28/10/25

خواجہ حسن نظامی کے انشائیوں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت، مضمون نگار: محمد اکبر

 اردو دنیا، مئی 2025


انیسویں صدی کے آغاز میں انگریز حکمرانوں نے اپنی سیاسی گرفت کو مضبوط اور مستحکم کر لیا تھا۔مگر تہذیبی اقتدار ابھی تک قائم نہ ہوسکاتھا۔کیونکہ ہندوستانی اپنی معاشرت اور تہذیبی قدروں سے مطمئن تھے۔ مغربی تہذیب و ثقافت اور اس کے معاشی نظام کو اپنانا ہندوستانیوں کے لیے آسان نہ تھا۔پہلی جنگ آزادی 1857کے بعد حالات تبدیل ہوئے ہندوستانی عوام اپنے آپ کو مجبور اور بے بس محسوس کرنے لگے۔آہستہ آہستہ انگریزوں کے تہذیبی برتری کا تصور ابھرنے لگا۔ لوگ اسے قبول کرنے پر آمادہ ہورہے تھے۔ جس سے انگریزی حکومت اور اس کی تہذیب کی حمایت بڑھتی جارہی تھی۔لوگوں کو عہد وسطی کی تہذیب فرسودہ نظر آنے لگی تھی۔ اس میں نئے عہد کی سیاسی،معاشرتی اور ذہنی تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔لہٰذا انھیں انگریزوں کی پیروی میں ہی ہندوستان کی ترقی اور کامیابی نظر آنے لگی۔اس ذہنی کشمکش اور تصادم کے دور میں خواجہ حسن نظامی کی پیدائش ہوئی۔ابتدائی تعلیم کا آغاز بستی نظام الدین،نئی دہلی میں ہوا، مولانا اسماعیل کاندھلوی اور مولانا یحییٰ کاندھلوی جیسے اساتذہ سے آپ کو شرف تلمذ صاصل رہا۔آپ کی فراغت مدرسہ رشیدیہ گنگوہ سے ہوئی۔

خواجہ حسن نظامی اردو کے ایک صاحب طرز ادیب اور صحافی تھے۔انھوں نے بے شمار مضامین، افسانے، انشائیے، روزنامچے،خاکے اور سفر نامے تحریر کیے ہیں۔ وہ صوفیا کے خاندان سے وابستہ تھے۔ خداکا خوف، وسیع المشربی،انسان دوستی، کشادہ قلبی، خلوص، رواداری، اور اعلی انسانی قدریں وغیرہ انھیں اپنے آباؤ اجداد سے ورثے میں ملی تھیں۔انھوں نے ان اقدار کو اپنی شخصیت اور مزاج کا جز بنا لیا تھا۔فطری طور پر ان کی نگارشات میں بھی ان کا اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔

خواجہ حسن نظامی نے انشائیے کو بام عروج تک پہنچا یا اور انشائیہ کے فن کو ترقی دی اور اس کے اسلوب کو نکھارا۔انشائیے کی جتنی خصوصیات ہیں وہ سب ان کے یہاں موجود ہیں۔خواجہ حسن نظامی کے انشائیوں کا مجموعہ’سی پارۂ دل‘134انشائیوں پر مشتمل ہے۔جسے پانچ منازل میں منقسم کیا گیا ہے اور ہر منزل کا الگ الگ عنوان مقرر کیا گیاہے۔پھر شذرات کے تحت کچھ اور انشائیے دیے گئے ہیں۔ دوسرا مجموعہ ’کانا باتی‘ جس میں انشائیوں کے علاوہ ریڈیائی تقریریں بھی شامل ہیں۔اگر تمام انشائیوں کے عنوانات پر غور کیا جائے تو ان میں ایک مخصوص سلسلہ ٔ خیال کی جھلک نظر آتی ہے۔ 

خواجہ صاحب کو اس بات کا ڈر تھا کہ انسان اس سرمایہ دارانہ نظام،مشینی دور اور مادیت کے غلبہ میں زندگی کی اخلاقی اقدار،مذہب بالخصوص تصوف سے بیگانہ ہوجائے گااس لیے انھوں نے انشائیہ نگاری کا مقصد تصوف کو فروغ دینا بتایا۔وہ خود لکھتے ہیں :

’’میں نے جتنی بھی خامہ فرسائی کی ہے وہ محض اس لیے کی ہے کہ نئی روشنی کے لوگ جوصوفیوں کی پرانی کتابیں نہیں پڑھتے یا ان کتابوں کے قدیمی طرز تحریر کے سبب تصوف ہی سے غیر مانوس ہوتے جاتے ہیں۔ میرے نئے انداز تحریرسے ادھر راغب ہوں اور کیف روحانی سے فائدہ اٹھائیں۔‘‘

(سی پارۂ دل،خواجہ حسن نظامی،خواجہ اولادکتاب گھر،درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا نئی دہلی، نواں ایڈیشن، ص، (15,16

خواجہ حسن نظامی نے اپنی نگارشات میں تصوف کے نکات کی عکاسی کی ہے۔ ان کے معاصر انشائیہ نگار بھی سماج کے اعلیٰ طبقے کے لیے لکھ رہے تھے۔ان کی تحریریں اپنی علمی اور فلسفیانہ موضوعات کے باعث عوام کی ذہنی سطح سے مطابقت نہیں رکھتی تھیںان کے بر خلاف حسن نظامی نے گہری اور بصیرت افروز باتیں بھی سادہ اور اس قدر عام فہم انداز میں پیش کیںکہ قاری انھیں آسانی سے سمجھ سکے اور ان سے نصیحت حاصل کر سکے۔ان کا مخاطب سماج کا عام طبقہ ہے یعنی معمولی پڑھے لکھے لوگ ہیں جن میں خاص طور پر ان کے مریدین شامل ہیںجو ان کی ذہنی سطح اور تعلیمی استعداد سے بہت اچھی طرح واقف تھے اسی بنا پر انھوں نے اپنے انشائیوں میںقاری کے لیے مسرت کا سامان فراہم کیا ہے۔ خواجہ صاحب ایسے انشائیہ نگار ہیں جنھوں نے اپنے ماحول اور اپنے چاروںطرف پھیلے ہوئے معاشرے سے موضوعات کا انتخاب کیا۔ چھوٹے چھوٹے موضوعات پرطبع آزمائی کی مثلاًمست الست کی دعا،بھگت کے بس میں آبھگوان، کعبے والے خدا کو کیوں کر پائوںاور جھولی والے فقیر کی بھیک وغیرہ ان سب میں اخلاق کا کوئی نہ کوئی درس، معرفت کا کوئی نہ کوئی گوشہ اور عبرت کا کوئی نہ کوئی پہلو تلاش کر لیتے ہیں۔ الو،مکھی،مٹی کا تیل، لالٹین، دیاسلائی، فٹ بال یہ سب عام سے موضوعات ہیں۔ لیکن خواجہ حسن نظامی ان میں بھی افادیت کا پہلو تلاش کر لیتے ہیں۔

خواجہ حسن نظامی کے انشائیوں میں سب سے پہلے جس چیز پر نظر پڑتی ہے وہ ہے ان کے عنوانات کا نرالاپن۔ ان کے عنوان سے ہی انبساط کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ انھوں نے عام رنگ سے ہٹ کر اپنا راستہ اختیار کیا ہے۔ حسن نظامی بہت غور فکر کے بعد اپنے انشائیوں  کے عنوان رکھتے تھے۔ اس لیے کہ عنوان ہی کسی انشائیے کی جان ہوتی ہے۔مثال کے طور پر جھینگر کا جنازہ، گرفتار شدہ خطوط،کانا باتی مکھی وغیرہ کو اپنے انشائیوں کا موضوع بنا کر ایسے نثر پارے تخلیق کیے ہیںجن میں فنی خوبیاں موجود ہیں۔

ہندوستان کی ثقافتی اور تہذیبی کاموں میںخواجہ حسن نظامی نے جس طرح دلچسپی لی ہے وہ ناقابل بیان ہے یا یوں کہیں کہ انھوں نے ان میں اپنی تحریروں کے ذریعے جان ڈال دی ہے۔اہل علم اسے بھلا نہیں سکتے، وہ ہر مذہب و ملت کے لوگوںسے اچھے تعلقات رکھتے تھے۔ مسلمان، سکھ، عیسائی سب ہی ان کے عقیدت مند تھے۔وہ ہمیشہ فرقوں اور مذاہب میں خوشگوار تعلقات قائم کرنے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔خواجہ صاحب نے اپنے آپ کوعوام کی زندگی کے دھارے سے کبھی دور نہیں کیاان کا قلم معمولی سے معمولی موضوع کے لیے اٹھتا رہا۔ وہ جھینگر کی موت اور مچھر کی بھنبھناہٹ کو بھی ادب کا روپ دینے پر پوری قدرت رکھتے تھے۔اس طرح کا تنوع صرف نظیر اکبر آبادی کے یہاں نظر آتا ہے۔ جنھوں نے اپنی نظموں میں اپنے عہد کی عوامی زندگی، تہواروں، تقریبات، پیشہ وروں،معمولی چیزوں، کیڑوں  مکوڑوں اور دیگر مختلف چیزوں کی حقیقی انداز میں مرقع کشی کی ہے۔نظیر اکبر آبادی کی طرح خواجہ صاحب کی نظر بھی مکھی،مچھر،الواور جھینگر وغیرہ پر پڑتی ہے۔ انھوں نے حقیر سے حقیر شئے کو عزت و وقار عطا کرکے اس میں معرفت اور تصوف نیز دیگر امور کے نہ جانے کتنے گوشوں کو ڈھونڈنکالا ہے۔وہ اپنی زبان سادہ عام فہم اسلوب اور عوامی کلچر کے قریب رکھتے ہیں۔اردو کو مقامی احساسات اور ثقافتی مزاج کا ترجمان بنانا چاہتے ہیں۔ڈاکٹر آدم شیخ حسن نظامی کی انشائیہ نگاری کے متعلق رقمطراز ہیں:

’’حسن نظامی کے انشائیوں کی سب سے بڑی خوبی ان کے بظاہرمعمولی عنوانات ہیںجن پر انھوں نے بڑی سلاست اور شستگی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔الو،دست پناہ،آغوش مچھر میں شب عیداور تنکے کا سلوک جیسے انشائیوںمیں اس فقیر ادیب نے غورو فکر کے زبردست خزانے پوشیدہ کیے ہیںیوں تو حسن نظامی اپنی تحریروں میں خانقاہ کی فضا سے فرار حاصل نہ کرسکے لیکن اس چہار دیواری میں رہ کربھی انھوں نے اپنے افکار واظہارکے ذریعے انشائیوں کی ایک ایسی دنیا پیدا کی ہے جس پر ان کی شخصیت اور فطرت جھلکتی ہے۔خدا پرستی اور انسانی ہمدردی ان کے مضامین میں بنیاد کا کام کرتے ہیں کہ ان کا ہر لفظ دل میں اترتا معلوم ہوتا ہے۔‘‘

(ڈاکٹر آدم شیخ،انشائیہ،بمبئی رائٹرس امپوریم پرائیویٹ لمیٹڈ،تیسرا ایڈیشن،1925،ص،68 (

خواجہ حسن نظامی نے صوفیانہ عناصر کو اپنے انشائیوں میں براہ راست پیش کیا ہے۔وہ بغیر کسی تمہید کے اصل موضوع کو بیان کرنے لگتے ہیں عموماًروز مرہ کی کسی مانوس شئے کی ظاہری شکل و صورت کا جائزہ لیتے ہوئے اس میں گہری معنویت کا کوئی نہ کوئی پہلو تلاش کرلیتے ہیں۔سگنل کی آنکھ،لیمپ اور مٹی کا تیل ان کی نظر میں صرف اندھیرے کو دور کرنے اور گھر کو روشن کرنے والا محض ایک مائع نہیں بلکہ روح کی تاریکیوں کو زائل کرنے والاحقیقت شناس کی شمع روشن کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔جیسا کہ وہ خود اپنے انشائیے میں رقمطراز ہیں:

’’اے خاک نشیںتیل!ہم کو تیری یہ ادا بھاتی ہے کہ جہاں آگ قریب آئی تو مشتعل ہوا۔خدا کی قدرت ہے کہ تجھ میں یہ صلاحیت ہے کہ تو آن کی آن میں شعلۂ زار بن کر مقبول ہوجاتا ہے اور انسان کی یہ قسمت کہ برسوں ٹکریں مارتا ہے۔پہاڑوں دریائوں میں سرگرداں پھرتا ہے۔مگر وہ تجلی نصیب نہیں ہوتی جو وجود خاکی کو جلا کر فنا کردے۔‘‘

(سی پارۂ دل،خواجہ حسن نظامی،خواجہ اولادکتاب گھر،درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا نئی دہلی، نواں ایڈیشن،1965ص 154,155 )

ان کی نگارشات کا مطالعہ انسان کو قدرت خداوندی پر غور کرنے،بنی نوع کے ساتھ ساتھ دیگر ذی روحوں سے محبت کرنے اور اپنی اخلاقی تربیت کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔وہ اپنی تحریروں سے ایک ایسا ماحول بنا دیتے ہیں کہ قاری ان کی باتیں بلا چوں چرا تسلیم کرلیتا ہے مثال کے طور پر ’گلاب تمہارا کیکڑہمارا‘ میں خود بیان کرتے ہیں :

’’کیکڑ کا پھول گلاب کے پھول سے لاکھ درجے اچھا۔گلاب کا پھول ایک دن کی تیز دھوپ میں کمہلا اور مرجھا جاتا ہے اور کیکڑ کا پھول ہفتوں سورج کا مقابلہ کرتاہے۔اور آج کل تعریف اسی کی ہے جو دشمن کے مقابلے میں زندہ سلامت رہے۔‘‘(سی پارۂ دل،ص209,210)

کہیں کہیں خواجہ صاحب کے عنوانات خالص ہندوستانی سماج کی عکاسی کرتے ہیں مثلاًہم بالک ایک پتاکے،مدنی شیام سندر کی مرلی،پردیسی پیتم دیکھی تہاری پریت،رس کے بھرے تورے نین،گیان کتھا، چنبیلی کے پھول پر شبنم، ہری دواری گنگا کے کنارے چنتا من مورتی،من کہہ ایک دھوبی کاغذی گھاٹ پر اور رام اپدیش وغیرہ۔ان سب انشائیوں میں خالص ہندوستانی تہذیب کی عکاسی دیکھنے کو ملتی ہیں۔مدنی شیام سندر کی مرلی،میں بے قرار دل کی پکار کو حسن نظامی نے کس طرح الفاظ کا جامہ پہنایاہے:

’’مگر اب زمانہ گزرگیا،راتیں بیت گئیں، شیام سندر کی مرلی کی آواز سنائی نہیں دیتی،جنگل کے ہرن، باغوں کے مور،آم کی ٹہنی کی کوئل سب اس پیاری اور سریلی صدا کی راہ دیکھ رہے ہیں۔جس کی کوک کلیجہ میں ہوک پیدا کرتی ہے۔برسات کا موسم قریب آیا،کالی گھٹائیں امنڈ امنڈ کر آئیں گی اور کرشن کنہیاکی بانسری کو ڈھونڈیں گی۔‘‘

  (سی پارۂ دل،نواں ایڈیشن،1965ص،(102

خواجہ حسن نظامی نے مختلف صنعتوں کو اپنی نثر ی اسلوب کا جامہ پہنا کر ایک خاص وصف بخشا ہے۔ ان میں سے ایک تمثیلی بیانیہ ہے جس کی وجہ سے ان کا بیانیہ رمزیہ کے ذیل میں آجاتا ہے۔جھینگر،مچھر اور مکھی کا انسانوں کی طرح باتیں کرنا، اجمیری پہاڑی کا بولنا، آنسو کا اپنی کہانی سنانااور دیا سلائی کا انسان سے تکرار تو تو میں میں کرنا دوا کی شیشی کا باطنی اشارے کرنا وغیرہ ان کے انشائیوں کو تمثیلی نثر کا نمونہ بنا دیا ہے۔

ایک دیہاتی عورت جس کا شوہر پردیس میں ہے اسے ہچکی آتی ہے تو اسے اس کا شوہر یاد آتا ہے۔اس کو حسن نظامی نے اپنے انشائیہ ’’ہچکی‘کے ذریعہ بہت ہی اچھے انداز میںپرویا ہے وہ محبوب کے خیالوں میں کس طرح کھو جاتی ہے:

’’ تو کیوں آئی ہے؟ میرا سجنا تو یاد نہیں کرتا؟ مرے من موہن سندر کے دل میں میرا خیال تو نہیں آیا؟

پھرآئی  ہچکی نہ ستا۔میرا سینا ناتواں ہے۔اس میں جگہ جگہ پھانسیں چبھی ہوئی ہیں تو آتی ہے تو سینے میں کھٹک ہوتی ہے۔اس کے ز خم دکھنے لگتے ہیں۔سانس رکا جاتا ہے۔جب تو آتی ہے گردن کو جھٹکا دیتی ہے اور ناف سے سر تک پٹھوں اور رگوں کو ہلا ڈالتی ہے۔میرا جی سانس سے گھبرا تا ہے اور پیا پیارے کی یاد میں بے قابو ہوا جاتا ہے۔

ہائے میں نے کیسے کیسے درد بھرے خط بھجوائے۔ لکھنا نہ آتا تھا دوسروں سے لکھوائے،مگر اس نے کاغذ کا ایک پرزا نہ بھیجا۔دو حرفوں میں بھی بخیلی کی کس سے کہوں میری نہ کوئی سکھی ہے نہ سہیلی ہے۔ اپنا ہے نہ پرایا ہے۔ کاش مجھ پر کوئی لعن طعن ہی کرنے والا ہوتا۔اسی بہانے سے دل بہلتااس کا ذکر سننے میں آتا۔میں نے اس کی خاطر رسوائیاں برداشت کی دنیا نے کیا کچھ نہ کہا لیکن اس نے اتنا بھی نہ پوچھاکہ میں بھی کوئی ہوں۔ اب ہچکی آئی ہے کیا (موہنے واسنیہا)پیام یار لائی ہے۔ اگر اس کا خط ہے تو کس سے پڑھوائوں،خیال کے ڈاک میں سانس کا ڈاکیہ لایا ہے۔وہی پڑھے گا۔مگر آہ اس خط میں کیا لکھا ہے۔پڑھنے والوں کی آنکھوں میں آنسوبھرے آتے ہیں۔تلھ (پیارے) مجھے بتا تو کیوں  روندا(روتا ) ہے۔میرا ساجن تو اچھا ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 137-38)

 

 ہچکی کے بہانے اس انشائیے میںبہت کچھ لکھا گیا ہے کتنا گہرا اور عمیق مشاہدہ ہے۔اس انشائیے میںبھر پور ہندوستانی تہذیب کی عکاسی نظر آتی ہے۔حسن نظامی کے بہت سے انشائیے مکالموں کے بل بوتے پر آگے بڑھتے ہیں مثال کے طور پرشروع کے چند جملے دیکھیں:

’’جاری جا میں روٹی نہیں کھاتا،چاولوں کی پیچ ادھر کنارے پر رکھ دے اور ایک چلم بھر کر لا۔دم لگائوں دھواں اڑائوں غم مٹائوں۔

چھواچھو،چھوا چھو،چھوا چھو۔

کیوں ری نندا کی ماں دریا کا پانی گدلا،صابن کم، میں کیوں کر ان میلے کپڑوں کو صاف کروں، چھواچھو، چھوا چھو،چھوا چھو۔

دیکھ درخت کا پتا سوکھ کرگرا،ہوا اڑا کر لے چلی۔ اب خیر نہیں یہ بچھڑا ہوا کب ملے گا۔چھواچھو،چھوا چھو،چھوا چھو۔‘‘ (ایضاً، ص 103)

حسن نظامی نے ہندوستانی آہنگ کوتصوف میں ڈھالا ہے۔اور اپنے انشائیوں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور تاریخی  تلمیحوں کا کثرت سے استعمال کیا ہے۔ہندی کے ہلکے پھلکے نرم اور مترنم الفاظ کے استعمال سے ان کے اسلوب میں مٹھاس اور رس پیدا ہوجاتا ہے۔ ایجاز و اختصار حسن نظامی کے انشائیوں کی ایک خاص خوبی ہے۔ انھوں نے چھوٹے چھوٹے انشائیے لکھے ہیں جو تکنیک اور معنویت کے اعتبار سے بڑے مکمل اور بھر پور ہوتے ہیں،جیسے  ’آیار چل کر دیکھیں‘، ’’برسات کا تماشہ ‘ اور ’مرغ کی اذان‘وغیرہ مختصر ہونے کے باوجود جامع ہوتے ہیں جن میں تشنگی کا کوئی پہلو باقی نہیں رہتا۔

خواجہ حسن نظامی کواپنے عہد کے بدلے ہوئے سماجی و معاشی حالات کی تیز رفتاری کا احساس تھا۔ان کا ایک انشائیہ ’مچھر‘ تہذیبی و ثقافتی صورت حال اور ذات کائنات کے مسائل کا اشاریہ بن گیا ہے۔جوسرعت پذیر ثقافتی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔مچھر کا کردار انسانوں سے کم نہیں،مچھر کو طنز کا آلہ بنا کر پیش کی گیا ہے۔انھوں نے اس کو عاشق مزاج بتا کر اس زمانے کے نوابوں،راجائوں کے تعیش پسندی کی طرف اشارہ کیا ہے۔اس کا ایک اقتباس دیکھیے:

’’یہ الزام سراسر غلط ہے کہ بے خبری میں آتا ہوں اور سوتے میں ستاتا ہوں۔یہ تم اپنی عادت کے موافق سراسر  نا انصافی کرتے ہو۔حضرت میں تو کان میں آکر الٹی میٹم دے دیتا ہوںکہ ہوشیار ہو جائو۔ اب حملہ ہوتا ہے۔تم ہی غافل رہو تو میرا کیا قصور۔زمانہ خود فیصلہ کرے گاکہ میدان جنگ میں کالا بھتنا لمبے لمبے پائوں والابے ڈول فتح یاب ہوتا ہے یا گورا چٹا آن پان والا۔‘‘ (ایضاً، ص،(173

خواجہ صاحب کے ان انشائیوں کو پڑھتے ہوئے ہنسی بھی آتی ہے اور قاری بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوجاتاہے۔ فضا بندی اوربیانیہ اسلوب کے ذریعہ تہذیب و ثقافت کی حقیقی تعبیر پیش کرنے کا بہت ہی نرالاانداز اپنایا ہے۔اسی طرح جھینگر کو انھوں نے ہم عصرتعلیمی، سماجی اور ثقافتی صورت حال پر طنز کاایک آلہ بنایا ہے۔ جھینگر فتوحات مکیہ کی ایک جلد میں بیٹھا ہوا ہے۔یہ تاریخی سانحہ ہی نہیں بلکہ کسی قوم کی ثقافتی زوال کا نتیجہ ہے۔ اس کے ذریعہ انھوں نے ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی ترغیب دی۔جھینگر کے پردے میں فرد اور معاشرے کے رویوں پر گہرا طنز کیا ہے اور مختلف سماجی برائیوں کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی ہے۔

خواجہ حسن نظامی نے مختلف مذاہب اور مختلف صوبوں کے لوگوں کی خصوصیات کا بھی جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے جہاں ہندو مسلم اور سکھ کی بات کی ہے وہیں یوپی والے،پنجابی اور دلی والے جیسے موضوعات پر بھی قلم اٹھائے ہیں۔ان کے موضوعات میں اتنا تنوع ہے کہ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اردو میں کسی انشا پرداز نے اتنے مختلف موضوعات پر نہیں لکھا۔ سیاسی، سماجی، اخلاقی اور فلسفیانہ مسائل سے لے کر چھوٹی چھوٹی چیزوں تک کو موضوع بنایا ہے۔ انھیں زندگی سے بے پناہ محبت تھی اپنے گرد و پیش کی ہر چیز انھیں عزیز تھی وہ عالم تھے اس لیے ان کا علم وسیع تھا۔ آنکھیں اور دماغ کھلا رکھتے تھے اس لیے ان کا مشاہدہ غیر معمولی تھا۔وہ گوشہ نشیں نہیں تھے بلکہ خدا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے والے تھے۔ ’’ٹھنڈا سانس کھجور کی ٹہنی کے نیچے‘‘کے ایک اقتباس کو دیکھیں:

’’ میرٹھ میں شام تھی،ابر تھا ہوا کا سکوت تھا، آسمان و زمین پر اداسی تھی جھینگروں کا شور تھا۔ مینڈک جگہ جگہ بول رہے تھے۔میں نے کجھور کے نیچے کھڑے ہوکر قدرت کے اس نظارے کو دیکھا اور میرے سینے نے ایک ٹھنڈا سانس باہر بھیجا۔زمین کہتی تھی میں ٹھنڈی ہوں۔بارش کے پانی نے مجھ کو سیراب کردیا۔دیکھو میرے جسم پر پانی بہنے کے نشان پڑے ہوئے ہیں جو بل کھاتا ہوا مجھ پر سے گزرا ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 112)

خواجہ صاحب کے انشایئے مادّی قدروں کی براہ راست مخالفت نہیں کرتے ہیں۔مگر رومانی اخلاقی رجحانات کو بر قرار رکھنے یا اپنانے اور انسان کا رشتہ کائنات اور فطرت سے استوار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔اور اسی پر ان کا زیادہ زور ہوتا ہے۔

حسن نظامی اس بات کو سمجھتے تھے کہ انسان کو زیادہ دیر تک نصیحت اور پند کی باتیں نہیں سنا سکتے۔ اس لیے انھوں نے براہ راست نصیحت نہ کرکے نصیحت کی باتیں انشائیے کے نرم پیرائے میں ڈھالتے چلے جاتے ہیں۔ قاری کو اس طرح کی نصیحت میں تاثیر آنے لگتی ہے۔

خواجہ حسن نظامی ایک وسیع النظر شخص تھے بلا امتیاز وہ سبھی کو ایک خدا کی مخلوق سمجھتے تھے اور سبھی سے پیار کرتے تھے۔تکریم آدم ان کا شیوہ تھا۔وہ کسی کو حقیر نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔

خواجہ حسن نظامی نے ہندوستان کے موسم،یہاں کے پہاڑ،یہاں کی ندیاں، لوک تہذیب،پھلوں اور پھولوں کا بیان،برسات کا موسم غرض مناظر قدرت کی عکاسی اس طرح کی ہے کہ پوری تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔’’مدنی شیام سندر کی مرلی‘‘انشائیہ میں ہندوستانی ثقافت کی جھلک بہت نمایاں ہے۔اس سلسلے کا ایک اقتباس دیکھیے:

’’شیام سندر مرلی لیے بن سے نکلے۔وہ ہمارے سینا پتی تیر کمان سنبھالے نمودار ہوئے۔اب کوئی دم میں دم مرلیا باجے گی اور نین کی بدلی برسے گی۔ندی نالے سوکھے تھے۔گنگا جمنا پیاسی تھیں۔گھاٹ کے تیرتھ سونے تھے، بھگتی کا تھا کال پڑا۔ست کے گلے جنجال پڑا۔اب مرگ کی ترشنا دور ہوئی اور جنتا من کافور ہوئی اب ہر ہر کی آمد آمد ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 103)

مجموعی طورپر ہم کہہ سکتے ہیں کہ خواجہ حسن نظامی نے اپنے انشائیوں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت سے اپنے عارفانہ جذبات کوہم آہنگ کیا ہے۔جہاں جہاں عشقیہ بیان ہوئے ہیں وہاں بھی ہندوستان کی ایک الگ جھلک اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نمایاں ہے۔ بالخصوص عشق و محبت اور سوزو گداز کے بیان میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔انھوں نے مسلمانوں کی اخلاقی اقدار اور اصلاح کے لیے قرآن کی تعلیمات اور تصوف کا سہارا لے کر انشائیے لکھے۔ ہندوستان کے درپیش مسائل سے خواجہ صاحب کا فکری پس منظر تیار ہوا پھر مختلف موضوعات پر سیکڑوں کتابیں کسی مقصد کے تحت لکھ ڈالیں جو آج بھی معاشی اور معاشرتی سطح پر قوم کی اصلاح اور فلاح و بہبود میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی میں بہت سے اونچ نیچ دیکھے تھے جن سے ان کی بصیرت میں تیزی پیدا ہوئی۔ ان کے مزاج کا ضبط اور ان کی سادگی ان کے اسلوب میں نمایاں ہے۔وہ اردو کے صاحب طرز انشا پرداز ہیں جنھوں نے عام فہم زبان میں طریقت کے رازوں کو عوام تک پہنچایا ان کی ٹکسالی اور شیریں زبان اس وقت تک قدر کی نظر سے دیکھی جائے گی جب تک اردو بولنے والے موجود رہیں گے۔

n

Dr Mohd Akbar

  Assistant Professor

 CPDUMT,MANUU,

Hyderabad- 500032 (Telangana)

  Mb.8373984391

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

خلیل علی خاں اشک،ماخذ: ارباب نثر اردو، مصنف: سید محمد، مرتب: رحیل صدیقی

  اردو دنیا، مئی 2025   فورٹ ولیم کالج میں خلیل علی خاں ہی ایک ایسے مولف ہیں جن کی کتاب تو بے حد مقبول اور رائج ہوئی مگر وہ اس کی بدولت ...