28/8/17

بی امّاں از ڈاکٹر بانو سرتاج


ہندوستان کے سیاسی اُفق پر نمودار ہونے والی اوّل مسلم پردہ نشین خاتون بی امّاں ہیں۔ وہ اوّل ہندوستانی خاتون ہیں جن کی صدارت میں آل انڈیا خواتین کانگریس ہندوستان کی آزادی پر بحث کرنے کے لیے طلب کی گئی۔ یہ کانگریس30دسمبر1921کو احمد آباد، گجرات میں منعقد ہوئی تھی۔

بی امّاں، علی برادران، مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی کی والدہ ماجدہ تھیں۔ گاندھی جی خود کو بی امّاں کا تیسرا بیٹا کہتے تھے۔ مدن موہن مالویہ وغیرہ کانگریسی رہنما انھیں امّاں کہہ کر ہی تخاطب کرتے تھے۔

بی امّاں کا نام آبادی بانو بیگم تھا۔ 1852میں ان کی پیدائش ہوئی۔ مشرقی روایات کی پروردہ نہایت سلجھے ہوئے روشن خیالات کی خاتون تھیں۔1857میں جب وہ پانچ چھ سال کی تھیں بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری اور رنگون میں جلاوطنی کے بعد بی امّاں کے آبا و اجداد مراد آباد روہیل کھنڈ میں سکونت پذیر ہو گئے۔ ان کے ایک چچا کو، جن کی عمر70سال تھی مرادآباد میں پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔ وہ ایسے وطن پرست تھے کہ اس سزا کو ملک کی طرف سے انعام سمجھا اور خود ہی پھانسی کا پھندا گلے میں ڈال لیا۔ دوسرے چچا فرار ہو گئے۔ پھر ان کا پتہ نہ چلا۔ بی امّاں کے والد نے نام تبدیل کرکے تمام عمر گمنامی میں گزار دی۔

بی امّاں اٹھارہ سال کی عمر میں بیوہ ہو گئی تھیں۔ محمد علی اس وقت صرف دو سال کے تھے۔ انھوں نے بچوں کی پرورش دل و جان سے کی۔ انھیں والد کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ انگریزوں سے نفرت کا جذبہ انھوں نے بیٹوں کی گھٹّی میں شامل کر دیا۔ علی برادران نے جنگ آزادی میں ملک کی جو خدمات انجام دیں۔ ہندوستان کی تاریخ اس کی گواہ ہے۔ وہ کہا کرتی تھیں:” سات سال ہوئے میں نے اپنے بچوں کو خدا کے سپرد کر دیا ہے۔ اللہ ہی اب شوکت اور محمد کی حفاظت کر رہا ہے۔ فرنگی آج تک ان کا ایک ناخن بھی نہیں اکھاڑ سکے لیکن اگر اللہ کی مرضی ہے کہ میرے بچے وطن کی راہ میں قربان ہو جائیں تو بھلا ان کو کون بچا سکتا ہے؟“

وہ جس طرح اپنے بیٹوں کو ملک کے لیے قربان ہونے کا حوصلہ دلاتی تھیں ، فرنگیوں کو ملک سے باہر نکال دینے کے لیے اپنا سب کچھ تج دینے کا سبق پڑھاتی تھیں، وہ سب کو حیرت میں ڈال دیتا تھا۔ ایک وقت تھا کہ راس کماری سے پشاور تک اور کراچی سے آسام تک کی پہاڑیوں میں یہی آواز گونجا کرتی تھی:

بولیں اماں محمد علی ، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
ساتھ تیرے ہے شوکت علی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
ہو تمھیں میرے گھر کا اجالا، تھا اسی واسطے تم کو پالا
کام کوئی نہیں اس سے اعلیٰ ،جان بیٹا خلافت پہ دے دو
اے مرے لاڈلو اے میرے پیارو، اے مرے چاند اے میرے تارو
میرے دل اور جگر کے سہارو، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
صبر سے جیل خانے میں رہنا جو مصیبت پڑے اس کو سہنا
کیجیو اپنی ماں کا کہنا، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
ہتھکڑی تو ہے مردوں کا گہنا، جانگیہ تم نے کمبل کا پہنا
آدھی ٹانگوں سے بالکل برہنہ، جان بیٹا خلاف پہ دے دو
بوڑھی اماں کا کچھ غم نہ کرنا، کلمہ پڑھ کر خلافت پہ مرنا
پورا اس امتحاں میں اترنا، جاں بیٹا خلافت پہ دے دو
گر ذرا سست دیکھوں گی تم کو، دودھ ہرگز نہ بخشوں گی تم کو
میں دلاور نہ سمجھوں گی تم کو، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
میرے بچوں کو مجھ سے چھڑایا، دل حکومت نے میرا دکھایا
اس بڑھاپے میں مجھ کو ستایا، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
میرے بچوں کو پکڑا سفر میں، کس طرح چین ہو مجھ کو گھر میں
خاک دنیا ہے میری نظر میں، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
اب مری حق سے فریاد ہوگی، غیب سے میری امداد ہوگی
میری محنت نہ برباد ہوگی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
ہوتے میرے اگر سات بچے، کرتی سب کو خلافت پہ صدقے
ہیں یہی دین احمد کے رستے، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
کالے پانی خوشی ہوکے جانا، سجدۂ شکر میں سر جھکانا
میں پڑھوں گی خدا کا دوگانہ، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
پھانسی کرتے اگر تم کو جانی، مانگنا مت حکومت سے پانی
بات رکھ لیجیو خاندانی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
دین و دنیا میں پاؤ گے عزت، سب کہیں گے شہید خلافت
اے محمد علی اور شوکت، جان بیٹا خلافت پہ دے دو

بی امّاں کی سیاسی زندگی کا آغاز اُس وقت ہوا جب علی برادران کو قانون تحفظ ہند کے تحت گرفتار کیا گیا۔ مولانا نے اپنے اخبار ’لندن ٹائمز‘ کے ایک اشتعال انگیز مضمون کا جواب دیا تھا۔ انھیں چھندواڑہ میں پہلے نظر بند رکھا گیا پھر بیتول جیل میں قید کیا گیا۔ بی امّاں نے اُس وقت فخر سے کہا تھا:” یہ عزت (قید) اُن لوگوں کے لیے ہے جن کو خدا اپنے مذہب اور اپنے ملک کی خاطر تکلیفیں برداشت کرنے کی طاقت دیتا ہے۔“

بی امّاں نے قومی اتحاد اور ترکِ موالات میں خصوصاً اپنا کردار بخوبی نبھایا۔

28ستمبر1917کو انھوں نے کلکتہ اجلاس میں شرکت کی۔ 24  اگست 1922کو انبالہ میں جلیا نوالا باغ میں لگاتار کئی اجلاسوں میں شرکت کی۔
1920سے1922تک خلافت تحریک میں حصہ لیا۔ پیرانہ سالی کے باوجود سمرنافنڈ کے لیے خاصی بڑی رقم جمع کی۔ گاندھی جی بی امّاں پر بہت بھروسہ کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جیل جاتے ہوئے انھوں نے بی امّاں کو اپنا قائم مقام بنایا تھا۔ ان کی غیرحاضری میں تمام احکامات بی امّاں سے حاصل کیے جاتے تھے۔ گاندھی جی نے خاص طور سے یہ ہدایت دے رکھی تھی کہ بی امّاں کو کبھی گرفتار نہ ہونے دیا جائے۔

30 دسمبر1921کو احمد آباد میں کُل ہند خواتین کا نگریس کی صدارتی تقریر میں انھوں نے کہا تھا:” جو شخص خدا کے ساتھ وفادار نہ ہو وہ کسی بھی حکومت کے ساتھ، جسے انسان نے قائم کیا ہو، وفادار نہیں رہ سکتا۔ ضرورت ہے کہ ہم اپنے مابین اتحاد و اتفاق پیدا کریں۔ تجربے نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ ہمارے ملک میں جو مختلف قومیں اور فرقے آباد ہیں ان میں اتحاد و اتفاق قائم کیے بغیر ہم ملک کو آزاد نہیں کرا سکتے۔“

اس اجلاس میں سروجنی نائیڈو، کستوبار گاندھی، انوسیا بائی، بیگم حسرت موہانی، امجدی بیگم، بیگم مختار احمد انصاری، بیگم سیف الدین کچلو وغیرہ موجود تھیں۔

1922میں بی امّاں نے شملہ کی فیشن ایبل خواتین کو قائل کرکے ولایتی کپڑوں کا بائیکاٹ کرکے کھادی کو اپنانے کے لیے تیار کیا تھا۔ ہوم رول لیگ اور مسز اینی بیسنٹ فنڈ میں بی امّاں نے ماہوار دس روپیہ چندہ دینا قبول کیا تھا۔ یہ فنڈ برطانوی دور میں گرفتار ہونے والے لوگوں کے خاندانوں کی مالی مدد کے لیے قائم کیا تھا۔

بی امّاں کا ایک خواب تھا جس کے لیے وہ زندگی کے آخری لمحے تک لڑتی رہیں۔ وہ کہا کرتی تھیں:” میں نے لال قلعے سے اپنا جھنڈا اترتے دیکھا ہے۔ میری آرزو ہے کہ میں فرنگی جھنڈے کو لال قلعے سے اترتا دیکھوں۔“
13نومبر1924کو بی امّاں کا انتقال ہوا۔

24/8/17

اردوزبان وادب کی ترویج میں سائبر سماج کا حصہ از ڈاکٹر خان محمد آصف


ہم جس دورمیں سانس لے رہے ہیں وہ نت نئی ایجادات و اختراعات کا دور ہے۔ جو چیزیں آج تک طلسماتی اور قولِ محال سمجھی جاتی تھیں ، سائنس و ٹکنالوجی نے انھیں سچ کر دکھایا۔ موجودہ عہد میں انٹر نیٹ انسان کی روز مرہ زندگی کا جزو لاینفک بن چکا ہے۔ماضی کا انسان اپنے خیالات و جذبات کا بیان خطوط سے کیا کرتاتھا۔اس کے بر عکس آج بلاگس، ٹوئیٹراور واٹس اپ کے ذریعے پیغام کی بآسانی ترسیل کی جا سکتی ہے۔انٹر نیٹ کے اثرات نے کائنات کے حجم کو سمیٹ کر گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا ہے۔ اطلاعاتی انقلاب نے کا ئناتی نظام کو سائبر ایج میں منتقل کر دیاہے، جہاں معلومات کا لا متناہی انبار ہے۔ اس سائبر اسپیس میں ڈیجیٹل لائبریریز، انسائیکلوپیڈیا، اخبارات و رسائل، ویب سائٹس، بلاگزاور ای کتب موجود ہیں، جو اردو زبان و ادب کے فروغ میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں اور اردو کی لسانی،تہذیبی اور ثقافتی قدروں کو روایتی محبان اردوکے علاوہ ان حلقوں سے جوڑ رہی ہیں، جو بالعموم اردو والوں میں شمار نہیں کیے جاتے۔تو دوسری طرف انٹر نیٹ نے اردو رسم الخط کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اس کی ترویج و اشاعت میں مثبت کردار ادا کیا۔ محبان اردو کو اس بات کا غم کھائے جا رہا تھا کہ اگر اردو کو سوشل نیٹ ورکنگ سے نہیں جوڑا گیا تو اردو زبان و ادب کا تہذیبی و ثقافتی اثاثہ ٹکنالوجی کی تیز رفتاراورچکا چوند دنیامیں دھند پڑ جائے گا۔اردوکے شیدائیوں کے اسی لگن اورجذبے نے زبان کو نئی ٹکنالوجی سے ہم آہنگ کیا اور انھوں نے اپنی اس کوشش کوعملی جامہ پہنانے کے لیے ذاتی سرمایہ لگانے سے بھی گریز نہیں کیا۔یہ انھیں کی محنتوں کا ثمر ہ ہے کہ آج انٹر نیٹ پر اردو ڈیجیٹل لائبریریز اور کئی اہم ادبی، تہذیبی،ثقافتی اور تعلیمی سائٹس موجود ہیں۔ اس مقالے میں اردو کی انھی ویب سائٹس اور بلاگز کا تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ کیا گیا ہے،جو اردو زبان و ادب کے فروغ میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔تاکہ اردو زبان اپنے رسم الخط کے ساتھ محفوظ ہو جائے۔اردو کی ان ویب سائٹس کا مقصد جہاں زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت کی ترویج و اشاعت ہے، وہیں نئی نسل کے اندر صالح اقدار کو پروان چڑھانا بھی ہےتاکہ ادبی ذوق رکھنے والوں کا ایک ایسا حلقہ وجود میں آئے جو اپنے ذوق کی تسکین ان ویب سائٹس کے ذریعے کر سکے۔میری خواہش تھی کہ اپنے مضمون میں ان تمام ویب سائٹس کا تجزیہ و تعارف پیش کر وں، جو اردو کے فروغ میں کام کر رہی ہیں۔لیکن طوالت کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ اس لیے صرف انھی ویب سائٹس کو اپنے مضمون کے لیے منتخب کیا جو اردوادب کے طالب علموں،ریسرچ اسکالروں اور روایتی اور غیر روایتی محبان اردو کے ذوق کی تسکین کا ذریعہ ہیں۔

بہار اردو یوتھ فورم ڈاٹ آرگ کا قیام 2009 میں عمل میں آیا اس ویب سائٹ کا مقصدبالعموم اردو زبان و ادب اوربالخصوص بہار کے اردو تخلیق کاروں کے فن پاروں کو انٹر نیٹ کے ذریعے فروغ دینا تھا۔ پچھلے آٹھ سالوں سے یہ ویب سائٹ اردو کی ترویج و اشاعت کے لیے بھر پور کوشش کر رہی ہے جس کے نتیجے میں اب تک قومی و بین الااقوامی سطح پر ایک کروڑ سے زیادہ وزیٹرس اس سائٹ کی سیاحت کر چکے ہیں۔ اس ویب سائٹ پر ہند و پاک کے علاوہ اردو کی نئی بستیوں کے شاعروں اور ادیبوں کی تخلیقات کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ اس فورم کی اہمیت اردو دنیا میں اس وجہ سے مسلم ہے کہ اس پر شعرا و ادبا کے نام باعتبارحروف تہجی دیے گئے ہیں جس کے سبب ویب سائٹ کی شہرت و مقبولیت میں اضافہ ہوا اور اردو کے اسکالرس اور شائقین کو یہ آسانی ہوئی کہ وہ اپنے پسندیدہ شاعر و ادیب تک بلا کسی ٹکنیکل روک ٹوک کے پہنچ سکیں۔

بہار اردو یوتھ فورم نے اپنی ویب سائٹ کو دیدہ زیب اور پر کشش بنانے کے لیے 341 شعرا کی ڈیزائن پوئٹریز تیار کی ہے،اس کے علاوہ قاری کی دلچسپی کو ذہن میں رکھتے ہوئے افسانے،افسانچے،پوپ کہانیاں، مِنی افسانے کوجدید گرافک ڈیزائن سے مزین کر کے سائبر سماج کا حصہ بنایا۔ جس نے انٹرنٹ کی دنیا میں ایک ایسا انقلاب برپا کیا، جسے تاریخ ادب اردو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ اردو ادب کی تاریخ میں اس فورم کی اہمیت سنگ میل کی رہے گی۔اسی طرح 258 کہانی کاروں کے 896 افسانوی متون ڈیزائن کے ساتھ موجود ہیں۔ادبی متن کے علاوہ انسانی شعبہ ہاے زندگی سے متعلق کل مضامین کی تعداد 4014 ہے۔قارئین کو تلاش و جستجو میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اس کے لیے مضمون نگاروں کے نام حروف تہجی میں دیے گئے ہیں۔اس ویب سائٹ کو عالمی شہرت اس وجہ سے بھی حاصل ہے کہ اس پر  ویزیٹرس کی پسند اور ضرورت کے متعلق مضامین وافر مقدار میں موجود ہیں۔ جن میں تعلیمی، اسلامی، سیاسی، ادبی، اسپورٹس اور خواتین و اطفال پر مضامین قابل ذکر ہیں، جن کی الگ الگ فہرست ہے تاکہ قاری کو پریشانی نہ ہو۔ تعلیمی مضامین کی کل تعداد 281 ہے جس میں کمپیوٹر پر 11، علم و فن پر65،معلوماتی باتیں 162،مسلم معاشرے پر 36،تعلیم کی اہمیت پر7 مضامین شامل ہیں۔ ادبی مضامین کی کل تعداد 2251 ہے آپ بیتی پر 76،ادبی خبریں 405،ادبی گوشہ 360،افسانے38، غزلیں 37، انٹرویوز 21، لمحہ فکر238،مزاحیہ مضامین 41، شخصیات 402، شاعری 73، تجزیاتی مطالعہ 179،تیشۂ فکر پر 332 مضامین شامل ہیں۔

اردو کے عام قاری کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے خاصی تعداد میں ایسے مضامین اپلوڈ کیے گئے ہیں جن کا تعلق نسائی حسن و ہستی سے ہے جیسے مضامین براے نسواں جس کی کل تعداد 189ہے۔ اس میں خوبصورتی پر 6،خواتین کے لیے 66،امور خانہ داری سے متعلق 94اور خواتین کے صفحات کے نام پر23 مضامین شامل ہیں۔ اسلامی مضامین کی کل تعداد 368 ہے اسلامی تعلیمات پر 74،اسلامیات 229، بزرگان دین کے حالات زندگی پر 33 اور محمد عربی کی باتیں کے عنوان سے 32 مضامین شامل ہیں۔ حالات حاضرہ پر 505 مضامین ہیں جن میں بنگلہ دیش پر 9،ہندستان پر 365،پاکستان پر 47،ساوتھ ایشیا پر80 اور عا لمی سطح کے 80 مضامین شامل ہیں۔مضامین براے اطفال کی کل تعداد 77ہے جن میں بچوں کے لیے اصلاحی مضامین 14،بچوں کی کہانیاں 49  اور بچوں کی نظمیں 14 شامل ہیں۔فلمستان کی زرق برق دنیا اور ہیرو ہیروئن کے افیئرس پر 39 مضامین ہیں جو فلمی شائقین کے لیے بڑا تحفہ ہے۔سیاسی مضامین کی کل تعداد 193 ہے جس میں قومی سطح کے مضامین 54،ریاستی سطح کے 72 اور 2014 کے عام انتخاب کے متعلق 67 مضامین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اسپورٹس کی خبروں پرمشتمل مضامین کی تعداد 38 ہے۔

بہار اردو یوتھ فورم کی ویب سائٹ پر معروف شخصیات،شعرا و ادبا کی 612 ویڈیوز بھی ہیں جنھیں آپ بآسانی دیکھ اور سن کر لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ اس ویب سائٹ کا مقصدجہاں نئی نسل کو صالح اقدار عطا کرنا ہے وہیں ان کے اندر اردو زبان و ادب کے تہذیبی ورثے کو ان کے حوالے کرنا ہےتاکہ نئی نسل اردو کی شیرینی کے ساتھ اس کی ثقافت کو اپنے اندر سمو سکے۔اس کے لیے انٹر نیٹ سے بہترین کوئی ذریعہ نہیں جس سے آج کی نسل پوری طرح ہم آہنگ ہے۔لائق مبارک باد ہیں جاوید محمود صاحب جنھوں نے اردو ادب کے فروغ کے لیے انٹر نیٹ کو میڈیم کے طور پر انتخاب کیا اور اردو کے شعری اور نثری سرمائے کو اس کے وقار اور معیار کے ساتھ نئی ٹکنالوجی سے جوڑ ا۔

ریختہ ڈاٹ او آر جی کا بنیادی مقصد سائبر دنیا میں اردو کی شعری اصناف کو معیاری اور مستند متن کے ساتھ پیش کرنا ہے تاکہ قاری و سامع اردو تہذیب کے ساتھ صحیح تلفظ سے واقف ہوسکے۔اس ویب سائٹ پر معروف و مقبول شعرا و ادباکی تخلیقات کو اردو کے علاوہ دیوناگری اور رومن رسم الخط میں بھی آن لائن مہیا کیا گیاہے۔چوں کہ غیر روایتی محبان اردوزبان کی چاشنی اور شرینی سے محظوظ ہوتے ہی ہیں لیکن اردو ادب اور بالخصوص شعری متن کی معنیاتی تفہیم سے نا بلد ہوتے ہیں۔ ریختہ نے اردو ادب کے فہم کو فروغ دینے اور اس کے رس کو عقیدت مندانِ اردو تک پہنچانے کے لیے مشہور شعرا کے کلام کو ان کی اپنی آواز میں پیش کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ سامعین و ناظرین کلام کے ساتھ ساتھ شاعروں کے صوتی آہنگ سے بھی لطف اندوز ہوں۔ جن شعرا کا آڈیو یا ویڈیو دستیاب نہ ہو سکاان کے کلام کو عصر حاضر کے معروف شاعروں اور زبان کے ماہرین کی آواز میں محفوظ کیا گیا۔ جو ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔تاکہ سامع و ناظر شعری وزن و آہنگ سے حظ اٹھا سکیں۔

ریختہ کا اپنا ایک اسٹوڈیو ہے جس میں اردو کے ممتاز ادیبوں،شاعروں اور ناقدین سے انٹرویوز لیے جاتے ہیں۔جس میں ہند وپاک کے نئی نسل کے شعرا و ادبا کے علاوہ بزرگ ادیبوں سے بھی استفادہ کیا جا تا ہے۔ ان انٹرویوز کا مقصد شاعروں اور ادیبوں کی آرا سے سامعین کو واقف کرانا ہوتا ہے تاکہ اس تیز رفتار دنیا کے بدلتے تہذیبی و ثقافتی رجحان میں شعر و ادب کی تفہیم ممکن ہوسکے۔ اس کے علاوہ ریختہ پر موضوعاتی اشعار کا ای۔ بینک بھی موجود ہے جس میں قاری اپنے پسندیدہ موضوع کے تحت اشعار کا انتخاب کر سکتا ہے اور اپنے عزیزوں کے ساتھ اسے شئیر بھی کر سکتا ہے۔حال ہی میں ریختہ نے علم عروض پرآسان اور عام فہم زبان میں لیکچر سیریز شروع کی ہے تاکہ شعری ذوق و شوق رکھنے والے حضرات اشعار بحروں اور اس کے اصول و اوزان سے واقف ہو سکیں۔ ریختہ پر خصوصی گوشے کے تحت لیجنڈ ادبا و شعرا کی تخلیقات پیش کی گئی ہیں جن میں قابل ذکر میرتقی میر،اسداللہ خاں غالب اور سعادت حسن منٹو ہیں۔

ریختہ فاونڈیشن کے بانی سنجیو صراف کے بقول ”ریختہ دراصل محبتوں کا پھول ہے جس کی خوشبو آج دنیا کے154 ملکوں تک پہنچ چکی ہے۔“سائبر اسپیس میں ریختہ کی مقبولیت اور اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے پہلے یوم تاسیس پر پروفیسر اختر الواسع نے کہا تھا کہ ”اگر پچھلی صدی چھپے ہوئے حرف کی حرمتوں واشاعت کے حوالے سے منشی نول کشور کی صدی تھی تو سائبر انقلاب کے زمانے میں یہ سنجیو صراف کی صدی کہلائے گی۔“ ریختہ ڈاٹ او آر جی کی ادبی حلقے میں مقبولیت اور کامیابی کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے کمپیوٹر اسکرین کے ساتھ ساتھ موبائل اسکرین پر بھی دستیاب کرایا گیا  ہے۔ اس صورت میں ایسی ہائی ٹیک ٹکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے جس سے ویب سائٹ پر موجود شعرا کا کلام، ای۔ بکس اور دیگر تمام آڈیوز اور ویڈیوز کو موبائل اسکرین پر بھی پڑھ، سنے اور دیکھے جا سکیں گے۔ریختہ نے اردو ادب کی خوشبو کو نئی نسل تک پہنچانے کا جو ہائی ٹیک طریقہ اپنایا ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔

اردو سے متعلق انٹر نیٹ کی دنیا میں ’اردو ویب ڈیجیٹل لائبریری‘ کی اپنی الگ پہچان ہے اس کا مقصد اردو زبان و ادب کے بیش بہا،کم یاب اور نایاب سرمائے کو محفوظ کرنا، اسے معدوم ہونے سے بچانا بھی ہے تاکہ آنے والی نسل کے لیے اس کی رسائی آسان ہوسکے اور ارود زبان کے موجودہ مواد کو انٹر نیٹ کے ذریعے عوام تک بآسانی پہچایا جا سکے۔ یہ ایک ایسی آن لائن لائبریری ہے جو کاپی رائٹ سے آزاد اپنے قاری کو ادبی اور تدریسی مواد فراہم کرتی رہے،کتابوں کا یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں سے علم و ادب کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ علمی ذوق رکھنے والے،محققین اور علم کی تلاش و جستجو میں سرگرداں رہنے والوں کے لیے یہ آن لائن ڈیجیٹل لائبریری اولین مستند حوالے کی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔ ڈیجیٹل لائبریری میں شامل متون سے آپ پوری طرح استفادہ کر سکتے ہیں بس شرط یہ ہے کہ اگر اس متن کو اپنی تحریر میں حوالے کے لیے استعمال کرنا چا ہتے ہیں تو اردو ویب ڈیجیٹل کا حوالہ اور نام ضرور دیں۔تاکہ سند رہے۔

’اردو کی برقی کتابیں ڈاٹ کام‘ اردو کی برقی کتابوں کی نشر و اشاعت اور ترویج میں فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ ویب سائٹ اردو کی مفت برقی کتابوں کا مطبع ہے جہاں کتابیں برقی شکل میں شائع ہوتی ہیں۔کتابوں کی اشاعت کے سلسلے میں مندرجہ ذیل تین شرطوں کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے:
1۔           جملہ حقوق (کاپی رائٹ) سے آزاد کتب کی اشاعت
2۔           ان کتب کی اشاعت جو پہلے کاغذ پر شائع ہو چکی ہیں اور پرنٹ ورژن کے بعد مصنّفین یا ناشرین کی اجازت کے بعد برقی شکل میں پیش کی جائیں گی ۔
3۔           اب آپ بھی اپنی کتابیں برقی شکل میں شائع کرا سکتے ہیں اگر آپ کی کتاب اب تک شائع نہیں ہوئی ہو تو یہاں شائع کرا سکتے ہیں۔

اردو کی برقی کتابیں ڈاٹ کام پر دو موضوعات پر کتابیں موجود ہیں، متفرقات کے زمرے میں کئی موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔تفصیل ملاحظہ کریں:
دین و مذہب
مذہبی لٹریچر پر 425 کتابیں ہیں جو متعدد موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔مثلاً اسلام کے متعلق 32، احادیث 15، عقیدے پر57، سیرت نگاری 11 اور اسلامیات پر 310 کتابیں ہیں۔اوردیگر ادیان پر سات کتابیں موجود ہیں۔

اردو کی برقی کتابیں ڈاٹ کام پر اردو ادب کی تمام اصناف مطالعے کے لیے موجود ہے جن میں شعری مجموعے، افسانوی مجموعے، ناول، داستان، ڈرامہ، تنقید و تحقیق، ادب اطفال، جاسوسی ادب اور طنز و مزاح شامل ہیں۔ اس ویب سائٹ سے کتابوں کے مطالعے کے ساتھ ڈاون لوڈ کر کے اپنے پاس محفوظ بھی کر سکتے ہیں۔

عصر حاضر میں جدید ٹکنالوجی کے ذریعے اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت ’بزم اردو لائبریری‘ کا اولین مقصد ہے۔ دن بہ دن سکڑتی ہوئی دنیا اور اطلاعاتی ٹکنالوجی کے اس دور میں اردو زبان و ادب کے وسیع ذخیرے کو انٹرنیٹ پر پیش کیا جانا ایک ناگزیر امر بن چکا ہے۔جب کہ نئی نسل وقت کی قلت اور مصروفیت کی بنا پر کتابوں سے دور ہوتی جا رہی ہے۔اسی فکر نے اعجاز عبید کو برقی کتابیں جمع کرنے کی ترغیب دلائی،جس سے اردو قاری دنیا کے کسی بھی کونے سے بلا روک و ٹوک اردو کے برقی مواد تک رسائی کر سکیں۔اس دیوانگی نے انھیں کاپی رائٹ سے آزاد یونیکوڈ فارمیٹ میں کتابوں کو برقی شکل میں پیش کرناشروع کیا۔جو آج ایک عظیم الشان آن لائن حوالہ جاتی لائبریری کی شکل میں موجود ہے۔آج اسی محنت اور لگن کا نتیجہ ہے کہ اینڈرائڈ  ایپ کی معاونت سے اردو لٹریچر کے عظیم سرمائے کو آپ موبائل پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔

کتابستان ڈاٹ کام نے اردو کی سائبر دنیا میں بڑے کم وقت میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔اس کی ای۔ بک لائبریری میں اردو کے اصناف ادب کی اب تک سو کتابیں اپ لوڈ کی جا چکی ہیں، جن میں ناول، افسانے، خطوط کے مجموعے، کلاسک ادب، شاعری، مزاح، ادب اطفال، مقالے، تذکرہ و تحقیق،خودنوشت،  سفرنامہ، شخصی خاکے، شکاریات،فلم آرٹ موسیقی اور رسائل و جرائد قابل ذکر ہیں۔ اس ویب سائٹ پر نایاب و کمیاب موضوعاتی کتابوں پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔جس کی دسترس طلبا و ریسرچ اسکالرز اور عام قارئین کی پہنچ سے باہر ہے۔

کتابستان ڈاٹ کام کا مقصد اپنے قارئین کو میعاری کتابیں بہم پہنچانا ہے، تاکہ نئی نسل کا قاری سستے، بازاری اور گھٹیا قسم کے رومانی موضوعات سے گریز کرے اور اپنے مطالعے میں عمدہ اور بہترین ادب کو رکھے۔ اس ویب سائٹ کا بنیادی مقصد بھی خالص اردو ادب کے فروغ کے لیے کام کرناہے،اس ویب سائٹ کی سبھی کتابیں اسکینگ شدہ پی ڈی ایف فارمیٹ میں موجود ہیں،جن کا آسانی کے ساتھ پرنٹ لیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہاں کی کتابوں کو اقتباس یا حوالے کی صورت میں استعمال کرتے وقت کتابستان ڈاٹ کام کا حوالہ دینا ضروری ہے۔

ہند و پاک میں طلبا اور ریسرچ اسکالرز کے لیے پی، ڈی، ایف فائل کی صورت میں اردو زبان و ادب کے اہم موضوعات پرمشتمل کتابستان ڈاٹ کام کامیابی کی ہر لمحہ نئی تاریخ رقم کر رہا ہے۔کئی مہینوں کی مسلسل سعی کے بعد17 ۱پریل 2016 کو گوشہ مشفق خواجہ کا اجرا عمل میں آیا ہے۔ جو اس ویب سائٹ کے لیے فال نیک ثابت ہوگا۔اس گوشے میں خواجہ صاحب کے متعلق 25 سے زائد کتب و رسائل شامل ہیں۔ جو ان کی شخصیت اور فکروفن سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ خواجہ صاحب کے خطوط اور کالمز کے مجموعے کا مطالعہ بھی کیا جا سکتاہے۔

’اردو لائف ڈاٹ کام‘ اردو کی پہلی ویب سائٹ ہے جس نے اردو کی ادبی تاریخ میں پہلی مرتبہ قلم دوست ڈاٹ کام کے اشتراک سے ورچوئل مشاعرے کا انعقاد کیا۔ جسے اردو ادب کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ اس ویب سائٹ کی ادبی حلقوں میں مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ اردو ادب سے متعلق تقریباً تمام مشہور و معروف شعراکے کلام ان کی آواز میں موجود ہیں۔محفل مشاعرہ کے عنوان سے مشاعرے کا ڈیٹا بیس ذخیرہ بھی ہے جس میں آپ اپنی پسندیدہ غزلیں اور نظمیں بہ آسانی سرچ کر سکتے ہیں۔اردو لائف ویڈیو کے عنوان کے تحت مشہور و مقبول شعراکے کلام،انٹرویوز،ادبی تقریبات اور ادبی شخصیات پر ڈاکومنٹری فلموں کا ایک سلسلہ بھی شروع کیا ہے جسے حال ہی میں یوٹیوب پر منتقل کیا گیاہے۔محفل موسیقی کے تحت اس ویب سائٹ پر آپ کو معیاری، نایاب اور کمیاب موسیقی کا ذخیرہ ملے گا۔ اس کی انفرادیت یہ ہے کہ اس طرح کی موسیقی انٹر نیٹ پر دستیاب نہیں ہے۔

