29/4/22

ایک وضع دار شخصیت: سحر سعیدی - عظیم راہی

 



ڈاکٹرسحرسعیدی مرحوم پرانی تہذیب کے علمبردار تھے۔ نہایت وضعدار اور اصول پسند شخص تھے۔ اپنی اصول پسندی کی وجہ سے کئی بار انھیں نقصان بھی اٹھانا پڑا، لیکن وہ آخر تک اپنے اصولوں پر قائم رہے۔ بہت کم آمیز اور کم گو تھے۔ قہقہہ مار کر ہنسنا ان کے نزدیک آداب و اخلاق کے خلاف تھا۔ وہ صرف مسکرانے پر اکتفا کرتے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ مزاجاً سخت تھے بلکہ ہر بات میں آداب ملحوظ رکھتے تھے اور ایک طرح کی شائستگی ان کی طبیعت کا خاصہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ا ن کی زندگی میں بڑا نظم و ضبط اور سلیقہ و طریقہ اور ایک ترتیب تھی۔ وہ وقت اور وعدے کے بڑے پابند تھے۔ چونکہ کم گو تھے لہٰذا اکثر خاموش ہی رہتے، لیکن جب کبھی بولنے پر آتے تو سامنے والے کو خاموش ہوجانا پڑتا۔ اپنے مخصوص لباس اور بڑے رکھ رکھاؤ کے آدمی تھے۔ خوش خطی ان کے مزاج کے صاف ستھرے اور نکھرے ہوئے ذہن کی نمائندگی کرتی، ان کے اندازتحریر میں ان کی شخصیت کا پرتو صاف جھلکتا تھا۔

سحرسعیدی خاموش طبیعت کے مالک ضرور تھے لیکن خاموشی سے وہ اپنا کام کرتے رہنے کے قائل تھے۔ لہٰذا اُن کی شخصیت ہمیشہ فعال اور متحرک رہی‘ اُن کی کوئی نہ کوئی ادبی ‘ سماجی اور معاشرتی سرگرمیاں جاری رہتیں۔ انھوں نے اورنگ آباد میں نان قلیہ کلب بھی اپنے گروپ کے ساتھ قائم کیا تھا جس میں نان قلیہ سے مدعوئین کی ضیافت کی جاتی۔ وقت اور اصولوں کی بڑی پابندی کے ساتھ ایک عرصے تک وہ نان قلیہ کلب کا بڑی خوش اسلوبی سے اہتمام کرتے رہے۔ اِسی طرح سیروتفریح کا پروگرام بھی وہ اپنے ہم خیال احباب کے ساتھ طے کرتے  اور اپنے احباب کے ساتھ کسی صحت بخش یا تاریخی مقام پر تفریح کو جایا کرتے تھے۔ اپنے اِن ہم خیال دوستوں کے ساتھ ایک بڑی لٹریری سوسائٹی بھی قائم کی تھی جس کے تحت کئی کتابوں کی ترتیب تدوین کا انھوں نے ارادہ کیا تھا جس میں نذرعبدالحق اور دکن کے چار چاند کے علاوہ اورنگ آباد خجستہ بنیاد کی تہذیبی و تمدنی تاریخ ترتیب دینے اور اُسے کتابی شکل میں شائع کرنے کا منصوبہ بھی انھوں نے بنایا تھا لیکن اس کام میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کے سبب ان کے یہ خواب پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکے۔ بقول اسلم مرزا، سحر سعیدی دوستی کے معاملے میں بہت محتاط رہے۔ زبردست قیافہ شناس رہے۔ انھوں نے کبھی اپنے اطراف دوستوں کی بھیڑ کو پسند نہیں کیا۔ اِس معاملے میں وہ بہت احتیاط سے کام لیتے رہے اور اپنے ہم خیال مخلص دوستوں کو ترجیح دی۔ دراصل وہ تعلقات میں کچھ فاصلے روا رکھتے تھے۔ شاید اسی لیے اکثر لوگ انھیں اناپسند سمجھتے تھے۔ حالانکہ اُن کی طبیعت میں اناپسندی تھی اور نہ ہی تصنع ‘ اِس بات کا اظہار انھوں نے اپنے شعروں میں یوں کیا تھا کہ       ؎

تعلقات میں کچھ فاصلے میں رکھتا ہوں

انا پسند عبث لوگ مجھ کو سمجھے تھے

تصنع سے عاری ہے طبیعت میری

مرا دل ہے شفاف آئینہ جیسے

سحرسعیدی بنیادی طور پر ایک شاعر تھے۔ شاعری میں بطورِخاص غزل ان کا خاص میدان تھا اور اس میں ان کا اپنا ایک رنگ سر چڑھ کر بولتا تھا۔ ان کی یہ غزلیں زیادہ تر غنائیت سے پُر ہوتی تھیں، غزل اُن کی پسندیدہ صنف سخن تھی۔ کوشش کے باوجود غزل کے علاوہ کسی اور صنف میں طبع ازمائی نہیں کی۔ غزل دراصل ان کے مزاج سے میل کھاتی تھی انھوں  نے خود ہی کہا تھا          ؎

میں نے غزل میں اتنی توانائی صرف کی

میرا تعارف اب مری پہچان ہے غزل

محمدعلی اثرکے مطابق ’سحرسعیدی بنیادی طور پر غزل کے شاعر اور اُن کی شہرت اور ناموری کا دارومدار بھی اس صنفِ شعر پر ہے۔‘ سحرسعیدی کی شاعری جہاں روایت سے جڑی رہی وہیں جدیدیت کا فن بھی ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ان کی شاعری کا خمیر روایت اور جدیدیت کی آمیزش سے اٹھا تھا۔ شاذ تمکنت نے بجا طور پر کہا تھا کہ:’’ سحرسعیدی‘ جدت کے چراغ، روایت کے روغن سے روشن کرتے رہیں گے۔‘‘ شاعری میں وہ جدت کو پسند تو کرتے تھے لیکن جدیدیت کی انتہاپسندی کے خلاف تھے۔ اِ س تعلق سے انھوں نے کہا تھا کہ      ؎

 روایتی ہے مرا طرز گفتگو لیکن

دکھائی دے گی غزل میں جدیدیت میری

اپنی شاعری کو وہ اپنے شہر ولی و سراج کی دین سمجھتے تھے۔ جس کا انھوں نے یوں اعتراف کیا تھا کہ        ؎

مجھ کو مرے کلام سے پہچانتے ہیں لوگ

یہ ذوق یہ ہنر ہے مرے شہر کی عطا

جہاں وہ اپنی شاعری میں خود کی الگ پہچان کا اعتراف کرتے‘ وہیں اپنے منفرد لہجے کی بات یوں کرتے کہ   ؎

منفرد لہجہ میں کہتا ہوں غزل

ہے مرقع یہ دلی جذبات کا

ان کا ایک شعر مجھے بے حد پسند آیا تھا اور اکثر نظامت کے دوران ان کے اس شعر سے شاعروں کو دعوت سخن دیتا تھا۔ جو حالات حاضرہ کی بھرپور ترجمانی کرتا نظر آتا ہے۔ شعر دیکھیے     ؎

پرانے لوگ مراسم کا پاس رکھتے تھے

کوئی بھی اب نہیں ملتا ہے ضرورتوں کے بغیر

دراصل اِن ہی مراسم کا پاس ان کی شاعری میں ملتا ہے جس میں اُن کی شخصیت کا پرتو بھی نظر آتا ہے۔ وہیں عصرحاضر کے مسائل اور خاص کر ٹوٹتی ہوئی تہذیب اور گرتی ہوئی قدروں کی عکاسی بھی ان کے اشعار میں اکثر نظر آتی ہے جو آج ہماری تہذیب اور معاشرتی زندگی کی ترجمانی کرتے ہیں           ؎

آج اخلاص سے کھل کر نہیں ملتا کوئی

سادگی بولتے چہروں سے عیاں تھی پہلے

وہ عہد بھی تھا کہ معصوم باادب بچے

نظر جھکا کے بزرگوں سے بات کرتے تھے

وفا پہ جان بھی دینے تو کم سمجھتے تھے

سنا ہے اگلے زمانے میں لوگ ایسے تھے

ڈاکٹرعصمت جاوید شیخ نے’’ سحرسعیدی کی غزلوں کو ایک ایسے ابلتے ہوئے چشمے سے تعبیر کیا جس کی سمت اور رفتار کا انحصار رستوں کے موڑ اور اُن کے نشیب و فراز پر نہیں ہوتا بلکہ اپنی دھن میں ایک اڑتے ہوئے پرندے کی بے کراں فضاؤں میں اپنا راستہ آپ متعین کرنے کی بساط بھر کوشش ہے۔‘‘ سحرسعیدی کی غزل بشرنواز کے لفظوں میں:

’’سحرسعیدی کے لہجے کے غنائیت اپنے موضوع سے ہم آہنگ ہوکر ایسی تخیلی دنیا آباد کرتی ہے جو بالکلیہ نئی نہ ہونے کے باوجود بھی نئی معلوم ہوتی ہے اور دلکش بھی۔‘ ‘

 سحرصاحب شاعری کے ساتھ نثر بھی بہت اچھی لکھتے تھے اور انھوں نے اپنے غائر مطالعے اور ادبی ذوق و شوق سے یہ ثابت کردیا تھا کہ وہ جتنے اچھے شاعر تھے اتنی اچھی نثر بھی لکھتے تھے۔ ان کی نثر میں بلاکی روانی کے ساتھ زبان سلاست اور فصاحت سے بھری ہوتی تھی، حافظہ بھی خوب پایا تھا اور ہر چیز میں ان کا اپنا ایک انداز اور بڑا سلیقہ ہوتا تھا۔ ان کی خودنوشت کے مطالعے سے بھی اس بات کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی تحقیقی و تنقیدی نظر بھی غضب کی تھی۔ ان کی کتابوں میں ان کا تنقیدی نظریہ اور تحقیقی نقطۂ نظر بڑی قطعیت کے ساتھ ملتا ہے اور تحریروں میں بڑا توازن اور تسلسل ملتا ہے۔ وہی توازن اور ترتیب‘ جو اُن کی زندگی کا معمول تھا۔ علاقۂ مرہٹواڑہ کے مایہ ناز سپوت اور محقق و ناقد شیخ چاند پر انھوں نے تحقیقی کام کیا اور اسی مناسبت سے بعد میں شیخ چاند کے مضامین کو کتابی شکل میں ترتیب دیا تھا۔ ڈاکٹر عصمت جاوید نے انھیں دھن کا پکا ریسرچ اسکالر کہا تھا اور فاروق شمیم کے لفظوں میں ’’ڈاکٹرسحرسعیدی نے شیخ چاند پر تحقیقی مقالہ سپردقلم کر کے اپنی مٹی کا حق ادا کیا۔‘‘ شاعری کے چار مجموعوں کے ساتھ نثر میں بھی ان کی چار کتابیں ان کی گرانقدر ادبی خدمات کا بین ثبوت ہیں تو وہیں کئی جلدوں پر مشتمل ادبی تراشے کو جمع کرنے کا اہم کام بھی سحرصاحب نے انجام دیا تھا۔

سحرسعیدی صاحب کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ جو ایک بار ٹھان لیتے تھے چاہے وہ کتنا ہی مشکل کام کیوں نہ ہو، کر گزرتے تھے۔ ان کی پوری زندگی میں اسی بات کا عمل دخل رہا۔ اسی جہد مسلسل سے ان کی زندگی عبارت ہے۔ چاہے وہ کیسا معاملہ ہو، کوئی بات رہی ہو، تقریباً بہت سارے معاملات میں چاہے علم و ادب اور تعلیم کے میدان میں ہو یا عملی زندگی کے مرحلے ہوں یا پھر ابتدا میں ملازمت کے سلسلے میں جو پریشانیاں رہی ہوں، مختلف ملازمتیں کیں اور بعد میں مرہٹواڑہ یونیورسٹی میں باقاعدہ ملازمت کا سلسلہ شروع ہوا اور ترقی پاتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے حسن وظیفہ پر سبکدوش ہوئے۔  ازدواجی زندگی کے معاملے میں بڑے دشوارکن مراحل سے گزرتے ہوئے ان حالات سے نبردآزما ہوکر بعد میں ایک پُرسکون ازدواجی زندگی گذاری۔ اسی طرح تعلیم کے میدان میں بھی ملازمت کے دوران ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ بیماری کے آخری ایام میں باوجود بیحد تکلیف کے، اپنی تکلیف کا اظہار نہیں کیا۔ ان کی گرتی ہوئی صحت دیکھ کر دیکھنے والے کی ہمت پست ہوجاتی لیکن ان کی ہمت میں کمی نہیں آتی۔ ان میں قوت برداشت بلا کی تھی اور قوت ارادی غضب کی تھی۔ فریضہ حج کے دوران ان کی اہلیہ کا ایک حادثے میں پیر فریکچر ہوگیا تھا۔ انھوں نے بڑی ہمت سے خود اپنے حج کے ارکان ادا کرتے ہوئے وہیل چیئر پر اہلیہ کو بھی ارکان ادا کروائے اور حج بیت اللہ سے واپسی پر بیوی کا معقول علاج کروایا۔ مگر مختلف امراض کی وجہ سے علاج کا خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوا۔ سحرصاحب مسلسل علاج کے ساتھ تیمارداری کرتے رہے اور اہلیہ کی خوب خدمت کی۔ لیکن طویل علالت کے بعد ان کی شریک زندگی نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ بیوی کی جدائی کے بعد وہ اندر سے بہت ٹوٹ گئے تھے۔ لیکن اپنی طبیعت کے مطابق کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا اور پھر ایک ایسی بیماری نے انھیں گھیر لیا کہ باوجود علاج کے کوئی افاقہ نہ ہوا اور تقریباً ایک سال کی طویل بیماری کی تکلیف جھیل کر آخر وہ 26 جنوری 2017  کو اس دارِفانی سے رحلت کر گئے۔

سحرسعیدی کا پورا نام سیدمنیرالدین تھا۔ وہ 18مئی 1940 کو اورنگ آباد کی تحصیل پیٹھن میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اورنگ آباد کے ایک سادات خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ تحتانیہ تک اُن کی تعلیم پھلمبری میں ہوئی اور مڈل سے ہائی اسکول تک انھوں نے اورنگ آبادمیں پڑھائی کی۔ 1958 میں چیلی پورہ ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا۔ اسی سال انھوں نے پہلی غزل کہی۔ ابتدا میں جے پی سعید سے مشورہ سخن کیا تقریباً آٹھ دس برس ان کی رہنمائی حاصل رہی۔ ان کے اسکول کے استاد عباس انجم نے انھیں سحر تخلص عطا کیا تھا اور جے پی سعید سے نسبتِ تلمذکی وجہ سے سعیدی ہوگئے تھے۔اپنے استاد جے پی سعید کے احترام میں انھوں نے یہ شعر بھی کہا تھاکہ   ؎

خاطر سے احترام سے سر جھک گیا مرا

محفل میں ذکر آیا تھا جے پی سعید کا

ڈاکٹرسحرسعیدی نے 1993 میں میسور یونیورسٹی کرناٹک سے اردو میں ایم اے کامیاب کیا تھا اور 1997میں ڈاکٹرباباصاحب امبیڈکر مرہٹواڑہ یونیورسٹی سے ’’شیخ چاند، حیات اور ادبی خدمات ‘‘ موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ لکھا۔ اِس تحقیقی کام کی خاص بات یہ تھی کہ اِسے بغیر کسی گائیڈ کے یونیورسٹی میں راست پیش کر کے ڈاکٹریٹ کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی اور یہ تعلیمی لیاقت، اپنی علمی و ادبی دلچسپی کے باعث ملازمت کے دوران مکمل کی اور اس کے ساتھ ہی علم و ادب کی سرگرمیوں میں بھی مصروف رہے۔ چونکہ سحرسعیدی بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ بچپن سے ان کی طبیعت کا میلان شاعری اور موسیقی کی طرف تھا۔ 1958 سے انھوں نے باقاعدہ اپنی شاعری کا آغاز کیا تھا۔ سحرسعیدی صاحب کے چار مجموعہ کلام بالترتیب مضراب (1978)، کمندہوا (1980)، شعرخوشبو لے (1987) اور شعرمیرا شوق انگیز (2015) میں شائع ہوکر مقبول ہوئے، جن کی ہندوپاک کے ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ہوئی اور مقتدراہل علم و فن نے انھیں خراج تحسین سے نوازا۔ عارف خورشید مرحوم نے سحرسعیدی کے چار شعری مجموعوں کے بارے میں یہ دلچسپ بات بتائی تھی کہ ’مضراب‘ یک لفظی، ’کمندہوا‘ دو لفظی، شعر خوشبو لے، سہ لفظی، اور شعر میرا شوق انگیز چہار لفظی ہے۔ سحرسعیدی کے ان چاروں شعری مجموعوں میں بڑی تعداد میں ایسے اشعار ملتے ہیں جو نمونے کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں لیکن یہاں میں نے طوالت کے خوف سے چند ایسے اشعار کا انتخاب کیا ہے جو انھوں نے خود نمونے کے طور پر عالم گیر ادب کے اپنے نمبر میں پیش کیے تھے۔ ملاحظہ کیجیے        ؎

دل کو تنہائی میں اک گونہ سکوں ملتا ہے

ہاں یہی بات ذرا مجھ سے بچھڑ کر کہنا

دل میں ارماں منفرد ہیں، سر میں سودا منفرد

سوچتے تو سب ہیں لیکن میں نے سوچا منفرد

آتشیں رخسار کی نیرنگیوں کے سامنے

اس دہکتے دل کے سارے استعارے مسترد

گھنا درخت کسی نے کہیں گرایا تھا

نواحِ دشت کئی دن ہوا بلکتی رہی

شرارتاً وہ کبھی جھانک کر گیا تھا سحر

کئی برس مری کھڑکی مگر مہکتی رہی

ہم دونوں کی چاہ نرالی، ہم دونوں کا ظرف اعلیٰ

اپنے گھر کا راجا میں وہ میرے گھر کی رانی ہے

آپ آئے سامنے یا میں نہ آیا آپ میں

خوبصورت جھیل پر جیسے ٹھہر جائے نظر

گزر ہوا جو اُدھر سے تو کپکپی سی ہوئی

ہم ایک ساتھ جہاں بارشوں میں بھیگے تھے

ہمارے پاؤں کے پڑتے ہی چیخ اٹھے تھے

نظر جھکا کے جو دیکھا تو خشک پتے تھے

دور کیسے میں کروں اپنی نگاہوں سے اُسے

وسوسے دل میں کہیں سر نہ اٹھانے لگ جائیں

سحروابستگی روح و بدن کی عارضی نکلی

رہی یہ زندگی، اندر سے وہ بھی کھوکھلی نکلی

سحر لب بوس ہوتے پھول سے دیکھا جو تتلی کو

ہمارے حق میں یہ چاہت بھی اک تحریک سی نکلی

 سحرسعیدی صاحب کو شاعری کے علاوہ چونکہ تحقیق و تنقید سے بھی گہری دلچسپی رہی تھی اسی سبب انھوں نے اپنی ملازمت کے دوران پی ایچ ڈی مکمل کی اور 1998 میں اپنے گرانقدر تحقیقی مقالے کو کتابی شکل میں شائع کیا تھا۔ جس کی ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ہوئی۔ اس تحقیقی کام کی تکمیل کے بعد‘ اپنے موضوع ’شیخ چاند‘ کو آگے بھی تحقیق کا مرکز بنایا اور شیخ چاند کے مطبوعہ مضامین جو مختلف رسائل میں چھپ چکے تھے مگر اِدھراُدھر بکھرے پڑے تھے ان کو یکجا کر کے مرتب کیا اور ’مضامین شیخ چاند‘ کے نام سے 2007 میں شائع کیا۔ جس کی ایک عرصے سے تعلیمی حلقے میں ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ اس کے علاوہ ’نذرمولوی عبدالحق‘ اور کئی تحقیقی و تنقیدی کتابیں زیرترتیب رہیں لیکن طویل علالت نے ان کاموں کو پورا نہیں ہونے دیا۔ اُس کے ساتھ ہی اسی دوران ہم خیال احباب کے مشورے سے کتابی سلسلے کے تحت ایک ادبی تنظیم تشکیل پائی جن میں عارف خورشید، نورالحسنین، شاہ حسین نہری، اسلم مرزا، مرحوم قاضی رئیس، ساحر کلیم اور راقم الحروف پیش پیش تھے۔ جسے ’عالم گیر ادب‘ کا نام دیاگیا جو سحرسعیدی کا تجویزکردہ نام تھا جسے اتفاق رائے سے منظوری دی گئی اور اس کے تحت کتابی سلسلے کا کام شروع ہوا۔ طے شدہ ضابطے کے مطابق پہلے عالم گیر ادب کے ارکان کے فن اور شخصیت پر مشتمل نمبر شائع کیے جائیں گے۔ لہٰذا اس کے تحت اسلم مرزا کے بعد سحرسعیدی صاحب کا نمبر شائع ہوا تھا۔ (اس کے بعد عارف خورشید، شاہ حسین نہری، جاویدناصر، حمیدسہروردی اور نورالحسنین کے نمبر شائع ہوکر مقبول ہوئے ہیں)  عالم گیر ادب کتابی سلسلے کے تحت ہر ہفتے ایک نشست کا اہتمام ہونا طے پایا تھا، جس کے تحت یہ نشستیں جاری ہیں۔ ویسے تو سبھی اراکین اُن کے قریب تھے لیکن اسلم مرزا کی قربتوں کا یہ عالم تھا کہ وہ اُن کو اپنا پیرومرشد کہتے تھے۔ ان نشستوں کے ذریعے میری سحرصاحب سے تقریباً ہر ہفتے ملاقات ہوتی رہی اور ان ملاقاتوں کے سبب ان کے قریب آنے، ان کی شخصیت کو سمجھنے اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کے مواقع حاصل ہوئے۔ ایک دو بار میری اُن سے بحث بھی ہوئی اور ناراضگی بھی رہی لیکن اُس کے باوجود میں ان کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا۔عالم گیر ادب کی نشستوں نے ہم سب کی ادبی سرگرمیوں میں اضافہ کردیا اور اسی دوران انھوں نے اپنی خودنوشت تحریر کی جو ’یادوں کی مہک‘ کے نام سے 2015 میں کتابی شکل میں شائع ہو کر بہت مقبول ہوئی۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں اسلم مرزا لکھتے ہیں کہ:

 ’’یادوں کی مہک ایک دلچسپ من موہنی دلچسپ سوانح ہے جس میں بے شمار کردار ہیں، واقعات ہیں، پلاٹ ہیں، علامت نگاری، تصوریت، رمز و کنایہ، اشاریت اور فلیش بیک کے رنگ آمیز مناظر ہیں اس پر مستزاد اُن کا زوردار بیانیہ جو ایک نیک طنیت، سلیقہ مند اور کھرے انسان کی یادوں اور اس کے تجرباتِ زندگی کا دل گداز اظہاریہ ہے جو ایک غیرمعمولی ادبی دستاویز بن گئی ہے۔‘‘ 

اس کے اگلے سال ان کی ایک اور اہم کتاب ’خاصان خوش خیال‘ کے عنوان سے چھپ کر ادبی حلقوں کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہوئی، جو مختلف ادبی شخصیات کی حیات اور ادبی کارناموں پر لکھے گئے ان کے مضامین پر مشتمل تھی۔ بقول عارف خورشید :

’’خاصان خوش خیال اورنگ آباد دکن کے ادبی خزانے کی ایک ایسی کتاب ہے جو اس میں مذکورہ اشخاص ہی نہیں بلکہ سحرسعیدی کے موجود ہونے کا احساس دلانے کے ضامن ہیں۔‘‘

 اسے مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکادمی نے انعام سے بھی نوازا تھا جو ان کے انتقال کے بعد ان کے لواحقین نے حاصل کیا تھا۔

 سحرسعیدی مرحوم کا ایک اور اہم اپنی نوعیت کا منفرد کام ’ادبی تراشے‘ ہیں جو انھوں نے بڑی لگن اور جستجو کے بعد اپنے طور پر بڑی تعداد میں جمع کیے تھے۔ 15جلدوں پر مشتمل ’ادبی تراشے‘ میں سحرسعیدی نے اہم کثیرالاشاعت روزناموں اور رسائل میں شائع ہونے والے ادبی تحقیقی، تنقیدی مضامین کے تراشوں کو ان میں محفوظ کردیا۔ بقول خان شمیم ڈاکٹر سحرسعیدی نے برسوں کی ان محنت کو ان اخبار کے تراشوں کو یکجا کیا، ژیراکس کاپیاںبنوائیں، بائنڈنگ کروائیں اس طرح ان تراشوں سے اردو کی ایک تاریخ مرتب کردی۔ دراصل ان کا یہ سب سے بڑا کارنامہ ہے کہ انھوں نے اردو اخبارات کے تراشے جمع کرنا شروع کیے تھے۔ ان تراشوں میں شہر اورنگ آباد کے شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کے تذکرے کو محفوظ کرلیا جن کا تعلق اردو زبان اور دکن کی تہذیب و تمدن سے رہا ہے اس کے علاوہ قدیم شعرا اور ادبا پر مختلف دور میں جو مضامین شائع ہوتے رہے ہیں ان کو بھی محفوظ کرلیا گیا۔ جو ان کی برسوں کی محنت کا ثمرہ ہے۔ یہ نہایت ٹھوس اور جامع کام ہے۔ یہ مشکل اور اہم ترین کام سحرسعیدی نے انجام دے کر واقعی اپنی نوعیت کا ایک منفرد کام کیا تھا۔ یہ ادبی تراشے ریسرچ اسکالرس کے استفادے کے لیے اہم دستاویزی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان ادبی تراشوں کی جلدوں کا اجرا حمایت علی شاعر کے ہاتھوں 2007 میں انجام پایا تھا۔ یہ ایک بڑی یادگار تقریب تھی۔

سحرسعیدی کی تحقیقی و تنقیدی خدمات کا تمام اہل ادب نے کھلے دل سے اعتراف کیا ہے اور وہ اپنی شاعری کے ساتھ ان تحقیقی و تنقیدی خدمات کے سبب اردو ادب میں ہمیشہ یاد رہیں گے۔ آخر میں دنیا کی بے حسی اور آج کے دور کی ترجمانی کرتے ہوئے اُن کے اِس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ          ؎

جیتے جی تو قدر نہیں کی ‘ یاد بھی ہم کو کب آتے ہیں

کتنے دنیا سے اٹھّے ہیں ‘ نیک صفت دیوانے لوگ

 

Azeem Rahi

Karim Colony

Roshan Gate

Aurangabad - 431001

Mob.: 9370992203

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں