21/5/25

عربی ادب کی تاریخ، مصنف: عبدالحلیم ندوی

 اردو دنیا، فروری 2025


کسی زبان کی اہمیت اور مقبولیت کا پیمانہ صرف یہ نہیں ہے کہ اس کا دائرۂ عمل زمین کے کتنے لمبے اور چوڑے رقبے پر پھیلاہوا ہے یا اسے دنیا کی آبادی میں سے کتنی بڑی اکثریت بولتی اور سمجھتی ہے، بلکہ اس کے ساتھ اس کی کسوٹی یہ بھی ہے کہ اس کا دامن کتنا وسیع ہے۔ اس میں کتنی گہرائی اور کتنی گیرائی ہے۔ اس کے نحوی قاعدوں اور گرامر کے اصولوں میں کتنا استحکام، پختگی اور اسی کے ساتھ کتنی وضاحت ہے۔ اس کے الفاظ کتنے شیریں، اس کا پیرایہ بیان کتنا دلکش اور اس کا طریق تلفظ اور صوتی اثرات کتنے موثر اور اس کے سیکھنے سکھانے کے امکانات اور طریقے کتنے سادے اور آسان ہیں۔ جس زبان میں دائرہ عمل کی وسعت اور کثرت استعمال کے ساتھ ساتھ نحوی قاعدے (گرامر) جتنے سائنٹفک، واضح اور مستحکم ہوں گے، جس کے الفاظ جتنے شیریں اور طرز ادا جتنا دلکش اور اسلوب بیان جتنا موثر اور جس کے معانی جتنے عمیق اور گہرے ہوں گے اسی اعتبار سے زبان کی اہمیت، مقبولیت اور کارفرمائی کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس نقطۂ نظر سے اگر ہم عربی زبان کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس میں یہ تمام خوبیاں پوری طرح موجود ہیں اور اس وجہ سے اسے دنیا کی مروجہ زبانوں میں ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ عربی زبان کی یہی بے مثال خوبیاں اور امتیازی خصوصیات تھیں جن کی وجہ سے سرداران قریش باہر سے آنے والے عربوں کے کانوں میں قرآن کی بھنک بھی نہ پڑنے دینا چاہتے تھے کہ مبادا اس کی سحرطرازی کی وجہ سے اسلام لے آئیں۔ اس زبان کی یہی خوبیاں اور امتیازی خصوصیات ہیں، جنھوں نے ڈیڑھ ہزار سال سے نہ صرف اسے بول چال کی ایک کثیرالاستعمال زبان کی حیثیت سے قائم رکھا ہے بلکہ ایک ترقی پذیر، وسیع اور دلکش ادبی و فنی زبان کے قالب میں زندہ رکھا ہے اور اس کو بدلنے یا کمزور کرنے کی مختلف کوششوں کے باوجود اس کے اثر و رسوخ اور ہمہ گیری میں کوئی کمی نہیں آئی۔ کیونکہ اس میں زندہ رہنے، ترقی کرنے، زمانے کے ساتھ چلنے او رپھلنے پھولنے کی وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جو ایک زبان کو زندہ جاوید بنا دیتی ہیں۔

سامی زبانوں کی شاخوں میں عربی زبان سب سے زیادہ سائنٹفک مربوط، منضبط اور اصول و قواعد کے اعتبار سے گٹھی اور منظم زبان ہے جن کی وجہ سے اس میں چند ایسی امتیازی خصوصیات پیدا ہوگئیں جو عام طور سے دوسری زبانوں میں کمیاب ہیں۔ ان خصوصیات میں سے چند درج ذیل ہیں۔

عربی زبان کی گرامر:عربی زبان کو لکھنے بولنے اور اس میں مافی الضمیر کو ادا کرنے کے لیے جو نحوی اور صرفی قاعدے وضع کیے گئے ہیں ان کی بنیاد قرآن و حدیث کے لسانی شواہد خالص عربی قبائل میں مروج طریقوں اور مستند علما و ادبا کے طریق استعمال پر ہے او ران کے وضع کرنے میں علمائے لغت نے بڑی کاوش اور دیدہ ریزی سے کام لیا ہے اور مدتوں کی تحقیق و جستجو، جہاں بینی اور غور و فکر کے بعد ان کو آخری شکل دی ہے۔ اس لیے ان میں ایسا استحکام، ایسی پختگی اور تیقن کی شان پیدا ہوگئی ہے کہ تغیر و تبدل، حذف و اضافہ کی مطلقاً گنجائش نہیں رہ گئی ہے۔ زبان کے قاعدوں کی امتیازی خصوصیت کی وجہ سے اس کے سیکھنے سکھانے میں بڑی آسانی ہوگئی ہے کیونکہ جو قاعدہ ہے وہ اپنی جگہ اٹل ہے اور اگر کہیں استثنا کی شکل ہوتی ہے تو اس کا ذکر بھی اسی جگہ کردیا جاتا ہے اور اس قسم کی استثنائی صورتیں بہت کم ہوتی ہیں۔ اس صفت کی وجہ سے ان قاعدوں کو یاد کرکے برتنا بہت آسان ہوگیا ہے۔ یوں تو عربی زبان کے قواعد ایک مستقل فن بن گئے ہیں، لیکن جہاں تک زبان سیکھنے اس میں دسترس حاصل کرنے اور مافی الضمیر کو ادا کرنے کی ضرورت ہے اس پورے دفتر کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ اس میں مہارت تامہ حاصل کرنے کی۔ یہ کام تو ان لوگوں کے لیے ضروری ہے جو ’نحو‘ کو بحیثیت فن سیکھنا چاہتے ہوں اور ایسے لوگوں کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ عربی زبان کے ادیب یا انشاپرداز بن جائیں۔ زبان کو لکھنے اور بولنے اور سمجھنے کے لیے ان سب قاعدوں کو نوک زبان کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کام کے لیے تو چند گنے چنے اور متعین قاعدے یاد کرکے انھیں قلم و زبان پر رواں کرلینا ہی کافی ہے اور تجربے نے بتایا ہے کہ اس طریقے پر عمل کرکے بعض علما اس ہندوستان میں بھی عربی ادب کے اچھے انشاپرداز اور خطیب بن گئے ہیں۔

عربی زبان کا اعراب: عربی زبان دنیاکی شاید ان چند زبانوں میں سے ایک ہے جن میں الفاظ کی آوازوں کو علامتوں کے ذریعے ظاہر کیا جاتا ہے اور یہ اس زبان کے وسیع، متمدن اور صاف ستھرے ہونے کی دلیل ہے۔ چنانچہ عربی میں الفاظ کی صوتی شکلوں کو لکھ کر نہیں بلکہ چند اشاروں کے ذریعے جنھیں اعراب کہا جاتا، ظاہر کیا جاتا ہے اور اس کے لیے زیر، زبر اور پیش کی علامتیں ایجاد کی گئی ہیں۔ اس طریقے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ لکھنے کے حروف کم ہوجاتے ہیں اور اس سے وقت کی بچت ہوجانے کے علاوہ ادبی ذوق اور ملکہ کی پوری طرح آبیاری  ہوتی ہے کہ اگرگرامر کے قاعدے اور اصول ذہن نشین ہیں تو عبارت کو پڑھنے اور سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہوگی۔

نزاکت بیان: زبان میں نزاکت کا وجود خواہ وہ لفظی ہو یا معنوی یا ترکیبی، اس کی خوبصورتی اور دل آویزی میں چار چاند لگا دیتی ہے۔ عربی زبان اس نقطۂ نظر سے دنیا کی بڑی سامعہ نواز اور دل آویز زبانوں میں سے ہے۔ اس کے حروف تہجی میں ثقیل حروف مثلاً ژ، پھ، چھ، ڈھ، گھ، ڑھ وغیرہ کے نہ ہونے کی وجہ سے اس کے الفاظ بہت شیریں اور سامعہ نواز ہوگئے ہیں۔ غیرزبانوں کے جو الفاظ اس میں مستعار آئے ہیں انھیں عربی ذوق کا ایسا جامہ پہنا دیا گیا ہے کہ معرب ہوکر وہ بھی عربی زبان کے حسن میں ڈھل کے نکھر گئے ہیں۔ عربی الفاظ کی نزاکت بیانی کا یہ عالم ہے کہ معانی کے جزئیات بھی پوری طرح واضح ہوجاتے ہیں اور کوئی گوشہ تشنہ نہیں رہتا۔ جیسے دن کے ہر گھنٹہ اور پہر کے لیے ایک الگ مخصوص نام کا پایا جانا، یا چاندنی رات کے ہر مرحلہ کا ایک مخصوص نام۔ اسی طرح بالوں، آنکھوں اور ان کے امراض کے اور اونٹ و گھوڑے کے ذرا سے فرق کے ساتھ الگ نام اور تلوار کے اس کی صفات کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بالکل الگ اور امتیازی نام۔ اسی طرح  اس زبان میں بعض ایسے الفاظ پائے جاتے ہیں جن کے معانی میں اتنی وسعت اور گہرائی ہے کہ اس کا ترجمہ کئی سطروں میں آتا ہے۔ یہی حال مصادر اور ان کے مشتقات کا ہے کہ ایک ہی مصدر کی جڑ سے مختلف معانی دینے والے مختلف قسم کے افعال مشتق ہوتے ہیں۔ چنانچہ افعال میں ایک حرف بڑھا دینے سے یا گھٹا دینے سے معانی بالکل بدل جاتے ہیں جیسے ’طعم‘ (کھایا)، ’اطمع‘ کھلایا۔ اسی طرح صلات کے بدلنے سے افعال کے معنی بالکل بدل جاتے ہیں جیسے ’رغب الی‘ (کسی کی طرف مائل ہونا) اور ’رغب عن‘ (کسی سے منہ موڑ لینا۔ نفرت کرنا) عربی ادب میں صلات کے علم کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ بعض علما نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ زبان دانی صرف صلات کا علم ہے۔ انسان کے اوصاف اور اس کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کے لیے جو موزوں ترین طریقے اور جو الفاظ عربی زبان میں پائے جاتے ہیں شاید ان کی مثال دوسری زبانوںمیں نہ ملے۔ چنانچہ صرف محبت کے جذبات اور اس کے مختلف نازک ترین مراحل کے اظہار کے لیے عربی زبان میں کم سے کم دس الفاظ پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح نفرت و حسد اور بخل و سخاوت اور لالچ اور ان کے مختلف مراحل کے لیے بھی متعدد الفاظ پائے جاتے ہیں۔ جو ان صفات و احساسات کے جزئیات تک کو واضح کردیتے ہیں۔

اعجاز و ایجاز: عام طور سے دنیا کی ہر زبان میں کم الفاظ کے ذریعے بہت معانی پیدا کرنے کا طریقہ رائج ہے جسے اصطلاح میں ’اعجاز‘ کہا جاتا ہے۔ عربی زبان اعجاز کے معاملہ میں منفرد زبان ہے۔ اس میں بکثرت ایسے الفاظ پائے جاتے ہیں جن کی تشریح کے لیے ایک دفتر چاہیے۔ مثلاً لفظ ’الحمد‘ کو لے لیجیے جس سے قرآن کی سورہ فاتحہ شروع ہوتی ہے جس کے معانی علما یہ بتاتے ہیں کہ انعامات و احسانات کے اعتراف کے جذبہ کے ساتھ انسان نے شکر ادا کرنے کے جتنے طریقے ایجاد کیے ہیں یا ایجاد کرے گا یا سوچا ہے یا سوچ سکتا ہے وہ سب اس خدائے منعم و محسن کے لیے مخصوص ہیں۔ اس ایک لفظ میں ایسی جامعیت اور شمولیت ہے کہ دفترکے دفتراس معنی کو ادا کرنے کے لیے ناکافی ہیں اور الفاظ کی یہ صفت جامعیت عربی زبان میں بہت عام ہے۔ بات کو اشاروں کے ذریعے پر لطف بنانے کے لیے کنایہ،مجاز اور اسلوب کو دلنشیں اور موثر بنانے کے لیے معانی و بدیع کا استعمال عربی زبان کی ایک امتیازی خصوصیت ہے۔

مترادفات اور اضداد کا وجود: دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں ایک معنی کے ادا کرنے کے لیے کئی لفظ استعمال کرنے کا طریقہ رائج ہے۔ ان الفاظ کو ’مترادفات‘ یا ’مرادف الفاظ‘ کہا جاتا ہے۔ عربی زبان کا دامن مترادفات کے معاملہ میں بڑا وسیع ہے۔ چنانچہ علمائِ لغت نے صرف سال کے لیے 24 نام اور روشنی کے لیے 21، تاریکی کے لیے 52، کنویں کے لیے 88، پانی کے لیے 170، شیرکے لیے 350 اور اونٹنی کے لیے 255 نام لکھے ہیں۔ اسی طرح انسانی حلیہ کے لیے اور اوصاف کے لیے بھی متعدد الفاظ آتے ہیں۔ چنانچہ عربی میں درازی قد کے لیے 91 الفاظ، پستہ قدی کے لیے 120 الفاظ آئے ہیں۔ اوصاف میں بخل، سخاوت، شرافت، رذالت وغیرہ کے الفاظ کے لیے بھی مختلف الفاظ آئے ہیں۔

الفاظ کے معانی کے اظہار کے سلسلہ میں عربی زبان کو دوسری زبان کے مقابلہ میں یہ امتیازی خصوصیت حاصل ہے کہ اس میں بعض الفاظ ایسے ہیں جو متضاد معنی دیتے ہیں جیسے ’دون‘ کا لفظ ہے کہ اس کے معنی کم، زیادہ، قریب، دور اور آگے پیچھے کے بھی آتے ہیں۔

ایک لفظ کے کئی معانی کا نکلنا: غالباً عربی زبان دنیا کی زبانوں میں اس حیثیت سے بالکل منفرد زبان ہے کہ ایک ہی لفظ بسااوقات کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ علمائِ لغت نے دو سو سے زائد الفاظ ایسے جمع کیے ہیں جو تین معنوں میں استعمال ہوتے ہیں اور 100 سے زائد الفاظ جو 4 اور 5 معنی دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض الفاظ 25 معنی دینے والے بھی ہیں۔ چنانچہ ’فال‘ کا لفظ 27 معنی کو ظاہر کرتا ہے اور ’عین‘ کا لفظ 35 معنی کو اور ’عجوز‘ کا لفظ 60 معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

حکم و امثال کا وجود: کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معانی کو دل نشیں انداز میں ظاہر کرنے کا طریقہ کم و بیش ہر زبان میں پایا جاتا ہے جسے مثل یا کہاوت کہتے ہیں مگر عربی زبان میں اس کی بہت کثرت اور اس میں بڑا تنوع ہے۔ عربوں کو اپنے مخصوص طرز زندگی کی وجہ سے عناصر فطرت سے براہ راست مقابلہ کرنا پڑتا تھا۔ اس طرز زندگی کے تجربات سے عربوں نے براہ راست نتائج اخذ کیے۔ ان نتائج کو حکمت و فلسفہ، دانش مندی و جزرسی کی آمیزش سے الفاظ کے ایسے خوبصورت قالب میں ڈھالا گیا جو صوتی اثرات کے حسن و جمال کے علاوہ معنویت میں بھی ایک بحر بے کراں تھے اور یہی قالب ’ضرب الامثال‘ یا کہاوتیں کہلائیں۔

ان اہم اور امتیازی خصوصیات کے علاوہ عربی زبان میں ’سجع‘ یعنی مقفی اور مرصع نثر کا طریقہ بھی رائج تھا جسے عام طور سے اسلام سے پہلے پروہت (کہان) اور مقررین بھی استعمال کرتے ہیں۔

الفاظ کے صوتی اثرات کے ذریعہ منظرکشی کرنے میں عربی زبان کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ چنانچہ اس زبان میں بعض ادبا ایسے گزرے ہیں جنھوں نے الفاظ کے ذریعے کسی چیز کا ایسا نقشہ کھینچ دیا کہ اس کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر گئی۔ جیسے ابوزید الطائی نے حضرت عثمان کے سامنے شیرکا حلیہ اس طرح بیان کیا کہ اس کا مہیب تصور آنکھو ںکے سامنے آگیا۔

غرض کہ عربی زبان ان گوناگوں امتیازی خصوصیات کی وجہ سے مختلف زمانوں کے نشیب و فراز سے گزرتی ہوئی، مختلف ملکوں اور قوموں سے تعلق پیدا کرتی ہوئی، کبھی ان سے چھٹتی ہوئی، کبھی ان سے جڑتی ہوئی نہ صرف آج تک باقی ہے بلکہ روزبروز ترقی کررہی ہے اور اپنا دائرۂ اثر و عمل بڑھا رہی ہے۔

 

ماخذ: عربی ادب کی تاریخ، مصنف: عبدالحلیم ندوی، چھٹی طباعت: 2014، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

مظہر امام کی شاعری، مضمون نگار: نیر وہاب

  اردو دنیا، مارچ 2025 بیسوی   صدی سماجی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، تہذیبی، اقتصادی ہر لحاظ سے بہت اہم صدی رہی ہے۔ عالمی سطح پر بھی صدی میں ک...