کیفی
اعظمی کی معنویت
آفاق عالم صدیقی
کیفی اعظمی ترقی پسند تحریک کے اکابرین شعرا میں سے ایک تھے۔ ان کی شاعری پربات شروع کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ترقی پسند تحریک کے پس منظر پر تھوڑی سی روشنی ڈالی جائے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا تبدیلی کے نئے امکانات سے روشناس ہوئی اور دنیا کی کئی حکومتوں نے اشتراکی نظام کو قبول کرلیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سائنس و ٹکنالوجی کی برکت سے انسانوں کے سارے خواب سچ ہوتے نظر آنے لگے تھے۔ اس وقت ایشیا میں بھی بیداری کی لہر پیدا ہوچکی تھی۔ لیکن ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ گوکہ آزادی کی جدوجہد شروع ہوچکی تھی۔ لیکن اب تک کوئی واضح لائحہ عمل مرتب نہیں ہوا تھا۔ یوروپی قربت کی بدولت ہندوستان کے نوجوان دنیا میں برسر پیکار انقلابی تحریکات سے نہ صرف یہ کہ واقف ہوچکے تھے ، بلکہ ذہنی طور پر ان تحریکات سے قربت بھی محسوس کررہے تھے۔ لیکن عملی اقدام کا طریقہ کار ابھی تک متعین نہیں ہواتھا۔ اس لیے کوئی راستہ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ ایسی صورت حال میں گاندھی جی اپنے بے پناہ قائدانہ صلاحیت کے ساتھ ہندوستان کے افق پر نمودار ہوئے اور انہوں نے اہل وطن کو قومیت کانعرہ دے کر اپنا آندولن شروع کردیا۔ گاندھی جی اور ا ن کے رفقا کار کی کوشش سے دھیرے دھیرے ہندوستان میں آزادی کی تحریک ایک مثبت سمت میں پیش رفت کرنے لگی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں عام بیداری کی لہر پیدا ہوگئی۔ ادھر 30 19 کے بعد ایک بار پھر فسطائی قوتوں نے زور پکڑ لیا اور قہرناکی کاوہ منظر پیش کیا کہ انسانیت درد سے کراہ اٹھی۔ اس وقت دنیا کے گوشے گوشے میں جہاں کہیں بھی امن، مساوات اور آزادی کے متوالے تھے ، وہ صف آرا ہوگئے اور ثقافت بچاﺅ کی مہم شروع ہوگئی۔ یہی وہ مہم تھی جس کی برکت سے دنیا کی تمام زبانوں میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔
جب ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا تو اس وقت ہندوستان آزادی کی جدوجہد میں لگاہوا تھا اور اس کی ساری قوتیں آزادی کے حصول کی کوشش میں صرف ہورہی تھی۔ ایسے حالات میں ادب وفن کا ان اثرات سے بچنا ناممکن تھا، چنانچہ اس عہد کا سارا ادب آزادی کی جدوجہد کا آئینہ بردار بن گیا۔ اس عہد کے زیادہ تر فنکار جاگیر دارانہ نظام کے پروردہ تھے ۔ اس لےے ان کی شخصیت اور مزاج میں بھی زندگی کی کیف آور رنگینی اور رومانیت رچی بسی ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پسندی کے ابتدا ئی اعہد کے سارے فنکاروں کے یہاں رومانیت کا غلبہ پایاجاتا ہے۔ اگر ہندوستان میں ترقی پسندی کے اس جوش وخروش اور شوق واخلاص سے پروان نہیں چڑھایاجاتا تو بہت ممکن تھا کہ اس عہد کے بیشتر فنکار رومانیت کے شکار ہوکر رہ جاتے اور فکری وعملی فراریت کا ایسا نمونہ پیش کرتے کہ خوش آئند زندگی کا خواب ہی رہ جاتا۔ یہ ترقی پسند تحریک کا بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے جاگیر دارانہ نظام کے پروردہ رومانی فنکاروں کو زندگی کے حقیقی دھارے سے جوڑا اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ارضی صداقت سے ہم آہنگ کرکے ملک اور عوام کے مسائل کا ترجمان بنایا۔
یہی رومانی فنکار جو اپنی تخلیقیت خیزی کی ساری قوتیں رومانی جذبات کی عکاسی میں صرف کررہے تھے۔ جب پلٹ کر حب الوطنی کے ساز پر انقلاب وبغاوت کے رجز گانے پر آمادہ ہوئے تو جوش عمل کا ایسا ولولہ پیدا کردیا گیا کہ انگریزی سامراجیت کے ایوان لرز اٹھے اور آخر کا ر انہیں ہندوستان چھوڑنا پڑا۔
کیفی اعظمی جدوجہد آزادی کے نغمہ سراﺅں کے آخری سرتاج تھے۔ مخدوم اور سردار جعفری کی طرح کیفی اعظمی بھی ایسے فعال، نڈر، اور باحوصلہ شاعر تھے، جنھوں نے غریب ومحنت کش انسانوں کی کسمپرسی اور جدوجہد میں نہ صرف یہ کہ عملی حصہ لیا بلکہ کئی محاذوں پر قائدانہ رول بھی ادا کیا۔ یہ اسی عملی اقدام کی حوصلہ مندی تھی جس نے انہیں تاحیات استقلال سے اپنے موقف پر جمے رہنے کی قوت عطا کی۔
کیفی اعظمی کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ کلی طور پر ایک عوام دوست شاعر تھے۔ وہ عوام سے اٹھے اور تاعمر عوام ہی کی خدمت گزاریوں میں لگے رہے۔ ان کا اپنا ایک واضح نظریہ تھا۔ وہ تخلیق شعر کے لیے اپنا ایک معیار وضع کرچکے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ خود اپنی وضع کردہ کسوٹی پر’ آوارہ سجدے‘ تک پہنچنے کے بعد ہی کھرے اترے۔ ان کی تخلیقی سوچ کے سارے سوتے مادیت اور رومانیت کے چشمے سے پھوٹے ہیں۔ لیکن ہم رومانیت کو ان کی تخلیق سے الگ کرنے کے بعد بھی (جسے انھوں نے خود بھی بعد میں الگ کردیا تھا) یہ کہہ سکتے ہیں کہ تصوراتی اور رومانی افکار وخیالات سے مادی افکار وخیالات زیادہ مستحسن ہوتے ہیں۔ کیونکہ رومانیت خود تعیشی وخود فریبی اور ناآسودہ احساسات کی جھوٹی تسکین کا سبب بنتی ہے۔ وہ بھی آسودگی کی صورت میں۔ جبکہ مادی افکار سے قوم وسماج کے تمام تر سروکار کو تقویت ملتی ہے اور اس کی برکت سے سماج ومعاشرے میں اصلاح وفلاح اور خوشحالی کی نئی راہیں نکلتی ہیں اور تہذیب وثقافت کی ترقی کے نئے باب کھلتے ہیں۔ ساتھ ہی زندگی خوب سے ہے خوب تر کہاں کی جستجو میں شاد کام ہوتی ہے۔معین احسن جذبی کا ایک شعر ہے:
جب جیب میں پیسے بجتے ہیں جب پیٹ میں روٹی ہوتی ہے
اس وقت یہ ذرہ ہیرا ہے اس وقت یہ شبنم موتی ہے
اور سچ بھی یہی ہے کہ جہاں افلاس کی ستم کاری ہو،بھوک بیماری اور ماراماری ہو اور بے روزگاری ہو، فرقہ وارانہ منافرت کی آتش باری ہو، استحصالی نظام کی شاطرانہ ریاکاری ہو۔ مفاد پرستوں کی زر خرید سیاست کی کینہ پرور مکاری ہو۔ ہر سو ظلم کی چکی میں پستی عوام کی آہ وزاری ہو، یعنی موت آسان اور زندگی بھاری ہو وہاں ہم ایک صحت مند، آسودہ، پرامن اور مہذب زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ یہی وہ صورت حال تھی جس کی وجہ سے امن، مساوات اور آزادی کے متوالے ترقی پسند فنکاروں نے داخلیت کی سطحی پکاروں پرکان دھرنے سے انکار کردیا اور اپنی ساری تخلیقی توانائی عوام اور ادب کے رشتے کو اٹوٹ بنانے میں صرف کردی۔ ادب اور عوام کا یہی وہ فطری رشتہ تھا، جس نے عوام کو حوصلہ مندی کی زمین پر لا کھڑا کردیا، جس پرچل کر ہم آج زندگی کے بہترین خواب سنجونے کے قابل ہوئے ہیں۔
