17/6/20

اردو میں رام کتھا مضمون نگار: اجے مالوی






اردو میں رام کتھا
اجے مالوی
تلخیص
سناتن دھرم کا زیادہ تر تبلیغی ادب اردو ہی میں ہے۔ اردو میں رامائن، بھگوت گیتا اور دیگر مذہبی صحیفوں کے ترجمے ہوتے رہے ہیں اور ان ترجموں کی تعداد بھی خاصی ہے۔ رامائن بھی ایک عالمگیرمعنویت و اہمیت کا حامل مذہبی صحیفہ ہے جس کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوتا رہا ہے۔ اردو میں رامائن کے بہت سے ترجمے ہوئے ہیں۔ اردو میں تقریباً دو سو رامائن شائع ہوچکی ہیں۔ سب سے پہلی رامائن گنگا وشن نے 1766 میں تحریر کی تھی جس کا مخطوطہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے مولانا آزاد لائبریری میں محفوظ ہے۔ اردو میں رامائن کو نظم کرنے والوں میں بہت نام ہیں جن میں شنکر دیال فرحت، جوالا پرشاد برق،پنڈت سدرشن کے علاوہ مہدی نظمی، طالب الہ آبادی، نفیس خلیلی، رند رحمانی، محمد امتیاز الدین خان اور صفدر آہ وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ رامائن کو اردو میں بھی اتنی ہی مقبولیت حاصل ہے جتنی دوسری زبانوں میں۔ اردو میں رامائن کی تلاش و تفتیش کا سلسلہ جاری ہے اور بہت سے دلچسپ حقائق بھی سامنے آرہے ہیں۔ اس مضمون میں بھی اردو میں رامائن کے حوالے سے گفتگو کی کوشش کی گئی ہے او ریہ بتایا گیا ہے کہ اردو میں اس کے بہت ہی عمدہ منظوم ترجمے کیے گئے ہیں۔
کلیدی الفاظ
شری رام چندر جی، رامائن، مہابھارت، فادر کامل بلکے، اجودھیا، بال کانڈ، اجودھیا، کانڈ ارنیہ کانڈ، کشکندھا کانڈ، سندر کانڈ، لنکا کانڈ، اتر کانڈ، بالمیکی، ویدویاس، اکبر اعظم، عبدالقادر بدایونی، شہنشاہ جہانگیر، ملا سعداللہ مسیح، رام کتھا، نگارستانِ رام، سناتن دھرم، رانی کیکی، بھرت، سیتاجی، راجہ دشرتھ، کوشلیہ، لچھمن، گوتم رشی، راون، ہنومان، رزمیہ، علامہ اقبال، شر، خیر، صداقت، حسن۔
——————
اس سے قبل کہ اردو میں رام کتھا پر گفتگو کی جائے یہ ضروری ہے کہ شری رام چندر جی کے عہد اور رامائن کے زمانۂ تکمیل کا بھی جائزہ لیا جائے۔
شری رام چندر جی کا زمانہ :
شری رام چندر جی کے عہد پر دانشوروں اور مفکروں کی آرامختلف ہیں۔ بلرام شاستری اپنے مضمون ’بھگوان رام کا جنم کال ایوم کنڈلی ‘ میں لکھتے ہیں:
’’جونس نام کے ایک انگریز دانشور نے شری رام کی پیدائش کا زمانہ 2029 ق۔م مانا ہے۔ دوسرے قدیم دانشور ٹاڈ نے 1100 ق۔م میں شری رام کی پیدائش تسلیم کی ہے۔ ویتھلی نام کے قدیم دانشور نے رام کی پیدائش کا زمانہ 950 ق۔م مانا ہے۔ اسی طرح ولفرڈ نام کے دانشور نے 360ق۔م میں رام کی پیدائش کا زمانہ مانا ہے۔‘‘1؎
مشہور محقق پروفیسر ورج واسی لال نے اجودھیا میں کھُدائی سے دستیاب ہوئی اینٹیں،مٹّی اور دوسری چیزوں کی بنا پر کہا ہے کہ :
’’موجودہ اجودھیا جس جگہ پر ہے اور ٹیلے کی شکل میں گم شدہ اجودھیا آٹھویں صدی سے قبل کی کسی طرح سے بھی نہیںہو سکتی۔ اگر یہی اجودھیا رام کی ہے تو رام کا زمانہ شری کرشن کا زمانہ ثابت ہوتا ہے۔ جب کہ امر واقعہ یہ ہے کہ ہندو روایت کے مطابق رام کے بعد ہی کرشن کا اوتار ہوا ہے اور کرشن ما بعد کے زمانہ دواوپر کے ہیں۔‘‘2؎
ڈاکٹر گجانن شری رام  چندر جی کی پیدائش  کے ضمن میں مختلف دانشوروں و مفکروں کی آرا کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’پرانوں میں ملی خانان الشنا کے مطابق پارٹی جر نے اپنے خیالات پیش کیے ہیں کہ اچھواکو بادشاہوں کی فہرست وایو، برہمانڈ،وشنو، بھاگوت وغیرہ پندرہ پرانوں میں پائی جاتی ہے۔ درج ذیل فہرست میں لکھے بادشاہوں کے نام و تعداد مختلف ہیں۔ اچھواکو خاندان کی امانت مانی جانے والی بالمیکی رامائن میں رام اس خاندان کے 36ویں بادشاہ بتائے گئے ہیں۔ رام کے 23ویں (کچھ لوگوں کے خیال سے 32واں) خاندان کا بادشاہ برہتبل تھا، جس نے مہابھارت کی جنگ میں حصّہ لیا تھا اور جو ابھیمنیو کے ہاتھوں مارا گیا۔ سی۔وی۔ویدیہ کے مطابق جنگ 3101 ق۔م میں ہوئی۔ یہ سال دواپر اور کلجگوں کے سندھی کال کا تھا۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ رام3800 ق۔م اور 4000 ق۔م کے درمیان ہوئے ہوں۔ کچھ لوگ 3102 ق۔م میں رام کی پیدائش مانتے ہیں۔ ان کے مطابق بھارتیہ جنگ 1400 ق۔م میں ہوئی اور رام کا عہد تقریباً 2250ق۔م ہے۔ شری پسالکر 2350 ق۔م سے1950 ق۔م تک کے دور کو رام کا عہد تسلیم کرتے ہیں۔ سر ولیم جونس 2029 ق۔م، کرنل ٹاڈ 1000ق۔م، بیٹلے 1950ق۔م، گوروسیو 13ویں صدی قبل مسیح اور ڈاکٹر پنڈت ونائک در تک نے 7533ق۔م تسلیم کیا ہے۔‘‘3؎
آچاریہ بلرام شاستری شری رام چندر جی کی پیدائش کے عہد کے ضمن میں اپنے خیالات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’سورج،گورو،شنی کے خیال سے پانچوں بلند ستاروں کو شمار کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے اور اس حساب سے شری رام چندر جی کی پیدائش آج سے 1,85,58,071 سال قبل ہوتی ہے۔‘‘4؎
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ شری رام چندر جی کی پیدائش اور ان کے عہد کے سلسلے میں علماء و دانشوروں کی آرامختلف ہیں۔ ان تمام مباحث سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ شری رام چندر جی کی پیدائش تقریباً 3800 ق۔م کے درمیان ہوئی ہوگی۔
رامائن کا زمانۂ تکمیل:
رامائن کب تصنیف ہوئی؟ اس سلسلے میں مفکروں اور دانشوروں کی آرأ مختلف ہیں۔ مشہور محقق فادر کامل بلکے اپنی تصنیف ’رام کتھا‘ میں لکھتے ہیں:
’’بالمیکی نے تقریباً 300 عیسوی قبل اپنی کتاب تخلیق کی۔‘‘5؎
ڈاکٹر ہزاری پرساد دویدی لکھتے ہیں کہ:
’’مہابھارت کو موجودہ شکل چوتھی صدی میں مل چکی تھی۔ رامائن اس سے دو ایک صدی قبل اصل شکل اختیار کر چکی ہو گی لیکن اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ پوری رامائن سبھی
 مہابھارت سے قدیم ہے۔‘‘6؎
ڈاکٹر راج بلی پانڈے لکھتے ہیں کہ:
’’مہابھارت کے بن ہرب میں راموپاکھیان کا بیان کرنے سے قبل کہا گیا ہے کہ راجن !قدیم تاریخ میں جو کچھ واقعہ ہوا ہے۔ وہ سنو۔(ابواب 273 اشلوک 6) اس جگہ پر قدیم لفظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مہابھارت کے دور میں رامائنی کتھا قدیم ہو چکی تھی۔ اسی طرح درون پرب میں درج ہے کہ اَپی چائم پُرا گیتہ اشلوکو بامیکینہ بھووی۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہابھارت کے واقعات سے سیکڑوں سال قبل بالمیکی رامائن کی تخلیق ہو چکی ہوگی۔‘‘7؎
ڈاکٹر کانتی کشور بارتیہ لکھتے ہیں کہ:
’’گوتم بدھ کے اُپدیشوں میں آئی ہوئی کہانیوں کا مجموعہ بودھ جاتک کہانیوں کے نام  سے جانا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک کہانی دشرتھ جاتک رامائن کی کہانی سے کچھ بدلی
 ہوئی شکل میں دکھائی پڑتی ہے۔مہاتما گوتم بدھ کی پیدائش500 عیسوی قبل اور انتقال 480 عیسوی قبل ہوا تھا۔ اس لیے اس وقت کے بودھ جاتکوں میں دشرتھ کا داخل ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ رامائن کی کہانی اس دور میں کتنی مشہور تھی، کہ اس میں ترمیم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ یہ ترمیم ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مہاتما گوتم بدھ کے دور میں رامائن اپنے کسی نہ کسی شکل میں موجودرہی ہو گی اور اس طرح گوتم بدھ کے دور میں رامائن کی تخلیق ہو چکی ہو گی۔ اس طرح رامائن کی تخلیق کا وقت 500 عیسوی قبل ماننے میں ہمیں کوئی اعتراض نہیںہے۔‘‘8؎
ڈاکٹر بھگی رتھ مصرا اپنے مضمون ’بالمیکی رامائن کا وششٹیہ‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’اس کتاب کی تخلیق کا وقت کچھ دانشوروں نے پانچویں صدی عیسوی قبل مسیح اور کچھ نے گیارہویں صدی عیسوی قبل قرار دیا ہے۔ قدیم منظوم ہونے کی وجہ سے قبل مسیح  دو ہزار سال کے آس پاس مانا جاتا ہے۔‘‘9؎
ڈاکٹر کجانن نرسنگھ اپنے مضمون ’رام کے وِودھ روپ‘ میں اپنے خیالات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’بالمیکی رامائن کی تخلیق قبل مسیح کی تیسری و چوتھی صدی میں کی ہوگی۔‘‘10؎
شری رام داس گون لکھتے ہیں کہ:
’’ مہابھارت کے واقعات سے سیکڑوں یا ہزاروں سال قبل بالمیکی رامائن کی تخلیق ہو چکی ہوگی۔‘‘11؎
شری سی۔وی۔ویدیہ لکھتے ہیں کہ:
’’موجودہ دور کی رامائن کو شک سمبت کی پہلی صدی کا تسلیم کیا جانا چاہیے۔‘‘12؎
شری فادر کامل بلکے لکھتے ہیں کہ:
’’رامائن میں مہابھارت کے بہادروں کا بیان نہیں ملتا ہے۔ دوسری طرف مہابھارت  میں نہ صرف رام کتھا کا بیان بلکہ بالمیکی رامائن کا بھی بیان ملتا ہے۔اس سے یہ ظاہر  ہوتا ہے کہ رامائن کے بعد مہابھارت نے اپنی اصل شکل اختیار کی۔ پھر بھی ایک حد تک ہو سکتاہے کہ بھارت یعنی مہابھارت کی قدیم شکل رامائن سے قبل ہوئی تھی۔ پھر بھی قریب قریب سبھی دانشوروں نے رامائن کی تخلیق کا دور بھارت و مہابھارت کے درمیان میں مانا ہے۔‘‘13؎
ونٹر نتز(Winternitz) نے ہسٹری آف انڈین لٹریچر میں ’’رامائن کا عہد تیسری صدی عیسوی تسلیم کیا ہے۔‘‘14؎
مغربی محققین کے حوالے سے فادر کامل بلکے نے رامائن کی تخلیق کے سلسلے میں بحث کی ہے۔ فادر کامل بلکے لکھتے ہیں کہ:
’’اے ڈبلو۔شلے گل نے ’رامائن کی تخلیق کا دور گیارہویں صدی عیسوی تسلیم کیا ہے۔‘‘
جی۔ٹی۔ہوی لر اور بیورکے مطابق ’’رامائن پر یونانی و بودھ اثر مان کر اس کی تخلیق اس کے مقابلے میں قدیم سمجھی جاتی ہے۔ ‘‘ جی گورے سیو کا خیال ہے کہ ’’رامائن بارہویں صدی عیسوی میں تخلیق ہوئی۔‘‘15؎
محمد حسن اپنے مضمون ’رامائن ایک مطالعہ ‘ میں لکھتے ہیں :
’’پیشتر مغربی محققین موجودہ رامائن کو دوسری صدی کے بعد کی تصنیف مانتے ہیں۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اصل رامائن اور موجودہ رامائن کے درمیان صدیوں کا فاصلہ رہا ہوگا۔  یہ امر قابل غور ہے کہ اصل رامائن میں بدھ مذہب کی کوئی بھی جھلک نہیں ملتی ہے۔ چنا نچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اصل رامائن کی تصنیف پانچویں صدی قبل مسیح میں ہوئی ہوگی، مگرڈاکٹر بیور اسے تسلیم نہیںکرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’دشرتھ جاتک‘جو کہ بدھشٹوں کی کتاب ہے۔ رام کہانی پر پہلی کتاب ہے۔‘‘16؎
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ رامائن کے زمانہ تصنیف کے سلسلے میں محققین کی آرا مختلف ہیں لیکن ان مباحث سے ایک بات جو خاص طور سے دکھائی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ مہابھارت جو کہ چوتھی صدی عیسوی قبل منظر عام پر آئی یعنی مہابھارت کی تخلیق ہو چکی تھی۔ اس میں راموپاکھیان کا بیان کیا گیا ہے۔ جب کہ رامائن میں مہابھارت کا کہیں بھی تذکرہ نہیں ملتا ہے۔ اس سے یہ بات پورے طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ مہابھارت سے قبل یعنی چوتھی صدی عیسوی سے قبل رامائن وجود مین آ چکی تھی۔ اس لیے رامائن کا زمانہ تصنیف دوسری و تیسری صدی عیسوی قبل میں تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
اردو میں رام کتھا:
رامائن ہندوستان کا مہابیانیہ (Metanarative) ہے۔ جو ہندوستان کی اجتماعی (Collectively)   تہذیبی اور مذہبی روح کی نمائندگی کرتا ہے۔ سناتن دھر م کی تبلیغ و تشہیر کے لیے رشیوں اور منیوں نے سنسکرت زبان کو اپنایا۔ وید،رامائن اور مہابھارت جیسے مقدّس صحائف سنسکرت زبان میں ہی لکھے گئے لیکن کوئی بھی مذہب زبان کا محتاج نہیں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی کتابیں بہت جلد زبان کے حصار سے باہر نکل جاتی ہیں اور اس کا ترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہو جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ تلسی داس نے رام چرت مانس کی تخلیق اودھی زبان میں تقریباً 1574میں کی، جس میں بھوج پوری اور برج کی بولی کے اثرات نظر آتے ہیں۔ اس کو قلم بند کرنے میں تلسی داس کو دو سال سات مہینے اور چھبیس دن لگے۔ شمالی ہندوستان میں رام چرت مانس کونہایت عقیدت آگیں نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ گھر گھر میں رام چرت مانس کا پاٹھ (تلاوت) ہوتا ہے اور دشہرہ کے خاص موقع پر جگہ جگہ رام لیلا منعقد ہوتی ہیں۔
 ہندوستانی ادبیات میں دو رزمیہ صحائف ہیں۔ایک رامائن اور دوسرا مہابھارت ہے۔ان کی ابدی (Eternal) جمالیاتی (Aesthetic)، قدریاتی(Axiological)، علمیاتی (Epestimological)،  وجودیاتی (Existential)، عرفانیاتی(Ontological)، قدسیاتی(Sacred Most) اور الوہیاتی (Divine Most) معنویت اور قدر و قیمت ہے۔ بالمیکی رامائن سناتن دھرم کا پہلا رزمیہ صحیفہ ہے۔ جو مہابھارت سے قبل دوسری یا تیسری صدی میں وجود میں آ چکا تھا۔اس صحیفہ میں بھگوان شری رام چندر جی کے حالات زندگی کا بیان طویل ترین نظمیہ پیرائے میں کیا گیا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبودکے لیے رام نے سرزمین ہندوستان میں مثال(آدرش) قائم کرنے کے لیے اوتار لیا۔ رام مریادا پرشوتم تھے۔ دشرتھ اور کوشلیہ کے فرمابردار بیٹے تھے۔ رام بھرت، شتروگھن اور لکشمن کے شفیق بھائی تھے۔ رام سیتا کے محبت شعار خاوند تھے۔ رام اجودھیا کے فرض شناس تھے۔ رام جری سپہ سالار  تھے۔رام بے گناہ اور مظلوموں کے دوست تھے۔ رام رحم وکرم کرنے والے تھے اوررام انصاف پسند، غریب پرور اور ایثار و قربانی کی زندہ مثال تھے۔ رام رامائن کے مثالی کردار ہیں۔ انھوں نے عوام کے لیے ایک روشن مثال قائم کی ہے کہ بیٹوں کو  فرمابردا ر، بھائیوں کا باہم برادرانہ پیار و یگانگت،میاں بیوی کے درمیان محبت، وفا او رایثار و قربانی کا جذبہ،بادشاہ کو انصاف پسند، غریب پرور، رحم و کرم نواز ہونا ناگزیر ہے۔ رام نے جو آدرش رامائن میں پیش کیے ہیں وہ صرف کسی ایک خاص فرقہ یا قوم تک محدود نہیں ہیں بلکہ وہ آ فاقی اور عالمگیرکردار کا امین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دُنیا کی تمام زبانوں میںرام کی عظمت کا اعتراف ہوا ہے۔بالمیکی نے سب سے پہلے بھگوان شری رام چندر جی کے حالات زندگی کا بیان عوامی سنسکرت زبان میں نظم کے پیرائے میں کیا ہے۔بالمیکی کے مطابق(بال کانڈ سرگ 4) رامائن میں چوبیس ہزار (24000) اشلوک تخلیق کیے۔ جو پانچ سو سرگوں میں تقسیم تھے لیکن موجودہ دورمیں رامائن کے تین طرح کے متون مروج ہیں۔ اودیچیہ،دکشنالیہ اور پراچیہ(گونڈئی)۔ ان تینوں متنوں میںخاصا فرق ہے۔ ان میں سے کسی بھی متن میں نہ تو چوبیس ہزار اشلوک ہیں اورنہ ہی پانچ سو سرگ ہیں۔ بالمیکی رامائن سات ابواب میں منقسم ہے۔ جو حسب ذیل ہیں:
1۔ بال کانڈ :
بال کانڈ کو آدی کانڈ بھی کہتے ہیں۔ اس باب میں ستی کا موہ، شیوپاروتی کا مکالمہ، رام کی پیدائش، منی وشوامتر کے قربان گاہ کی حفاظت کرنا، دھنش کا ٹوٹنا اور سیتا رام کی شادی وغیرہ کا بیان ملتا ہے۔
2۔اجودھیا کانڈ :
اس باب میں راجیابھشیک کی تیاری،سیتا رام کا مکالمہ، دشرتھ کا انتقال،بھرت اور کیکئی کا مکالمہ اور بھرت کا چترکوٹ سے اجودھیا واپس پہنچنے کا بیان بالمیکی نے کیا ہے۔
3۔ ارنیہ کانڈ :
اس باب میں جینت کی بدی،سیتا اور انوسیا ملن، رام لکشمن اور سیتا کا پنچوٹی میں رہنا، کھردوشن قتل،ماریچ قتل، سیتا ہرن اور شبری پر رحم و کرم کا بیان ملتا ہے۔
4۔ کشکندھا کانڈ :
اس باب میں بالمیکی نے رام ہنومان کا ملن، بالی قتل،رام اور لکشمن کا سیتاکو جنگل میں ڈھونڈھنا اور ہنومان و جامونت کے مکالمے کا بیان کیا ہے۔
5۔ سندر کانڈ :
اس باب میں ہنومان کا لنکا میں داخل ہونا،سیتا اور ہنومان کا مکالمہ، رام کا مع افواج لنکا میں جانا اور وبھیشن کے نجات وغیرہ کا بیان ملتا ہے۔
6۔ لنکا کانڈ:
اس باب میں سمندر پر پُل باندھنا، انگد اور راون کا مکالمہ،لکشمن اور میگھناد جنگ،لکشمن کا بے ہوش ہونا، کمبھکرن کا قتل،میگھناد قتل، راون قتل اور سیتا کے اگنی پریکشا دینے کا بیان بالمیکی نے نظمیہ رنگ و آہنگ میں نہایت افسانوی آب و تاب کے ساتھ کیا ہے۔ 
7۔ اُتّر کانڈ:
اس باب میں بھرت اور ہنومان کا ملن، بھرت ملاپ، رام کاراجیہ بھشیک، رام کا عوام کو نصیحت دینا، گرُن و بھشنڈی کا مکالمہ اور کاک بھشنڈی و لومش کے مکالمے کا بیان کیا گیا ہے۔
تحقیقی نقطئہ نظر سے یہ سوالات نہایت اہم اور معانی خیز ہیں۔کیا بالمیکی رامائن قدیم رامائن ہے ؟ مزید برآں بالمیکی رامائن کیسے وجود میں آئی؟ بالمیکی رامائن قدیم رامائن نہیں ہے۔ بالمیکی رامائن سے قبل’ـــمہارامائن‘ نام کاایک عظیم اور ضخیم رزمیہ صحیفہ ست جگ میں موجود تھا۔ جس کو بھگوان شنکر نے سوایمبھو منونتر سے قبل ست جگ میں اپنی اہلیہ پاروتی کو سنایا تھا۔جس وقت بھگوان شنکر رام کتھا پاروتی کو سنا رہے تھے اس وقت کاک بھشنڈی بھی کیلاش پربت پرموجودتھے۔ انھوں نے بھگوان شنکر کو پاروتی سے رام کتھا کہتے ہوئے سنا۔ پھر کاک بھشنڈی نے گرُن کو رام کتھا سنائی۔ اس مہا رامائن میں تین لاکھ پچاس ہزار اشلوک تھے۔ جو سات ابواب میں تقسیم تھے لیکن موجودہ دور میں یہ مہارامائن اب دستیاب نہیں ہے۔بالمیکی رامائن کے وجود میں آنے کے ضمن میں رامائن کے بال کانڈ میں ایک کہانی درج ہے کہ تمسا کے دکن میں ایک آشرم میں رہنے والے بالمیکی نارد سے رام کتھا کا خلاصہ سن کر اور بعد میں اشلوک کی ایجاد کرکے برہما کے کہنے پر رام کتھا نظم کرتے ہیں اور اپنی اس تخلیق کو لو اور کُش کو سکھلاتے ہیں۔ــ یہ دونوں رامائن کی کہانی کو مختلف جگہوں پر گاتے پھرتے ہیں۔اسی رام کہانی کو اجودھیا کے راج محل میں رام اور اُن کے بھائیوں کو سناتے ہیں۔ اتّر کانڈ کے مطابق سیتا بالمیکی کے آشرم میں لو اور کُش کو پیدا کرتی ہیں۔ وہ بالمیکی سے رامائن سن کر رام کی قربان گاہ (یگیہ کی جگہ) پر سناتے ہیں۔ رامائن سن کر رام سیتا کو بُلواتے ہیں اور بالمیکی سیتا کو لے کر اجودھیا کے راج محل میں سیتا کی پاک دامنی کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔
سنسکرت زبان میں وید ویاس نے مہابھارت کے بن پرب میں راموپاکھیان،کالی داس نے رگھوونش، بھوبھوتی نے اُتّر رام چرت، چھیمیندر نے رامائن منجری، چندبردائی نے پرتھوی راج راسو،کیشو داس نے رام چندرکااور رام پارشو نے شری رام پنچ شتی کی تخلیق کی۔ ہندوستانی زبانوں میں رنگ ناتھ کی رنگ ناتھ رامائن تیلگو زبان میں،ثرلا داس نے اتکل (اُڑیا)زبان میں،گوروگووند سنگھ کی پنجابی زبان میں رامائن، ایک ناتھ نے مراٹھی زبان میں بھاوارتھ رامائن،رامانجم ایشوتچھن نے ملیالم زبان میں ادھیاتم رامائن، تمل میں کمبن نے کمبن رامائن، کُمار بالمیکی نے کنّڑ زبان میں توروے رامائن، بھانوبھگت نے نیپالی زبان میں ادھیاتم رامائن،گردھر نے گجراتی زبان میں گردھر رامائن،کشمیری زبان میں دواکر پرکاش بھٹّ کی کشمیری رامائن، کرتی واس اوجھا نے کرتی واس رامائن بنگالی زبان میں اور اسمیا زبان میں مادھوکندلی نے مادھو کندلی رامائن کی تخلیق کی ہے۔
فارسی زبان میں پہلا ترجمہ اکبرِ اعظم کے حکم سے ایک دیندار مسلمان عبدالقادر بدایونی نے 1589 میں نثر میں کیا تھا۔ اس کے بعد شہنشاہ جہاںگیر کے عہد حکومت میں رامائن کے دو اہم تراجم فارسی زبان میں منظوم ہوئے۔ ایک ملا سعد اللہ مسیح کیرانوی نے کیا تھا، جس میں اشلوک کی تعداد 5407 ہے اور دوسرترجمہ ا گردھر داس نے کیا تھا، جس میں اشلوک کی تعداد 5900ہے۔اس کے علاوہ فارسی زبان میں گوپال نے 1645، چندر امن بیدل نے ایک رام کتھا 1685 اور دوسری رام کتھا ’’نگارستانِ رام‘‘ کے نام سے1693 میں شائع کی تھی۔ جس میں اشلوک کی تعداد  4906ہے۔ امر سنگھ نے 1705میں ’امر پرکاش‘ کے نام سے رام کتھا شائع کی تھی۔ امانت رائے لالپوری نے فارسی زبان میں عظیم رام کتھا کی تخلیق کی تھی۔ اس صحیفے کو ترجمہ کرنے میں مترجم کو پچیس برس لگ گئے۔ اس عظیم صحیفے میں چالیس ہزار اشلوک ہیں۔ 1735میں محمد شاہ رنگیلے کے عہد میں پنڈت سمیر چند نے رام کتھا فارسی زبان میں تخلیق کی۔ اس عظیم صحیفے کو رضا لائبریری رام پور نے تین جلدوں میں شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ فارسی زبان میں رامائن لکھنے والوں میں رام داس مصر،جگن کشور حسن فیروزابادی، منشی بانکے لال زار، مکھن لال ظفر، دیوی داس، ہری ولبھ سیٹھ، رام مہادیو ولی، منشی پرمیشوری ہائے، منشی ہری لال رسوا، موہن سنگھ، آنند دھن خوش اور جئے کشن عشرت وغیرہ خاص طور سے ہیں۔
رامائن اپنی آفاقیت (Universality)کے باعث قومی سرحد کی شکست و ریخت کرتا ہے اور اپنی عالم گیرمعنویت و اہمیت کے سبب دنیا کی مختلف زبانوں میں وقتاً فوقتاً ترجمہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔بیرون ممالک میں بھی رامائن کے ترجمہ خوب ہوئے۔ مثلاً تھائی لینڈ کی رامائن رام کین یعنی رام کیرتی، کمبوڈیا کی رامائن رام کیر، ملیشیا کی رامائن حکایت شری راما، جاوا کی رامائن کاک ون، چین کی رامائن کان سنہوی اور تبّت کی کھیتانی رامائن بہت مشہور ہیں۔
سناتن دھرم کا زیادہ تر تبلیغی ادب اردو زبان میں ہے۔ یہ ذخیرہ اتنا بڑا ہے کہ ہندو مذہب سے متعلق ہندوستان کی دوسری زبانوں کے مقابلے میں اُردو میں ہندو مذہب کا سرمایہ اگر سب سے زیادہ بھی نہیں ہے تو کسی سے کم بھی نہیں ہے بلکہ بیش تر زبانوں سے زیادہ ہے۔ اس وسیع اور بیکراں ادب کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تمام زبانوں کی طرح اردو زبان میں بھی رامائن کے بے بہا تراجم ہوئے۔ اردو کا مزاج ہمیشہ سے ہی سیکولر رہا ہے اور مذہبی رواداری اس کے خمیر میں داخل ہے۔  ہندوشعرا و ادبا کے شانہ بہ شانہ مسلم ادبا و شعرا نے بھی رام کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ جنھوں نے اردو زبان میںنظم، غزل، مثنوی،رباعی،ناول اور ڈرامے کی ہیئت میں رامائن نظم کی ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق اردو زبان میں تقریباً ڈیڑھ سو رامائن اب تک شائع ہو چکی ہیں۔ اردو زبان کی پہلی رامائن گنگا بشن نے 1766میں تحریر کی تھی۔ یہ مخطوطہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مولانا آزاد لائبریری میں محفوظ ہے۔ اس رامائن کو راجا بنارس نے 1852 میں شائع کرایا تھا۔ رامائن کا دوسرا ترجمہ لکھپت رائے مانکپوری نے 1863 میں شائع کیا۔ یہ رام کتھا ایک سو پچاس صفحات پر مبنی ہے۔ منشی جگناتھ لال خوشتر نے   1850 میں رامائن کی تخلیق کی تھی اور اسے سب سے پہلے اودھ کے نواب واجد علی شاہ کو پیش کیا تھا۔ اس رام کتھا کو منشی نول کشور نے لکھنؤ سے 1864  میں شائع کیا تھا۔ منشی شنکر دیال فرحت نے رامائن1764میں منشی نول کشور لکھنؤ نے طبع کی ہے۔  اس رام کتھا کی  اہمیت اورعظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ منشی نول کشور لکھنؤ نے اس رامائن کے سترہ ایڈیشن شائع کیے ہیں۔منشی رام سہائے تمنا نے مختصر اور عظیم دس رام کتھائیں اردو زبان میں تحریر کی ہیں۔ اردو میں رامائن نظم کرنے والوں میں خاص طور پر شنکر دیال فرحت، دوارکاپرساد اُفق، بانکے لال بہاری،جوالا پرساد برق، سورج نرائن مہر،جگنّاتھ خوشتر، ہری نرائن شرما ساحر،پنڈت سدرشن،سورج پرساد تصوّر،بنواری لال شعلہ،بابو لال نبودی،شری سکھ دیو لال، پنڈت لچھمی دتّ، شیو پرساد راحل،منشی رگھوبر دیال،بابو رام سہائی کپور،شیو برت لال ورمن، پنڈت رادھے شیام، نانک چند نانک، بیدی لال چند لال، ستیہ پال بھاردواج، ہیرا لال موریا، شیو ناتھ رائے تسکین،پنڈت میلا رام وفا،منشی جگنّاتھ اطہر، رگھو نندن سنگھ ساحر دھلوی اور منشی رام سہائے تمنّا کے دوش بدوش معاصر ادب کے نمائندہ ادبا و شعرا میںجناب مہدی نظمی،طالب الہ آبادی، نفیس خلیلی، رند رحمانی، محمد امتیاز الدین خاں اور صفدر آہ وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ اکیسویں صدی کے ما بعد جدید تناظر میںرامائن کے معتبر، مستند اور موقر تراجم کی بنیاد پر اثر ہند و پاک میں نت نئے شعری تجربات ہو رہے ہیں۔اس سے کلاسیکی رامائنی ادب کی بیکراں ادبی و شعری مقبولیت اور محبوبیت کا اندازہ ہوتا ہے۔  اس ضمن میں بزرگ اور افضل نامور شعرا میں پنڈت برج نرائن چکبست، سرور جہان آبادی،فراق گورکھپوری سے یہ سلسلہ عمیق حنفی، راج نرائن راز، کمار پاشی، بمل کرشن اشک اورکرشن موہن سے ہوتا ہو ستیہ پال آنند اور صلاح الدین پرویز تک مسلسل قائم ہے۔   
رانی کیکئی کی خواہش تھی کہ اُس کا بیٹا بھرت اجودھیا کی راج گدّی پر جلوہ نشین ہو اور رام چودہ برس کا بنواس بھوگیں۔ مہدی نظمی نے رانی کیکئی کی تصویر کتنی خوبصورتی کے ساتھ کھینچی ہے۔ رانی کیکئی کا راجہ دشرتھ سے ور مانگنا، رام کی فرمابرداری اور راجہ دشرتھ کا بے ہوش ہو کر گرنا بہت ہی کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے      ؎
اک روز ہنس کے کیکئی بولی کہ اے حضور
ہر شخص یاد رکھتا ہے اپنا وچن ضرور
تھا آپ کا یہ قول کہ اے شاہِ نیک خوں
پوری کریں گے آپ مری اک آرزو
دشرتھ یہ بولے اپنا سخن یاد ہے مجھے
جو تم کو دے چکا وہ وچن یاد ہے مجھے
چرنوں کو چھو کے کیکئی بولی بہ احترام
میں چاہتی ہوں آپ سے اے شاہِ نیک نام
جنگل میں گھر سے رام کو بے آس بھیج دیں
چودہ برس کے واسطے بن واس بھیج دیں
یہ آرزو ہے میری کہ اے شاہِ خاص و عام
میرا پسر بھرت کرے شاہی بجائے رام
جاتے ہیں بن کو رام زمانہ ہے سوگوار
ہے بوڑھا باپ دردِ جدائی سے بے قرار
کہتی ہے رو کے ساری رعایا نہ جائیے
چودہ برس کو جانبِ صحرا نہ جائیے
رام رامائن کے مرکزی کردار ہیں۔ اُردو شاعری میں نہ صرف رام کی عظمت، علویت،قدسیت اور الوہیت کا بھرپور اعتراف کیا گیا ہے بلکہ ان سے متعلق دوسرے کرداروں کے احساسا ت، جذبات، اخلاقیات، محسوسات،جمالیات اور اوصاف کی بھرپور شعری ترجمانی کی گئی ہے۔ رام کے بنواس جانے کی خبر جب سیتا کو ہوتی ہے تو وہ گھبرا جاتی ہے اور رام کے پاس پہنچ کر اپنا درد بیان کرتی ہے۔ اس ضمن میں رگھونندن سنگھ ساحر دہلوی لکھتے ہیں       ؎
رام کے بن جانے کا جب علم سیتا کو ہوا
چہرئہ روشن وفورِ غم سے پھیکا پڑ گیا
رام کو کرکے مخاطب اس طرح اُس نے کہا
آپ کے ہمراہ میں بن کی کروں گی یاترا
آپ جائیں گے جہاں میں بھی وہیں پر جاؤں گی
ورنہ گھُل گھُل کر فراقِ دید میں مر جاؤں گی
فرما بردار رام چودہ برس کے بن باس کے لیے اپنی اہلیہ سیتا اور شفیق بھائی لکشمن کے ساتھ جنگل کو رخصت ہوتے ہیں۔ دشرتھ سے اجازت لینے کے بعد رام اپنی ماں کوشلیا کے پاس رخصتی مانگنے جاتے ہیں۔ رام کا ماں سے والہانہ محبّت اور ماں کا بیٹے سے جدائی کا منظر جذبات نگاری کا بہترین نمونہ ہے۔رخصتی کے وقت رام اور کوشلیا کے مکالمہ کی تصویر پنڈت برج نرائن چکبست نے اپنی نظم’رامائن کا ایک سین‘ میں بڑے ہی والہانہ انداز سے پیش کیا ہے۔ اس کی شعری معنویت، سوز و گداز اور ا لمیہ تاثر انگیزی کو ملاحظہ کیجیے    ؎
رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کا نام
راہِ وفا کی منزل اوّل ہوئی تمام
منظور تھا جو ماں کی زیارت کا انظام
دامن سے اشک پونچھ کے دل سے کیا کلام
اظہار بے کسی سے ستم ہو گا اور بھی
دیکھا ہمیں اُداس تو غم ہو گا اور بھی
دل کو سنبھالتا ہوا آخر وہ نونہال
خاموش ماں کے پاس گیا صورتِ خیال
دیکھا تو ایک در میں بیٹھی ہے وہ خستہ حال
سکتا سا ہو گیا ہے یہ ہے شدّتِ ملال
تن میں لہو کا نام نہیں زرد رنگ ہے
گویا بشر نہیں کوئی تصویر سنگ ہے
رو کر کہا خموش کھڑے کیوں ہو میری جاں
میں جانتی ہوں جس لیے آئے ہو تم یہاں
سب کی خوشی یہی ہے تو صحرا کو ہو رواں
لیکن میں اپنے منھ سے ہرگز نہ کہوں گی ہاں
کس طرح بن میں آنکھوں کے تارے کو بھیج دوں
جوگی بنا کے راج دلارے کو بھیج دوں
سن کر زباں سے ماں کے یہ فریاد درد خیز
اس خستہ جاں کے دل پہ چلی غم کی تیغ تیز
عالم یہ تھا قریب کہ آنکھیں ہو ںاشک ریز
لیکن ہزار ضبط سے رونے سے کی گریز
سوچا یہی کہ جان سے بے کس گزر نہ جائے
ناشاد ہم کو دیکھ کے ماں اور مر نہ جائے
رام،سیتا اور لکشمن جنگل جنگل گھومتے ہیں۔ راستے میں انھیں ایک پتھّر کی چٹّان ملتی ہے۔ رام کے پیر جیسے ہی اس پتھر کی چٹان پر پڑتے ہیں۔ وہ چٹّان ایک خوبصورت عورت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ گوتم رشی کی بیوی اہلیہ بہت خوبصورت تھی، راجہ اندر کو جب اس کا علم ہوا، تو اس نے اہلیہ کو دیکھا اور اس پر فریفتہ ہو گیا۔ وہ گوتم رشی کا بھیس بدل کر ان کی کُٹیا میں جاتا ہے۔ رشی روز صبح گنگا نہانے جاتے تھے۔ واپس آکر دیکھا کہ اندر روپ بدل کر کُٹیا سے نکل رہا ہے۔ انھوں نے اہلیہ کو بد دعا دی اور اُسے پتھّر کی چٹّان بنا دیا۔طالب الہ آبادی نے اہلیہ پر رام کی بیکراں شانِ رحمانی، شانِ رحیمی اور شانِ کریمی کا کیمیا اثر جذبات انگیز منظر نامہ نہایت فنّی چابک دستی سے پیش کیا ہے   ؎
اہلیہ پری تھی بڑی سندر تھی
بَری عیب سے تھی گنوں سے بھری تھی
بڑی دلربا تھی بڑی باوفا تھی
وہ سیوا میں رہتی تھی ہر دم پتی کی
کسی نے کہا راجہ اندر سے جاکر
اہلیہ سے کوئی نہیں آج سندر
یہ سن کے کہا راجہ اندر نے اچّھا
کروں گا میں جلدی اہلیہ پر قبضہ
رشی روز جاتے تھے گنگا نہانے
جہاں مُرغ بولا چلے تڑکے تڑکے
ابھی رات آدھی تھی بارہ بجے تھے
رشی لیکن آواز پر اُٹھ کے بیٹھے
رشی جی اِدھر چل پڑے سوئے گنگا
اُدھر راجہ اندر نے بھیس اپنا بدلا
رشی کی صدا میں پکارا ہے جو در پر
اہلیہ یہ سمجھی کہ لوٹ آئے شوہر
کھلا در تو اندر ہوا گھر میں داخل
جو دیکھا پری کو تو ٹھنڈا ہوا دل
مگر ناگہاں ایک بجلی سی چمکی
نہ معلوم کیوں لوٹ آئے رشی جی
جو گوتم نے دونوں کو دیکھا اکٹھّا
ہوا اُن کی آنکھوں میں عالم اندھیرا
رشی جی نے جو دیں بد دعائیں تڑپ کر
اہلیہ ہوئی بس اُسی وقت پتھّر
گورو سے یہ سن کر ہوئے رام مضطر
قدم رکھ دیے اپنے پتھّر پہ بڑھ کر
جہاں پر وہ چٹّان اب تک پڑی تھی
اہلیہ وہیں ہاتھ جوڑے کھڑی تھی
جس عالم میں اُس وقت شوہر تھا اُس کا
اُسی لوک میں بس اہلیہ کو بھیجا
راون کی بہن سوپرنکھا جنگل میں رام سیتا اور لکشمن کو دیکھتی ہے تو وہ رام پر فریفتہ ہو جاتی ہے۔ رام سوپرنکھا سے کہتے ہیں کہ میں تو شادی شدہ ہوں تم لکشمن سے شادی کر لو۔ لکشمن کے منع کرنے پر وہ سیتا پر حملہ کر دیتی ہے، رام سوپرنکھا کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آخر میں رام لکشمن سے کہتے ہیں کہ اس کے ناک اور کان کاٹ لو۔ سوپرنکھا اپنے بھائی کھردوشن کے پاس جاتی ہے۔ کھردوشن اور رام لکشمن میں جنگ ہوتی ہے۔ جس میں کھردوشن مارے جاتے ہیں۔ اس کے بعد سوپرنکھا راون کے دربار میں فریاد کرتی ہے۔اس ضمن میں پنڈت رادھے شیام نے نہایت دل آویز انداز میں کیفیات نگاری کی ہے   ؎
کھردوشن کا ہوا رن میں کام تمام
شوپرنکھا کوپھر کہاں پل بھر وشرام
پڑے تیرے آرام پر اور جام پر خاک
تیرے جیتے جی میری کٹ گئی ناک
بھائی دو لڑکے رام لکھن اس دنڈک بن میں آئے ہیں
اور سنگ میں ایک سیتا نامی سُکماری لائے ہیں
بانکے اور لڑاکے ہیں گویا شمشیر انھیں کی ہے
یوں پنچوٹی میں رہتے ہیں جیسے جاگیر انھیں کی ہے
ناگاہ اُدھر میں نکل گئی اُ س ناری سے ملنا چاہا
اُس سمئے نگوڑے لچھمن نے مجھ سے کچھ چھل کرنا چاہا
تب میں نے تیرا نام لیا سنتے ہی اُس نے دی گالی
پھر میرے کان کتر ڈالے اور میری ناک کاٹ ڈالے
میری ناک گئی سو گئی اب اپنی ناک سنبھالو تم
جگ میں جب اونچی ناک نہیں تو نکٹا نام دھرا لو تم
میرا تو دم اب ناک میں ہے ناکارے تیری دُہائی ہے
میں جتنی رسوا ہوتی ہوں وہ سب تیری رسوائی ہے
راون اپنے ماما ماریچ کی مدد لیتا ہے۔ ماریچ ایک خوبصورت سونے کے ہرن کا بھیس بنا کر رام، سیتا اور لکشمن کے سامنے چوکڑی بھرنے لگتا ہے۔سیتا رام سے سونے کے ہرن کو پکڑ لانے کے لیے کہتی ہے۔ رام ہرن پکڑنے کے لیے جاتے ہیں۔ سیتااور رام کے مکالمہ کو طالب الہ آبادی نے بڑی شاعرانہ اور فنکارانہ لطافت کے ساتھ قلم بند کیا ہے     ؎
مرگ نینی نے جس سمئے دیکھا مرگ کی اور
اسی سمئے رگھوناتھ سے بولی ہیں کر جور
رگھوکل بھوشن دکھ ہرن میرے جیون پران
داسی کی ونتی سنو دین بندھو بھگوان
مرگ ایسا دیکھا نہ سنا جیسا یہ سگھڑ سلونا ہے
دیکھو تو سر سے پاؤں تلک سارا سونا ہی سونا ہے
ہے ناتھ کھال لاؤ اس کی تو کُٹیا کا سنگار ہوگی
سونے کے مرگ کی مرگ چھالا کیا ادبھت یادگار ہوگی
رام کے واپس نہ آنے پرسیتا گھبرا جاتی ہیں۔ سیتا لکشمن کو رام کی مدد کے لیے بھیجتی ہیں۔ لکشمن سیتا کو کُٹیا کے اندر رہنے کی ہدایت کرتے ہیں اور ایک لکیر دروازہ پر کھینچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب تک آپ اس کھینچی ہوئی لکیر کے اندر رہیں گی آپ حفاظت سے رہیں گی اور لکشمن اپنے بھائی رام کو تلاشنے  نکلتے ہیں۔ اسی درمیان راون جوگی کا بھیس بدل کر سیتا کی کُٹیا کے سامنے آتا ہے اور بھیک مانگتا ہے۔ راون سیتا کو لکشمن ریکھا کے باہر آکر بھیک دینے کو کہتا ہے۔ اس سلسلے میں طالب الہ آباد ی لکشمن ریکھا کی مان مریادا اور راون کی فریب دہی کی شاعرانہ نشاندہی کرتے ہیں     ؎
سیتا کی آنکھوں نے دیکھا ایک بوڑھا جوگی آتا ہے
آواز اسی جوگی کی ہے وہ ہی جوگی کچھ گاتا ہے
ہے مائی مجھ کو بھکشا دے مرتبہ ہے اعلیٰ تیرا
بھگوان تجھے جیتا رکھے ہو سدا بول بالا تیرا
یہ سوچ کے جوگی بول اُٹھا ریکھا کے باہر آ مائی
جوگی بابا لیتے نہیں اس طرح بندھی بھکشا مائی
سیتا نے کہا چھما کرئیے میں ریکھا چھوڑ نہیں سکتی
یہ آن ہے میرے دیور کی میں اس کو توڑ نہیں سکتی
ریکھا کے باہر آتے ہی اُس جوگی نے بانا بدلا
راون راون ہو گیا وہیں وہ ٹھاٹھ فقیرانہ بدلا
جنگل میں رام ماریچ کو تیر مارتے ہیں۔ تیر لگتے ہی سونے کا ہرن ماریچ بن جاتا ہے۔ راون سیتا کو رتھ پر بٹھا کر پنچوٹی سے آسمان کی جانب اُڑا کرلے جاتا ہے۔جٹایو سیتا کو آہ و زاری کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ جٹایو راون سے سیتا کو چھوڑنے کے لیے کہتا ہے۔ جٹایو ناکام ہوکر راون سے جنگ کرتا ہے اور بدحواس ہو کر گر جاتا ہے۔رام اور لکشمن سیتا کی جدائی میں در در بھٹکتے رہتے ہیں۔ راستے میں ان کی ملاقات جٹایو سے ہوتی ہے۔جو راون کے حملے سے گھائل اور خون سے شرابور تھا۔ جٹایو رام کو بتاتے ہیں کہ لنکا کا راجہ راون سیتا کو اُٹھا لے گیا ہے۔بھوکے پیاسے رام  اور لکشمن سیتا کے غم میں در بدر تلاش کرتے رہتے ہیں۔ راستے میں انھیں دلت شبری کی کُٹیا ملتی ہے۔ دلت شبری رام سے بے  پناہ والہانہ عقیدت رکھتی ہے۔ رام اور لکشمن کو کھانے کے لیے وہ بیر لاتی ہے اور چکھ چکھ کر بیر اپنے پربھو رام کو کھانے کے لیے دیتی ہے۔ پربھو رام شبری کے جوٹھے بیر کو بڑے ذوق و شوق سے کھاتے ہیں۔ وہ لکشمن سے بھی بیر کھانے کے لیے کہتے ہیں۔ لکشمن بیر کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ شبری کے جوٹھے بیر کھلانے کی تصویر طالب الہ آبا دی نے اپنی مایۂ ناز شعر ی تصنیف ’سیتا رام‘ میں بڑے جذبات آفریں رنگ و آ ہنگ میں پیش کیا ہے۔ جو قابلِ دید ہے     ؎
سُندر پتّوں کے آسن پر اپنے پربھو کو بٹھلاتی ہے
میہمانی کے کچھ بیروں کو ڈلیا میں بھر کر لاتی ہے
پریمکا کا سچّا پریم دیکھ رگھوناتھ جی ہاتھ بڑھاتے ہیں
جھوٹے بیروں کو بیر بیر خوش ہو کر بھوگ لگاتے ہیں
لکشمن تم نے کھایا ہی نہیں دیکھو تو کیسا میٹھا ہے
پاتال سے لے کر سورگ تلک جو ہے وہ اس سے پھیکا ہے
سیتا کو ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے رام اور لکشمن کی ملاقات کشکندھا کے راجہ سگریو سے ہوتی ہے۔ جہاں ان لوگوں کو ہنومان اور جامونت ملتے ہیں۔ سگریو اپنے بھائی بالی کی شکایت رام سے کرتا ہے کہ اس نے اس کی بیوی کو اس سے چھین لیا ہے۔ اس کے بعد رام بالی کا قتل کر دیتے ہیں۔ ہنومان سیتا کی تلاش میں سمندر پار کرکے لنکا پہنچتے ہیں جہاں پر ان کی ملاقات سیتا سے ہوتی ہے اور رام کی انگوٹھی سیتا کو دیتے ہیں۔ جسے پاکر سیتا کو قلبی اور روحانی راحت محسوس ہوتی ہے۔ سیتا بدلے میں اپنی چوڑی بھگوان رام کو بھجواتی ہیں۔سیتا کا ہنومان کو دیکھ کر گھبرانا، ہنومان کا سیتا کو رام کاپیغام دینا اور سیتا کو ہنومان کے انگوٹھی دینے کی تصویرپنڈت رادھے شیام نے اس طرح کھینچی ہے     ؎
بجرنگ بلی نے جب دیکھا ماتا تو مجھ سے ڈرتی ہیں
پیچھے کو ہٹتی جاتی ہیں کچھ بات چیت نہیں کرتی ہیں
تب کہا انھوں نے ہے ماتا اپنے دین و ایماں کی قسم
کرُنا ندھان کا دوت ہوں میں مجھکو اپنی جاں کی قسم
پیارے کی پیاری مندری یہ لایا ہوں بطور نشانی کے
ہاں اچھّے ہیں دونوں بھائی جیون دھارن ہیں بن پانی کے
ہنومان کا اشوک واٹکا میں پھل کھانا، پیڑوں کو درہم برہم کرنا، راون کے دربار میں ہنومان کے آنے کی خبراور ہنومان کا لنکا میں آگ لگانے کا منظر طالب الہ آ بادی نے بڑی انسانی بصیرت اور فنّی چابک دستی سے کرتے ہیں     ؎
اب توہنومان باغ میں آئے
پھل پہ پھل توڑ توڑ کر کھائے
ڈالیوں پر اچک کے کھاتے تھے
پیڑ سے پیڑ پر وہ جاتے تھے
جب کہ اچھے کُمار مارا گیا
تھا جو راون کا لاڈلا بیٹا
باغ میں میگھناد تب آیا
ساتھ تھی اس کے اک بڑی سینا
سب کو ہنومان نے حلال کیا
خون سے پرتھوی کو لال کیا
وہ دیا میگھناد کو مُکّا
بس وہیں اس کو آ گئی مرچھا
کہا راون نے خوب ہنس ہنس کر
کیوں بے بندر تو آ گیا پھنسکر
دونوں میں دیر تک ہوئی تکرار
کہا راون نے سب سے آخر کار
اب کرو بس سزا یہ تم اس کی
مثلِ مشعل جلاؤ دُم اس کی
چیتھڑے خوب دُم میں کس کس کر
تیل مٹّی میں ڈال کر اوپر
آگ لوگوں نے جس گھڑی دے دی
آئی اُ س وقت زور سے آندھی
اب چلے کود کود کر ہنومان
آگ کا شہر میں اُٹھا طوفان
چھت سے چھت پر کود جاتے تھے
آگ ہر گھر میں وہ لگاتے تھے
ہو گئے خاک جل کے لاکھوں گھر
سارے لنکا میں مچ گیا محشر
اسی طرح پنڈت رادھے شیام نے ہنومان کا اشوک واٹکا میں درختوںکو پامال کرنا، پھل کا توڑنا، پھل کا کھانااوراندرجیت و ہنومان کا مکالمہ بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ نظمیہ پیرائے میں بیان کیا ہے۔
جس ڈال پر دیا ہاتھ وہ ڈالی پھر پامال ہوئی
کچّے توڑے پھل ڈالے ہی باٹکا ساری بے حال ہوئی
برکشوں کو پکڑ ہلاتے تھے کلکار مار کر دھاتے تھے
جب ایک کا ناش بناش کریں پُن اور کو جائے ہلاتے تھے
بھر گیا پیٹ اور بھوک مٹی اُتپات مچایا ہنومت نے
وِدھونش باٹکا کر ڈالی برکشوں کو بہایا ہنومت نے
میں اندرجیت کہلاتا ہوں کیا نام تونے سن پایا نہیں
بیریوں کو کر ودھونش دیوؤںکیوں تم کو ہوش کچھ آیا نہیں
تو مچھر ہے مم درشٹی میں بل تجھے دکھا کر کیا لوں گا
جب دیو راج کو جیت چکا تو تم کو پھر کیا سمجھوں گا
یدی دیکھنا بل میرا چاہتا ہے تو راون کو بھی بلوا لے
باپ اور بیٹا مل کر دونوں بل بکرم میرا ازما لے
میں سیوک ہوں رگھورائی کا کیا نہیں جانتانام میرا
پربھو کرپا سے ہننا تم کو کیول ہے ادنا کام میرا
اس کے بعد ہنومان جی سمندر پار کرکے بھگوان رام کے پاس جاتے ہیں۔ ماتا سیتا کا پیغام رام کو دیتے ہیں۔ رام لکشمن، ہنومان،سگریو،جامونت اور انگد وغیرہ کی مدد سے پُل باندھتے ہیں اور فوج لے کر لنکا پہنچتے ہیں۔ وبھیشن اپنے بھائی راون کو بہت سمجھانے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ ناکام رہتا ہے۔ راون وبھیشن کو بے عزّت کرکے دربار سے نکال دیتا ہے۔ وبھیشن رام کے پاس پہنچتاہے۔ رام اس کی بڑی عزّت کرتے ہیںاور اسے اونچا مرتبہ دیتے ہیں۔ لنکا فتح کے بعد وبھیشن کو لنکا کا راجہ بنا دیتے ہیں۔ راون کا بیٹا میگھناد بڑا بہادر تھا۔ میگھناد اور لکشمن کی جنگ ہوتی ہے۔ جس میں لکشمن بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ رام بھائی کے غم میں آہ و زاری کرتے ہیں۔ فریاد کرتے ہیں۔ بید راج کے کہنے پر ہنومان کشکندھا پہاڑ پر جاتے ہیں۔ وہ بوٹی کو پہچان نہیں پاتے ہیں تو پوراپہاڑ ہی اُٹھا لاتے ہیں اور لکشمن کو دوبارہ زندگی نصیب ہوتی ہے۔ اس ضمن میں طالب الہ آبادی فرماتے ہیں     ؎
بوٹی لانے کو جب چلے ہنومان
تب اُٹھا دشمنوں میں اک طوفان
کالنومی کو بھیجا راون نے
جاکے جنگل میں راستہ روکے
بن میں ہنومان جس گھڑی آئے
پیا س سے تھے بہت وہ مرجھائے
بوٹیوں سے بھرا تھا وہ پربت
پتّیوں سے لدا تھا وہ پربت
بوٹی ہنومان نے نہ پہچانی
تب تو چٹّان ہی پڑی لانی
لائے اس شان سے جو وہ بوٹی
ہوئے چنگے ترنت لچھمن جی
دھیرے دھیرے اس عظیم جنگ میں کنبھکر ن جیسا بہادر اور راون کے سارے دلاور بیٹے مارے جاتے ہیں۔ مندودری اپنے شوہر راون کو آخری وقت تک سمجھانے کی کوشش کرتی ہے اور کہتی ہے کہ سیتا رام کو واپس کر دے لیکن راون انتہائی مغرور، ضدّی، سرکش اور ظالم تھااور وہ خود کو انتہائی انانیت کے باعث ناقابلِ تسخیر سمجھتا تھا۔ اس کے مزاج میں انتہائی درجہ کا اضطراب اورتحرک تھا۔ اس کا ہرانانیت بھرا عمل جوشِ تحرک، جوشِ تموّج اور جوشِ تلاطم سے بھرا ہوا تھا۔ جس کے باعث اس کے تمام شر آگیں اعمال عدمِ توازُن اور گناہ کی جانب مرکوز ہو جاتے تھے۔ وہ اپنی دُنیاوی دولت (سونے کی لنکا) پر بیحد نازاں اور فخرکُناں تھااور روحانی دولت سے مالامال رام کو انتہائی حقارت سے دیکھتا تھا۔ رامائن میں رام اور راون کی جنگ کی عکاسی نہایت جمالیاتی اور اقداری آن بان شان سے کی گئی ہے اور یہ بنیادی طور پر نیکی اور بدی کا ابدی رزمیہ ہے۔ رامائن میں میدانِ دین(دھرم کشیتر) کی فتح اورانانیت آگیںاور شر آگیں عمل کے میدان(کرم کشیتر) کے شکست کی ترجمانی کی گئی ہے۔  اس لیے غلط اور منفی ذہنی رویہ اور منفی عوامل کی وجہ سے راون کو شکستِ فاش نصیب ہوئی۔ یہ ایک طرح سے بنیادی انسانی اور روحانی اقدار کی غیر انسانی،شیطانی اور ابلیسی عناصر اور اقدار پر فتح کی علامت ہے۔ رامائن بنیادی طور پر میدانِ دین اور شیطانی میدانِ عمل کے درمیان رزم کا فنّی اور جمالیاتی آئینہ خانہ ہے۔ رام کے ساتھ جتنے بھی معاون کردار ہیں۔ وہ تمام اچھّائی، سچّائی اور بھلائی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ وہ سب تمثیلی کردار ہیں لیکن یہ جیتے جاگتے کردار ہیں۔ وہ نظر یاتی کٹھپتلی نہیں ہیں۔ یہی بالمیکی کا عظیم تر انسانیاتی اور حسنیاتی کارنامہ ہے۔ اس کے برعکس راون کے ساتھ جتنے بھی معاون کردار ہیں، وہ بھی منفی جذبات و احساسات کے نمائندہ تو ہیں لیکن وہ بھی جیتے جاگتے کردار نظر آتے ہیں۔ ان کی نفسیاتی ترجمانی رامائن میں نہایت ہی زندہ اور دھڑکتے ہوئے انداز میں نظر آتی ہے۔ رام کے معاون کردار صداقت پرور ہیں۔ اس کے بر عکس راون کے معاون کردار ہوش اور صداقت سے بے نیاز، غیر متحرک کردار ہیں۔ گو بذات خود راون نہایت اضطرابی اور حرکی قوت اور طاقت کا نمائندہ ہے لیکن اُس میں آدرشی معراج کی طرف بلند پروازی کا ذرا سا شائبہ بھی نہیں ملتا ہے۔ اس کے بر عکس رام، ہنومان، سیتا اور لکشمن میں صعودی اور عمودی کیفیت ملتی ہے۔ جو ان کو آدرشی بلندی کے معراج کی طرف مسلسل بلند پروازی کے لیے مائل کرتی ہے۔ اسی لیے تمام عینی کردار ہر عہد میں اعلیٰ ترین انسانی اور روحانی اقدار کی روشن علامت رہے ہیں اور وہ ہر زمانے میں قابلِ تقلید رہے ہیں۔رامائن بنیادی طور پر ظلمت پسند صفت، قوت اور ملکہ کی ترجمانی سے آگے بڑھ کر حرکت پسند، قوت،طاقت اور ملکہ کی بھی عکّاسی کرتی ہے لیکن ان دونوں منفی قوتوں کی جہت زمینی اور اُفقی سطح(Horizental Plane) پر ہوتی ہے اور قدرتی طور پر وہ سچ کے بجائے جھوٹ، نیکی کے بجائے بدی، حسن کے بجائے بد صورتی، توازُن کے بجائے عدمِ توازُن کی طرف فطری طور پر راغب ہوتے ہیں۔ ان دونوں کے بر خلاف روشن، فَروزاں اور منور صداقت پسند صفت، قوت اورملکہ کی بھرپور طور پر عینی نمائندگی کی گئی ہے۔ جو قدرتی طور پر صعودی سطح (Vertical Plane)  پرمائلِ پرواز ہوتے ہیں۔  صداقت کے علمبرداررام اورانانیت اور شر کے نمائندہ راون کے درمیان جنگ و پیکار کی مصوّری نہایت حقیقت آفریں رنگ و آہنگ میں پنڈت رادھے شیام نے کی ہے۔جو اُردو اسلوب میں ہندوی روح کی بھی ترجمانی کرتے ہیں     ؎
ایک ہی بان سے راون کے دس مستک کٹتے جاتے ہیں
پر اُسی ایک چھن کے اندر پھر ویسے ہی دکھلاتے ہیں
انتریامی ہیں ودت تمہیں نابھی میں امرت ہے راون کے
اس لیے پربھاؤ نہ کرتے ہیں اُس کھیل پر بان جناردن کے
وہ استر شستر چھوڑتا رہا پربھو ان کو کاٹ گراتے رہے
کھیلتے رہے خود لیلیٰ دھر کھل کو بھی کھیل کھلاتے رہے
انت میں دیو گن بول اُٹھے اس کھل کا نام مٹاؤ پربھو
دیو کا تراس مٹاؤ پربھو دھرتی کا بھار گھٹاؤ پربھو
رام نے اسی چھن ایک بان مارا اُر میں دشکندھر کے
پرتھوی پر لوٹنے لگے اُس مہابیر بھٹ نشچر کے
لنکا میں ہاہاکار مچا دیوؤں میں جئے جئے کار ہوا
جئے ہوئی رام رگھورائی کی وہ مہا ادھم سنہار ہوا
لنکا فتح کرنے کے بعد رام، لکشمن اور سیتا اپنے تمام رفیقوں اوراحباب کے ساتھ اجودھیا واپس لوٹتے ہیں۔رام کے کہنے پر چودہ برس تک بھرت نے رام کی کھڑاؤں گدی پر رکھ کر اجودھیا پر راج کیا۔ رام کے اجودھیا واپس آنے پر رام کا راجیابھشیک ہوتا ہے۔ رام اجودھیا کی گدّی پر بیٹھتے ہیں اور حکومت کرتے ہیں۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد بیکراںوفا، ایثار اور فرض کی مثالی دیوی سیتا پر ایک دھوبی کے بیجاالزام لگانے پر رام اُس زمانے کے رسم و رواج کے مطابق انھیںجنگل میں چھوڑ آنے کے لیے لکشمن کو بھیجتے ہیں۔ جہاں جنگل میں سیتا بالمیکی کی کُٹیا میں پناہ لیتی ہیں اور وہیں پر لو اور کُش پیدا ہوتے ہیں۔ رام اشومیدھ یگیہ کرتے ہیں۔ یگیہ کے دوران گھوڑا چھوڑا جاتا ہے۔ لو اور کُش رام کے گھوڑے کو پکڑ لیتے ہیں۔ جہاں لکشمن اور لوکُش سے جنگ ہوتی ہے۔ جنگ کے دوران سیتا لکشمن کو دیکھتی ہیں۔ وہ دونوں راج کُماروں کو لکشمن سے ملواتی ہیں۔ سیتا اور لوکُش اجودھیا لائے جاتے ہیں۔ پھر سیتا کو اپنی پاک دامنی کا ثبوت پیش کرنے کے لیے اگنی پریکشا دینی پڑتی ہے۔ سیتا جی اگنی پریکشاسے کامیاب گزرنے کے بعد ناری لجّا اور سمّان کے باعث دھرتی میں سماجاتی ہیں۔ بعد میں رام لو کو کُشواتی اور کُش کو شراوستی کا راجہ بنا دیتے ہیں۔ سیتا کی اگنی پریکشا کا بیان پاکستانی شاعرہ زہرہ نگاہ نے بڑی ہی فنی بصیرت اور فنی لطافت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں      ؎
سیتا کو دیکھے سارا گاؤں آگ پہ کیسے دھرے گی پاؤں
بچ جائے تو دیوی ماں ہے جل جائے تو پاپن
جس کا روپ جگت کی ٹھنڈک اگنی اس کا درپن
سب جو چاہیں سوچیں سمجھیں لیکن جو بھگوان
وہ تو کھوٹ کپٹ کے بیری وہ کیسے نادان
اگنی پار اتر کے سیتا جیت گئی وشواس
دیکھا دونوں ہاتھ بڑھائے رام کھڑے ہیں پاس
رامائن دنیا کے عظیم رزمیہ(Epic)ادب میں ایک خصوصی معنویت، قدر و قیمت اور آفاقی اہمیت کا امین ہے۔رام میدانِ دین کے علمبردار ہیں۔ انھوں نے تمام انسانی اور روحانی اقدار کا بھرپور تحفظ کیا اور وہ بنیادی طور پر میدانِ دین کے مرکزی کردار تھے اور ان کا حریف راون انانیت زدہ میدانِ عمل کا نمائندہ تھا۔ یہ دونوں رامائن کے مرکزی تمثیلی اور علامتی کردار ہیں۔ رامائن میں زندگی اور زندگی کی تمام قدروں کو سیاہ اور سفید رنگ و آہنگ میں دیکھا گیا ہے۔ رام بنیادی طور پر صداقت، خیر اور حسن کے نقیب ہیں یا دوسرے لفظوں میں صداقت، ہوش و آگہی اور روحانی سرمدی،نشاط و انبساط کی روشن فروزاں اور منور تمثیل ہیں۔ راون ان کے بر خلاف شر (برائی) کی تمثیل ہے۔ وہ زندگی کے تمام منفی اقدار کا ترجمان ہے۔رام اور راون کی جنگ در حقیقت انسانی اور روحانی دولت اور ابلیسی،شیطانی اور دنیاوی دولت کے جنگ کی نمائندہ ہے۔ بالآخر انسانی اور روحانی دولت کی جیت ہوتی ہے۔ جو در حقیقت صداقت اور خیر کی جیت ہے۔ آخر میں اُردو کے عظیم ترین شاعر علامہ اقبال کے ان اشعار پر میں اپنی بات ختم کرتا ہوں      ؎
لب ریز ہے شرابِ حقیقت سے جامِ ہند
سب فلسفی ہیں خطّۂ مغرب کے رام ہند
یہ ہندیوں کے فکرِ فلک رس کا ہے اثر
رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بامِ ہند
اعجاز اُس چراغِ ہدایت کا ہے یہی
روشن تر از سحر ہے زمانے میں شامِ ہند
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند
حواشی:
1۔          شری بلرام شاستری : بھگوان رام کا جنم کال ایوم کنڈلی، رسالہ کلیان ’شری رامانک نمبر‘ 1946،ص 339
2۔           ورج واسی لال : رسالہ آج کل (ہندی) اکٹوبر   1985 ص 34
3۔          ڈاکٹر گجانن نرسنگھ  : رام کال (مضمون)، آر۔ پی۔ترپاٹھی : رام کتھا وودھ آیام (مجموعہ) ،ص 89    
4۔           بلرام شاستری : بھگوان رام کا جنم کال ایوم کنڈلی، رسالہ کلیان’شری رامانک نمبر‘  1946،ص 339
5۔          فادر کامل بلکے : رام کتھا،ص 35
6۔          ہزاری پرساد دویدی: ہندی ساہتیہ کی بھومکا، ص 171
7۔          راج بلی پانڈے : ہندو دھرم کوش،ص 557
8۔          کانتی کشور : رامائن اور مہا بھارت میں پرکرتی، ص 18
9۔          بھگی رتھ مصرا : بالمیکی رامائن کا ویششٹیہ (مضمون)،آر۔پی۔ ترپاٹھی : رام کتھا کے وودھ آیام (مجموعہ)، ص 82
10۔        گجانن نرسنگھ : رام کتھا کے وودھ آیام (مضمون)، آ ر۔ پی۔ ترپاٹھی : رام کتھا کے وودھ آیام (مجموعہ)،ص  87
11۔       رام داس گون : ہندوتو، ص  129
12۔        سی۔وی۔ویدیہ : مہابھارت میمانشہ، ص 16
13۔       فادر کامل بلکے : رام تکھا، ص 41
14۔        ونٹر نتز : ہستری آف انڈین لٹریچر (جلد اول)، ص 500 اور 517
15۔       فادر کامل بلکے : رام کتھا، ص 35
16۔       محمد حسن : رامائن ایک مطالعہ (مضمون)،ہندوستانی مذاہب نمبر 1993،ص  71


Dr. Ajay Malvi
1278/1 Malviya Nagar
Allahabad - 211003 (UP)
Mob.: 9451762890

سہ ماہی فکر و تحقیق، اپریل تا جون2020


تازہ اشاعت

بیتال پچیسی اور سنگھاسن بتیسی، مضمون نگار: یاسمین رشیدی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 بیتال پچیسی کو 1803/1805 میں مظہر علی خاں ولا نے اردو میں منتقل کیا تھا۔ اس سے پہلے یہ کہانیاں راجا جے سنگھ سوائی...