14/3/19

شبلی نعمانی: بحیثیت تنقید نگار: نورفاطمہ



علامہ شبلی نعمانی اردو تنقید کے ان بنیاد گزاروں میں سے ایک ہیں جن کو الطاف حسین حالی کے بعد اردو تنقید اور شعریات کے سب سے نمایاں نظریہ ساز نقاد کا نام دیا جا سکتا ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں تنقید ہمارے سامنے ایک مستحکم روپ میں ابھرتی ہے اور تذکروں کی تنقید (جس کو تنقیدی شعور کے آغاز کا نام دینا زیادہ مناسب ہو گا)۔ کے دائرۂ کار سے باہر نکلتی ہے۔ اس کا سہرا سب سے پہلے مولانا الطاف حسین حالی اور اس کے بعد علامہ شبلی نعمانی کے سر بندھتا ہے۔ حالی نے (1893) میں مقدمہ شعرو شاعری لکھ کر ادبی دنیا میں ہلچل پیدا کی۔ آج بھی ان کے وضع کر دہ اصولوں کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا جا تا ہے۔ اس کے بعد شبلی نے بیسویں صدی کے آغاز میں ہی تقابلی تنقید کا ایک اور نیا رخ موازنۂ ا نیس و دبیر (1907) لکھ کر پیش کیا۔ الطاف حسین حالی اور شبلی نعمانی سے قبل اگر کوئی نقاد اردو میں نمایاں نظر آتا ہے تو وہ محمد حسین آزاد ہیں مگر آزاد کو شعرائے اردو کے تذکروں کے بعد اردو تنقید کے باقاعدہ آغاز سے قبل ایک ایسے ادبی تاریخ نویس کا نام دیا جانا چاہیے جس نے تذکروں کی اصطلاحات سے آگے بڑھ کر بعض تنقیدی تصورات کی وضاحت کا فریضہ انجام دیا۔ چونکہ ان کا تنقیدی اسلوب زیادہ دو ٹوک نہیں اور ان کی تنقیدی زبان پر بھی انشا پردازی کا غلبہ نظر آتا ہے اس لیے ان کو حالی اور شبلی کی برابری کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ ان ہی کی طرح اس زمانے میں امداد امام اثر نے بھی جو تنقیدلکھی وہ بھی شبلی اور حالی کے دوٹوک انداز و اسلوب کا درجہ حاصل نہیں کر پائی۔شبلی نعمانی کی تنقید نگاری کا جائزہ لینے کی غرض سے تنقید کے بارے میں ان کی دو بنیادی کتابوں موازنۂ ا نیس و دبیراور شعر العجم کا ذکر نا گزیر ہے۔ موازنہ کے ذریعے شبلی نے تنقید کو محدود دائرے سے نکال کر مغرب کے بالمقابل کر دیا وہ اس لیے کہ مغرب میں تو تقابلی تنقید کا چلن عام تھا مگر اردو میں تقابلی تنقید پر پہلی کتاب شبلی کی موازنۂ انیس و دبیر ہی سامنے آتی ہے۔اس کتاب کے منظر عام پر آتے ہی شبلی نے اپنی تنقیدی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوالیا۔ مرثیہ نگاری کے دو بڑے اور نمائندہ فن کار انیس و دبیر کے درمیان موازنہ کر کے شبلی نے ادب کو ایک نیا نقطۂ نظر دیا۔ آج بھی شبلی کی یہ کتاب تنقیدی میدان میں استناد کا درجہ رکھتی ہے اور اہل علم انیس و دبیر کو موازنہ کے سیاق و سباق میں رکھ کر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شعر العجم کی چوتھی جلد بھی ان کا تصورِ شعر، تنقیدی شعور اور اس کے علاوہ ادبی بصیرت قاری کو اپنی گرفت میں لیے بغیر نہیں رہتی۔ یوں تو شعر العجم کی پانچ جلدوں میں فارسی شاعری کی تاریخ ملتی ہے مگر چو تھی جلد کے پہلے حصہ میں تنقیدی اصول و نظریات سے بحث کی گئی ہے جو کہ نظری تنقید کے اعلیٰ نمونے قرار دیے جا سکتے ہیں۔ تنقید کے اصول و ضوابط ا ور نظریاتی مسائل کا اس طرح جائزہ لیا گیا ہے کہ وہ فارسی کے ساتھ ساتھ اردو شاعری کی پرکھ اور محاسن کی شناخت کا وسیلہ بن جاتے ہیں شبلی کے یہاں مشرقی شعریات کا اثر گہرا دکھائی دیتا ہے۔ شبلی کی تنقیدی تصانیف کے ذریعے یہ بات سامنے آتی ہے کہ شعر و سخن کی پرکھ کے سلسلے میں بنیادی باتیں موازنہ میں موجود ہیں اور ان کی مزیدو ضاحت شعر العجم کی چوتھی جلد میں ملتی ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہو تا ہے کہ شعر العجم میں مو جود شعریات اور تنقیدی تصورات سے پہلے ہم موازنۂ ا نیس و دبیرکے مباحث پر ایک نگاہ ڈال لیں۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ موازنہ میں انیس و دبیر کے شاعرانہ کمالات کو پیش کیا گیا ہے۔ اور ان کی ادبی قدرو قیمت متعین کر نے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کتاب کے بیشتر حصے میں انیس کی شاعرانہ خوبیوں پر تفصیلی بحث ملتی ہے۔ہر اعتبار سے دبیرکے مقابلے ا نیس کا مر تبہ بلند دکھا یا گیا ہے۔ اس لیے اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد مخالفت کا بازار گرم رہا اور شبلی پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ دبیر کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے۔ دیکھا جائے تو یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کہ انیس کے مقابلہ دبیر کے کلام کا تجزیہ اس کتاب میں کم ملتا ہے۔ مگر اس کے باوجود شبلی نے جگہ جگہ دبیر کی علمیت، قوت اختراع، اور مضمون آفرینی کا اعتراف بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ دبیر کے کلام میں تشبیہات و استعارات کی ندرت و جدت کا ذکر بھی ملتا ہے۔مگر شبلی چونکہ اپنا سارا زور فصاحت و بلاغت پر صرف کر دیتے ہیں اس لیے انیس کے مقابلے انھیں دبیر کا کلام قدرے پھیکا اور کم حیثیت نظر آتا ہے۔ موازنہ میں فصاحت کی تعریف بہت جامع اور منظم انداز میں کی گئی ہے۔ شبلی نے اس انداز سے فصاحت کی تعریف کی ہے کہ آوازوں کے ذریعے الفاظ کے فصیح اور غیر فصیح ہونے کا فرق ہمارے سامنے نمایاں ہوکر آجاتا ہے۔ اسی روشنی میں شبلی نے میر انیس اور مر زا دبیر کے کلام کو پرکھنے کی کوشش کی اور مثالوں کے ذریعے یہ صاف کر دیا کہ فصاحت کی عمدہ مثالیں میر انیس کے کلام میں کس طرح پائی جاتی ہیں۔ انھوں نے دونوں شاعروں کے مصرعوں یا شعروں کو سامنے رکھ کر یہ بات واضح کی ہے کہ انیس کا کلام دبیر کے مقابلے میں زیادہ فصیح معلوم ہو تا ہے۔مثال کے طور پر یہ مصرعے دیکھیے:
کس نے نہ دی انگو ٹھی رکوع وسجود میں 
مرزادبیر
سائل کو کس نے دی ہے انگوٹھی نماز میں 
میر انیس
شبلی فصاحت پر مزید بحث کر تے ہوئے لفظ کے فصیح ہونے کو کافی نہیں سمجھتے اور اس کی ترتیب و تناسب یاساخت و ہیئت پر زوور دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’کلام کی فصاحت میں صرف لفظ کا فصیح ہو نا کافی نہیں، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ جن الفاظ کے ساتھ وہ ترکیب میں آئے ، ان کی ساخت، ہیئت، نشست، سبکی اور گرانی کے ساتھ اس کو خاص تناسب اور توازن ہو ورنہ فصاحت قائم نہ رہے گی‘‘۔
(موازنۂ انیس و دبیر، مر تبہ فضل امام،ص، 45)
شبلی نے فصاحت کے ضمن میں ترتیب و تناسب کو بھی اہمیت دی ہے۔ اس روشنی میں شبلی نے میر انیس کے کلام سے متعدد مثالیں پیش کی ہیں یہاں ایک دو مثال کا ذکرنا گزیر معلوم ہوتا ہے۔
کھا کھا کے او س اور بھی سبزہ ہرا ہوا 
***
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
شبلی کا ماننا ہے کہ اوس اور شبنم دونوں لفظ فصیح ہیں لیکن اگر میر انیس اوس کے بجائے شبنم اور شبنم کی جگہ اوس کا لفظ استعمال کرتے تو فصاحت باقی نہیں رہتی۔ اس لیے لفظوں کے انتخاب میں تو ازن اور تناسب دیکھنا بے حد ضروری ہے۔ لفظوں میں معمولی الٹ پھیر کے ذریعے کلام میں جو فرق پیدا ہوتا ہے اسے ذیل میں دی جارہی مثال سے بہ آسانی سمجھا جا سکتاہے۔میر انیس نے حضرت علی اکبر کے اذان دینے کی تعریف اکثر جگہ کی ہے۔ ایک جگہ اس بات کو اس طرح ادا کرتے ہیں۔
تھا بلبل حق گو کہ چہکتا تھا چمن میں 
ایک دوسرے موقع پر کہتے ہیں:
بلبل چہک رہا تھا ریاض رسول میں 
دونوں مصرعوں کا مضمون ایک ہے مگر لفظوں کے الٹ پھیر نے واضح فرق پیدا کر دیا ہے۔ ان تمام مثالوں کے ذریعے شبلی کے وسیع مطالعہ باریک بینی اور ناقدانہ بصیرت کے سبب ہمیں قدم قدم پر ان کے گہرے تنقیدی شعور کا قائل ہو نا پڑتا ہے۔بلاغت پر بھی شبلی پر معنی انداز میں بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔بلاغت کے لیے ضروری ہے کہ کلام فصیح ہو۔عام طور پر یہ خیال تسلیم کیا جا تا ہے کہ جس کلام میں دوسروں تک پہنچنے کی جتنی صلاحیت ہو گی وہ اتنا ہی بلیغ ہوگا۔شبلی بلاغت کو اس طرح سمجھتے ہیں:
’’بلاغت کو الفاظ سے چنداں تعلق نہیں، محض مضامین کو بھی بلیغ یا غیر بلیغ کہا جا سکتاہے۔ بلاغت الفاظ در حقیقت بلاغت کا ابتدائی درجہ ہے۔ اصل اور اعلیٰ درجے کی بلاغت معانی کی بلاغت ہے۔‘‘ 
(موازنۂ انیس و دبیر، مر تبہ فضل امام ، ص59-60)
شبلی نے مثالوں کے ذریعے یہ ثابت کیاہے کہ الفاظ کی بلاغت سے زیادہ میر انیس کے یہاں معنی کی بلاغت ملتی ہے۔ جبکہ دبیر کے یہاں معانی کی بلاغت انیس کے مقابلے میں کم ہے۔ شبلی کا ماننا ہے کہ انیس کا اصل جوہر معانی کی بلاغت میں کھل کر سامنے آتا ہے۔ میر انیس اور دبیر کے کلام سے بلاغت کی مثال دیکھیے کربلا کے واقعات میں ایک موقع ایسا آتا ہے جب کوئی امام حسین کا نام اور تعارف جاننا چاہتا ہے۔ اس صوت حال کو دبیر اس طرح بیان کر تے ہیں کہ امام حسین کی زبان سے خود ستائی ظاہر ہوتی ہے:
فرمایا میں حسین علیہ السلام ہوں
اس مقابلے میں ایسی صورت حال کے بیان میں انیس کے یہاں انکسار اور عظمت دونوں موجود ہیں:
مولا نے سر جھکا کے کہا میں حسین ہوں 
شبلی کا ماننا ہے کہ ان مصرعوں میں بلاغت کا جو نکتہ چھپا ہوا ہے اس کا اندازہ صرف مذاق سخن سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔شبلی موازنہ میں تشبیہ اور استعارے پر بھی مدلل انداز میں اپنی رائے پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں تشبیہ و استعارہ ایسے شاعرانہ وسائل ہیں جن کے ذریعے کلام کی دلکشی میں اضافہ ہو جا تاہے۔ شبلی بھی تشبیہ و استعارے کو کلام کا زیور سمجھتے تھے ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی چیز کلام میں یا تحریر میں روح پھونک سکتی ہے تووہ تشبیہات و استعارات ہیں۔ شبلی تشبیہ و استعارے کے حسن کے تبھی تک قائل ہیں جب تک وہ اپنی اصلی حالت میں قائم رہیں اور غیر ضروری معلوم نہ ہوں۔ تشبیہ کی اہمیت اور افادیت پر بحث کر تے ہوئے شبلی نے تشبیہ کی دو قسمیں بتائی ہیں۔ ایک مفرد اور دوسری مرکب۔ شبلی کا ماننا ہے کہ مفرد تشبیہ میں جدت پیدا نہیں کی جا سکتی جبکہ مرکب تشبیہ میں صورت حال کی مناسبت سے جدت پیدا کی جا سکتی ہے۔ مرکب تشبیہ میں جدت اور ندرت کا سارا انحصار قوت اختراع پر ہو تا ہے۔ انھوں نے ایک اور نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ تشبیہ کی خوبی یہ ہے کہ مشبّہ کی تصویر آنکھوں کے سامنے آجائے جیسا کہ عرب میں نیچرل قسم کی تشبیہات پائی جا تی تھیں۔ شبلی نے موازنہ میں یہ ثابت کیا ہے کہ میر انیس کے کلام میں تشبیہات کی جتنی خوبیاں پائی جاتی ہیں وہ کسی اور کے کلام میں ملنا مشکل ہے۔ تشبیہات کی ان خصوصیات کوشبلی نے متعدد مثالوں سے واضح کیا ہے۔ میدان کر بلا میں جب حضرت عباس پر چاروں طرف سے بر چھیاں چل رہی تھیں انیس نے اس کیفیت کو تشبیہ کے ذریعے نیا رنگ دے دیا ہے اور بر چھیوں کے چلنے کے ناپسندیدہ عمل کو کہیں سورج کی کر نوں اور کبھی پروانوں کی خوبصورت تشبیہات سے نمایاں کر نے کی کوشش کی ہے۔
یوں بر چھیاں تھیں چاروں طرف اس جناب کے
جیسے کرن نکلتی ہے گرد آفتاب کے
***
مقتل میں کیا ہجوم تھا اس نور عین پر
پروانے گر رہے تھے چراغ حسین پر 
شبلی مزید لکھتے ہیں کہ محسوسات کے ذریعے جو تشبیہ دی جاتی ہے اس کی تصویر فوراً ذہن میں آجاتی ہے۔ اس قسم کی تشبیہات میر انیس کے کلام میں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ دو دشمنوں کے درمیان جب ایک دوسرے پر وار کرتے ہوئے ان کی بر چھیاں آپس میں ٹکرا رہی تھیں تو اس منظر کو میر انیس نے اس طرح بیان کیا ہے:
دو سانپ گتھ گئے تھے زبانیں نکال کے 
شبلی شاعری میں حسن کاری کے قائل تھے۔ اس بات کو شبلی ایک بے حد خوبصورت مثال کے ذریعے بتاتے ہیں کہ اگر آدمیوں کے ہجوم کو اس طرح بیان کیا جائے کہ وہاں آدمیوں کا جنگل تھا تو کلام میں وسعت اور زور پیدا ہو جائے گا۔دیکھا جائے تو تشبیہ ایک عام خیال ہے جس کو کوئی بھی شخص اپنے کلام میں استعمال کر سکتا ہے۔ مگر جب تک تشبیہ میں ندرت اور کوئی خاص خوبی مو جود نہ ہووہ کوئی اثر پیدا نہیں کر سکتی۔ اس لیے شاعر کا فرض ہے کہ کلام میں نادر اور جدید تشبیہات اور استعارات استعمال کرے۔ جیسا کہ ہمارے یہاں کے اکثر بڑے شعرا نے کیا ہے۔ اگر بار بار وہی تشبیہیں اور استعارے استعمال کیے جائیں گے تو ان میں تازگی اور ندرت بر قرار نہیں رہے گی۔اس کے بعد شبلی صنائع و بدائع کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صنائع و بدائع کے ذریعے کلام میں حسن اور دلکشی پیدا کی جا سکتی ہے۔ میر انیس کی شاعری جس زمانے میں پر وان چڑھی اس وقت مبالغہ، صنائع و بدائع، ایہام اور رعایت لفظی کو شاعرانہ کمال سمجھاجاتا تھا۔ ایسے میں میر انیس کا صنائع و بدائع سے الگ رہنا تھوڑا مشکل تھا۔ اس سلسلے میں شبلی کا خیال ہے کہ:
’’باقی صنعتوں کو انھوں نے اس طرح برتا کہ کلام کی اصل خوبی یعنی برجستگی ،صفائی اور سادگی میں فرق نہ آنے پائے‘‘۔(موازنہ انیس و دبیر ، مرتبہ فضل امام ،ص 99)
شبلی اس بحث کو مزید آگے بڑھا تے ہوئے کہتے ہیں کہ میر انیس کے کلام میں جن صنعتوں کا حسن و خوبی کے ساتھ استعمال ہوا ہے ان میں ایہام( یعنی ایک لفظ کے دو معنی مراد ہوں دوسرے معنی مراد نہ ہوں ) مبالغہ، حسن تعلیل، مراعات النظیر(الفاظ کی رعایت) ہیں ویسے لف و نشرا ور تلمیح کے جابہ جا اشعار بھی میر انیس کے مرثیوں میں بکھرے نظر آتے ہیں۔ یہ تمام محاسن بلاغت کے ذیل میں آتے ہیں۔ اس کے بعد میر انیس نے اپنے کلام میں انسانی جذبات و احساسات، منظر نگاری، واقعہ نگاری کو بے حد خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ اس بات کوشبلی نے متعدد مثالوں سے واضح کیا ہے۔ ان مباحث کو نظر یاتی طور پر مستحکم کر نے کی غرض سے شبلی نے جگہ جگہ مثالیں بھی دی ہیں۔لیکن انھوں نے محض نظر یاتی بحث پر اکتفا نہیں کیاہے، بلکہ عملی تنقید کر تے ہوئے میر انیس اور مرزا دبیر کی مر ثیہ نگاری کا تقابل اور موازنہ کیا ہے اور ہر جگہ ثبوت کے طور پر اشعار کے حوالے سے دونوں شاعروں کے فنی طریق کا ر کو بھی نمایاں کیا ہے۔
شعر العجم میں شاعری کے جن اصو ل و نظر یات کا ذکر ملتا ہے ان میں سے بیشتر کا ذکر موازنہ میں سر سری طور پر کیا جا چکا ہے۔ شعر العجم کی چوتھی جلد کے ابتدائی صفحات مین ان تمام مباحث پر تفصیلی گفتگو ملتی ہے۔ شبلی انشا پرداز تھے ، جمالیاتی ذوق رکھتے تھے۔ ان کی تحریروں میں کہیں کہیں رومانیت کا اثر بھی دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شبلی کی نثر روکھی پھیکی معلوم نہیں ہوتی بلکہ پیرایۂ بیان بہت شگفتہ اور دلکش انداز لیے رہتا ہے۔ اس لیے شبلی کو جمالیاتی نقاد کا نام دینا بھی غلط نہ ہو گا۔شبلی شاعری کوذوقی اور وجدانی چیز سمجھتے ہیں اس لیے ان کا یہ کہنا کہ چند الفاظ میں شاعری کا صحیح نقشہ پیش نہیں کیا جا سکتا درست معلوم ہوتاہے۔ شبلی نے شاعری میں دو چیزوں کو ضروری قرار دیا ہے۔ ایک ادراک اور دوسرا احساس۔ ادراک کا کام مسائل پر غور کرنا، نئی نئی ایجادات اور تحقیقات وغیرہ ہیں مگر احساس انسان کے دلوں پر گہرا اثر مرتب کر تا ہے۔ پھر چاہے وہ خوشی کی حالت ، غم کی حالت، یا حیرت انگیزی کا بیان ہو، یااس بات کو دوسرے لفظوں میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ احساس جب الفاظ کا جامہ پہن لیتا ہے تو شعر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ چونکہ شعر میں کسی نہ کسی انسانی جذبے کا بیان کیا جا تا ہے اور وہ سننے والے کے دلوں پر گہرا اثر مرتب کر تا ہے اس لیے شبلی شعر کی تعریف ان الفاظ میں ادا کرتے ہیں:
’’ جو کلام انسانی جذبات کو برانگیختہ کرے اور ان کو تحریک میں لائے وہ شعر ہے ‘‘۔
(شعر العجم ، جلد چہارم ، علامہ شبلی نعمانی ، ص4)
ان کا کہنا ہے کہ شاعری کی یہ وہ خصوصیت ہے جو اس کو تمام علوم و فنون اور سائنس سے الگ کر دیتی ہے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے شبلی تاریخ اور شعر کے فرق، شاعری اور واقعہ نگاری کے فرق اور خطابت اور شاعری کے فرق کو بہت مدلل انداز میں مثالوں کے ذریعے واضح کر تے ہیں۔اس کے بعد شبلی اس بات پر توجہ مرکوز کر تے ہیں کہ شعر کے اصلی عناصر کیا ہیں؟ اور کن خوبیوں کی بنا پر اچھا شعر وجود میں آتا ہے؟ اس کے لیے شبلی نے دوچیزوں کو ضروری قرار دیا ہے۔ایک محاکات اور دوسرا تخیل ان میں سے کسی ایک صنعت کا استعمال شعر میں ہو گا تو وہ شعر کہلانے کا مستحق ہو گا۔ خیال بندی، بندش، طرز ادا، سادگی و سلاست کو شبلی شعر کے اصلی اجزاء تصور نہیں کرتے بلکہ ان کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں۔اب ذرا یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ شبلی نعمانی محاکات اور تخیل کی کیا تعریف کر تے ہیں اور شاعری میں اس کے استعمال کو کس طور پر کار آمد خیال کر تے ہیں۔ اس لیے محاکات اور تخیل سے متعلق شبلی کے ناقدانہ خیالات کا سرسری جائزہ پیش ہے۔کسی چیز یا کسی حالت کا منظر اس طرح بیان کر نا کہ اس کی تصویر آنکھوں میں گھوم جائے محاکات کہلائے گی۔ تصویر اور محاکات میں فرق واضح کر تے ہوئے شبلی کہتے ہیں کہ تصویر ہر جگہ محاکات کا ساتھ نہیں دے سکتی ہمارے گردو پیش میں بہت سارے حالات ،واقعات و اردات ایسی ہیں جو کہ تصویر کی مکمل پہنچ سے باہر ہیں۔ اس کے لیے شبلی نے عام مصوری اور شاعرانہ مصوری کے باریک اور لطیف فرق کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ یوں بیا ن کیاہے:
’’ایک بڑا فرق عام مصوری اور شاعرانہ مصوری میں یہ ہے کہ تصویر کی اصلی خوبی یہ ہے کہ جس چیز کی تصویر کھینچی جائے اس کا ایک ایک خال و خط دکھا یا جائے۔ ورنہ تصویر ناتمام اور غیر مطابق ہو گی۔ بہ خلاف اس کے شاعرانہ مصوری میں یہ التزام ضروری نہیں شاعرا کثر صرف ان چیزوں کو لیتا ہے اور نمایاں کر تا ہے جن سے ہمارے جذبات پر اثر پڑتا ہے۔ باقی چیزوں کو وہ نظر انداز کر تا ہے یا ان کو دھندلا رکھتا ہے کہ اثر اندازی میں خلل نہ آئے۔‘‘ 
