28/10/25

خلیل علی خاں اشک،ماخذ: ارباب نثر اردو، مصنف: سید محمد، مرتب: رحیل صدیقی

 اردو دنیا، مئی 2025

 

فورٹ ولیم کالج میں خلیل علی خاں ہی ایک ایسے مولف ہیں جن کی کتاب تو بے حد مقبول اور رائج ہوئی مگر وہ اس کی بدولت مشہور ہونے کے بجائے بالکل پردۂ گمنامی میں رہے۔ ’قصۂ امیر حمزہ‘ کے نام سے ہندوستان کا بچہ بچہ واقف ہے۔ اس زمانے میں بھی جب کہ اردو زبان نے ترقی کے کئی مدارج طے کرلیے ہیں اور اس میں ناولوں، قصوں، مختصر افسانوں کا کافی ذخیرہ موجود ہے اور روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔امیرحمزہ کے شائق اکثر جگہ نظر آتے ہیں اور اب بھی اس کتاب کو تھوڑی بہت مقبولیت حاصل ہے مگر یہ عجیب اتفا ق ہے کہ خلیل علی خاں کی محنت شاقہ نے ان کو نام و نمود سے اب تک بالکل محروم رکھا اور شاید یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ان کا نام ان کے اپنے کارناموں کے ساتھ اردو داں پبلک سے متعارف کرایا جارہا ہے۔ انھوں نے جس کاوش و محنت سے داستان امیر حمزہ سی ضخیم کتاب جو کئی سو صفحات پر مشتمل ہے لکھی ہے اس کی داد دینا تو کجا آج تک کسی نے اس خصوص میںان کا ذکر بھی نہیں کیا۔1

ہم نے اردو شاعروں کے تقریباً تمام تذکروں کی ورق گردانی کی مگر ان کا حال کسی میں نہیں ملا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ان کے حالات وغیرہ کے متعلق بہت کم معلومات رکھتے ہیں۔ ان کی مولفہ کتابیں بھی ان کے حالات پر کچھ روشنی نہیں ڈال سکتیں۔2 جہاں تک ہمیں معلوم ہے مولوی عبدالحق صاحب مدیررسالہ اردو نے ’اہل یورپ نے اردو زبان کی کیا خدمت کی‘ کے عنوان سے جو مضمون فورٹ ولیم کالج کے ادبی کارناموں پر لکھا ہے اس میں خلیل علی خاں کا ذکر ہے مگر صرف اتنا ہی کہ انھوں نے 1809 میں کپتان ٹیلر کے حکم سے ’اکبرنامہ‘ علامی ابوالفضل کو ’واقعات اکبر‘ کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا جو شائع نہیں ہوا۔ (رسالہ اردو نمبر 151، ص 485)

پھر مولوی محمد یحییٰ صاحب تنہا نے اپنی کتاب میں ان کا جو ذکر کیا ہے وہ سراسر مولوی عبدالحق صاحب کے بیان کی نقل ہے اور اس میں ایک لفظ کا بھی اضافہ نہیں ہوا۔ (سیرالمصنّفین، ص 136) ان دونوں نے خلیل علی خاں کو خلیل اللہ خاں لکھا ہے مگر ہمارے پیش نظر ان کی جو کتاب ہے اس میں صاف طور پر خلیل علی خاں مندرج ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔3 ہم آگے کسی موقعے پر اشک کا وہ بیان نقل کردیں گے جس سے ان کا اصل نام معلوم ہوسکتا ہے۔ افسوس ہے کہ اشک نے اپنے آبا و اجداد اور مولد وطن کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔ ان کی تاریخ ولادت، مقام پیدائش اور تعلیم و تربیت تک کا حال معلوم نہیں۔4 بہرحال صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ ابتداً کالج کے تنخواہ یاب منشی نہیں تھے۔ غالباً ڈاکٹر گلکرسٹ کے ایما سے اپنے طور پر پہلے یہ کتاب مرتب کی ہوگی او رپھر کالج کے متوسل ہوگئے۔

چار کتابیں ان کی یادگار ہیں۔6 ان میں سے پہلے قصہ امیرحمزہ ہے۔ یہ طولانی اور ضخیم قصہ ڈاکٹر گلکرسٹ کے ایما سے1215ھ (1801) میں لکھا گیا۔ اس قصہ کے اصل مصنف کے متعلق مختلف خیالات ہیں اور کوئی قطعی و یقینی رائے قائم کرنا مشکل ہے۔ ہمارے پیش نظر جو نسخہ ہے اس میں اشک نے لکھا ہے کہ یہ قصہ سلطان محمود غزنوی (998 تا 1030) کے خوش کرنے اور اس فاتح کو ملک گیری و کشورکشائی کے لیے آمادہ و تیار رکھنے کے لیے کئی ایک راویوں اور داستان گویوں نے چودہ جلدوں میں تصنیف کیا۔ ایک اور موقعے پر اشک نے ہی اس کو ملا جلال بلخی سے منسوب کیا ہے۔ برٹش میوزیم میں ایک فارسی نسخہ محفوظ ہے۔ اس میںاس کا مصنف شاہ ناصرالدین احمد کو بتایا گیا۔ اسی میوزیم میں دوسرا نسخہ ابوالعلائی کے نام سے منسوب ہے۔ بعض لوگوں نے اس کو فیضی کے تخلیقی دماغ کی پیداوار بتایا ہے۔ غرض وہ مثل ہے جتنے منھ اتنی باتیں۔ ہماری دسترس  میں اصل فارسی نسخے نہیں ہیں اور شاید ہندوستان میں بہت ہی کم جگہ فارسی نسخے موجود ہوں گے۔ ایسی صورت میں ہم اس کے اصل مصنف کے متعلق کوئی صحیح اور معتبر بات بلا تحقیق کے نہیں بیان کرسکتے۔ پھر یہ بھی شبہ ہے کہ یہ قصہ ابتداً عربی میںبھی لکھا گیا یا فارسی ہی میں تصنیف ہوا۔ خلیل علی خاں اشک اور دیگر ہندوستانی مولفین کے نسخے جو دستیاب ہوئے ہیں ان سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اصل نسخہ فارسی میں اتنا طویل نہ تھا۔ ان لوگوں نے اس میں ہندوستانی عنصر کو داخل کرکے اپنا لیا ہے اس پر ہم ذرا تفصیل سے بحث کریں گے۔

جیسا ہم نے ابھی اوپر لکھا ہے اشک نے اس کو 1215ھ (1801) میں مرتب کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان سے پہلے اردومیں کسی نے توجہ نہیں کی تھی اور سب سے پہلے اشک نے ہی اس کو صاف زبان میں نوآموز ان اردو کے لیے تالیف کیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’مخفی نہ رہے کہ بنیاد اس قصۂ دلچسپ کی سلطان محمود بادشاہ کے وقت سے ہے اور اس زمانہ میں جہاں تک راویان شیریں کلام تھے انھوں نے آپس میں مل کر واسطے سنانے اور یاد دلانے منصوبے لڑائیوں اور قلعہ گیری اور ملک گیری کے خاص بادشاہ کے واسطے امیر حمزہ صاحب کے قصہ کی چودہ جلدیں تصنیف کی تھیں۔ ہر رات ایک داستان حضور میں سناتے تھے انعام واکرام پاتے تھے۔ اب شاہ علی جاہ عالم بادشاہ کے عہد میں مطابق 1215 ہجری اور سنہ اٹھارہ سو ایک عیسوی کے خلیل علی خاں جو متخلص بہ اشک ہے حسب خواہش مسٹر گلکرسٹ صاحب عالی شان والا مناقب بنا پر آموز ان زبان ہندی اس قصہ کو اردوئے معلی میں لکھا تاکہ صاحبان مبتدیان کے پڑھنے کو آسان ہووے۔‘‘

اشک کے نسخے پر بحث کرنے سے قبل ایک نظر مروجہ اور جدید نسخوں پر بھی ڈال لینی ضروری ہے۔ مروجہ نسخوں میں سب سے پہلے منشی نول کشور کا مرتب کرایا ہوا نسخہ ہے۔ اس کو حافظ سید عبداللہ بلگرامی نے ترتیب دیا تھا او ربیان کیا جاتا ہے کہ انھوں نے بڑی محنت سے تعقید عبارت دور کرکے اردوئے معلی کا جامہ پہنایا۔ یہ نسخہ بہت مقبول ہوا۔ چنانچہ چند ہی مہینے میں پہلا ایڈیشن ختم ہوگیا پھر دو ایڈیشن اور شائع ہوئے، چوتھی مرتبہ نول کشور پریس کے مشہور مصحح سید تصدق حسین مرحوم نے جو عربی فارسی کے بڑے عالم تھے اور جن کی یادگار فارسی کی متداولہ و مشہور لغت ’لغات کشوری اب تک مقبول  خاص و عام ہے، اس کی نظر ثانی کی۔ تصدق حسین لکھنؤ کے باشندے تھے اور ان کی زبان عربی و فارسی سے اس قدر متاثر تھی کہ ان کی ہر عبارت سے عربیت اور رنگینی ٹپکتی ہے۔ انھوں نے نظرثانی میں اس کو تکلفات و آرائشات لفظی سے ’فسانۂ عجائب‘ کا جواب بنا دیا  اور جابجا اپنی طرف سے اضافے کیے اور خود بھی بڑے افتخار کے ساتھ دعویٰ کیا ہے کہ بطور نثر ’فسانۂ عجائب‘ ترتیب دیا۔‘‘ اس سلسلے میں انھوں نے درپردہ خلیل علی خاں کی عبارت کو تعقید سے معمور کہا ہے اور اس کو صاف زبان میں لکھنے کا سہرا حافظ سید عبداللہ بلگرامی کے سر باندھا ہے مگر یہ سراسر غلط ہے۔ اشک کی عبارتیں بے حد صاف و سلیس ہیں۔ آگے ہم دونوں کی تھوڑی تھوڑی عبارت جو ایک ہی مضمون سے متعلق ہے نقل کرکے اس غلط بینی کا پردہ فاش کردیں گے جس سے اصل حقیقت ظاہر ہوجائے گی۔

تصدق حسین کا مصححہ نسخہ بھی بہت مقبول ہوا۔ اب تک اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ ان کا طرز بیان جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے بالکل فسانۂ عجائب کی تقلید ہے اور ان کو خود بھی نہ صرف اعتراف بلکہ اس پر افتخار ہے۔ اس میں سادگی اور صفائی نام کو نہیں۔ اس نقص کے بعد بھی اس کا مقبول ہونا قوم کی تکلف پسندی اور بگڑے ہوئے مذاق کی دلیل ہے۔ ہر ملک اور قوم کی تاریخ ادبیات میں ایک دور ایسا ضرور ملتا ہے جب کہ ادب سے اصلیت دور ہوجاتی ہے اور بجائے معنوی خوبیوں کے لوگ ظاہری محاسن اور لفظی آرائشات کو پسند کرنے لگتے ہیں، صفائی اور سادگی پر تکلفات اور صنائع بدائع کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ایسا زمانہ حقیقی ادب کی پیداوار سے محروم رہتا ہے اور اس کا لٹریچر ادب عالیہ نہیں بن سکتا۔ اس کی بہار صرف چند روزہ ہوتی ہے اور کاغذی پھولوں کی طرح وہ بھی ایک محدود عرصے تک پبلک کو مرغوب طبع رہ کر فنا ہوجاتا ہے۔ انگریزی ادبیات میں پوپ اور اس کے مقلدین کی شاعری کا بھی یہی حال ہے۔ فارسی کے متاخر غزل گو یوں کی بھی یہی کیفیت ہے، خیالات میں اصلیت سادگی اور جوش مفقود ہے صرف الفاظ ہی الفاظ ہیں جس میں تاثیر نہیں۔ اسی طرح فارسی کے متاثر نثر نویسوں کے کارنامے بھی اصلیت سے دور ہیں۔ چہار مقالہ، نظامی عروضی، سفرنامہ حکیم ناصر خسرو کے مقابلہ میں سہ نثر ظہوری اور رسائل طغرائے مشہدی  کو ہمیشہ ہرگز فروغ حاصل نہیں ہوسکتا۔ ایک میں بقائے دوام کے آثار ہیں اور دوسرے میں چند روزہ لطف اور وقتی پسندیدگی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اردو میں سرور کے ’فسانۂ عجائب‘ اور تصدق حسین کی مصححہ داستانِ امیرحمزہ اور اس قسم کی دوسری کتابوں کا بھی یہی حال ہے۔ جس طرح اردو شاعری کا مذاق بگڑتے بگڑتے صرف لفاظی اور نقالی رہ گئی۔ نثر نویسی بھی اس قعر میں گرپڑی اور چونکہ ایک زمانہ میں رنگینی طبع اور غفلت سے یہی طرز بیان مقبول تھا اور ان کتابو ںکو بھی مقبولیت مل گئی مگر اب علوم جدیدہ کی ترقی کے ساتھ قوم کے مذاق میں بھی تبدیلی پیدا ہوچلی ہے اور اس قسم کی کتابوں سے عوام کو وہ دلچسپی باقی نہیں رہی جو پہلے تھی۔ اسی داستان امیرحمزہ کو لیجیے اب سے گیارہ سال پیشتر اس کا بارہواں ایڈیشن شائع ہوا تھا۔ دوبارہ اب تک چھپنے کی نوبت نہیں آئی۔ اگرچہ اب قدیم قصوں کی طرف سے ان کی فوق العادت اور خلاف فطرت باتوں کی وجہ سے لوگوں کی دلچسپی کم ہوتی جارہی ہے مگراشک کے ’قصۂ امیر حمزہ‘ اور اس کے ساتھ کی بعض دیگر کتابوں میں ایسے جوہر ضرور موجود ہیں جو پھر ایک بار ان کو مقبولیت دلا سکتے ہیں۔ جب افسانہ کا احیا ہوگا توبہ لحاظ اصلیت و سادگی ان قصوں کو بعد کی مرصع او رپرتکلف کتابوں پر ترجیح حاصل ہوجائے گی اور خود اس وقت بھی اس کے آثار پائے جاتے ہیں۔ آج کل ’فسانۂ عجائب‘ کو وہ مقبولیت حاصل نہیں جو ’باغ و بہار‘ کو ہے۔

خلیل علی خاں کا طرز بیان نہایت سلیس اور بے تکلف ہے۔ انھوں نے میرامن اور شیر علی افسوس کی طرح دہلی کے ٹھیٹ محاوروں او ر روزمرہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا نہیں بنایا بلکہ سنجیدہ عبارت آرائی کی ہے۔ زبان میں گھلاوٹ بھی ہے اور سادگی بھی، ہندی اور فارسی الفاظ کا استعمال نہایت مناسب تناسب کے ساتھ کیا گیا ہے اور اکرام علی کی طرح زبان میں روانی اور صفائی بے حد ہے۔ کوئی فقرہ ضرورت سے زیادہ طویل نہیں معلوم ہوتا۔ بعض الفاظ جو اب تک متروک ہوگئے ہیں اس میں بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے دیگر معاصرین کے مقابلہ میں اشک کے ہاں ایسے متروکات کی تعداد بہت کم ہے۔ بعض جگہ فارسی ترکیبیں اور چھوٹے چھوٹے فارسی ٹکڑے بھی رکھے گئے ہیں مگرایسی طویل کتاب میں ان سب کا استعمال برا نہیں۔ اس سے بجائے مصنوعیت  پیدا ہونے کے اصلیت کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔

امیر حمزہ کی داستان اردو ادبیات میں عجیب اہمیت رکھتی ہے۔ پہلے ہی یہ قصہ چار جلدوں میں لکھا گیا تھا۔ منشی محمد حسین جاہ اور منشی احمد حسین قمر نے اس کے مضمون کو طوالت دے کر اور حاشیے چڑھا کر کئی جلدیں طلسم  ہوش ربا کی تیار کیں، پھر دوروں نے اس سلسلے کو اور آگے بڑھایا اور شبدیز قلم کی جولانیوں سے طلسم ہفت پیکر، طلسم نوروزی جمشید، ایرج نامہ، اختر نامہ وغیرہ خداجانے کتنے ناموں سے اس سلسلے کی جلدو ںپر جلدیں تیار کیں۔7 غرض انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا (قاموس العلوم برطانیہ) کی طرح اس سلسلہ کا ایک اچھا خاصا کتاب خانہ بن گیا اور داستان پسند پبلک کی ضیافت طبع کے لیے اتنا وافر ذخیرہ جمع ہوگیا کہ عمرکا بہت بڑا قصہ اس کے مطالعہ کی نذر ہوجائے۔

قصۂ امیرحمزہ کے رجال داستان میں عرب و عجم کی مشاہر ہستیوں کی عجیب آمیزش ہے۔ ایک طرف امیر حمزہ، عمرو عیاراور مقبل کی سیرتیں عربی ہیں تو دوسری طرف بزرچمہر، بحثک، قباد اور نوشیرواں وغیرہ خالص ایرانی ہیں۔ پھر تاریخی اور افسانوی شخصیتوں کو عجیب انداز سے مدغم کیا گیا ہے۔ بعض رسمیں اور طریقت خالص ایرانی ہیں جس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ یہ قصہ ابتداً فارسی ہی میں تصنیف ہوا تھا۔ جیسے اڑتے ہوئے پرندوں میں سے کسی خاص پرندے کو تاک کر تیر مارنا اور اگر تیراسی کے لگے تو اس سے اپنے مقصد میں کامیابی و موافق مرام نتیجے کی فال لینا، جس کو فال گوش کہتے ہیں۔ یہ خالص ایرانی دستور ہے۔ اس کے علاوہ ساری داستان میں بہت سی باتیں خالص ہندوستانی بھی ہیں جن سے صاف طور پر ثابت ہے کہ اردو میں منتقل کرتے وقت مترجم کے دماغِ رسا نے یہ اضافے کیے ہیں اور اصل قصے کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے۔ مثلاً مدرسہ میں عمرو عیار کی شرارتوں کی جو تفصیل دی ہے وہ سب  ایسی شرارتیں ہیں جو نہ صرف ہندوستانی طلبہ میں پائی جاتی ہیں بلکہ خاص اسی ملک کی چیزیں ہیں یا عمرو عیار ایک دفعہ نوشدارو حاصل کرنے کے لیے مدائن جاتا ہے یاور وہاں اپنے آپ کو گاؤں کا باشندہ بتاتا اور نوشیرواں سے دیہاتی زبان میں گفتگو کرتاہے۔ اس موقعے پر قصہ نویس نے جو زبان استعمال کی ہے وہ صوبۂ اودھ کے ایک گاؤں کی ہے۔ عمرو و عیار کا ایک دفعہ سمندر میں ایک کشتی سے ٹاپو پر کود پڑنا اور پھر ایک موقعے پر ساحل پر اترتے ہی تسمہ پا اشخاص کا نظر آنا، یہ ٹکڑے الف لیلہ سے ماخوذ ہیں۔ اسی طرح سر اندیپ کے بادشاہ لندھور سے لڑنے جانے سے قبل امیر حمزہ کا محل نوشیرواں میں بلایا جانا اور ان کی اس شرط پر کہ فتح و کامیابی کے بعد مہرنگار دختر نوشیرواں سے ان کا عقد کردیا جائے ان کو شربت پلانا اور پان کی گلوریاں دینا خالص ہندوستانی رسمیں ہیں، جن کو ایران سے کچھ علاقہ نہیں۔ قصہ نویس نے القش وزیر کے اس تخت کی ساخت کا تخیل جو اس نے بادشاہ قباد کے لیے بنایا تھا، شاہ جہاں کے تخت طاؤس سے لیا ہے۔ غرض پوری داستان میںایسی بیسیوں باتیں ہیں جن سے بخوبی واضح ہے کہ یہ مترجم کے حواشی ہیں اور اس نے قصہ کو اپنا لیا ہے۔

یوں تو اس قصہ کے اکثر و بیشتر رجال داستان میں فوق العادت اور بعض مرتبہ خلاف عقل باتیں  بھی دکھائی گئی ہیں مگر ساری داستان میں سب سے زیادہ اہم کردار عمروعیار کا ہے۔ عمرو عیار اس قصے کی جان اور مرکز ہے۔ اس کے کردار میں عجیب و غریب گل کاریاں کی گئی ہیں اور اس کو ایسا چال باز مبارز طلب اور مہم باز بتایا گیا ہے کہ اس کے آگے یورپ کے ازمنہ وسطیٰ کے جنگجو نائٹ اور اڈونچرر کوئی حقیقت نہیں رکھتے، مگر اس کے کردار میں شروع ہی سے بری خصلتیں اور طمع اور چال بازی کے عناصر شامل کرکے اس کو نیکی سے دور بتایا ہے۔ غرض اس، سردار عیاران، سے ایسے ایسے کارنامے منسوب کیے گئے ہیں کہ عقل انسانی سے باہر ہیں۔

ذیل میں ہم ایک ہی مضمون کے متعلق اشک اور تصدق حسین دونوں کے نسخوں سے ایک بیان نقل کرتے ہیں۔ ان دونوں میں وہی فرق ہے جو اصل اور نقل، اصلی پھول اور کاغذی پھول میں ہوتاہے۔ ایک سرتاپا صفائی، سادگی اور اصلیت کا نمونہ ہے اور دوسرا بالکلیہ مرصع مسجع، تکلف اور مصنوعیت کا مظہر ہے۔

حکایت: ’’یہاں سے دو کلمہ داستان ملک القش کے ملاحظہ فرمائیے، جب کہ وہ باغ تیا رہوا۔ ایک دن بادشاہ کے حضور میں عرض کی، غلام نے ایک باغ حضور کی بدولت بنایا ہے اور بندہ امیدوار ہے کہ ظل سبحانی وہاں رونق افروز ہوکر ایک چمچہ آش نوش جان فرمائیں کہ باعث عزت و ازدیاد خانہ زاد ہے۔ مصرع

شاہاں چہ عجب گر بنوا زند گدا را

فرمایا کہ مضائقہ تم جاکر تیار کرو ہم بھی آتے ہیں۔ القش حضور سے رخصت ہوکر واسطے تیار کے آگے گیا۔ بعد اس کے جانے کے بادشاہ بھی زمرد کے تخت پر سوار ہوکر اور تمام وزرا وا مرا ہمراہ لے کر طرف باغ بیداد کے رونق افزا ہوئے۔ جب کہ سواری باغ کے قریب آئی ملک القش نے ایک تخت ہوادار واسطے بادشاہ کے ایسا تیار کیا تھا کہ اس میں گل بوٹے لعل اور الماس کے تھے اور چاروں کونوں پر اس کے چار طاؤس زمرد کے بنائے گئے تھے جنھوں کے پیٹ میں لخلخے خوشبو کے رہتے تھے اور واسطے تخت کی شان کے طاؤس کے پہلو میں دونوں طرف ایک ایک نرگس دان رکھا تھا جن کے کونے مرصع کے مثل زمرد سرسبز تھے اور الماس کے پھول جنھوں کی زردی پکھراج کی سی تھی۔ اس کو معہ ہودجوں اور چالیس ہاتھیوں جن پر جھولیں زربفت کی پڑی ہوئیں اور عماریاں کارزری و جواہرنگار انھوں کی پیٹھ پر کسی ہوئی اور دو سو گھوڑے عربی، عراقی، ترکی، تازی معہ جواہر مرصع اور کئی اونٹ بغداد کے دو کوہانی کہ جن کے کجاؤں پر کار چوبی زربفت کی چادریں کسی ہوئی تھیں اور کتنے خیمے کتنی کشتیاں سلاح اور جواہرات کی اور پارچہ جات سوتی اور ریشمی اور پشمینے اپنے ساتھ لیے اور باہر کے جلوخانے تک استقبال کرکے بادشاہ کو یہ سب نذر گزرانا اور تخت کا پایہ پکڑ کر بوسہ دیا اور ہمراہ ہوا۔ جب کہ بادشاہ باغ کے اندر گئے دیکھا تو عجب گلزار ہے کہ شاید کہیں ایسا نہ ہوگا۔ اس کی وہ چار دیواری سنگ مرمر کی جس میں تمام فیروزے کی تحریر اور طرح بہ طرح کی بیل ہے اور نیچے زمرد کے اور خوشے موتیوں کے لگے ہوئے ہیں، اور وہ صاف روشنی سبزے کا عالم ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا پھولوں کی خوشبو ہر دم جس سے دماغ کو قوت ہوتی تھی۔ کیاریاں اقسام اقسام کی، گلزار ہر قسم کے پھول جس میں پھولے ہوئے مثل گل لالہ نافرمان بابونہ گیندا، جوہی سوسن چنبیلی، موتیا، موگرارائے بیل، گلاب، سیوتی، کلفا، گل مہدی، گل شبو، نرگس، داؤدی ہر ایک طرح کلی بہار تھی اور دونو ںطرف روش کے  دو بڑے پیڑ چمپا اور مولسری کے بہت خوبصورت پھولے جن کی تمام ٹہنیوں پر اور شاخوں پر غرارے بادلے چڑھے ہوئے۔ وہ منہدی اور رائے بیل کی ٹہنیوں پر شان، وہ چوپڑ کی نہر مثل لوح الماس بلب پانی کے چہار طرف گئی کہ جس کے فوارو ںپر ہزارہ کی جاطوطے، بلبل، فاختہ، مور، عندلیب جواہرات کے بنے ہوئے، جن کے پروبال سے ہزارہ چھٹا ہوا ایک لطف دیتا تھا اور سفید عالم عمارت کا جس میں سنہری رو پہلی الماس تراش استادوں پر تمام تمامی کے سائبان کھینچے ہوئے کہ جن میں سراسر موتیوں کی جھالر تھی اور سونے کی تیلیوں کی چلمنیں مینے سے رنگی ہوئیں۔ پوٹی داروں پر کلابتوں کی ڈوریوں کی زربفت کے پردوں کے ساتھ بندھی ہوئی۔ غرض بادشاہ اس باغ کو دیکھ کر اپنے باغ کو بھول گیا۔ (قصۂ امیر حمزہ ازاشک، ص 7)

’’حکایت: نخلبندان بوستانِ اخبار، چمن پیرایان گلستاں اظہار، تختہ کاغذ صاف میںاس طرح اشجار الفاظ موقع موقع پر نصب فرماتے ہیں۔ صحن شفاف قرطاس کو گل و ریاحین مضامین رنگارنگ سے یوں رشک تختہ ارژنگ بناتے ہیں کہ جب باغ بیداد تیار ہوا نمونہ بہشت شداد نمودار ہوا۔ القش خوشی سے پھول گیا۔ فکر دارین بھول گیا۔ فرط مسرت سے پھولا نہ سماتا تھا۔ جامہ تن سے باہر ہوا جاتا تھا۔ بادشاہ کی خدمت میں عرض کیا کہ غلام نے حضور کی بدولت و اقبال ایک باغ تیار کیا ہے۔ انواع انواع کے درخت ثمردار اور گل بوٹے کے لگائے ہیں۔ دور دور سے بہ صرف زرکثیر نادر نادر درخت منگوائے ہیں، باغبان نادر کارنخلبندی میں ہوشیار بہم پہنچائے ہیں۔ ہزارہا روپیے صرف کرکے سیکڑوں استاد اس فن کے بلوائے ہیں، ہر ہر شخص یکتائے زمانہ ہے اپنے اپنے ہنر میں یگانہ ہے۔ بیل بوٹے ایسے لگائے ہیں کہ مانی و بہزاد اپنی صنعت سے شرمائے ہیں مگر جاں نثا رکی نظروں میں سماتا نہیں خزاں کا رن باغ میں معلوم ہوتا ہے۔ جب تک ظل سبحانی خلیفۃ الرحمانی کا قدم مبارک اس میں جاتا نہیں۔ ناسخ        ؎

سرسبز ہو جو سبزہ تیرا پائمال ہو

ٹھیرے تو جس شجر کے تلے وہ نہال ہو

امیدوار ہوں کہ حضرت خاقان جہاں نوشیرواں زبان بطریق گل گشت کبھی اس طرف توجہ فرمائیں۔ خانہ زاد موروثی کا رتبہ فلک اعظم تک پہنچائیں۔ حضرت کے قدموں کی برکت سے باغ میں بہار آجائے ہر گل غنچہ اپنا اپنا رنگ دکھائے۔ ازراہ غلام نوازی اگر دو ایک میوے نوش جان فرمائیں غلام کو ثمر مراد حاصل ہو۔ اشجار امیدبار لائیں۔ بادشاہ نے اس کے التماس کو قبول فرمایا۔ معروض ہے اس کا درجہ اجابت میں لایا۔ القش نے تسلیم بجا لا کر نذر گزارنی۔ رخصت ہوا باغ میں آکر سامان دعوت کرنے لگا۔ آناً فاناً سب اسباب ضیافت کامہیا ہوگیا۔ اقسام اقسام کے کھانے تیار ہونے لگے۔ طرح طرح کے کھانے کشتیوں میں چنے گئے۔ ارباب نشاط کو حاضری کا  حکم ہوا۔ آتش بازوں نے آتش بازی کا موقع ڈھونڈھ رکھا۔ روشنی کا سامان ہونے لگا۔ ہزارہا گلاس چڑھ گیا۔ جھاڑ فانوس دیوار گیریاں صاف ہونے لگیں۔ مومی کافوری شمعیں چڑھائی گئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد بادشاہ جم جاہ فلک رفعت خورشید طلعت دادگر انصاف پرور معہ ارکان دولت واعیان سلطنت بہار افزائے باغ بیداد ہوا القش کا شجر مقصود بار لایا۔‘‘ (داستان امیرحمزہ از تصدق حسین، ص 15)

اشک کے نسخے سے اوپر ہم نے جو حکایت نقل کی ہے وہ ان کی رنگین بیانی کا بہترین نمونہ ہے اور ساری کتاب میں اس سے زیادہ مصرع اور رنگین بیان کوئی نہ ملے گا مگر تصدق حسین  کے نسخہ سے جو عبارت نقل کی گئی ہے ہم نے قصداً اسی پر اکتفا کیا اور یہ بھی طویل ہے۔ اس کے بعد تخت اور باغ کا جو نقشہ انھوں نے کھینچا ہے اور اتنا طویل ہے کہ ہم کو بہ خوف طوالت چھوڑ دینا پڑا۔ اس کی رنگینی و آرائش کے لیے یہ کہنا کافی ہے      ؎

قیاس کن ز گلستان من بہار مرا

واقعات اکبر

اشک کا دوسرا اور قابل قدر کارنامہ ’واقعات اکبر‘ ہے۔ انھوں نے 1809 میں کپتان ولیم ٹیلر کے ایما سے علامی ابوالفضل کی مشہور کتاب ’اکبرنامہ‘ کا اردو میں اس نام سے ترجمہ کیا تھا۔ یہ بدقسمتی سے شائع نہیں ہوا۔ یورپ کے بڑے بڑے کتب خانوں میں بھی اس کے قلمی نسخے یا مسودہ موجود نہیں ہے۔ اکبر نامہ جیسی سفید اور اہم کتاب ہے اس کے اظہا رکی ضرورت نہیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اشک کا یہ ترجمہ دست بردزمانہ سے محفوظ ہے یا نہیں۔ اگر یہ کتاب دریافت و شائع ہوجائے تو ہماری تاریخ کے سرمایہ میں ایک بیش قیمت اضافہ ہوگا۔

مولوی نصیرالدن صاحب ہاشمی نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ انھیں رائل ایشیاٹک سوسائٹی لندن کے کتب خانے میں اشک کی دو اور کتابیں ملی ہیں:

(1)  قصۂ گلزار چین  (2) رسالہ کائنات

ان میں سے پہلی کتاب چین کے شہزادہ رضوان شاہ اور روح افزا پری زادبادشاہ اجنہ کی لڑکی کے معاشقے کی داستان ہے۔ یہ فارسی کے ایک مشہور قصے کا ترجمہ ہے۔ اشک نے اس کو ہنری بولٹ کے لیے 1229ھ (1804) میں مرتب کیا ہے۔ اس قصے کو قطب شاہی شاعر فائز 1094ھ (1683) میں اور پھر مولانا باقر آگاہ نے 1211ھ (1797) میں نظم میں ترجمہ کیا ہے۔ اشک کے ترجمہ کا نمونۂ عبارت یہ ہے:

’’بلادچین میں ایک بادشاہ عادل و بازل، رعیت پرور، غریب نواز دادگستر ایسا تھا کہ اقلیم سبع آفتاب مہتاب کی شکل اس کے فیض سخاوت و عداوت سے روشن تھی۔ جناب باری نے اسے ہر ملک کی شہریاری دی تھی۔ روز و شب عیش و عشرت میں رہتا تھا۔ اس کے شہر میں دن عید اور شب شب برات تھی۔ کسی کو کسی بات کا غم نہ تھا۔ بادشاہ کو سدا ایک غم فرزند رہتا تھا۔ اس کے گھر میں اولاد نہ تھی۔‘‘

رسالہ کائنات جو ایک مختصر سا رسالہ ہے۔ 1217ھ مطابق 1803 میں ڈاکٹر جان گلکرسٹ کی فرمائش سے مرتب کیا گیا ،جس کی مصنف نے دیباچہ کتاب میں صراحت کی ہے۔ ہاشمی صاحب نے اس کا کوئی نمونہ نقل نہیں کیا۔

خلیل علی خاں کے تخلص اشک سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرور شاعر ہوں گے۔ اس زمانے میں شاعری کا گھر گھر چرچا بھی ان کے شاعر یا ناظم ہونے کا خیال پیدا کرتا ہے۔ اول تو ان کا ذکر ہی کسی تذکرہ میں نہیں۔ پھر انتخابی اشعار ملیں تو کہاں سے۔ ان کا کوئی دیوان ہی نہیں،جس سے دو چار شعر مل سکیں۔ قصۂ امیر حمزہ میں کہیں کہیں ایک آدھ ان کا طبع زاد شعر مل جاتا ہے مگر وہ ان کی شاعری کا کوئی اچھا نمونہ نہیں ہوسکتا۔ اتنا ضرور ہے کہ وہ بہت ہی پست درجہ کے شاعر تھے اور ہم ان کو ناظم یا قافیہ پیما کہہ سکتے ہیں۔ ان کا یہ حال معلوم ہوتا ہے کہ تفنن طبع کے طور پر کبھی کچھ کہہ لینا اور کسی موقع پر قافیہ پیمائی کردی۔

n

ماخذ:  ارباب نثر اردو، مصنف: سید محمد، مرتب: رحیل  صدیقی، دوسری طباعت: 2019، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

خلیل علی خاں اشک،ماخذ: ارباب نثر اردو، مصنف: سید محمد، مرتب: رحیل صدیقی

  اردو دنیا، مئی 2025   فورٹ ولیم کالج میں خلیل علی خاں ہی ایک ایسے مولف ہیں جن کی کتاب تو بے حد مقبول اور رائج ہوئی مگر وہ اس کی بدولت ...