25/4/22

غیرحکومتی تنظیموں کی بدلتی جہات : پس منظر اور پیش منظر - مضمون نگار: ابواسامہ

 



گزشتہ دوسو سالوں میں غیر حکومتی تنظیموں کے فلسفے، کام کے طریقے اورفلاحی عمل کی حصے داری میں تبدیلی آئی ہے۔ یہ تنظیمیں تاریخی نقطۂ نظر سے جدید معاشرے کی پیداوار ہیں (سین 1993، فاؤلر 1997، لیوس 2001)۔  آج بیشمار تنظیمیں ہیں جوعوامی زندگی کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے امر پر کاربند ہیں۔ ان میں خواندگی اور تعلیم، صحت، روزگار، ماحولیات، دیہی اورشہری ترقی، غریبی دور کرنے کے پروگرام،صاف پانی کے انتظام اور ذخیرہ اندوزی کی تدابیر،مائیکرو فائنانس کے نظم ونسق اور عوامی بیداری کی تنظیمیں قابل ذکر ہیں۔ ساتھ ہی اقلیتوں،  دلتوں اور قبائل کے معیارِزندگی میں بہتری، صنفی مساوات،  تشدد کے خاتمے، نوجوانوں کے لیے پروگرام اور پسماندہ طبقات کوروزگارمہیاکرنے والی تنظیمیں بھی ہیں۔محروم طبقات کے لیے خصوصی پروگرام، مظلوم افراد کے حقوق کی بازیابی اور حکومتوں کو جواب دہ بنانے والی انصاف پرمبنی تنظیموں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ بہت سی تنظیمیں ضرورت مندوں کوروزگاراور بنیادی صحت عامہ سے مربوط کرتی ہیں، تعلیم تک رسائی کے مواقع فراہم کرتی ہیں، ان کی زندگی میں بہتری لانے والے فروغ استعداد کے پروگرام منعقد کرتی ہیں اور حکومت و پرائیویٹ سیکٹر کی کسی سماجی مہم، فلاحی اسکیم اور پروجیکٹ کے نفاذ میں خصوصی مہارت رکھتی ہیں۔ بڑھتی ہوئی تعداد اور نمایاں سماجی سرگرمیوں کے باوجود اسکالرز اور پیشہ وروں نے تنظیموں پر قدغن لگانے والے ساختیاتی محرکات کو نشان زد کیا ہے۔ ایڈورڈس (2003) نے بدلتی ہوئی ڈیولپمنٹ (ترقی)کی بحث کے ضمن میں غیرحکومتی تنظیموں کو درپیش چیلینجزپر خاصا ادب تحریر کیا ہے۔ انھوں نے معاشی عالم کاری اور بیرونی مالی امداد کے تناظر میں تنظیموں کی محدود سماجی معنویت اور ان کے دیر پااثرات پر بے حد ناقدانہ نوعیت کے سوالات کھڑے کیے ہیں۔

 حالانکہ اس کے برعکس بہت سے اسکالروں نے تنظیموںکی قابل قدر خدمات کو سراہا ہے۔

کورٹن (1987)نے تنظیموں کی بدلتی ہوئی حکمت عملی اور طریقہ کار کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق غیر حکومتی تنظیمیں تین مرحلوں سے گزری ہیں۔ پہلے مرحلے کی تنظیموں کا محور ریلیف اور ویلفیئر تھا جو لوگوں کی پریشانی اور مصیبتوں کو دور کرنے میںمتحرک تھیں۔ عالمی جنگ کے دوران پیدا ہونے والی ہنگامی صورت حال کے پیش نظر متعدد تنظیمیں وجود میں آئیں۔ سیو دی چلڈرن  (انگلینڈ)اور کیئر (امریکہ)جیسی تنظیموں کا جنم اسی پس منظر میں ہوا۔ دوسرے دور کی تنظیموں نے مقامی سطح پر کمیونٹی میں لوگوں کی ضروریات زندگی سے جڑی معاشی و سماجی سرگرمیوں پر توجہ دی۔ انھوں نے مقامی وسائل و ذرائع کے استعمال کااور مقامی لوگوں کی بااختیاری کا ذمہ اٹھایا۔ تیسرے مرحلے میں پہنچ کر تنظیموں میں تبدیلی آئی ہے۔ دائرہ کار میں اضافے کے ساتھ ساتھ حکمت عملی میں پائیداری ان کا مطمح نظر ہے۔ اسی لیے وہ حکومتی اداروں کے اشتراک سے لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے ساتھ معیاری زندگی کوفروغ دینے والے پروگرام تیارکرتی ہیں۔ اسی دوران فورڈ فاؤنڈیشن اور ایکشن ایڈ جیسی تنظیموںکی متحرک لیڈرشپ ملکوں کے سماجی قوانین اور پالیسیوں پر اثرانداز ہوئیں۔ کورٹن کا ماننا ہے کہ سماج میں معاشی غیر برابری کی بڑھتی ہوئی خلیج اور بازار کی مفاد پرست معیشت نے تنظیموں کوچیلنج دیا کہ وہ پائیدار حکمت عملی اپنائیں۔ ان میں محدود وسائل کے باوجودیہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے کہ وہ محروم طبقات کی زندگی میں مثبت بدلاؤ لاسکیں۔سین (1993)نے ہندوستانی تناظر میں کام اورسرگرمیوں کے حوالے سے غیر حکومتی تنظیموں کی تین قسمیں بتائی ہیں۔ پہلی فلاحی (ویلفیئر) کی تنظیمیں ہیں۔ ایسی تنظیموںکا یقین کارِ خیر، کفالت اورمعاونت میں ہے۔ وہ قدرتی آفات و مصائب،  قحط سالی، سیلاب، زلزلے یا انسان کے ہاتھوں ہوئی تباہی میں فوری مددپہنچانے میں شامل رہتی ہیں۔ ان کے فلسفے میں فلاح اورویلفیئر کا جذبہ پنہاں ہے۔ دوسری جدید کاری (ماڈرنائزیشن) پر مبنی تنظیمیں ہیں جن پرانسانی ترقی اورڈیولپمنٹ کا فلسفہ غالب ہے۔ یہ تنظیمیں غریبی کو ختم کرنے اورسماجی و معاشی انصاف کو یقینی بناتی ہیں۔ تیسری بااختیار بنانے والی امپاورمنٹ کی تنظیمیں ہیں جوپسماندہ اورمحروم طبقات کی زندگی میں امید اورمواقع پیدا کرتی ہیں۔ وہ پسماندگی کو ایک سیاسی پروسیس مانتی ہیں اور سماجی تبدیلی کے لیے ضرورت مند طبقات کو باخبرکرتی ہیں۔ سین کی یہ خانہ بندی ایک طرف کام کے اختصاص کا پتہ دیتی ہے اور دوسری طرف تنظیموں کے تاریخی ارتقا کو بھی بتاتی ہے۔ سین نے ہندوستان میں غیرحکومتی تنظیموں کے سیاسی پہلو اور ان کی سیاسی سرگرمیوں پر بحث کرتے ہوئے مملکت اور ڈیولپمنٹ سیکٹر کے جدلیاتی رشتوں کی دبیز تہوں کواجاگر کیاہے۔

حکومتی (پہلے) اورپرائیویٹ (دوسرے) سیکٹر کے بعد غیرحکومتی تنظیموں کو مختلف اصطلاحات جیسے تیسرے سیکٹر، ڈیولپمنٹ سیکٹر اور والنٹری سیکٹر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی طرح غیر حکومتی تنظیموں کے تعلق سے بہت سارے نام مستعمل ہیں۔ ہر مروجہ نام کا ایک تاریخی تناظر ہے۔ والنٹری آرگنائزیشن کا استعمال انگلینڈ میں زیادہ ہوتا ہے۔ وہاں عیسائی اقدار کی وجہ سے رضاکارانہ امدادکی لمبی تاریخ رہی ہے۔انیسویں صدی میں چیریٹی آرگنائزیشن سوسائٹیز میں ضرورت مند افراد کی مدد کا رجحان غالب تھا۔ امریکہ میں نان پرافٹ آرگنائزیشن کا کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ چونکہ وہاں بازار اورمنافع بخش اداروں کی بہتات ہے اس لیے وہ تنظیمیں جو رفاہی اور انسان دوست سرگرمیوں میں دلچسپی رکھتی ہیں، انھیں پرائیویٹ اورمنافع بخش اداروں سے ممتازکیا جاتاہے۔ وہ ترقی پذیر ممالک جو اقوام متحدہ سے قریب رہے، وہاں ایسی تنظیموں کو غیر حکومتی تنظیم(نان گورمنٹل آرگنائزیشن) کہا جاتا ہے۔ حالیہ سالوں میں ہندوستان میں نان گورمنٹل آرگنائزیشن، والنٹری اسوسی ایشن، والنٹری آرگنائزیشن  اور نان پرافٹ آرگنائزیشن کی اصطلاحات کو استعمال میں لانے کا رجحان بڑھاہے۔یہ عین ممکن ہے کہ کسی موضوع پر کام کرنے والی کوئی تنظیم مذکورہ تینوں ملکوں میں تین مختلف ناموں سے جانی جاتی ہو۔ مثلاًبے گھر افراد کے ساتھ کام کرنے والی کسی تنظیم کو انگلینڈ میں والنٹری آرگنائزیشن، امریکہ میں نان پرافٹ آرگنائزیشن اور ہندوستان میں نان گورمنٹل آرگنائزیشن کے نام سے موسوم کیا جانا تعجب کی بات نہیں ہے (لیوِس ، 2001)۔

 نجم (1996)نے غیر حکومتی تنظیموں کے لگ بھگ48 نام درج کیے ہیں۔ پرائیویٹ والنٹری آرگنائزیشن، لوکل آرگنائزیشن، گراس روٹ آرگنائزیشن، کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشن، سیلف ہیلپ آرگنائزیشن ، پیپلز آرگنائزیشن، اس قبیل کی چند مثالیں ہیں۔یہ فہرست بھی اپنے آپ میں مکمل نہیں ہے۔ سین (1993) نے نان گورمنٹل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (اسے ڈیوڈ لیوِس نے اپنی تحریروں میں بہت استعمال کیا ہے)،والنٹری اسوسی ایشن ، والنٹری آرگنائزیشن، والنٹری ایجنسی، ویلفیئر آرگنائزیشن اور فلنتھراپک آرگنائزیشن جیسی اصطلاحات رقم کی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان میں سب سے زیادہ مستعمل اصطلاح والنٹری ایجنسی ہے (جب کہ 2007 میں آنے والی قومی پالیسی میںوالنٹری آرگنائزیشن لکھا ہوا ہے)۔ٹنڈن (2005) نے اپنی تحریروں میں نان پرافٹ آرگنائزیشن کا کثرت سے ذکر کیا ہے۔اسی طرح ہندوستان میں دوسرے ملکوں کے بالمقابل چیریٹی سیکٹر، انڈیپنڈنٹ سیکٹروغیرہ کاکم استعمال ہوتاہے۔ ہم نے اس مضمون میںڈیولپمنٹ سیکٹر کی اصطلاح کو ترجیح دی ہے۔

ساختیاتی غربت اورسماجی ومعاشی عدم مساوات کی وجہ سے سماجی ناانصافی، تشدد، تعصب، دقیانوسیت اور حقوق کی پامالی مشاہدہ وعمل میں آتی ہے۔ ہرسماجی مسئلہ پورے معاشرے کے لیے نقصان دہ ہوتاہے مگرکچھ طبقات پر غر بت اورسماجی و معاشی عدم مساوات کی وجہ سے دوہری مار پڑتی ہے۔ ان میں غربا، خواتین، بچے، بزرگ، معذورین، ہم جنس پسند، دلت، قبائلی افراد اور اقلیتیں سر فہرست ہیں۔ اسی کو دھیان میں رکھتے ہوئے فاؤلر (1997) نے کہاکہ جدیدانسانی معاشرے میں غیربرابری ایسی دودھار ی تلوارہے  جوایک طرف غیر حکومتی تنظیموں کے وجود میں آنے اور ان کی تعداد میں اضافے کا سبب ہے تووہیں بہت ساری تنظیمیں اور ادارے غریبی اورغیر برابری کا ناقدانہ احتساب کرنے اوراسے جڑسے ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ لوگوں کو سماجی، معاشی، سیاسی اورثقافتی طورپربااختیار بنانے اور انھیں ان کی زندگی سے متعلق فیصلوں میں خودمختاربنانے کا عمل  پیچیدہ ہے اورلمبے وقت کا تقاضاکرتا ہے۔ لیکن اسی حکمت عملی سے مثبت نتائج کی امیدکی جاسکتی ہے۔ این جی اومینجمنٹ کاپرچہ پڑھاتے وقت کم وبیش ایسے یکساں نکات نکل کر آئے جن کا مشاہدہ طلبانے فیلڈورک کے دوران کیا۔ خود تنظیموں کے نمائندوں نے بھی ڈیولپمنٹ سیکٹرکے محدود کردار پر فکر جتائی۔ 

سرمایہ دارانہ نظام کی زد میں ہرمعاشی، سماجی، سیاسی اورثقافتی ادارے میں تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں۔ ایک تبدیلی یہ ہوئی کہ شہریوں کی بنیادی ضروریات زندگی کو پورا کرنے میں فلاحی ریاست کا دائرہ سمٹ گیا۔ غیر حکومتی تنظیموں پربھی اس نظام کے اثرات مرتب ہوئے۔ تنظیموں نے ضرورت مندوں کوبنیادی خدمات دے کرمملکت کے ساتھ اشتراک کا ماڈل تیار کیا۔جب کہ ان کے اس متبادل کردار پرمحققین نے نقدکیا ہے۔ بہت سی تنظیمیں جمہوری قدروں کو فروغ دینے اورمملکت اورشہریوں کے رشتے کو مضبوط کرنے میں موزوں کردار نبھاتی ہیں۔ اس پورے دورمیں پالیسی سازوں نے ڈیولپمنٹ پرخصوصی توجہ دی۔ اقوام متحدہ اوردیگر بین حکومتی تنظیموں(انٹرگورمنٹل آرگنائزیشنز) کے اعلامیے اور منشورات میں خوشحالی اور ڈیولپمنٹ ایک بنیادی کڑی ہے جس کے بغیر جدید دنیا کا تصور نہیں کیاجاسکتا ہے۔یہ امر بھی دلچسپی کا حامل ہے کہ اقوام متحدہ اور بین حکومتی تنظیموں کی ڈیولپمنٹ کی سیاست اور اس کی پولیٹکل اکانومی سے آنکھیں نہیں موندی جاسکتیں۔ مئی1988میں انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے مینیجنگ ڈائرکٹر کے نام ڈیویسن بودو نے اِنف اِز اِنف کے عنوان سے تیس صفحات پر مشتمل اپنا استعفیٰ نامہ پیش کیا۔اس میں لاطینی امریکہ اورکیریبیائی وافریقی ممالک میں آئی ایم ایف کے سامراجی اور سرمایہ دارانہ ایجنڈے کو بیان کیا گیا ہے۔ پھر بھی اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ منافع بخش، حکومتی اور غیرحکومتی تنظیموں کی نظر میں ڈیولپمنٹ کو مرکزی مقام ملنے کا سہرا اقوام متحدہ کے اقدامات اورکاوشوں کے سر جاتاہے۔

کئی ملکوںمیں عوام کی ترقی اور فلاح میں غیر حکومتی تنظیموں کو اہم اسٹیک ہولڈر اورمعا ون مانا گیا ہے۔ ہندوستان میں ڈیولپمنٹ سیکٹر اورغیر حکومتی تنظیموں کو مناسب قومی پالیسی کے لیے لمبے انتظار سے گزرنا پڑا۔ ڈیولپمنٹ سیکٹر کی مرکزی توجہ عوامی خدمات کی فراہمی اور پسماندہ طبقات کی عمومی ترقی پر ہے۔اس فلسفے کوبروئے کار لانے کے لیے مختلف قسم کے پروگرام چلائے جاتے ہیں۔ انھیں اس عمل میں کبھی مالی ،کبھی قانونی توکبھی تعاون و اشتراک نہ ملنے کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی وسیع خدمات کو تسلیم نہ کیے جانے اور ان کے تئیں سماج میں پنپنے والے منفی احساسات نے غیر حکومتی تنظیموں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کیا ہے۔ماضی میں ان کے موثر کردار اور لیاقت پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ سوسائٹی فار پارٹیسی پیٹری ریسرچ اِن ایشیا (PRIA)اور جانس ہاپکنس یونیورسٹی کے سینٹر فار سِول سوسائٹی اسٹڈیزنے سال 2000میں کی گئی اپنی ایک مشترکہ تحقیق میں پایا کہ بظاہر مربوط ومبسوط نظرآنے والی ہندوستانی غیر حکومتی تنظیمیں اصل زندگی میں چہار طرفہ چیلنجز کا سامنا کرتی ہیں۔ وہ کم اسٹاف، محدود وسائل، حکومتی تعاون کی کمی، اندرونی طور پرکمزور مینجمنٹ اور عدم اندراج کے مسائل سے دوچارہیں۔ اس میں کہا گیا کہ ڈیولپمنٹ سیکٹر میں بڑے پیمانے پراصلاح کی ضرورت ہے۔ اس تحقیق نے بیرونی مالی امداد بہم پہنچانے والی تنظیموں اور ایجنسیوں ، حکومتی اداروں اور سنجیدہ غیر حکومتی تنظیموں کو ڈیولپمنٹ سیکٹر کے تئیں سوچنے پرآمادہ کیا۔یہ ہندوستان میں بڑے پیمانے پر ڈیولپمنٹ سیکٹر کے تعلق سے کی جانے والی اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق تھی۔   

  2003 میں حکومت ہند نے قومی پالیسی کے ڈرافٹ کو تنظیموں کے پاس بھیج کر ان سے صلاح و مشورہ مانگا۔ 2007 میں قومی پالیسی برائے والنٹری سیکٹر کو پلاننگ کمیشن کے والنٹری ایکشن سیل نے جاری کیا۔ پالیسی کے چارمقاصدبیان کیے گئے جہاں دو میں تنظیموں کے لیے اعتماد و بھروسہ اور دو میں ان کی کمزوریاں بتائی گئیں۔ تمہید میں کہا گیاکہ یہ پالیسی ایک آزاد،  موثر اور تخلیقی والنٹری سیکٹر کی بااختیاری کے لیے کمربستہ ہے۔یہ اعتراف کیاگیاکہ اس سیکٹر نے غربت، امتیازی سلوک، ناانصافی، محرومیت اورسماجی اخراجیت کو دورکرنے میں سماجی بیداری، خدمات کی فراہمی، تحقیق اور مشاورت کی حکمت عملی اپنائی۔ پالیسی کے مقاصد میں غیر حکومتی تنظیموں کو فروغ دینااوران کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا شامل ہے۔ ساتھ ہی ان سے یہ امید کی گئی کہ وہ اپنے کمزور مینجمنٹ میں درستگی لائیں اوروسائل و ذرائع کا صحیح استعمال کریں تاکہ انھیں مالیات سے متعلق کسی قسم کی دقت نہ پیش آئے۔ان سے حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اپیل کی گئی۔ پالیسی کے اصل حصے میں تین وعدوں کا ذکر ہے کہ (1) والنٹری سیکٹر کے لیے سازگار فضا قائم کی جائے گی، (2) قومی ترقی کے پروجیکٹ میں پارٹنر شپ ہوگی اور (3) والنٹری سیکٹر کے ساتھ منفرد قسم کی پارٹنرشپ سے دونوں کو ایک دوسرے سے تقویت ملے گی۔ یہ یقین دلایا گیا کہ سیکٹر کی خودمختاری اور تخلیقی سرگرمیوں میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں کھڑی کی جائے گی۔ مثلاًیہ کہاگیاکہ 2006کے فارن کانٹریبیوشن ریگولیشن بل کو مزید لچیلا بنانے، پرائیویٹ سیکٹر کو فلاحی کاموں کے لیے آمادہ کرنے اورتنظیموںکی ٹریننگ پر زور ہوگا۔ قومی ترقی میں پارٹنرشپ کے لائحہ عمل کے تحت پنچایتی راج کے اداروں، تعلیمی اداروں، بلدیہ اور پرائیوٹ سیکٹر کی تنظیموں کے ساتھ غیرحکومتی تنظیموں کو مربوط کرنے کی بات کی گئی۔ مملکت کی جانب سے ڈیولپمنٹ سیکٹر کے سامنے اس طرز کی بہت ساری تجاویز اور معاہدات کی پیشکش سامنے آئی۔ تنظیموں کے حالات کو دھیان میں رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ قومی پالیسی مواخذہ، جواب دہی اوراشتراک کے تین اصولوں سے عبارت ہے۔ ہندوستان میں سال 2000 میں سوسائٹی فار پارٹیسی پیٹری ریسرچ اِن ایشیا کے تحقیقی سروے، 2007کی قومی پالیسی برائے والنٹری سیکٹر اور2010کے فارن کانٹریبیوشن ریگولیشن ایکٹ کے بیچ میں گہراربط ہے۔

ترقی کے کسی بھی سماجی امر کو انجام دینے میں وسائل و ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے۔ عموماً غیر حکومتی تنظیمیں اپنے کام کی لاگت کو مختلف ذرائع سے حاصل کرتی ہیں۔ بعض دفعہ وہ ایسے کام کرتی ہیں جن میں  انھیں کسی کی مالیاتی مدد نہ لینی پڑے۔بہت سی ایسی تنظیمیں ہیں جو عوامی چندے پر چلتی ہیں۔لیکن ہندوستان میں واقع تقریباً ہر چھوٹی بڑی غیر حکومتی تنظیم کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اسے کسی نہ کسی بین حکومتی یابین الاقوامی تنظیم کاتکنیکی اورمالی تعاون حاصل ہو۔ ہندوستان سے باہر ایسے کئی حکومتی شعبہ جات اورتنظیمیں ہیں جو یہاں کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ قومی وصوبائی حکومتوںکومالی اوردیگر تنظیمی نوعیت کی مددفراہم کرتی ہیں۔ فورڈ فاؤنڈیشن، ایکشن ایڈ، آغا خان فاؤنڈیشن، دی ایشین فاؤنڈیشن، ایشین ڈیولپمنٹ بینک، امریکن انڈیا فاؤنڈیشن، پلان انٹرنیشنل انڈیا، آکسفام، کئیر، راک فِلر فاؤنڈیشن، یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فارانٹرنیشنل ڈیولپمنٹ، سویڈش انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ کوآپریشن اوریو کے ڈپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ اس کی چند مثالیں ہیں۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ اور اس کی ذیلی ایجنسیوں کو اس قانون کے دائرہ کار سے باہر رکھاگیا ہے۔ ملک میں ایمرجنسی سے پہلے غیر ملکوں سے ملنے والی مددکے لیے کسی قسم کاقانون نہیں تھا جو بیرونی امداد کی آمدورفت پر نظر رکھتی۔تنظیمیں نسبتاً ایسی سرگرمیوں کے لیے آزاد تھیں۔ لیکن سال 1976میں فارن کانٹریبیوشن (ریگولیشن) ایکٹ نافذ کیا گیا جس کے تحت ہر وہ تنظیم جوبیرون ملک سے فنڈحاصل کرنا چاہتی ہے، اسے وزارت برائے امورِ داخلہ سے لائسنس یافتہ ہونا لازمی ہے۔اس کا بنیادی مقصدیہ تھا کہ فنڈ کے ذرائع کی معلومات رکھی جائیں اور حاصل کیے گئے فنڈ کے’ صحیح استعمال‘ کے لیے تنظیموں کو پابند کیا جائے۔ جس مد میں فنڈ حاصل کیا گیا ہے اسے اسی مد میں خرچ کرنا، علاحدہ بینک اکاؤنٹ ، ضروری کاغذات تیار کرنا اور سالانہ ریٹرن (کتنا فنڈ حاصل کیا گیا، کس طرح اور کس مقصد کے تحت فنڈ حاصل کیا گیا اور کیسے خرچ کیا گیا ) درج کرنا، اس قانون کی لازمی شرائط ہیں۔ کسی بین الاقوامی تنظیم، بیرونی ملک کی کمپنی، حکومتی ادارے، فنڈنگ ایجنسی، فاؤنڈیشن یا سوسائٹی کی طرف سے دیے گئے پیسے، سامان، سیکورٹی، مشین اورتحفے کے سامان کو بیرونی مالی امداد کے زمرے میں رکھاگیا ہے۔ اس قانون کی دوکلیدی اصطلاحات بیرونی ذرائع (فارن سورس )اوربیرونی امداد (فارن کانٹریبیوشن )ہیں۔امداد کی اہلیت و شرائط کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس میںکہا گیا  کہ کم سے کم تین سال پرانی تنظیمیں بیرونی امداد کے لیے سرٹیفکیٹ حاصل کرسکتی ہیں۔جب کہ کوئی تنظیم اس کے بغیر بھی وزارت داخلہ سے پیشگی اجازت لے کر بیرونی فنڈ حاصل کرسکتی ہے۔

اس قانون میں بڑی تبدیلی 2010میں آئی اورہر پانچ سال میں لائسنس کی تجدید لازمی قرار دی گئی اور قانون کی کئی دفعات کااضافہ ہوا۔ 2020میںایک ترمیم شدہ قانون کو پورے ملک میں نافذکیاگیا ہے۔اس بار ایکٹ کے بنیادی ڈھانچے میں کئی بڑی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ قانون کے سیکشن3میں کسی پبلک سرونٹ کوبیرونی امداد لینے کی ممانعت کردی گئی ہے حالاں کہ یہ قید پہلے حکومتی افسران کے لیے تھی۔جو لوگ بیرونی امداد نہیں لے سکتے ہیں ان میں سیاسی لیڈران،سیاسی جماعتیں،حکم صاحبان، اخبار اور نیوز چینل کے مالکان ، کارٹونسٹ اور صحافی  قابل ذکر ہیں مگر نئے قانون کی رو سے اس تعداد میں مزید اضافہ کردیا گیاہے۔ سیکشن17کے تحت باہر سے آنے والا ہر فنڈ سب سے پہلے نئی دہلی میں واقع اسٹیٹ بینک آف انڈیا میں جمع ہوگا ،جہاں سے فنڈ کو متعلقہ تنظیم کے اکاؤنٹ میں منتقل کیا جائے گا۔ سیکشن7کے مطابق کوئی لائسنس یافتہ تنظیم اپنی جیسی کسی دوسری تنظیم کے ساتھ کسی بھی قسم کا مالیاتی لین دین نہیں کرسکتی۔ سیکشن8 میں یہ گرہ لگائی گئی ہے کہ اب تنظیم کے اندر بیس فیصدی سے زیادہ انتظامی امور (بشمول تنخواہ اور مشاورتی اعزازیہ) میں خرچ نہیں کیا جاسکتا ، پہلے اس کادائرہ پچاس فیصدی تک تھا۔ سیکشن 13میں ترمیم شدہ قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں جرمانے کی مدت 180دن سے بڑھ کراب 360دن ہے۔ واضح رہے کہ یہ تمام شرائط صرف اسی فنڈ سے تعلق رکھتی ہیں جو بطور امداد بیرون ملک سے لیے گئے ہیں۔

 

Abu Osama

Asst. Prof., Dept of Social Work

Maulana Azad National Urdu University

Hyderabad - 50032 (Telangana)

Mob.: 9718925457

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں