اردو دنیا، مئی 2025
خواجہ الطاف حسین حالی پر گفتگو کرنا اور ان کی شخصیت
سے وابستہ پہلوؤں کو کھنگالنا اور ان پر روشنی ڈالنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ حالی
کی شخصیت ایسی عبقری اور ہمہ جہت ہے کہ جس سے آنے والی تقریباً تمام نسلوں نے
اکتسابِ فیض کیا ہے۔ وہ بیک وقت نثر نگار، مقدمہ نگار، مقالہ نگار، سوانح نگار،
تنقید نگار، ناول نگار، سیرت نگار، مترجم اور اعلی درجے کے شاعر ہیں۔ بحیثیت شاعر
وہ نظموں کے بادشاہ ہیں۔ تقریباً ان کو دنیا سے رخصت ہوئے سوا سو سال ہونے جا رہے
ہیں لیکن ابھی بھی ان کی شخصیت ایک معمے سے کم نہیں۔ ان کی شخصیت اور فن کو سمجھنا
اور اس میں غوطہ لگا کر جواہر پاروں کو کنارے پر لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
خواجہ الطاف حسین حالی کی شاعری کل بھی بامقصد اور بامعنی تھی اور آج بھی بامقصد
اور زندگی کے قریب ہے۔ اگرچہ انسانی زندگی نے بہت سے تکنیکی اور سائنسی نشیب و
فراز حاصل کیے ہیں لیکن اس تکنیکی دور میں بھی حالی اپنی جگہ قائم ہیں اور ان کی
تخلیقات اسی طریقے سے آج بھی ہماری زندگی کے قریب ہیں گو ان کی شاعری ہماری نسلوں
کی آبیاری کر رہی ہے۔ ان کی نظمیں ہوں یا غزلیں دونوں نے ہماری نسلوں کو مثبت رویے
سے بے حد متاثر کیا ہے۔
بات چاہے حالی کی غزل گوئی کے تعلق سے ہو یا پھر ان کے
معاصرین اکبر الہ آبادی، اسماعیل میرٹھی، محمد حسین آزاد یا پھر دوسرے شعرا کی
غزلوں کی خصوصیات اور امتیازات کا ذکر ہو۔ جب ہم حالی کے ابتدائی کلام کا مطالعہ
کرتے ہیں تو یہ چند پہلو اور نکات سامنے آتے ہیں کہ ہر شاعر کی ابتدا اس روایتی
اندازِ بیان اور فکر سے ہوتی ہے جس روایت پر ہماری اردو غزل کی بنیاد کھڑی ہے یعنی
وہی عشق و محبت کی باتیں، حسن و جمال کی رنگینیاں، ہجر و وصال، درد و غم، رنج و
الم، فرحت و نشاط، حزن و ملال، شکوہ و شکایت، محبوب کا سراپا، شمع و پروانہ، گل و
بلبل، فراق و وصال، محبوب کی ناز و ادا، جلی کٹی اور وہی روایتی تشبیہات و
استعارات۔ خواجہ الطاف حسین حالی نے بھی اپنی غزلوں کی ابتدا کچھ ایسے ہی مذکورہ
بالا مضامین سے کی۔ حالی نے بھی اسی طرزِ سخن کو اپنایا جو ہماری شاعری کا طرہ
ٔامتیاز مانا جاتا رہا۔ جہاں صرف احساسات و جذبات کی فراوانیاں اور عشق و محبت کی
رنگین دنیا آباد ہے۔ بعد میں ان کا
مطالعہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا اور انھوں نے مختلف علوم و فنون سے فیض حاصل کیا۔
انھیں جلد ہی اس بات کا احساس ہو گیا کہ جس راہ پر وہ غزل گوئی کر رہے ہیں اس میں
اصلاح کی ضرورت ہے۔
حالانکہ حالی کی ابتدائی غزلوں پر روایتی اور کلاسیکی
رنگ نمایاں ہے۔ حالی بھی عشق و محبت اور اس کے گرہ گیر میں گرفتار نظر آتے آتے ہیں۔
ان کی غزلوں کا اندازِ بیان بھی وہی ہے جس میں خاص طور پر عورت یا محبوب کو مخاطب
کر کے اپنے دلی جذبات کی ترجمانی کی جاتی ہے۔ حالی محبت کا واسطہ دیتے ہوئے اپنے
محبوب کا شکوہ اور اعتماد و وفا کی بھی بات کرتے ہیں اور اس اعتماد و وفا میں دل
پر جو گزرتی ہے یعنی وارداتِ قلب اور اس وارداتِ قلب میں چھپا ہوا وہ درد و غم رنج
و غم بھی شامل رہتا ہے جو حالی کو موت اور زندگی کے درمیان لا کر کھڑا کر دیتا ہے۔
ایسی کیفیت میں حالی تھوڑے سے قنوطی اور اپنے محبوب سے بیزار بھی دکھائی دیتے ہیں
لیکن اس بیزاری یا قنوطیت میں حالی کا شعور بیدار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالی کو
عشق کے فلسفے اور اس کے مفہوم سے بخوبی آگاہی حاصل ہے۔ مثلاً اس طرز میں ذیل کے
دو شعر ملاحظہ فرمائیے ؎
ذرہ ذرہ ہے مظہرِ خورشید
جاگ اے آنکھ دن ہے رات نہیں
قیس ہو، کوہ کن ہو، اے حالی
عاشقی کچھ کسی کی ذات نہیں
اس میں جس قنوطیت اور بیزاری کا ذکر کیا گیا ہے۔ حالی کی
غزلوں میں یہ قنوطیت اور بیزاری کا سلسلہ رکتا نہیں بلکہ دراز اور طویل ہوتا جاتا
ہے۔ نیز حالی اس بیزاری اور قنوطیت کے عالم میں ایسے شخص کی تلاش میں سرگرداں رہتے
ہیں جو ان کے دکھ، درد اور کرب کی باتیں بیان کر سکے۔ اس سلسلے میں حالی کے کلام
کو پڑھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا دردِ نہاں کوئی جاننے کو تیار نہیں
ہے۔ ان کو یہ دنیا، یہ گھر، یہ آشیانہ ایک قفس دکھائی دیتے ہیں۔ ایسی حالت میں ان
کو نہ فرحت کا احساس ہوتا ہے اور نہ شادمانی کا بلکہ کبھی کبھی وہ ایسی حالت میں
وصل کے لیے زیادہ بے قرار نظر آتے ہیں۔ انھیں محبوب کے اشاروں اور کنایوں پر اطمینان
نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی ذہنی تسکین کے لیے محبوب سے مزید تقاضا کرتے ہیں۔ اس سلسلے
میں چند اشعار پیش خدمت ہیں ؎
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں
قفس میں جی نہیں لگتا کسی طرح
لگا دو آگ کوئی آشیاں میں
کوئی دن بو الہوس بھی شاد ہو لیں
دھرا کیا ہے اشاراتِ جہاں میں
ان کے اشعار میں جس بو الہوسی اور شادمانی کی بات حالی
کرتے ہیں اس کو حالی زندگی بھر نہیں بھول پاتے اور ایک الگ ہی نشے میں چور رہتے ہیں۔
چنانچہ وہ نشہ کسی شراب کا نہیں بلکہ شباب کا نشہ ہے اور حقیقت میں شباب کا نشہ ایک
ایسا نشہ ہوتا ہے جو شراب کی بہ نسبت تادیر قائم رہتا ہے۔ اس بات کا اعتراف وہ خود
یوں کرتے ہیں ؎
عہدِ وصال دن میں بھلایا نہیں ہنوز
عالم مری نظر میں سمایا نہیں ہنوز
کس نشّہ میں ہے چور خدا جانے
حالی نے جام منہ سے لگایا نہیں ہنوز
اگر نفسیاتی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو یہ بات حقیقت پر
مبنی ہے کہ 17-27 کی عمر میں بقول غالب ایسی کیفیت رہتی ہے’’ ایماں مجھے روکے ہے
تو کھینچے ہے مجھے کفر‘‘ یعنی نفسِ امارہ اور نفسِ لوامہ کی درمیان ایک سرد جنگ
جاری رہتی ہے۔ اسے ہم انا اور فوق الانا سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ ان دونوں کے
درمیان انسان معلق رہتا ہے اور اس کا جوش و جذبہ اسے پریشان رکھتا ہے۔ نیز اس کے
دماغ اور اعصابی نظام میں عجیب قسم کی ہلچل برپا رہتی ہے۔ حالی کے حسن و عشق سے
عبارت شاعری میں کچھ ایسے ہی عناصر کار فرما ہیں جو اعصابی نظام کو بھی متاثر کرتے
ہیں۔ حالانکہ خواجہ الطاف حسین حالی کی زندگی کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی
زندگی سادگی اور تزکیۂ نفس کا مرقع نظر آتی ہے۔ مگر اس تزکیۂ نفس کے مرقع میں
بھی نفسِ امارہ اور نفسِ لوامہ کے درمیان سرد جنگ قائم رہتی ہے۔ اگر یہ سرد جنگ
قائم نہ رہے تو تزکیۂ نفس کا مرقع وجود میں نہیں آ سکتا۔ چنانچہ اگرچہ حالی جنسی
کجروی اور بے راہ روی کے شکار نہیں ہوئے لیکن اس کا اظہار انھوں نے اپنے شعروں کے
توسل سے کر دیا ہے۔ یہ اشعار ان کی ابتدائی
دوراور روایتی اندازِ فکر کے بھی غماز ہیں اور ان کے نفسیاتی پیچ و خم کے بھی
مظہر۔ اس رویے اور رجحان کو مزید سمجھنے کے لیے یہاں کچھ اشعار پیش کیے جاتے ہیں ؎
سمجھ کر کرو قتل حالی کو دیکھو
مٹاؤ نہ عشق و جوانی کی صورت
اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیشِ عشق
رکھی ہے آج لذتِ زخمِ جگر کہاں
ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں
حالی نشاطِ نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب
آئے ہو وقتِ صبح، رہے رات بھر کہاں
مذکورہ بالا اشعار سے اچھی طرح سے اندازہ لگایا جا سکتا
ہے کہ حالی حسن و عشق و محبت کے کس نہج پر گامزن ہیں۔ حالی اپنی غزلوں میں حسن و
عشق و محبت، نفسی کیفیتوں اور اعصابی نظام کی ہلچل کی بات کرتے ہیں۔جس عشق و محبت
کی باتیں حالی کرتے ہیں وہ باتیں عشقِ حقیقی سے تعبیر نہیں کی جا سکتیں۔
جب ہم حالی کی عشقیہ شاعری پر بات کرتے ہیں تو اس میں
کوئی دورائے نہیں کہ انھوں نے اس تعلق سے اپنی شاعری میں بہت ہی خوبصورت مضامین
پرو دیے ہیں۔ حالی کے یہاں بھی عشقِ مجازی سے متعلق بہت سے اشعار پائے جاتے ہیں۔
ان کی شاعری میں عشق کے جو لوازمات ہیں وہ نفسیاتی اعتبار سے صداقت پر مبنی ہوتے ہیں۔
بات وصل کی ہو یا ہجر کی یا پھر سوزِ دروں کی یا پھر یاسیت و تحمل کی یا پھر
انتشارِ نفس کی یا پھر اعصابی خلل کی یا پھر دماغی ہلچل کی، ان تمام باتوں کا تعلق
ہر انسان سے ہے نیز ان تمام پہلوؤں کا اطلاق انسان کی سائیکی سے خلط ملط رہتا ہے۔
اب ظاہر سی بات ہے جب انسان نفسیاتی اعتبار سے ان پہلوؤں سے گھرا ہوگا اور بالخصوص
عشق و محبت میں ڈوبا ہوگا تو پھر وہ دل سے خیالِ دوست کو بھلا بھی نہیں پائے گا
اور جو سینے میں عشق کے داغ پڑ گئے ہیں اس کو بھی نہیں مٹا پائے گا۔ حالی اس بات
کا خود اعتراف کرتے ہیں۔ داغِ عشق اور
مبتلائے عشق سے متعلق چند اشعار ملاحظہ فرمائیے ؎
تم نے کیوں وصل میں پہلو بدلا
کس کو دعویٰ ہے شکیبائی کا
دل سے خیالِ دوست بھلایا نہ جائے گا
سینے میں داغ ہے کہ مٹایا
نہ جائے گا
تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو لاکھ ضبط
الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا
کیوں چھیڑتے ہو ذکر نہ ملنے کا رات کے
پوچھیں گے ہم سبب تو بتایا نہ جائے گا
گھر ہے وحشت خیز اور بستی اُجاڑ
ہو گئی ایک اک گھڑی تجھ بن پہاڑ
کھیت رستے پر ہے اور رہ رو سوار
کشت ہے سرسبز اور نیچی ہے باڑ
یہ انحراف و اعتراف اور تصادم و تضاد کا وصف صرف حالی کی
غزلوں میں ہی نہیں پایا جاتا بلکہ یہ شاعری بالخصوص غزل کا طرۂ امتیاز اور خاص فنی
وصف ہے۔ کیونکہ شاعری میں عام زندگی سے ہٹ کر جب تک تضاد کی کیفیت قائم نہیں ہوتی
غزل کا حسن دوبالا نہیں ہو پاتا۔ چنانچہ تصادم و تضاد اور انحراف و اعتراف کا
معاملہ یہ ایسا فنی وصف ہے جو کلام میں چار چاند تو لگاتا ہی ہے ساتھ ہی ساتھ کلام
میں تاثیر، شگفتگی، نغمگی اور موسیقی بھی پیدا کرتا ہے اور جب تک کلام میں ایسی کیفیت
طاری نہ ہوگی تو کلام جمہور کے دلوں پر رقت اور اثر انگیزی بھی قائم نہ کرے گا۔ یہی
وجہ ہے کہ صرف حالی ہی نہیں بلکہ دنیا کی ہر زبان کے ساتھ جو شاعر غزل کے فن میں
طبع آزمائی کرتا ہے، ہمیشہ وہ انحراف و اعتراف اور تصادم و تضاد کے مابین معلق
رہتا ہے۔ لہذا اسی وصفِ معلق میں وہ نفسیاتی اعتبار سے بھی دو چار ہوتا رہتا ہے۔ خواجہ
الطاف حسین حالی کے یہاں یہ تمام شعری اوصاف موجزن اور رواں دواں رہتے ہیں۔
مذکورہ تمام باتیں حالی کی ابتدائی شاعری سے متعلق تھیں۔
بعد میں حالی کی غزلوں کا رنگ و آہنگ ہنگ اور موضوعات بدلتے جاتے ہیں۔ اکبر الہ
آبادی کی کیفیت بھی یہی ہے۔ ان کا ابتدائی کلام بھی حسن و عشق کی عبارت سے مزین
ہے ،بعد میں پھر انہوں نے اپنی الگ راہ نکالی اور طنز و مزاح کے شہنشاہ کہلائے۔
چنانچہ جیسے جیسے حالی کا مطالعہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے تو ان کے خیالات میں
وسعت اور کشادگی پیدا ہوتی جاتی ہے۔ فکری تبدیلی کی بہت سی وجوہات تھیں جن میں خاص
طور پر لاہور بک ڈپو میں ترجمے کا کام ،اس کے بعد محمد حسین ازاد کے رابطے میں آ
کر عنوانی اور مقصدی مشاعروں کی طرف رجوع ہونا۔ یہ وہ عوامل اورادبی و علمی امور ہیں
جن کی وجہ سے حالی کے اندر ایک بدلاؤ پیدا ہوتا چلا گیا نیز پھر وہ آہستہ آہستہ
غزل گوئی کے میدان میں بھی حسن و عشق کے بھنور سے آزاد ہوتے چلے گئے۔
حالی نے جوبعدمیں غزل گوئی کے میدان میں کارنامے انجام
دیے ، اس تعلق سے اردو ناقدین کو یہ اعتراض ہے کہ حالی کے یہاں بعد کی غزلوں میں ایک
الگ ہی روکھا پن دکھائی دیتا ہے جس میں جمالیاتی اور رومانی فضا نیز رنگینی اور
غنائیت کہیں معدوم ہو جاتی ہے مگر یہ حقیقت بھی مسلم ہے کہ بعد میں اردو غزل گوئی
کے تعلق سے حالی نے جو رنگ و آہنگ اختیار کیا اس میں حالی کی مقصدیت پوشیدہ رہتی
ہے۔ شاید اسی رنگ و آہنگ کے تعلق سے حالی یوں کہتے ہیں ؎
مال ہے نایاب اور گاہک ہیں اکثر بے خبر
شہر میں کھولی ہے حالی نے دُکاں سب سے الگ
حالی نے جس نایاب مال اور سب سے الگ دکان کی بات کی ہے یہ
فنی وصف ان کے دوسرے دور کی غزل میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ حالی کا مکمل ارتکاز
غزلوں میں مقصدیت کی طرف رہتا ہے۔ وہ ہر بات اور ہر پہلو کو بامعنی بنانا چاہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے فن میں مزید پختگی، سنجیدگی، متانت، اثر انگیزی اور معنی آفرینی
پیدا ہوتی جاتی ہے۔ ان کے تخیل اور خیالات میں حقیقت کا عنصر موجیں مارنے لگتا ہے۔
ان کی غزل گوئی جو اب سے پہلے ادب برائے ادب اور تفننِ طبع کے لئے تھی اب وہ ادب
برائے زندگی کے زمرے میں داخل ہو چکی تھی۔ ادب برائے زندگی کی ایک وجہ یہ بھی تھی
کہ وہ سر سید کے مشن سے بے حد متاثر تھے اور دوسری جانب محمد حسین آزاد کے ساتھ
مل کر عنوانی نظموں کی بنیاد بھی ڈال چکے تھے۔ اسی وجہ سے بعد میں وہ غزل کے اس
رنگ و آہنگ کی مخالفت کرتے ہیں جس رنگِ غزل کے کبھی وہ خود پیروکار تھے۔ اس سلسلے
میں مندرجہ ذیل اشعار پیش خدمت ہیں
؎
کرو دوستو پہلے آپ اپنی عزت
جو چاہو کریں لوگ عزت زیادہ
کرو علم سے اکتسابِ شرافت
نجابت سے ہے یہ شرافت زیادہ
فراغت سے دنیا میں دم بھر نہ بیٹھو
اگر چاہتے ہو فراغت زیادہ
حالی اب آؤ پیرویِ مغربی کریں
بس اقتدائے مصحفی و میر کر چکے
اب لگاؤ پود کچھ اپنی نئی
لا چکے پودے بہت اگلوں کے پھل
ڈاکٹر جاوید وششٹ نے حالی کی غزل گوئی کے تعلق سے لکھا
ہے ’’ حالی کی غزل کا جدید رنگ جدید شاعری کی گنگوتری ہے۔‘‘ڈاکٹر جاوید وششٹ کا یہ
قول حالی کی غزل گوئی کے تعلق سے بہت معنی خیز ہے۔ کچھ اسی طرح کے خیالات سجاد ظہیر
اپنی کتاب مضامینِ سجاد ظہیر میں صفحہ 54 پر رقم طراز ہیں:
’’ انھوں نے اپنے
زمانے کی اس قسم کی شاعری پر جو بیشتر چٹکلے بازی، پست قسم کی لذت کوشی اور مرصع
نگاری بن کر رہ گئی تھی، جس میں انسانی زندگی کے اہم ترین مسائل اور اس کی بلند ترین
قدروں کا نام و نشان بھی نہیں تھا اور جو سطحی تفریح کے علاوہ کسی دوسرے بلند اخلاقی
مقصد کا اظہار نہیں کرتی تھی، سخت نکتہ چینی کی اور انھوں نے اس نکتہ چینی میں
اتنے جوش بلکہ غصے کا اظہار کیا کہ لوگ تلملا اٹھے۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ واقعی حالی کی اصلاحِ غزل سے
لوگ بلبلا اٹھے۔ لیکن ایک دن وہ بھی آیا کہ لوگوں نے ان کے نظریات و خیالات سے
اتفاق رائے کا اظہار کیا اور دھیرے دھیرے لوگ اس راستے پر آ گئے جو ادب برائے
زندگی کی راہ تھی۔ بقول صالحہ عابد حسین:
’’
انھوں نے اپنے روحانی استادوں اور زندہ استادوں سے اپنی
طبیعت اور صلاحیت کے مطابق استفادہ کیا تھا۔ میر سے دردِ دل لیا اور درد سے تصوف کی
چاشنی۔ غالب سے حسنِ تخیل، ندرتِ فکر اور شوخیٔ گفتار سیکھی اور سعدی سے بیان کی
سادگی اور معنی کی گہرائی۔ شیفتہ سے سیدھی
سچے باتوں کو محض حسنِ بیان سے دلفریب بنانے کا فن ۔ اور ان سب کی ترکیب سے حالی کی
غزل کا ہیولیٰ تیار ہُوا ۔ ‘‘( یادگارِ حالی : ص134)
صالحہ عابد حسین نے حالی کے تعلق سے جس فنی اختصاص کا
ذکر کیا ہے ، یہ تمام خوبیاں ابتدائی دور کا ہیولیٰ ہیں۔ دوسرے دور کی غزلوں میں
مذکورہ خوبیوں کا کوئی ہیولی نظر نہیں آتا بلکہ حالی کی غزلوں میں پیکر تراشیوں
کا وہ سلسلہ جاری ہوتا ہے جو حالی کو خالص حالی بناتا ہے۔ جس میں نہ میر کی صدا
ہے، نہ غالب کی شوخی اور نہ درد کا صوفیانہ مزاج
بلکہ حالی کے اپنے تیور ، نشتر اور تیر ہیں ۔ سید عبد اللہ نے اپنی کتاب ’
ولی سے اقبال تک ‘ میں صحیح لکھا ہے :
’’حالی
اپنے پیش روؤں اور معاصروں سے الگ ہیں کہ انھوں نے غزل کے موضوعات کی سابقہ حد
بندی توڑ ڈا لی اور سماجی اور قومی خیالات کو غزل میں داخل کیا۔ ‘‘
بلاشبہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حالی کی غزل کا دوسرا
پڑاؤ مکمل طور پر ادب برائے زندگی کا ہے۔ وہ اپنی غزلوں کی بنیاد ایسے خیالات،
جذبات، تفکرات، تاثرات اور نظریات سے بھرتے ہیں کہ جس میں مقصدیت پنہاں ہوتی ہے
اور نصیحت کی مٹھاس اور اصلاح کا پہلو ہمیشہ کارگر رہتا ہے۔ حالانکہ حالی کی اس
طرح کی غزل گوئی پر لوگوں نے اعتراضات بھی کیے۔حالی نے غزل کو ایک پیغام اور نصیحت
کی پوٹلی بنا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالی نے اس مفہوم کو بالکل پیچھے چھوڑ دیا
جس میں غزل کا مفہوم محبوب یا عورتوں سے باتیں کرنے کا ہے۔ حالی ان اعتراضات کے
تعلق سے کہتے ہیں ؎
بات سچی کہی اور انگلیاں اٹھیں سب کی
سچ میں حالی کوئی رسوائی سی رسوائی ہے
اب سنے اس میں کوئی یا نہ سنے
وہی راگ اپنا گائے جاتا ہے
سر تھے وہی اور تال وہی پر راگنی کچھ بے وقت سی تھی
غل تو بہت یاروں نے مچایا پر گئے اکثر مان ہمیں
مذکورہ بالا تینوں اشعار سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا
سکتا ہے کہ حالی اپنی اس روش سے جس کو انہوں نے بعد میں ترک کر دیا غزل کو روایتی
خول سے نکال کر مقصدیت سے ہم آہنگ اور زندگی سے قریب کرنا چاہتے ہیں۔ اصلاحِ غزل
کے تعلق سے انھوں نے بہت سے اقدامات اٹھائے اور اپنے نظریات و خیالات سے اردو دنیا
کو روشناس کرایا۔ اگرچہ اس پر مکمل طور سے لوگ عمل پیرا نہیں ہوئے مگر پھر بھی
انھوں نے اپنے تنقیدی اور اصلاحی نظریات سے غزل کی روش اور رفتار کو حتی الامکان ایک
نیا موڑ دیا۔ جس سے آنے والی نسلوں نے سبق بھی حاصل کیا اور اس پر اپنی غزل کی
عمارت بھی قائم کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج خواجہ الطاف حسین حالی اور دوسرے اربابِ ادب
کی کاوشوں سے غزل کا دامن بے حد کشادہ اور وسیع ہو گیا ہے۔
خواجہ الطاف حسین حالی نے غزل کی زبان و بیان رنگ و آہنگ
اور موضوعات کو بھی اپنی نظموں کی طرح نیچرل بنایا۔ اس طرح کی غزلوں میں ان کے یہاں
رنگینی، جمالیاتی اور رومانی فضا کم پائی جاتی ہے مگر کلام کی فصاحت، سلاست اور
پختگی اور قادر الکلامی میں کسی طرح کی کمی نہیں آئی۔ حالی کی غزلوں میں جدت بھی
ہے اور ندرت کی فضا بھی قائم ہے۔ حالی کے
دوسرے دور کی غزلوں میں بے پناہ للہیت، خلوص، قوم سے ہمدردی کا جذبہ، خدمت خلق کے
عناصر، محبت و اخوت کا پیغام، حب الوطنی کا جذبہ اور اسی طرح کے انسانی اخلاق و
کردار کے اعلی نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ چنانچہ ان کی غزل میں ایک آفاقی پیغام
پوشیدہ رہتا ہے۔ حالی کی غزل گوئی کا لب لباب یہی ہے کہ حالی نے اردو غزل میں نہ
صرف اصلاحی اقدامات اٹھائے بلکہ انھوں نے غزل کو ایک نئی سمت، نیا لہجہ، نیا
آہنگ، نیا رنگ، نیا اسلوب، نیا اندازِ بیان دیا اور اور غزل کو روایتی خول سے
باہر نکالا، ساتھ ہی ایک آزاد فضا میں سانس لینا سکھایا۔ آج یہ حالی کا ہی
کارنامہ ہے کہ غزل نے اپنے دامن میں مختلف اور ہر قسم کے موضوعات کو سمیٹ لیا ہے۔
Dr. Mohd Mustamir
Assistant Professor, Dept of Urdu
Zakir Husain College
Delhi- 110002
Mob.: 8920860709
drmohdmustamir@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں