28/10/25

غیاث احمد گدی کی افسانہ نگاری، مضمون نگار: عبد الرزاق زیادی

 اردو دنیا، مئی 2025


غیاث احمد گدی(1928-1986) کا شمار اردو کے ممتاز افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔آزادی کے بعد اردو فکشن بالخصوص اردو افسانے کو اپنے فکر و فن اور طرز اسلوب کے ذریعے جن تخلیق کاروں نے بہت متاثر کیا اور اس میں اپنانمایاں نقش ثبت کرنے میں کامیاب رہے۔ ان میں ایک اہم اور معتبر نام غیاث احمد گدی کا بھی ہے۔ غیاث احمد گدی نے چوتھی کلا س پاس ہونے کے باوجود نہ صرف اردو زبان و ادب کی بیشتر کتابیں پڑھ لی تھیں بلکہ بہت جلد ان کی کہانیاں اس عہد کے بیشتر رسائل و جرائد کی زینت بن چکی تھیں۔ غیاث احمد گد ی کی پہلی کہانی ’دیوتا‘ کے نام سے 1947 میں ’ہمایوں‘ میں لاہور سے شائع ہوئی۔ پھر یکے بعد دیگرے ان کے متعدد افسانے چھپتے چلے گئے۔ بابالوگ (1969)، پرندہ پکڑنے والی گاڑی (1977) اور سارادن دھوپ (1985) غیاث احمد گدی کے تین افسانوی مجموعے اردو فکشن میںغیر معمولی اضافے ہیں۔ غیاث احمد گد ی نے کن حالات میں اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا اس پر روشنی ڈالتے ہوئے جمشید قمر لکھتے ہیں:

’’غیاث احمد نے زندگی کرنے کے لیے جس راہ کا انتخاب کیا، اس کا ایک سرا تو حالات کے آگے جھکنے کے بجائے ان کے خلاف نبر د آزمائی سے جا ملتاہے۔ ان جاں گسل حالات نے ان کی شخصیت میں درد مندی اور جاں گدازی کی ایسی صورت کو پیدا کیا جس نے ان کی تخلیقات کی باطنی ساخت میں مستقل عنصر کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ میرے خیال میں اپنے خاندان کے سفاکانہ رویوں نے ہی ان کی زندگی کے حالات کو جاں گسل بنا دیاتھا۔ غالباً یہی سبب ہے کہ یہاں کے رہتے ہوئے بھی ان کے بھاگے بھاگے پھرنے کے احساس کی تہہ میں وہی محرومیاں اور نا آسودگیاں ہیں، جن کا سامنا انھوں نے اپنے خاندانی ماحول میں کیا۔ان کے بیشتر افسانوں میں افراد قصہ کی زندگی کے تجربے کی نوعیت اور اس کی تہہ میں یہی عناصر موجود ہیں۔ علاوہ ازیں بیانیہ کی تہہ میں نرم و مدھم، گھلتا پگھلتا جو لہجہ پوشیدہ ہے، اس کے عواقب میں وہی در دمندی اور جاں گدازی کے مستقل عناصر ہیں، جن سے غیاث کی زندگی اور فن دونوں کا خمیر اٹھتا ہے۔ ان کے تخلیقی ذہن کی سرشت ومزاج میں موجود ان عناصر کی تعمیر ان ہی اسباب و عوامل کے رہین منت ہیں جن سے غیاث زندگی میں بر سر پیکار رہے۔‘‘1

مذکورہ اقتباس سے اس بات کا اندازہ لگانا قطعی دشوار نہیں کہ غیاث احمد گدی کے فکر و فن کا خمیر کن حالات اور کس پس منظر میں ہوا تھا۔چونکہ غیاث احمد گدی کی پوری زندگی مصائب و آلام اور پریشانیوں سے گھری ہوئی تھی اس لیے ان کی بیشتر کہانیوں میں بھی ہمیں وہی فضا نظرآتی ہے۔ انھو ں نے اپنی کہانیوں میں ان مسائل و معاملات کو موضوع بنایا ہے جن کا تعلق ان کے گر د وپیش سے تھامگران کے فن کا کمال یہ ہے کہ ان میںکسی ایک شخص یا علاقے تک محدود نہیں۔ ان کی کہانیاں خواہ وہ ظلم و استحصال کی ہو، احتجاج و انحراف کی ہو، جنسی احوال کی ہو، غریبی و مفلسی کی ہو، سماجی پستی و افلاس کی ہو ہر ایک میں انسانی ہمدردی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ان کی کہانیوں میں انسان دوستی اور اس کے تحفظ کا اظہار قدم قدم پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ غیاث احمد گدی کے فکر و فن کا ذکر کرتے ہوئے وہاب اشرفی لکھتے ہیں :

’’غیاث کا سنجیدہ قاری ایک نظر میں محسوس کرے گا کہ وہ انسان دوستی کے بہت بڑے علمبر دار رہے ہیں۔ ان کا دل انسانی ہمدردیوں کی شیرینی سے بھرا ہے، اس حد تک کہ وہ ایسے افسانے میں بھی جہاں جارحانہ اور تشدد کی فضا تعمیر کرنے میں مجبور ہوتے ہیں وہاں بھی انسانی ہمدردی کی ازلی جبلت ان پر حاوی ہو جاتی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ انھیں ایک Idealistکہہ دینا آسان معلوم ہوتا ہے۔ لیکن مثال پسند توکسی نہ کسی نقطۂ نظر کا پابند ہوتاہے۔کسی ازم کی حدو ں میں اسیر ہوتا ہے۔ حیات و کائنات کے بارے میں اس کا موقف واضح ہوتاہے اور اس کی نگارشات اسی موقف کی ترویج و اشاعت کا آلۂ کار ہوتی ہیں۔لیکن میں نے کہا ہے کہ غیاث کسی ازم کے پابند نہیں توپھر ان کی مثال پسندی کا کیا جواز ہے ؟‘‘2

وہاب اشرفی نے غیاث احمد گدی کے حوالے سے جن نکات کی طرف اشارہ کیا ہے ان میں ایک بڑی بات ان کا ہر طرح کے ازم سے آزاد ہونا ہے۔حالانکہ ان کے بعض افسانوں پر منٹو کا اثر ہے۔کرشن چندر اور بیدی، انتظار حسین اور قرۃا لعین کے طرز پر بھی انھوں نے اپنی کہانیاں لکھی ہیں۔ غیاث احمد گدی کے بعض افسانوں میں ترقی پسندیت کا رنگ غالب ہے تو کسی میں جدیدیت کے اثرات۔ لیکن ان سب کے باوجود غیاث احمد گدی کا کمال فن یہ ہے کہ انھوں نے خود کو کسی ازم یا تحریک کا پابند نہیں بنایا بلکہ اس کے برخلاف انھوں نے ہمیشہ اپنے تجربات و مشاہدات کو اپنا رہنما بنایا اور فنی سطح پر اپنے مشاہدات و تجربات کو قارئین کے سامنے پیش کیا۔ یہی وجہ ہے کہ غیاث احمد گدی کا جو اسلوب ہے اس میں قدم قدم پر فطری پن اور اوریجنلٹی کا احساس ہوتا ہے۔ان کی کہانیوں سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:

’’میں اس خوشبو کے بغیر کیسے زندہ رہ سکتا ہوں بے بی؟کیسے زندہ رہ سکتاہوں...؟‘‘

باہر ایک ہچکولے کے ساتھ جیپ کے رکنے کی آواز سنائی دی۔بڑھا انکل نے ہڑ بڑا کر آنکھیں کھول دیں۔ابھی کچھ پاتے پاتے اس نے کھو دیا۔پھر ا س کے کانوں میں جوتے کی آواز آئی۔ وہ چونک کر اٹھ کھڑا ہوا۔ کیچ بھری ہوئی آنکھوں کے کنارے آنسوؤ ں سے نم ہو رہے تھے۔اس نے ہا تھ اٹھا کر آستین سے آنکھیں پونچھ لیں۔

برآمدے کو عبور کر کے نئی میم صاحب اس کے سامنے آگئی۔ ’’یُو بڈھا۔ تم اور میں کیا کرتا۔‘‘  اس نے نفرت سے بڑھا انکل کو گھورا۔’’کیا چوری کرنا مانگتا‘‘۔

’’مومیم صاحب ایسا اپھک نہیں۔ اِدر بے بی ہے نا... وہ رک گیا۔’ کیاوہ سچ کہہ دے ؟نہیں !نئی میم صاحب ابھی بے بی کو بہوت گالیاں دے گی۔بہوت جھگڑا کرے گی۔سوتیلی ماں ہے نا!بہت تکلیف دے گی‘... اس کا دل لرز گیا۔‘‘3

اس اقتباس کے ہر لفظ اور جملے سے غیاث احمد گدی کی حقیقت نگاری اور فطری پن کا احساس ہوتا ہے۔ کہانی ’بابا لوگ‘ ہو یا اس کے علاوہ دیگر کہانیاں مثلاً پہیہ، افعی، سائے ہم سائے،خانے تہ خانے وغیرہ میں غیا ث احمد گدی کے فطری پن اور حقیقت نگاری کے عمدہ نمونے دیکھ سکتے ہیں۔ ان میں افسانہ نگار نے بڑی خوبصورتی اور فن کاری کے ساتھ انسانی زندگی کے مسائل و موضوعات کو اپنا موضوع بنا یا ہے۔ا س کے علاوہ ان میںعلاقائی ر ہن سہن،معاشرت و معیشت، لباس و پوشاک اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ وہاں کے فطری و قدرتی مناظر کی بڑی خوبصورت پیش کش موجود ہے۔ ان کہانیوں میں ہم غیاث احمد گدی کے یہاں ترقی پسند عناصر دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے اولین افسانوی مجموعہ’با بالوگ‘ کی بیشتر کہانیوں میں بھی وہی رنگ اور فضا موجود ہے، لیکن جو ں جو ں ان کا سفر آگے بڑھتا گیا ان کے فن میں بھی تبدیلی آتی چلی گئی اور اس کا دائرہ ذات  سے کائنات تک پھلتا چلا گیا۔ اس سلسلے میں الیاس احمد گدی لکھتے ہیں:

’’شروع میں ان کا فن اس ندی کی طرح تھا جو پہاڑ سے اتر رہی ہو۔ سرکش، تند خو، پتھروں سے سر ٹکراتی، چٹانوں سے الجھتی، جھاگ اُڑاتی۔ مگر اب جیسے یہ ندی کھلے میدان میں اتر آئی تھی۔ اس میں وسعت بھی آگئی تھی اور گہرائی تھی۔ اور ایک طرح کا وقار بھی۔ انھوں نے غم ذات کو غم ِ کائنات تک پھیلا دیا تھا۔‘‘4

غیاث احمد گدی کے فن کا یہی ذات سے کائنات تک کا پھیلاؤ ان کے پہلے اور بعدکے افسانوںمیں فکری و فنی اعتبار سے کافی فرق و امتیاز نظر آتا ہے۔ مجموعہ ’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘ کے بیشتر افسانے اس کی عمدہ مثال ہیں۔اس میں شامل افسانوں میں صرف موضوعات و مسائل کے بیان میں ہی انفرادیت موجود نہیں ہے بلکہ ان میں ہیئت اور تکنیک میں تبدیلیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ان افسانوں میں ایک طرف جہاں موضوعات و مسائل کی پیش کش میں ہندوستان کی تہذیب و معاشرت، مادہ پرستی، سیاسی کشمکش، سماجی استحصال، غریبی و مفلسی جیسے مسائل کو بڑی حقیقت نگاری کے ساتھ پیش کیا گیا ہے وہیں ان میں کہیں کہیں جدید تکنیک کا سہار الیتے ہوئے علامت نگاری اور اساطیری اسلوب کو بھی اپنایا گیا ہے۔مجموعے میں شامل کہانیاں مثلاً تج دو تج دو، ڈوب جانے والا سورج، ایک خوں آشام صبح، افعی، پر کاشو، دیمک، کیمیا گر، کالے شاہ، اندھے پرندے کا سفر اور پرندہ پکڑنے والی گاڑی وغیرہ اس کی اہم مثالیں کہی جاستی ہیں۔ان کہانیوں میں تخلیق کار نے بڑی خوبصورتی اور فن کاری کے ساتھ علامت نگاری سے کام لیا ہے۔افسانہ ’ پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

’’یہ روز مرہ کا دستور ہوتا۔ دوکا ن دار دوکانوں میں ہوتے، راہ گیر راہ چلتے رہتے، موٹر کاریں تیزی سے پوں پاں کرتی گزر تی ہوتیں، جوتا گانٹھنے والا گانٹھتا رہتا، خریدو فروخت جاری رہتی، شورو غل سے کان پڑی آواز سنائی دیتی، لین دین کا بازار اتنا جواں ہوتا کہ اول تو گاڑی کی طرف کسی کی نظر ہی نہ اٹھتی، لیکن ان میں سے کسی کی نظر اٹھ بھی جاتی تو وہ سحر زدہ سا اس عجیب و غریب گاڑی اور اس کے حسن کو دیکھنے میں کھو جاتا... کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کوئی آدمی چونکتا اور ذرا حوصلہ سے اٹھتا، گاڑی والے جب اس آدمی کو قریب آتے دیکھتے تو جھٹ اپنی لمبی جیب میں ہاتھ ڈالتے اور چند سکّے نکال کر اس کی طرف اچھال دیتے، پھر وہ آدمی سکّے چننے میں ایسا محو ہوجاتا کہ اسے کسی چیز کا ہوش ہی نہ رہتا۔  لوگ یہ منظر دیکھتے اور آنکھوں اور چہروں سے حرت کا اظہار کرتے۔ اس وقت ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتیں، یہ عمل کچھ زیادہ دیر نہیں رہتا، فقط چند منٹ، دس یا بیس منٹ تک، پھر حیرت کا یہ وقفہ کم ہوتا گیااور ہوتے ہوتے محض چند سکنڈ رہ گیا تو، اب اس کے بعد وہ منزل آنے والی تھی کہ لوگ باگ اپنے کاموں میں مصروف ہیں اور پرندے پکڑنے والی گاڑی آگئی ہے، اور پرندہ پکڑتی چلی جا رہی ہے اور آدمی ہے کہ اس کی جانب نظر اُٹھا کر دیکھتابھی نہیں۔‘‘5

یہ افسانہ درحقیقت ایک علامتی افسانہ ہے۔ اس کے ذریعے غیاث احمد گدی نے اپنے اس مظلوم و لاچار سماجی زندگی کو پیش کیا ہے جس میں ہر طرح کی آزادی چھین لی گئی ہے۔اس افسانے میں جہاں ایک طرف پرندہ پکڑنے والی گاڑی کی خوبصورتی اور دلکشی کو بیان کیا ہے وہیں دوسری طرف اس سماج و معاشرت کے نظام کو بیان گیا ہے جو حد درجہ ظالم و جابر ہے۔اس افسانے کا ہر ہر لفظ اپنے آپ میں ایک علامتی پیکر لیے ہویے ہے۔موجودہ عہد کے پس منظر میں بھی اگر اس افسانے کو دیکھیں تو اس کی معنویت بڑھ جاتی ہے جہاں ظلم و زیادی کا رویہ اپنایا جاتا ہے اور حکومتی انتظام و انصرام ہی نہیں بلکہ اعلیٰ افسران بھی اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔  

اس مجموعے میں کچھ ایسے افسانے بھی شامل ہیں جن میں غیاث احمد گدی نے عام علامت نگاری سے ہٹ کر بھی کام لیا ہے۔ اس میں انھوں نے انسانوں اور حیوانوں کو کر دار نہ بنا کر بے جان چیزوںکو مرکزی کر دار بنا کر پیش کیا ہے۔ افسانوی مجموعہ ’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘ کاانتساب غیاث احمد گدی نے نہ صرف ’منی بائی طوطے کے نام‘کیا ہے بلکہ اسی نام سے افسانے میں منی بائی کے طوطے کو ایک زندہ جاوید کر دار بنا کر پیش کیاہے۔غیاث احمد گدی کے علامتی افسانوں میں ’تج دو تج دو‘ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں افسانہ نگار نے ایک فرد کو علامت بنا کر پورے سماج کی عکاسی کی ہے۔ غیاث احمد گدی نے کچھ افسانے جدیدیت کے زیر اثر بھی لکھے ہیں بلکہ ایک زمانے میں ان کا رجحان ترقی پسندی سے ہٹ کر اس جانب غیر معمول حد تک ہو گیا تھا، ممکن ہے یہ اسی کا نتیجہ ہو۔ مگر اس میں بھی غیاث احمد گدی کا فن اپنے کمال پر نظر آتاہے۔ اس کے مرکزی کر دار کے سہارے تحلیل نفسی کو پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے لیکن اس میں بھی کہانی پن اور بیانیہ کا اس طرح خیال رکھا گیا ہے کہ موضوع محض کسی ذات یا فر د تک محدود نہیں رہ جاتا ہے بلکہ یہ ہر فرد، خاندان، اور سماج کو احاطے میں لے لیتا ہے۔اس کہانی میں ایک دم کتے کا بطور علامت و استعارہ استعمال ہوا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’وہ رو رہا تھا اور اس کے کان بج رہے تھے۔ لگاتار وہی منحوس الفاظ گونج رہے تھے اور جب وہ رو رہا تھا، اس نے دیکھا وہ دم کٹا کتا جسے وہ دروازے کے باہر چھوڑ آیا تھا اور اندر آکر دروازہ بند کر لیا تھا، و ہ پتہ نہیںکیسے اندر آکر اس کے لحاف میں آگھسا تھا۔ اس نے دیکھا دم کٹا کتا اس سے تقریباً چمٹا اس کے گال سے اپنے تھوتھنے لگا ئے تھا اور اس کی آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے تھے اور وہ کتا اس کی گر دن کو ہولے ہولے چاٹ رہا تھا... اور اس کے کان بدستور بج رہے تھے اور آنسو بہہ رہے تھے۔‘‘6

اس کہانی میں غیاث احمد گدی نے دم کٹے کتے کو ضمیر کی علامت بنا نے میںحد درجہ فن کاری کا ثبوت پیش کیا ہے۔

افسانوی مجموعہ بابا لوگ ہویا پرندہ پکڑنے والی گاڑی یا پھر سارادن دھوپ میں شامل غیاث احمد گدی کے آخری دور کے افسانے ہیں۔  ان کے مطالعے سے جہاں قاری پر ان کے فکر و فن کے امتیازات کی گرہیں کھلتی جاتی ہیں وہیں اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ امتداد زمانہ کے ساتھ اس میں فکری و فنی گہرائی بھی آتی چلی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے آخری دور کے افسانوں کے موضوعات میں ہمہ گیری و آفاقیت کے پہلو نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان کہانیوں کے کردار بھی کسی خاص سماج و معاشرے اور  ملک و خطے تک محدود نہیں ہوتے۔ گرچہ ان کہانیوں میں ہندوستان کے پس منظر میں کہانیاں بُنی گئی ہیں اور اس کے واقعات کی تصویرکشی کی گئی ہے مگر اس کے جزئیات اور داخلی کینوس اس قدر وسیع ہیں کہ اس میں قومی و بین الاقوامی مسائل دیکھے جاسکتے ہیں، نیز ان میں علامتی، استعارتی اور تمثیلی انداز کے ساتھ ساتھ ہیئت و تکنیک کے تجربے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔معروف فکشن ناقد مہدی جعفر لکھتے ہیں:

’’غیاث احمد گدی کے یہاں عموماً شعور کی رو کی تکنیک استعمال ہوئی ہے۔ سوچنے کے عمل میں غواصی اور دروں بینی جزوی طور پر ان کی پہچان بنتی ہے۔ افسانوں میںشعور اور تحت الشعور دھو پ چھاؤں کی طرح جھلملاتے ہیں۔ چنانچہ عصری ماحول کے شعوری پس منظر میں یادوں کا استغراق ایک چونکا دینے والا اثر رکھتا ہے۔ اس کے باوجود افسانوں میں فکری عنصر حاوی نظر آتا ہے۔ فکر، احساس اور جذبے کے ساتھ خمیر ہو کر سامنے آتی ہے اور تمثیل نگاری، پیکر تراشی اور اسطور سازی کے عمل سے گذر تی ہے۔ گدی کا لہجہ نرم ہے اور انداز پر سکون۔ ان کی زبان الجھاؤ اور پیچیدگی سے گریز کرتی ہے اور الفا ظ، زبان و مکان، جذبات اور احساسات کے تسلسل سے ہم آہنگ ہوکر ڈھلتے ہیں۔ ان کے جملوں کی تشکیل اور تراش و خراش پر شعورکی حکمرانی صاف نظر آتی ہے۔ چنانچہ غیاث احمد گدی اپنے اسلوب پر اس درجہ قادرہیں کہ وہ نئی حسیت کو بھی پرانے اسلوب میں داخل کر کے زبان کو تازگی بخشنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔‘‘7

گرچہ غیاث احمد گدی نے شعور کی رو کی تکنیک کا استعمال شعوری طور پر اپنے افسانوں میں نہیں کیا ہے لیکن جا بجا ان میں اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں اوراس تعلق سے ان کی متعدد کہانیاں مثلاطلوع، کوئی روشنی، صبح کا دامن، چہر ے پہ چہرہ، سایے ہم سایے، سرنگ، بھیگا ہوا لب وغیرہ پیش کی جا سکتی ہیں۔

اس طرح آزادی کے بعداردو فکشن بالخصوص اردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں اپنا نام رقم کرانے والے تخلیق کاروں میں غیاث احمد گدی ایک اہم نام ہے۔ انھوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے نہ صرف اردو فکشن کے سرمایے میں قابل قدر اضافے کیے بلکہ موضوعات و مسائل اور اسلوب و تکنیک کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کی سطح پر بھی اسے وسعتوں سے ہمکنار کیا۔غیاث احمد گدی ایک ذہین اور اوریجنل تخلیق کار تھے،یہی وجہ ہے کہ اپنے معاصرین کے مقابلے میں بہت کم پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بھی ان کی تخلیقات کے فطر ی پن اور اوریجنلٹی نے انھیںادب میں ایک انفرادی شناخت عطا کی ہے اور اسی کی بدولت وہ ادب کی دنیا میں ہمیشہ امر رہیں گے۔

حواشی

.1            غیاث کا تخلیقی ذہن، جمشید قمر،مشمولہ غیاث احمد گدی: فرد اور فنکار، احتساب پبلی کیشن، بوکارو، 2000، ص 99-100

.2            غیاث احمد گدی کی افسانہ نگاری، وہاب اشرفی،مشمولہ غیاث احمد گدی: فرد اور فنکار، احتساب پبلی کیشن، بوکارو، 2000، ص147

.3            کہانی’ بابالوگ‘، غیاث احمد گدی مشمولہ غیاث احمد گدی کے افسانے، جمشید قمر، ایمن پبلیکیشنز، رانچی، 1991، ص88

.4            مگدھ پوری کا داستان گو، الیاس احمد گدی بحوالہ غیاث احمد گدی، نسیم احمد نسیم، ساہتیہ اکادمی، دہلی 2017، ص28

.5            کہانی ’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘، غیاث احمد گدی، اسرار کریمی پریس، الہ آباد،1977،ص10

.6            تج دو تج دو،غیاث احمد گدی، پرندہ پکڑنے والی گاڑی، اسرار کریمی پریس، الہ آباد،1977،ص38

.7            نئی افسانوی تقلیب، مہدی جعفر، ماہنامہ ’جواز‘ (مالیگاؤں) جنوری تامارچ،بحوالہ غیاث احمد گدی،ساہتیہ اکادمی، ص24-25

n

Dr. Abdur Razzaque Ziyadi

House No.D-14/7 Johari Farm

Noor Nagar Extn., Jamia Nagar, Okhla

New Delhi-110025  

Mob.: 9911589715

E-mil: arziyadi@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

خلیل علی خاں اشک،ماخذ: ارباب نثر اردو، مصنف: سید محمد، مرتب: رحیل صدیقی

  اردو دنیا، مئی 2025   فورٹ ولیم کالج میں خلیل علی خاں ہی ایک ایسے مولف ہیں جن کی کتاب تو بے حد مقبول اور رائج ہوئی مگر وہ اس کی بدولت ...