کیفی اعظمی ایک زمیندار گھرانہ کے چشم وچراغ تھے۔ زمیندارانہ نظام کے پروردہ ہونے کی وجہ سے ان کے مزاج میں بھی رومانیت رچ بس گئی تھی۔ وہ اپنے ماحول اور عہد کے تناظر میں انیس ودبیر کی مرثیہ گوئی سے متاثر ہوکر جب شاعری کے میدان میں سرگرم عمل ہوئے تو ان ہی کے انداز میں خطیبانہ طنطنہ دکھانے لگے۔ اور پھر بہت جلد وہ رومانی شاعری کی نرم وگرم آغوش میں سما گئے۔ ا ن کی رومانی شاعری بڑی پرتاثیر اور دلکش ہے۔ اس میں بلاکی شعریت اور نغمگی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے حسن وعشق کے لوازمات کو اس خوبی اور دلکشی سے شعر میں ڈھالا ہے کہ اس کی اثر انگیزی دوبالا ہوگئی ہے۔ اب تک ان کی شاعری کے تین مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ’جھنکار‘، ’آخر شب‘اور ’آوارہ سجدے‘۔ ’جھنکار‘ میں جوش کا ساخطیبانہ لہجہ پایاجاتا ہے۔ جو شاعری کی نزاکت اور لطیف احساسات کی نفاست کو دباکر شوریدگی، شعلگی اور جذبات کی برانگیختگی کی عکاسی کرتی ہے۔ جبکہ ’آخر شب‘ کی شاعری روایت، رومانیت اور شعریت کا ایسا دل پذیر اور شیریں آمیزہ ہے کہ پینے والا مدہوش ہوجاتا ہے۔ اس پر ایک خاص قسم کی سرمستی وسرشاری چھاجاتی ہے۔ اس شاعری میں اتنی دلکشی، رعنائی اور غنائیت ہے کہ یہ قاری کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ اگر ایک لمحہ کے لئے ہم ترقی پسند تحریک کے مقاصد کو بھلادیں اور یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ کیفی اعظمی کس قبیل اور کس رجحان کے شاعر ہیں تو بلا تکلف ہم ’آخر شب ‘ کی شاعری کو ان کی تخلیقی زندگی کابے بہا سرمایہ مان لیں گے اور میں سمجھتاہوں کہ اگر ترقی پسندی والی شاعری امتداد زمانہ کے سبب مٹ گئی یا ازکار رفتہ ہوگئی تو یہی شاعری کیفی اعظمی کو زندہ جاوید رکھنے کے لےے کافی ہوگی۔ کیونکہ اس قبیل کی شاعری میں ان کے یہاں بعض ایسی خوبصورت نظمیں پائی جاتی ہیںکہ ان کی مثال بھی مشکل ہی سے ملتی ہے۔ نقش ونگار، تصور، مجبوری، احتیاط ، پشیمان، بوسہ، اندیشے،ملاقات،نرسوں کی محافظ،تم،اور اسی طرح کی بعض دوسری نظمیں ان کی رومانی شاعری کی بہترین مثالیں ہیں۔ ان نظموں میں جو دلکشی، رعنائی، غنائیت، کیفیت، سراپانگاری، تازگی اور خوابناکی پائی جاتی ہے۔ وہ انہیں بہترین رومانی نظموں کے انتخاب میں شامل ہونے کا استحقاق فراہم کرتی ہے۔ کچھ نظموں کی جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں:
اے بنت مریم گنگنا اے روح نغمہ گائے جا
جیسے شگوفوں میں سماکر گنگناتی ہے ہوا
جیسے خلا میں رات کو گھونگھرو بجاتی ہے ہوا
نغمگی
حلاوتوں کی تمنا، ملاحتوں کی مراد
غرور کلیوں کا، پھولوں کا انکسار ہو تم
جسے ترنگ میں فطرت نے گنگنایا ہے
وہ بھیر ویں ہو وہ دیپک ہووہ ملہار ہو تم
تم
کلی کا روپ پھول کا نکھار لے کر آئی تھی
وہ آج کُلخزانۂ بہار لے کر آئی تھی
جبینِ تابناک میں کھلی ہوئی تھی چاندنی
چاندنی میں عکس لالہ زار لے کے آئی تھی
تمام رات جاگنے کے بعد چشم مست میں
یقیں کارس امید کا خمار لے کے آئی تھی
گلابی انکھڑیوں کی سحر کاریوں میں خندہ زن
غرور فتح ورنگِ اعتبار لے کے آئی تھی
وہ سادہ سادہ عارضوں کی شکریں ملاحتیں
ملاحتوں میں سرخیِ انار لے کے آئی تھی
ملاقات
یہ کس طرح یاد آرہی ہو
یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو
کہ جیسے سچ مچ نگاہ کے سامنے کھڑی مسکرا رہی ہو
یہ جسم نازک، یہ نرم بانہیں، حسین گردن، سڈول بازو
شگفتہ چہرہ، سلونی رنگت، گھنیرا جوڑا، دراز پلکیں
نشیلی آنکھیں، رسیلی چتون، دراز پلکیں، مہین ابرو
تمام شوخی، تمام بجلی، تمام مستی، تمام جادو
ہزاروں جادو جگارہی ہو
یہ خواب کیسا دکھار ہی ہو
تصور
بند کمرے میں جو خط میرے جلائے ہوں گے
ایک اک حرف جبیں پہ ابھر آیا ہوگا
میز سے جب مری تصویر ہٹائی ہوگی
ہر طرف مجھ کو تڑپتاہوا پایا ہوگا
اندیشے
یہ تتلیاں جنہیں مٹھی میں بھینچ رکھا ہے
جواڑنے پائیں تو الجھیں کبھی نہ خاروں سے
تری طرح کہیں یہ بھی نہ بجھ کے رہ جائیں
تپش نچوڑ نہ اڑتے ہوئے شراروں سے
نرسوں کی محافظ
کیفی اعظمی کی رومانی شاعری سے یہ مثالیں صرف اسی لےے پیش کرنی ضروری نہیں تھی کہ ان کی شاعری کے لحن کی تبدیلی کا انداز لگایاجاسکے، بلکہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ وہ حضرات جو انہیں محض کمیٹڈ شاعر کہہ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں بھی اس طرف متوجہ کیا جاسکے۔ بعض ناقدان ادب بڑی بے رحمی سے یہ فرمان سنا دیتے ہیں کہ کیفی اعظمی اور اس قبیل کے دوسرے ترقی پسند شاعروں کی شاعری اسی عہد اور ماحول کے لئے موزوں تھی، جس میں وہ تخلیق ہوئی تھی۔ اب وہ فضا بکسر بدل چکی ہے۔ اس لئے ان کی شاعری کا جواز بھی ختم ہوگیا۔
میں اس قسم کی فکر رکھنے والوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ ادب کو روایتی جمالیاتی حسیات کی عینک کے بغیر دیکھنے کے روادار نہیں ہیں تب بھی آپ کیفی اعظمی کی شاعری کو ادب نکالا نہیں دے سکیں گے۔ کیونکہ وہ اپنی ابتدائی زندگی میں خاصی مقدار میں اس قسم کی شاعری کرچکے ہیں۔ ان کی متذکرہ بالانظموں کے ٹکڑوں کے مطالعہ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ان کی شاعری میں صنف شاعری کی تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں، جن کی برکت سے شاعری کے رخسار پرجمالیات کا غازہ دمکنے لگتا ہے تو اس کے ہونٹوں پر لطف وانبساط اور دلربائی کی یاقوتی سرخی لہریں لینے لگتی ہے۔ نظموں کے ان ٹکڑوں پر توجہ کیجئے اور ان کی لفظیاتی وصوتی حسن وآہنگ کو محسوس کرنے کی کوشش کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ان میں شاعرانہ الفاظ کی وہ بہتات ہے کہ اکثر شاعر اس پر رشک کرسکتے ہیں۔
روحِ نغمہ کا گائے جانا، ہواکا شگوفوں میں سماکر گنگنانا، گھٹاکا خلا میں رات کو گھونگھروں بجانا۔ حلاوتوں کی تمنا میں ملاحتوں کی مراد کا پالنا، کلیوں کے غرور کا پھولوں کے انکسار میں ظہور پانا، فطرت کا ترنگ میں آکر اس طرح نغمہ ریز ہونا کہ بھیرویں، ملہار اور دیپک کا سلگ اٹھنا، کلی کاروپ اور پھول کا نکھار لے کر کل خزانۂ بہار بن کر آنا، جبینِ تابناک میں چاندنی کا کھلنا اورپھر اس چاندنی میں عکس لالہ زار کا مسکرانا، تمام رات جاگنے کے بعد بھی چشمِ مست میں یقین کے رس اور امید کے خمار کا لہریں لینا، گلابی انکھڑیوں کی سحر کاریوں میں محبوب کا خندہ زن ہونا ، سادہ سادہ عارضوں کی ملاحتوں میں شکر کی حلاوتوں کا پایاجانا، ملاحتوں میں سرخیِ انار کا نمایاں ہونا اور پھر ایک قیامت سراپا محشر خیز حسن وانداز کی تصویر کا اس طرح مجسم ہونا کہ ایک ایک عضوکا حسن نمایاں ہوجائے اور جزیات نگاری اس طرح ابلاغ پائے کہ طبیعت شوقِ دےد میں تخیل کے جہان آباد کرلے۔ مثلاً جسم نازک، نرم باہیں، حسین گردن، سڈول بازو، شگفتہ چہرہ، سلونی رنگت، گھنیرا جوڑا، دراز گیسو، نشیلی آنکھیں، رسیلی چتون، دراز پلکیں، مہین ابرو اور ان تمام صفات وخوبی کا یکجاہوکر محبوب کی صورت میں جلوہ گر ہوکر اپنی شوخی ومستی سے جادو جگانا اور پھر انجام کار عشق ناکام کی صورت میں بند کمرے میں خط کا جلایاجانا، اک اک حرف کا جبین ناز پر ابھر آنا، میز سے محبوب کی تصویر کا ہٹایاجانا اور پھر ہر طرف کمرے میں عاشق کے تڑپنے کا منظر اور اڑتے شراروں سے تپش نچوڑنے کا عمل، یہ سب کے سب الفاظ اور ان سے تخلیق ہونے والے امیجز کسی بھی شاعر کے کلام کو معتبر بناسکتے ہیں۔
یہ تو ہوا کیفی اعظمی کی شاعری کا وہ پہلو جو انہیں ایک کامیاب شاعر بناتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح ان کی شاعری بتدریج ارتقائی مراحل طے کرتی ہوئی ترقی پسندی کی معراج تک پہنچی۔ کیفی اعظمی جب رومانیت اورشعریت کی دنیا سے نکل کر اشتراکیت اور ارضیت کی پکاروں کی حقیقی دنیا میں داخل ہوئے تو ان کا لہجہ بالکل بدل گیا:
مرے مطرب نہ دے ﷲ مجھ کو دعوت نغمہ
کہیں ساز غلامی پر غزل بھی گائی جاتی ہے
فکری اور نظریاتی قبولیت کا یہی وہ بدلتا ہوا زاویہ تھا جس نے کیفی کی تخلیقی حسیات سے محبوب کے جمال کی رعنائی کو رخصت کیا اور ان کی تخلیقی روح کو ملک وقوم کی حالت زار کی عکاسی کادرس دیا۔ اور پھر کیفی اعظمی پوری زندگی عوامی بیداری، اشتراکیت کی بحالی، سوشلسٹ سماج کے قیام کے لئے عوامی ذہن کی آبیاری کرنے میں اس طرح جٹ گئے کہ خود کو بھی فراموش کردیا۔ حدتو یہ ہے کہ وہ افلاس وغلامی کے خلاف بغاوت کی علم برداری کرتے ہوئے ایک شاعر سے ایک جانباز سپاہی بن گئے۔ انہوں نے ’آوارہ سجدے‘کے دبیاچے میں خود ہی لکھا ہے :
”میری شاعری نے جو فاصلہ طے کیا ہے، اس میں وہ مسلسل بدلتی اور نئی ہوتی رہی ہے (بہت آہستہ ہی سہی) آج وہ جس موڑ پر ہے۔ اس کانیاپن بہت واضح ہے۔ یہ رومانیت سے حقیقت پسندی کی طرف کوچ کاموڑ ہے۔“
یہ حقیقت ہے کہ ان کی شاعری میں تبدیلی رفتہ رفتہ آئی ہے۔ ان کے شروع کے حقیقت پسندانہ کلام پر بھی رومانیت کے سائے منڈلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جس سے وہ رفتہ رفتہ چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوئے ہیں:
اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
گوشے گوشے میں سلگتی ہے چتا تیرے لیے
فرض کا بھیس بدل لیتی ہے فضا تیرے لیے
قہر ہے تیری ہر اک نرم ادا تیرے لیے
ہاں اٹھا جلد اٹھاپائے مقدر سے جبیں
میں بھی رکنے کا نہیں میںکبھی رکنے کا نہیں
اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
عوامی بیداری اور عورت کی زبوں حالی کے پس منظر میں لکھی گئی کیفی اعظمی کی یہ نظم جس میں عورت کو بغاوت پر اکسایاجارہا ہے، اتنی ٹھوس نہیں ہے جتنی عموماً ترقی پسند نظمیں ہوتی ہیں۔ اس نظم کے لہجہ میں شاعرانہ پن پایاجاتا ہے۔ اس نظم میں شعریت، لطافت اوربہت حد تک نزاکت بھی پائی جاتی ہے۔ مگر ان کا یہ شاعرانہ لہجہ ہر جگہ قائم نہیں رہتا ہے۔ وقت، حالات اور واقعات وحادثات کے تحت ان کے لہجے میں کرختگی، سختی اور کسی حد تک برہنہ گفتاری پیدا ہوجاتی ہے اور وہ غزلوں کے اشعار میں بھی اپنے جذبات کو نہیں روک پاتے ہیں:
بیلچے لاﺅ کھودو زمیں کی تہیں
میں کہاں دفن ہوں کچھ پتہ تو چلے
کیفی اعظمی ایک سچے اور ایماندار اشتراکی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے اشتراکی ہونے پر تمام عمر فخر کرتے رہے۔ یہ اشتراکیت اور مارکسیت سے محبت ہی کانتیجہ تھا کہ وہ کبھی روس کی عظمت کا گیت گانے لگتے تھے تو کبھی اسٹالن کو ہیرو بنادیتے تھے۔ وہ مارکسیت واشتراکیت کے متوالوں کو اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے اور روس وچین کو اشتراکی حکومت کو مثالی طاقت سمجھتے تھے۔ اسی زمانہ میں چین نے ہندوستان پر حملہ کردیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا، جس سے اشتراکیت کے متوالے ہندوستانیوں کو سخت صدمہ پہنچا۔ اس زمانہ میں کیفی فلم سے منسلک تھے۔ ان کا گیت
کرچلے ہم فدا جان وتن ساتھیو
اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو
اسی زمانہ کی یادگار ہے۔ جب کمیونسٹ اکائی دودھروں میں بٹ گئی تو کیفی اعظمی بھی ٹوٹ گئے اور ان کے سجدے آوارہ ہوگئے۔ اسی زمانہ میں انہوں نے ’آوارہ سجدے‘ جیسی نظم لکھی :
راہ میں ٹوٹ گئے پاﺅں تو معلوم ہوا
جز مرے اور مرا راہ نماکوئی نہیں
کیفی اعظمی کمیونسٹ اور اشتراکی نظام کے حامی ایک مخلص، عوام دوست اور محب وطن انسان وشاعر تھے۔ فرقہ پرستی، تعصب زدگی، مذہبی انتہا پسندی اور منافقت کی کمینگی وکم بدبختی انہیں سخت ناپسند تھی، وہ بڑے یقین اور اعتماد سے کہا کرتے تھے کہ :
”غلام ہندوستان میں پیدا ہوا، آزاد ہندوستان میں بوڑھا ہوا اور سوشلسٹ ہندوستان میں مرجاﺅں گا۔ “
ان کو پختہ یقین تھا کہ ہندوستان میں اشتراکیت کی شجرکاری جوں جوں بڑھتی جائے گی، ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی خوشبو پھیلتی جائے گی اور ایک دن تمام اہل وطن اس خوشبو کی سرشاری سے ایسے مست ہوجائیں گے کہ اشتراکیت اور مساوات کی پربہار فضا پیدا ہوجائے گی۔
لیکن ان کا یہ خوبصورت خواب ان کی زندگی ہی میں ریزہ ریزہ ہوکر بکھر گیا۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے مفاد پرست سیاست دانوں کو اشتراکیت پر مذہبیت کوفوقیت دیتے ہوئے دیکھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اشتراکیت کا نوخیز پودا سوکھ گیا۔ اور امن وامان کے خواب سنجونے والی زمین پر فسادات کے شعلے بھڑک اٹھے۔ ان واقعات وحادثات نے انہیں بہت گہرا صدمہ پہنچایا۔ اور وہ آوارہ سجدے، بہروپنی اور موت جیسی نظمیں لکھنے پر مجبورہوئے۔ ان کی طویل نظم ’خانہ جنگی‘47 19کے فساد کی منہ بولتی تصویر ہے جو کیفی کے جذبات و احساسات کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ یہ نظم آج کے فرقہ وارانہ ماحول کو بھی خوب درشاتی ہے:
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
سوکھتی ہے پڑوسیوں سے جان
دوستوں پر ہے قاتلوں کا گمان
شہرویراں ہیں بند ہیں بازار
رینگتا ہے سڑک پہ گر م غبار
رہزنی داخلِ جہاد نہیں
فطرت ِشرع میں فساد نہیں
کہہ کے تکبیر باندھ کے نیت
ماﺅں بہنوں کی لوٹ لی عزت
گیت گاکے مہاتماجی کے
پیٹ ماﺅں کے چاک کر ڈالے
لاش علم وادب کی حکمت کی
لاش کلچر کی آدمیت کی
اے وطن اس قدر اداس نہ ہو
اس قدر غرق رنج ویاس نہ ہو
کیفی اعظمی کے یہاں قنوطیت نہیں رجائیت پائی جاتی ہے۔یہی وہ خوبی ہے جو انہیں منفعل ہونے سے بچاتی ہے۔ تخلیقی سطح پر کیفی اعظمی کا ادب میں یہ المیہ رہا ہے کہ انہیں کسی رجحان کے ناقد نے دل سے قبول نہیں کیا۔ حد تو یہ ہے کہ بعض اوقات ترقی پسندوں نے بھی ان سے عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔ خود تنقیدی برادری کے بہت سے نقادوں نے اپنی تن آسانی کے لیے ان کی بعض ہنگامی نظموں کا سرسری جائزہ لے کر انھیں کمیٹڈکا سرٹیفکیٹ پکڑاکر جان چھڑانے کی عاجلانہ کوشش کی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ ادبی رویہ تنقید کے کس خانے میں فٹ بیٹھتا ہے۔ ہم جان چکے ہیں کہ اگر وہ چاہتے تو اپنی ’آخر شب‘کی شاعری کے ساتھ جی لیتے اور ادب میں وہ مقام پالیتے جو کسی بھی شاعر کے لئے معیاری اور منفرد ہوتا ہے۔ لیکن انہوں نے ملک وقوم کی حالت زار کے پیش نظر اپنے تمام تر رومانی رویے کو یکسر مسترد کردیا۔ تو کیا ہمیں عوامی ہمدردی اور وقت کی پکاروں کے حامل اس رویہ کی تکذیب پوری طرح ذہن نشین ہوجانی چاہئے کہ جمالیاتی اور رومانی احساسات سے کہیں زیادہ مشکل اور مفید سماجی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ انہوں نے سماجی شعور کو تخلیقی احساسات کی تہذیب میں حل کرکے وقت کے تقاضوں کی تکمیل کا حوصلہ مندانہ ثبوت فراہم کیا ہے جو سب کے بس کی بات نہیں تھی۔یہ درست ہے کہ ان کی شاعری میں جب مقصد یت اپنی پوری شوریدگی کے ساتھ شامل ہوگئی تو ان کے یہاں سے شعریت، لطافت اور نزاکت رخصت ہوگئی۔
شاعری خطاب اور منشور بن گئی۔ اور ان کی بعض نظمیں سیاسی تھیم کا منظوم ترجمہ محسوس ہونے لگی۔ لیکن قومی دردمندی بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔ اگر قومی دردمندی کی کوئی اہمیت ہے تو یقینا ان کی اس قبیل کی شاعری کی بھی اہمیت ہے۔
لٹنے ہی والا ہے دم بھر میں حکومت کا سہاگ
لگنے ہی والی ہے جیلوںدفتروںتھانوں میں آگ
مٹنے ہی والا ہے خوں آشام دیوزر کا راج
آنے ہی والا ہے ٹھوکر میں الٹ کر سر سے تاج
چھٹنے ہی والی ہے ظلمت پھنکنے ہی والا ہے صور
رفتہ رفتہ کیفی اعظمی نے تخلیقی سطح پر سنگلاخ زمینوں پر چلنے کی عادت ڈالی، وہ رومان پرور فضا سے باہر آگئے۔ اب انہیں ہوا کا خلا میں گھونگھرو بجانا اتنا متوجہ نہیں کرتا ہے، جتنا زمین پر بسنے والے عوام کی درد انگیز کراہ متوجہ کرتی ہے۔ اب ان کی ساری توجہ اپنے آس پاس کی جیتی جاگتی دنیا اور اس میں آباد انسانوں پر مرکوز ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ان کی شاعری میں عام لوگوں کا ہجوم ہمیں دور ہی سے نظر آتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہجوم کیفی کا دیوانہ ہے۔ جواُن کی معیت میں بڑھتا ہی چلاجاتا ہے:
الٹ کر ایک ٹھوکر میں ستم کاراج رکھ دیں گے
اٹھاکر اپنی پستی کو سرمعراج رکھ دیں گے
وہ اک گل کی حکومت تھی کہ گلشن لٹ گیا سارا
ہم اب کے غنچے غنچے کی جبیں پر تاج رکھ دیں گے
چلو وادیو، ساحلو، دلدلو
چلو معدنو، کھیتیو، زلزلو
بغاوت کا پرچم اڑاتے چلو
نشانات ستم تھرا رہے ہیں
حکومت کے علم تھرا رہے ہیں
غلامی کے قدم تھرا رہے ہیں
غلامی اب وطن سے جارہی ہے
اٹھو دیکھو وہ آندھی آرہی ہے
آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
سب اٹھیں میں بھی اٹھوں تم بھی اٹھو تم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھُل جائے گی
سماجی شعور کی یہی بالیدگی اور آزادی کے لیے بغاوت کے لحن میں گایا گیا انقلاب کا یہی رجز اور حب الوطنی کی یہی سرشاری کیفی کی شاعری کا لہو اور ان کی زندگی کا مقصود ومنہاج تھا۔ ان کی طبیعت میں چونکہ شعریت رچ بس گئی تھی۔ اس لیے یہ استثنائے چند جب وہ پارٹی لائن کے لئے خالص مقصدی شاعری کرتے ہیں تب بھی ان کے یہاں شعریت پیدا ہوہی جاتی ہے۔ دوسری اہم اور خاص بات یہ ہے کہ دوسرے فنکاروں کی طرح اشتراکیت کیفی کے لئے محض ایک نظریہ نہیں تھا۔ اشتراکیت تو ان کی زندگی کا ماحصل بن گیا تھا۔ اشتراکی نظریہ کا یہی وہ فطری انجذاب تھا جس نے ان کی شاعری کو شعری تہذیب کے دائرہ سے خارج نہیں ہونے دیا۔
کیفی اعظمی نے جس اشتراکی ہندوستان کا خواب دیکھا تھا وہ پورا نہیں ہوا۔ اس پر سے ستم یہ ہوا کہ جس فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے انہوں نے اپنا خون جگر جلایاتھا، وہ بھی بیکار ہوگیا اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں بابری مسجد کے انہدام کی شکل میں فرقہ پرستی کا ننگاناچ بھی دیکھناپڑا۔ انہوں نے بابری مسجد کی شہادت پر جو نظم لکھی ہے وہ بھی ان کی موضوعاتی نظموں میں ایک امتیازی پہچان رکھتی ہے۔
رقص دیوانگی آنگن میں جو دیکھا ہوگا
6 دسمبر کو شری رام نے سوچا ہوگا
اتنے دیوانے کہاں سے مرے گھر میں آئے
تم نے بابر کی طرف پھینکے تھے سارے پتھر
ہے مرے سر کی خطا زخم جو سر میں آئے
رام یہ کہتے ہوئے دوار سے اٹھے ہوں گے
راجدھانی کی فضا آئی نہیں راس مجھے
6 دسمبر کو ملا دوسرا بن باس مجھے
کیفی اعظمی ایک باعمل، باکردار اور سچے فنکار وشاعر تھے۔ وہ اپنی شاعری میں جن باتوں کا اعادہ کرتے تھے، ان پر خود بھی عمل پیرا ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری اور ان کی زندگی میں گہرا ربط پایاجاتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں حتی المقدور اپنے عہد کی روداد کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ کیفی کے بعض ہم عصروں نے کیفی پر الزام لگایا ہے کہ کیفی بہت ہی موقع پرست اور بہت حریص انسان تھے۔ان کا کہنا ہے کہ کیفی اتنے چالاک اور ہوشیار تھے کہ انہوں نے شہرت اور اعزاز واکرام کے ساتھ ساتھ پیسے کمانے کے کسی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ اگر ہم اس قسم کی باتوں کوسچ مان لیں تب بھی ان کی شخصیت پر کوئی حرف نہیں آتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے جو اعزازو اکرام اور شہرت حاصل کی ہے اس سے عوام ہی کو فائدہ پہنچایا۔ اگر وہ شہرت نہیں حاصل کرپاتے تو ان کا آبائی گاﺅں مجوادھول اور تاریکی سے باہر نکل کر ترقی وخوشحالی کی راہ پر نہیں آتا۔ اگر ہمارے تمام فنکار وشاعر کیفی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک ایک گاﺅںکو گود لے لیتے تو آج ہندوستان کا ماحول بہت کچھ بدل گیا ہوتا۔ یہ کیفی کی شہرت وعظمت ہی کی برکت ہے کہ اس نے مجواگاﺅں میں سڑکیں بنوادیں، بجلی لگوادی، اسپتال اور اسکول کی تعمیر کروادی۔
رہی دولت کی بات تو کیفی شاید دنیا کے دوسرے اور ہندوستان کے پہلے شاعر ہیں، جنہوں نے ٹالسٹائی کی طرح اپنی تمام موروثی زمین غریب کسانوں میں تقسیم کردی۔ اگر واقعی کیفی ایک حریص انسان ہوتے تو وہ ممبئی کی جگمگاتی دنیا کو چھوڑ کر مجواجیسے پچھڑے گاﺅں میں نہیں آتے اور نہ اس گاﺅں کی ترقی کے لئے تکلیفیں اٹھاتے اور نہ اپنی زمین غریب کسانوں میں تقسیم کرتے۔ کیفی کا عملی اور تخلیقی کردار کم سے کم اتنا مضبوط تو ہے کہ وہ اس قسم کے اوچھے واروں کو مسترد کرکے اپنی انفرادیت کو قائم ودائم رکھ سکے۔
jhgty8
جواب دیںحذف کریں