1/10/19

اردو مثنوی: تعارف اور تفہیم مضمون نگار ۔ خان محمد رضوان



اردو مثنوی: تعارف اور تفہیم



خان محمد رضوان

ارد وشاعری میں مثنوی نگاری کا فن فارسی سے آیا ہے۔ لفظ ’مثنوی‘ گرچہ عربی زبان سے ماخوذ ہے مگر عربی ادب میں اس صنف پر کوئی خاص کام نہیں ہوا۔ فن مثنوی میں ہیئت اور موضوع کے اعتبار سے دیگر فنون لطیفہ کے مقابلے میں بہت زیادہ وسعت ہے۔ بلکہ غزل کے بعد شعرا نے مثنوی میں سب سے زیادہ طبع آزمائی کی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں داستان حیات بیان کرنے کے ہزار امکانات موجود ہیں۔ اور شاعرانسانی سماج و معاشرہ کے تمام کیف و کم کی عکاسی اس فن میں بہ آسانی کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میدان شاعری میں اسے بے پناہ مقبولیت حاصل رہی ہے۔اس ضمن میں ڈاکٹر گیان چند جین لکھتے ہیں:
قصیدہ، غزل اور مرثیہ کے برخلاف اس کا موضوع ہمہ گیر اور لا محدود ہے۔ ایک مثنوی میں جنگ و جدل کی کڑک،حسن وعشق کے گیت، پیری کا پند نامہ اورماوراکےاسراربیان کیے جاسکتے ہیں۔
(ردو مثنوی شمالی ہند میں جلد اول،ص68، ڈاکٹر گیان چند جین، انجمن ترقی اردو ہند دہلی،1986)
یہ حقیقت ہے کہ مثنوی بیانیہ شاعری کی معراج ہے، اس میں شاعر اپنے عہد، سماج، سیاسی، معاشی اور معاشرتی زندگی کو زبانی اور خوش کلامی سے ظاہر کرتا ہے۔ ظاہراً دیومالائی قصوں کی داستان ہوتی ہے، مگر اس کا تار و پود اس عہد کی سماجی زندگی کے خام مواد سے وجود میں آتا ہے۔ اس میں صرف واقعات کا بیان یا خارجی مناظر کی ہی عکاسی نہیں ہوتی ہے بلکہ انسانی جذبات وکیفیات اور احساسات کا بھی عکس نمایاں ہوتا ہے۔ اگر مثنوی کی شہرت بام عروج کوپہنچی اور خوب پھلی پھولی اورادب میں اس کا ایک اہم مقام طے پایا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ صنف سہل ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ یہ صنف کار آمد ہے اور اس میں شاعر ہر قسم کے جذبات وواقعات اور مناظر کو بہ آسانی پیش کرسکتا ہے۔ شاعرانسانی زندگی اور اس کی تہذیب و ثقافت کی داستان کو جس خوبی سے اس میں پیش کرسکتا ہے کسی اور صنف میں نہیں کرسکتا۔ اس تعلق سے
الطاف حسین حالی لکھتے ہیں:

مثنوی، اصناف سخن میں سب سے زیادہ مفید اوربہ کار آمد صنف ہے۔کیونکہ غزل یا قصیدے میں اس وجہ سے کہ اول سے آخر تک ایک قافیے کی پابندی ہوتی ہے، ہر قسم کے مسلسل مضامین کی گنجائش نہیں ہوسکتی۔
.....
جتنی صنفیں فارسی اوراردو شاعری میں متداول ہیں، ان میںکوئی صنف، مسلسل مضامین بیان کرنے کے قابل، مثنوی سے بہتر نہیں ہے۔ یہی وہ صنف ہے جس کی وجہ سے فارسی شاعری کو عرب کی شاعری پرترجیح دی جاسکتی ہے۔ عربی کی شاعری میں مثنوی کا رواج نہ ہونے یا نہ ہوسکنے کے سبب تاریخ یاقصہ یا اخلاق یا تصوف میں بظاہر ایک کتاب بھی ایسی نہیں لکھی جاسکتی جیسی فارسی میں سیکڑوں بلکہ ہزاروں لکھی گئی ہیں۔اسی لیے عرب، شاہ نامے کو قرآن العجم کہتے ہیں۔ اوراسی لیے مثنوی معنوی کی نسبت ”ہست قرآن دربیان پہلوی“ کہاگیا ہے۔
(مقدمہ شعر و شاعری، ص202،203، خواجہ الطاف حسین حالی، مکتبہ جامعہ دہلی،2013)
اس صنف کی مقبولیت، افادیت اہمیت ا ور وسعت موضوع اوربیان کی وجہ سے اردو کے تقریباً بیشتر کلاسیکی غزل گو شعرا نے مثنوی کہی ہے، جب کہ دکن کے زیادہ تر شعرا اپنی شناخت مثنویوں کی وجہ سے ہی رکھتے ہیں۔ جیسے نظامی کی ’کدم راﺅ پدم راﺅ، سے لے کر سراج اورنگ آبادی کی ’بوستان خیال‘ تک کئی مثنویاں مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں۔ وجہی کے علاوہ غواصی، مقیمی، ملک، خوشنود، نصرتی، ابن نشاطی،طبعی، جنیدی، فائز اورہاشمی وغیرہ کی شناخت مثنویوں ہی کی وجہ سے ہے۔ اسی طرح شمالی ہند میں افضل کی ’بکٹ کہانی‘ سے مثنوی کی تاریخ کی ابتدا ہوتی ہے۔ مگر جب اٹھارہویں صدی میں اردو شاعری کاباقاعدہ آغاز ہوتا ہے توبیشتر شعرا مثنوی لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فائز، حاتم اور آبرو کے بعد سودا، میر اور میرحسن صنف مثنوی کی تاریخ نورقم کرتے ہیں۔ اگرہم اٹھارہویں اورانیسویں صدی پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ شعرا کی ایک بڑی تعداد نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے ان میں مصحفی، انشا، جرا ¿ت، میراثر، رنگین، نسیم، مومن اور مرزا شوق اہم ہیں۔ اس کی خاص وجہ یہی رہی ہے کہ صنف مثنوی میں اظہار کی بے پناہ گنجائش ہے۔ اس تعلق سے مولانا شبلی لکھتے ہیں:
انواع شاعری میں یہ صنف تمام انواع شاعری کی بہ نسبت زیادہ وسیع،زیادہ ہمہ گیر ہے۔ شاعری کے جس قدر انواع ہیں سب اس میں نہایت خوبی سے ادا ہوسکتے ہیں۔جذبات انسانی، مناظر قدرت، واقعہ نگاری، تخیل ان تمام چیزوں کے لیے مثنوی سے زیادہ کوئی میدان ہاتھ نہیں آسکتا۔ مثنوی میں اکثر کوئی تاریخی واقعہ یاقصہ بیان کیا جاتا ہے۔ اس بنا پر زندگی اورمعاشرت کے جس قدر پہلو ہیں سب اس میں آجاتے ہیں۔
(مولانا شبلی کا مرتبہ اردو ادب میں، عبداللطیف اعظمی، شبلی اکادمی، قرول باغ، دہلی، مئی 1945، ص 303)
مولانا حالی نے صنف مثنوی کوکارآمد اورمفید اسی لیے کہا ہے کہ مثنوی کاحقیقی یاغیرحقیقی بیان اس عہد کی تاریخی اورتہذیبی قدروں کی خوبصورت جھلک پیش کرتا ہے۔ داستان خواہ منظوم ہو یا منثور اپنے عہد کی تہذیبی تاریخ پیش کرتی ہے۔ اگر ہم اٹھارہویں اورانیسویں صدی کی مثنویوں کا بغورمطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ان مثنویوں میں لکھنوی اوردہلوی تہذیب و معاشرت کی عکاسی کی گئی ہے۔ باغ وبہار ہوکہ فسانہ عجائب، انہی کی طرح سحرالبیان اور گلزارنسیم میں بھی ہندوستانی تہذیب وثقافت اورتمدن کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ میر ہوں یاکہ مصحفی کی مثنویاں یامرزا شوق کی زہرعشق ان تمام مثنویوں میں ہندوستانی تہذیب وثقافت اور اقدارکاگہرا عکس نمودار ہوتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ صنف شاعری میں مثنوی ہی ایک ایسی صنف ہے جس میں مضامین اورموضوعات کاتنوع، مربوط بیانیہ اور خیالات کے مفصل بیان کی گنجائش ہوتی ہے۔ امداد امام اثر نے لکھا ہے:
 ”
مضامین کے اعتبار سے جووسعت اس صنف شاعری کوحاصل ہے کسی اور صنف کو نہیں ہے، ہر طرح کے داخلی اورخارجی مضامین اس میں گنجائش پاتے ہیں....یہ وہ صنف شاعری ہے جس میں شاعر شاعری کاکمال حسب مراد دکھلاسکتا ہے۔
(مومن خاں مومن (مونوگراف)، ص 19، مصنف، ڈاکٹر توقیر احمد خاں، ناشر:اردواکادمی دہلی، 2007-2011)
بہر طور ہماری مثنویاں تہذیب وثقافت اور کلچر کی عکاس ہوتی ہیں۔ مثنوی کے لیے جذبات نگاری، واقعہ نگاری اورمحاکات جزولازم ہیں۔جس کے سہارے شاعر تہذیب کی دل پذیر مرقع کشی کرتا ہے۔
اردو شعروادب میں انیسویں صدی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ کیونکہ انیسویں صدی کے بیچ کا حصہ اردو شاعری کا نقطہ عروج تھا۔ یہ دور اردو شعر و شاعری کا وہ سنہرا دور ہے جس میں ذوق، مومن اور غالب جیسے صاحب فن شعرا جمع ہوگئے تھے اور یہ سچ ہے کہ اسی عہد میں اردو شاعری کو نیا رنگ و آہنگ ملا۔
ان کے علاوہ مظہرجا ن جاناں، درد، نظیر، میر، سودا، ذوق، آتش، ناسخ، انیس، دبیر، میرحسن، شوق، مصحفی، انشا، جرأت خاص تھے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ مغلیہ عہد میں ایک سے ایک انمول رتن پیدا ہوئے۔ یہ بات دہلی اور دہلی والوں کے لیے باعث فخر ہے کہ گوہر نایاب ان کے دامن میں پناہ گزیں تھے۔
شیخ ابراہیم ذوق (1788-1854)
 
