28/8/17

بی امّاں از ڈاکٹر بانو سرتاج


ہندوستان کے سیاسی اُفق پر نمودار ہونے والی اوّل مسلم پردہ نشین خاتون بی امّاں ہیں۔ وہ اوّل ہندوستانی خاتون ہیں جن کی صدارت میں آل انڈیا خواتین کانگریس ہندوستان کی آزادی پر بحث کرنے کے لیے طلب کی گئی۔ یہ کانگریس30دسمبر1921کو احمد آباد، گجرات میں منعقد ہوئی تھی۔

بی امّاں، علی برادران، مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی کی والدہ ماجدہ تھیں۔ گاندھی جی خود کو بی امّاں کا تیسرا بیٹا کہتے تھے۔ مدن موہن مالویہ وغیرہ کانگریسی رہنما انھیں امّاں کہہ کر ہی تخاطب کرتے تھے۔

بی امّاں کا نام آبادی بانو بیگم تھا۔ 1852میں ان کی پیدائش ہوئی۔ مشرقی روایات کی پروردہ نہایت سلجھے ہوئے روشن خیالات کی خاتون تھیں۔1857میں جب وہ پانچ چھ سال کی تھیں بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری اور رنگون میں جلاوطنی کے بعد بی امّاں کے آبا و اجداد مراد آباد روہیل کھنڈ میں سکونت پذیر ہو گئے۔ ان کے ایک چچا کو، جن کی عمر70سال تھی مرادآباد میں پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔ وہ ایسے وطن پرست تھے کہ اس سزا کو ملک کی طرف سے انعام سمجھا اور خود ہی پھانسی کا پھندا گلے میں ڈال لیا۔ دوسرے چچا فرار ہو گئے۔ پھر ان کا پتہ نہ چلا۔ بی امّاں کے والد نے نام تبدیل کرکے تمام عمر گمنامی میں گزار دی۔

بی امّاں اٹھارہ سال کی عمر میں بیوہ ہو گئی تھیں۔ محمد علی اس وقت صرف دو سال کے تھے۔ انھوں نے بچوں کی پرورش دل و جان سے کی۔ انھیں والد کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ انگریزوں سے نفرت کا جذبہ انھوں نے بیٹوں کی گھٹّی میں شامل کر دیا۔ علی برادران نے جنگ آزادی میں ملک کی جو خدمات انجام دیں۔ ہندوستان کی تاریخ اس کی گواہ ہے۔ وہ کہا کرتی تھیں:” سات سال ہوئے میں نے اپنے بچوں کو خدا کے سپرد کر دیا ہے۔ اللہ ہی اب شوکت اور محمد کی حفاظت کر رہا ہے۔ فرنگی آج تک ان کا ایک ناخن بھی نہیں اکھاڑ سکے لیکن اگر اللہ کی مرضی ہے کہ میرے بچے وطن کی راہ میں قربان ہو جائیں تو بھلا ان کو کون بچا سکتا ہے؟“

وہ جس طرح اپنے بیٹوں کو ملک کے لیے قربان ہونے کا حوصلہ دلاتی تھیں ، فرنگیوں کو ملک سے باہر نکال دینے کے لیے اپنا سب کچھ تج دینے کا سبق پڑھاتی تھیں، وہ سب کو حیرت میں ڈال دیتا تھا۔ ایک وقت تھا کہ راس کماری سے پشاور تک اور کراچی سے آسام تک کی پہاڑیوں میں یہی آواز گونجا کرتی تھی:

بولیں اماں محمد علی ، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
ساتھ تیرے ہے شوکت علی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
ہو تمھیں میرے گھر کا اجالا، تھا اسی واسطے تم کو پالا
کام کوئی نہیں اس سے اعلیٰ ،جان بیٹا خلافت پہ دے دو
اے مرے لاڈلو اے میرے پیارو، اے مرے چاند اے میرے تارو
میرے دل اور جگر کے سہارو، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
صبر سے جیل خانے میں رہنا جو مصیبت پڑے اس کو سہنا
کیجیو اپنی ماں کا کہنا، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
ہتھکڑی تو ہے مردوں کا گہنا، جانگیہ تم نے کمبل کا پہنا
آدھی ٹانگوں سے بالکل برہنہ، جان بیٹا خلاف پہ دے دو
بوڑھی اماں کا کچھ غم نہ کرنا، کلمہ پڑھ کر خلافت پہ مرنا
پورا اس امتحاں میں اترنا، جاں بیٹا خلافت پہ دے دو
گر ذرا سست دیکھوں گی تم کو، دودھ ہرگز نہ بخشوں گی تم کو
میں دلاور نہ سمجھوں گی تم کو، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
میرے بچوں کو مجھ سے چھڑایا، دل حکومت نے میرا دکھایا
اس بڑھاپے میں مجھ کو ستایا، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
میرے بچوں کو پکڑا سفر میں، کس طرح چین ہو مجھ کو گھر میں
خاک دنیا ہے میری نظر میں، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
اب مری حق سے فریاد ہوگی، غیب سے میری امداد ہوگی
میری محنت نہ برباد ہوگی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
ہوتے میرے اگر سات بچے، کرتی سب کو خلافت پہ صدقے
ہیں یہی دین احمد کے رستے، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
کالے پانی خوشی ہوکے جانا، سجدۂ شکر میں سر جھکانا
میں پڑھوں گی خدا کا دوگانہ، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
پھانسی کرتے اگر تم کو جانی، مانگنا مت حکومت سے پانی
بات رکھ لیجیو خاندانی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
دین و دنیا میں پاؤ گے عزت، سب کہیں گے شہید خلافت
اے محمد علی اور شوکت، جان بیٹا خلافت پہ دے دو

بی امّاں کی سیاسی زندگی کا آغاز اُس وقت ہوا جب علی برادران کو قانون تحفظ ہند کے تحت گرفتار کیا گیا۔ مولانا نے اپنے اخبار ’لندن ٹائمز‘ کے ایک اشتعال انگیز مضمون کا جواب دیا تھا۔ انھیں چھندواڑہ میں پہلے نظر بند رکھا گیا پھر بیتول جیل میں قید کیا گیا۔ بی امّاں نے اُس وقت فخر سے کہا تھا:” یہ عزت (قید) اُن لوگوں کے لیے ہے جن کو خدا اپنے مذہب اور اپنے ملک کی خاطر تکلیفیں برداشت کرنے کی طاقت دیتا ہے۔“

بی امّاں نے قومی اتحاد اور ترکِ موالات میں خصوصاً اپنا کردار بخوبی نبھایا۔

28ستمبر1917کو انھوں نے کلکتہ اجلاس میں شرکت کی۔ 24  اگست 1922کو انبالہ میں جلیا نوالا باغ میں لگاتار کئی اجلاسوں میں شرکت کی۔
1920سے1922تک خلافت تحریک میں حصہ لیا۔ پیرانہ سالی کے باوجود سمرنافنڈ کے لیے خاصی بڑی رقم جمع کی۔ گاندھی جی بی امّاں پر بہت بھروسہ کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جیل جاتے ہوئے انھوں نے بی امّاں کو اپنا قائم مقام بنایا تھا۔ ان کی غیرحاضری میں تمام احکامات بی امّاں سے حاصل کیے جاتے تھے۔ گاندھی جی نے خاص طور سے یہ ہدایت دے رکھی تھی کہ بی امّاں کو کبھی گرفتار نہ ہونے دیا جائے۔

30 دسمبر1921کو احمد آباد میں کُل ہند خواتین کا نگریس کی صدارتی تقریر میں انھوں نے کہا تھا:” جو شخص خدا کے ساتھ وفادار نہ ہو وہ کسی بھی حکومت کے ساتھ، جسے انسان نے قائم کیا ہو، وفادار نہیں رہ سکتا۔ ضرورت ہے کہ ہم اپنے مابین اتحاد و اتفاق پیدا کریں۔ تجربے نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ ہمارے ملک میں جو مختلف قومیں اور فرقے آباد ہیں ان میں اتحاد و اتفاق قائم کیے بغیر ہم ملک کو آزاد نہیں کرا سکتے۔“

اس اجلاس میں سروجنی نائیڈو، کستوبار گاندھی، انوسیا بائی، بیگم حسرت موہانی، امجدی بیگم، بیگم مختار احمد انصاری، بیگم سیف الدین کچلو وغیرہ موجود تھیں۔

1922میں بی امّاں نے شملہ کی فیشن ایبل خواتین کو قائل کرکے ولایتی کپڑوں کا بائیکاٹ کرکے کھادی کو اپنانے کے لیے تیار کیا تھا۔ ہوم رول لیگ اور مسز اینی بیسنٹ فنڈ میں بی امّاں نے ماہوار دس روپیہ چندہ دینا قبول کیا تھا۔ یہ فنڈ برطانوی دور میں گرفتار ہونے والے لوگوں کے خاندانوں کی مالی مدد کے لیے قائم کیا تھا۔

بی امّاں کا ایک خواب تھا جس کے لیے وہ زندگی کے آخری لمحے تک لڑتی رہیں۔ وہ کہا کرتی تھیں:” میں نے لال قلعے سے اپنا جھنڈا اترتے دیکھا ہے۔ میری آرزو ہے کہ میں فرنگی جھنڈے کو لال قلعے سے اترتا دیکھوں۔“
13نومبر1924کو بی امّاں کا انتقال ہوا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں