کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں۔مثال کے طور پر’رام کہانی ‘کی تلمیح کے ذریعے ’زندگی میں یکے بعد دیگرے پیش آنے والے مصائب سے دوچار‘ہونے کا معنی مراد لیا گیا ہے۔پھر اس معنی سے ’منازل عشق سر کرنے میں صوفیہ کی زندگی میں دل سوزی اور نفس کشی کی مضمون آفرینی کی گئی ہے۔ شعر دیکھیں          ؎

فرصت خواب نہیں ذکر بتاں میں ہم کو

رات دن ’رام کہانی‘ سی کیاکرتے ہیں

(میرمحمد تقی میر)

شعر میں مستعمل لفظیات پر غور کریں تو آپ کو کہیں کوئی ایسا لفظ نظر نہیں آئے گا جس سے کسی ایک پریشانی کے بعد دوسری پریشانی میں پڑنے، یا ایک مصیبت سے چھٹکارا ملنے کے بعد دوسری مصیبت میں گھرنے کا معنی پیدا ہوتاہو، لیکن لفظ’رام کہانی‘ پر غورکریں اور ’رام‘ سے متعلق تاریخی پس منظر کو دیکھیں تو معلوم ہوگاکہ ایک ’شہزادہ ‘ ہونے کے باوجود ’رام‘نے مدتوںبن باس کی زندگی بسر کی اور اس میں بھی متعد پریشانیوں کا سامنا کیا لیکن کہیں ہار نہیں مانی۔

اب ایک صوفی کی زندگی پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ منازل تصوف (عالم ناسوت، عالم جبروت، عالم ملکوت اور عالم لاہوت)  کو پار کرنے اور’عالم لاہوت‘ تک پہنچنے کے لیے بدروحوں سے مستقل صف آرا رہتا ہے۔ اس لیے ’رام‘ اور’ صوفی‘ کی زندگی میں ’مستقل مسائل سے دورچار رہنے ‘ کی ایک مشابہت ہے۔

جس طرح’رام‘  اپنے باپ کی خوشی کے لیے پوری زندگی  دل سوزی کرتے رہے اور راستے میں حائل تمام مشکلات کا سامنا کرتے رہے۔ اسی طرح ایک ’صوفی‘ اپنے محبوب کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہرطرح کی آرام و آسائش کو ترک کرکے مستقل دل سوزی کرتا ہے۔ اس لیے یہاں ’رضائے رب‘ کی خاطر اپنی خوشیوں کو قربان کرنے میں ’رام‘ اور ’صوفی‘ کی زندگی میں بھی مماثلت ہے۔

چونکہ صوفیہ کی دل سوزی کا معاملہ روحانی ہوتاہے اور روحانی معاملات کا کوئی منظر نہیں ہوتا’ رام کی زندگی کے معاملات ‘ عوام الناس میں رائج اور مشہور ہیں اس لیے یہاں’رام کہانی ‘ کے ذریعے عاشق کی زندگی میں ہورہی روحانی اتھل پتھل کو بیان کیاہے۔ تاکہ منازل عشق کے حصول میں در پیش دشواریوںکا منظر پیش کیا جاسکے۔

اب ’رام‘ اور عاشق حقیقی( صوفی) کی زندگی مشابہت اور مماثلت کے بعدشعر کا مفہوم ہوگا کہ جس طرح ’رام‘ نے اپنے باپ کی خوشی کے لیے محل کی زندگی ترک کرکے ’بن باسی‘ رہ کر متعدد مصائب کوہنسی خوشی برداشت کیا اسی طرح ایک عاشق صادق معشوق حقیقی کی طلب میں دنیا وفیہا سے بے نیاز ہوکر منازل عشق سر کرنے میں مصروف رہتاہے۔محبوب کی تسبیح واذکارکے علاوہ کسی اور طرف اس کا دھیان نہیں جاتا۔یعنی مندرجہ بالا شعر میں ’رام کہانی‘ کی تشبیہ کے ذریعہ رضائے الٰہی کی تلاش میں نفس کشی میںاور استغراق کا مفہوم پیدا کیا ہے۔  اسی قبیل کا ایک اور شعر دیکھیں          ؎

منزل کی میر اس کی کب راہ تجھ سے نکلے

یاں خضر سے ہزاروں مر مر گئے بھٹک کر

(میرمحمد تقی میر)

چونکہ ’خضر‘(علیہ السلام )کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ راستہ بھٹک جانے والوں کو سیدھا راستہ دکھاتے ہیں اور درست راستہ وہی دکھا سکتاہے جسے اس وادی کا علم ہو۔ اس لیے خضر صفت لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ راستوں کے نشیب وفراز سے واقف ہوں اور جب ایسے لوگ جو دوسروں کو راستہ دکھایا کرتے ہیں وہ خودہی بھٹک جائیں اور صرف بھٹکیں ہی نہیں بلکہ بھٹک کر مرجائیں تو یہ لازم آتا ہے کہ وہ راستہ پرآشوب ہوگا۔

شعر میں مستعمل لفظیات پر غورکریں تو معلوم ہوگا کہ پورے شعر میں کوئی بھی ایسا لفظ نہیں ہے جس کا لغوی معنی رہ گذر کی دشواری ہو۔لیکن ’خضر صفت لوگوں کابھٹک کر مرنا ‘اس بات کی دلیل ہے کہ اس منزل (وصال یار)کی راہ پر خطر ہے۔میر نے منازل عشق کی اسی کٹھنائی کو مہمیز کرنے کے لیے یہاں تلمیح کا استعمال کیا ہے۔ایسی صورت میں شعر کا صحیح مفہوم ہوگا کہ عشق کے منازل طے کرنا آسان کام نہیں اس وادی میں کچھ ہی لوگ ’عالم لاہوت‘ تک رسائی حاصل کرپاتے ہیں۔

اس تجزیے کی روشنی میں شعری محاسن اورمعنی آفرینی پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ میرنے ایک تفصیل طلب مضمون کو چند لفظوں کی مدد سے اس طرح پیش کیا ہے کہ سلاست، سادگی اور حسن بیان میںبھی اضافہ ہوگیا ہے۔ اسی لیے کہا جاتاہے کہ مضمون آفرینی کے ضمن’ میں علم معانی‘ کا کردار نہایت اہم ہے۔ جس کی بدولت اشعار میں نئے معنی اور تازہ مضامین کی تخلیق ممکن ہوتی ہے۔جو کہ میر کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ پروفیسر احمد محفوظ لکھتے ہیں:

’’اکثر تذکرہ نگاروں نے میر کو ’معنی ایجاد‘ کہا ہے، اور یہ بھی لکھا ہے کہ میر کو ’معنی بیگانہ‘ اور ’مضامین تازہ‘ کی تلاش سے گہرا شغف ہے۔ ملحوظ رہے کہ یہاں معنی ایجاد اور معنی بیگانہ کی تراکیب میں لفظ ’معنی‘ مضمون کے مترادف کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ لہٰذا ان الفاظ سے بھی یہی ظاہر ہوتاہے کہ میر صاحب کو نئے نئے مضامین کی تلاش اور مضمون میں نئے پہلو پیدا کرنے کا غیر معمولی شوق تھا۔4

اس اقتباس پر غورکریں تو معلوم ہوگا کہ’ نت نئے معانی کی تخلیق ‘ سے میرکاگہراشغف ہے اور اس شغف کو بروئے کار لانے کے لیے بلاغت کلام کی مختلف صنعتوں کا استعمال کیاجاتا ہے۔اس لیے میر نے جہاں تشبیہ، استعارہ، کنایہ اور مجاز جیسی صنعتوں سے معنی آفرینی کی ہے وہیں ’تلمیح‘کے استعمال اور اس کے مختلف زاویوں سے معانی کے نت نئے دریچے وا کیے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ شعر دیکھیں         ؎

تیشہ سے کوہکن کے کیا طرفہ کام نکلا

اپنا تو ناخنوں میں اس طور کا ہنر تھا

(میرمحمد تقی میر)

اس شعر میں تلمیح کی وجہ سے پیدا ہونے والی فن کاری پر غور کریںتو معلوم ہوگا کہ میر نے یہاں’ تیشۂ کوہ کن‘ کا موازنہ ’اپنے ناخن‘ سے کرتے ہوئے مشغلۂ کوہ کن کو کم تر ثابت کیا ہے۔ تاکہ رہ عشق کی دشواری کا ایک مشکل ترین منظر مخاطب کے ذہن میں کھینچا جاسکے۔

کوہ کن (فرہاد)کے بارے میں مشہور ہے کہ انھوں نے کو ہ بے ستون تیشے سے کاٹ کر جوئے شیر نکالی تھی۔پہاڑ کو تیشے سے کاٹنا عام بات ہے۔ لیکن متکلم کا دعویٰ ہے کہ اس میں کوئی نیاپن نہیں ہے۔بلکہ نیاپن توتب ہوجب وہ کام تیشے کے بجائے ناخن سے کردکھایا جائے۔ ظاہر ہے کہ ناخن بدن کا ایک نازک اور کمزور حصہ ہے اس لیے کوہ بے ستون کو ناخن سے کاٹنے والا؛ پھاوڑے سے کاٹنے والے کی بہ نسبت زیادہ جری ہوگا۔ جس سے نتیجہ نکلتاہے کہ دل سوزی عشق کے سامنے کوہکنی کا عمل کچھ بھی نہیں ہے۔

ایسی صورت میں ’تلمیح‘ سے ہونے والی معنوی ترسیل پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ شیریں کی طلب میں فرہاد کی مشہور زمانہ کوہ کنی معشوق حقیقی کی طلب میں درکار دل سوزی سے کہیں زیادہ کم ہے۔یعنی شیریں کے حصول کے لیے فرہاد نے جو دل  سوزی کی تھی وہ میری دل  سوزی اور نفس کشی کے سامنے کچھ بھی نہیں۔

مختصر یہ کہ میرنے اپنے کلام میں تلمیحات کے برمحل استعمال اوراس میں موجود مناظر سے معنی کی مختلف الجہات دنیا آباد کی ہے۔  لیکن وہ معنوی دنیالفظیاتی نظام حسن اورخصائص شعری کو کہیں مجروح نہیں کرتی بلکہ ان تمام شعری محاسن کا احاطہ کرتی ہے جس کا قاری متقاضی ہوتاہے۔

حواشی:

  1.       درس بلاغت، مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی،1997،ص39
  2.       فرہنگ تلمیحات: ثوبان سعید، مطبوعہ نیو انڈیا آفسیٹ پرنٹرز، نئی دہلی،2011، ص 24-25
  3.       شعر شور انگیز، جلد چہارم، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، 2008 ، ص 73
  4.       بیان میر، ڈاکٹر احمد محفوظ، مطبوعہ ایم  آر پبلی کیشنز، 2013، ص 118-119

 

Abdur Rahman

F2.9/16 Shaheen Bagh

Jamia Nagar Okhla New Delhi