’ اردو لائف ڈاٹ کام‘ نے 2006 میں اردو پیڈ کے نام سے انٹر نیٹ پر سب سے پہلے یونی کوڈ میں لکھنے کی سہولت بلا معاوضہ شروع کی،جو اردو کی ترویج و اشاعت میں میل کا پتھر ثابت ہوا۔ اردو پیڈ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ قارئین کے ادبی ذوق کی تکمیل کے لیے اردو لائف ڈاٹ کام نے آن لائن انٹر نیٹ ادبی شمارے کی شروعات ’ادبی افق‘کے نام سے کی،جس پر ادب کی مختلف شعری و نثری اصناف کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

’ارود پوائنٹ ڈاٹ کام‘ انٹر نیٹ کی دنیا میں اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ روز اول سے ہی بزرگ ادیبوں اور استاذ شعرا کے ساتھ نئی نسل کے لکھنے والوں کو بھی بلا تفریق شائع کیا،لیکن ادبی معیار سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔اردو کی اسی بے لوث خدمت اور مقبولیت کی وجہ سے دنیا بھر سے لاکھوں افراد اردو پوائنٹ کی سیاحت کرتے ہیں اور معیاری ادب سے اپنے ذوق کی تسکین کرتے ہیں۔یہ ویب سائٹ اردو کی نئی نسل کے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی شفیق استاذ کی طرح کرتا ہے۔ان کی تخلیقات کو مناسب اور موزوں جگہ بھی فراہم کرتا ہے۔اس ویب سائٹ پر مضامین، ادبی تحریریں، کتابیں، شاعری، ٹکنالوجی کے مضامین و خبریں، کالم، اخباری خبریں، مزاحیہ تحریریں اور پکوان سے متعلق تراکیب مطالعے کے لیے مل جائیں گی۔

اردو پوائنٹ ڈاٹ کام نے جہاں ادب کی دنیا میں اہمیت حاصل کی وہیں اردو صحافت میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔ اپنی خبروں، مضامین، کالمزاوراداریوں میں صداقت اور سچائی کو فروغ دینے کا کام کیا۔ یہ کام اس نے بغیر کسی اندرونی و بیرونی دباؤکے بڑی خوبصورتی اور ایمان داری سے انجام دیا۔ اردو پوائنٹ کی اسی حق گوئی اور دیانت داری نے قاری کے اندر یقین و اعتماد پیدا کیا اور آج ’روز نامہ اردو پوائنٹ‘پاکستانی اور بین الاقوامی سائبر صحافت کی دنیا میں نمایاں مقام حاصل کر چکا ہے۔

عصر حاضر جدید ٹکنالوجی اور تیز رفتار ترقی کا عہد ہے۔ انٹر نیٹ کی ایجاد نے جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ تہذیبی، ثقافتی اور لسانی حدود کو بھی منہدم کر دیا ہے۔ غیر ترقی یافتہ زبانیں نزع کی حالت میں دم توڑ رہی ہیں۔ ایسے میں اگر اردو زبان و ادب اور اس کے رسم الخط کو نئی ٹکنالوجی سے ہم آہنگ نہیں کیا گیا، تو ترقی کے اس دور میں ہمارا ادب، ہماری زبان اور ہماری تہذیب جس پر ہمیں فخر ہے، سب سے پیچھے رہ جائیں گی،کیوں کہ دور حاضرمیں ترقی وتنزلی  کا تمام تر دار و مدار جدید ٹکنالوجی پر ہے۔ حالاں کہ انٹر نیٹ پر ہزاروں ویب سائٹس اور بلاگس موجودہیں جو اردو کی ترویج و اشاعت کا کام بڑی محنت اور دیانتداری سے کر رہی ہیں۔ان میں سے معیاری سائٹس کا انتخاب کرنا میرے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ کیوں کہ انٹر نیٹ پر اردو میں ڈیجیٹل کتب خانے اور کئی اہم ادبی، تہذیبی، ثقافتی اور تعلیمی سائٹس موجود ہیں لیکن میرے نزدیک اردو کی ان سائٹوں پر موجود مواد کا میعاری اور مستند ہونا شرط تھا۔میں نے انھیں سائٹوں کو اپنے مقالے میں جگہ دی ہے جس پرمتن سند کے ساتھ موجود ہے۔اور جو معیاری ادب کو پیش کرتے ہیں۔انٹر نیٹ پر اردو ادب کے حوالے سے اب تک جو کا م ہوا ہے تشفی بخش تو ہے مگر کافی نہیں ہے۔ اس پر ابھی اور کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اردو کا ادبی سرمایہ اپنے صحیح متن کے ساتھ قارئین تک پہنچے۔اس ضمن میں کچھ ویب سائٹیں اچھا کام کر رہی ہیں مثلاً بہار اردو یوتھ فورم،کتابستان ڈاٹ کام اور  ریختہ ڈاٹ او آر جی دنیا قابل ذکر ہیں، جن کی ستائش اور پذیرائی ہونی چاہیے۔

22/8/17

ایک باغ و بہار شخصیت: صغرا مہدی از نگار عظیم

ایک باغ و بہار شخصیت: صغرا مہدی


کسی اپنے کے چلے جانے کے بعد اس کی ذات سے وابستہ کچھ بھی تحریر کرنا کس قدر مشکل کام ہے؟ اردو کی ممتاز ادیبہ افسانہ نگار، ناول نگار ، انشاپرداز پروفیسر صغرا مہدی کے بارے میں کچھ لکھتے ہوئے ایسا ہی مشکل اور تکلیف دہ احساس دل و دماغ پر طاری ہے۔ وہ ایک ایسی منفرد ہمہ جہت شخصیت کی مالک تھیں جس کا مکمل بیان ناممکن ہے۔ وہ جس خانوادے کی چشم و چراغ تھیں اور جن نامور ہستیوں کے زیرسایہ ان کی پرورش ہوئی اور جو کچھ انھیں ورثے میں ملا اس کے تمام اوصاف ان میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔لیکن ان کے اندر اس سب سے کچھ زائد بھی تھا جو ان کا اپنا، صرف اپنا تھا۔ جو انھوں نے خود حاصل کیا تھا۔ ان کا نڈرپن، بے باکانہ اندازِگفتگو، ضد، انصاف پسندی، صاف گوئی کے علاوہ خوشامد، منافقت، فرقہ پروری اور زمانہ سازی سے دور وہ نئی اور پرانی تہذیب کا ایسا سنگم تھیں جن کے بہت سے مداح تھے۔ ان کا وجود ایسا گھنا درخت تھا جس کی شاخوں پر پرندے چہچہاتے اور تازہ دم ہوکر اڑان بھرنے کے لیے نکل جاتے۔ ان کی شخصیت ان کے اپنے خاندان میں بھی اور جہاں جہاں وہ وابستہ رہیں وہاں بھی منفرد ہی رہی۔ اس کی کئی وجہیں ہوسکتی ہیں۔

صغرا مہدی کا اصل نام امامت فاطمہ تھا۔ سات بہن بھائیوں میں درمیان کی اولاد تھیں۔ دو بھائی اور ایک بہن چھوٹے اور تین بہنیں بڑی۔ ظاہر ہے درمیان کی اولاد ویسے بھی دونوں طرف سے دباؤ میں رہتی ہے۔ بڑوں کا دباؤ اور چھوٹوں کی ذمے داری، ایسے میں اپنے لیے کوئی راہ،  وہ بھی علاحدہ ناممکن ہی ہے۔ لیکن صغرا مہدی نے اس ناممکن کو ممکن بنا کر اپنا نیا جہان آباد کیا۔

صغرا مہدی نے بچپن سے اپنی دنیا کو اس روپ میں دیکھنا پسند کیا جیسا کہ وہ چاہتی تھیں۔ وہ دنیا انھیں قبول نہیں تھی جیسا کہ تھی۔ لکھتی ہیں:
”مجھے کھیلوں سے دلچسپی نہیں تھی، کھیل سے چپکے سے نکل کر گوشۂ  تنہائی تلاش کرلی جہاں بیٹھ کر اکیلے خود سے باتیں کرتی۔ میری اپنی خیالی دنیا تھی، جو اس دنیا سے بالکل الگ تھی۔ اس میں بسنے والے سب لوگ وہی تھے جو حقیقی دنیامیں میرے ساتھ یا آس پاس تھے۔ مگر وہ ایسے تھے جیسا میں چاہتی تھی کہ ہوں۔ اس دنیا میں ہر وہ بات تھی جو مجھے پسند تھی۔“

ہر فرد اپنے ماحول میں جیتا ہے پرورش پاتا ہے پروان چڑھتا ہے اور یہی بنیاد اس کی زندگی کی عمارت کی بنیاد ہوتی ہے۔ صغرا مہدی کے مزاج کا کھراپن اور کھردرا پن انھیں اپنی زندگی کے حالات سے میسر آیا۔ ان کے والدین کی عمروں میں بہت فرق تھا اور مزاجوں میں بھی ماں باپ کے درمیان چھوٹی چھوٹی باتیں وجہ اختلاف بن جاتیں۔ صغرا مہدی کی اماں دادی جان کو سخت ناپسند کرتی تھیں جو رشتے میں ان کی بڑی چچی بھی لگتی تھیں۔ وہ بہت تیز مزاج اور سخت گیر بھی تھیں۔ ایسے میں صغرا مہدی کا معصوم بچپن اپنی نئی من پسند دنیا آباد کرکے تمام ناگواریوں سے فرار حاصل کرلیتا۔

بھوپال سے سات میل دور قصبہ باڑی میں اپنے خاندان کے زیرسایہ ان کا بچپن بیتا۔ بارنا  ندی نے اس قصبے کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ کسی وقت یہاں گونڈ بھیل راجاؤں کی حکومت تھی۔ صغرا مہدی کے والد (میاں) سیدعلی مہدی اسی علاقے میں سب انسپکٹر تھے۔ تھانے سے ملا ایک مردانہ مکان جسے پرانے وقتوں میں مردان خانہ کہا جاتا تھا، بھی تھا جو عارضی قید خانے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ یہاں مجرم رکھے جاتے تھے۔ علاقہ بے حد خوبصورت ہرا بھرا پھولوں کی وادیوں سے گھرا ہوا تھا۔ ندی نے اس علاقے کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیے تھے۔ یہیں ہری ہری گھاس میں لال لال بیربہوٹیاں دیکھتے ہوئے رنگ برنگی تتلیاں پکڑتے ہوئے رات کے اندھیرے میں جگنوں پکڑ پکڑ کر دامن میں بھرتے ہوئے اور کبھی کبھی شیر بھی دیکھتے ہوئے، ہرے بھرے کھیتوں میں دور تک پھیلے ہوئے دھوپ کے ساتوں رنگ آنکھوں میں بسائے قدرت کی گود میں صغرا مہدی کا بچپن قلانچے بھررہا تھا۔

صغرا مہدی سب بہن بھائیوں میں زیادہ معمولی شکل و صورت کی تھیں۔ اوپر سے چیچک کے داغ بھی بسیرا کرکے بیٹھ گئے۔ دبلی پتلی کالی سوکھی اور چیچک کے داغ بھرے چہرے نے احساس کمتری میں مبتلا کردیا تھا۔ سونے پہ سہاگا گھر اور باہر کے لوگ چڑانے لگے تھے کہ تم اماں اور میاں کی بیٹی نہیں ہو بلکہ تمھیں کسی جمعدارنی سے گود لیا ہے۔ ایسے میں صغرا کے معصوم دل پر کیا گزرتی ہوگی؟ صغرا کے والد صغرا کی والدہ سے دس برس بڑے تھے اور انسپکٹر بھی تھے۔ ظاہر ہے مزاج میں سختی اور تناؤ بھی رہا ہوگا۔ حاکمانہ انداز ہوگا شاید اسی سبب میاں اور اماں کے درمیان ہمیشہ تناؤکی صورت رہتی۔ صغرا نے ایسی صورت میں خود کو کمتر محسوس کرکے نظرانداز نہیں کیا بلکہ یہی وہ حالات تھے جب امامت فاطمہ کے اندر صغرا مہدی پروان چڑھ رہی تھی۔ ایسے میں صغرا مہدی اپنی ایک خیالی دنیا آباد کرلیتی تھیں جس میں وہ خوبصورت، ذہین، پڑھی لکھی اور سب کی چہیتی لڑکی بن جائیں۔ ایک آئیڈیل گھران کے ذہن میں تیار ہوجاتا اور اپنی پسند کے مطابق کردار، ساز و سامان، آرائش، زیبائش، لباس اور جو وہ چاہتیں تیار ہوجاتا... واہ صغرا مہدی... واہ۔ کیا اس سب سے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ تخلیق کار صغرا مہدی پیدا ہوچکی تھیں۔ جس میں وہ کہانی کار بھی تھیں اور کردار بھی۔

یوں تو صغرا مہدی کی بڑی بہن سیدہ فرحت کو شاعری سے نہ صرف شغف تھا بلکہ وہ نظمیں اور غزلیں بھی کہتی تھیں اور گاتی بھی تھیں۔ چھوٹے بھائی اقبال مہدی بھی آگے چل کر افسانہ نگار بنے لیکن صغرا مہدی کی بات ہی الگ تھی۔ ان کا بچپن بھی انوکھا تھا جوانی بھی نرالی اور ضعیفی بھی منفرد و مختلف جو کبھی آئی ہی نہیں۔

صغرا مہدی کی تعلیم و تربیت اور ادب سے وابستگی اپنے ماموں جان (ڈاکٹر عابد حسین) اور ممانی صاحبہ (صالحہ عابد حسین) کے زیرسایہ دہلی اور علی گڑھ میں ہوئی۔ یہاں کا کھلا ماحول انھیں نہ صرف راس آیا بلکہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کے اجاگر ہونے میں بہت سازگار ثابت ہوا۔ وہ باقاعدہ افسانے لکھنے لگی تھیں۔ سب بہن بھائی پڑھ لکھ کر آگے بڑھ رہے تھے۔ شادیاں ہورہی تھیں۔ گھر آباد ہورہے تھے لیکن صغرا مہدی نے یہاں بھی غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا۔ لکھتی ہیں:
”ممانی جان کو اور خاندان کے دوسرے لوگوں کو میری شادی کی بھی فکر تھی۔ میں نے اس سلسلے میں معمول کے خلاف اپنے خیالات ماموں جان سے شیئر کیے کہ میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ مجھے لکھنے کا شوق ہے۔ میں نے چھوٹی چھوٹی کہانیاں اور اپنا پہلا ناول ’پا بہ جولاں‘ لکھنا شروع کردیا تھا۔ ماموں جان نے میرے خیال کو رد نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ ”تنہا زندگی گزارنا مشکل ہے۔ اگر تم یہ چاہتی ہو تو پھر ابھی سے اس کی تیاری شروع کردو، اپنے کو پراعتماد رکھو۔ اگر تم اپنی زندگی سے خوش اور مطمئن رہیں تو میں کبھی تمھیں شادی پر مجبور نہیں کروں گا۔ مگر شادی کے دروازے بند نہ کرو۔“ (حکایتِ ہستی)

اپنے ماموں جان کے نصیحت آمیزیہ جملے صغرا مہدی کے لیے مشعلِ راہ بن گئے۔ انھوں نے خود کو پراعتماد بنایا خوش اور مطمئن رہنا اپنا شعار بنایا۔ زندگی اپنے ڈھنگ سے جینا سیکھا اور تنہا زندگی گزارنے جیسے مشکل مرحلے سے وہ بہ حسن و خوبی شادماں گزریں او رکیا پتہ انھوں نے کوئی خیالی شہزادہ بھی شوہر کے روپ میں بناکر اپنی دنیامیں آباد کررکھا ہو کیوں کہ ان کی خیالی دنیا بہت پاور فل تھی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انھیں زندگی میں دقتیں درپیش نہیں آئیں۔ آئیں، انھوں نے ان کا مقابلہ کیا۔ لکھتی ہیں:
”میں نے شروع سے ہی سوچ لیا تھا کہ سوسائٹی کے Norms سے ہٹ کر جو کام کیا جائے اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے اس لیے اس سلسلے میں جو مشکلات پیش آئیں ان کا یہی سمجھ کر سامنا کیا۔“ (حکایت ہستی)

صغرا مہدی کے والد زیادہ تر ملازمت کے سلسلے میں اپنے دوروں پر رہتے تھے۔ ان کا زیادہ تر وقت باہر ہی گزرتا۔ گھر اور بچوں سے ان کو کم ہی واسطہ رہتا۔ والدہ اکثر بیمار رہتی تھیں۔ ذہنی طور پر بھی پریشان رہتی تھیں لیکن اس کے باوجود وہ ایک اچھی خاتونِ خانہ تھیں۔ کھانا اچھا پکاتی تھیں۔ بہت اچھی منتظم تھیں۔ بے حد دلچسپ گفتگو کرتی تھیں۔ شوخ تھیں۔ لوگوں کو ہنساتی تھیں۔ ملنسار تھیں۔ لوگوں کو تحفے تحائف دینے کا بھی شو ق تھا مگر جب موڈ خراب ہوتا تو پھر ان کی ہر چیز سے دلچسپی ختم ہوجاتی اور گھر کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ اپنی اماں کی یہ تمام خصوصیات صغرا مہدی میں موجود تھیں۔ ہاں ان کے اچھا کھانا پکانے پر ضرور شبہ کیا جاسکتا ہے۔ اس ناچیز کو ان کے یہاں بہت لذیذ کباب اور چپاتی ایک ادبی نشست میں کھانے کا اتفاق ہوا۔ گول اور پتلی چپاتیاں خوش ذائقہ مناسب مسالحہ والے کباب یقینا صغرا مہدی نہیں پکا سکتی تھیں کیوں کہ اتنی مناسبت تو ان کے اندر تھی ہی نہیں۔ اس میں یا تو ان کی بھابی شمع صاحبہ (اقبال مہدی کی بیوی) یا پھر کسی ملازمہ کا ہاتھ ضرور لگا ہوگا۔ ویسے اقبال مہدی نے ان کے کھانے پکانے اور گرہستی جمانے کے ذوق کو بڑے دلچسپ اندازمیں قلم بند کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
”ایک زمانہ تھا کہ آپا کھانا پکانے کے نام پر صفر تھیں اور آج خدا کی شان کہ وہ طرح طرح کے کھانے پکاتی ہیں اور ستم یہ بھی ہے کہ لوگوں کی دعوتیں بھی کرتی ہیں۔ گھر بھی صاف ستھرا رکھنے کی خواہش کرتی ہیں اور اگر ضرورت ہو تو عیب کو چھپانے کے لےے پیوندکاری کے فن سے بھی واقف ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ آرٹ کا ’ٹچ‘ ہے۔ کھانا بنانے کے لیے کسی مغلانی بیگم کے دسترخوانی نسخے کی ضرورت نہیں۔ جیسی بے ساختہ خود ہیں اسی طرح خودساختہ ڈشیں بناتی ہیں۔“

کیا صغرا مہدی کا یہ تعارف ان کی شخصیت کو سمجھنے کے ل لیے کافی ہے؟ ہرگز نہیں... سیدھے سادے لفظوں میں اگر یہ کہا جائے کہ صغرا مہدی بہت ہی لڑاکو اور ہٹلر قسم کی خاتون مشہور تھیں تو آپ کو کیسا لگے گا؟ ایک پروفیسر اردو کی ادیبہ تہذیب یافتہ گھرانے کی چشم و چراغ اور اتنا بڑا الزام... ؟ لیکن یہ الزام نہیں آنکھوں دیکھی ہے۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں بس صرف ایک واقعہ تحریر کروں گی۔ شاید یہ 1988 یا 89 کی بات ہے (1977 میں صغرا مہدی شعبۂ  اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے وابستہ ہوچکی تھیں) مجھے اپنے پی ایچ ڈی کے داخلے کے سلسلے میں کئی مرتبہ اردو ڈپارٹمنٹ جانا ہوا۔ محترم پروفیسر ذاکر صاحب اس وقت ہیڈ تھے۔ میں چاہتی تھی کہ محترمہ صغرا مہدی صاحبہ یا پروفیسر شمیم حنفی صاحب کے زیرنگرانی میرا کام پایۂ  تکمیل کو پہنچے کہ ایک دن ڈپارٹمنٹ میں داخل ہونے سے پہلے ہی کسی خاتون کی گرج دار کڑک دار آواز میری سماعت سے ٹکرائی،  ذرا سا دروازہ کھولا چھے سات طلبہ و طالبات گردن جھکائے کھڑے تھے اور کوئی خاتون فُل وولیوم میں ان کی خبر لے رہی تھیں۔ چہرہ نظر نہیں آیا۔ میں پیچھے ہٹ گئی اتنے میں محترم عنوان چشتی اندر سے باہر آئے مجھے خوف زدہ دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولے ”گھبرائیے نہیں صغرا مہدی صاحبہ ہیں۔“ میں چند منٹ باہر کھڑی ہوکر واپس آگئی۔ میں نے اپنا مقالہ ان کی نگرانی میں مکمل کرنے کا ارادہ ترک کردیا۔ کچھ تکنیکی مجبوریوں کے سبب پروفیسر شمیم حنفی بھی میرے گائیڈ نہیں بن سکے، لہٰذا پروفیسر حنیف کیفی صاحب کی نگرانی میں میرا داخلہ ہوا۔ حالانکہ میری چھوٹی بہن مہر جمال صغرامہدی صاحبہ کی ایم اے میں شاگردہ  رہ چکی ہے۔ وہ انھیں سخت گیر کہنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعریف بھی بہت کرتی ہے۔ ایسے ہی اکثر سیمیناروں اور مشاعروں میں صغرا مہدی صاحبہ کو زبردست طریقے سے ہوٹنگ کرتے ہوئے دیکھا۔ خود بھی کرتی تھیں اور دوسروں کو بھی اکساتی تھیں۔ میرے شوہر عظیم صدیقی کو ان کا ہوٹنگ کرنا بہت پسند آتا تھا۔ اس لیے وہ ان کے آس پاس ہی بیٹھنے کی کوشش کرتے اور اس منظر کا پورا لطف لیتے۔ لیکن جب صغرا مہدی سے قربتیں بڑھیں تو اندازہ ہوا وہ بڑی منفرد مزاج کی خاتون ہیں ۔ان کے اندر ہمہ وقت ایک شوخ چنچل بچہ موجود رہتا ہے ایک مست بِنداس لڑکی بھی جو ہنستی اور قہقہے لگاتی رہتی ہے اور اپنا حکم منواتی ایک ہٹلر دیدی بھی، جو موقع پڑنے پر مقابلہ کرتی جھانسی کی رانی بھی بن جاتی ہے۔ میرے لیے صغرا مہدی کو سمجھنے کے لیے ان کی تحریروں اور کارناموں کے علاوہ اوکھلا میں یعنی جامعہ نگر میں منعقد ہونے والی محفلوں کا بڑا ہاتھ ہے۔

اوکھلا کا علاقہ ویسے بھی ادیبوں کے لیے بہت سازگار علاقہ ہے۔ ایک دوسرے کے یہاں شادیوں میں ادبی نشستوں میں خوشی اور غم میں ملاقات ہونا لازم ہے لہٰذا کسی سے ایک دوسرے کی حقیقت چھپی نہیں رہتی بلکہ نزدیکیاں بڑھتی ہیں۔ بے تکلفی بڑھتی ہے، روابط بڑھتے ہیں تو ایک فیملی جیسا ماحول خود بہ خود پیدا ہوجاتا ہے جو ایک دوسرے کو سمجھنے میں بڑا معاون ہوتا ہے۔

 اقبال مہدی نے ایک خاکہ نما مضمون ’آپا! ہٹیے ان کو کون نہیں جانتا!“ میں کچھ ایسی سچی کھری کھری بے لاگ باتیں تحریر کردیں کہ مجھے کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ اس لیے میں خود کو بچاتے ہوئے اپنے دل کی آواز کو ان کی تحریر کے ذریعے عام کرنا چاہوں گی:
-          ”بہت سے حرفوں کو ملا کر نام بنا ہے پروفیسر صغریٰ مہدی: لہٰذا بڑے بڑے حرفوں کا عطر مجموعہ ہیں محترمہ!“

-          ”ہم تو یہ جانتے ہیں کہ ہماری اماں ان کو ’ہٹلر‘ کہہ کر پکارتی تھیں۔ اماں نے بات تو بڑی سچی کہی تھی۔ غریب ہٹلر تو ختم ہوگیا مگر اپنا جانشین چھوڑ گیا اور ان کی شانِ ہٹلری وہی ہے۔“

-          ”دراصل آپا کی پارہ صفت طبیعت اور مزاج کا اتار چڑھاؤ  ان کی خداداد ذہانت ہے جس کو انھوں نے اپنی محنت اور لگن سے سنوارا ہے اور اس سنوار اور نکھار میں ایسی جلوہ نمائی ہے کہ اپنے مقابل پروار اس طرح کرتی ہیں کہ مداحوں کی نوکِ زبان پر بے ساختہ آجاتا ہے: ”لڑتی ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں“ تلخ کلامی بری بات ہے۔ خدا بچائے۔ میری سمجھ میں نہیں ا ٓتا کہ ان سب باتو ں کے باوجود کیسے لوگ ان کے مداح ہیں؟ کیا آج کل کے لوگ اتنے ڈھیٹ ہوگئے ہیں؟“

-”یہ آپا صاحبہ کس قدر ہڑدنگی ہیں اور ہمیشہ سے ہیں۔ انھوں نے کیا کیا نہ ادھم جوتے ہیں۔ باجی کہتی تھیں۔ ”اتنی بڑی ہوگئی ہے صغریٰ ،خدا کے واسطے سنجیدہ بنو۔ یہ کیا اپنی گت مت کھوئی ہے چھوٹے بھائی بہنوں میں۔“

-”بچپن ہی میں کیا زندگی کے ہر دور میں ان کی مزاجی افتاد یہی رہی ہے کبھی شعلہ کبھی شبنم— یعنی ہنسنا، قہقہے لگانا، چیخنا چلانا، اور کبھی ناقابل یقین حد تک سنجیدہ ہوجانا۔“

-          ”آپ کا تاریخی نام امامت فاطمہ ہے۔ لیکن کسے پتہ تھا کہ امامت فاطمہ قیامت صغریٰ بن کر لوگوں پہ ستم ڈھائیں گی۔ مگر ہاں اپنے تاریخی نام امامت فاطمہ کی نسبت سے ملک کے ملاؤں، مفتیوں اور اماموں سے بھڑتی رہتی ہیں جو بات بات پر فتوے جاری کرتے رہتے ہیں۔“

یہ تھیں ہماری صغرا مہدی صاحبہ۔ واحد ایسی خاتون جو تنہا ہوتے ہوئے بھی مکمل انجمن تھیں۔ ہمیشہ بھیڑ میں گھری ہوتیں۔ محبتیں لٹاتیں، ڈانٹ پھٹکار سناتیں، گلے سے لگاتیں، دعوتیں کرتیں، نصیحتیں کرتیں، دوستی کا دم بھرتیں اور سب کے دل میں گھر کر لیتیں۔ ہر چھوٹے بڑے سے ملنا اس کا دل رکھنا انھیں خوب آتا تھا۔ میرے غریب خانہ پر بھی ادبی نشست میں شرکت کرکے رونق اور عزت بخشی۔ انھیں ملال تھا کہ وہ عظیم صدیقی کے گزر جانے پر میرے غم میں شریک ہونے کے لیے نہیں آسکیں کیوں کہ اس وقت میں تھرڈ فلور پر رہ رہی تھی۔ بہت معذرت خواہ تھیں، مجھے ان کی صحبتوں پر فخر ہے۔ تعریف و تنقید اور انعام و اکرام سے بے نیاز رہنے والی صغرا مہدی ہمیشہ خاموشی سے اپنے تخلیقی کاموں میں منہمک رہیں۔ اردو اکادمی دہلی نے ان کی کاوشوں پر فکشن ایوارڈ سے نوازا لیکن حقیقت میں وہ بڑے ایوارڈ کی حقدار تھیں۔ ان کے افسانے اور ناول ہمارے سماج کی بنتی بگڑتی تصویروں کا عکس ہیں جس میں عورت کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ مزاج کی طرح ان کی فکری بصیرت بھی منفرد تھی۔ صرف تحریر ہی نہیں انھوں نے حقوقِ نسواں اور تعلیم نسواں کے لیے آواز بھی بلند کی۔ یک طرفہ فتوےٰ دینے والے فیصلو ںپر اعتراض بھی کیا۔

قرة العین حیدر اور صغرا مہدی کے نزدیکی مراسم تھے جب کہ دونو ں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ عینی آپا خودپسند اور تنہائی پسند تو صغرا مہدی بالکل پلٹ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صغرا مہدی نہ صرف تہذیبی قدروں سے جڑی تھیں بلکہ اسے  نبھانا بھی خوب جانتی تھیں۔

سہیلیوں کے گروپ میں تاباں صاحب کی بیٹی عذرا باجی کو نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ پکی سہیلیاں! پروفیسر خالد محمود لکھتے ہیں:
”صغرا آپا کی شوخیاں اور شرارتیں جامعہ بھر میں مشہور ہیں۔ صغرا آپا اور عذرا باجی کی جوڑی کو خدا سلامت رکھے، ایک زمانے میں قیامت برپا کررکھی تھی۔ کون تھا جو ان کی زد سے بچا ہو۔ آج بھی یہ دونوں مل جائیں تو شریر سے شریر بچے کے کان کاٹتی ہیں، مشاعروں میں یہ دونوں پیچھے بیٹھ کر وہ ہوٹنگ کرتی ہیں کہ اللہ میاں بھی شاعروں کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ مرنے کے بعد تو شاعروں کو دوزخ میں جانا ہی ہے، مشاعروں میں یہ دونوں ان کی زندگی بھی دوزخ بنا دیتی ہیں۔“

آہ... اب دونوں کی جوڑی...؟ جب آنگن میں صغرا مہدی سفید لباس میں منہ ڈھانپے خاموش ابدی نیند سوئی تھیں اور عذرا باجی زار و قطار رو رہی تھیں تو کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ لگتا تھا صغرا مہدی ابھی ابھی منہ سے چادر ہٹائیں گی اور بولیں گی: اے ہے عذرا !بس اب چپ بھی کرو— کیوں نیند خراب کرتی ہو، تمھیں خدا سمجھے۔

صغرا مہدی کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو مختلف احساس ذہن کے پردے پر نمایاں ہوتے ہیں۔ کبھی لگتا ہے ان کی زندگی کسی طویل داستان کا ایک حصہ تھی اور وہ اس کی اہم کردار، اپنا رول بہ حسن و خوبی ادا کرکے وہ دور آسمانوں میں کہیں گم ہوگئیں۔ کبھی محسوس ہوتا ہے وہ اللہ میاں کے یہاں بھی بھیڑ لگاکر حقوق نسواں کو لے کر عورتوں کی برابری کے لیے جھگڑ رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ پر مردوں  کے تئیں پارشیالٹی کا الزام عائد کررہی ہیں۔ امید ہے اللہ تعالیٰ وہاں بھی ان کی نگہبانی کریں گے۔ وہ اپنی بے شمار یادوں، باتوں، قہقہوں اور تحریروں کے ذریعے ہمیشہ ہمارے درمیان رہیں گی۔ ادبی دنیا میں ویسے بھی دور دور تک— اب کوئی صغرا نہیں۔

16/8/17

تعلیمِ نسواں کا نقیب: الطاف حسین حالی از ڈاکٹر سیما صغیر

انیسویں صدی کے ہندوستانی بالخصوص مسلم معاشرے میں جو تبدیلی آ رہی تھی اس میں رفقائے سر سید کی انفرادیت یہ ہے کہ انھوں نے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کی جانب بھی توجہ دی۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ اصلاحِ معاشرت کی کوئی بھی کوشش تعلیم نسواں کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی ہے۔ علی گڑھ تحریک سے وابستہ افراد میں ڈپٹی نذیر احمد، الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی اور نواب سلطان جہاں بیگم نے کوشش کی کہ خواتین بدلے ہوئے نظام کے تقاضوں کے تحت نئے تصورات سے واقف ہوں۔ طبقۂ نسواں میں تعلیم کی بیداری کے لیے ان جلیل القدر شخصیات نے ادب کی دونوں اصناف نثر و نظم سے مفید کام لیا۔

رفقائے سر سید نے مسائل تہذیب و تمدن اور زبان و ادب کی طرح خواتین کے مسائل بھی اپنی تحریروں کے ذریعے قارئین کے سامنے رکھے۔ اس کے لیے انھوں نے محض ہمدردانہ رویہ اختیار نہیں کیا بلکہ ان کی زبوں حالی کو دور کرنے کے امکانی جتن بھی کیے۔ نذیر احمد نے پہلی بار سماجی مسائل کو موضوع بناتے ہوئے خواتین کی کسمپرسی کو فوقیت دی اور انھیں جدید علم و ہنر سے مالا مال کرنے کی کوشش کی۔ نواب سلطان جہاں بیگم نے نہ صرف تحریر و تقریر کے ذریعے خواتین کے سماجی وقار و مرتبہ اور تعلیم و تربیت کی طرف توجہ مبذول کی بلکہ عملی اقدام بھی کیے۔ شبلی نعمانی جو سلطان جہاں بیگم سے بھی بے حد متاثر تھے، انھوں نے تعلیم نسواں کو فروغ دینے میں تعاون کیا۔

ان سبھی نے افسانوی اور غیر افسانوی نثر دونوں کو اظہار کا وسیلہ بنایا۔ بیان اور انداز بیان سبھی کا تقریباً ایک سا یعنی ناصحانہ اور اصلاحی رہا۔ یہاںمحض حالی کا ذکر مقصود ہے جنھوں نے جدید تعلیم اور تربیت پر دسترس کے لیے پہلی بار خواتین کا انتخاب کیا او رروشن خیالی کے فروغ کے لیے نثر میں” مجالس النساء“ خلق کی تو ان کی شاعری میں ”مناجاتِ بیوہ“،”چپ کی داد“ اور”بیٹیوں کی نسبت‘’ جیسے فن پارے تعلیم نسواں کے محرک ہیں۔ انھوں نے یہ تخلیقات اپنے، یا اپنے اہل و عیال کی ضرورت کے پیش ِنظر خلق نہیں کیں بلکہ ان کا مقصد قوم کی بچیوں اور عورتوں کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا تھا۔ صالحہ عابد حسین”مجالس النساء“ کے مقدمے میں رقم طراز ہیں:

”حالی کے دل میں عورتوں کا بڑا احترام تھا اور ان کی تعلیم، تربیت اور بھلائی کی گہری فکر تھی۔ اور اس کا بڑا دکھ تھا کہ عورت کو مردوں نے علم کی روشنی سے محروم رکھا ہے۔ اس احساس کی پہلی جھلک’مجالس النساء‘ میں نظر آتی ہے۔ بعد میں یہی درد ”چپ کی داد“ میں ڈھل کر سامنے آیا۔ حالی کی کوششیں صرف قلم تک محدود نہ رہیں۔ انھوں نے اپنے خاندان، محلے اور اپنے وطن پانی پت میں لڑکیوں کی تعلیم کو رواج دیا۔“

فروغِ تعلیم نسواں کا یہ دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر سمیع اختر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
”مولانا حالی کی اجتماعی شاعری کا ایک اہم عنصر ہندوستانی معاشرے میں از روئے انسانیت اور از روئے شریعت عورتوں کے جائز دینی، انسانی اور معاشرتی حقوق کی بازیابی کے لیے عملی جدوجہد ہے۔ مولانا حالی ہندوستانی معاشرے میں عورتوں پر ہونے والے مظالم اور زیادتیوں سے بے حد رنجیدہ اور کبیدہ خاطر تھے۔ ان کا یہ درد ان کی نظم ”چپ کی داد“، ”مناجاتِ بیوہ“ اور” بیٹیوں کی نسبت“ میں پوری طرح نمایاں نظر آتا ہے۔“                                         (تہذیب الاخلاق ، حالی نمبر2014، ص:36)

ان تینوں نظموں میں حالی نے ہمارے معاشرے میں رائج تباہ کن رسوم کے توسط سے خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو نہایت موثر انداز میں اُجاگر کیا ہے۔ مثلاً اس عہد میں والدین کے لیے شادی کا مرحلہ بھی کسی بڑے مرحلے سے کم نہیں تھا۔ تناؤآج بھی ختم نہیں ہوا ہے مگر انیسویں صدی کے مسلم معاشرے میں مہذب سسرال اور با کردار شوہر کے انتخاب کو حالی نے ”بیٹیوں کی نسبت“ میں خوبی سے پیش کیا ہے۔ وہ نظم کا اختتام ان اشعار پر کرتے ہیں :

جاہلیت میں تو تھی اک یہی آفت کہ وہاں
گاڑ دی جاتی تھی بس خاک میں تنہا دختر
ساتھ بیٹی کے مگر اب پدر و مادر بھی
زندہ درگور صدا رہتے ہیں اور خستہ جگر
اپنا اور بیٹیوں کا جبکہ نہ سوچیں انجام
جاہلیت سے کہیں ہے وہ زمانہ بدتر

مختلف تاویلوں سے یہ باور کرایا ہے کہ جب قوم کی اصلاح اور نئی نسل کی تربیت کا انحصار خواتین پر ہے تو پھر ان کے ساتھ ظلم اور زیادتی کیوں؟ سنت نبوی پر عمل کرنے والی قوم حضرت خدیجہ سے سبق لینے کے بجائے’بیوہ‘ کو مسائل و مصائب میں مبتلا کیوں کرتی ہے؟” مناجات بیوہ“ میں حالی نے حمدیہ طرز کا سہارا لے کر کم سن بیوہ کی درد بھری کہانی کو بیان کیا ہے اور وہ بھی خود اس کی زبانی۔ ابتداًاللہ کی بزرگی اور عظمت کو پیش کیا گیا ہے پھر بدلتے ہوئے زمانے کے نشیب و فراز کے ساتھ بیوہ کا دل گداز قصہ ہے:
جس دُکھیا پر پڑے یہ بپتا
کر اُسے تو پیو ند زمیں کا
یا عورت کو پہلے بلا لے
یا دونوں کو ساتھ اٹھا لے
یا یہ مٹا دے ریت جہاں کی
جس سے گئی ہے پریت یہاں کی
قوم سے توٗ یہ ریت چھڑا دے
بندیوں کی بیڑی یہ تڑا دے
رنج اور دُکھ قبضے میں ہے تیرے
چین اور سکھ قبضے میں ہے تیرے

مالک رام اپنے مضمون” حالی اور ہندوستانی ادب کے معمار‘’ میں اس نظم پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
          ”انھوں نے کمسن بیوہ کے دکھوں کو محسوس کرکے دل نشیں اور شیریں الفاظ میں ’مناجاتِ بیوہ‘ لکھی۔ وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنھوں نے عورتوں کی مظلومیت کے خلاف آواز اٹھائی اور سماج کو یقین دلایا ہے۔ اس نظم میں کمسن بیوہ کی دردناک داستان جس نے اپنے شوہر کو کھو دیا تھا، بیان کی گئی ہے۔ یہ بیوہ سماج کے ایسے بندھنوں میں جکڑی ہوئی تھی کہ اس کا باہر نکلنا نا ممکن تھا۔ حالی نے اس کے خلاف آواز بلند کی ہے۔“(ص:42)

اس موثر نظم کا اندازِ تخاطب سادہ، صاف ستھرا مگر ذہن کو جھنجھوڑ دینے والا ہے۔ زبان اس طبقے کی روز مرہ کی زبان ہے جس میں ایک بدقسمت عورت اپنی بپتا سنا رہی ہے۔

”چپ کی داد‘’ میں عورت کی مکمل شخصیت کا احاطہ کرتے ہوئے اس کی فطری صفات کا ذکر کیا ہے۔ اس کی محبت و مروت، شرم و حیا، صبر ورضا کی تعریف کرتے ہوئے، قدر و منزلت اور بلندیِ درجات کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔ مذکورہ نظم میں معاشرے کے سامنے آئینہ رکھتے ہوئے حالی سوال قائم کرتے ہیں کہ جب دنیا کی زینت اور قوموں کی عزت خاتون خانہ سے ہے تو پھر اس پر جور و جفا کیوں؟ علم و ہنر کے دروازے اس پر مختصر اور محدود کیوں کر دیے گئے:
جو علم مردوں کے لیے سمجھا گیا آب حیات
ٹھہرا تمھارے حق میں وہ زہر ہلاہل سر بسر

                                                        نتیجتاً
علم و ہنر سے رفتہ رفتہ ہو گئیں مایوس تم
سمجھا لیا دل کو کہ ہم خود علم کے قابل نہ تھیں

                               سمجھانے بجھانے کا کام معاشرے نے اس طرح کیا کہ :
جب تک جیو تم علم و دانش سے رہو محروم یاں
آئی ہو جیسی بے خبر، ویسی ہی جاؤ بے خبر

حالی نے انتہائی حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے وہ بات کہہ دی جو ان سے پہلے شاید ہی کسی نے اس قدر بیباکی سے کہی ہو:
دنیا کے دانا اور حکیم اس خوف سے لرزاں تھے سب
تم پر مبادہ علم کی پڑ جائے پرچھائیں کہیں
ایسا نہ ہومرد اور عورت میں رہے باقی نہ فرق
تعلیم پاکر آدمی بننا تمھیں زیبا نہیں

” چپ کی داد‘’ کا طریقہ حالی نے انوکھا نکالا 
آخر تمھاری چپ دلوں میں اہل دل کے چبھ گئی
سچ ہے کہ چپ کی داد آخر بے ملے رہتی نہیں

نظم کے آخر میں وہ قاری کو مژدہ سناتے ہیں 
جو حق کے جانب دار ہیں بس ان کے بیڑے پار ہیں
بھوپال کی جانب سے یہ ہاتف کی آواز آئی ہے
ہے جو مہم در پیش، دست غیب ہے اس میں نہاں
تائید حق کا ہے نشاں امدادِ سلطانِ جہاں

حالی نے بیداریِ نسواں کی جو شمع 1884میں ”مناجاتِ بیوہ“ کی شکل میں روشن کی تھی یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ اسی سال دہلی سے عورتوں کی تعلیم و تربیت کے پیش نظر”اخبار النساء“ جاری ہوا۔ دو سال بعد ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ جلسے میں شعبۂ تعلیم نسواں کا قیام عمل میں آیا اور مولوی ممتاز علی اس کے پہلے سکریٹری مقرر ہوئے۔1902 میں جب شیخ محمد عبد اللہ کانفرنس کے سکریٹری بنائے گئے تو حالی نے بے حدمسرت کا اظہار کیا۔ حالی کے مشورہ سے ایم۔ اے۔ او۔ کالج کے رسالہ ”علی گڑھ منتھلی“ نومبر1903کا شمارہ ”ہم اور ہماری خواتین“ کے لیے مخصوص کیا گیا۔” تہذیب نسواں“ اور رسالہ ”خاتون“ کے محرک بھی الطاف حسین حالی ہیں۔ اس کا اعتراف مولوی ممتاز علی اور شیخ محمد عبد اللہ دونوں نے کیا ہے۔1905میں شائع ہونے والی ان کی یہ نظم ”چپ کی داد“ رسالہ ”خاتون“ میں ادارتی نوٹ کے ساتھ شائع ہوئی۔ خصوصی توجہ اس جانب چاہتی ہوں کہ مذکورہ نظم کے اختتام میں نواب سلطان جہاں بیگم کا جو دانستہ ذکر آیا ہے وہ اسی لیے کہ بیگم سلطان جہاں اس عہد میں تحریک نسواں کی سب سے بڑی سرپرست تھیں۔

نثر میں حالی نے تعلیم نسواں کے موضوع کو ”مجالس النساء“ کے توسط سے پیش کیا ہے۔ یہ شاہکار تخلیق حالی نے مدرسۃ العلوم کے قائم ہونے سے ایک سال قبل لاہور کے قیام کے دوران لکھی تھی۔ اس کتاب میں پیش کیے گئے خواتین کی تعلیم و تربیت اور بچوں کی نگہداشت و پرورش کے مثبت اور تعمیری انداز فکر کو بہت سراہا گیا۔ ڈائرکٹر سر رشتۂ تعلیم نے اسے نصاب میں شامل کیا۔ گورنر جنرل نے چار سو روپے کا انعام دیا۔ یہ کتاب نہ صرف مشرقی تہذیب و تمدن کی غماز ہوئی بلکہ مغربی افکار و نظریات کے اثرات کا عکس پیش کرنے میں بھی معاون ہوئی۔”مجالس النساء“ میں پست ہمتی کے بجائے حوصلہ مندی اور منافرت کے بجائے مصالحت کو اختیار کرنے کی تلقین ملتی ہے۔ حالی کی اس تصنیف نے واضح کر دیا کہ آنے والا زمانہ جدید علوم و فنون کا ہے اور اس کے فروغ میں نصف آبادی سے گریز ممکن نہیں ہے۔

اپنے وقت کے اس نصحیت نامہ میں ہر عہد میں ترقی کا تصور پوشیدہ ہے۔ اسی لیے حالی کی یہ نثری تصنیف عصر حاضر کے قاری کو بھی متاثر رکیے بغیر نہیں رہتی ہے۔ دو حصوں پر مشتمل” مجالس النساء“ کے نو (9)ابواب ہیں جنھیں مجالس کا نام دیا گیا ہے۔ ایک حصہ ماں اور بیٹی کے گرد گھومتا ہے تو دوسرے حصے میں بیٹے اور ماں کی کشمکش ہے۔ مرکزی کردار زبیدہ ہے جسے اس کے والد خواجہ فضیل نے علم و ہنر سے آراستہ کیا ہے۔ شادی کے بعد وہ اپنے شوہر امجد علی اور بیٹے سید عباس کی ذمہ داری نبھاتی ہے۔ تین سال کی عمر میں ہی سید عباس سایۂ  پدری سے محروم ہو جاتا ہے اور بیوہ زبیدہ اپنے بیٹے کو معاشرے کے سامنے ایک صحت مند، روشن خیال اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ حالی نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ تربیت اسے اپنے روشن خیال والدین سے ملی ہے جس کی دورِ حاضر میں اشد ضرورت ہے۔

ابتدائی چار مجلسوں میں یہ نکتہ اجاگر کیا گیا ہے کہ ماں اگر ذی شعور، سلیقہ مند اور صاحبِ علم ہو تو وہ بچوں میں علم کا ذوق و شوق بھر دیتی ہے ، عقل و شعور سے کام لینے کا ہنر سکھا دیتی ہے اور اس عمل کے لیے کوئی روایتی طریقۂ  کار استعمال کرنا ضروری نہیں بس وقت کی نزاکت کو سمجھنا لازم ہے ۔ بقیہ چار مجلسوں میں لڑکے اور لڑکی کی تخصیص و تمیز کو ختم کرتے ہوئے علم و ہنر کے فوائد کو اس طرح بیان کیا ہے کہ نئے خیالات کو قبول کیے بغیر ترقی کی راہوں پر بآسانی آگے بڑھنا آسان نہیں ہوگا۔

زبیدہ بیگم کے علاوہ مذکورہ ادب پارے میں پانچ اور محترک کردار، محمودہ بیگم، آتو جی( اُستانی)، مریم زمانی، سید امجد علی اور سید عباس کے ہیں۔ پہلی مجلس میں آتوجی کے ساتھ محمودہ بیگم اور اس کی ماں مریم زمانی کی حالات حاضرہ پر گفتگو ہے۔ دوسری مجلں میں توہمات، عقائد اور رسم و رواج پر آتو جی کا بیان ہے۔ تیسری، چوتھی اور پانچویں مجلس میں زبیدہ خاتون اور ان کے بیٹے سید عباس کے حصول علم اور نظام تعلیم پر مدلل جوابات ہیں۔ چھٹی مجلس میں آتوجی، مریم زمانی اور بڑی بیگم کا ملا جلا رد عمل ہے۔ اس حصے میں سید امجد علی کا وصیت نامہ خاصہ اہم ہے کیونکہ تینوں مجلسیں وصیت نامے کے عمل اور رد عمل سے براہ راست وابستہ ہیں۔

قصہ میں رائج بیانیہ سے الگ ہٹ کر مکالماتی انداز میں خواتین کی جو محفل سجائی گئی ہے اس میں بے تکلف گفتگو کا واضح انداز ہے۔ منظر اور پس منطر کو سامنے رکھتے ہوئے سوال وجواب کے توسط سے ایک باقاعدہ پلاٹ ترتیب دیا گیا ہے اور ہر حصے میں اس کا خیال رکھا گیا ہے کہ یہ بات قاری کے ذہن نشین ہوتی جائے کہ ماں پر بچے کی پرورش، نگہداشت اور تعلیم و تربیت کا دارومدار ہے۔ لہٰذا اس کا ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند ہونا ضروری ہے۔ یہ تاکید بھی ہے کہ وہ محض شفقت اور محبت کا ہی اظہار نہ کرے بلکہ ایک جراح اور معلمہ کے فرائض انجام دیتے ہوئے اس میں سختی برتنے کی بھی صلاحیت ہو۔ مکالمہ کے ذریعہ مباحث کو اٹھانے کی روایت مغرب میں مکالمات افلاطون سے چلی آ رہی ہے۔ مشرق میں بھی صوفیاکے ملفوظات میں گفتگو اور تمثیل کے وسائل سے تصوف کے نکات بیان کیے گئے ہیں۔ حالی کی یہ کاوش عام زندگی کے گھریلو معاملات کو موضوع بنا کر ان کی اہمیت واضح کرتی ہے۔

خواتین کو بدلتے ہوئے زمانے کا احساس دلانے کے لیے حالی نے سادہ، سلیس، رواں اور دلکش زبان کا استعمال کیا ہے جب کہ ان کے ہم عصر ڈپٹی نذیر احمد اسی موضوع پر دہلی اور نواحِ دہلی کی ٹکسالی زبان، روز مرہ، محاورے اور کہاوتیں استعمال کرتے ہیں جو آج کچھ اجنبی محسوس ہوتے ہیں مگر یہ اجنبیت حالی کےیہاں نہیں ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
” میں پانچ برس کی تھی جب اماں جان نے مجھے استانی جی کے سپرد کیا۔ اتنی بات تو مجھے یاد ہے۔ ساتویں برس تک میں ان سے فقط قرآن شریف پرھتی رہی۔اس میں پانچ چھ سپارے میں نے یاد کر لیے۔ ابھی پڑھنے لکھنے کی کسی نے زیادہ تاکید مجھ پر نہیں کی تھی۔“ (ص۔ 36)

”میرے نزدیک بچے کو علم پڑھانا اور کڑوی دوا پلانی برابر ہے، اسی لیے جب تک وہ علم کے فائدوں کو نہ سمجھے اس کو تعلیم بھی اسی طرح دینی چاہیے جس طرح گھٹّی کو تھوڑی تھوڑی کرکے پلاتے ہیں اور جس وقت اس کا جی پڑھنے لکھنے سے گھبرانے لگے تو کھیل کود میں اس کا دل بہلانا چاہیے۔“(ص:119)

کردار نگاری کے اعتبار سے دیکھیں تو زبیدہ اور عباس کے کردار خاصے متحرک ہیں۔ خوبی یہ ہے کہ بے جان وصیت نامہ بھی فعال نظر آتا ہے۔ دراصل حالی کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا۔ اسی لیے یہ کردار علم و ہنر کی اہمیت اور افادیت کے لیے نمونے کے طور پر پیش کیے گئے ہیں اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ نئی نسل کو بلندیوں پر پہنچانے میں ماں کے کردار کو مرکزیت حاصل ہے۔

حالی نے محض” مجالس النساء“ میں ہی نہیں ”مناجات بیوہ“ ،”چپ کی داد“ اور ”بیٹیوں کی نسبت‘‘  کو خلق کرتے ہوئے کڑوی، کسیلی اور پیچیدہ باتوں کو بھی سیدھے سادے انداز میں بیان کیاہے جو براہ ِراست دل پر اثر کرتا ہے۔ اصلاحی موضوع کا انتخاب کرنے کے باوجود ان فن پاروں میں انھوں نے جدت پیدا کی ہے۔ واقعات کو اس خوش اسلوبی سے برتا ہے کہ دورِ حاضر میں بھی ان کی معنویت برقرار ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود حالی کی یہ تخلیقات خصوصاً ”مجالس النساء“ آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہے۔ عصر حاضر میں ان تصنیفات کی مقبولیت یہ ثبوت مہیا کرتی ہے کہ علی گڑھ تحریک نے تعلیم نسواں پر بھی خصوصی توجہ دی ہے۔