27/4/18




یہ کتاب کونسل کی موبائل ایپای کتابپربھی  دستیاب ہے،جسے ’پلے اسٹور‘ کی مدد سے موبائل پر انسٹال کر کے بآسانی پڑھا جاسکتا ہے ۔


صرف تمہارے لیے
مصنف: سمتیندرا ناڈِگ، مترجم:ماہر منصور
صفحات: 139، قیمت: 85 روپے، سنہ اشاعت: 2017
ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
مبصر: ماہ نور، ایف 33، شاہین باغ، جامعہ نگر، نئی دہلی
زیرتبصرہ کتاب کنڑ زبان کے مشہور و مقبول شاعر اور انگریزی زبان کے پروفیسر ڈاکٹر سُمتیندر اناڈگ کی خودنوشت منظوم سوانح حیات ’دام پیتا گیتا‘ ہے، جس کا راست منظوم اردو ترجمہ ’صرف تمہارے لیے‘ ماہر منصور نے کیا ہے جسے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی نے شائع کیا ہے۔
بظاہر یہ ایک ترجمہ ہے لیکن دراصل یہ ایک کان ہے، واقعات کی، اقوالِ مشاہیر کی اور ان کے منبع و مخرج کی اور یہ ایک جیتی جاگتی مثال ہے ان کے روز و شب میں واقع ہونے والے خوشگوار و ناخوشگوار واقعات کی، جس کا مصنف/ شاعر نے کھلے دل سے اعتراف بھی کیا ہے۔ اس طویل منظوم سوانح میں استعارے، تکنیک اور کچھ سطریں رگ وید، اپنیشد، رامائن، مہابھارت، ہندوستانی یوگا، شاستر اور سنسکرت سے مستعار لی گئی ہیں۔
اس سوانح کی سب سے منفر د خصوصیت یہ ہے کہ ا س کا ایک ایک لفظ صداقت پر مبنی ہے اور ایک اچھی غزل کے ہر لفظ کی طرح جاندار،رسیلا اور بولتا ہوا ہے۔
عرض مترجم کے تحت ماہر منصور کے دعوے کی میں تصدیق کرتی ہوں جس میں وہ کہتے ہیں کہ ان کی نظر سے گزری ہوئی سوانح عمریوں میں کنڑ کے صاحب طرز مشہور شاعر پروفیسرسُمتیندر اناڈگ کی یہ سوانح عمری ’دام پیتا گیتا‘ منفرد خصوصیت کی حامل ہے۔ جس میں دلچسپ، غیرمعمولی واقعات زندگی کو ناڈگ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ وہ کسی سرحد میں محدود نہ رہ کر ساری دنیا پر چھاجانے کے لیے کافی ہے۔
مترجم یہ بھی عرض کرتے ہیں کہ جب انھیں اس ترجمے کی ذمہ داری دی گئی تو انھوں نے اسے خوشی خوشی قبول کیا اور جب اس سوانح کے چند اقتباسات مشہور شاعر، ادیب اور مترجم آنجہانی بلراج کومل (دہلی) کی موجودگی میں خود سمتیندرا ناڈگ کی زبانی نے تو اسی وقت ناڈگ صاحب نے اس کے ترجمے کی اجازت دی۔
اس منظوم سوانح کی مقبولیت کااندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک انگریزی، مراٹھی، بنگالی، تمل، تلگو، ہندی اور ملیالم وغیرہ زبانوں میں بھی اس کے ترجمے شائع ہوچکے ہیں۔
قبل اس کے کہ کتاب پر گفتگو کی جائے مختصراً تعارف اس کنڑ کے عظیم شاعر کا کرا دینا مناسب ہے۔
ڈاکٹر سمتیندرا ناڈگ ریاست کرناٹک کے ضلع چکمگلور کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں اس وقت پیدا ہوئے جب جنگ آزادی شباب پر تھی اور ملک میں آزادی حقیقت بننے ہی والی تھی، ایسے ماحول میں کنڑ زبان سے تعلیمی سفر شروع کرکے ناڈگ نے امریکہ کی ٹمپل یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری بھی حاصل کی اور 1960 میں جدید شاعر کی حیثیت سے اپنی ایک منفرد پہچان بنائی۔ عرض مترجم کے بعد کتاب میں حرف آغاز  ہے جو دراصل کتاب کا پہلا باب ہے، حرف آغاز کے تحت ناڈگ نے اس وقت کے مشہور شعرا و دانشور کی فرمائش کے نتیجے میں اپنی ازدواجی زندگی پر مبنی ایک نغمہ پیش کیا ہے جسے شجاعت کے گیت سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ کتاب کا پہلا باب ’جانِ من‘ ہے اور نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس میں بیان اس سکھی کا ہے جو ان کی سب سے قریبی دوست تھیں جسے شاعر اپنی شریک حیات بتاتے ہیں۔ ’جانِ من‘ کے تحت شاعر نے اپنی ازدواجی زندگی کی تاریخ ہی نقل کی ہے۔ اگلے باب میں شاعر اپنے بچپن کے حالات پر آئینہ دکھاتا نظر آتا ہے جس میں بچپن کے واقعات اور گاؤں کے وہ مناظر شاعری میں قید کیے ہیں جو پڑھنے سے ایک عینی مشاہدہ کرنے کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ چونکہ یہ پوری تصنیف ایک سوانح ہے لہٰذا اس میں ان پہلوؤں سے بھی گفتگو کی گئی ہے جب شاعر پہلی بار اپنی بیوی سے ملاقات کرتا ہے یا جب وہ ایک عیسائی لڑکی سے ناکام محبت کی داستان پیش کرتا ہے پھر اگلے ہی پل وہ اپنی شادی اور ہنی مون کا ذکر کرتا ہے اور اپنے وہ منصوبے بھی بیان کرتا ہے جس میں وہ ایک تعلیمی ادراہ قائم کرنے کا خواب بھی دیکھتا ہے۔ الغرض بچے کی پیدائش، بیوی کا حسن سلوک ہر ایک عنوان کو شاعر نے اپنا موضوعِ شاعری بنایا ہے۔
لیکن سب سے اہم ہے مترجم ماہر منصور کی باریک بینی اور ترجمے کی فنی مہارت جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ واقعی اس کو شاعرنے آزاد نظم کے انداز میں اردو میں ہی ساری گفتگو کی ہے۔ دوران مطالعہ مجھے کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ یہ کسی اور زبان سے ترجمہ ہے۔ ایک نظم بطور مثال پیش کرتا ہوں:
گاندھی جی کا جس دن قتل ہوا، وہ تو خیر اپنی جگہ
پر، اسی دن سے اپنے ضمیر کوٹٹولنا، میرا معمول بن گیا
انھوں نے اپنے ملک کی خاطر/اپنی ازدواجی زندگی کی خوشیوں کو قربان کردیا
اور کستوری جیسی کستوربا کی زندگی کو کھنگال کر/دیش کی نذر کردیا
سچ کہنے میں جھجک کیسی؟/شرمانا بھی نہیں چاہیے
مگر ایسا راستہ، پہاڑوں سے ہوکر آتا ہے/پیر پھسلا، تو گیا پاتال میں
اور میرے پاؤں لڑکھڑانے لگتے ہیں، جب بلندی سے نیچے دیکھتا ہوں
اپنی شریکِ حیات کے لیے ایک جگہ لکھتے ہیں:
اپنی ذات کے آگے بڑھنے کا واحد راستہ تخلیق ہے
تم نے میری تخلیق کی اور میں نے تمہاری/اپنی تنہائیوں کو کھوکر
ہم دونوں/ایک جان دو قالب ہوگئے
مجھے قوی امید ہے کہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی یہ پیش کش اردو حلقے میں خوب پذیرائی حاصل کرے گی، ویسے سوانح عمری کی اثر انگیزی باذوق قارئین کی محتاج ہوتی ہے اور یہ ایک ایسی سوانح ہے جس کے مطالعے سے دنیا کے گھنے جنگلات کے ساتھ ساتھ انسانی خوشبو بھی محسوس کی جائے گی۔


یہ تبصرہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے رسالے ’’اردو دنیا‘‘ کے   مارچ کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔  رسالے کا آن لائن مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے لنک پر کلک کیجیے:۔



مکمل کتاب کے مطالعے  کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کریں:

قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

26/4/18

مسلم خواتین کی تعلیمی پسماندگی



نجمہ سلطان

تعلیم

تعلیم انسان کے فروغ کے لیے بنیادی آلہ ہوتاہے اسی کے ذریعے انسان میں معلومات اور مہارت کا اضافہ ہوتاہے۔ 
(Education of women empowerment 2011, p104)
تعلیم کا عمل انسان کی پیدائش سے ہی شروع ہوجاتا ہے اس طرح سماج میں سیکھنے اور سکھانے کا عمل ہی تعلیم ہے۔
تعلیم کے ذریعے ہی انسانوں کو زندگی کے مسائل سمجھنے اور چیزوں کی نوعیت کو جاننے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ تعلیم بہتر زندگی گزارنے میں کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ تعلیم کے ذریعے انسان کا شعور بیدارہوتاہے اور وہ روشن خیال اور وسیع النظر ہوتاہے۔

تعلیم نسواں
خواتین کی ترقی سے ملک کی ترقی وابستہ ہوتی ہے کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی یافتہ نہیں کہلاسکتا جب تک وہاں کی خواتین تعلیم یافتہ نہیں ہوں کیونکہ خواتین ہی ملک کی بنیاد ہوتی ہیں۔ عورت نسل انسانی میں اہم رول اداکرتی ہے خواتین ہی خاندان کی دیکھ بھال اور تربیت کرتی ہیں خواتین کے وجود کو الگ کرکے ترقی کی منزلوں کو طے نہیں کیا جاسکتا اور ترقی حاصل کرنے کے لیے خواتین کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
بقول پنڈت جواہر لال نہرو:
’’کسی ملک کی کارکردگی کا اندازہ اس ملک کی عورت کی حیثیت سے لگایا جاسکتاہے۔‘‘
(Discovery of India, 1946, p 42)
عورت کا ترقی یافتہ ہونا بے حدضروری ہے خواتین کوترقی کے دھارے میں لانے کے لیے عورت کو تعلیم یافتہ بنایا جائے کیوں کہ عورت سماج کا نصف حصہ ہوتی ہے اور اس نصف حصے کو بھی ترقی کے دھارے میں شامل کرنا چاہیے۔ تعلیم سے آراستہ خاتون کو خاندان میں خودمختاری ملتی ہے۔ خواتین زندگی کے مختلف میدانوں میں مردوں کے مقابلے میں پیچھے سمجھی جاتی ہیں اس کی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔
عصر حاضر میں اتنی ترقی کے باوجود خواتین کا استحصال ہوتاہے جس میں جرم اورگناہ کی شکار کوئی ایک صنف ہوتی ہے۔
صنف
صنف سے مراد سماج کے بنائے ہوئے مخصوص کردار ہوتے ہیں جو زندگی کی ہر سطح پر عورت اورمرد میں تخصیص پیداکرتے ہیں۔ (عورت اور سماج، ص 68)
صنف کی بنیاد پر پوری دنیا میں ہر تیسری خاتون تشدد اور ظلم کاشکار ہے۔ خواتین جو سماجی تشدد کا شکار ہوتی ہیں ان میں صنفی امتیاز، بچپن کی شادی، جنین کشی، جہیز کے لیے تشدد، جبری شادی، جنسی تشدد، جنسی ہراسانی، اس کے علاوہ تعلیم حاصل کرنے میں صنفی امتیاز۔
زندگی کے ہر میدان میں خواتین کو اس صورت حال سے گزرنا پرتاہے۔ بین الاقوامی سطح پر اگر خواتین کا جائزہ لیا جائے تو دنیا میں دو تہائی کام کا بوجھ اٹھاتی ہیں۔ وہ معاشی سرگرمیوں سے ہمیشہ متاثر ہوتی ہیں، ان کے پاس مواقع کم ہوتے ہیں اور دوسرے جو وہ کام کرتی ہیں وہ شمار نہیں کیاجاتا۔اگر تعلیم نسواں کا جائزہ لیا جائے تو مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعلیم بہت کم ہے۔
2001 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں تعلیم کی شرح64.8% اس میں مرد75.3%اور خواتین کا تعلیمی فیصد53.7%ہے۔ ہندوستان کے تمام صوبوں میں شرح خواندگی میں جنسی تفریق موجود ہے۔‘‘
(Strastical handbook)
پرائمری سطح تک تعلیم حاصل کرنے والے جملہ افراد کی تعداد146740047ہے جس میں مرد8352450 اور 63214597 خواتین ہیں۔ خواتین کا تناسب 43.07% ہے میٹرک اوریا ثانوی سطح تک جملہ افراد 79229721 جس میں مرد51201516اور خواتین 28028205 ہیں اس میں خواتین کی شرح خواندگی 35.37%ہے۔
ہائر سکنڈری/سینئر سکنڈری تک تعلیم حاصل کرنے والے جملہ افراد کی تعداد37816215ہے اس میں مرد 24596339اور خواتین13219876ہے اس میں خواتین کا فیصد34.95%ہے گریجویشن میں خواتین کا فیصد20.88%ہے۔ (2001 مردم شماری)
پی جی میں خواتین کا تعلیمی فیصد 36.30%ہے۔ انجینئرنگ اورٹکنالوجی میں 18.65%خواتین تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ میڈیسن کی تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کا فیصد30.37%ہے۔ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کا تناسب43.91%ہے۔ 
2011 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں تعلیم کی شرح 74.04%ہے اس میں مردوں کا تناسب 82.14%ہے جب کہ خواتین 65.46%ہے۔ ہندوستان میں شرح خواندگی میں جنسی تفریق موجود ہے مرد و خواتین میں سب سے کم فرق ریاست کیرالا میں ہے۔ پرائمری سطح سے کم تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کا تناسب 46.59% ہے۔مڈل کلاس تک تعلیم حاصل کرنے والی خواتین 42.02%ہیں۔ میٹرک یا ثانوی سطح تک تعلیم حاصل کرنے والی خواتین 39.80%۔ انٹرمیڈیٹ میں40.36%خواتین شامل ہیں۔ گریجویشن اور اس سے آگے کی تعلیم حاصل کرنے والی خواتین 38.32%، انجینئرنگ اور ٹکنالوجی کی سطح تک تعلیم حاصل کرنے والی خواتین28.14%اور میڈیسن کی تعلیم کرنے والوں میں39.23%۔ (2001 مردم شماری)
2001 سے 2011 کی مردم شماری میں خواتین کی شرح خواندگی میں9.24%کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کا اثر اعداد وشمار سے ظاہر ہورہاہے۔ یہ جملہ ہندوستان کی سینسس کے حوالے سے مردو خواتین کی تعلیمی حالت کو مختصرا لکھا گیا۔ 
اقلیت
دستور ہند کے مطابق مسلمان قوم کو بھی ترقی کے مساویانہ مواقع اور حقوق حاصل ہیں جتنے کہ اس ملک کی دوسرے شہریوں کو حاصل ہیں۔ مگر مسلمانوں کی حالت اتنے مواقع ہونے کے باوجود بھی بہت ہی افسوس ناک ہے خاص کر تعلیمی میدان میں ان کا معیار کافی حدتک گراہوا ہے اور خاص کر مسلم خواتین تو بہت ہی پسماندہ اور ترقی کے نشانے سے بہت دور ہیں۔
مسلم خواتین میں غریبی بہت زیادہ ہے۔ اور تکنیکی مہارت میں کمی ہے جس کے نتیجے میں ان کی گھر کی آمدنی بھی کم ہوتی ہے اوروہ ہنر مند بھی نہیں ہوتیں اور خاص کر مسلم خواتین حکومت کے بنائے گئے پروگرام وپالیسیز سے بالکل ناواقف ہوتی ہیں۔ ان کامحور صرف گھر تک ہی محدود رہتاہے۔ اس لیے تعلیمی پسماندگی کا تناسب دیگر طبقات سے کم ہے اس رپورٹ نے مسلمان طبقے کے بارے میں یہ انکشاف کیا کہ 25%بچے اسکول نہیں جاتے جس میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ لڑکیوں میں ترک تعلیم کاتناسب لڑکوں سے زیادہ ہے۔ 12-14 سال کے جو لڑکے لڑکیاں تعلیم حاصل کررہے ہیں ان کا تناسب لڑکے55%اور لڑکیاں45%ہیں۔ ان کا تناسب عمر کے ساتھ ساتھ کم ہوتا جارہا ہے جیسے15-16 سال کے لڑکے 35%اور لڑکیاں18%تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ (سچر کمیٹی رپورٹ)
جیسے جیسے عمر بڑھ رہی ہے ان کا تعلیمی تناسب بھی کم ہوتاجاتاہے۔ گریجویشن آرٹس کالج میں لڑکوں کا3%اور لڑکیوں3.5% اور آرٹس کالج پی جی میں لڑکوں کا 1.2% اور لڑکیوں کا 1.5%اور آئی ٹی شعبوں میں1%ہیں اور میڈیکل سائنس میں لڑکے6%اور لڑکیاں4%اور پی جی میڈیکل میں لڑکے6%اور لڑکیاں2%ہیں۔ اس کے علاوہ دینی تعلیم حاصل کرنے والوں میں 4%مسلم طبقہ تعلیم حاصل کررہاہے۔ مسلمانوں کی ابتدائے تعلیم میں شرکت کرنے والے بچوں میں 60%سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں اور 30%خانگی اسکولس میں زیر تعلیم ہیں۔‘‘ (سچر کمیٹی رپورٹ)
ہندوستان میں خواتین کی تعلیم و ترقی میں بہتری ملک کی آزادی کے بعد آئی۔ 1971 میں صرف22% ہندوستانی خواتین تعلیم یافتہ تھیں لیکن 2001 کے اختتام کے دوران ان کی شرح54.18% ہوگئی۔ ہندوستانی سماج کے بہت سے شعبوں میں خواتین کے ساتھ امتیاز بڑھتا جارہاہے۔ سروس سیکٹرمیں خواتین کی موجودگی صرف 7.6% ہے اور پارلیمنٹ میں8.0%، حالانکہ حکومت نے خواتین کو ریزرویشن فراہم کررکھاہے لیکن زیادہ تر خواتین تعلیم کی کمی کی وجہ سے اپنے حقوق سے ناواقف ہیں جس کی وجہ سے وہ معاشی طور پر کمزور پائی جاتی ہیں خاص کر مسلم خواتین میں تعلیم کی بہت زیادہ کمی ہے۔ وہ دوسرے طبقوں کی بہ نسبت بہت زیادہ مفلوک الحال ہیں اور پسماندہ زندگی گزار رہی ہیں۔ 
آج بھی خاص کر لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے میں کئی رکاوٹوں کا سامناکرنا پڑتاہے جیسے کم عمر کی شادی، گھر کے کام کی ذمہ داری کا بوجھ، چھوٹے بھائی بہن کی دیکھ بھال، صنفی امتیاز، زنانہ اسکول واساتذہ کی کمی، گھر کے قریب اسکول نہ ہونے کی وجہ سے بلوغت کے بعد گھر سے اکیلے باہر بھیجنے کے لیے رکاوٹ،والدین کی معاشی پریشانی، اور اس کے علاوہ سب سے اہم رکاوٹ والدین کی ناخواندگی وغیرہ ہیں۔
معاشی پریشانیوں کی وجہ سے بھی کئی والدین لڑکیوں کو تعلیم نہیں دلواتے، تعلیم کا خرچ ، شادی کا خرچ وہ برداشت نہیں کرسکتے، اس لیے اعلی تعلیم میں مسلم خواتین صرف1.5%ہی شامل ہیں۔
(National Commission for religious and linguistics, Vol: II)
اس کے علاوہ آبادی کازیادہ تر حصہ مزدوری پر منحصر ہے، چاہے وہ زرعی ہویا صنعتی ، پسماندہ والدین اپنی لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کے لیے پیسہ خرچ نہیں کرسکتے۔ بعض گھرانوں کی گزر بسر ہی صرف بچوں اور خواتین کی اجرت پر ہوتی ہے، اس کے علاوہ اگر اسکول میں مخلوط تعلیم ہو تو بلوغت کے فوراً بعد لڑکی کا اسکول ترک کروا دیا جاتا ہے۔
سماجی نظریات، سماجی مسائل،صنفی امتیازکا راست اثر لڑکیوں کی تعلیم پر پڑرہاہے، اس کے علاوہ پدرسری نظام بھی مسلم خواتین کی ترقی میں رکاوٹ بناہواہے اور کم عمری کی شادی بھی ایک سنگین مسئلہ بناہواہے۔ مسلم سماج میں ہمارے ملک میں بچپن کی شادی پر امتناع عائد ہے لیکن اس کے باوجود اس قسم کے بے شمار واقعات پیش آتے ہیں۔1998 کے یونیسف کے سروے کے مطابق ہندوستان میں بچپن کی شادی کی شرح47%ہے اور 2005 کی رپورٹ میں30% بتائی گئی۔ خواتین کو تعلیم یافتہ اور خود مختار بنانے میں حکومت نے بھی بہت سے پروگرام اور پالیسیز بنائے ہیں اور اس کے علاوہ سچر کمیٹی کے انکشافات سے مسلم خواتین کی زبوں حالی کا پتہ چلتا ہے۔ اس کے بعد مشرا کمیشن رپورٹ نے بھی خاص کر مسلم خواتین کی تعلیمی اور معاشی حیثیت کا تفصیلا خاکہ پیش کیا۔ مشراکمیٹی رپورٹ نے بھی مسلم خواتین کی پسماندگی اورمعاشی طور پر مفلوک الحال بتایا ہے۔ اس سے پہلے بھی 1999 میں مسلم و یمن ان انڈیا میں سیما قاضی اس رپورٹ میں مسلم خواتین کی حیثیت کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی سماجی، معاشی اور تعلیمی صورت حال پیش کی، مسلم خواتین کی حیثیت کو بہتر بنانے کے لیے اپنی سفارشات میں کہاکہ تعلیم ہی ایک ذریعہ ہے جس سے مسلم خواتین کی ترقی ممکن ہوسکتی ہے اور انھوں نے یہ بھی سفارش کی کہ خاص مسلم خواتین کی ترقی کے لیے پالیسیز بنائی جائیں۔
سیدہ سیدین کی رپورٹ میں 2000 میں بے آوازوں کی آواز ہندوستان میں مسلمان عورتوں کی سماجی حیثیت قومی کمیشن برائے خواتین،اس کمیشن نے سروے کرکے اپنی رپورٹ میں مسلمان عورتوں کی حیثیت کا جائزہ لیا کمیشن کے مطابق عورتوں کی ساری مصیبتوں کی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے مسلم خواتین اپنے آپ کو کم تر سمجھتی ہیں اور ان کے اندر خود اعتمادی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوجاتی ہیں، ان کی صلاحتیں ابھر کر سامنے نہیں آتیں اور پدرسری نظام نے ان کو غیراہم قراردے کر انھیں حاشیہ پر کھڑاکردیا۔
جس سماج میں عورت کو برابر کا درجہ نہیں دیاجاتا اور وہ غیر محفوظ ہوتی ہیں اور اس کو برابر کے حقوق نہیں ملتے وہ سماج اور ملک کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا ، ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے مسلم خواتین کو بھی اعلی تعلیم کی سہولیات میسر ہونی چاہیے اور سماجی معاشی وسیاسی حیثیت میں بہتری لانا ضروری ہے۔ تعلیم ہی واحد علاج ہے مسلم خواتین کی حیثیت کو بہتر بنانے کے لیے۔
حوالہ جات
(1) سنسس2001
(2) سنسس 2011
(3) Shariff Abdusaleh, Socia economic hindus and Muslims 1995
(4) Education of women empowerment 2011, Dr. Anil Kumar
(5) Unequal Citizen women 2004, Ritu minon & Zoha Hasan 
(6) Syeda Saiydian hamed, My voice shall be heard of Muslim women forum 2003
(7) بے آوازوں کی آوز، سیدہ سیدین
(8) سما قاضیMuslim women in India, 1999 
n
Najma Sultana
Ph.D Research Scholar (Dept of Women Education), Maulana Azad National Urdu University, Hyderabad - 500032 (Telangana)


یہ مضمون قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے رسالے ’’اردو دنیا‘‘ کے   مارچ کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اگر آپ رسالے کا آن لائن مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے لنک پر کلک کیجیے:۔


قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

تازہ اشاعت

مغرب کی تقلید میں شعری ادب کا بھلا نہیں: رفیق جابر،خصوصی گفتگو، غضنفر اقبال

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024   غضنفراقبال:محترم رفیق جعفر صاحب!آج کا اُردو قاری یہ جاننا چاہتا ہے کہ آپ کی زندگی کے وہ کون سے سین ہی...