(شعر العجم جلد چہارم ، علامہ شبلی نعمانی، ص10)
مصوری اور محاکات کے اس باریک فرق کو شبلی نے ایک شعر کے ذریعے پوری طرح صاف کر دیا ہے:
کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا
تھا موتیوں سے دامن صحرا بھرا ہوا
گھاس پر اوس کی بوندیں دیکھ کر وہ اثر پیدا نہیں ہو سکتا جو شعر کو پڑھ کر ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ مصور کے لیے تمام خط و خال نمایاں کر نا ضروری ہے مگر شاعر تصویر کا ہر جز نمایاں کر کے نہیں دکھاتا۔ حالانکہ ایسے موقعوں پر شاعر کو مشکلات کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ دراصل شاعر کو تخیل کی سب سے زیادہ ضرورت ایسے ہی موقعوں پر پڑتی ہے۔ شبلی سے پہلے حالی نے بھی مقدمہ شعرو شاعری میں تخیل پر زور دیا تھا اور کہا تھا کہ قوت متخیّلہ جس قدر اعلیٰ درجے کی ہو گی اسی قدراس کی شاعری بھی اعلیٰ درجے کی ہوگی۔ مگر حالی نے قوت متخیّلہ پر کچھ پابندیاں عائد کی تھیں۔ دراصل حالی تخیل پر پابندی لگانے اور اس کو قوت ممیزہ کے تابع رکھنے کے قائل تھے۔ اس لیے تخیل کے استعمال کے لیے حالی نے کچھ شر طیں بھی عائد کی تھیں جبکہ شبلی اس طرح کی کسی پابندی کے قائل نہیں بلکہ وہ شاعر کی آزادی کے خواہاں ہیں اور وہ کسی بھی قسم کی پابندی کو شعر کے لیے ضروری خیال نہیں کرتے۔ شبلی کے نزدیک تخیل قوت اختراع کا نام ہے۔ وہ تخیل کی تعریف مختلف جگہوں پر الگ الگ انداز سے کرتے ہیں:
’’شاعری در اصل تخیل کا نام ہے محاکات میں جو جان آتی ہے تخیل ہی سے آتی ہے ورنہ خالی محاکات نقالی سے زیادہ نہیں ۔‘‘ (ایضاً، ص24) 
’’تخیل مسلم اور طے شدہ باتوں کو سرسری نظر سے نہیں دیکھتی بلکہ دو بارہ ان پر تنقید ی نظر ڈالتی ہے اور بات میں بات پیدا کر تی ہے۔‘‘(ایضاً، ص 29)
’’قوت تخیل ایک چیز کو سو دفعہ دیکھتی ہے اور ہر دفعہ اس کوایک نیا کرشمہ نظر آتا ہے۔ پھول کو تم نے سینکڑوں بار دیکھا ہو گا اور ہر دفعہ تم نے صرف اس کے رنگ و بو سے لطف اٹھا یا ہو گا، لیکن شاعر قوت تخیل کے ذریعہ سے ہر بار نئے نئے پہلو سے دیکھتا ہے اور ہر دفعہ اس کو ایک نیا عالم نظرآتا ہے‘‘۔ (ایضاً، ص 33)
ان تمام تعریفوں سے پتہ چلتا ہے کہ شبلی نعمانی نے تخیل کے مسئلے پر کتنا غوروخوض کیا ہے اور تخیل کی کارگردگی کو شاعری کے ساتھ فلسفہ تک میں ڈھونڈ نکا لا ہے۔ ان تمام باتوں کے ساتھ شبلی نعمانی تخیل کو محدود اور تنگ دائرے سے باہر نکالنے کے لیے کائنات کے مشاہدے کو ضروری خیال کر تے ہیں۔ اسی طرح حالی نے تخیل کے ساتھ ساتھ کائنات کے مطالعے کی شرط عائد کی تھی۔ فرق اتنا ہے کہ حالی شاعری کو اخلاق کا پابند سمجھتے تھے اور اسے تعمیری مقصد کے لیے استعمال کر نا چاہتے تھے اس لیے وہ قوت متخیّلہ پر کچھ پابندی عائد کرنا ضروری سمجھتے ہیں مگر شبلی کا مزاج رومانیت سے کافی حد تک قریب ہے وہ شاعر کے لیے پوری آزادی چاہتے ہیں جس کی وضاحت ان کے ذیل کے اقتباس سے بخوبی ہوتی ہے:
’’ وہ شاعری جو ہر قسم کے جذبات کا آئینہ بن سکتی ہو جو فطرت انسانی کے راز کھول سکتی ہو ، جو تاریخی واقعات کو دلچسپی کے منظر پر لا سکتی ہو، جو فلسفۂ اخلاق کے دقائق بتاسکتی ہو، اس کے لیے ایسا محدود تخیل کیا کام آ سکتا ہے؟ تخیل جس قدر قوی ،باریک ، متنوع اور کثیر العمل ہوگی اسی قدر اس کے لیے مشاہدات کی زیادہ ضرورت ہوگی‘‘۔
(ایضاً، ص 39-40)
اس اقتباس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بہترین اور اعلیٰ شاعری کے لیے محدود تخیل کی نہیں بلکہ وسیع مشاہدے کی ضرورت پڑتی ہے۔ شاعر پر کسی طرح کی پابندی اس کو محدود دائرے میں مقید کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شبلی کے نزدیک شاعری مکمل آزادی کے اظہارکا نام ہے۔لفظ و معنی پر بھی شبلی اپنی رائے مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں۔شبلی نعمانی سے پہلے الطاف حسین حالی نے مقدمہ شعرو شاعری میں لفظ ومعنی اور ان میں سے ایک کی فضیلت یا دوسرے کی، اس موضوع پرتفصیلی اظہار خیال کیاتھا۔ مگر چونکہ یہ معاملہ مشرقی تنقید کا ایک اہم مسئلہ تھا اس لیے شبلی نے بھی اس مسئلے پر اپنے طور پر تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ یہاں شبلی اور حالی کے نقطۂ نظرمیں اختلاف پایا جاتا ہے۔ حالی کا جھکاؤ لفظ سے زیادہ معنی کی طرف نظر آتا ہے جبکہ شبلی کا جھکاؤ لفظ کی طرف زیادہ ہے۔ یعنی شبلی کے نزدیک مواد سے زیادہ ضروری اسلوب ہے۔ اس ضمن میں شبلی لکھتے ہیں :
’’مضمون تو سب پیدا کر سکتے ہیں شاعر کا معیار کمال یہی ہے مضمون ادا کن لفظوں میں کیا گیا ہے اور بندش کیسی ہے‘‘۔ (ایضاً، ص 55)
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ لفظ اورمعنی کا رشتہ بالکل ایسا ہے جیسا روح اور جسم کا۔کتاب العمدہ میں باب ’فی اللفظ و المعنی‘‘ کے تحت ایک عنوان قائم کیا گیا ہے جس سے لفظ و معنی کارشتہ پانی کی طرح واضح اور صاف ہو جاتا ہے۔:
’’لفظ جسم ہے اور مضمون روح ہے دونوں کا ارتباط باہم ایسا ہے جیسا روح اور جسم کا ارتباط کہ وہ کمزور ہوگا تو یہ بھی کمزور ہو گی، پس اگر معنی میں نقص نہ ہو اور الفاظ میں ہوتو شعر میں عیب سمجھا جائے گا۔۔۔ اسی طرح اگر لفظ اچھے ہوں لیکن مضمون اچھا نہ ہو تب بھی شعر خراب ہوگا اور مضمون کی خرابی الفاظ پر بھی اثر کرے گی۔‘‘ (ایضاً، ص 54)
اس قتباس کی روشنی میں یہ بات تسلیم کر نی پڑتی ہے کہ لفظ اور معنی دونوں ایک دوسرے کے بنا ادھورے ہیں۔ دراصل علمائے عرب میں دو گروہ پائے جاتے تھے۔ ایک گروہ معنی کو اہمیت دیتا تھا اور دوسرا لفاظ کو۔ شبلی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انشا پردازی کا سارا کمال لفظوں میں پوشیدہ ہو تا ہے۔شبلی نے الفاظ کی ساخت وہیئت اور تناسب پر بھی زور دیا ہے۔چونکہ فصیح الفاظ ترتیب اور تناسب ہی معمولی خیالات کو غیر معمولی بنا دیتے ہیں۔ اس بات کی وضاحت میں شبلی نے میر ضمیر اور میر انیس کے کلام سے وہ مثالیں پیش کی ہیں جن کے موضوعات تو کم و بیش ایک جیسے ہیں مگر الفاظ کے ردو بدل نے کلام کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ شبلی کہتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ شاعری یا انشا پردازی کا دار و مدار زیادہ تر الفاظ پر ہی ہے ، گلستاں میں جو مضامین اور خیالات ہیں، ایسے اچھوتے اور نادر نہیں ، لیکن الفاظ کی فصاحت اور ترتیب اور تناسب نے ان میں سحر پیدا کر دیا ہے‘‘۔ (ایضاً، ص 55)
موازنۂ ا نیس و دبیر اور شعر العجم میں شبلی نے بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ شاعری کی عظمت کا سارا دار و مدار محاکات یا الفاظ کی فصاحت و بلاغت پر ہے۔ شبلی الفاظ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دیکھتے ہیں :
’’الفاظ متعدد قسم کے ہوتے ہیں بعض نازک، لطیف، شستہ ، صاف رواں اور شیریں اور بعض پر شوکت، متین، بلند۔ پہلی قسم کے الفاظ عشق و محبت کے مضامین ادا کر نے کے لیے موزوں ہیں۔ عشق و محبت انسان کے لطیف اور نازک جذبات ہیں اس لیے ان کو ادا کر نے کے لیے لفظ بھی اسی قسم کے ہونے چاہیے۔‘‘ (ایضاً، ص 58)
الفاظ کی اہمیت کے باوجود شبلی یہ بھی مانتے ہیں کہ معنی سے بالکل لاپر واہی بھی نہیں برتنی چاہیے۔ چونکہ مضمون کتنا ہی بلند اور ناز ک ہو اگر الفاظ مناسب نہ ہوں تو شعر میں تاثیر پیدا نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے شبلی کا مزید یہ کہنا کہ الفاظ کے مختلف اثرات ہر کیفیت میں بدلتے رہتے ہیں۔ معنی کے لحاظ سے الفاظ پر کیا اثر پڑ تا ہے یا جملے کی ساخت و ترتیب اگر ٹھیک ہو تو شعر کیسے کامیاب بن جا تا ہے، ان کی نکتہ رسی کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ ان تمام معروضات کی روشنی میں8 یہ اندازہ ہو جا تاہے کہ شبلی کا نقطہ نظر ’تخیل‘ تشبیہ و استعارے یا لفظ و معنی کے بارے میں کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ شبلی کا جھکاؤ الفاظ پر زیادہ ہے۔ شبلی نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ لفظ و معنی کو ایک دوسرے سے الگ کرنا مناسب نہیں نہ ایک دوسرے کو کسی پر مقدم سمجھنا ٹھیک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر جگہ شبلی کی تنقید تشریحی قسم کی ہو جاتی ہے وہ ایسے شاعروں سے پوری طرح انصاف نہیں کر پاتے جن کے یہاں معنی کی وسعت کے ساتھ اسلوب بیان علامتی پیچیدہ یا تمثیلی پا یا جاتا ہے۔یہاں تک کہ بیدل اور غالب کی فارسی شاعری کو نظر انداز کر نا اور مو لانا روم کی شاعری کو یہ کہہ کر الگ کر دینا کہ ان پر سوانح لکھی جا چکی ہے یا پھر مولانا روم کی مثنوی پر تبصرہ کر تے ہوئے لکھنا کہ ان کے کلام میں روانی بر جستگی حسن ترکیب کے ساتھ غریب اور نا مانوس الفاظ بھی پائے جاتے ہیں۔ اس طرح کا رویہ شبلی کے شایان شان نہیں معلوم ہوتا۔ پھر یہ کہ صرف اپنی پسند اور نا پسند کی بنا پر کبھی کبھی شاعروں کے کلام سے مثالیں پیش کر نے لگتے ہیں اور ان کو بڑا شاعر ثابت کر نے کی کوشش کر تے ہیں۔ در اصل شبلی کی تنقید جس مشرقی روایت کے سہارے آگے بڑھتی ہے اس میں نقد الشعر، العمدہ، قابوس نامہ، چہار مقالہ، اور حدائق البلا غت جیسی عربی اور فارسی تنقید کی اہم اور مر کزی کتابوں کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔در اصل شبلی ذوقی اور تحسینی نقاد تھے ان کا جمالیاتی ذوق بہت رچا ہوا تھا۔ وہ اچھے شعروں کی داد دیے بنا نہیں رہ سکتے تھے اس لیے اچھے اشعار سن کر شبلی پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ شبلی نے شاعری کو پرکھنے کے جو معیار وضع کیے تھے عموماً اسی کی روشنی میں اشعار کو دیکھتے اور پرکھتے تھے۔ اس کے بعد فیصلہ کر تے تھے۔یہ شاعری اچھی ہے یا بری؟ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ شبلی نے فارسی شاعری کے بہترین فن پاروں کو اس کتاب میں سمو لیا ہے اور اس کی تشریح و ترجمانی پر اثر انداز میں کر نے کی کوشش کی ہے۔ شبلی کا یہ وہ کارنامہ ہے جس کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتاا ور یہی بات اردو تنقیدمیں شبلی کی ناقدانہ صلاحیتوں کو منوانے کے لیے کافی ہے۔

Dr. Noor Fatima
Asst. Prof. (Dept of Urdu)
MANUU, Lucknow Campus 
C-9, H Park, Mahanagar Extension, Behind Neera Nursing Home Lucknow- 226006 (UP)







قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

2 تبصرے:

  1. یه ایک بهترین مضمون هے مدلل انداز میں وقیعی گفتگو کی گی جو طلبه کےلے فایده مند هے ...مقاله نگار مبارکبادی کی حقدار هے..

    جواب دیںحذف کریں


  2. شبلی نعمانی کی نثر کی خصوصیات

    جواب دیںحذف کریں