ذوق نے شاعری میں وہ شہرت کمائی کہ آسمان بھی رشک کرے۔ آپ کی زبان صاف، شستہ اورسبک تھی اسی لیے سب محسوس کرتے ہیں کہ ذوق کی شاعری رائے عامہ کی شاعری ہے۔ ان کی شاعری صناعی کی لاجواب مثال ہے۔ ذوق کی شعری عظمت اور شہرت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ان کی کلیات میں غزلیں، قصائد اور رباعیات موجود ہیں اور دیگر کتب میں بھی ان اصناف کے حوالے سے خوب گفتگو کی گئی ہے۔ تعریفیں بھی کی گئی ہیں اور نقائص کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ اچھی بات تو یہ ہے کہ ادبا نے ایک ایک چیز کی جانب نشاندہی کی ہے اوربتایا ہے کہ ان کی شاعری میں کیا خوبیاں ہیں اوریہ بھی بتایا کہ خامیاں کیا ہیں، مگرادبا نے اپنی تحریروں میں یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ ذوق کا مثنوی کے تعلق سے کیا رجحان تھا۔ آیا انھوں نے مثنوی کہی یا نہیں کہی اوراگر نہیں کہی تو اسباب کیا تھے۔ اوراگرکہی ہے توکس حد تک کہی ہے ایسا کسی نے ذکر نہیں کیا ہے۔ کلیات ذوق (اردو) مرتبہ ڈاکٹرتنویر احمد علوی نے اپنے مقدمہ صفحہ 39 میں ذوق کی مثنوی کے صرف 30 تیس اشعار کا ذکر کیا ہے۔ اوران تیس اشعار کو ’اشعار مثنوی‘ کے عنوان سے اسی کلیات کے صفحہ 271 اور 272 میں شامل کردیا ہے۔ باقی پوری کلیات میں مثنوی کے اشعار کا ذکر نہیں ہے۔ اس سے یہی معلوم ہوتاہے کہ ذوق نے مثنوی کے صرف تیس اشعار کہے ہیں۔ ان اشعار کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی خاص زبان کا استعمال ان اشعار میں بھی کیا ہے چوں کہ وہ اہل زبان تھے لہٰذا زبان دانی کا جادو اس میں بھی انھوں نے دکھایاہے۔ اس مثنوی کے اشعارسے کئی رنگوں کا عکس نمایاں ہوتا ہے آغاز کے چند اشعار سے ایسا لگتاہے کہ حمد اورنعت کے اشعار میں چند اشعار میں رنگ غزل ابھرتا ہے اور آخر کے باقی اشعار میں محرومی اور محبوب کی بے وفائی کا اظہار معلوم ہوتا ہے۔
ہم ان اشعار کو کسی بھی رنگ میں دیکھیں یااس کا جو عکس بھی ہم محسوس کریں ان تمام عکسوں میں ہماری ہندوستانی تہذیب اور ثقافت کا عکس ہی جھلکتا ہے۔
مومن خاں مومن(1800-1852)
 
مومن طبعاً ذہین واقع ہوئے۔وہ بیک وقت طبیب، شاعر، عاشق، نجوم اور رمل کے جان کا راور موسیقی کے دل دادہ تھے۔ اورشطرنج تو ان کے ذوق جمال کا خاص حصہ تھا۔ وہ باذوق انسان تھے۔ وہ ہر فن مولیٰ تھے۔ کسی شاعر یا ادیب میں بیک وقت اتنی خوبیوں کا پیداہونا بہت مشکل ہے۔ مگر مومن ان تمام فنون پر کمال حاصل کرنے کے ساتھ عشق وعاشقی میں بھی کمال رکھتے تھے اور کئی عشق بھی کیے۔ مومن کے عقیدے کے تعلق سے شکوک وشبہات ظاہرکیے جاتے ہیں جب کہ وہ راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ اسی طرح مومن اردو شاعری میں اپنے کمال فن سے جانے جاتے ہیں۔ مومن کویہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلے ایسے شاعر ہیں جنھوں نے صداقت پسندی کو فروغ دیا اور فرسودہ روایات کو توڑا۔ انھوں نے غزل کو حسن و صداقت سے بہر مند کیا اور واردات قلبی کو سچائی اور جرأت کے ساتھ پیش کیا۔ اس بات کا تذکرہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ادبا نے مومن کی شاعری کی تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے ملادیے ہیں مگر کسی نے ان کی شاعری کے حالات درج نہیں کیے ہیں کہ انھوں نے شاعری کب کیسے اور کس طرح شروع کی اور ابتدا میں کیسی شاعری کی کیونکہ ان کے اجداداطبا تھے اور وہ بھی نسخہ بنایا کرتے تھے تو آخر شاعر کب بنے یہ ضرور لکھنا چاہیے تھا کیونکہ محمد حسین آزاد کو جو حالی نے مومن کے تعلق سے کوائف دیے ہیں اس میں اس بات کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی گلشن بے خار میں نواب مصطفی خاں شیفتہ نے اس تعلق سے کچھ لکھا ہے۔ ایسی صورت میں یہ مان لینا چاہیے کہ ان کے پاس شاعری کا فن صرف محنت وریاضت سے نہیں یعنی کسی طور پر نہیں آیا تھا بلکہ وہی تھا، فطرت میں خدا نے شاعری شامل کررکھی تھی تو مومن نے غزل، قصیدہ اور مثنوی جیسی صنف میں کمال پیدا کیا، تمکین کاظمی نے اس تعلق سے لکھا ہے کہ:
یہ ماننے کے بعد کہ وہ وہبی شاعر تھے، یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انھوں نے بچپن ہی سے شاعری شروع کی ہوگی کیوںکہ جو شخص آٹھ نو سال کی عمر میں عاشقی کرسکتا ہے وہ شاعری بھی کرسکتاہے۔
(حکیم مومن خاں مومن دہلوی کے حالات اور کلام کا تعارف، ص 34، مصنف؛ تمکین کاظمی، ناشر: آندھرا پردیش،ساہتیہ اکیڈمی، حیدرآباد، سنہ ندارد)
دراصل غزل میں عشق کا جو معیار ہے یہیں سے مثنوی میں بھی آیا ہے۔ بہت کم ہی مثنویاں ایسی ہوں گی جن میں عشق کے معاملات کا ذکرنہ ہو۔ جب کہ فراق صاحب کے اس بیان سے حیرت ہونا فطری ہے کہ ”مومن کی کوئی مثنوی یا ان کا قصیدہ عشقیہ نہیں۔“ جب کہ مومن مولوی سید احمد بریلویؒ سے بیعت تھے باوجود اس کے انھوں نے کئی عشق کیے اور جس طرح سے مومن سے اپنی شاعری میں واردات قلبی اور واقعات عشق و محبت کو برتا ہے شاید ہی کسی نے برتا ہو، اور ان کی مثنویوں میں عشق کی روداد طلب کی متقاضی ہے۔ کلیاب مومن میں چھوٹی، بڑی، بارہ مثنویاں ہیں۔ ان مثنویوں میں سات مثنویاں تو ایسی ہیں جن میں صرف عشقیہ آب بیتی بیان کی گئی ہے۔ ان مثنویوں کی تفصیل اس طرح ہے۔
(1)
شکایت ستم، 1231ھ (2)قصہ غم، 1235ھ (3) قول غم، 1236ھ (4) تف آتشیں، 1241ھ (5) حنین مغموم1244ھ، (6) آہ و زاری مظلوم، 1246ھ، یہ چھ مثنویاں وہ ہیں جوبے حد مقبول ہیں، ساتویں مثنوی کے دو جز ہیں۔ جز واول دردحمد، جزو دوم نعت اور مناجاب عاشقانہ کل 308 شعر، مگر نول کشور پریس لکھنؤ کے کلیات مومن میں آخرالذکر کو دو مثنویاں تصور کیا ہے۔جزو اول کا عنوان مثنوی ناتمام ہے اور جزو دوم کو علاحدہ مثنوی مانا ہے۔ جب عبادت بریلوی نے جو کلیات مومن ترتیب دی ہے اس میں انھوں نے اسے ایک مکمل مثنوی مان کر ’بقیہ مثنوی‘ کے عنوان سے درج کیا ہے۔ مومن کی مثنوی کے تعلق سے ڈاکٹر گیان چند نے اپنے ایک مضمون ’مثنویات مومن‘ میں لکھا ہے:
اردو مثنوی نگاری کی تاریخ میں مومن کی اہمیت ان چھہ مثنویوں کی وجہ سے ہے جس میں انھوں نے معاملات عشق کی عمدہ شرح کی ہے۔
(یادگار مومن، صفحہ 138، شائع کردہ اردو مجلس حیدرآباد، مطبوعہ: انتخاب پریس جواہر لال نہرو روڈ، سنہ ندار)
یہ سچ ہے کہ مومن کی مثنوی کی سب سے زیادہ اہم اور قابل لحاظ خصوصیت ان کی حقیقت نگاری ہے۔ انھوں نے واقعات عشق کابیان نہ صرف جرأت مندی سے کیا ہے بلکہ خوبی اور خوبصورتی بھی غضب کی ہے۔ اگر ان کی مثنویوں کی شہرت اتنی نہیں ہے جتنی ہونی چاہیے تو اس میں قصور صرف اور صرف ان کی بوجھل زبان کا ہے۔ کہیں کہیں تو واقعہ عشق کے بیان کو اس قدر طول دیتے ہیں کہ اصل قصہ ہی گم ہوجاتا ہے۔ ویسے جذبات نگاری میں انھوںنے جس خوبی کا مظاہرہ کیا ہے شاید ہی کسی مثنوی نگار نے کیا ہو۔ مومن کی مثنویوں کے مختلف پہلوکا جائزہ لیتے ہوئے ان کی خوبیوں کو آشکار کرتے ہوئے ڈاکٹر سید رفیع الدین نے اپنے مضمون ’مومن کی شاعری میں مذہبی عناصر‘ میں لکھتے ہیں:
مومن نے مثنویاں مختصر اور عشقیہ لکھی ہیں۔ ان میں واردات قلبی کابیان زیادہ ہے جو حقیقت حال کی ترجمانی کرتاہے۔ اس میں شک نہیں کہ صحیح جذبات کی ترجمانی اور محاکات کی نادر مثالیں جو مومن کی مثنوی میں ملتی ہیں وہ نہایت بدیع ہیں اور مومن کی مثنوی نگاری کا یہ پہلو نمایاں اور روشن ہے۔
(یادگار مومن، ص162، شائع کردہ اردو مجلس حیدرآباد، مطبوعہ: انتخاب پریس جواہر لال نہرو روڈ، سنہ ندارد)
یہ سچ ہے کہ مومن کی مثنویاں ادبی اور زمانی دونوں اعتبار سے اہمیت کی حامل ہیں ان میں ہر جگہ اس عہد کا منظرنامہ عشق کی داستان اور تہذیبی ولسانی عکس دیکھنے کو نظر آتا ہے۔ مثلاً ’شکایت ستم‘ یہ مثنوی 1231ھ میں لکھی گئی۔ اس مثنوی کو مومن خاں مومن نے محض سترہ سال کی عمر میں تصنیف کیا جس میں 594اشعار ہیں۔ اس عمر میں ایسی پختہ مثنوی لکھنا صرف کمال فن ہی نہیں بلکہ اعجازفن بھی ہے۔ اس میں وہ کسی نازنین کے گیسو کے اسیر ہوگئے تھے اس کا مفصل بیان ہے۔ اس مثنوی میں عشق کا خوبصورت انداز پیش کیاگیا ہے۔ چوں کہ اس میں انھوں نے شادی کے موقع سے آئی محبوبہ سے چھپ چھپا کرملنے کی عجیب و غریب داستان کو نظم کیا ہے۔ اگر اس کے بیان میں مومن، آسان، سادہ زبان استعمال کرتے اور ثقالت سے گریز کرتے تو ان کا کلام اورزیادہ موثر ہوتاجاتا، باوجود اس کے اس میں جذبات نگاری کمال کی ہے۔ ہجرکی سینہ کا وی، مستورات کے اندیشے، رسوائی کا کھٹکا، طرح طرح کے معاملے اور پھر گھر والوں کا ڈر ان باتوں کوتودلکش اوراچھے انداز میں پیش کیاگیا ہے۔
داغ دہلوی(1803-1908)
داغ دہلوی کا شمار تیرہویں صدی کے نصف اول کے ان اہم شعرا میں ہوتا ہے جس میں مومن، ذوق، غالب اور شیفتہ پیدا ہوئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جس میں اردو شاعر ی کو دوبارہ فروغ حاصل ہوا۔ داغ جنھیں مثنوی سے فطری ربط تھا اس جانب خاطر خواہ توجہ نہ دے سکے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے صرف ایک مثنوی ’ فریا د داغ‘ کے نام سے54برس کی عمر میں 1882 میں تخلیق کی جو نہایت دلچسپ اور حسن وعشق کی واردات کاخوبصورت بیانیہ ہے۔
مثنوی فریاد داغ میں اپنے عشق کا حال جو کلکتہ کی ایک مشہور طوائف منی بائی حجاب کے ساتھ ان کوتھا اور رام پور کا بے نظیر کا میلہ دیکھنے کی غرض سے آئی تھی ایک شاعرانہ رنگ میں بیان کیا ہے۔ اس مثنوی کے بہت سے اشعار اعلیٰ درجے کے ہیں اور سادگی اور روانی وعمدگی ان کی قابل داد ہے۔ علی الخصوص عاشق کا معشوق کی تصویر سے تخاطب نہایت دلکش انداز میں بیان کیاگیا ہے۔ مگر بعض جگہ تعیش اور خراب جذبات کی تصویریں متانت اور تہذیب سے گری ہوئی ہیں۔
(تاریخ ادب اردو، ص 370، مصنف:رام بابو سکسینہ، مترجمہ، مرزا محمد عسکری، مطبع منشی نول کشور، واقع لکھنؤ، 1929)
داستان عشق کا بیان داغ کی مثنوی میں کوئی پہلا بیان نہیں ہے، یا یہ پہلی مثنوی نہیں ہے، جس میں عشق واقعات،عشق اورداستان عشق کے علاوہ وہ انجام عشق کا احاطہ کرتی ہو، بلکہ اس سے قبل درجنوں مثنویاں لکھی گئی ہیں، جن میں اس موضوع پر اپنے اپنے طور پر گفتگو کی گئی ہے۔ مثلاً صفیربلگرامی کی فتنہ عشق کو لے لیجیے، تسلیم سہسوانی کی سعدین کو دیکھیے، جنوں رامپوری کی مثنوی مرقعہ ناز کو پڑھیے، مظہر لکھنوی کی ریاض عشق، عروج کی عروج الفت، سید محمد خان حسرتی کی مثنوی نیرنگ الفت اور جعفر کی ولولہ عشق، احسن لکھنوی کی جذبات عشق، ازل لکھنوی کی سحر عشق، مرزا فدا علی خنجر لکھنوی کی مثنوی انجام عشق قابل ذکر ہیں۔ ان مثنویوں کا اگر بغور اور تاریخی مطالعہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ کسی نے کسی کا قصہ لیاتو کسی نے اپنی ذہانت وذکاوت کو بروئے کار لاکر کام یاب تقلید کی۔ یہ تمام مثنویاں فرد واحد کے عشق کا داستانی بیانیہ ہیں۔ اور ان سب کا امتیاز اور وصف شستہ اور بامحاورہ زبان ہے۔ مگر داغ کی مثنوی عشق کی ذاتی داستان تو ضروری ہے مگر اس عشق کا علاقہ ہماری تہذیبی روایت سے جا ملتا ہے۔ ساتھ ہی یہ مثنوی زبان کے اعتبار سے بھی ہماری تہذیب کا آئینہ ہے۔ اس بات پر تقریباً مصنفوں کا اتفاق ہے کہ داغ کی یہ مثنوی ان کی اپنی داستان ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا سچا واقعہ قلم بند کیا ہے۔ دراصل یہ واقعہ اس عہد مغلیہ کا ہے جس میں وہ ایک طوائف پر عاشق ہوئے۔ اس طوائف کا نام منی بائی اور تخلص حجاب تھا۔ داغ نے اس میں اپنی واردات قلبی اور عشق کے سچے واقعے کو اس خوبصورتی سے پیش کیا ہے کہ اس عہد کی مکمل تہذیب اور رﺅسا کا وطیرہ اس طور پر بغیر کسی تعجب کے ذہن میں آجاتا ہے کہ ایک عجیب قسم کی طلسماتی دنیا معلوم ہوتی ہے۔ داغ کے بیان نے اس واقعہ میں عجیب و غریب لطف پیدا کردیا ہے۔ جس سے اس عہد بالخصوص دلی اور رامپور کی زبان دانی کا تہذیبی مرقع بھی سامنے آجاتا ہے۔
مثنوی گلزارِ نسیم (1811-1843)
 
پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی، گلزار نسیم اردو کی چند اہم مثنویوں میں سے ایک ہے۔ اردو میں جو داستانی مثنویاں لکھی گئی ہیں ان میں قبول عام کا شرف صرف دو مثنویوں میر حسن کی ’سحر البیان‘ اور دیا شنکر نسیم کی ’گلزار نسیم‘ کو حاصل ہے۔ اس مثنوی کی داستان اور قصے کے تعلق سے مختلف باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ یہ نہ ایرانی داستان ہے اورنہ ہندوستانی بلکہ اس میں بیان کیے گئے قصے کا تعلق ہند ایرانی روایتوں سے ہے۔
اس قصے کا تعلق دراصل ہندوؤں اور مسلمانوں کے آپسی میل جول کے اثرات سے وجود میں آنے والے قصوں اور داستانوں سے ہے۔ مثنوی گلزار نسیم کا قصہ ’گل بکاولی‘ کے نام سے معروف ہے۔ یہ قصہ نسیم کا طبع زاد نہیں بلکہ قدیم داستانوں کو اردو میں نظم کیا گیا ہے۔ دیا شنکر نسیم نے 1254ھ (1838-39) میں اس داستان کو اردو میں منتقل کیا ہے۔ نسیم اردو میں جب اس قصے کو نظم کررہے تھے تو اپنے سامنے ’مذہب عشق‘ از نہال چند لاہوری 1217ھ کو پیش نظر رکھا یہ عزت اللہ بنگالی کے فارسی نسخے سے ترجمہ ہے۔ 1260ھ میں مطبع میر حسن رضوی سے پہلی دفعہ یہ مثنوی ترمیم و تصحیح کے بعد بمطابق 1844 میں شائع ہوئی۔
بال مکند بے صبر(1820-1890)
بال مکند بے صبر قادرالکلام اور پرگو شاعر تھے۔ ان کے یہاں وسعت بیان بھی ہے اور قدرت زبان بھی،وہ غالب کے شاگرد تو ضرور تھے اور غالب نے ان کی مثنوی پر اصلاح بھی دی مگر اس میں خیالات کی بلندی نہیں پائی جاتی ہے۔ تہہ داری اور احوال بھی اس طرح کے نہیں بیان کیے گئے ہیں جو اعلیٰ شاعری کی پہچان ہوتی ہے۔ باوجود اس کے علامہ عبدالماجد دریابادی لکھتے ہیں :
محاورات پر یہ عبور، روز مرہ پر یہ قدرت، بیان کی یہ سلاست، کیا ہر شاعر کے نصیب میں ہوتی ہے؟
(تلامذہ غالب: مالک رام، طبع دوم، مکتبہ جامعہ دہلی،1984)
ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ اگر کسی تخلیق میں تمام خامیوں کے باوجود کم خوبیاں ایسی ہیں جس کی بنیاد پر وہ تخلیق، تخلیق کے زمرے میں آرہی ہے اور یہ خوبی اس کو زندہ رکھنے اور ہمارے عہد کے لیے لائق اعتنا ہے تو اسے قبول کرلینا چاہیے۔
اسی طرح بے صبر کی ”مثنوی لخت جگر “ بہت ساری خامیوں کے باوجود اہمیت کی حامل ہے۔ اور ایک کامیاب مثنوی ہے اور تقریباً تمام ادباء و محققین نے اس کی ادبی اور زمانی اہمیت کو تسلیم بھی کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس مثنوی کے زندہ رہنے اور اسے یاد رکھنے کے لیے یہی کافی ہے۔
مثنوی لخت جگر‘ منشی بال مکند بے صبر کی واحد یادگار تخلیق ہے، بے صبر 1810 میں پیدا ہوئے اور 1885 میں ان کی وفات ہوئی۔ بال مکند بے صبر بدیع البدائع، نام سے ایک رسالہ نکالتے تھے۔ ان کے بیٹے برہما سروپ نے اس رسالے کے آغاز میں سوانح عمری مصنف کے عنوان سے بے صبر کی ولادت، وفات اور تعلیم وغیرہ کے تعلق سے یہ عبارت لکھی ہے۔
جناب منشی بال مکند صاحب بے صبر، ساکن سکندر آباد ضلع بلند شہر، 1810 میں بمقام سکندرآباد پیدا ہوئے اور پچہتر برس کی عمر میں13 فروری 1885 شیوراتری کو بمقام میرٹھ رحلت فرمائی۔ سولہ برس کی عمر میں فارسی، عربی میں لیاقت کامل حاصل کی اور علوم ریاضی ونجوم وہیئت، منطق اور ویدانت، صوفیہ مت میں بھی دستکاہ بہم پہنچائی۔ بوجہ موزونیت طبیعت خداداد اور بہ صحبت مرزا منشی ہر گوپال تفتہ، کہ ماموں بہ جناب موصوف کے تھے۔ شوق شعر و سخن دامن گیر ہوا۔ آخر کو زانوے ادب بہ خدمت نواب اسداللہ خاں صاحب مرزا نوشہ غالب دہلوی کے تہ کیا۔
( ہندوستانی قصوں سے ماخوذ، اردو مثنویاں، گوپی چند نارنگ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، دسمبر2001)
جب کہ مالک رام کے تلامذہ غالب میں اور کالی داس گپتا رضا نے ”غالب کا ایک مشاق شاگرد: بالمکند بے صبر میں 1869 بکرمی کو 1812-13 کے مطابق لکھا ہے اور تقویم کے مطابق یہ درست بھی ہے۔ اب یہ کنفیوژن برقرار ہے کہ آیا برہماسے لکھنے میں غلطی ہوئی یا کاتب سے خطا ہوئی۔ ویسے بے صبر کی تاریخ ولادت اور وفات مختلف محققین نے مختلف لکھی ہے۔
یہ مثنوی 1837 میں لکھی گئی تھی۔ اس کا اول ایڈیشن 1871میں سہارنپور کے مطبع خورشید جہاں تاب نے شائع کیا تھا، اس کے بعد یہ مثنوی نایاب ہے۔
بال مکند بے صبر اپنے ماموں ہرگوپال تفتہ کے توسط سے مرزا غالب کے شاگرد تھے۔ بے صبرکو اس بات پر نہ صرف فخر تھا بلکہ غرور بھی تھا کہ وہ غالب کے بلاواسطہ نہیں بلکہ بالواسطہ ہرگوپال تفتہ کی معرفت سے شاگر دہیں جس کا انھوں نے اپنی شاعری میں اعلانیہ ذکر بھی کیا ہے۔ اور رسالہ ”بدیع البدائع“ میں غالب کے تلمذ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
بندۂ  نیاز مند بال مکند، المتخلص بہ بے صبر، قوم کائستھ، رہنے والا قصبہ سکندرآباد علاقہ ضلع بلندشہر کا عرض کرتا ہے کہ بعد تحصیل علم درسی ورسمی کے مجھ کو شوق، انشا پردازی اور سخن طرازی کا دامن گیر ہوا اور زانوے تلمذ خدمت حضرت استاذی مولانا مرزا اسد اللہ خاں صاحب غالب دہلوی تہہ کر کے مدتوں خون جگر کھایا۔
(مثنویات شوق، مرتب رشید حسن خان، طباعت، انجمن ترقی اردو ہند، سنہ اشاعت1998)
بے صبر نے ”درشان مجمع کمالات صوری ومعنوی حضرت استاذی جناب مولانا اسد اللہ خاں صاحب غالب دہلوی “ کے عنوان سے نوشہ غالب کی تعریف میں چند اشعار نقل کیے ہیں۔ اس میں بھی بے صبر نے غالب سے شاگردی کا تذکرہ کیا ہے۔ ساتھ ہی اس بات کا بھی تذکرہ ہے کہ میں تفتہ کے سبب سے صاحب رتبہ ہوا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں  ۔
میں بھی ہوں فن شعر ے گرد
شاگردوں کا اس کے ہوں میں شاگرد
آپ اس نے ہی، ہوں میں جس کا مداح
دیوان کو میرے دی ہے اصلاح
تفتہ کے سبب بہ خواہش دل
رتبہ یہ ہوا ہے مجھ کو حاصل
غالب کا ہی وہ بھی خوشہ چیں ہے
میں ہوں، کہیں اور وہ یہیں ہے
 
کمال یہ ہے کہ بے صبرنے مستعار اجزا اور قصوں کواس طور پر خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ بیانیہ کا نیا انداز قائم ہوگیا ہے۔ اور قصے کا پرانا پن ظاہر نہیں ہوتا۔ اس طور پر یہ پورا قصہ ہندوستانی قصوں اورکہانیوں کے ضمن میں ایک اہم اضافہ ہے۔ یا اس سلسلے کی اہم کڑی ضرور کہا جاسکتا ہے۔ اس مثنوی کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ غالب نے اس پر اصلاح دی ہے، اس طور پر یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ غالب کی نظر سے مثنوی کے گزر جانے کے بعد اب کسی طرح کی کمی کا احساس نہیں ہونا چاہیے یا زبان و بیان کی خامیوں کا شائبہ بھی مناسب نہیں ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ غالب کی شاگردی اور مرزا تفتہ کی صحبت میں بے صبر کی زبان بھی فارسی زدہ ہوگئی تھی۔
خاص بات یہ تھی کہ بے صبر کاتعلق اس معاشرے سے تھا جو تہذیبی قدروں کا امین تھا۔ ان کا خاندان اور خاندان کے بیشتر لوگ اسی قدیم تہذیب کے پیروکار تھے۔                                
علامہ شبلی نعمانی(1857-1914)
شبلی نعمانی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ بیک وقت ادیب ونقاد، مترجم ومورخ اور سوانح نگار تھے۔ ماہر تعلیم اورمصلح تعلیم تھے،مستند سیرت نگار اور شاعر بھی تھے۔ شبلی نے مثنوی، ’مثنوی صبح امید‘ مسدس، تماشائے عبرت یعنی قومی مسدس، قصائد، قصیدہ اردو، تہنیت شادی جسٹس محمود مرحوم، قصیدہ اردو اور قصیدہ مدح سلطان عبدالحمید خاں کہے ہیں۔ اسی طرح جدید مذہبی اور اخلاقی نظمیں کہی ہیں۔ اسی کے ساتھ سیاسی نظمیں،شذراتی نظم اور مرثیہ بربادی خانمان شبلی، کہی ہیں۔ شبلی کا یہ شعری سرمایہ گوکہ کمیت کے لحاظ کم ہے مگر کیفیت اور زمانی و مکانی قدر وقیمت کے اعتبار سے بے حد اہم اور غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں۔ شبلی کی دیگر تخلیقات کا غائرمطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ شبلی نے کم و بیش ادب کے ہر میدان میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔خواہ ادب اور دینیات کا میدان ہوکہ تاریخ و سوانح کا میدان یا کہ تنقیدات، انھوں نے ان میں بیش بہااضافے کیے ہیں۔ بلکہ جدید طرز تصنیف سے اردو کو آشنا بھی کرایا۔ اس تعلق سے مہدی افادی لکھتے ہیں:
آج کل کے مصنّفین میں علامہ شبلی کو ایک خاص امتیاز اور فوقیت حاصل ہے، جو ان کے ہم عصروں کے حصے میں نہیں آیا۔ ان کے سخت سے سخت حریف مقابل بھی ان کی تحقیقات کی گرد کو نہیں پہنچتے۔ بعضوں نے موضوع سخن ایسا اختیار کیا کہ اگر زمانہ کی رفتار یہی رہی تو زیادہ جیتے معلوم ہوتے، نذیر احمد اپنی لائق رشک عربیت کے ساتھ بھی کچھ یونہی سے رہے....حالی نے مسدس کے ساتھ مقدمہ شعر وشاعری اور حیات جاوید لکھ کر اپنا ٹھکانہ کرلیا۔ شبلی قطعا غیر فانی ہیں۔ آج ہزار صفحے متعدد جلدوں میں ان کے قلم سے نکل چکے ہیں اور جس پر جو کچھ لکھاگیا ہے کسی زبان میں اس سے بہتر مجموعہ خیال موجود نہیں۔
(مولاناشبلی کا مرتبہ اردو ادب میں، عبداللطیف اعظمی، شبلی اکادمی، قرول باغ، دہلی، مئی 1945)
یہ سچ ہے کہ مونالا شبلی نے کبھی اپنے شاعر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ مگر یہ غلط ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ وہ شاعر نہ تھے یا صرف تفریح طبع کے لیے شاعری کرتے تھے۔ مولانا نے یہ ثبوت عملی طور پر دیا کہ وہ نہ صرف شاعر ہیں بلکہ ان کی طبع موزوں ہے اور وہ فطری شاعر ہیں۔ جس کی شہادت کلیات شبلی ہے۔ اگر وہ صرف دل بہلانے کے لیے شاعری کرتے تو ان کے مجموعے میں شامل مثنوی، قصیدہ، نظمیں اور وہ خوبصورت غزلیں نہ ہوتیں جو کہ ہےں۔ ایک آدھ غزل کہہ لیتے یا زیادہ سے زیادہ ایک دو نظم کہہ کر مطمئن ہوجاتے۔ مگر نہیں۔ انھوں نے جو بھی کہا، جتنا کچھ بھی کہا، بہت عمدہ، معیاری اور قابل فخر سرمایہ ہے۔ مولانا شبلی نے جو کچھ بھی شعری سرمایہ چھوڑ ا ہے وہ گراں قدر تحفہ ہے گو کہ وہ کمیت میں کم ہے۔چوں کہ ان کی جولانی طبع میں کوئی کمی نہیں تھی ان کی فکر اور ان کا خیال کسی اچھے شاعر سے کمتر نہ تھا۔فنی پختگی بھی فنکاروں سے کم نہ تھی۔ یہ اور بات ہے کہ وہ فطری شاعر تھے اور کم وبیش شاعری کی ہے اور ان کا پورا شعری سرمایہ کلیات شبلی بہ اہتمام مولوی مسعود علی صاحب ندوی میں محفوظ ہے ان کی مثنوی ’ صبح امید‘ کے اشعار کو اگر ہم بغور دیکھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ واقعی شبلی فطری اور پیدائشی شاعر تھے۔
Md. Rizwan Khan
Research Scholar, Dept of Urdu
Delhi University
Delhi - 110007
Mob.: 9810862283


 ماہنامہ اردو دنیا،اکتوبر 2019



 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں