29/4/22

ایک وضع دار شخصیت: سحر سعیدی - عظیم راہی

 



ڈاکٹرسحرسعیدی مرحوم پرانی تہذیب کے علمبردار تھے۔ نہایت وضعدار اور اصول پسند شخص تھے۔ اپنی اصول پسندی کی وجہ سے کئی بار انھیں نقصان بھی اٹھانا پڑا، لیکن وہ آخر تک اپنے اصولوں پر قائم رہے۔ بہت کم آمیز اور کم گو تھے۔ قہقہہ مار کر ہنسنا ان کے نزدیک آداب و اخلاق کے خلاف تھا۔ وہ صرف مسکرانے پر اکتفا کرتے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ مزاجاً سخت تھے بلکہ ہر بات میں آداب ملحوظ رکھتے تھے اور ایک طرح کی شائستگی ان کی طبیعت کا خاصہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ا ن کی زندگی میں بڑا نظم و ضبط اور سلیقہ و طریقہ اور ایک ترتیب تھی۔ وہ وقت اور وعدے کے بڑے پابند تھے۔ چونکہ کم گو تھے لہٰذا اکثر خاموش ہی رہتے، لیکن جب کبھی بولنے پر آتے تو سامنے والے کو خاموش ہوجانا پڑتا۔ اپنے مخصوص لباس اور بڑے رکھ رکھاؤ کے آدمی تھے۔ خوش خطی ان کے مزاج کے صاف ستھرے اور نکھرے ہوئے ذہن کی نمائندگی کرتی، ان کے اندازتحریر میں ان کی شخصیت کا پرتو صاف جھلکتا تھا۔

سحرسعیدی خاموش طبیعت کے مالک ضرور تھے لیکن خاموشی سے وہ اپنا کام کرتے رہنے کے قائل تھے۔ لہٰذا اُن کی شخصیت ہمیشہ فعال اور متحرک رہی‘ اُن کی کوئی نہ کوئی ادبی ‘ سماجی اور معاشرتی سرگرمیاں جاری رہتیں۔ انھوں نے اورنگ آباد میں نان قلیہ کلب بھی اپنے گروپ کے ساتھ قائم کیا تھا جس میں نان قلیہ سے مدعوئین کی ضیافت کی جاتی۔ وقت اور اصولوں کی بڑی پابندی کے ساتھ ایک عرصے تک وہ نان قلیہ کلب کا بڑی خوش اسلوبی سے اہتمام کرتے رہے۔ اِسی طرح سیروتفریح کا پروگرام بھی وہ اپنے ہم خیال احباب کے ساتھ طے کرتے  اور اپنے احباب کے ساتھ کسی صحت بخش یا تاریخی مقام پر تفریح کو جایا کرتے تھے۔ اپنے اِن ہم خیال دوستوں کے ساتھ ایک بڑی لٹریری سوسائٹی بھی قائم کی تھی جس کے تحت کئی کتابوں کی ترتیب تدوین کا انھوں نے ارادہ کیا تھا جس میں نذرعبدالحق اور دکن کے چار چاند کے علاوہ اورنگ آباد خجستہ بنیاد کی تہذیبی و تمدنی تاریخ ترتیب دینے اور اُسے کتابی شکل میں شائع کرنے کا منصوبہ بھی انھوں نے بنایا تھا لیکن اس کام میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کے سبب ان کے یہ خواب پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکے۔ بقول اسلم مرزا، سحر سعیدی دوستی کے معاملے میں بہت محتاط رہے۔ زبردست قیافہ شناس رہے۔ انھوں نے کبھی اپنے اطراف دوستوں کی بھیڑ کو پسند نہیں کیا۔ اِس معاملے میں وہ بہت احتیاط سے کام لیتے رہے اور اپنے ہم خیال مخلص دوستوں کو ترجیح دی۔ دراصل وہ تعلقات میں کچھ فاصلے روا رکھتے تھے۔ شاید اسی لیے اکثر لوگ انھیں اناپسند سمجھتے تھے۔ حالانکہ اُن کی طبیعت میں اناپسندی تھی اور نہ ہی تصنع ‘ اِس بات کا اظہار انھوں نے اپنے شعروں میں یوں کیا تھا کہ       ؎

تعلقات میں کچھ فاصلے میں رکھتا ہوں

انا پسند عبث لوگ مجھ کو سمجھے تھے

تصنع سے عاری ہے طبیعت میری

مرا دل ہے شفاف آئینہ جیسے

سحرسعیدی بنیادی طور پر ایک شاعر تھے۔ شاعری میں بطورِخاص غزل ان کا خاص میدان تھا اور اس میں ان کا اپنا ایک رنگ سر چڑھ کر بولتا تھا۔ ان کی یہ غزلیں زیادہ تر غنائیت سے پُر ہوتی تھیں، غزل اُن کی پسندیدہ صنف سخن تھی۔ کوشش کے باوجود غزل کے علاوہ کسی اور صنف میں طبع ازمائی نہیں کی۔ غزل دراصل ان کے مزاج سے میل کھاتی تھی انھوں  نے خود ہی کہا تھا          ؎

میں نے غزل میں اتنی توانائی صرف کی

میرا تعارف اب مری پہچان ہے غزل

محمدعلی اثرکے مطابق ’سحرسعیدی بنیادی طور پر غزل کے شاعر اور اُن کی شہرت اور ناموری کا دارومدار بھی اس صنفِ شعر پر ہے۔‘ سحرسعیدی کی شاعری جہاں روایت سے جڑی رہی وہیں جدیدیت کا فن بھی ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ان کی شاعری کا خمیر روایت اور جدیدیت کی آمیزش سے اٹھا تھا۔ شاذ تمکنت نے بجا طور پر کہا تھا کہ:’’ سحرسعیدی‘ جدت کے چراغ، روایت کے روغن سے روشن کرتے رہیں گے۔‘‘ شاعری میں وہ جدت کو پسند تو کرتے تھے لیکن جدیدیت کی انتہاپسندی کے خلاف تھے۔ اِ س تعلق سے انھوں نے کہا تھا کہ      ؎

 روایتی ہے مرا طرز گفتگو لیکن

دکھائی دے گی غزل میں جدیدیت میری

اپنی شاعری کو وہ اپنے شہر ولی و سراج کی دین سمجھتے تھے۔ جس کا انھوں نے یوں اعتراف کیا تھا کہ        ؎

مجھ کو مرے کلام سے پہچانتے ہیں لوگ

یہ ذوق یہ ہنر ہے مرے شہر کی عطا

جہاں وہ اپنی شاعری میں خود کی الگ پہچان کا اعتراف کرتے‘ وہیں اپنے منفرد لہجے کی بات یوں کرتے کہ   ؎

منفرد لہجہ میں کہتا ہوں غزل

ہے مرقع یہ دلی جذبات کا

ان کا ایک شعر مجھے بے حد پسند آیا تھا اور اکثر نظامت کے دوران ان کے اس شعر سے شاعروں کو دعوت سخن دیتا تھا۔ جو حالات حاضرہ کی بھرپور ترجمانی کرتا نظر آتا ہے۔ شعر دیکھیے     ؎

پرانے لوگ مراسم کا پاس رکھتے تھے

کوئی بھی اب نہیں ملتا ہے ضرورتوں کے بغیر

دراصل اِن ہی مراسم کا پاس ان کی شاعری میں ملتا ہے جس میں اُن کی شخصیت کا پرتو بھی نظر آتا ہے۔ وہیں عصرحاضر کے مسائل اور خاص کر ٹوٹتی ہوئی تہذیب اور گرتی ہوئی قدروں کی عکاسی بھی ان کے اشعار میں اکثر نظر آتی ہے جو آج ہماری تہذیب اور معاشرتی زندگی کی ترجمانی کرتے ہیں           ؎

آج اخلاص سے کھل کر نہیں ملتا کوئی

سادگی بولتے چہروں سے عیاں تھی پہلے

وہ عہد بھی تھا کہ معصوم باادب بچے

نظر جھکا کے بزرگوں سے بات کرتے تھے

وفا پہ جان بھی دینے تو کم سمجھتے تھے

سنا ہے اگلے زمانے میں لوگ ایسے تھے

ڈاکٹرعصمت جاوید شیخ نے’’ سحرسعیدی کی غزلوں کو ایک ایسے ابلتے ہوئے چشمے سے تعبیر کیا جس کی سمت اور رفتار کا انحصار رستوں کے موڑ اور اُن کے نشیب و فراز پر نہیں ہوتا بلکہ اپنی دھن میں ایک اڑتے ہوئے پرندے کی بے کراں فضاؤں میں اپنا راستہ آپ متعین کرنے کی بساط بھر کوشش ہے۔‘‘ سحرسعیدی کی غزل بشرنواز کے لفظوں میں:

’’سحرسعیدی کے لہجے کے غنائیت اپنے موضوع سے ہم آہنگ ہوکر ایسی تخیلی دنیا آباد کرتی ہے جو بالکلیہ نئی نہ ہونے کے باوجود بھی نئی معلوم ہوتی ہے اور دلکش بھی۔‘ ‘

 سحرصاحب شاعری کے ساتھ نثر بھی بہت اچھی لکھتے تھے اور انھوں نے اپنے غائر مطالعے اور ادبی ذوق و شوق سے یہ ثابت کردیا تھا کہ وہ جتنے اچھے شاعر تھے اتنی اچھی نثر بھی لکھتے تھے۔ ان کی نثر میں بلاکی روانی کے ساتھ زبان سلاست اور فصاحت سے بھری ہوتی تھی، حافظہ بھی خوب پایا تھا اور ہر چیز میں ان کا اپنا ایک انداز اور بڑا سلیقہ ہوتا تھا۔ ان کی خودنوشت کے مطالعے سے بھی اس بات کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی تحقیقی و تنقیدی نظر بھی غضب کی تھی۔ ان کی کتابوں میں ان کا تنقیدی نظریہ اور تحقیقی نقطۂ نظر بڑی قطعیت کے ساتھ ملتا ہے اور تحریروں میں بڑا توازن اور تسلسل ملتا ہے۔ وہی توازن اور ترتیب‘ جو اُن کی زندگی کا معمول تھا۔ علاقۂ مرہٹواڑہ کے مایہ ناز سپوت اور محقق و ناقد شیخ چاند پر انھوں نے تحقیقی کام کیا اور اسی مناسبت سے بعد میں شیخ چاند کے مضامین کو کتابی شکل میں ترتیب دیا تھا۔ ڈاکٹر عصمت جاوید نے انھیں دھن کا پکا ریسرچ اسکالر کہا تھا اور فاروق شمیم کے لفظوں میں ’’ڈاکٹرسحرسعیدی نے شیخ چاند پر تحقیقی مقالہ سپردقلم کر کے اپنی مٹی کا حق ادا کیا۔‘‘ شاعری کے چار مجموعوں کے ساتھ نثر میں بھی ان کی چار کتابیں ان کی گرانقدر ادبی خدمات کا بین ثبوت ہیں تو وہیں کئی جلدوں پر مشتمل ادبی تراشے کو جمع کرنے کا اہم کام بھی سحرصاحب نے انجام دیا تھا۔

سحرسعیدی صاحب کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ جو ایک بار ٹھان لیتے تھے چاہے وہ کتنا ہی مشکل کام کیوں نہ ہو، کر گزرتے تھے۔ ان کی پوری زندگی میں اسی بات کا عمل دخل رہا۔ اسی جہد مسلسل سے ان کی زندگی عبارت ہے۔ چاہے وہ کیسا معاملہ ہو، کوئی بات رہی ہو، تقریباً بہت سارے معاملات میں چاہے علم و ادب اور تعلیم کے میدان میں ہو یا عملی زندگی کے مرحلے ہوں یا پھر ابتدا میں ملازمت کے سلسلے میں جو پریشانیاں رہی ہوں، مختلف ملازمتیں کیں اور بعد میں مرہٹواڑہ یونیورسٹی میں باقاعدہ ملازمت کا سلسلہ شروع ہوا اور ترقی پاتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے حسن وظیفہ پر سبکدوش ہوئے۔  ازدواجی زندگی کے معاملے میں بڑے دشوارکن مراحل سے گزرتے ہوئے ان حالات سے نبردآزما ہوکر بعد میں ایک پُرسکون ازدواجی زندگی گذاری۔ اسی طرح تعلیم کے میدان میں بھی ملازمت کے دوران ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ بیماری کے آخری ایام میں باوجود بیحد تکلیف کے، اپنی تکلیف کا اظہار نہیں کیا۔ ان کی گرتی ہوئی صحت دیکھ کر دیکھنے والے کی ہمت پست ہوجاتی لیکن ان کی ہمت میں کمی نہیں آتی۔ ان میں قوت برداشت بلا کی تھی اور قوت ارادی غضب کی تھی۔ فریضہ حج کے دوران ان کی اہلیہ کا ایک حادثے میں پیر فریکچر ہوگیا تھا۔ انھوں نے بڑی ہمت سے خود اپنے حج کے ارکان ادا کرتے ہوئے وہیل چیئر پر اہلیہ کو بھی ارکان ادا کروائے اور حج بیت اللہ سے واپسی پر بیوی کا معقول علاج کروایا۔ مگر مختلف امراض کی وجہ سے علاج کا خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوا۔ سحرصاحب مسلسل علاج کے ساتھ تیمارداری کرتے رہے اور اہلیہ کی خوب خدمت کی۔ لیکن طویل علالت کے بعد ان کی شریک زندگی نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ بیوی کی جدائی کے بعد وہ اندر سے بہت ٹوٹ گئے تھے۔ لیکن اپنی طبیعت کے مطابق کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا اور پھر ایک ایسی بیماری نے انھیں گھیر لیا کہ باوجود علاج کے کوئی افاقہ نہ ہوا اور تقریباً ایک سال کی طویل بیماری کی تکلیف جھیل کر آخر وہ 26 جنوری 2017  کو اس دارِفانی سے رحلت کر گئے۔

سحرسعیدی کا پورا نام سیدمنیرالدین تھا۔ وہ 18مئی 1940 کو اورنگ آباد کی تحصیل پیٹھن میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اورنگ آباد کے ایک سادات خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ تحتانیہ تک اُن کی تعلیم پھلمبری میں ہوئی اور مڈل سے ہائی اسکول تک انھوں نے اورنگ آبادمیں پڑھائی کی۔ 1958 میں چیلی پورہ ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا۔ اسی سال انھوں نے پہلی غزل کہی۔ ابتدا میں جے پی سعید سے مشورہ سخن کیا تقریباً آٹھ دس برس ان کی رہنمائی حاصل رہی۔ ان کے اسکول کے استاد عباس انجم نے انھیں سحر تخلص عطا کیا تھا اور جے پی سعید سے نسبتِ تلمذکی وجہ سے سعیدی ہوگئے تھے۔اپنے استاد جے پی سعید کے احترام میں انھوں نے یہ شعر بھی کہا تھاکہ   ؎

خاطر سے احترام سے سر جھک گیا مرا

محفل میں ذکر آیا تھا جے پی سعید کا

ڈاکٹرسحرسعیدی نے 1993 میں میسور یونیورسٹی کرناٹک سے اردو میں ایم اے کامیاب کیا تھا اور 1997میں ڈاکٹرباباصاحب امبیڈکر مرہٹواڑہ یونیورسٹی سے ’’شیخ چاند، حیات اور ادبی خدمات ‘‘ موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ لکھا۔ اِس تحقیقی کام کی خاص بات یہ تھی کہ اِسے بغیر کسی گائیڈ کے یونیورسٹی میں راست پیش کر کے ڈاکٹریٹ کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی اور یہ تعلیمی لیاقت، اپنی علمی و ادبی دلچسپی کے باعث ملازمت کے دوران مکمل کی اور اس کے ساتھ ہی علم و ادب کی سرگرمیوں میں بھی مصروف رہے۔ چونکہ سحرسعیدی بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ بچپن سے ان کی طبیعت کا میلان شاعری اور موسیقی کی طرف تھا۔ 1958 سے انھوں نے باقاعدہ اپنی شاعری کا آغاز کیا تھا۔ سحرسعیدی صاحب کے چار مجموعہ کلام بالترتیب مضراب (1978)، کمندہوا (1980)، شعرخوشبو لے (1987) اور شعرمیرا شوق انگیز (2015) میں شائع ہوکر مقبول ہوئے، جن کی ہندوپاک کے ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ہوئی اور مقتدراہل علم و فن نے انھیں خراج تحسین سے نوازا۔ عارف خورشید مرحوم نے سحرسعیدی کے چار شعری مجموعوں کے بارے میں یہ دلچسپ بات بتائی تھی کہ ’مضراب‘ یک لفظی، ’کمندہوا‘ دو لفظی، شعر خوشبو لے، سہ لفظی، اور شعر میرا شوق انگیز چہار لفظی ہے۔ سحرسعیدی کے ان چاروں شعری مجموعوں میں بڑی تعداد میں ایسے اشعار ملتے ہیں جو نمونے کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں لیکن یہاں میں نے طوالت کے خوف سے چند ایسے اشعار کا انتخاب کیا ہے جو انھوں نے خود نمونے کے طور پر عالم گیر ادب کے اپنے نمبر میں پیش کیے تھے۔ ملاحظہ کیجیے        ؎

دل کو تنہائی میں اک گونہ سکوں ملتا ہے

ہاں یہی بات ذرا مجھ سے بچھڑ کر کہنا

دل میں ارماں منفرد ہیں، سر میں سودا منفرد

سوچتے تو سب ہیں لیکن میں نے سوچا منفرد

آتشیں رخسار کی نیرنگیوں کے سامنے

اس دہکتے دل کے سارے استعارے مسترد

گھنا درخت کسی نے کہیں گرایا تھا

نواحِ دشت کئی دن ہوا بلکتی رہی

شرارتاً وہ کبھی جھانک کر گیا تھا سحر

کئی برس مری کھڑکی مگر مہکتی رہی

ہم دونوں کی چاہ نرالی، ہم دونوں کا ظرف اعلیٰ

اپنے گھر کا راجا میں وہ میرے گھر کی رانی ہے

آپ آئے سامنے یا میں نہ آیا آپ میں

خوبصورت جھیل پر جیسے ٹھہر جائے نظر

گزر ہوا جو اُدھر سے تو کپکپی سی ہوئی

ہم ایک ساتھ جہاں بارشوں میں بھیگے تھے

ہمارے پاؤں کے پڑتے ہی چیخ اٹھے تھے

نظر جھکا کے جو دیکھا تو خشک پتے تھے

دور کیسے میں کروں اپنی نگاہوں سے اُسے

وسوسے دل میں کہیں سر نہ اٹھانے لگ جائیں

سحروابستگی روح و بدن کی عارضی نکلی

رہی یہ زندگی، اندر سے وہ بھی کھوکھلی نکلی

سحر لب بوس ہوتے پھول سے دیکھا جو تتلی کو

ہمارے حق میں یہ چاہت بھی اک تحریک سی نکلی

 سحرسعیدی صاحب کو شاعری کے علاوہ چونکہ تحقیق و تنقید سے بھی گہری دلچسپی رہی تھی اسی سبب انھوں نے اپنی ملازمت کے دوران پی ایچ ڈی مکمل کی اور 1998 میں اپنے گرانقدر تحقیقی مقالے کو کتابی شکل میں شائع کیا تھا۔ جس کی ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ہوئی۔ اس تحقیقی کام کی تکمیل کے بعد‘ اپنے موضوع ’شیخ چاند‘ کو آگے بھی تحقیق کا مرکز بنایا اور شیخ چاند کے مطبوعہ مضامین جو مختلف رسائل میں چھپ چکے تھے مگر اِدھراُدھر بکھرے پڑے تھے ان کو یکجا کر کے مرتب کیا اور ’مضامین شیخ چاند‘ کے نام سے 2007 میں شائع کیا۔ جس کی ایک عرصے سے تعلیمی حلقے میں ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ اس کے علاوہ ’نذرمولوی عبدالحق‘ اور کئی تحقیقی و تنقیدی کتابیں زیرترتیب رہیں لیکن طویل علالت نے ان کاموں کو پورا نہیں ہونے دیا۔ اُس کے ساتھ ہی اسی دوران ہم خیال احباب کے مشورے سے کتابی سلسلے کے تحت ایک ادبی تنظیم تشکیل پائی جن میں عارف خورشید، نورالحسنین، شاہ حسین نہری، اسلم مرزا، مرحوم قاضی رئیس، ساحر کلیم اور راقم الحروف پیش پیش تھے۔ جسے ’عالم گیر ادب‘ کا نام دیاگیا جو سحرسعیدی کا تجویزکردہ نام تھا جسے اتفاق رائے سے منظوری دی گئی اور اس کے تحت کتابی سلسلے کا کام شروع ہوا۔ طے شدہ ضابطے کے مطابق پہلے عالم گیر ادب کے ارکان کے فن اور شخصیت پر مشتمل نمبر شائع کیے جائیں گے۔ لہٰذا اس کے تحت اسلم مرزا کے بعد سحرسعیدی صاحب کا نمبر شائع ہوا تھا۔ (اس کے بعد عارف خورشید، شاہ حسین نہری، جاویدناصر، حمیدسہروردی اور نورالحسنین کے نمبر شائع ہوکر مقبول ہوئے ہیں)  عالم گیر ادب کتابی سلسلے کے تحت ہر ہفتے ایک نشست کا اہتمام ہونا طے پایا تھا، جس کے تحت یہ نشستیں جاری ہیں۔ ویسے تو سبھی اراکین اُن کے قریب تھے لیکن اسلم مرزا کی قربتوں کا یہ عالم تھا کہ وہ اُن کو اپنا پیرومرشد کہتے تھے۔ ان نشستوں کے ذریعے میری سحرصاحب سے تقریباً ہر ہفتے ملاقات ہوتی رہی اور ان ملاقاتوں کے سبب ان کے قریب آنے، ان کی شخصیت کو سمجھنے اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کے مواقع حاصل ہوئے۔ ایک دو بار میری اُن سے بحث بھی ہوئی اور ناراضگی بھی رہی لیکن اُس کے باوجود میں ان کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا۔عالم گیر ادب کی نشستوں نے ہم سب کی ادبی سرگرمیوں میں اضافہ کردیا اور اسی دوران انھوں نے اپنی خودنوشت تحریر کی جو ’یادوں کی مہک‘ کے نام سے 2015 میں کتابی شکل میں شائع ہو کر بہت مقبول ہوئی۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں اسلم مرزا لکھتے ہیں کہ:

 ’’یادوں کی مہک ایک دلچسپ من موہنی دلچسپ سوانح ہے جس میں بے شمار کردار ہیں، واقعات ہیں، پلاٹ ہیں، علامت نگاری، تصوریت، رمز و کنایہ، اشاریت اور فلیش بیک کے رنگ آمیز مناظر ہیں اس پر مستزاد اُن کا زوردار بیانیہ جو ایک نیک طنیت، سلیقہ مند اور کھرے انسان کی یادوں اور اس کے تجرباتِ زندگی کا دل گداز اظہاریہ ہے جو ایک غیرمعمولی ادبی دستاویز بن گئی ہے۔‘‘ 

اس کے اگلے سال ان کی ایک اور اہم کتاب ’خاصان خوش خیال‘ کے عنوان سے چھپ کر ادبی حلقوں کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہوئی، جو مختلف ادبی شخصیات کی حیات اور ادبی کارناموں پر لکھے گئے ان کے مضامین پر مشتمل تھی۔ بقول عارف خورشید :

’’خاصان خوش خیال اورنگ آباد دکن کے ادبی خزانے کی ایک ایسی کتاب ہے جو اس میں مذکورہ اشخاص ہی نہیں بلکہ سحرسعیدی کے موجود ہونے کا احساس دلانے کے ضامن ہیں۔‘‘

 اسے مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکادمی نے انعام سے بھی نوازا تھا جو ان کے انتقال کے بعد ان کے لواحقین نے حاصل کیا تھا۔

 سحرسعیدی مرحوم کا ایک اور اہم اپنی نوعیت کا منفرد کام ’ادبی تراشے‘ ہیں جو انھوں نے بڑی لگن اور جستجو کے بعد اپنے طور پر بڑی تعداد میں جمع کیے تھے۔ 15جلدوں پر مشتمل ’ادبی تراشے‘ میں سحرسعیدی نے اہم کثیرالاشاعت روزناموں اور رسائل میں شائع ہونے والے ادبی تحقیقی، تنقیدی مضامین کے تراشوں کو ان میں محفوظ کردیا۔ بقول خان شمیم ڈاکٹر سحرسعیدی نے برسوں کی ان محنت کو ان اخبار کے تراشوں کو یکجا کیا، ژیراکس کاپیاںبنوائیں، بائنڈنگ کروائیں اس طرح ان تراشوں سے اردو کی ایک تاریخ مرتب کردی۔ دراصل ان کا یہ سب سے بڑا کارنامہ ہے کہ انھوں نے اردو اخبارات کے تراشے جمع کرنا شروع کیے تھے۔ ان تراشوں میں شہر اورنگ آباد کے شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کے تذکرے کو محفوظ کرلیا جن کا تعلق اردو زبان اور دکن کی تہذیب و تمدن سے رہا ہے اس کے علاوہ قدیم شعرا اور ادبا پر مختلف دور میں جو مضامین شائع ہوتے رہے ہیں ان کو بھی محفوظ کرلیا گیا۔ جو ان کی برسوں کی محنت کا ثمرہ ہے۔ یہ نہایت ٹھوس اور جامع کام ہے۔ یہ مشکل اور اہم ترین کام سحرسعیدی نے انجام دے کر واقعی اپنی نوعیت کا ایک منفرد کام کیا تھا۔ یہ ادبی تراشے ریسرچ اسکالرس کے استفادے کے لیے اہم دستاویزی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان ادبی تراشوں کی جلدوں کا اجرا حمایت علی شاعر کے ہاتھوں 2007 میں انجام پایا تھا۔ یہ ایک بڑی یادگار تقریب تھی۔

سحرسعیدی کی تحقیقی و تنقیدی خدمات کا تمام اہل ادب نے کھلے دل سے اعتراف کیا ہے اور وہ اپنی شاعری کے ساتھ ان تحقیقی و تنقیدی خدمات کے سبب اردو ادب میں ہمیشہ یاد رہیں گے۔ آخر میں دنیا کی بے حسی اور آج کے دور کی ترجمانی کرتے ہوئے اُن کے اِس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ          ؎

جیتے جی تو قدر نہیں کی ‘ یاد بھی ہم کو کب آتے ہیں

کتنے دنیا سے اٹھّے ہیں ‘ نیک صفت دیوانے لوگ

 

Azeem Rahi

Karim Colony

Roshan Gate

Aurangabad - 431001

Mob.: 9370992203

 

 



25/4/22

غیرحکومتی تنظیموں کی بدلتی جہات : پس منظر اور پیش منظر - مضمون نگار: ابواسامہ

 



گزشتہ دوسو سالوں میں غیر حکومتی تنظیموں کے فلسفے، کام کے طریقے اورفلاحی عمل کی حصے داری میں تبدیلی آئی ہے۔ یہ تنظیمیں تاریخی نقطۂ نظر سے جدید معاشرے کی پیداوار ہیں (سین 1993، فاؤلر 1997، لیوس 2001)۔  آج بیشمار تنظیمیں ہیں جوعوامی زندگی کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے امر پر کاربند ہیں۔ ان میں خواندگی اور تعلیم، صحت، روزگار، ماحولیات، دیہی اورشہری ترقی، غریبی دور کرنے کے پروگرام،صاف پانی کے انتظام اور ذخیرہ اندوزی کی تدابیر،مائیکرو فائنانس کے نظم ونسق اور عوامی بیداری کی تنظیمیں قابل ذکر ہیں۔ ساتھ ہی اقلیتوں،  دلتوں اور قبائل کے معیارِزندگی میں بہتری، صنفی مساوات،  تشدد کے خاتمے، نوجوانوں کے لیے پروگرام اور پسماندہ طبقات کوروزگارمہیاکرنے والی تنظیمیں بھی ہیں۔محروم طبقات کے لیے خصوصی پروگرام، مظلوم افراد کے حقوق کی بازیابی اور حکومتوں کو جواب دہ بنانے والی انصاف پرمبنی تنظیموں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ بہت سی تنظیمیں ضرورت مندوں کوروزگاراور بنیادی صحت عامہ سے مربوط کرتی ہیں، تعلیم تک رسائی کے مواقع فراہم کرتی ہیں، ان کی زندگی میں بہتری لانے والے فروغ استعداد کے پروگرام منعقد کرتی ہیں اور حکومت و پرائیویٹ سیکٹر کی کسی سماجی مہم، فلاحی اسکیم اور پروجیکٹ کے نفاذ میں خصوصی مہارت رکھتی ہیں۔ بڑھتی ہوئی تعداد اور نمایاں سماجی سرگرمیوں کے باوجود اسکالرز اور پیشہ وروں نے تنظیموں پر قدغن لگانے والے ساختیاتی محرکات کو نشان زد کیا ہے۔ ایڈورڈس (2003) نے بدلتی ہوئی ڈیولپمنٹ (ترقی)کی بحث کے ضمن میں غیرحکومتی تنظیموں کو درپیش چیلینجزپر خاصا ادب تحریر کیا ہے۔ انھوں نے معاشی عالم کاری اور بیرونی مالی امداد کے تناظر میں تنظیموں کی محدود سماجی معنویت اور ان کے دیر پااثرات پر بے حد ناقدانہ نوعیت کے سوالات کھڑے کیے ہیں۔

 حالانکہ اس کے برعکس بہت سے اسکالروں نے تنظیموںکی قابل قدر خدمات کو سراہا ہے۔

کورٹن (1987)نے تنظیموں کی بدلتی ہوئی حکمت عملی اور طریقہ کار کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق غیر حکومتی تنظیمیں تین مرحلوں سے گزری ہیں۔ پہلے مرحلے کی تنظیموں کا محور ریلیف اور ویلفیئر تھا جو لوگوں کی پریشانی اور مصیبتوں کو دور کرنے میںمتحرک تھیں۔ عالمی جنگ کے دوران پیدا ہونے والی ہنگامی صورت حال کے پیش نظر متعدد تنظیمیں وجود میں آئیں۔ سیو دی چلڈرن  (انگلینڈ)اور کیئر (امریکہ)جیسی تنظیموں کا جنم اسی پس منظر میں ہوا۔ دوسرے دور کی تنظیموں نے مقامی سطح پر کمیونٹی میں لوگوں کی ضروریات زندگی سے جڑی معاشی و سماجی سرگرمیوں پر توجہ دی۔ انھوں نے مقامی وسائل و ذرائع کے استعمال کااور مقامی لوگوں کی بااختیاری کا ذمہ اٹھایا۔ تیسرے مرحلے میں پہنچ کر تنظیموں میں تبدیلی آئی ہے۔ دائرہ کار میں اضافے کے ساتھ ساتھ حکمت عملی میں پائیداری ان کا مطمح نظر ہے۔ اسی لیے وہ حکومتی اداروں کے اشتراک سے لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے ساتھ معیاری زندگی کوفروغ دینے والے پروگرام تیارکرتی ہیں۔ اسی دوران فورڈ فاؤنڈیشن اور ایکشن ایڈ جیسی تنظیموںکی متحرک لیڈرشپ ملکوں کے سماجی قوانین اور پالیسیوں پر اثرانداز ہوئیں۔ کورٹن کا ماننا ہے کہ سماج میں معاشی غیر برابری کی بڑھتی ہوئی خلیج اور بازار کی مفاد پرست معیشت نے تنظیموں کوچیلنج دیا کہ وہ پائیدار حکمت عملی اپنائیں۔ ان میں محدود وسائل کے باوجودیہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے کہ وہ محروم طبقات کی زندگی میں مثبت بدلاؤ لاسکیں۔سین (1993)نے ہندوستانی تناظر میں کام اورسرگرمیوں کے حوالے سے غیر حکومتی تنظیموں کی تین قسمیں بتائی ہیں۔ پہلی فلاحی (ویلفیئر) کی تنظیمیں ہیں۔ ایسی تنظیموںکا یقین کارِ خیر، کفالت اورمعاونت میں ہے۔ وہ قدرتی آفات و مصائب،  قحط سالی، سیلاب، زلزلے یا انسان کے ہاتھوں ہوئی تباہی میں فوری مددپہنچانے میں شامل رہتی ہیں۔ ان کے فلسفے میں فلاح اورویلفیئر کا جذبہ پنہاں ہے۔ دوسری جدید کاری (ماڈرنائزیشن) پر مبنی تنظیمیں ہیں جن پرانسانی ترقی اورڈیولپمنٹ کا فلسفہ غالب ہے۔ یہ تنظیمیں غریبی کو ختم کرنے اورسماجی و معاشی انصاف کو یقینی بناتی ہیں۔ تیسری بااختیار بنانے والی امپاورمنٹ کی تنظیمیں ہیں جوپسماندہ اورمحروم طبقات کی زندگی میں امید اورمواقع پیدا کرتی ہیں۔ وہ پسماندگی کو ایک سیاسی پروسیس مانتی ہیں اور سماجی تبدیلی کے لیے ضرورت مند طبقات کو باخبرکرتی ہیں۔ سین کی یہ خانہ بندی ایک طرف کام کے اختصاص کا پتہ دیتی ہے اور دوسری طرف تنظیموں کے تاریخی ارتقا کو بھی بتاتی ہے۔ سین نے ہندوستان میں غیرحکومتی تنظیموں کے سیاسی پہلو اور ان کی سیاسی سرگرمیوں پر بحث کرتے ہوئے مملکت اور ڈیولپمنٹ سیکٹر کے جدلیاتی رشتوں کی دبیز تہوں کواجاگر کیاہے۔

حکومتی (پہلے) اورپرائیویٹ (دوسرے) سیکٹر کے بعد غیرحکومتی تنظیموں کو مختلف اصطلاحات جیسے تیسرے سیکٹر، ڈیولپمنٹ سیکٹر اور والنٹری سیکٹر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی طرح غیر حکومتی تنظیموں کے تعلق سے بہت سارے نام مستعمل ہیں۔ ہر مروجہ نام کا ایک تاریخی تناظر ہے۔ والنٹری آرگنائزیشن کا استعمال انگلینڈ میں زیادہ ہوتا ہے۔ وہاں عیسائی اقدار کی وجہ سے رضاکارانہ امدادکی لمبی تاریخ رہی ہے۔انیسویں صدی میں چیریٹی آرگنائزیشن سوسائٹیز میں ضرورت مند افراد کی مدد کا رجحان غالب تھا۔ امریکہ میں نان پرافٹ آرگنائزیشن کا کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ چونکہ وہاں بازار اورمنافع بخش اداروں کی بہتات ہے اس لیے وہ تنظیمیں جو رفاہی اور انسان دوست سرگرمیوں میں دلچسپی رکھتی ہیں، انھیں پرائیویٹ اورمنافع بخش اداروں سے ممتازکیا جاتاہے۔ وہ ترقی پذیر ممالک جو اقوام متحدہ سے قریب رہے، وہاں ایسی تنظیموں کو غیر حکومتی تنظیم(نان گورمنٹل آرگنائزیشن) کہا جاتا ہے۔ حالیہ سالوں میں ہندوستان میں نان گورمنٹل آرگنائزیشن، والنٹری اسوسی ایشن، والنٹری آرگنائزیشن  اور نان پرافٹ آرگنائزیشن کی اصطلاحات کو استعمال میں لانے کا رجحان بڑھاہے۔یہ عین ممکن ہے کہ کسی موضوع پر کام کرنے والی کوئی تنظیم مذکورہ تینوں ملکوں میں تین مختلف ناموں سے جانی جاتی ہو۔ مثلاًبے گھر افراد کے ساتھ کام کرنے والی کسی تنظیم کو انگلینڈ میں والنٹری آرگنائزیشن، امریکہ میں نان پرافٹ آرگنائزیشن اور ہندوستان میں نان گورمنٹل آرگنائزیشن کے نام سے موسوم کیا جانا تعجب کی بات نہیں ہے (لیوِس ، 2001)۔

 نجم (1996)نے غیر حکومتی تنظیموں کے لگ بھگ48 نام درج کیے ہیں۔ پرائیویٹ والنٹری آرگنائزیشن، لوکل آرگنائزیشن، گراس روٹ آرگنائزیشن، کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشن، سیلف ہیلپ آرگنائزیشن ، پیپلز آرگنائزیشن، اس قبیل کی چند مثالیں ہیں۔یہ فہرست بھی اپنے آپ میں مکمل نہیں ہے۔ سین (1993) نے نان گورمنٹل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (اسے ڈیوڈ لیوِس نے اپنی تحریروں میں بہت استعمال کیا ہے)،والنٹری اسوسی ایشن ، والنٹری آرگنائزیشن، والنٹری ایجنسی، ویلفیئر آرگنائزیشن اور فلنتھراپک آرگنائزیشن جیسی اصطلاحات رقم کی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان میں سب سے زیادہ مستعمل اصطلاح والنٹری ایجنسی ہے (جب کہ 2007 میں آنے والی قومی پالیسی میںوالنٹری آرگنائزیشن لکھا ہوا ہے)۔ٹنڈن (2005) نے اپنی تحریروں میں نان پرافٹ آرگنائزیشن کا کثرت سے ذکر کیا ہے۔اسی طرح ہندوستان میں دوسرے ملکوں کے بالمقابل چیریٹی سیکٹر، انڈیپنڈنٹ سیکٹروغیرہ کاکم استعمال ہوتاہے۔ ہم نے اس مضمون میںڈیولپمنٹ سیکٹر کی اصطلاح کو ترجیح دی ہے۔

ساختیاتی غربت اورسماجی ومعاشی عدم مساوات کی وجہ سے سماجی ناانصافی، تشدد، تعصب، دقیانوسیت اور حقوق کی پامالی مشاہدہ وعمل میں آتی ہے۔ ہرسماجی مسئلہ پورے معاشرے کے لیے نقصان دہ ہوتاہے مگرکچھ طبقات پر غر بت اورسماجی و معاشی عدم مساوات کی وجہ سے دوہری مار پڑتی ہے۔ ان میں غربا، خواتین، بچے، بزرگ، معذورین، ہم جنس پسند، دلت، قبائلی افراد اور اقلیتیں سر فہرست ہیں۔ اسی کو دھیان میں رکھتے ہوئے فاؤلر (1997) نے کہاکہ جدیدانسانی معاشرے میں غیربرابری ایسی دودھار ی تلوارہے  جوایک طرف غیر حکومتی تنظیموں کے وجود میں آنے اور ان کی تعداد میں اضافے کا سبب ہے تووہیں بہت ساری تنظیمیں اور ادارے غریبی اورغیر برابری کا ناقدانہ احتساب کرنے اوراسے جڑسے ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ لوگوں کو سماجی، معاشی، سیاسی اورثقافتی طورپربااختیار بنانے اور انھیں ان کی زندگی سے متعلق فیصلوں میں خودمختاربنانے کا عمل  پیچیدہ ہے اورلمبے وقت کا تقاضاکرتا ہے۔ لیکن اسی حکمت عملی سے مثبت نتائج کی امیدکی جاسکتی ہے۔ این جی اومینجمنٹ کاپرچہ پڑھاتے وقت کم وبیش ایسے یکساں نکات نکل کر آئے جن کا مشاہدہ طلبانے فیلڈورک کے دوران کیا۔ خود تنظیموں کے نمائندوں نے بھی ڈیولپمنٹ سیکٹرکے محدود کردار پر فکر جتائی۔ 

سرمایہ دارانہ نظام کی زد میں ہرمعاشی، سماجی، سیاسی اورثقافتی ادارے میں تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں۔ ایک تبدیلی یہ ہوئی کہ شہریوں کی بنیادی ضروریات زندگی کو پورا کرنے میں فلاحی ریاست کا دائرہ سمٹ گیا۔ غیر حکومتی تنظیموں پربھی اس نظام کے اثرات مرتب ہوئے۔ تنظیموں نے ضرورت مندوں کوبنیادی خدمات دے کرمملکت کے ساتھ اشتراک کا ماڈل تیار کیا۔جب کہ ان کے اس متبادل کردار پرمحققین نے نقدکیا ہے۔ بہت سی تنظیمیں جمہوری قدروں کو فروغ دینے اورمملکت اورشہریوں کے رشتے کو مضبوط کرنے میں موزوں کردار نبھاتی ہیں۔ اس پورے دورمیں پالیسی سازوں نے ڈیولپمنٹ پرخصوصی توجہ دی۔ اقوام متحدہ اوردیگر بین حکومتی تنظیموں(انٹرگورمنٹل آرگنائزیشنز) کے اعلامیے اور منشورات میں خوشحالی اور ڈیولپمنٹ ایک بنیادی کڑی ہے جس کے بغیر جدید دنیا کا تصور نہیں کیاجاسکتا ہے۔یہ امر بھی دلچسپی کا حامل ہے کہ اقوام متحدہ اور بین حکومتی تنظیموں کی ڈیولپمنٹ کی سیاست اور اس کی پولیٹکل اکانومی سے آنکھیں نہیں موندی جاسکتیں۔ مئی1988میں انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے مینیجنگ ڈائرکٹر کے نام ڈیویسن بودو نے اِنف اِز اِنف کے عنوان سے تیس صفحات پر مشتمل اپنا استعفیٰ نامہ پیش کیا۔اس میں لاطینی امریکہ اورکیریبیائی وافریقی ممالک میں آئی ایم ایف کے سامراجی اور سرمایہ دارانہ ایجنڈے کو بیان کیا گیا ہے۔ پھر بھی اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ منافع بخش، حکومتی اور غیرحکومتی تنظیموں کی نظر میں ڈیولپمنٹ کو مرکزی مقام ملنے کا سہرا اقوام متحدہ کے اقدامات اورکاوشوں کے سر جاتاہے۔

کئی ملکوںمیں عوام کی ترقی اور فلاح میں غیر حکومتی تنظیموں کو اہم اسٹیک ہولڈر اورمعا ون مانا گیا ہے۔ ہندوستان میں ڈیولپمنٹ سیکٹر اورغیر حکومتی تنظیموں کو مناسب قومی پالیسی کے لیے لمبے انتظار سے گزرنا پڑا۔ ڈیولپمنٹ سیکٹر کی مرکزی توجہ عوامی خدمات کی فراہمی اور پسماندہ طبقات کی عمومی ترقی پر ہے۔اس فلسفے کوبروئے کار لانے کے لیے مختلف قسم کے پروگرام چلائے جاتے ہیں۔ انھیں اس عمل میں کبھی مالی ،کبھی قانونی توکبھی تعاون و اشتراک نہ ملنے کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی وسیع خدمات کو تسلیم نہ کیے جانے اور ان کے تئیں سماج میں پنپنے والے منفی احساسات نے غیر حکومتی تنظیموں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کیا ہے۔ماضی میں ان کے موثر کردار اور لیاقت پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ سوسائٹی فار پارٹیسی پیٹری ریسرچ اِن ایشیا (PRIA)اور جانس ہاپکنس یونیورسٹی کے سینٹر فار سِول سوسائٹی اسٹڈیزنے سال 2000میں کی گئی اپنی ایک مشترکہ تحقیق میں پایا کہ بظاہر مربوط ومبسوط نظرآنے والی ہندوستانی غیر حکومتی تنظیمیں اصل زندگی میں چہار طرفہ چیلنجز کا سامنا کرتی ہیں۔ وہ کم اسٹاف، محدود وسائل، حکومتی تعاون کی کمی، اندرونی طور پرکمزور مینجمنٹ اور عدم اندراج کے مسائل سے دوچارہیں۔ اس میں کہا گیا کہ ڈیولپمنٹ سیکٹر میں بڑے پیمانے پراصلاح کی ضرورت ہے۔ اس تحقیق نے بیرونی مالی امداد بہم پہنچانے والی تنظیموں اور ایجنسیوں ، حکومتی اداروں اور سنجیدہ غیر حکومتی تنظیموں کو ڈیولپمنٹ سیکٹر کے تئیں سوچنے پرآمادہ کیا۔یہ ہندوستان میں بڑے پیمانے پر ڈیولپمنٹ سیکٹر کے تعلق سے کی جانے والی اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق تھی۔   

  2003 میں حکومت ہند نے قومی پالیسی کے ڈرافٹ کو تنظیموں کے پاس بھیج کر ان سے صلاح و مشورہ مانگا۔ 2007 میں قومی پالیسی برائے والنٹری سیکٹر کو پلاننگ کمیشن کے والنٹری ایکشن سیل نے جاری کیا۔ پالیسی کے چارمقاصدبیان کیے گئے جہاں دو میں تنظیموں کے لیے اعتماد و بھروسہ اور دو میں ان کی کمزوریاں بتائی گئیں۔ تمہید میں کہا گیاکہ یہ پالیسی ایک آزاد،  موثر اور تخلیقی والنٹری سیکٹر کی بااختیاری کے لیے کمربستہ ہے۔یہ اعتراف کیاگیاکہ اس سیکٹر نے غربت، امتیازی سلوک، ناانصافی، محرومیت اورسماجی اخراجیت کو دورکرنے میں سماجی بیداری، خدمات کی فراہمی، تحقیق اور مشاورت کی حکمت عملی اپنائی۔ پالیسی کے مقاصد میں غیر حکومتی تنظیموں کو فروغ دینااوران کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا شامل ہے۔ ساتھ ہی ان سے یہ امید کی گئی کہ وہ اپنے کمزور مینجمنٹ میں درستگی لائیں اوروسائل و ذرائع کا صحیح استعمال کریں تاکہ انھیں مالیات سے متعلق کسی قسم کی دقت نہ پیش آئے۔ان سے حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اپیل کی گئی۔ پالیسی کے اصل حصے میں تین وعدوں کا ذکر ہے کہ (1) والنٹری سیکٹر کے لیے سازگار فضا قائم کی جائے گی، (2) قومی ترقی کے پروجیکٹ میں پارٹنر شپ ہوگی اور (3) والنٹری سیکٹر کے ساتھ منفرد قسم کی پارٹنرشپ سے دونوں کو ایک دوسرے سے تقویت ملے گی۔ یہ یقین دلایا گیا کہ سیکٹر کی خودمختاری اور تخلیقی سرگرمیوں میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں کھڑی کی جائے گی۔ مثلاًیہ کہاگیاکہ 2006کے فارن کانٹریبیوشن ریگولیشن بل کو مزید لچیلا بنانے، پرائیویٹ سیکٹر کو فلاحی کاموں کے لیے آمادہ کرنے اورتنظیموںکی ٹریننگ پر زور ہوگا۔ قومی ترقی میں پارٹنرشپ کے لائحہ عمل کے تحت پنچایتی راج کے اداروں، تعلیمی اداروں، بلدیہ اور پرائیوٹ سیکٹر کی تنظیموں کے ساتھ غیرحکومتی تنظیموں کو مربوط کرنے کی بات کی گئی۔ مملکت کی جانب سے ڈیولپمنٹ سیکٹر کے سامنے اس طرز کی بہت ساری تجاویز اور معاہدات کی پیشکش سامنے آئی۔ تنظیموں کے حالات کو دھیان میں رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ قومی پالیسی مواخذہ، جواب دہی اوراشتراک کے تین اصولوں سے عبارت ہے۔ ہندوستان میں سال 2000 میں سوسائٹی فار پارٹیسی پیٹری ریسرچ اِن ایشیا کے تحقیقی سروے، 2007کی قومی پالیسی برائے والنٹری سیکٹر اور2010کے فارن کانٹریبیوشن ریگولیشن ایکٹ کے بیچ میں گہراربط ہے۔

ترقی کے کسی بھی سماجی امر کو انجام دینے میں وسائل و ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے۔ عموماً غیر حکومتی تنظیمیں اپنے کام کی لاگت کو مختلف ذرائع سے حاصل کرتی ہیں۔ بعض دفعہ وہ ایسے کام کرتی ہیں جن میں  انھیں کسی کی مالیاتی مدد نہ لینی پڑے۔بہت سی ایسی تنظیمیں ہیں جو عوامی چندے پر چلتی ہیں۔لیکن ہندوستان میں واقع تقریباً ہر چھوٹی بڑی غیر حکومتی تنظیم کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اسے کسی نہ کسی بین حکومتی یابین الاقوامی تنظیم کاتکنیکی اورمالی تعاون حاصل ہو۔ ہندوستان سے باہر ایسے کئی حکومتی شعبہ جات اورتنظیمیں ہیں جو یہاں کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ قومی وصوبائی حکومتوںکومالی اوردیگر تنظیمی نوعیت کی مددفراہم کرتی ہیں۔ فورڈ فاؤنڈیشن، ایکشن ایڈ، آغا خان فاؤنڈیشن، دی ایشین فاؤنڈیشن، ایشین ڈیولپمنٹ بینک، امریکن انڈیا فاؤنڈیشن، پلان انٹرنیشنل انڈیا، آکسفام، کئیر، راک فِلر فاؤنڈیشن، یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فارانٹرنیشنل ڈیولپمنٹ، سویڈش انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ کوآپریشن اوریو کے ڈپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ اس کی چند مثالیں ہیں۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ اور اس کی ذیلی ایجنسیوں کو اس قانون کے دائرہ کار سے باہر رکھاگیا ہے۔ ملک میں ایمرجنسی سے پہلے غیر ملکوں سے ملنے والی مددکے لیے کسی قسم کاقانون نہیں تھا جو بیرونی امداد کی آمدورفت پر نظر رکھتی۔تنظیمیں نسبتاً ایسی سرگرمیوں کے لیے آزاد تھیں۔ لیکن سال 1976میں فارن کانٹریبیوشن (ریگولیشن) ایکٹ نافذ کیا گیا جس کے تحت ہر وہ تنظیم جوبیرون ملک سے فنڈحاصل کرنا چاہتی ہے، اسے وزارت برائے امورِ داخلہ سے لائسنس یافتہ ہونا لازمی ہے۔اس کا بنیادی مقصدیہ تھا کہ فنڈ کے ذرائع کی معلومات رکھی جائیں اور حاصل کیے گئے فنڈ کے’ صحیح استعمال‘ کے لیے تنظیموں کو پابند کیا جائے۔ جس مد میں فنڈ حاصل کیا گیا ہے اسے اسی مد میں خرچ کرنا، علاحدہ بینک اکاؤنٹ ، ضروری کاغذات تیار کرنا اور سالانہ ریٹرن (کتنا فنڈ حاصل کیا گیا، کس طرح اور کس مقصد کے تحت فنڈ حاصل کیا گیا اور کیسے خرچ کیا گیا ) درج کرنا، اس قانون کی لازمی شرائط ہیں۔ کسی بین الاقوامی تنظیم، بیرونی ملک کی کمپنی، حکومتی ادارے، فنڈنگ ایجنسی، فاؤنڈیشن یا سوسائٹی کی طرف سے دیے گئے پیسے، سامان، سیکورٹی، مشین اورتحفے کے سامان کو بیرونی مالی امداد کے زمرے میں رکھاگیا ہے۔ اس قانون کی دوکلیدی اصطلاحات بیرونی ذرائع (فارن سورس )اوربیرونی امداد (فارن کانٹریبیوشن )ہیں۔امداد کی اہلیت و شرائط کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس میںکہا گیا  کہ کم سے کم تین سال پرانی تنظیمیں بیرونی امداد کے لیے سرٹیفکیٹ حاصل کرسکتی ہیں۔جب کہ کوئی تنظیم اس کے بغیر بھی وزارت داخلہ سے پیشگی اجازت لے کر بیرونی فنڈ حاصل کرسکتی ہے۔

اس قانون میں بڑی تبدیلی 2010میں آئی اورہر پانچ سال میں لائسنس کی تجدید لازمی قرار دی گئی اور قانون کی کئی دفعات کااضافہ ہوا۔ 2020میںایک ترمیم شدہ قانون کو پورے ملک میں نافذکیاگیا ہے۔اس بار ایکٹ کے بنیادی ڈھانچے میں کئی بڑی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ قانون کے سیکشن3میں کسی پبلک سرونٹ کوبیرونی امداد لینے کی ممانعت کردی گئی ہے حالاں کہ یہ قید پہلے حکومتی افسران کے لیے تھی۔جو لوگ بیرونی امداد نہیں لے سکتے ہیں ان میں سیاسی لیڈران،سیاسی جماعتیں،حکم صاحبان، اخبار اور نیوز چینل کے مالکان ، کارٹونسٹ اور صحافی  قابل ذکر ہیں مگر نئے قانون کی رو سے اس تعداد میں مزید اضافہ کردیا گیاہے۔ سیکشن17کے تحت باہر سے آنے والا ہر فنڈ سب سے پہلے نئی دہلی میں واقع اسٹیٹ بینک آف انڈیا میں جمع ہوگا ،جہاں سے فنڈ کو متعلقہ تنظیم کے اکاؤنٹ میں منتقل کیا جائے گا۔ سیکشن7کے مطابق کوئی لائسنس یافتہ تنظیم اپنی جیسی کسی دوسری تنظیم کے ساتھ کسی بھی قسم کا مالیاتی لین دین نہیں کرسکتی۔ سیکشن8 میں یہ گرہ لگائی گئی ہے کہ اب تنظیم کے اندر بیس فیصدی سے زیادہ انتظامی امور (بشمول تنخواہ اور مشاورتی اعزازیہ) میں خرچ نہیں کیا جاسکتا ، پہلے اس کادائرہ پچاس فیصدی تک تھا۔ سیکشن 13میں ترمیم شدہ قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں جرمانے کی مدت 180دن سے بڑھ کراب 360دن ہے۔ واضح رہے کہ یہ تمام شرائط صرف اسی فنڈ سے تعلق رکھتی ہیں جو بطور امداد بیرون ملک سے لیے گئے ہیں۔

 

Abu Osama

Asst. Prof., Dept of Social Work

Maulana Azad National Urdu University

Hyderabad - 50032 (Telangana)

Mob.: 9718925457

 

 



20/4/22

مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کی اہمیت اور قومی تعلیمی پالیسی - مضمون نگار : شفاعت احمد

 



کسی بھی انسان کی تعلیمی زندگی میں مادری زبان کی حیثیت بنیاد کے پتھر کی ہے۔تمام تر تعلیمی اور علمی ترقی اس کی مادری زبان پر منحصر ہوتی ہے۔درس و تدریس کی زبان اگر فطری اور قابل فہم ہوتو طلبہ نہ صرف نفس مضمون کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں بلکہ اپنے خیالات کو بھی موثر انداز میں پیش کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ قانون فطرت کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کی مادری زبان ان کی فطری زبان ہوتی ہے جسے وہ اپنے اظہار کا وسیلہ بناتے ہیں۔ خوشی و غم کے اظہارمیں مادری زبان کااستعمال ہوتاہے۔ مادری زبان انسانی جذبات کے اظہار کا سب سے موثر وسیلہ ہوتی ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور درس و تدریس میں ہم نے اس نظریے کو یکسر فراموش کر دیا ہے جس کا خمیازہ آج ہماری نسلیں بھگت رہی ہیں۔ ہمارا بچہ اپنے گھر میں جو زبان بولتا اور سمجھتا ہے ،اس کے برخلاف اسکول میں اسے بالکل اجنبی زبان سے سابقہ پڑتا ہے۔ مثلاً گھر میں وہ اپنے والدین ،بھائی بہن اور پاس پڑوس کے لوگوں کو اردو یا ہندی، ملیالم، تمل، مراٹھی، تیلگو، پنجابی وغیرہ جیسی زبانیں بولتے ہوئے سنتا ہے اورجب وہ بولنے کے قابل ہوتا ہے تو اپنے ماحول کے زیر اثر وہ بھی انھی میں سے کوئی زبان بولتا ہے،مگر جب اسے تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکول میں بٹھایا جاتا ہے تو اس کی تعلیم انگریزی زبان میں شروع کی جاتی ہے جس کا برا اثر اس کی پوری علمی و تعلیمی زندگی پر پڑتا ہے اور بعد میں چاہے وہ کسی بھی شعبے میں کتنی ہی مہارت حاصل کرلے مگر ابتدائی تعلیم مادری زبان میں نہ ہونے کی وجہ سے جو نقص رہ جاتا ہے وہ کبھی دور نہیں ہوتا۔ مادری زبان سے ناواقفیت اور بے پروائی ہمارے معاشرے کی پسماندگی کا ایک اہم سبب ہے۔

تحقیقات سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جو بچے ابتدائی تعلیم اپنی مادری زبان میں حاصل کرتے ہیں وہ اجنبی زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یونیسکو اور دیگر ادارے اس حقیقت پر زور دیتے رہے ہیں کہ مادری زبان میں حصولِ علم خوداعتمادی اور خودشناسی کے ساتھ ساتھ بچے کی مجموعی نشوونما کے لیے بھی ناگزیر ہے۔

یہاں عظیم ہندوستانی ماہر طبیعیات اور نوبل انعام یافتہ سرسی وی رمن کا ذکر ضروری ہے، جنھوں نے مثالی بصیرت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں سائنس اپنی مادری زبان میں پڑھانی چاہیے، بصورت دیگر سائنس طبقۂ خواص تک محدود ہوکر رہ جائے گی اور عوام الناس سے اس کا رشتہ منقطع ہوجائے گا۔ اگرچہ ہمارے نظام تعلیم نے اس حد تک ترقی کرلی ہے کہ وہ انجینئرنگ، طب، قانون اور لسانیات میں بین الاقوامی شہرت یافتہ کورسز پیش کرتا ہے، لیکن ہم نے خلافِ عقل اپنے ہی لوگوں کو وہاں تک رسائی سے محروم کردیا ہے۔ ہم نے اتنے برسوں میں صرف انگریزی میڈیم یونیورسٹیوں اور کالجوں کا ایک چھوٹا نیٹ ورک بنا دیا اور ہماری اپنی زبانیں پیشہ ورانہ تعلیم سے محروم رہیں۔ اس طرح ہم نے اپنے طالب علموں کی اکثریت کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ پیدا کی۔

اگر ہم عالمگیر سطح پر رائج اعلیٰ ذریعۂ تعلیم پر ایک سرسری نظر بھی ڈالیں تو پتہ چل جائے گا کہ ہم کتنے پانی میں ہیں اور یہ بھی کہ ہمارا طرزِ عمل درست نہیں ہے۔ مثال کے طورپر  G-20 ممالک میں بیشترایسے ہیں جہاں اسکولوں کے ساتھ یونیورسٹیوں میں بھی بہترین تعلیم کا ذریعہ وہاں کے عوام الناس کی زبانیں یعنی ان کی مادری زبانیں ہیں۔ اگر ہم ایشیائی ممالک پر ہی نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جنوبی کوریا کی 70 فیصد یونیورسٹیوں میں کوریائی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے اور وہاں کے فضلا بین الاقوامی سطح پر اپنا کردار نبھانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ جب وہاں کی حکومت نے دیکھا کہ انگریزی کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھنے لگا ہے تو اس نے یہ انوکھا قدم اٹھایا کہ 2018میں اسکولوں میں تیسری جماعت تک انگریزی زبان کی تعلیم حاصل کرنے پر مکمل پابندی عائد کردی، کیونکہ ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ طلبا میں جنوبی کوریائی زبان کے تئیں دلچسپی کم ہوجائے گی اور اس کے نتیجے میں وہ مادری زبان سے بیگانہ ہوجائیں گے۔

اسی طرح جاپان کی یونیورسٹیزکے بیشتر تعلیمی پروگراموں کی تدریس جاپانی زبان میں ہوتی ہے۔ یہی صورت حال چین کی بھی ہے جہاں نیچے سے یونیورسٹی سطح تک ذریعۂ تعلیم وہاں کی عوامی زبان ہے۔ یورپ میں بھی یہی صورت حال ہے۔ فرانس اور جرمنی میں اپنی زبانوں کے تحفظ کا رجحان شدت سے موجود ہے۔ فرانس تو اس حد تک جاپہنچا ہے کہ ’’ذریعہ تدریس صرف فرانسیسی‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، جبکہ جرمنی میں اسکولوں میں تعلیم کی زبان بنیادی طور پر صرف جرمن ہے اور ماسٹر پروگرام بھی 50فیصد جرمن زبان میں پڑھایا جاتا ہے۔ کناڈا میں لسانی تنوع کی بہت عمدہ تصویر سامنے آتی ہے، اگرچہ زیادہ تر صوبوں میں ذریعۂ تعلیم انگریزی ہے،مگر کیوبک میں فرانسیسی بولنے والوں کا غلبہ ہے اور یہاں کے بیشتر اسکولوں میں تحتانوی اور ثانوی سطح تک بلکہ متعدد یونیورسٹیوں میں بھی ذریعۂ تعلیم فرانسیسی ہے۔

اس عالمی تناظر کی روشنی میں اگر ہم اپنے ملک کے تعلیمی نظام کا جائزہ لیں تو بہت ہی افسوسناک صورت حال کا سامنا ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں نہ صرف زیادہ تر پیشہ ورانہ کورسز انگریزی میں پڑھائے جاتے ہیں اور انجینئرنگ، طب اور قانون میں تو صورت حال مزید ناگفتہ بہ ہے، بلکہ ابتدا سے ہی بچوں کو مادری زبان کی بجاے انگریزی میں تعلیم دیتے ہیں اور انھیں اپنی زبان سے ناواقف رکھنے کی گویا شعوری کوشش کرتے ہیں۔

یہاں اس نکتے پر توجہ دینا بھی ضروری ہے کہ مادری زبان میں تعلیم پر زور دینے سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ دوسری زبانوں کو کمتر سمجھا جائے یا نظر انداز کیا جائے۔ اس سلسلے میں ہمارے موجودہ نائب صدر جمہوریہ جناب وینکیا نائیڈو کی یہ بات اہم ہے کہ ہر شخص کو کئی زبانوں کا ماہر ہونا چاہیے، لیکن مادری زبان میں حصول تعلیم کی حیثیت کلیدی اور بنیادی ہونی چاہیے۔ یعنی انسان کی بنیادی تعلیم تو مادری زبان میں ہی ہونی چاہیے،البتہ اپنی دلچسپی اور شوق اور دیگر علمی و معاشی ضرورت کے تحت وہ جتنی زبانوں میں چاہے مہارت حاصل کرے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بے مثال ترقیات کی وجہ سے آج دنیا باہم مربوط ہوگئی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں مختلف زبانوں میں مہارت حاصل کرنے سے کامیابی کے نئے امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ کسی بھی زبان،خصوصا مادری زبان کو نظرانداز کرکے ہم نہ صرف یہ کہ بہت بڑے علمی خسارے کا سودا کرتے ہیں، بلکہ نئی نسل کو اس کے ثروت مند سماجی، ثقافتی ولسانی ورثے سے بھی محروم کرتے ہیں۔

دنیا میں دو زبانیں ایسی ہیں جو ہر شخص بغیر کوئی علم حاصل کیے بول یا سمجھ سکتا ہے۔ ایک مادری زبان اور دوسری اشاروں کی زبان۔ اشاروں کی زبان کو یونیورسل لینگویج کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا کی وہ واحد زبان ہے، جس کو سیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی  اور مادری زبان وہ ہے جو انسان شعور سنبھالنے کے بعد اپنے والدین،گھر اور ماحول سے سیکھتا ہے۔مادری زبان صرف زبان نہیں ہوتی ، بلکہ پوری ایک شناخت ہوتی ہے۔ ایک پوری تہذیب، تمدن، ثقافت، جذبات و احساسات کا حسین امتزاج ہوتی ہے۔ مادری زبان میں خیالات ومعلومات کی ترسیل اور ابلاغ ایک قدرتی اور آسان طریقہ ہے۔ سوچنے اور سمجھنے کا عمل جو کہ سراسر انسانی ذہن میں تشکیل پاتا ہے، وہ بھی لاشعوری طور پر مادری زبان میں ہی وجود میں آتا ہے۔ انسان خواب بھی مادری زبان میں ہی دیکھتا ہے۔انسانی ذہن اور تخلیقی عمل میں رابطے کا کام بھی غیر ارادی طور پر مادری زبان میں ہی انجام پاتا ہے۔ انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کا سب سے بہترین اظہار بھی مادری زبان میں ہی ممکن ہے۔ فی البدیہہ اپنے خیالات کے اظہار کے لیے بھی مادری زبان کا ہی سہارا لیا جاتا ہے۔ فہم انسانی کا براہِ راست تعلق بھی ذہن انسانی اور مادری زبان کے رابطے سے ہی ہوتا ہے۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ فہمِ انسانی میں جامعیت، وسعت اور گہرائی صرف مادری زبان میں ہی ممکن ہے۔

الغرض سیکھنے اور سکھانے کے لیے آسان ترین زبان، مادری زبان ہی ہے، اِس کے علاوہ کوئی دوسری زبان نہیں ہے۔ تخلیق اور ایجاد کا براہِ راست تعلق بھی مادری زبان سے ہے۔ سائنسی اور فنّی علوم میں نفسِ مضمون، سائنسی نظریات کی فہم اور ترسیل و ابلاغ کے لیے بہترین ذریعہ مادری زبان ہی مانا جاتا ہے۔ مادری زبان میں قدرتی طور پر یہ وسعت اور گنجائش ہوتی ہے کہ وہ تمام تر جدید عصری علوم بشمول سائنسی علوم کو ان کی اصل اصطلاحات کے ساتھ بغیر کسی ترجمے کے اپنا سکتی ہے اور ان کی ترسیل و ابلاغ کر سکتی ہے۔

مادری زبان انسانی شناخت، تشخص اور کردار سازی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ہر وہ زبان جس میں لٹریچر تخلیق پا سکتا ہو، ترسیل علم کے لیے بہترین مانی جاتی ہے۔ جب کہ لٹریچر کا تعلّق بھی مادری زبان سے ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا ماہرینِ تعلیم کی رائے میں ذریعہ تعلیم کے لیے مادری زبان سے بہتر کوئی زبان نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقّی یافتہ دنیا میں زیادہ تر ممالک میں تعلیم مادری زبانوں میں دی جاتی ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے مطابق بچوں کی ابتدائی تعلیم کے لیے سب سے موثر زبان، مادری زبان ہے۔ مادری زبان میں تعلیم سے بچوں کی تحقیقی اور تخلیقی صلا حیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔مادری زبان میں تعلیم دیے جانے میں ایک آسانی یہ ہوتی ہے کہ بچے کے پاس اپنی زبان کے علم کا ایک ذخیرہ پہلے سے موجود ہوتا ہے اس لیے دورانِ تعلیم بوریت کی بجائے بچہ خوشی محسوس کرتا ہے۔ مادری زبان میں تعلیم سے بچوں کے ذہن پر کم بوجھ پڑتا ہے اور بچوں کے سکول چھوڑ نے کی شرح میں بھی حیرت انگیز کمی دیکھنے میں آتی ہے۔

مادری زبان میں تعلیم کے بارے میں یونیسکو کا کہنا ہے کہ جو بچے اپنی مادری زبان سے تعلیم کی ابتدا کر تے ہیں شروع سے ہی ان کی کار کردگی بہتر ہوتی ہے۔ان کی یہ اچھی کار کردگی مسلسل قائم رہتی ہے بہ نسبت ان بچوں کے جو اپنی تعلیم ایک نئی زبان سے شروع کرتے ہیں۔ یونیسکو نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی شرح خواندگی میں کمی کی ایک بڑی وجہ مادری زبان میں تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ ابتدائی تعلیم سے متعلق یونیسکو کی جاری کردہ پالیسی میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ چھوٹے بچوں کو ابتدائی 6سال تک مادری زبان میں تعلیم دی جانی چاہیے، تاکہ جو کچھ بچے نے سیکھا ہے وہ بھول نہ جائے۔

اس ضمن میں وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی والی موجودہ مرکزی حکومت کے زیر نگرانی تیار کی جانے والی نئی تعلیمی پالیسی اہم ثابت ہوسکتی ہے جس میں پرائمری سطح پر مادری زبان میں تعلیم دینے کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پالیسی میں پرائمری تعلیم بذریعہ مادری زبان کو یقینی بنانے کی وکالت کی گئی ہے اور یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ مادری زبان کے ذریعے تعلیم سائنٹفک نظریے کو مد نظر رکھ کر اپنائی گئی ہے۔ حکومتی پالیسی میں ابتدا سے چھٹی کلاس تک لازمی طورپر مادری زبان میں تعلیم دینے کی بات کہی گئی ہے،جس سے یقینا تمام مقامی زبانوں کو فائدہ ہوگا۔ ظاہر ہے کہ جب پرائمری سطح پر مادری زبان میں تعلیم دینے کو لازمی بنایا جائے گا تو مختلف علاقوں میں علاقائی زبانوں کے فروغ کا بھی راستہ ہموار ہوگااور اس ضمن میں اردو کے لیے بھی ترقی کی نئی فضا قائم ہوگی البتہ اس کے لیے شرط یہ ہے کہ تمام اسکولوں میں طلبہ کی ضرورت کے مطابق اردو اساتذہ بحال کیے جائیں نیز وہ اساتذہ ضروری اہلیت و قابلیت سے لیس ہوں۔ سرکار کا کام پالیسی بنانا ہے مگر اسے زمینی سطح پر اتارنا ان لوگوں کا کام ہے جو اس شعبے سے وابستہ ہیں، مثلاً پیشۂ تدریس سے وابستہ اساتذہ کی ذمے داری ہے کہ وہ دیانت داری سے اپنے فرائض ادا کریں اور اسکول کے ذمے داران مقامی تعلیمی افسران اور انتظامیہ کی ذمے داری ہے وہ ہر علاقے میں وہاں کے طلبہ کی مادری زبان کے اساتذہ کی تقرری کا نظم کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ چھٹی کلاس تک طلبہ کی پوری تعلیم مادری زبان میں ہو۔

فی الوقت ہمارے ملک میں قومی سطح پر پرائمری اور ثانوی اسکولوں میں اساتذہ کی بحالی کے لیے بی ایڈ، بی پی ایڈاور دیگر تربیتی کورسوں کی ڈگری کے ساتھ ساتھ قومی سطح کے اساتذہ اہلیتی امتحان کو بھی پاس کرنا لازمی ہے اور اس کے لیے قومی سطح پر سی ٹیٹ (CTET) امتحان سال میں دو مرتبہ منعقدہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف ریاستوں کے ذریعے بھی اساتذہ کے لیے اہلیتی امتحان (STET) لیے جاتے ہیں۔ چو ںکہ اب اساتذہ بحالی کے لیے سی ٹیٹ یا ایس ٹیٹ کا پاس ہونا لازمی ہوگیا ہے، اس لیے اردو آبادی کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی میں مادری زبان کے ذریعہ تعلیم کو یقینی بنایا گیا تو مختلف موضوعات کے ایسے اساتذہ جواردو کے ذریعہ تدریسی عمل کو انجام دے سکیں وہ مذکورہ سی ٹیٹ اور ایس ٹیٹ امتحان پاس ہیں یا نہیں۔ اگر اردو کے ذریعے تعلیم دینے والے اساتذہ ہی اس امتحان میں پاس نہیں ہوں گے تو پھر اردو طبقے کے بچوں کے لیے اردو کے ذریعے تعلیم دینے کا راستہ ہموار کیسے ہوگا؟

اس طرح اگر ہم حقیقی معنوں میں مادری زبان سے محبت کرتے ہیں اور اس کے فروغ کے تئیں سنجیدہ ہیں تو ہمیں پوری دیانت داری اور حقیقت پسندی کے ساتھ عملی اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جہاں بچوں کی ابتدائی تعلیم کا انتظام مادری زبان میں کرنا ہوگا وہیں اس چیز کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ہمارے اساتذہ اہل اور باصلاحیت ہوں جو واقعی مادری زبان میں مختلف موضوعات کی تدریس کا فریضہ بخوبی انجام دے سکیں۔ سرکار کی نئی تعلیمی پالیسی اپنے دیگر پہلوؤں کے ساتھ اس اعتبار سے بھی قابل تحسین ہے کہ اس میں مادری زبان میں تعلیم پر غیر معمولی توجہ دی گئی ہے،بس اس کے عملی نفاذ کے تئیں سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یقینی طورپر ہمارے ملک میں مادری زبان میں تعلیم کے حوالے سے ایک خوشگوار انقلاب رونما ہوسکتا ہے۔



Dr. Shafayat Ahmad

Associate Professor, MANUU,

College of Teacher Education

Chandanpatti, Laheriasarai

Darbhanga (Bihar)

Mob.: 7091490018

 

 

 


 


19/4/22

اردو ادب میں خواتین کی نیرنگیاں - مضمون نگار :معزہ (قاضی) دلوی

 



ادب معاشرے کا عکاس ہوتا ہے اور معاشرہ وجود زن کے بغیر نامکمل۔ چونکہ ادب اور سماج کا گہرا رشتہ ہے لہٰذا ادب کا تصور بھی سماج کے بغیر نامکمل ہے۔ خدا نے حوا کو آدم کی پسلی سے پیدا کیا اور دنیا آباد کی۔ ہر زمانے میں سماج الگ الگ انداز سے وجود میں آتا گیا جس میں خواتین کو کبھی عزت کا مقام حاصل ہوا تو کبھی وہ خستہ حالی کا شکار ہوئیں۔ وقت کا پہیہ کئی زاویوں پر آگے بڑھتا رہا اور مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے بھی عروج و زوال کے پیش نظر اس نے مصلحین کو بھی جنم دیا جن کی دی ہوئی تعلیم و تربیت کے تحت ایسی تحریریں منظر عام پر آئیں جو اپنے عہدکے زبان و ادب کا حصہ بنتی گئیں۔ 

1857 کی پہلی جنگ ِ آزادی ہندوستانی تاریخ اور با لخصوص مسلمانوں کے زوال کی تاریخ کا ایسا سیاہ ورق ہے جس نے مسلمانوں کے شاندار ماضی کو نیست و نابود کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ مغلیہ سلطنت کے زوال اور پہلی جنگ آزادی کی وجہ سے ہندوستان میں سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ تہذیبی تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں۔ اس قیامت خیز جنگ آزادی نے بزرگان ِ قوم و ملت کی ذہنیت، خیالات، افکار اور رجحانات میں ایسا تلاطم برپا کیا کہ ان کے دلوںمیں ایک نئے احساس نے انگڑائی لی اور نئی منزل کو پانے کی لگن کے ساتھ روشن صبح کا خیر مقدم کرنے کے لیے انھوں نے اپنے قدموں کے رخ موڑ دیے۔مصلح قوم نے جن راستوںکا انتخاب کیا ان میں ایک راستہ مردوں کی تعلیم، دوسرا سماجی و معاشرتی اصلاح اور تیسرا راستہ تعلیمِ نسواں کی جانب جارہا تھا۔ وجود ِ زن سے تصویرِ کائنات میں بکھرے ہوئے خوشنما رنگ بدنما ہوتے دکھائی دینے لگے تو انھیں دوبارہ خوشنما بنانے کا سفر تحریکِ تعلیمِنسواں سے شروع ہوا۔ ڈپٹی نذیر احمد نے ناولوں کی مدد سے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کی طرف قدم اٹھایا۔ شیخ عبداللہ (علی گڑھ)، شیخ عثمان (پونے) اور جسٹس بدرالدین طیب جی (ممبئی) اور دیگر ان نے لڑکیوں کے لیے مدرسے قائم کیے۔ سید احمد دہلوی، شیخ عبداللہ، مولوی ممتاز علی جیسی ہستیوں نے صحافت کے ذریعے خواتین کی تعلیم و تربیت کی اور سب سے اہم بات یہ کہ انھوں نے اپنے ساتھ خواتین یعنی اپنی اپنی اہلیاؤں ہی کو اس کار ِخیر میں شامل کر کے خواتین کی جہالت اوربے علمی کو دور کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ان کے ایسے گروہ کو ترتیب پانے میں مدد کی جو تصنیف و تالیف اور اصلاحی کاموں کے ذریعے خواتین کو اپنا وجود منوانے میں مددگار ثابت ہوا۔ خواتین تعلیم کے میدان میں قدم بڑھاتی چلی گئیں اور ادب میں اپنی شناخت بنانے میں مصروف کار رہیں۔

1857 کے بعدخواتین اپنی تعلیم و تربیت اور اصلاح کے پہلے دور میں تھیں۔ اس دور میں ضعیف الاعتقادی، جہالت، مردوں اور بطور خاص خواتین میں تعلیم کی کمی اور فرسودہ رسم و رواج سے پھیلی ہوئی خرابیوں نے انھیں روشن زندگی سے محروم کر دیا تھا۔ ڈپٹی نذیر احمد (1836-1912) نے اصلاحی پہلوکو مد نظر رکھتے ہوئے ناول تحریر کیے۔ اسی عہد میں بہار کے عظیم آباد (پٹنہ) کی رہنے والی رشید النسا نے 1881 میں اصلاح النسا کے نام سے ایک ناول لکھا جسے بقول رشیدالنسا، ان کے بیٹے محمد سلیمان نے تیرہ برس ردّی میں پڑی کتاب کو 1894  میں چھپوایا اور اس کا نام اصلاح النسا رکھا گیا۔  اس ناول میں مصنفہ نے خواتین کے غیر ضروری شوق، بدعتوں اور جہالت دور کرنے کی غرض سے ڈپٹی نذیر احمد کے ناول کا حوالہ دیتے ہوئے سو میں سے پچہتر لڑکیوں کے اصغری بننے کی امید پر اطمینان کا اظہار کیا اور سر سید کے اس خیال سے کہ مرد جب تعلیم یافتہ ہوں گے تو وہ خود اپنے گھر کی لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دیں گے، سے اختلاف کرتے ہوئے یہ خیال پیش کیا کہ  :

ــ’’جب لڑکیاں شائستہ اور تعلیم یافتہ ہو جائیں گی تو لڑکوں کا تعلیم پانا کچھ مشکل نہ ہوگا۔  ‘‘    1

خواتین کے ادب میں ناول اصلاح النسا کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ یہ ناول اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ایک طرف تو یہ تحریک تعلیم نسواں کو تقویت پہنچاتا ہے اور دوسری طرف طبقۂ نسواں کی اصلاح کے راستے ہموار کرنے میں مدد گار ثابت ہوا ہے۔ اردو ادب میں خواتین کی ناول نگاری کا اولین نقش چھوڑ جاتا ہے۔ ایک جانب اس طرح کے ناول تھے اور دوسری جانب خواتین کے لیے جاری کردہ وہ رسائل تھے جن کا مقصد خواتین میں تعلیمی ذوق و شوق پیدا کرنا تھا۔ خواتین کے اس کاروان  ادب کی چند ناول نگار خواتین کے نام اکبری بیگم(...)،  صغرا ہمایوں مرزا (سر گذشت ہاجرہ)،  محمدی بیگم ( سگھڑ بیٹی)، طیبہ بیگم خدیو جنگ (انوری بیگم)، نذر سجاد حیدر کی پھوپھی اور قرۃ العین حیدر کی نانی والدہ افضل علی (گودڑ کا لال)، خجستہ اختر سہروردی (آئینۂ عبرت)، ظفر جہاں بیگم (افسری بیگم)، نذر سجاد حیدر ( حرماں نصیب)،  اے آر خاتون(شمع، تصویر)، حمیدہ سلطان وغیرہ ہیں۔

آج کے سائنسی اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی قدم بڑھا رہی ہیں۔ اس حقیقت کو ایک ہندوستانی خاتون  رقیہ سخاوت حسین نے 1908 میں قرطاس کی زینت بنایا۔ اپنے انگریزی ناول  Sultana's Dream  میں خواتین کی مملکت ( لیڈی لینڈ) بساکر خواتین کو سائنس اور ٹیکنالوجی سے کچھ اس طرح جوڑ دیا کہ سائنس میں ان کی برتری حاصل ہونے کے امکانات واضح ہو گئے۔ بنگلہ دیش کی مصنفہ روشن جہاں رقمطراز ہیں  :

اس حوالے سے رقیہ صرف عورتوں کی تعلیم کی سادہ سی بات نہیں کر رہی تھیں بلکہ ایسی تعلیم کی بات کر رہی تھیں جو عورتوں کو سائنس کے میدان میں برتری دلائے۔   2

گو کہ یہ ناول انگریزی زبان میں لکھا گیا تھا اس لیے ممکن ہے کہ اردو ادب کی زنبیل میں اس کے لیے کوئی گوشہ نہ ہو لیکن اس ناول کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ جب بھی مسلم معاشرے کی ناول نگار خواتین کی بات ہوگی،  Sultana's Dream  کی بجائے سلطانہ کا خواب کا ذکر ہونا لازمی ہے۔

 سید احمد دہلوی نے خواتین کی اصلاح اور تعلیم و تربیت کی غرض سے 1881  میں دہلی سے اخبار النسا جاری کیا۔ ان کے بعدبہت دقتوں کے ساتھ شیخ عبداللہ نے رسالہ خاتون، مولوی ممتاز علی نے رسالہ تہذیب النسواں، راشد الخیری نے رسالہ عصمت جاری کیے۔ ان رسائل نے بھی خواتین کی تعلیم و تربیت اوران کی اصلاح کے لیے ایک ایسی خوش گوار فضا تیار کی جس کی بدولت خواتین کا علمی و ادبی کارواں بنتا چلا گیا اور ناول نگاروں کے علاوہ خواتین مضمون نگار، افسانہ نگار،  طنز و مزاح نگار اور شاعرات نے اپنے تخلیقی کارناموں کی بدولت اردو ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔  ان بنیادی تعلیم یافتہ اور ادب نواز خواتین کے بعد کئی اور نظم و نثرنگار خواتین کی شمولیت سے یہ کارواں آگے بڑھتا رہا اور اردو ادب  کے سرمایے میں بھر پور اضافہ کرتا رہا۔مذکورہ بالا مصلحین قوم کے علاوہ دیگر مصلحین نے بھی خواتین کی تعلیم و تربیت کی غرض سے رسالے جاری کیے جن میں بہت سی خواتین نے مضامین شائع کر کے اپنی قابلیت کے نمونے پیش کیے۔  اس ضمن میں مولوی ممتاز علی کی اہلیہ محمدی بیگم، عباسی بیگم، امت الکریم، امت الوحی، نذر سجاد حیدر، خجستہ سہروردی، خاتون اکرم، آمنہ نازلی، خواجہ بانو، اے آر خاتون کے علاوہ اور اہم نام بھی ہیں جنھوں نے اپنے مضامین کے ذریعے معاشرے کی تربیت کا بیڑہ اٹھایا اور بہترین مضامین سے اردو ادب کے خزانے میں بیش بہا اضافہ کیا جن میں محمدی بیگم، صغرا ہمایوں مرزا، وحیدہ یعقوب، آبرو بیگم، بیگم شیخ عبداللہ وغیرہ کو اولیت حاصل ہے۔ عباسی بیگم ( مجموعہ ٔ مضامین :گل صحرا )، نذر سجاد حیدر، خجستہ سہروردی، امت الکریم (تعلیم کے متعلق)، امت الوحی (قوموں کی ترقی میں عورتوں کا حصہ)، عطیہ فیضی (مسلمانوں کو ایک پیغام)، زہرا فیضی ( صحت بڑی نعمت ہے )کے بعد نفیس دلہن ( نفس ِ وفا)، ظفر جہاں بیگم (قوم کسے کہتے ہیں)، بیگم ڈاکٹر عبد الغفور (آمیزش ِ غذا کا اثر صحت پر)، عظمت النسا بیگم (دنیا کو لوگ بری جگہ کیوں کہتے ہیں)، حجاب امتیاز علی ( ابا جان کی گھڑی )، خاتون اکرم (تغیرات ِ زندگی)، آمنہ نازلی، راج کماری جھنگن، اور لیلیٰ خواجہ بانوقابل ذکر ہیں۔ ان کے بعد 1936  تک مختلف موضوعات پر مضامین لکھنے والی خواتین میں اے  آر خاتون (خواتین کے محاورے)، صالحہ عابد حسین (تحریک ِ آزادی میں عورتوں کا حصہ) کے علاوہ کئی اہم نام ملتے ہیں۔ تمام مضامین میں لڑکیوں کی تعلیم اور ان کی اصلاح کے علاوہ معاشرے کے کچھ ایسے مسائل پیش کیے گئے تھے جن کا حل نکالنا ضروری تھا ۔ بقول پروفیسر صغرا مہدی :

خواتین نے تقریباً سو سال پہلے مضمون نگاری کی ابتدا کی اور اس کا سہرا اس زمانے کے زنانہ رسائل کے سر ہے۔ مضمون نگاری کا مقصد ایک تو اس میدان میں تربیت اور دوسرے ان کی اصلاح تھی۔ شروع میں مضامین کے موضوعات ایک مذہبی نوعیت کے ہوتے تھے یا پھر ان کا موضوع خانہ داری، آرائش، حفظان صحت وغیرہ ہوتا تھا۔ 3             

خواتین کی افسانہ نگاری کا آغاز 1918  سے قبل ہوچکا تھا۔یہ افسانے رسالہ تہذیب النسواںاور عصمت میں شائع ہوتے تھے۔ ان افسانہ نگاروں میں سے کسی کسی نے ایک دو افسانوں پر ہی اکتفا کر لیا تھا۔اس کے با وجود وہ افسانے اردو مختصر افسانے کے بہترین افسانوں میں شامل ہیں۔ پروفیسر صغرا مہدی کی یاد داشت کے مطابق رسالہ عصمت کے ایک پرچے میں ایک افسانہ  ’ میں اپنے قلندر کے پاؤں پہچانتی ہوں ‘  کے نام سے شائع ہوا تھا اور رسالہ تہذیب نسواں میں شائع ہونے والے افسانے عجلت ِ بے جا ،  ایفائے وعدہ ،  مشقِ ستم ،  تیسری تاریخ کا چاند،  سالگرہ،  مرتا کیا نہ کرتا کے نام سے شائع ہوئے۔ ان افسانوں کے تخلیق کاروں کے نام پردہ ٔ خفا میں ہونے کے باوجود ان کی اہمیت کا اندازہ پروفیسر صغرا مہدی کے اس بیان سے ہوتا ہے کہ  :

حالانکہ ان میں سے بعض لکھنے والیوں کے نام تک یاد نہیںمگر اتنی مدت کے بعد ان افسانوں  کا یاد رہنا افسانہ کی حیثیت سے ان کی کامیابی پر دلالت کرتا ہے۔  4

جب کہ ڈاکٹر رفعیہ سلطانہ کی تحقیق کے پیش ِ نظر اولین افسانہ نگارخواتین میں محمدی بیگم اور صغرا ہمایوں مرزا کے نام سر ِ فہرست ہیں جنھوں نے طویل افسانے لکھے جو طوالت کی بنا پر ناول کے زمرے میں شمار کیے گئے۔ 

شاعری میں بھی خواتین نے اپنی شناخت قائم کی۔  1857 سے پہلے لطف النسا امتیاز اور مہ لقا بائی چندا  کے علاوہ کئی مایہ ناز شاعرات گزری ہیں لیکن 1857 کے  بعد محمدی بیگم، عباسی بیگم، صغرا ہمایوں مرزا، سکندر جہاں بیگم وغیرہ نہایت اہم نام ہیں۔ ان تمام شاعرات کے بعد رابعہ پنہاں ( اشکِ خونین )، زاہدہ خاتون شیروانیہ (آئینۂ حرم) نوشابہ خاتون ( موج ِ تخیل )،کنیز فاطمہ حیا، نجمہ تصدق اردو ادب میں بے پناہ اضافہ کیا۔اگرچہ ان خواتین نے نہایت سلیقے سے  اپنی شاعری میںعشق و محبت اور فراق و ہجرکی عکاسی کی ہے، تاہم ان میں چند شاعرات نے ان دیگر موضوعات کو بھی شاعری کا حصہ بنایا جو سرمایہ داری، معاشرے کی چھوٹی بڑی خامیاں اور جبر و ظلم کی عکاسی کرتے تھے۔ بلقیس فاطمہ بیکس ـ اپنی ایک نظم ـ ’ شکوۂ خواتین مشر ـــق  ‘ میں کہتی ہیں          ؎

وفا آشنا  دل  ہمارا  جو  پایا

ہمیں خوب دل بھر کے تم نے ستایا

خدا کو  تمھارا  وتیرہ  نہ بھایا

سروں پر تمھاری فلاکت  کو آیا

قہر بن کے تہذیب مغرب کا سایہ

عباسی بیگم کا اپنا ایک الگ انداز رہا ہے۔ کہتی ہیں         ؎

خودی سے باز آ نہ خوار ہو،خدا کے بندے خدا خدا کر

خدا کا رستہ ہے صاف سیدھا، ادب سے چل سر جھکا جھکا کر

 کہاں وہ علم  و  ہنر کے بانی، کدہر تغلق،کدہر کیانی     

ہوئے  ہیں  زیر زمیں  وہ  پنہاں،  نشان ہستی  مٹا مٹا کر

ایک اہم نام زاہدہ خاتون شیروانیہ کا ہے جو ز۔خ۔ش کے نام سے لکھتی تھیں۔بقول قرۃ العین حیدر زاہدہ خاتون شیروانیہ اپنے عہد کی عالمی سیاست کے تعلق سے کئی بلند پایہ نظموں کے لیے مشہور رہی ہیں اور اپنے انتقال (1922) سے قبل انھوں نے درج ِ ذیل غزل کہی تھی        ؎

کار خانے میں جو بارود کے، بم آ کے پھٹا

جل گیا  پیکر  بے جرم و خطائے  مزدور

 غلہ ڈھونے سے  پسینے میں نہائے  سو بار

جب ہو اک پارہ نان روزہ کشائے مزدور 6

 خواتین کے اس ترقی یافتہ دور کے بعد وقت نے پھر ہلکی سی کروٹ لی اور اس بات کا احساس دلایا کہ ہندوستان اور مسلم معاشرے کی ابھی مکمل ترقی نہیں ہو پائی ہے۔ بدلتے حالات اور انتشار نے معاشرے کو دوبارہ تہہ و بالا کرنے کی کوشش کی اور ہندوستانی سماج کو ایسے زخم دیے جو ناسور کی شکل اختیار کرنے لگے۔ان حالات نے عورتوں کو دوبارہ پیچھے کی طرف ڈھکیلنا شروع کر دیا اور وہ ایک بار پھر غلط رسم و رواج کی پابند ہوتی گئیں۔ ان تمام ناسوروں کا مداوا ضروری تھا۔ترقی پسند تحریک نے ان ناسوروں کی طرف مصنّفین اور شعرا کو متوجہ کیا اور منشی پریم چند کے مطابق حسن کے معیار کو بدلنے کی کوشش شروع کی گئی اور        ؎

اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا

 کے احساس سے قدم اٹھائے گئے۔ ایک بار پھر معاشرے کے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ خواتین کے مسائل کی طرف اشارہ کیا گیا جو  تصویر ِ کائنات میں رنگ بھرنے والے وجود ِ زن پر کئی طرح کے بد نما دھبوں کی مانند نظر آنے لگے۔ ایک طرف ساحر  نے مردوں کے ظالمانہ رویے پر طنز کیا          ؎

عورت نے جنم دیا مردوں کو

مردوں نے اسے بازار دیا

اور دوسری طرف مجاز نے اپنے دائروں میں سمٹی ہوئی خواتین کوان کے وجود کی اہمیت کا احساس دلایا کہ      ؎

ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے  اک پرچم  بنا لیتی تو اچھا تھا

خواتین نے بھی آنچل کو پرچم بنانے کا مصمم ارادہ کرتے ہوئے اپنے ناولوں، افسانوں اور شاعری کے موضوعات میں تبدیلی کی اور نئے انداز سے اپنے وجود کو منوانے کی ٹھانی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین نے اردو ادب کے سرمایے میں اضافے او راپنی شناخت بنانے کے لیے لکھا ؟  یا ان کے قلم اور تحریروں نے ان کی شناخت قائم کی؟  بات خواتین اور ادب کے تعلق سے ہو رہی ہے کہ اردو ادب میں خواتین کا کیا حصہ ہے یا ادب کو خواتین نے کیا دیا ؟اس ضمن میں پہلے یہ دیکھا جائے کہ ادب کیا ہے؟  یا ادب سے کیا مراد ہے ؟  ہم سب جانتے ہیں کہ ادب زندگی اور معاشرے کا ترجمان ہی نہیں بلکہ اس کا نقاد بھی ہے۔ یہ زندگی کے وسیع ترین مسائل کو گاہے بہ گاہے پیش کرتے ہوئے ان کے حل تلاش کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اطہر پرویز لکھتے ہیں کہ  :

انسان کی زندگی کا ہر پہلو ادب کا موضوع بن سکتا ہے۔ محلوں سے جھونپڑوں تک، بازاروں سے دفتروں تک، غرض زندگی کا ہر پہلو ادب کا موضوع بن سکتا ہے۔ ادب افراد اور قوموں کے تجربات کا نچوڑ ہے۔تجربات دراصل مردہ واقعات ہوتے ہیں جو دھبوں کی طرح انسان کے ذہن میں پڑے رہتے  ہیں۔ ادب ان کو زندگی عطا کرتا ہے۔  7

زندگی کی اسی تنقید یعنی ادب میں خواتین نے بھی مردوں کے شانہ بہ شانہ قدم اٹھاتے ہوئے اپنی تخلیقات کے ذریعے منفرد انداز سے خواتین کے مسائل، ان کی زندگی کے تاریک اور روشن پہلو، نفسیاتی مسائل، معاشرے میں ان کے حقوق، غرض کہ زندگی کے ہر پہلو کواپنی تحریروں میں پیش کیا۔

1936 کے بعدخواتین افسانہ نگاروں نے معاشرے کے تکلیف دہ پہلوؤ ں، سماج میں عورت کی کم حیثیتی، جہالت، بے جوڑ شادیاں،گھر پر انتظار کی تاریکی، طوائفوں کے کوٹھوں پر روشنی، بانجھ پن سے ہونے والے مسائل، بزرگوں سے بے اعتنائی اور لاپرواہی،بچوں کے مسائل، بھوک، غربت... غرض ہر مسئلے کو اپنے افسانے اور ناولوں کا موضوع بنایا۔اس ضمن میں ڈاکٹر رشید جہاں، عصمت چغتائی،رضیہ سجاد ظہیر، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، صالحہ عابد حسین، واجدہ تبسم،  جیلانی بانو،  صدیقہ سیوہاروی وغیرہ صف ِ اول میں نظر آتی ہیں۔ڈاکٹر رشید جہاں نے اپنے افسانے افطاری میں غربت کی تصویر کشی نسیمہ اور اس کے بیٹے اسلم کی گفتگو کے ذریعے اس طرح کی ہے  :

ماں دوزخ کیا ہوتی ہے ؟

وہ کہتی ہے... دوزخ ! دوزخ وہ تمھارے سامنے ہی تو ہے۔

کہاں ؟... اسلم نے چاروں طرف سرگھما کر دیکھا۔

وہ نیچے جہاں اندھا فقیر کھڑا ہے، جہاں وہ جلاہے رہتے ہیں اور جہاں وہ رنگریز رہتا ہے اور لوہار بھی۔

دادی اماں تو کہتی ہیں دوزخ میں آگ ہوتی ہے۔  8

پھر وہ بتاتی ہے کہ دوزخ کی آگ در اصل چولھے کی آگ جیسی نہیں ہوتی بلکہ بھوک کی آگ ہوتی ہے۔  یہاں سابق پرنسپل مسز رشیدہ قاضی کے انشائیے کا حوالہ دینا بے محل نہیں ہوگا  :

پیٹ دنیا کی عظیم ترین قربان گاہ ہے۔پیٹ کی خاطر جوانیاں نیلام چڑھتی ہیں، عصمتیں قربان ہوتی ہیں اور مامتا بدنام ہوتی ہے۔ خود داری ذبح ہوتی ہے اور غیرت و حمیت کا لاشہ اٹھتا ہے۔ پیٹ نہ ہوتا تو چڑیا چڑی مار کے جال میں نہ پھنستی اور پیٹ نہ ہوتا تو چڑی مار بھی اپنا جال نہ پھیلاتا۔بڑے بڑے انقلابات کی تہہ میں پیٹ ہی کار فرما رہا ہے۔ اطالیہ کے شہر وں میں پیٹ نے آگ لگائی۔ فرانسیسی انقلاب پیٹ نے برپا کیا۔ روس میں تخت شاہی کو الٹنے کا ذمہ دار بھی پیٹ ہی ہے۔  9

موجودہ ہندوستانی معاشرے کا ایک  بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ اولاد اپنے والدین کو وقت دینا پسند نہیں کرتی اور بڑھاپے میں ان کو اپنی ذمہ داری اور فرض نہیں سمجھتی  بلکہ بوجھ سمجھ کر ان سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ المیہ پہلے مغربی معاشرے کا غماز تھا جس کی آہٹ کے اندیشے کو خواتین افسانہ نگاروں نے محسوس کرتے ہوئے اپنے افسانوں کے ذریعے ہندستانی سماج کو خبردار کرنے کی کوشش کی۔ اس ضمن میں بھی کئی نام مل سکتے ہیں لیکن یہاں صالحہ عابد حسین (بیکار سامان ) اور بانو سرتاج (تین بوڑھے )کے نام کافی ہیں۔ عصمت چغتائی کے بعد غالباًسب سے معتوب افسانہ نگار واجدہ تبسم رہی ہیں جنھوں نے معاشرے کی گھٹن اور تفنن کو اپنے افسانوں اور ناولوں کا محور بنایا۔ بقول حقانی القاسمی  :

ـ’’واجدہ تبسم نے مجبور اور مظلوم عورتوں کے لیے مقدمہ لڑا اور اس لیے مرد سماج کی خود ساختہ عدالتوں میں وہ مجرم اور معتوب قرار پائیں کہ عورت صرف اطاعت کے لیے پیدا ہوئی ہے، بغاوت کے لیے نہیں... واجدہ نے ان ہی سماجی حقیقتوں کو اپنے فکشن کا محور و مرکز بنایا جو معاشرے کے لیے ناسور بنتی جا رہی تھیں۔ ‘‘   10

مذکورہ بالا موضوعات کے علاوہ فسادات سے متاثر سماج کی تصویر کشی بھی ناولوں اور افسانوں میں اس خوبصورتی سے کی گئی کہ قاری کے دل میں ایک ہوک سی اٹھ جائے اور اس کا ذہن سوچنے پر مجبور ہو جائے۔ فسادات کے حوالے سے عصمت چغتائی کا افسانہ ’ جڑیں‘،  رضیہ سجاد ظہیر کا افسانہ  ’ نمک ‘  اور صالحہ عابد حسین کا افسانہ ’ نراس میں آس ‘ اہم افسانے ہیں۔ان کے بعد کی افسانہ اور ناول نگار خواتین کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے چند نام قرۃ العین حیدر،  جمیلہ ہاشمی،بانو قدسیہ،  جیلانی بانو، صغرا مہدی، خدیجہ مستور،  ہاجرہ مسرور،زاہدہ حنا، آمنہ ابو الحسن، رفیعہ منظور الامین وغیرہ کے بعد ناموں کی طویل فہرست میں بانو سرتاج،شمیم نکہت،  ذکیہ مشہدی، لالی چودھری، صادقہ نواب سحر، غزال ضیغم، قمر جمالی، تسنیم کوثر، نگار عظیم، ثروت خان، اندرا شبنم، طاہرہ اور نسرین رمضان وغیرہ کے نام فوری طور پر لیے جاتے ہیں۔

اردو شاعری میں جن شاعرات نے اپنی شناخت قائم کی ان میں ادا جعفری، پروین شاکر،فہمیدہ ریاض، عذرا عباس،کشور ناہید، ڈاکٹر رفیعہ شبنم عابدی، نسرین حیات، عنبرین حسیب عنبرین ،شہناز نبی اور دیگر شاعرات شامل ہیں۔انھوں نے جہاں اپنی شاعری میں معاشرے میں رائج غلط رسم و رواج میں دبی پسی خاتون کی تڑپ اور بے کسی و کسمپرسی کو بڑی ہنر مندی کے ساتھ پیش کیا وہیں عالمی مسئلے کے نقوش بھی اپنی تخلیقات پر اس طرح ثبت کیے کہ ان کی شاعری اس مسئلے کے خلاف اٹھتی ہوئی آواز ہی نہیں بلکہ ایک شاہکار بن گئی۔ڈاکٹر رفیعہ شبنم عابدی کی شاعری محض تانیثیت کے د ائرے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ انھوں نے اپنے عہد کے انسانیت سوز عالمی واقعات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔

خواتین نے اپنی تخلیقات کو منفرد انداز میںپیش کیا ہے۔ کبھی سنجیدہ تو کبھی مزاحیہ۔ طنز و مزاح کے ذریعے اردو ادب کو رونق بخشنے  والی خواتین میں پہلا نام مرزا فرحت اللہ بیگ کی بھانجی آصف جہاں کا ہے جن کا مجموعہ گل خنداں کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ان کے بعد کئی نام ملتے ہیں جن میں عصمت چغتائی کے علاوہ تین قابل ذکر نام سلمی صدیقی (سکندر نامے، نور جہاں کا لوٹا )،  سرور جمال (مشق ستم،مفت کے مشورے ) اور شفیقہ فرحت (رانگ نمبر، گول مال ) ہیں۔ 

اردو کے مشہور طنز و مزاح نگار یوسف ناظم رسالہ ’شگوفہ ‘  حیدر آباد کے ہندوستانی مزاح نمبر ص 47پر رقمطراز ہیں کہ  :

’’(ظرافت) معاشرے کے عمومی مسائل سے الجھتی اور انھیں پاک و صاف کرتی ہے۔ معاشرت کے طریقوں، رسوم و رواج اور روایتی بندشوں کے مراحل سے آگے نکل کر سیاسی و ملکی معاملات کو زندگی سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔‘‘

درج بالا قول کی روشنی میں اگر معاشرے کی جانب نظر اٹھائیں تولڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کے رواج کے خاتمے کے بعد ان کے بازاروں میں بکنے کے علاوہ شادی بیاہ کے مقدس رشتے کے نام پر لڑکیوں کے بکنے کا رواج شروع ہوا۔ اس موضوع پر (سابق پرنسپل) مسز رشیدہ قاضی کا انشائیہ ’ قصہ قاضی کا ‘ نہایت معنی خیز ہے۔ ہندوستان میں قومی یک جہتی کے فروغ کی طرف اشارہ اس خوبصورتی سے کیا ہے کہ قاری کے لبوں پر مسکراہٹ مچل اٹھتی ہے۔ اپنے انشائیے    ’کو ّے ‘میں لکھتی ہیں  :

 ہمارا دیش ہر طرح مالامال ہے، بس کمی ہے تو قومی یکجہتی کی۔ حکومت وقت قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے جان توڑ کوشش کر رہی ہے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ سارا فتور قومی پرندے کے انتخاب کا ہے۔ مور میں آخر دھرا کیا ہے ؟صرف خوشنما پر۔ پروں کا مصرف کیا ؟  مور چھل مزاروں اور مندروں کے سوا کہیں کام نہیں آتے۔ مانگ محدود، فیض محدود، پھر کیوں نہ انھیں متروک قرار دیا جائے ؟مور کی جگہ کو ّے کو قومی پرندہ بنانا چاہیے کہ ایکتا، اتحاد اور اتفاق کا جیتا جاگتا شاہکار ہے۔ کسی ایک کو ے کی جان پر بن جائے، تو ساری برادری بطور احتجاج کائیں کائیں کر کے آسمان سر پر اٹھا لیتی ہے۔

اسی طرح ڈراما نگاری،صحافت( طیبہ بیگم، ڈاکٹر شمع افروز زیدی، ثروت جہاں)، ترجمہ نگاری (صابرہ زیدی)، سفر نامے ( عطیہ بیگم فیضی، لالی چودھری )، خود نوشت نگاری (صالحہ عابد حسین، عصمت چغتائی، ادا جعفری) وغیرہ میں بھی خواتین نے اپنی تحریروں سے اردو ادب کے سرمایے میں قابل قدر اضافہ کیا ہے  اور آج بھی کر رہی ہیں۔ ان خواتین کے ناموں کی طویل فہرست کے چند اہم نام پروفیسر فاطمہ بیگم، ڈاکٹر آمنہ تحسین، ڈاکٹر اقبال النسا، ڈاکٹر گل رخ ذہین، ام ہانی اشرف، نگار سلطانہ، ڈاکٹر مسرت جہاں،ڈاکٹر بی بی رضا خاتون ہیں۔ ڈراما نگار خواتین ( عابدہ احمد،ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی) میں ایک اہم نام استاذالاساتذہ پروفیسر نور العین علی کا ہے جنھوں نے اپنے ڈراموں میں معاشرے کے مسائل کو نہایت سلیقے سے پیش کیا ہے۔ پروفیسر نور العین علی کو ڈرامے ’ کینسر ‘ پرانعام سے نوازا کیا گیا تھا۔اس ضمن میں ایک اور بات کا ذکر کرنا نامناسب نہ ہوگا کہ عابدہ احمد نے ایک ڈراما گروپ ’ہم سب ‘ کے نام سے تشکیل دیا تھا۔     

وسیع کینوس پر پھیلی ہوئی اردو ادب کی تاریخ میں خواتین کی شمولیت کا ذکر یہیں ختم نہیں ہوتا ہے۔بچے معاشرے کا مستقبل ہوتے ہیں۔ ادب اطفال کے تحت ان کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ لوک گیت کسی بھی ملک کی تہذیب و تمدن اور سیاست کے عکاس ہوتے ہیں۔ لوک گیتوں کے ذریعے اردو میں خواتین ( ڈاکٹر بسم اللہ بیگم، ڈاکٹر میمونہ دلوی ) نے ہندوستان کے تہذیب و تمدن اور سیاست کو محفوظ کرکے اردو ادب میں قابل قدر اضافے کیے۔ادب اطفال ( محمدی بیگم، خواجہ لیلیٰ بانو، سلطانہ آصف فیضی، عصمت چغتائی، نور جہاں نور  )،تحقیق و تنقید ( پروفیسر رفیعہ سلطانہ، پروفیسر زینت ساجدہ، پروفیسر صغرا مہدی، ڈاکٹر سیدہ جعفر، ڈاکٹر میمونہ دلوی، ڈاکٹر زہرہ موڈک، ڈاکٹر شرف النہار، رفیعہ سلیم، ڈاکٹر ظل ہما )،  بچوں کی تدریس ( مسز ذکیہ خطیب، مسز فاطمہ انیس )  جیسی اردو ادب کی مختلف جہتوں میںبھی صنف نازک نے اپنے جوہر دکھائے اور اس طرح ادبی کائنات کے گوشے گوشے کو اپنی تحریروں کے ذریعے روشن کرنے کی کوشش کی۔ڈپٹی نذیر احمد، مولوی ممتاز علی،شیخ عبداللہ، حالی،  عبدالحلیم شرر وغیرہ مصلحین نے قوم کو اندھیرے غار سے نکالنے کے لیے کئی طرح کی رکاوٹوں کا سامنا کیا،اپنی تحریروں کی مدد سے خواتین میں سر اٹھا کر جینے کی خواہش پیدا کی،انھیں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے راستے دکھائے۔خواتین انھیں راستوں پر نہ صرف قدم بڑھاتی جا رہی ہیں بلکہ اپنی شناخت قائم کرکے اردو ادب میں قابل قدر اضافے کرتی جا رہی ہیں۔

کسی بھی زبان کا رشتہ تاریخ سے بھی بنتا ہے اور سیاسیات سے بھی۔ معاشیات سے بھی جڑتا ہے اور سائنس سے بھی، نفسیات سے بھی پنپتا ہے اور سماجیات ؍معاشرت سے بھی۔ خواتین نے اپنے زور قلم سے اردو ادب کا حق پوری طرح ادا کرنے کی کوشش کی اور آج بھی اس راہ پر پیہم رواں ہیں۔مختصراً یہ کہ خواتین نے محض عشقیہ اور رومانی ناول، افسانے اور شاعری کو اپنا موضوع سخن نہیں بنایا بلکہ انھوں نے زندگی اور معاشرے کودیکھا، سمجھا، غور کیا اور پھر قرطاس پر اتارا۔ان کی تحریروں میں معاشرے کی خواتین ہی کے مسائل نہیں ملتے بلکہ معاشرے کے اہم ستون یعنی مرد وں کی اصلاح کا پہلو بھی چھپا ہوتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے بصیرت کی ضرورت ہے کیونکہ اچھا اور صحت مند معاشرہ مرد و زن... دونوں سے بنتا ہے۔

( مقالے کی طوالت کی کے خوف سے کئی اہم ناموں کا ذکر نہیں ہو سکا )

حواشی  :

1        رشیدالنسا : اصلاح النسا :اشاعت اول 1894، ناشر : خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ 2007،ص 162

 2       رشیدالنسا : اصلاح النسا :رشندری، رشیدہ اور رقیہ کا خواب : زاہدہ حنا :اشاعت اول1894، ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری،  پٹنہ 2007،ص 231

 3       اردو ادب میں دہلی کی خواتین کا حصہ مرتبہ پروفیسر صغرا مہدی : دہلی کی مضمون نگار خواتین: پبلشر اردو اکادمی، دلی : سن اشاعت 2006، ص 95

4        اردو ا دب میں دہلی کی خواتین کا حصہ مرتبہ پروفیسر صغرا مہدی : دہلی کی افسانہ نگار خواتین: پبلشر اردو اکادمی، دلی : سن اشاعت 2006، ص 161

5        ششماہی فن اور شخصیت، بمبئی : غزل نمبر :  مدیر :صابر دت : بیا تاگل بر افشانیم مرتبہ قرۃ العین حیدر : مارچ 1978،ص470

6        اطہر پرویز : ادب کا مطالعہ : اسرار کریمی پریس، الہ آباد : ستمبر 71، ص 37

7        اطہر پرویز : ادب کا مطالعہ : اسرار کریمی پریس، الہ آباد : ستمبر 71، ص 41

8        پرنسپل رشیدہ قاضی :پلیٹ سے پیٹ تک : پرواز : ماڈرن پبلشنگ ہاؤز، نئی دلی 1988، ص 68

9        قلم کے گناہ : حقانی القاسمی :واجدہ تبسم : افکار و اذکار مرتبہ مسرور صغرا :  کلاسک آرٹ پریس 2014، ص 48

 10     پرنسپل رشیدہ قاضی : کوے :پرواز : ماڈرن پبلشنگ ہاؤز، نئی دلی1988،ص 91-92


 

Dr. Muizza (Kazi) Dalvi

Former Head & Associate Prof., Dept of Urdu

University of Mumbai, Kalina

Mumbai - 400098 (MS)

Mob.: 9892808007