21/5/25

فخر ہندوستان دوم، مضمون نگار: انیس الحسن صدیقی

اردو دنیا، فروری 2025


14 جولائی اور 23 اگست 2023 ہندوستان کی تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھے گئے ہیں۔ 14 جولائی 2023 کو فخر ہندوستان ۔اول خلائی جہاز چندریان ۔سوم نے اپنا خلائی سفر شروع کرکے 23 اگست 2023 کو وِکرم لینڈر کو کامیابی کے ساتھ چاندکی سطح  پر اتار دیا تھا۔ وِکرم لینڈر کے اندر سوار خود کار گاڑی پرَگیان نے باہر نکل کر چاند کی سطح کا جائزہ لیا اور چاند کی تصویریں اتار کے ہندوستان روانہ کی تھیں۔ خود کار گاڑی  پر نصب سائنسی آلات نے چاند کی سطح کے متعلق اہم معلومات ہندوستانی سائنس دانوں کو 14 دنوں تک روانہ کی تھیں۔

اب 2 ستمبر کا دن بھی ہندوستان کی تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھا گیا ہے۔ اس دن ایک اور فخرِ ہندوستان۔ دوم، خلا میں سورج کی مشاہدہ گاہ آدِتیہ ایل۔اول ،خلائی گاڑی پی۔ ایس۔ ایل۔ وی۔ پر سوار ہماری زمین سے خلائی سفر کے لیے  ہندوستانی وقت کے مطابق ٹھیک 11.30پر کامیابی کے ساتھ روانہ ہوئی۔اس خلائی گاڑی نے پندرہ منٹ میں سورج کی مشاہدہ گاہ آدتیہ ایل۔اول کو خلا میں 250 کلو میٹر کی دوری تک پہنچادیا تھا۔ اب یہاںسے آدتیہ ایل۔اول کا خلائی سفر شروع ہوا۔ چند گھنٹوں بعد ہندوستانی خلائی تنظیم کے سائنس دانوں نے خلا میں اپنے رسل و رسائل کے ٹیلی سسٹم کے ذریعے اس مشاہدہ گاہ کو زمین کے گرد 235 x 19,500 کلو میٹر کے ترخیمی مدار میں کردیا۔  اس کے بعد زمین کے گرد5 ستمبر 2023 کو 245 x 20,023 کلو میٹرکے ترخیمی مدارمیں کردیا۔اسی طرح اس کا زمین کے گرد مدار بڑھاتے بڑھاتے اس کو اپنی منزل ایل۔ اول تک125  دنوں میںپہنچادیا جائے گا۔ اس مہم کی خاتون ڈائرکٹر محترمہ ڈاکٹر نگار شاہ جی نے بتایا:

’’اسرو کی خلائی مہم سورج کی مشاہدہ گاہ آدِتیہ ایل۔اول خلا میں ایل۔اول مقام جو ہماری زمین سے 1,50,00,000 کلو میٹر کی دوری پر ہے یعنی چاند کی دوری کا تقریباً چار گنا، اس تک 125دنوں میں پہنچے گی۔ وہاں پہنچ کر وہ سورج کے بالا موسم کا مشاہدہ کرے گی۔ یہ سورج کی مشاہدہ گاہ آدتیہ ایل۔اول 1,475 کلو گرام وزنی ہے اور اس پر 7 سائنسی آلات نصب ہیں جو سورج کے بارے میں معلومات ہماری زمین پر اسرو کے خلائی اسٹیشن پر پہنچائیںگے۔ اس خلائی مہم کی تیاری اسرو تنظیم 2006 سے کر رہی تھی۔‘‘

اس سے پہلے اسرو نے سورج کے باہر موسم کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے اپنی خلائی مہم کے تحت سورج کی مشاہدہ گاہ سیارچہ اسٹرو سیٹ (Astrosat) کو 2006 میں خلا کے لیے روانہ کیا تھا ۔

دنیا کے سائنس دانوں کی نگاہیں اسرو تنظیم کی اس خلائی مہم اور اس کی خاتون ڈائرکٹر محترمہ ڈاکٹر نگار شاہ جی پر لگی ہوئی ہیں۔ کیونکہ یہ پہلا سنہرا موقع ہے کہ ایک خلائی مہم کی ڈائرکٹر ایک  ہندوستانی خاتون سائنسداں ہے۔

کون ہیں محترمہ ڈاکٹر نگار شاہ جی؟

محترمہ ڈاکٹر نگار شاہ جی 1964 میں شیخ میرن او رسائی تھون بیوی کے کسان گھرانے میں تامل ناڈو کی تحصیل ٹینکاسی کے تحت سین گوٹائی میں پیدا ہوئی تھیں۔ آپ سین گوٹائی میں پلی اور بڑھیں اور وہاں کے ایک اسکول ایس آرایم گورنمنٹ ہائر سیکنڈری  اسکول میں تعلیم پائی۔وہاں سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے گورنمنٹ کالج آف انجینئرنگ، مقام ترون ویلی، مدورائی کامراج یونیورسٹی کے تحت الیکٹرونکس اینڈ کمیونیکیشنز میں ڈگری حاصل کی۔اس کے بعدآپ نے الیکٹرونکس میں ماسٹر کی ڈگری برلا  انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنا لوجی، میسرا سے حاصل کی۔

1987 میں اسرو خلائی تنظیم میں، یو آر رائو سیٹلائیٹ پروگرام کے تحت  داخل ہوئیں۔ آپ نے مختلف پروگراموں میں کام کیا اور بحیثیت ایسوسی ایٹ پرو جیکٹ ڈائرکٹر آف ریسور سیسٹ۔ دوم۔ اے  انجام دیا۔ اس کے بعد سے خلائی مشاہدہ گاہ آدِتیہ۔ اول پر مستقل کام کر رہی ہیں۔ آپ کے خاوندبھی ایک انجینئر کے حیثیت سے دبئی میں کام کر رہے ہیں۔ آپ کے فرزند نیدر لینڈ میں ایک سائنس داں کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ آپ کی بیٹی ایک سند یافتہ ڈاکٹر ہیں اور پوسٹ گریجویشن کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

آج کل آپ بنگلور میں اپنی والدہ اور بیٹی کے ساتھ مقیم ہیں اور خلائی مشاہدہ گاہ آدتیہ ایل۔ اول کے سائنس دانوں اور تکنیکی ماہروں کی ٹیم کی سربراہ کی حیثیت سے نگرانی کر رہی ہیں۔

بہت سے زیادہ لوگوں نے آپ کے اس پروجیکٹ کو سراہا ہے اور تعریف کی ہے اور بعضوں نے تو ہندوستانی عظیم سائنس داں اے پی جے عبد الکلام کے نقشِ قدم  پر گامزن سائنس داں لکھا ہے جیسا کہ آپ تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔

خلا میں ایل۔اول کا مقام کیا ہے؟

یہ خلا میں سورج اور زمین کے درمیان وہ مقام ہے جہاں خلائی جہاز و مشاہدہ گاہ آدِتیہ ایل۔اول خود کو اس مقام پر رکھے گا۔ اس لیے اسرو کے مشن  کے سائنس دانوں نے سورج کا مشاہدہ بغیر کسی رکاوٹ کے کرنے کے لیے خلا میں یہ مقام طے کیا ہے۔ خلا میں اس نقطہ کو Lagrange-1 مقام کہا گیا ہے۔ لیگرینج ایک ماہر ریاضی کا نام ہے جس نے خلا میں سورج اور زمین کے درمیان ایسے پانچ نقطوں کو دریافت کیا تھا۔ اس لیے یہ پانچ نقطے اس کے نام  سے موسوم ہیں۔یہ وہ مقام ہیں جہاں دو خلائی جرم گھومتے اور گردش کر تے ہوئے بڑے اجرام کے مادوں کی قوت کی نفی کرتا ہے۔ اس لیے کوئی بھی خلائی جہاز سورج اور زمین کے درمیان ان نقطوں پر دونوں اجرام کی کشش کے کھنچائو اور مرکز گریز قوت (Centrifugal force) کے تحت وہیں ٹکا رہے گا اور زمین کے ساتھ ساتھ گھومتا رہے گا۔ سورج اور زمین کے درمیان ایسے پانچ مقام ہیں۔

 خلا میں ایل۔اول مقام ہماری زمین کے ان پانچ نقطوں میں سے پہلا نقطہ ہے جو ہماری زمین سے 1,50,00,000 کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ یعنی چاند سے چار گنا زیادہ فاصلے پر۔ اس نقطے پر جو بھی جرم رکھ دیا جائے گا وہ ہمیشہ وہیں پر رہے گا اور زمین کے ساتھ ہی ساتھ سورج کے گرد گردش کرتا رہے گا۔خلا میں اس نقطہ سے سورج کے ہالۂ نور (Halo) کا مشاہدہ آسانی سے بغیر کسی رکاوٹ کے ہوگا۔ اس نقطہ پر سورج اور زمین کی کشش کا کھنچائو یعنی قوت جاذبہ خلائی مشاہدہ گاہ آدِتیہ ایل۔اول کو ہماری زمین کے ساتھ ہی ساتھ گھماتی رہے گی۔ آج کل خلائی سیارچہ ایس او ایچ او (SOHO) بھی اسی نقطے سے سورج کے ہالۂ نور کا مشاہدہ کر رہا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو خلا میں یہ نقطہ خلائی مشاہدہ گاہ آدِتیہ ایل۔اول کے پارکنگ کی جگہ ہے۔ جہاں سے یہ مشاہدہ گاہ اسرو کے زمین پر خلائی اسٹیشن کو سورج کے ہالۂ نور کی تصویریں مستقل روانہ کرتی رہے گی اور ہمیں ہمیشہ شمسی آندھی کے بارے میں پیشگی اطلاع فراہم ہوتی رہے گی۔

خلا میں ایل۔اول مقام پر مشاہدہ گاہ ایل۔اول کو قائم رکھنے کے کیا فائدے ہیں؟

پہلا فائدہ یہ ہے کہ اس مقام سے سورج کا مشاہدہ بغیر کسی رکاوٹ کے ہوسکتا ہے یہاں تک کہ سورج گرہن کے دوران بھی۔

دوسرا فائدہ یہ ہے کہ خلا میں  ایل۔اول  مقام سورج اور ہماری زمین کے درمیان کے فاصلہ کا ایک فیصد ہے۔ اس لیے مشاہدہ گاہ ایل۔اول پر نصب تمام سائنسی آلات سیدھے سورج کا مشاہدہ آسانی سے کر سکیں گے۔

تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اس مشاہدہ گاہ پر نصب سائنسی آلہ وی ایل ای  سی سورج سے خارج شدہ مادے کا آسانی سے مشاہدہ کر سکے گا۔

چوتھا فائدہ یہ ہے کہ اس مقام پر مشاہدہ گاہ آدتیہ ایل۔ اول کا کم سے کم ایندھن خرچ ہوگا۔

خلا میں اس مقام سے تمام سائنسی مقاصد پورے ہوں گے۔  مثلااس مشاہدہ گاہ کے ذریعے ہمارے سب سے قریب ستارہ یعنی سورج کا گہرا مطالعہ ہو سکے گا یعنی کس طرح سورج کی ریڈیشن، گرمی، سورج سے بھر پور ذرات کا خارج ہونا اور ان کا کتنا اثر ہماری زمین کے مقنا طیسی علاقے پر ہوتا ہے۔ اس مشاہدہ گاہ پر نصب آلات سورج کی بالا فضا کی تہہ جس کو  لونی فضا (Chromosphere)کہا جاتا ہے یعنی سورج کے آس پاس کی فضا پر چھایا ہوا گیس کا غلاف ہے جو کرۂ ضیائی اور سورج کے ہالہ کے درمیان واقع ہے۔ اس کا مطالعہ آسانی سے ہو سکے گا۔ نخزِ مائیہ (Plazma) اور مقنا طیسی علاقے جو سورج کے ہالہ سے خارج ہوا مادہ کہلاتا ہے (Coronal mass ejection)کا بھی ہمارے سائنس داں مطالعہ کر سکیں گے۔ سورج کے ہالہ کا مقنا طیسی علاقہ اور سورج کی فضا کا بھی مطالعہ کیا جائے گا۔

سائنس دانوں کو بہت عرصہ پرانا پوشیدہ راز بھی معلوم ہو سکتا ہے کیونکہ اتنا زیادہ چمکدار سورج کے ہالہ کا درجۂ حرارت 10,00,000 سینٹی گریڈ ہے جب کہ سورج کی سطح کا درجۂ حرارت صرف 5,500 سینٹی گریڈ ہے۔ ایسا کیوں؟ یہ سائنس دانوں کو سورج پر ذرات کی رفتار بڑھنے کے عمل کے اسباب جو شمسی آندھی کی رہنمائی کرتے ہیں ان کو بھی سمجھنے میں مدد کرے گا۔

اس شمسی مشاہدہ گاہ ایل۔اول پر نصب آلہ ویلیک (VLEC) کا میکینزم ہے کہ جس کے ذریعے چمکدار دکھائی دینے والی روشنی بند ہوجاتی ہے اور صرف وہ روشنی جو سورج کے ہالہ سے آرہی ہے جانچی جاتی ہے۔ یہ آلہ سورج کے ہالہ کا مطالعہ کرنے کے لیے بہت ہی قلیل وقفہ کے لیے کھلے گا یعنی صرف 5 ملی سیکنڈ۔ تب ہی سورج کے ہالہ کے بارے میں معلومات ہو سکتی ہیں۔ انسانی آنکھ سورج کے ہالہ کو نہیں دیکھ سکتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ سورج کے موسم کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

اس لیے کہ سورج بھی کائنات میں دوسرے ستاروں کی طرح ایک ستارہ ہے جو ہماری زمین سے سب سے قریب ستاروں میں سے ایک ہے۔ یہ ستارہ ہماری زمین سے 14,96,00,000کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ سورج کا اپنا نظامِ شمسی ہے جس کے تحت اس کے گرد 8 سیارے گردش کر رہے ہیں جن میں ہماری زمین جس پر ہم اور آپ بستے ہیں ،سورج سے تیسرا سیارہ ہے۔ اس سیارہ پر ہی زندگی موجود ہے۔ باقی کے پانچ سیاروں پر زندگی یا زندگی کے آثار ابھی تک نہیں پائے گئے ہیں۔ سورج کی گرمی کے ذریعے ہی اس زمین پر سورج کے مزاج پر موسم منحصر ہیں۔سورج ، دہکتی آگ کا ایک گولہ ہے۔ اس میں ہائیڈروجن گیس بذریعہ کیمیائی رد عمل Fusion ہیلیم گیس میں تبدیل ہو رہی ہے۔اس تبدیلی کے ذریعے سورج میں مستقل آگ بھڑک رہی ہے۔

سورج پر آگ اتنی شدید ہے کہ جس کی تپش کے ذریعے ہماری زمین پر زندگی موجود ہے۔یہی نہیں بلکہ اس کی شدید تپش کے ذریعے ہماری زمین پر طوفان، سیلاب وغیرہ بھی آتے ہیں۔ یہ سب ہماری زمین کے موسم پر اثر کرتے ہیں۔ سورج سے شمسی آندھی تو ہمارے بجلی پیدا کرنے کی گرڈ اور سیارچوں پر بری طرح اثر کرتی ہے۔ سورج کے موسم کے بارے میں ہمیں پیشگی اطلاع کے ذریعے ہی ہم اپنی بجلی کی گرڈ اور سیارچوں کو بچا سکتے ہیں۔ اس سائنسی دور میں ان خطرات سے بچائو کرنے کے  لیے ہمیں سورج کے موسم کے بارے میں پیشگی اطلاع کی شدید ضرورت ہے۔ یہ پیشگی اطلاع سورج کی مشاہدہ گاہ ایل۔اول ہی دستیاب کرا سکتی ہے۔

شمسی مشاہدہ گاہ ایل۔اول پر کون کون سے سائنسی آلات نصب ہیں؟

شمسی مشاہدہ گاہ  ایل۔اول پر 7 سائنسی آلات نصب ہیں۔ ان سائنسی آلات کی سورج کی شدید گرمی سے حفاظت کے لیے شمسی مشاہدہ گاہ ایل۔اول کا ڈھانچہ بہت ہی زیادہ طاقتور اسٹیل کے آمیزہ سے بنایا گیا ہے۔ یہ اسٹیل کا آمیزہ نہ صرف دیر پا قائم رہنے والا ہے بلکہ خلا میں شدید درجہء حرارت کو برداشت  کر سکتا ہے۔ اسی لیے شمسی مشاہدہ گاہ ایل۔اول پر نصب تمام سائنسی آلات  باوجود سورج کی شدید گرمی کے بحفاظت اپنا کام کرتے رہیں گے۔

1             سب سے خاص آلہ’دکھائی دینے والی خارج ہوئی لائن ہالہ گراف‘  (Visible Emission Line Cornograph)   یعنی (VLEC) جو کہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرو فزیکس کے ذریعے ڈیزائن کیا گیا ہے اور جو سب سے زیادہ اہم سورج کے ہالہ کا سب سے نچلا حصہ اوپر کی طرف کا مطالعہ کرنے میں مدد کرے گا۔ یہ آلہ سورج کے ہالہ کی تصویر کشی کر سکتا ہے یعنی سورج کے نصف قطر کا 1.05گُنا۔ابھی تک کسی بھی نصب آلہ نے  اتنا قریب سے سورج کے ہالہ کی تصویر کشی نہیں کی ہے۔

2             آلہ شمسی الٹرا وائلٹ تصویر کشی دوربین(Solar Ultraviolet Imaging Telescope) یعنی (SUIT) ۔ 

یہ آلہ انٹر یونیورسٹی سینٹر برائے اسٹرو نامی اینڈ فزیکس (IUCAA) کے ذریعے تیار کیا گیا ہے۔ یہ آلہ الٹرا وائلٹ روشنی کو پکڑے گا اور شمسی کرہ ٔلون کی تصویر کشی کرے گا۔سورج سے خارج ہوئی روشنی کی توانائی کے فرق کا مطالعہ کرنے میں یہ آلہ مدد کرے گا۔

3             آلہ قلیل شمسی توانائی ایکسرے طیف پیما (The Solar Low Energy X-Ray Spectrometer)  یعنی SoLEXS)) اور زیادہ توانائی ایل۔اول، ذرات ایکسرے طیف پیما (HEL1OS) یہ آلہ ، آر۔ راو  سیٹلائٹ سینٹر نے تیار کیا ہے  جو کہ سورج کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کا ایکسرے کرنے میں مدد کرے گا۔

4             آلہ دی آدتیہ شمسی آندھی ذرات تجربہ(The Aditya Solar Wind Particle Experiment)  یعنی (ASPEX) یہ آلہ شمسی آندھی کے بارے میں پیشگی اطلاع دے گا۔

5             آلہ پلازمہ انالائزر برائے آدِتیہ (Plazma Analyser Package for Aditya)  یعنی (PAPA) یہ آلہ اسرو کے فزیکل ریسرچ لیبا ریٹری کے ذریعے تیار کیا گیا ہے۔ اس آلہ کے ذریعے شمسی آندھی اور تونائی کے آیونز کا مطالعہ کیا جائے گا۔

6             آلہ ہیلیو (HELIO)  یہ آلہ سورج کی فضا کا مشاہدہ کرے گا۔ خاص طور پر کرۂ لون (Chromosphere) اور سورج کا ہالہ۔

7             آلۂ میگ(MAG) یہ آلہ سورج کی مشاہدہ گاہ ایل۔ اول کے سورج کی طرف کے حصہ پر نصب ہے۔ یہ آلہ مقناطیسی علاقہ کا سینسر ہے۔ اس آلہ کو  لیبا ریٹری برائے الیکٹروآپٹکس سسٹم (LEOS) نے تیار کیا ہے۔ یہ آلہ بین سیاروی قدر (Magnitude) اور زمین کے گرد مقناطیس کی سمت ناپے گا۔

مستقبل میں ہندوستانی خلائی اسرو تنظیم کے مزید خلائی پروگرام آنے کی امید کی جا رہی  ہے۔

وہ بچے و بچیاں جو اس مضمون کا مطالعہ کر رہے ہیں، وہ ابھی سے اپنی زندگی میں عظیم سائنس داں،تکنیکی ماہر، اسٹروناٹ و ایرو انجینئر وغیرہ بننے کی تیاری شروع کردیں۔اس کے لیے آپ کو اپنے اسکول میں مضامین ریاضی،سائنس، بایو لوجی، فزیکس پر زیادہ سے زیادہ دھیان دینا ہوگا۔

حوالہ جات

1             کتاب ’خلا میں ہندوستانی پروگرام کی جھلکیاں‘، مصنف : انیس الحسن صدیقی، شائع 2018، ناشر : قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان،وزارتِ ترقی انسانی مسائل، حکومت ہند، فروغِ اردو بھون، FC-33/9، انسٹی ٹیوشنل ایریا، جسولہ، نئی دہلی۔ 110025

2             خلائی اسرو تنظیم کی ویب سائٹ:

                http:www.isro.org/

3             مضمون،’چاند پر قدم، نظر سورج پر‘(Feet on Moon, eyes on Sun)، مصنف : انوننا دت، شائع : دی انڈین ایکسپریس،نئی دہلی ایڈیشن، بتاریخ 29 اگست

4             مضمون: ’’سورج کے نزدیک: آدِتیہ ایل۔اول مشن اور اس کے مقاصد ’’،(The Sun up close: Aditya l-1 mission and its objectives) ، مصنف: انجلی مرار، شائع ، دی انڈین ایکسپریس،نئی دہلی ایڈیشن، بتاریخ 2 ستمبر، 2023

 

A. H. Siddiqui

679, Sector-22-B

Gurugram- 122015 (Haryana)

Mob.: 9654949434

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

مظہر امام کی شاعری، مضمون نگار: نیر وہاب

  اردو دنیا، مارچ 2025 بیسوی   صدی سماجی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، تہذیبی، اقتصادی ہر لحاظ سے بہت اہم صدی رہی ہے۔ عالمی سطح پر بھی صدی میں ک...