10/1/25

اردو کے تین جگر، مضمون نگار: مختار ٹونکی

 اردو دنیا، دسمبر 2024

راقم التحریر کے زیرمطالعہ جگر تخلص والے تین نامور شعرا رہے ہیں اور تینوں ہی اپنی فکر رسا اور طرز ادا کے اعتبار سے منفرد و ممتاز کہے جاسکتے ہیں۔ پہلے ہیں علی سکندر جگر مرادآبادی جنھوں نے ببانگِ قلم کہا تھا      ؎

جان کر منجملۂ خاصانِ مے خانہ مجھے

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

دوسرے شیام موہن لال جگر بریلوی ہیں جنھوں نے اپنے بارے میں کچھ یوں فرمایا تھا     ؎

معراج سخن، سخن میرا ہے

آپ اپنے کمال پر فدا ہوں

اور تیسرے نورالدین جگر اجمیری کہہ گئے کہ      ؎

وہ نقش جگر چھوڑ چلا بزم ہنر میں

کرتے ہی رہیں گے مجھے ارباب ہنر یاد

واضح رہے کہ جگر مرادآبادی اور جگر بریلوی دونوں 1890 میں عالم وجود میںا ٓئے۔ اول الذکر نے 1960 میں وفات پائی اور ثانی الذکر 4 مارچ 1976 میں آنجہانی ہوئے مگر شہرت و مقبولیت جگر مرادآبادی کے  حصے میںا ٓئی۔ حالانکہ اس زمانے کے معروف نقاد حضرت نیاز فتح پوری نے اس طرح اظہار ِ خیال کیا تھا کہ:

’’جگر کے یہاں دعوت فکر کم اور دعوتِ کام و دہن زیادہ ہے۔‘‘

اور یوں بھی رائے زنی کی تھی کہ ’’متعدد بار میں نے مشاعروںمیں جگر کے اشعار پر بے ساختہ داد دی لیکن گھر آکر بہت افسوس ہوا کہ اِس معمولی شعر پر کس طرح داد دی جاسکتی ہے۔‘‘ ہر چند ان کی ابتدائی شاعری میں فکر و فن کی وہ بلندی نہیں پائی جاتی جو ان کے ہم عصر شعرا حسرت موہانی، فانی بدایونی، اصغر گونڈوی، فراق گورکھپوری جگر بریلوی وغیرہ کے کلام میں ملتی ہیں۔ پھر بھی رشید احمد صدیقی نے حسرت، فانی، اصغر، فراق اور جگر کو غزل کے نشاۃ الثانیہ کا پیروکار ٹھہرایا ہے کیونکہ ان شعرائے کرام نے میدانِ غزل میں ایسی مساعیِ جمیلہ کی کہ غزل ایک بار پھر اپنی تمام تر رعنائیوں اور دلربائیوں کے ساتھ مسندِ شاعری پر جلوہ افروز ہوگئی۔ جگر رئیس المتغزلین ٹھہرے صرف اس لیے کہ ان کی پوری شاعری عشقیہ رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ اپنے مجموعۂ کلام ’شعلۂ طور‘ میں انھوں نے خود درج کیا ہے:

’’میری شاعری غزل تک ہی محدود ہے اور چونکہ حسن و عشق ہی میری زندگی ہے اس لیے بعض مستثنیات کو چھوڑ کر کبھی دوسرے میدان میں قدم رکھنے کی جرأت نہ کرسکا۔‘‘

بنارس میں پیدا ہوئے اور مرادآبادی کہلائے جانے والے جگر فطری شاعر تھے۔ چہرے مہرے اور حلیے بشرے سے ان میں تھوڑی سی بھی جاذبیت نہ تھی۔ میانہ قد، چھریرے بدن کے سیاہ فام بشر تھے مگر ترنم ان کے رگ و پے میں سمایا ہوا تھا۔ خدا نے ایک خاص قسم کا لحنِ داؤدی انھیں ودیعت کیا تھا، جب وہ مشاعرے میں غزل پڑھتے تھے تو ان کے والہانہ انداز اور ساحرانہ ترنم سے سامعین کیا در و دیوار جھوم اٹھتے تھے۔ شاید اسی لیے ایک دلنواز شخصیت بن کر ابھرے۔ ان کی شاعری میں عشقیہ رنگ کی جھلکیاں یہاں وہاں ملتی ہیں کیونکہ وہ بذات خود عشق و عاشقی کی بدنام وادیوں سے گزرے ہیں اور اس کے لیے طوائفوں سے بھی بیاہ رچائے۔ مستزاد یہ کہ بادہ نوشی نے انھیں اور دیوانگی و وارفتگی بخش دی تھی۔ میکشی اور شاعری ان کے لیے لازمۂ زندگی بن گئی تھیں۔ خود کہا ہے       ؎

جگر کی بادہ کشی ان دنوں معاذاللہ

جب آپ دیکھیں گے غرقِ شراب دیکھیں گے

ملحوظ رہے کہ ان کی شعری کائنات صرف تین شعری مجموعوں ’داغ جگر‘، ’شعلۂ طور‘ اور ’آتش گل‘ تک محدود ہے۔ بعد میںان کا کلام ’یادجگر‘ کے نام سے ڈاکٹر محمد اسلام نے شائع کرایا تھا۔ جگر کی شاعری کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ان کا مطالعہ بہرحال لازمی ہے۔ ان کا اولین مجموعہ شعری ’داغ جگر‘ 1924 میں مرزا احسان احمد ایڈوکیٹ نے طبع کرایا تھا جس میں 1903 سے 1922 تک کی غزلیات شامل ہیں جس میں ہلکی پھلکی رسمی شاعری کے نمونے ملتے ہیں، مثلاً       ؎

نقش وفا کا رنگ مٹایا نہ جائے گا

مل بھی گیا جو زہر تو کھایا نہ جائے گا

ان کو جلا کے اور پشیماں ہوئے جگر

یہ کیا خبر تھی ہوش میں آیا نہ جائے گا

دوسرا مجموعہ ’شعلہ طور‘ 1942 میں شائع ہوا۔ اس دوران جگر صاحب کے ربط و ضبط اصغر گونڈوی سے زیادہ بڑھ گئے تھے، اس لیے ان کے کلام میں اصغر کے رنگ تصوف کی جھلک ملتی ہے اور شعور و ادراک کی پختگی کا احساس بھی ہوتا ہے، مثلاً      ؎  

شاعر فطرت ہوں میں جب فکر فرماتا ہوں میں

روح بن کر ذرے ذرے میں سما جاتا ہوں میں

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

اک حسن کا دریا ہے اک نور کا طوفاں ہے

اس پیکر خاکی میں یہ کون خراماں ہے

آتش گل‘ کے نام سے تیسرا شعری مجموعہ 1954 میں پاکستان سے شائع ہوا۔ یہی وہ مجموعہ ہے جس پر ساہتیہ اکادمی نے جگر کو پانچ ہزار روپے کے انعام سے نوازا تھا اور یہی وہ مجموعہ ہے جس کے ذریعے وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ فکر کی گہرائی، خیال کی طرفگی اور فن کی پختگی دیکھناا ہو تو یہ سبھی خصوصیات ’آتش گل‘ میں ملیں گی       ؎

ترے عشق کی کرامت یہ اگر نہیں تو کیا ہے

کبھی بے ادب نہ گزرا مرے پاس سے زمانہ

دل بن گیا نگاہ، نگہ بن گئی زباں

آج اک سکوت شوق قیامت ہی ڈھا گیا

جنونِ سجدہ کی معراج ہے یہی شاید

کہ تیرے در کے سوا کوئی آستاں نہ رہا

تو محبت کو لازوال بنا

زندگی کو اگر نہیں ہے ثبات

بلاشبہ جگر نے بہت سے معرکۃ الآرا شعر کہے جو زبان زد عام بھی ہوئے ہیں۔ راقم الحروف کے چند پسندیدہ اشعار ملاحظہ ہوں         ؎

اک لفظ محبت کا ادنیٰ پر فسانہ ہے

سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے

کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے

ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے

وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ

جو دلوں کو فتح کرلے، وہی فاتح زمانہ

محبت صلح بھی پیکار بھی ہے

یہ شاخ گل بھی تلوار بھی ہے

دل گیا، رونقِ حیات گئی

غم گیا، ساری کائنات گئی

آئی جوان کی یاد تو آتی چلی گئی

ہر نقش ماسواکو مٹاتی چلی گئی

اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں

فیضانِ محبت عام سہی، عرفانِ محبت عام نہیں

اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے

تو پھر یہ کیسے کٹے زندگی کہاں گزرے

پھول کھلے ہیں گلشن گلشن

لیکن اپنا اپنا دامن

ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں

ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

جگر بریلوی بھی جگر مرادآبادی کی طرح ایک بلند پایہ شاعر تھے مگر ناقدوں کی نظروں میں نہیں چڑھ سکے اور نہ ہی انھوں نے سستی شہرت کے لیے اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارے۔ علی سکندر صرف نویں پاس تھے اور ان کا خاندان مولویوں کا تھا جب کہ شام موہن لال نے بریلی کالج سے گریجویشن کی ڈگری لی تھی۔ دادا رائے بہادر منشی درگا پرشاد اور والد رائے بہادر کنہیا لال عالم و فاضل، رئیس، زمیندار اردو فارسی انگریزی زبانوں کے ماہر تھے۔ منشی درگاپرشاد انگریزی حکومت کے زمانے میں بھی اپنی قابلیت کی بنا پر انسپکٹر آف اسکولس رہے، بعدہٗ آنریری مجسٹریٹ بھی بنائے گئے۔ اس جگر کے والد بھی ڈپٹی انسپکٹر آف اسکولس کے عہدے پر فائز رہے۔ شاعر بھی تھے اور دل تخلص فرماتے تھے۔ خود جگر نے مشن اسکول میں سرکاری نوکری کی اور پھر نائب تحصیلدار بن کر نامور ہوئے۔ اس جگر نے عاشقی نہیں کی۔ بیوی کے علاوہ کسی غیرعورت کو دیکھنا گوارا نہیں کیا۔ شراب نوشی سے بھی کوسوں دور رہے۔ بے ایمانی اور ایذارسانی کو گناہ سمجھنے والے پارسا چال چلن والے جگر کا اصول تھا۔ Help ever- hurt never۔ حسرت موہانی کے طرز پر انھوں نے بھی کہا تھا     ؎

کارِ سرکاری بھی، رنج عشق و فکر شعر بھی

مرد میدان وفا ہے کوئی ہم سبا اور بھی

وہ جگر صرف شاعر تھے اور صرف تین شعری مجموعوں کے خالق جگر ’یہ‘ جگر سخنور ہونے کے ساتھ نثرنگار بھی تھے اور کئی کتابوں کے باضابطہ مصنف، مرادآباد والے جگر غزل کے رسیا تھے جب کہ بریلی کے جگر نے کئی مثنویاں، مسدس، رباعیات و منظومات کا ذخیرہ چھوڑا ہے۔ ملاحظہ ہوں ان کی چند مطبوعات جن کی تفصیل ’پرتوِ الہام‘ میں دیکھی جاسکتی ہے     ؎

مطبوعات  نثر: اردو ہندی، ہندوستانی (1938)، یاد رفتگاں (1944)، یادگارِ نظر (1945)، حدیث خودی (1959)، صحت زبان، اردو زبان پر ایک تحقیقاتی نظر (1969)

مطبوعات نظم: پیام ساوتری (1954)، رنگ و بو، کائستھ درپن، رس  (1960)۔

اس سلسلے میں جگر کے لائق صاحب زادے رادھے موہن رائے نے ’پرتو الہام‘ کے پیش لفظ میں بتایا ہے کہ:

’’جگر کا تعارف ان کی شاعری سے بہتر اور کہاں مل سکتا ہے۔ جگر اپنے وقت کی جانی مانی ادبی شخصیت تھے۔ اردو  نثر اور نظم دونوں میںا نھوں نے جو کچھ لکھا، لاثانی تھا، غزل کو تو انھوں نے ایک نیا آیام دیا۔ رباعی اور قطعہ سے لے کر نظم، مسدس، مثنوی، تنقیدی مضامین میں کامل تھے مگر جہاں ان کا مسدس ’پپیہا اور پی کہاں‘ اپنی طرح کاا نوکھا نمونہ ہے وہیں مثنوی ’پیام ساوتری‘ ہندی سنسکرتی، دھرم اور فلسفے کی اردومیں انوکھی رچنا ہے۔ جگر نے نثر میں مضامین، سوانح عمری، تنقید و تبصرہ، مزاحیہ مضامین، بچوں کے لیے نظمیں اور ڈرامے وغیرہ بھی اونچے پایے کے لکھے۔

ملحوظ رہے کہ جب وہ میرٹھ میں مقیم تھے تو مالک رام، گوپی چندنارنگ، ویریندر پرشاد سکسینہ بدایونی جیسی شخصیات ان سے ملنے آتی تھیں۔ ویریندر پرشاد سکسینہ نے ’جگر بریلوی‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی تھی جسے ساہتیہ اکادمی نے سنہ 2000 میں شائع کیا ہے۔ یوپی سرکار نے جگر کی ادبی خدمات کو مدنظر انعام و اعزاز سے بھی نوازا تھا۔ جگر کے لائق صاحبزادوں موظف پروفیسر مادھوموہن رائے جامی اور موظف وائس پرنسپل رادھے موہن رائے نے اگست 2012 میں جگر کی 344 غزلوں پر مشتمل مجموعہ کلام پرتوِ الہام‘ شائع کیا ہے جس میں 1923 سے لے کر 1967 کی عہدوار غزلیات شامل ہیں جو خاکسار کی نظر میں تخیل، تفکر اور تصوف کے اعتبار سے نہایت بلند پایہ اور ان سے اہل فن و ہنر بخوبی یہ جان سکیں گے کہ ’تغزل‘ کسے کہتے ہیں۔ جگر مرادآبادی کو ’رئیس المتغزین‘ کہنے والے جگر بریلوی کے صرف کچھ مطلع دیکھیں اور اندازہ لگائیں کہ وہ کس پایے کے شاعر تھے      ؎

فریب خوردۂ دیوار و در نہیں ہوں میں

جو خم ہو دیر و حرم میں وہ سر نہیں ہوں میں

کچھ فکر نہ کر، تدبیر نہ کر، تدبیر سے ہمدم کیا ہوگا

جو سانس لیے سے بڑھتا ہے وہ درد بھلا کم کا ہوگا

ایسی بھی بعض گھڑیاں آتی ہیں زندگی میں

سو رہیے زہر کھا کر آتا ہے بس یہ جی میں

گل و گوہر میں، مہ و اختر میں پنہاں نکلا

وہی اک شعلہ جو دل میں میرے رقصاں نکلا

آدمی وہ آدمی ہے درد جس کے دل میں ہے

ورنہ مٹی کے سوا کیا مشت آب و گ میں ہے

کفر کو قربان یا ایماں کو قرباں کیجیے

ہوسکے تو دل میں پیدا درد انساں کیجیے

برنگِ شمع غم کی آگ میں ہر لحظہ جلتے ہیں

تمھیں جو چاہتے ہیں نور کے سانچے میں ڈھلتے ہیں

بڑی قسمت سے پہلو میں دلِ اندوہگیں آیا

غمِ الفت سے ہم کو اپنی ہستی کا یقیں آیا

نہیں خودبینیاں عبث منظور

پردۂ دل میں ہے کوئی مستور

لیجیے تابانی عالم کے ساماں ہوگئے

دل کے ذرے اڑ کے ہر جانب پریشاں ہوگئے

آخر میں ایک مقطع         ؎

رعنائیِ خیال سے نا آشنا ہوں میں

وہ رنگ شعر میں ہے جو خون ِ جگر میں ہے

ہماری تمھاری صدی میں جگر اجمیری بھی ہوئے ہیں جو پیدا تو گلابی شہر جے پور میں ہوئے مگر کچھ عرصے دارالخیر اجمیر میں رہ کر اجمیری کا لاحقہ لگا لیا۔ دراصل ان کے والد اللہ بخش غوری کا اجمیر میں زرکوبی دستکاری کا کارخانہ تھا اس لیے تیس سال تک اجمیر شریف میں مقیم رہے۔ شاعری میں مغل اجمیری سے زانوئے تلمذہ تہہ کیا جو مضطر خیرآبادی کے شاگرد تھے۔ مرزا مغل نے ایک انجمن ’فروغِ ادب‘ بنام سے تشکیل کی تھی جو ہر سال ایک کل ہند مشاعرے کااہتمام کرتی تھی۔ جگر اس انجمن کے سکریٹری کے عہدے پر فائز تھے۔ مشاعرے میں حضرت جگر مرادآبادی کوبھی مدعو کیا جاتا تھا اس طرح پیر و برناجگروں کی سخن سنجیاں اجمیرمیں گونجتی تھیں۔ سید فضل المتین نے لکھا ہے کہ ’’جگر اجمیری  طرحی نشستوں کے شاعر تھے۔ پابندی سے شریک ہونے والے اور طرحی غزلیں کہنے والے شاعر تھے۔‘‘ اس ضمن میں واضح ہو کہ 1964 میں بمقام جودھپور ایک سہ روزہ کل راجستھان اور سمپوزیم اور کل ہند مشاعرہ منعقد ہوا تھا۔ مشاعرے کا مصرعۂ مطروحہ اصغر گونڈوی کا مشہور مصرع   ع

مجھ سے دیکھا  نہ گیا حسن کا رسوا ہونا

دیا گیا تھا۔ جگر اجمیری کو راقم الحروف نے بھی وہاں غزل پڑھتے دیکھا اور سنا تھا۔ مطلع و مقطع ملاحظہ ہو   ؎ 

حسنِ یوسفؑ پہ زلیخا ترا شیدا ہونا

ہائے وہ مصر میں گھر گھر ترا چرچا ہونا

عشق والے کہیں رسوائی سے ڈرتے ہیں جگر

عشق والوں کا تو اک کھیل ہے رسوا ہونا

اجمیرمیں اس زمانے کے بزرگ شعرا مولانا معنی، مولانا خنداں، ساغر اجمیری، بابو ارمان وغیرہ سے ان کی صحبتیں رہیںا ور ان کی شعری نشستوں سے بخوبی فیضیاب ہوئے۔ بعد ازاں وہ 1925 میں جے پور منتقل ہوگئے۔ اسی سلسلے میں انھوں نے ’اپنی بات‘ کے تحت خود لکھا ہے:

’’ہندوستان کی آزادی کے دو سال قبل جے پور سکونت رہی۔ مسلسل 20 سال تک جے پور میں نشستوں میں شرکت کرنا اور آل انڈیا پیمانے کے مشاعروں میں شرکت کرتا رہا۔ اس دور کے بزرگ حضرات مولانا منصور علی بسمل آگاہی، مولانا کوثر سے فیض یاب ہوا۔ احترام الدین شاغل، ایوب صاحب قمر واحدی، عشقی، احمر، پارسا جیسے دوستوں کا ساتھ رہا۔

پیشہ آبا کو برقرار رکھنے اور وسعت دینے کے لیے 1970 میں وہ بمبئی میں منتقل ہوگئے اور 1980 سے 1997 تک کا زمانہ ملک عراق، شہر کربلا اور بغداد میں گزارا مگر ہر جگہ شعری اور ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ بمبئی میںبھی ان کا ادبی حلقہ تھا۔ آرزو لکھنوی، کامل چاندپوری، اشرف سرحدی، انجم رومانی، حسن کمال، فنا کانپوری، یوسف مینائی، استاد پرتو، شکیب بنارس، کالی داس گپتا رضا وغیرہ سے ان کی ملاقاتیں رہا کرتی تھیں۔ بالآخر 87 سال کی عمر میں 2003 میں بمبئی میں ہی وفات پائی۔

جگر اجمیری کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ وہ نامور شاعر تو تھے مگر جگر مرادآبادی اور جگر بریلوی کی طرح قدآور سخنور نہیں تھے۔ ان کے کلام کا مجموعہ ’ورق ورق حسن و عشق‘ کے نام سے جنوری 2013 میں ممبئی سے شائع ہوا ہے جس کے مرتب جگر کے پسر محمد سلیم غوری ہیں جس کے مطالعے سے ہر کس و ناکس پر یہ واضح ہوگا کہ جگر اجمیری قدیم کلاسیکی شاہراہِ سخن پر گامزن تھے۔ عشق بازی اور بادہ نوشی ان کے مسلک میں بھی حرام تھی۔ ترقی پسندی اور جدیدیت سے انھوں نے کوئی واسطہ نہیں رکھا۔ پورا کلام قدیم رنگ سخن کا آئینہ دار ہے۔ بنیادی طو رپر وہ غزل کے شاعر تھے لیکن اجمیر اور بغداد میں رہنے کی وجہ سے نعوت اور مناقب بھی انھوں نے خوب کہے ہیں مگر ان کے جذبات و احساسات ’تغزل‘ کی صورت میں ہی شعر بن کر ڈھلتے تھے۔ پیرایۂ بیان صاف ستھرا ہے اور ہر بات بغیر لاگ لگاؤکے برملا کہی ہے۔ کچھ اشعار یہاں وہاں سے اٹھا کر درج کرتا ہوں تاکہ اس حساس شاعر کی شعریت اور کیفیت سے آپ بھی آگاہ ہوجائیں        ؎

وہ جی کے کیا کرے چمن روزگار میں

جس کا چمن اجڑ گیا فصل بہار میں

رخ روشن کی قسم، زلف پریشاں کی قسم

حلقۂ کفر میں رہتا ہوں مسلماں ہوکر

میں اپنے آپ سے بھی ان دنوں بیگانہ رہتا ہوں

خدا جانے یہ راہ عشق میں کیسا مقام آیا

کبھی کانٹوں سے بھی میں نے کیا ہے پیار اے ہمدم

کبھی پھولوں سے بھی میں نے بچایا اپنے دامن کو

جب اے جانِ جگر تجھ کو جگر نے دیکھنا چاہا

تو آئینہ اٹھایا اور صورت دیکھ لی اپنی

بہ وقتِ دید ڈرتا ہوں نہ یہ انجام ہوجائے

میں ان کو دیکھنا چاہوں نظر ناکام ہوجائے

عاشقی کھیل نہیں ہے بڑی مشکل ہے جناب

یہ جگر مانگے ہے، دل مانگے ہے، جاں مانگے ہے

مرے پاس کچھ نہیں ہے یہ درست یہ بجا ہے

مرے پاس جب کہ تم ہو، مرے پاس کیا نہیں ہے

ہم ایسے جیے ہیں شبِ فرقت کی سحر تک

سو بار گلے آکے قضا ہم سے ملی ہے

عشق معصوم کی بلا جانے

کیا بھلائی ہے، کیا  برائی ہے

شعر، شاعر سے ذرا حسن بیاں مانگے ہے

جس کو کہتے ہیں غزل سادہ زباں مانگے ہیں

عبارت مختصر، جگر مرادآبادی ہوں کہ جگر بریلوی یا پھر جگر اجمیری مجھے تینوں ہی عزیز ہیں کہ انھوں نے عروس سخن کی مشاطگی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور خزینۂ غزل میں اپنے اشعار درِ شہوار سے قابل القدر اضافے کیے ہیں۔ جب تک اردو شاعری عالم امکاں میں دھوم مچاتی رہے گی، ان کے نام بھی بہرحال زندہ و تابندہ رہیں گے۔

 

Mukhtar Tonki

Kali Paltan Road

Pul Mohd Khan

Tonk- 304001 (Rajasthan)

Mob.: 9214826684

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو کے تین جگر، مضمون نگار: مختار ٹونکی

  اردو دنیا، دسمبر 2024 راقم التحریر کے زیرمطالعہ جگر تخلص والے تین نامور شعرا رہے ہیں اور تینوں ہی اپنی فکر رسا اور طرز ادا کے اعتبار سے من...