اردو دنیا، مئی 2025
اردو غزل اپنے ایمائی اور علامتی اظہار کی بنیاد پرسماجی
اور سیاسی معاملات سے بھی گہرا تعلق رکھتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ کبھی یہ بنیادی
طور پر عشق و عاشقی کی صنف سمجھی جاتی ہے۔ پھر عشقیہ کردار بھی اپنے عہد کا
نمائندہ ہوتا ہے۔ عشق کے پردے میں سماج کے اقتصادی اور دیگر پہلوؤں کی شمولیت ہوتی
ہے۔ شاعری کے کردار میں فکشن کے کرداروںکی طرح وسعت نہیں ہوتی ہے مگر شاعری کے
مروجہ کرداروںکی تہہ داری میں فکشن کے تمام کردار سموئے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اجتماعی
لاشعور شاعری کے کرداروں میں شامل ہوتے ہیں۔ اردو کی طویل اصناف میں کرداروںکی
وضاحت ضرور ہوتی ہے مگر غزلوں میں کرداروںکا معاملہ ابہام سے جڑا ہوا ہوتا
ہے۔ اس لیے غزل کے کرداروںکی تفہیم کے لیے کئی سطح پر غور وفکرکرنے کی ضرورت ہوتی
ہے۔ قبل اس کے ہم غزلیہ اشعار کے کرداروںکا مطالعہ کریں، کردار کو سمجھنا لازمی
ہے۔ انگریزی میں یہ لفظ یونانی سے آیا ہے:
’’انگریزی
میں
Characterبراہ راست یونانی Klelkyni سے مستعار ہے، جس کے معنی
ہیں نقش کرنا، کندہ کرنا Engraving
اسی وجہ سے ابتدا یہ لفظ سکّوں پر مہر
لگانے کے رنگ کے لیے استعمال ہوتا تھا اور اس صورت کے لیے بھی جس سے مہر ہوتی تھی۔‘‘
(نجم
الہدایٰ، کردار اور کردار نگاری، دی آرٹ پریس سلطان گنج پٹنہ 1980،ص16)
بلاشبہ کرداروںمیںنقش اور ارتسام کی کیفیت ہوتی ہے۔ یہ
حقیقت ہے کہ جب ہم کسی ناول کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کے کردار ہمارے ذہنوں میں
گردش کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم شاعری کا مطالعہ کریں تو کرداروںکی حرکات وسکنا ت
بھی سامنے آتے ہیں۔ پروفیسر مجیدبیدار نے کردار کی جو تعریف کی ہے، وہ بھی ہمارے
مطالعے کو تقویب پہنچاتے ہیں:
’’زندگی
کی رعنائیوں سے وابستہ رہتے ہوئے عمل، رد عمل، تحریک اور تعلقات کی نمائندگی کرنے
والا جسم کردار کہلاتا ہے۔‘‘
(مجید
بیدار؛ناول اور متعلقات ناول، نیشنل فائن پرنٹنگ پریس، حیدر آباد،ص 57)
بلاشبہ کرداروں کی تفہیم کے لیے تحریک اور عمل وردعمل
کو سمجھنا لازمی ہے۔ مغنی تبسم کے مطابق:’’ادب میں لطیف ترین احساسات کو مادی شکل
دے کر انسانی ڈھانچے میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔اس سے کرداروں کی تحلیل نفسی کا
اندازہ ہوتا ہے۔ ‘‘
(مغنی
تبسم،کہانی اور اس کا فن، شعور پبلی کیشنز،حیدر آباد، ص4)
جس طرح فکشن میں متعدد کردار ہوتے ہیں اسی طرح شاعری میںبھی
مختلف کردار اپنی معنویت کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ اردو شاعری میں کرداروں کی نوعیت
میں بڑی گہرائی اور تنوع پایا جاتا ہے۔ یہ کردار کبھی رومانی، کبھی سماجی، کبھی سیاسی
اور کبھی فلسفیانہ ہوتے ہیں۔ ہر کردار کا ایک مخصوص پیغام ہوتا ہے جو شاعر کے مقصد
سے علاقہ رکھتا ہے۔
اردو شاعری میں رومانی موضوعات پر مبنی کردار بہت اہمیت
رکھتے ہیں۔ ان کرداروں میں عاشق، معشوق، اور محبوبہ جیسے کردار شامل ہیں۔ یہ کردار
شاعر کے احساسات اور جذبات کی عکاسی کرتے ہیں اور ان کے ذریعے رومانی داستانیں تخلیق
کی جاتی ہیں۔ ان کرداروں میں نہ صرف محبت کا پہلو دکھایا جاتا ہے بلکہ ان کے ذریعے
شاعر انسانی تعلقات کی گہرائی اور پیچیدگی کو بھی بیان کرتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ عشقیہ
لے کے ساتھ ساتھ، شاعری میں سماجی کرداروں کا بھی ذکر ہوتا ہے؛ جیسے غریب، مظلوم، یا
محنت کش۔ یہ کردار اردو شاعری میں سماجی عدم مساوات، غربت اور دیگر معاشرتی مسائل
کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے شاعر اپنی شاعری کو پیغام سے لبریز کرنا چاہتا
ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی کردار بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کرداروں کے ذریعے شاعر سیاسی
حالات، انقلاب یا تبدیلی کی خواہشات کو بیان کرتا ہے۔ان کرداروںکو سامنے رکھتے
ہوئے اردو غزلوںکا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں بہت سے قابل عمل پہلو نظر آئیں گے۔ ذیل
میں چند متفرق موضوعات کے تحت اشعار کے کرداروںکا مطالعہ پیش کیا جاتا ہے۔
غزل کے اساسی کردار میں رقیب یا غیر بھی شامل ہوتا ہے
جو اپنی سادہ تلازماتی حیثیت میں مختلف پہلوؤں کو نمایاں کرنے میںاہم کردار ادا
کرتا ہے ؎
غیروں سے التفات پہ ٹوکا تو یہ کہا
دنیا میں بات بھی نہ کریں کیا کسی سے ہم
میر نے اپنے اشعار
میں متکلم کا صیغہ بہ کثرت استعمال کیا ہے۔ اس شعر میں ’ہم‘ سے کردار کا تصور ابھر
رہا ہے۔ ہم کا معاملہ سماج سے مدغم ہوتا ہے۔ کیوںکہ سماج کا اطلاق صیغہ جمع پر
ہوتا ہے۔اوپر کے شعر میں رقیب کی کیفیت کو بھی محسوس کریں۔
غالب کی شاعری میں ایک ایسا کردار ملتا ہے جو زندگی کے
دکھ درد، محبت کی پیچیدگیوں اور انسانی کمزوریوں کا عکاس ہوتا ہے۔ غالب کا کردار
ہمیشہ سچائی، دکھ اور کرب سے جڑا ہوتا ہے۔ ان کے اشعار میں یہ کردار زیادہ تر
تنہائی اور شکوہ کرنے والا ہوتا ہے۔ ایک معروف شعر ؎
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
یہاں غالب کا کردار اپنی خواہشات اور تمناؤں کی تکمیل
نہ ہونے کا دکھ محسوس کرتا ہے اور اس دکھ میں اتنی شدت پائی جاتی ہے کہ ہر خواہش کی
تکمیل کے بعد بھی وہ مکمل طور پر مطمئن نہیں ہوتا۔اس شعر کا کردار کچھ یوںبھی
سامنے آتا ہے کہ کون اپنے ارمان کے متعلق بات کررہا ہے۔ کس سے اپنی بات کا اظہار
کررہا ہے۔ کیا اس شعر کا کردار خودکلامی میں مصروف ہے؟ کیا پھر اپنی محبوب سے
مخاطب ہے۔ مخاطبت کے مکمل نظام پر غور کرنے سے اس شعر کا کردار بہت کچھ سوچنے پر
مجبورکرتا ہے۔
اردو شاعری میں بھی کردار نگاری کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کے
ذریعے شاعر اپنے خیالات، جذبات اور نظریات کو ایک جاندار اور حقیقت پسندانہ انداز
میں پیش کرتا ہے۔ کرداروں سے نہ صرف موضوعات کی تفہیم ہوتی ہے بلکہ شاعروں کا منشا
بھی ظاہر ہوتا ہے۔ ایک اچھا شاعر نہ صرف خوبصورت الفاظ اور اشعار تخلیق کرتا ہے،
بلکہ وہ اپنے کرداروں کے ذریعے انسانی تجربات، معاشرتی تضادات، اور اخلاقی مسائل
کو بھی پیش کرتا ہے۔ کردار، شاعری کا وہ پہلو ہے جو نہ صرف اس کے موضوعات کو گہرائی
فراہم کرتا ہے بلکہ یہ شعری متن کو ایک مختلف جہت دے کر قاری کو سوچنے پر مجبور
کرتا ہے۔
شاعری کے کرداروں میں فلسفیانہ عناصر کی شمولیت ان کی
گہرائی اور معنویت میں اضافہ کردیتی ہے۔ جب کوئی شاعر اپنے کرداروں میں زندگی کے
مسائل، کائناتی سچائیوں اور انسانی احساسات کو بیان کرتا ہے، تو ان کرداروں کے ذریعے
فلسفیانہ خیالات کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔ یہ کردار اکثر سوالات اٹھاتے ہیں،
جواب تلاش کرتے ہیں اور قارئین کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ ان میں وقت، حقیقت،
محبت، موت اور وجود کے گہرے سوالات شامل ہوتے ہیں، جو زندگی کے بنیادی پہلوؤں کے
بارے میں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ شاعری ان کرداروں کے ذریعے صرف جذبات کی عکاسی
نہیں کرتی بلکہ زندگی کے معنوی پہلوؤں کو بھی اجاگر کرتی ہے۔جب یہ کردار کھلتے ہیں،
تو ان کی کہانیوں میں زندگی اور فلسفہ ایک دوسرے میں گندھے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ یہ
کردار انسانی وجود کی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، اور ان کی کہانیوں
کے ذریعے قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ فلسفہ اور زندگی الگ نہیں بلکہ ایک دوسرے کے
ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ایک اچھے شاعر کے کردار نہ صرف خیالی دنیا کی نمائندگی کرتے ہیں
بلکہ حقیقی زندگی کے بھی عکاس بن جاتے ہیں، جہاں فلسفہ انسانی تجربے کو ایک گہری
اور مکمل شکل میں پیش کرتا ہے۔ اس طرح شاعری کے کردار قاری کے دل و دماغ میں ایک
فلسفیانہ نقش چھوڑ جاتے ہیں۔
بلاشبہ یہ اشعار اور ان کے کردار مختلف انسانی جذبات
اور تجربات کی عکاسی کرتے ہیں۔اس کرداروں کو ہم نثری کرداروں سے بھی ملاکر دیکھ
سکتے ہیں۔ فکشن نگار کی طرح ہر ایک شاعر نے اپنے کردار کے ذریعے مختلف حالات
اور جذبات کی عکاسی کی ہے جیسے محبت، مایوسی، جدائی، امید، اور خودی۔یہ بھی حقیقت
ہے کہ جب ہم اردو شاعری کے کرداروں کا مطالعہ کرتے ہیں تو بعض اوقات فکشن سے
زیادہ شاعری کے کردار گہرے معلوم ہوتے ہیں۔ ان کرداروں کی گہرائی اور پیچیدگیوں کو
سمجھ کر ہم نہ صرف اردو شاعری کے جمالیاتی پہلو کو سمجھ سکتے ہیں بلکہ یہ بھی جان
سکتے ہیں کہ کس طرح ہر شاعر اپنے وقت کے سماجی، نفسیاتی اور ثقافتی مسائل کی
نمائندگی کرتا ہے۔شاعری کا عمومی طور پر موضوعاتی، فنی اور معنیاتی نقطۂ نظر سے
مطالعہ کیا جاتا ہے، حقیقت ہے کہ شاعری کو مزید آفاقیت عطا کرنے کے لیے اس کے
کرداروںکو کھولنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
Dr. Qaseem Akhtar
Assistant Profeesor, Dept of Urdu
Marwari College
Kishan Ganj- 855107 (Bihar)
Mob.: 9470120116
qaseemakhtar786@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں