14/3/19

سردار جعفری: حکایات خونچکاں کا شاعر مضمون نگار:۔ یونس غازی




سردار جعفری: حکایات خونچکاں کا شاعر

یونس غازی
علی سردار جعفری ترقی پسند شعرا میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ترقی پسند رہنماؤں میں سجاد ظہیر کے بعد کوئی نام ادب و احترام کے ساتھ لیا جاسکتا ہے تو وہ سردار جعفری کا ہے۔ وہ مارکسی نظریات سے براہِ راست متاثر تھے اور آخر تک وہ اسی تحریک سے وابستہ اور سرگرم رکن رہے نیز اپنے خیالات اور ترقی پسند نظریات کی ترویج و تبلیغ کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرتے رہے۔
سردار جعفری کی پیدائش 29 نومبر 1913 کو بلرام پور ضلع گونڈہ میں ہوئی۔ والد کا نام سید جعفر طیار جعفری تھا۔ دہلی یونیورسٹی کے اینگلو عربک کالج سے بی اے کرنے کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ایم اے میں داخل ہوئے مگر 1936 میں یونیورسی سے انگریزوں کی مخالفت کرنے اور سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے اخراج ہوگیا۔ بعد میں لکھنؤ یونیورسٹی میں 1939-40 میں ایم۔ اے کے سال اوّل میں داخلہ لیا مگر یہاں بھی ان کو رہنا نصیب نہ ہوا، جنگ مخالف پروپیگنڈے کے جرم میں فائنل امتحان دینے سے پہلے ہی گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ رہا ہونے کے بعد بھی بلرام پور میں نظربند رہے۔ انھوں نے کبھی ملازمت کی اور نہ کسی کاروباری صیغے سے وابستہ رہے۔ یکم اگست 2000 کو ان کی وفات ہوئی۔
سردار جعفری نے اپنے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا۔ 1938 میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ’منزل‘ کے نام سے شائع ہوا اور شاعری کا پہلا مجموعہ ’پرواز‘ کے نام سے 1943 میں منظرعام پر آیا۔ اس کے بعد متواتر شعری مجموعے شائع ہوتے رہے۔ ان میں ’نئی دنیا کو سلام‘ 1948 میں اور ’خون کی لکیر‘ 1949 میں شائع ہوئے۔ ’ایشیا جاگ اٹھا‘ 1951 میں اور ’پتھر کی دیوار‘ 1953 میں منظرعام پر آئے۔ بعد میں تین مجموعے ’ایک خواب اور‘، ’پیراہن شرر‘، ’لہو پکارتا ہے‘ نیز ’آبلہ پا‘ اور ’نومبر میرا گہوارہ‘ شائع ہوئے۔
جعفری کو ان کی شاعری اور دیگر ادبی وسماجی سرگرمیوں پر بہت سے ایوارڈ بھی عطا کیے گئے۔ پدم شری بھارتیہ گیان پیٹھ ایوارڈ، سوویت یونین نہرو ایوارڈ، سنت گیانیشوری ایوارڈ، اور بہت سی اردو اکادمیوں نے بھی ان کی ادبی خدمات پر اپنے اپنے اعزازات سے نوازا۔
سردار جعفری جہاں تک ایک طرف حافظ، رومی، جامی، عرفی، نظیری، شیکسپیئر، ملک محمد جائسی، تلسی اور کبیر سے متاثر تھے تو دوسری طرف میر تقی میر، میر انیس اور نظیر اکبرآبادی کی ادبی وراثت اور روایات سے بھی استفادہ کیا۔ بعد میں وہ علامہ اقبال کے بھی مداح ہوگئے تھے۔ اگر وہ اپنی معرکۃ لآرا کتاب ’ترقی پسند ادب‘ میں ابال اور قرۃ العین حیدر کے متعلق ان کا رویہ اثباتی نہیں تھا مگر جب انھوں نے ’اقبال شناسی‘ کے نام سے کتاب لکھی اور اقبال صدی کی تقریبات میں گرم جوشی کا مظاہرہ کیا تو اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ اقبال کی عظمت کے معترف تھے:
’’میں اپنی جوانی میں اقبال کے بارے میں کچھ الگ ہی رائے رکھتا تھا، بعد میں اندازہ ہوا کہ اقبال پہلے شاعر ہیں جنھوں نے لفظ انقلاب استعمال کیا ہے۔‘‘
اسی طرح قرۃ العین حیدر سے انھیں یہ شکایت رہی ہوگی کہ وہ اپنے نثری ادب میں اشرافیہ کی نمائندگی کرتی ہیں جبکہ سردار جعفری عوامی ادب کے ہم نوا اور رسیا تھے۔
اقبال کے متعلق جب ان کا رویہ بدلا تو ان کے کچھ مداحوں اور ترقی پسند ادب کے جذباتی ہمدردوں کو ناگوار گزرا مگر وہ اپنے بدلے ہوئے رویے پر اٹل اور ثابت قدم رہے۔ ان تمام معترضین کا جواب انھوں نے بعد کی ایک نظم ’نومبر میرا گہوارہ‘ کے وسیلے سے دیا۔
انھوں نے میر، میرابائی، اور کبیر کے انتخابات بھی اردو اور ہندی زبانوں میں اپنے مقدموں کے ساتھ شائع کیے جو بعد میں ’پیغمبران سخن‘ کے نام سے کتابی شکل میں چھاپے گئے۔ ہندی والوں میں اردو کے عظیم شاعر غالب کو متعارف اور مقبول بنانے میں بھی ان کا اہم کردار رہا، غالب کی شاعری کا ہندی زبان میں ترجمہ بھی کیا جو ایک پائیدار اور یادگار کارنامہ ہے۔ اردو سے ان کو بے پناہ تعلق تھا۔ اس کے لیے انھوں نے پوری زندگی جدوجہد کی، وہ گجرال کمیٹی کے روحِ رواں تھے۔
اُن کے شعری سفر کا آغاز اس شعر سے ہوا، جو کم عمری میں کہا گیا تھا:
دامن جھٹک کے منزل غم سے گزر گیا
اٹھ اٹھ کے دیکھتی رہی گرد سفر مجھے
سترہ برس کی عمر میں انھوں نے جو پہلا مرثیہ کہا اس کا ایک بند یہ ہے:
آتا ہے کون شمع امامت لیے ہوئے
اپنے جلو میں فوج صداقت لیے ہوئے
ہاتھوں میں جام سرخ شہادت لیے ہوئے
لب پر دعائے بخشش امت لیے ہوئے
اللہ رے حسن فاطمہ کے ماہتاب کا
ذرّوں میں چھپتا پھرتا ہے نور آفتاب کا
جب ان کی شعری مسافت زیادہ روشن اور تابناک ہوئی، زندگی کا شعور پختہ ہوا۔ نظر میں وسعت آئی اور سماجی مسائل نے راہ پکڑی اور عوامی ادب کی طرف توجہ مبذول ہوئی تو وہ اپنے ایک مضمون ’ترقی پسند مصنّفین کی تحریک‘ جو 1939 میں چھپا تھا، لکھتے ہیں:
’’شاعر یا ادیب کے جذبات کو برانگیختہ کرنے والے محرکات گرد و پیش کی اس دنیا میں پائے جاتے ہیں، جہاں تمام انسان زندگی بسر کرتے ہیں اور یہ محرکات خود اس سماجی اور اقتصادی نظام کی پیداور ہوتے ہیں، جو انسانی زندگی کی شیرازہ بندی کرتا ہے، اس لیے اعلیٰ شاعری یا ادب ایک فرد کا نہیں بلکہ پوری جماعت کا ترجمان ہوتا ہے۔‘‘
یہ وہ احساس ہے جو سردار جعفری کی تمام شاعری کی روح ہے، اسی لیے ان کی شاعری میں تین چیزیں بڑی نمایاں ہیں:
(1) انسان دوستی: وہ کسی مذہب، فرقہ یا ذات گروہ کی بات نہیں کرتے آدمیت، انسانیت اور بھائی چارے پر زور دیتے ہیں۔
(2) حریت: وہ ہر طرح کی آزادی کے طلب گار ہیں۔
(3) وطنیت: وہ اپنی مادر وطن سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ اپنے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کا خواب دیکھتے ہیں اور آزادی کے بعد دونوں ملک ہند و پاک کی دوستی اور سالمیت پر بھی انھوں نے نظمیں کہی ہیں۔ ان میں سے ایک ’سرحد‘ کے نام سے ہے جو اس وقت تک گائی جاتی رہے گی جب تک یہ دونوں حقیقتیں وجود پذیر رہیں گی جس سے دلاسہ اور سہارا ملتا رہے گا۔ آج کے ماحول اور تناظر میں تو اس کی اہمیت اور افادیت اور سوا ہوگئی ہے:
اسی سرحد پہ کل ڈوبا تھا سورج ہو کے دو ٹکڑے
اسی سرحد پہ کل زخمی ہوئی تھی صبح آزادی
یہ سرحد ہی لہو پیتی ہے اور شعلے اگلتی ہے
سجا کر جنگ کے ہتھیار میداں میں نکلتی ہے
میں اس سرحد پہ کب سے منتظر ہوں صبح فردا کا
اس نظم کا یہ بند تو ضرب المثل بن چکا ہے:
تم آؤ لاہور سے چمن بردوش
ہم آئیں صبح بنارس کی روشنی لے کر
ہمالیہ کی ہواؤں سے تازگی لے کر
پھر اس کے بعد یہ پوچھیں کہ کون دشمن ہے
’پرواز‘ ان کا ایک ایسا مجموعہ کلام ہے جس کی نظموں میں وہ شدید طور پر مارکس وادی نظر آتے ہیں۔ اس کی کچھ نظمیں ایسی ہیں، جن کے عنوان اگر ہٹا دیے جائیں تو یہ مسلسل غزلیں کہلائی جاسکتی ہیں جیسے ’لکھنؤ کی ایک شام‘ نیا زمانہ، عہد حاضر، عورت کا احترام، یہ اگرچہ نظم کی فارم میں کہی گئی ہیں مگر یہ داخلی اور خارجی اعتبار سے غزل ہی لگتی ہیں۔
ان نظموں میں ان کا وہ احساس پایا جاتا ہے جو انھوں نے بچپن میں جھیلا اور بھگتا تھا کیونکہ ان کا ابتدائی زمانہ بڑی غربت اور کسمپرسی میں گزرا تھا، اسی لیے یہ احساس ان کو کبھی کبھی زیادہ ہی پریشان کرتا ہے، کہ لوگ غریب کیو ں ہوتے ہیں، ان کے اوپر ظلم کس وجہ سے کیے جاتے ہیں، ان کو کوئی روکتا کیوں نہیں؟ اس طرح کے اور نہ جانے کتنے احساسات تھے جن کو مہمیز اس وقت ملی جب وہ بیس برس کی عمرمیں علی گڑھ گئے اور وہاں ان کی ملاقات اختر حسین رائے پوری، مجاز، جانثار اختر اور منٹو جیسے باغیوں سے ہوئی اور سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ وہاں ان کو ڈاکٹر محمد اشرف اور پروفیسرعبدالعلیم جیسے اشتراکی استاد مل گئے۔ سرمایہ دار لڑکیاں، مزدور لڑکیاں جیسی نظمیں بھی اشتراکی ادیبوں کی تربیت کا ثمرہ ہیں۔
اسی دوران انھوں نے کئی رومانی نظمیں بھی کہیں، جیسے ’لکھنؤ کی ایک شام، انتظار نہ کر، محبت کا فسوں اور حسن ناتمام مگر ان میں بھی انقلاب کی آہٹیں اور بغاوت کی سرسراہٹیں پائی جاتی ہیں اور ’جوانی، بغاوت، سماج اور بنگال میں تو بڑی حد تک اشتراکیت کی آمیزش اور پرچار ملتا ہے۔
بعض نظمیں عالمی تناظر میں بھی لکھی گئی ہیں جیسے ’ایشیا جاگ اٹھا‘ یہ ایک آزاد نظم ہے جس کا آغاز اور انجام پابند نظم جیسا ہے۔ یہ ایک رجزیہ ہے جو مرثیہ کے حوالے سے ان کے ذہن میں آئی یا اس میں پورے ایشیا کا ایک المناک رجز ہے۔ اس نظم یا رجزیہ کو پڑھ کر یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگتی کہ شاعر مادر وطن کی تاریخ اور اس کے کرب و درد سے آگاہ ہے اور پورا منظرنامہ اس کے سامنے ہے۔ مہابھارت، رامائن، اور شاہنامہ فردوسی بھی اس کے زیرنظرہے، اسی تاریخی شعور کی بازگشت اس نظم میں پائی جاتی ہے:
یہ ایشیا کی زمین، تمدن کی کوکھ، تہذیب کا وطن ہے
یہیں پہ سورج نے آنکھ کھولی
یہیں پہ انسانیت کی پہلی سحر نے رخ سے نقاب الٹی
یہیں سے اگلے یگوں کی شمعوں نے علم و حکمت کا نور پایا
اسی بلندی سے وید نے زمزے سنائے
یہیں سے گوتم نے آدمی کو سمانتا کا سبق پڑھایا
یہیں سے مزدک نے عدل و انصاف اور محبت کے راگ چھیڑے
ہماری تاریخ کی ہوائیں سچ کے بول سن چکی ہیں
ہمارا سورج محمد مصطفی کے سر پر چمک چکا ہے‘‘
اسی نظم کے ایک اور بند میں وہ امید جگاتے ہیں
ناگہاں شور ہوا
لو شب تار قیامت کی سحر آپہنچی
انگلیاں جاگ اٹھیں
بربط و طاؤس نے انگڑائی لی
اور مطرب کی ہتھیلی سے شعائیں پھوٹیں
کھل گئے ساز میں نغموں کے مہکتے ہوئے پھول
لوگ چلائے کہ فریاد کے دن بیت گئے
راہزن ہار گئے
راہرو جیت گئے
اسی مجموعے میں ایک اور نظم منفرد انداز کی بھی ہے جس کا عنوان ’نیند‘ ہے۔ یہ نظم انھوں نے جیل ہی میں اپنے بچے کی سالگرہ کے موقعے پر کہی تھی۔ اس کا آخری بند ملاحظہ ہو:
روز رات کو یوں ہی
نیند میری آنکھوں سے
بے وفائی کرتی ہے
مجھ کو چھوڑ کر تنہا
جیل سے نکلتی ہے
بمبئی کی بستی میں
میرے گھر کا دروازہ
جا کے کھٹکھٹاتی ہے
ایک ننھے بچے کی
انکھڑیوں کے بچپن میں
میٹھے میٹھے خوابوں کا
شہد گھول دیتی ہے
اک حسیں پری بن کر
لوریاں سناتی ہے
پالنا ہلاتی ہے
ایشیا جاگ اٹھا، نئی دنیا کو سلام اور امن کا ستارہ ان کی ایسی نظمیں ہیں جن میں سماجی شعو راور انقلاب کا احساس شدت سے ملتا ہے، نئی نئی تشبیہوں اور استعاروں کے وسیلے سے جو وہ اپنے قاری اور سامع سے کہنا چاہتے ہیں اس کی ترسیل بھی آسانی سے ہوجاتی ہے ان میں زور خطابت بھی ہے جو ان کی شاعری کی ایک شناخت ہے، جو جوش کی اثرپذیری کا نتیجہ ہے کیونکہ جوش کو وہ اپنا آئیڈیل تصور کرتے ہیں۔
انھوں نے جو نظمیں جیل میں کہی ہیں ان میں تاثر، سوز و گداز بے پناہ ہے اور یہ دل و دماغ دونوں کو متاثر کرتی ہیں۔ ان تمام نظموں میں ایک خاص قسم کی رجائیت ہے، حوصلہ اور آرزو مندی ہے، جب اپنی ایک نظم ’آنسوؤں کے چراغ‘ میں مہاجر عورتوں سے خطاب کرتے ہیں تو ان کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں:
شریف بہنو!
غیور ماؤں!
تمھاری آنکھوں میں بجلیوں کی چمک کے بدلے یہ آنسوؤں کا وفور کیو ں ہے
میں اپنے نغمے کی آگ لاؤں
تم اپنی آہوں کی شعلوں کو جلا کے نکلو
ہم اپنی روحوں کی تابناکی سے اس اندھیرے کو پھونک دیں گے
مثنوی اردو شاعری کی ایک مفید صنف ہے جسے مولانا حالی نے بھی اسے ایک کامیاب اور قوم و ملک کے لیے اچھی صنف قرار دیا ہے اور خود انھوں نے زیادہ تر اسی فارم میں نظمیں کہی ہیں۔ علامہ اقبال نے بھی ’ساقی نامہ‘ اور کئی کامیاب نظمیں اسی ہیئت میں کہی ہیں۔
’نئی دنیا کو سلام‘ سے پہلے سردار جعفری بھی ’جمہور‘ کے نام سے ایک مثنوی کی ہیئت میں کہہ چکے تھے ۔ جو شام، لبنان اور مصر وغیرہ میں سامراجیت کی گنی چنی سانسوں کا ذکر کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اب ہندوستان بھی انگریزوں کی غلامی کا پھندہ اپنے گلے سے جلد ہی نکالنے والا ہے۔
’نئی دنیا کو سلام‘ میں سردار جعفری نے تکنیک اور فارم کے نئے تجربے کیے ہیں۔ اس کا موضوع بھی نیا ہے۔ اس نظم کو تمثیل بھی کہا گیا ہے، اس کے تمام کردار بھی علامتی ہیں، اس کا اہم کردار بچہ ہے جو نئی دنیا اور آنے والے زمانے کا استعارہ ہے، اس میں جاوید اور مریم وہ اہم کردار ہیں جو میاں بیوی بھی ہیں۔ یہ سنگھرش کی علامت ہیں اور فرنگی ظلم اور جبر کی علامت ہے۔ اس میں بڑی عمدہ قسم کی پیکر تراشی ہے جو سردار جعفری کی پوری شاعری کی ایک لازوال خوبی ہے ؂
سیاہ رنگ پھریرے ہوا میں اڑتے ہیں
کھڑی ہوئی ہے سیہ رات سر اٹھائے ہوئے
سیاہ زلفوں سے لپٹے ہوئے ہیں مارِ سیاہ
سیاہ پھن میں سیہ پھول مسکرائے ہوئے
سیاہ گھوڑوں کی ٹاپوں سے ہل رہی ہے زمیں
سیہ عقاب سیہ آسماں پہ چھائے ہوئے
سیاہ وادی و صحرا سیاہ دریا میں
سیاہ دشت، سیہ کھیت لہلہائے ہوئے
تمام شعرا کے یہاں موت اور زیست، ثبات یا بے ثباتی کا مسئلہ درپیش رہا ہے، سردار جعفری کے یہاں یہ وجود اور عدم کی کشمکش اور تصادم کے طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ خود ان کا خیال ہے:
’’وجود اور عدم کی کشمکش میری شاعری میں مختلف استعاروں میں آئی ہے۔‘‘
ایک نظم میں کہتے ہیں:
سائے میں درختوں کے
بیٹھے ہوئے انسانو
اے وقت کے مہمانو
کس دیس سے آئے ہو
کس دیس کو جانا ہے
اے سوختہ سامانو
یہ وسعت میداں ہے
یا درد کا صحرا ہے
ایک دھوپ کا جنگل ہے
یا پیاس کا دریا ہے
جعفری صاحب نے خود اس ریگستان کو عدم کی اور انسان کو وجود کی علامت بتایا ہے۔ گویا کہ ان کے یہاں مثبت اور منفی دونوں طاقتیں باہم ملی ہوئی ہیں۔ وہ ’میرا سفر‘ میں کہتے ہیں ؂
پھر ایک دن ایسا آئے گا
آنکھوں کے دئیے بجھ جائیں گے
کلیوں کی طرح سے کھلتی ہوئی
پھولوں کی طرح سے ہنستی ہوئی
ساری شکلیں کھوجائیں گے
وہ وجود اور عدم کی کشمکش کی اور وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ موت کی حکمرانی ہے لیکن یہ واقعہ نہیں، کیونکہ اگر موت کی حکمرانی ہوتی تو یہ دنیا قبرستان ہوتی۔ آبادی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اس لیے زندگی موت پر حاوی ہے۔‘‘
سردارجعفری اپنے نظریات، ترقی پسندی اور اشتراکت سے عین زوال کے زمانے میں بھی مایوس نہیں ہوئے بلکہ امیدو ں کے خواب دیکھتے رہے، مگر ان کو آخر میں یہ احساس بجا طو رپر ہونے لگا تھا کہ اب زمانہ، ادب، شعری قدریں اور پوری ادبی کائنات بدل رہی ہے اور جدیدیت کا نیا رجحان سامنے آنے لگا ہے۔ اس کا احساس ان کی نظم ’شکستِ خواب‘ مجموعے ’ایک خواب اور‘ میں بھی پایا جاتا ہے۔ جب ان پر اور تمام ترقی پسند ادب اور ادیبوں پر اعتراضات ہونے لگے تو انھوں نے ’گفتگو‘ کے نام سے ایک رسالہ نکالا جس کے صفحات میں نئے لکھنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ اس کے پہلے ہی شمارے میں شہریار کی ایک چھوٹی سی نظم بھی شائع کی۔
مطلع اور صاف ہوا۔ کمیونزم اپنی جائے پیدائش روس جہاں یہ پھلا پھولا اور پروان چڑھا تھا، رفتہ رفتہ ناکامی کے ساحل پر پہنچ گیا اور بہت سے ترقی پسند ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں نے اپنا لباس اور وفاداری بدل لی تو اس وقت یہ عظیم اور انتہاپسند شاعر بھی یہ اعتراف کرنے پہ مجبور ہوا:
’’کمیونزم دراصل ایک تصور ہے، بہتر زندگی کا جو کچھ سوویت یونین میں تھا، وہ کمیونزم نہیں تھا بلکہ کمیونزم کی طرف جانے کا صرف ایک راستہ تھا۔‘‘
اسی اپنے نئے احساس اور ہوا کی تبدیلی کے رخ کو بھانپتے ہوئے۔ بددلی کے ساتھ کہا ؂
الوداع اے سرخ پرچم سرخ پرچم الوداع
اے نشانِ عزم مظلومانِ عالم الوداع
اے فراتِ تشنہ کامانِ جہاد زندگی
قلزم تشنہ لبی کی موج برہم الوداع
رزم گاہ خیر و شر میں یاد آئے گی تری
ہم ہیں اور اب لشکر ابلیس اعظم الوداع

Younus Ghazi
Head, Dept of Urdu, Meerut College
Meerut - 250003 (UP)







قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں