26/7/18

تمباکو مضمون نگار حکیم ایس حبیب الرحمن






مسکرات یعنی نشہ ایک ایسی بیماری ہے جو سمندر کی طرح بے شمار شاخیں رکھتی ہیں جن میں بعض بڑی اور بعض خاص ہوتی ہیں۔ مسکرات کا استعمال عموماً آدمی کو مدہوش کردیتا ہے۔ مسکرات کے بحر پایاں کی سب سے بڑی شاخ تمباکو ہے جو کھانے پینے اور سونگھنے کی شکل میں اختیار کی جاتی ہے۔
تمباکو وہ ضرر رساں شے ہے جس کو حضرتِ انسان جانتے ہوئے بھی استعمال کرتا ہے۔ اس کی زہر افشانی کم و بیش اس کے ہر حصے میں ہوتی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق 62 فیصد انسان اس کو کسی نہ کسی شکل میں استعمال کرتا ہے۔ 
نام: تمباکو کو عربی میں تبغ، فارسی میں تمبول، یونانی میں تلوس، کشمیری میں تمبوس، گجراتی میں تماخو، سنسکرت میں تمرا کو، سندھی میں تماس یا تماک، بنگالی میں تماکو، مرہٹی اور اردو میں تمباکو، انگریزی میں Tobacco اور تکنیکی الفاظ میں Lobia- Inflala کہا جاتا ہے۔
اقسام: ہندوستان میں ’چار‘ قسم کی تمباکو پیدا ہوتی ہے:
1۔ دیسی
2۔ یورپی
3۔ کلکتی
4۔ گجراتی
تمباکو کا ذائقہ کچھ تلخ اور خراش دار ہوتا ہے اور اس کی بو تیز و تند ہوتی ہے۔ تمباکو انتہائی درجہ گرم و خشک ہے۔
تاریخ: تمباکو اور امریکہ کی دریافت ایک ساتھ ہوئی۔ 1542 میں جب کولمبس نئی دنیا میں پہنچا تو اس نے اپنے چند ساتھیوں کو جزیرہ کیوبا کے اندرونی حالات دریافت کرنے کے لیے روانہ کیا۔ ان ساتھیوں نے واپس آکر بیان کیا کہ اس جزیرہ پر ایسے آدمی بستے ہیں جن کے پاس ایک خاص جڑی ہے، جس کی بو عجیب و غریب ہوتی ہے۔ وہ لوگ اس کو کھاکر مست ہوجاتے ہیں اور اس کو جلا کر منھ میں لیتے اور منھ سے دھواں نکالتے ہیں۔ اس واقعہ کے تقریباً نصف صدی کے بعد فرانسسکو فرنانڈیز جس کو شاہ ہسپانیہ نے میکسکو کی پیداوار دریافت کرنے بھیجا تھا۔ جزیرہ کیوبا سے اس عجیب جڑی کو ہسپانیہ لایا۔
1615 میں سرتھامس جو انگلستان کے بادشاہ جیمس اوّل کا سفیر تھا۔ شہنشاہ جہانگیر کے زمانے میں ہندوستان آیا تو اپنے ساتھ تمباکو بھی لایا۔ اس طرح ہندوستانی تمباکو سے آشنا ہوئے۔ تمباکو کو تفتیش کے طو رپر سب سے پہلے انگلستان میں استعمال کیا گیا۔ شروع شروع میں تمباکو کے استعمال کی شدید مخالفتیں کی گئیں۔ انگلستان کی ملکہ الزبتھ نے تمباکو نوشی کو ممنوع قرار دیا۔ اس کے بعد جیمس اوّل نے تمباکو نوشی پر جرمانے کی سزا مقرر کی۔ اس کے جانشین شاہ چارلس نے اس حکم کو بحال رکھا۔ حکیم مومن خاں مومن نے تحفۃ المومنین میں لکھا ہے کہ بقراط کے زمانے میں ایک قسم کی بوٹی تھی جس کی چار اقسام تھیں جو شاید تمباکو تھیں اور وبائی زہر کو دور کرنے کے واسطے بوئی جاتی تھیں۔ قرین قیاس ہے کہ یہ وہی شے ہے۔
تمباکو کا استعمال شروع میں محرک اور بعد میں مضعف مسکن ثابت ہوتا ہے۔ آج کل تمباکو تین شکلوں میں عام طور پر استعمال ہوتی ہے:
(1) تمباکو نوشی: جیسے سلفا ، چلم، سگریٹ، چٹنہ، بیڑی، پائپ سگار اور حقہ وغیرہ۔ حقہ کے ذریعے سے تمباکو کا استعمال کم مضر ہے کیونکہ منھ میں آنے سے پہلے دھواں پانی میں سے ہوکر گزرتا ہے اور فاصلہ کی زیادتی کی وجہ سے تمباکو کے دھوئیں کا زہر اپنا پورا اثر نہیں دکھا سکتا۔
(2) جیسے زردہ اور اس کے مرکبات۔
(3) ناک کے ذریعے تمباکو کا استعمال۔
تمباکو کے ان ہی طریقوں کو ایک ظریف شاعر نے خوب قلم بند کیا ہے ؂
کوئی پیوے کوئی کھاوے، کوئی لیوے ناش
تمباکو کو جو اچھا کہے اس کا ستیاناس
تمباکو کا سب سے زیادہ استعمال تمباکو نوشی میں ہوتا ہے۔ انگلستان میں سب سے پہلے سروالٹر ریلے نے تمباکو نوشی کی بنیاد ڈالی اور 1565 میں تمباکو کو سگریٹ کی شکل میں استعمال کرنا شروع کیا۔ سروالٹر نے تمباکو نوشی شروع کی تو ایک دن تمباکو پیتے وقت ان کو پیاس محسوس ہوئی۔ انھوں نے اپنے ملازم سے شراب طلب کی۔ ملازم جب شراب لے کر آیا تو اس وقت سر والٹر تمباکو کا ایک کش کھینچ کر ناک اور منھ سے دھواں چھوڑ رہے تھے۔ نوکر نے جو یہ کیفیت دیکھی تو سخت متحیر ہوا اور خیال کیا کہ مالک کے جسم میں آگ لگ گئی ہے۔ اس مفروضہ آگ کو بجھانے کی غرض سے شراب کی بوتل مالک کے سر پر الٹ دی۔
دنیا کی بڑی بڑی ہستیاں تمباکو کی عادی تھیں۔ انگلستان کے مشہور شاعر ملٹن و فلسفی کارلائل ورسل وغیرہ تمباکو سے ایسے مغلوب ہوئے کہ تمام عمر اسے ترک نہ کرسکے۔
تمباکو کو بطور ناس شہنشاہ فرانس دوم نے استعمال کیا۔ 1570 میں نکوٹ نے تمباکو کے سوکھے پتے پیس کر شہنشاہ کے پاس بھجوائے تاکہ اس کے ضماد سے شہنشاہ کے سر کے درد کا علاج کیا جائے۔ اتفاقاً ہوا کے ذریعے سے یہ سفوف شہنشاہ کی ناک میں چلا گیا جس سے چھینکیں آئیں اور درد سر جاتا رہا۔ اس واقعہ کے بعد سے شہنشاہ نے تمباکو کو ناس کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ ابتدا میں شاہی خاندان کے افراد نے شہنشاہ کی تقلید کی۔ اس کے بعد یہ چیز اتنی عام ہوئی کہ ناس لینا اس زمانہ کے فیشن میں داخل ہوگیا۔ گرجوں اور عبادت گاہوں میں چھینکوں کی وجہ سے وعظ کا سننا تک مشکل ہوجاتا تھا۔ شاہ ہشتم نے ناس لینا ممنوع قرار دیا۔ لیکن بنڈک سیزدہم نے اس امتناع کو اٹھا لیا کیونکہ وہ خود ناس کا عادی تھا۔ زردے کی شکل میں تمباکو کا استعمال بالکل حال کی ایجاد ہے۔ دانتوں میں درد میں کمی ہونے کی وجہ سے اس کو پان کے ساتھ استعمال کیا جانے لگا اور جب یہ محسوس کیا جانے لگا کہ تمباکو کی وجہ سے پان کی سرخی میں خاصی دلکشی پیدا ہوجاتی ہے تو سنگھار کے شوق میں تلخ زہر کو بھی گوارا کرلیا گیا۔ 
تمباکو اور اس کے زہر سے پیدا ہونے والے امراض اسباب علامات نیز جدید تحقیقات سے حاصل نتائج کا خاکہ اب بیان کیا جاتا ہے۔ 
تمباکو کا زہر
تمباکو کے پودے کی ہر ایک جڑ میں ایک کھاری زہر ہوتا ہے جس کو نکوٹین کہتے ہیں۔ ہر ملک کی تمباکو میں یہ زہر موجود ہوتا ہے۔ نکوٹین کو تمباکو کے پتوں سے تیار کرتے ہیں۔
تمباکو کے رس کو چونے کے پانی سے ملا کر اس کا عطر کھینچا جاتا ہے۔ یہ بے رنگ ایک تیل سا ہوتا ہے ۔ صاف کرنے پر اور ہوا میں رکھنے سے بھورا سا ہوجاتا ہے۔ بو نہایت تیز بدبودار یا مانند حقے کی نلی کی بو کے۔ منھ میں رکھنے سے سخت جلن ہوتی ہے۔ پانی میں ڈالنے سے تیلوں کی طرح اوپر تیرتا نہیں بلکہ گھل جاتا ہے۔ کاربائٹ ایسڈ کے ساتھ ملانے سے نکوٹین تیز آب بن جاتا ہے۔ اگر 500 ملی گرام نکوٹین انجکشن کے ذریعہ براہ راست خون میں شامل کردی جائے تو فوری موت واقع ہوجائے گی۔
نکوٹین سے دماغ پر دو طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں:
(1) تھوڑی مقدار میں نکوٹین لینے یا ایک سگریٹ پینے سے دماغ میں ہیجان پیدا ہوتا ہے۔ اس ہیجان کو عام طور پر دیر میں محسوس کیا جاتا ہے۔ ایسے افراد میں ذہنی پستی پیدا ہوجاتی ہے۔ Policyclic Hydric Corbons پالی سائکلک ہائڈروک کاربنس طاقتور کینسر پیدا کرنے والے مادّہ ہیں۔ اگر ماں تمباکو کے استعمال کی عادی ہو تو اس کے شیرخوار بچہ کے خون میں تمباکو کے زہر (نکوٹین) کے اثرات پائے جائیں گے یعنی تمباکو کا خاص نقصان اس کے زہر نکوٹین میں ہوتا ہے۔ 
ہر سَو اونس سوکھے ہوئے تمباکو کے پتوں میں 2 اونس نکوٹین ہوتا ہے۔ 300 گرام وزن کی مچھلی ایک ملی گرام نکوٹین سے چند منٹ میں مرجاتی ہے۔ مینڈک کو مارنے کے لیے اس کے دو قطرے کافی ہیں۔ کبوتر کی چونچ پر دو قطرے نکوٹین لگا دیں تو وہ مرجائے گا۔ خرگوش کی جلد پر ایک قطرہ ڈالنے سے وہ ہلاک ہوجائے گا اور بلی و کتے کی زبان پر اگر نکوٹین کے دو قطرے ڈالیں تو وہ فوری مرجائیں گے۔ تمباکو پر تحقیق کرنے والے ایک محقق اور ماہر ایف داس نے تمباکو کے دھوئیں کو ایک جگہ جمع کرکے پانی میں حل کیا اور یہ پانی جب خرگوش کو پلایا گیا تو خرگوش کا وزن گھٹنے لگا اور وہ بیمار ہوگیا۔
نکوٹین مہلک ترین اساسی زہروں میں سے ایک ہے۔ صرف 60 ملی گرام نکوٹین ایک جوان آدمی کا عمل تنفس مفلوج کرکے اسے ہلاک کرسکتی ہے۔ سگریٹ کے ایک کش کے دھوئیں میں اوسطاً 60 ملی گرام نکوٹین ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں اب بھی فروخت ہونے والی سگریٹ اوسطاً ایک ملی گرام سے زیادہ نکوٹین رکھتی ہے۔ ضعف و نامردی، بدہضمی، سقوط اشتہا اور رعشہ کا سبب بھی تمباکو ہوسکتا ہے۔
تمباکو نوشی کے اثرات مختلف عمروں میں مختلف شکل میں نمایاں ہوتے ہیں۔ 
تمباکو میں نکوٹین کے علاوہ 19 قسم کے زہر اور ہوتے ہیں جن میں سے چند قابل ذکر ہیں:
(1) Proskagid (پروسکاجڈ) یہ مہلک زہر ہے۔ اس کی وجہ سے سر درد دوران سر اور غشائی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔
(2) ایکسرولین (Exceroline): اس کی بنا پر دماغ مختل ہوجاتا ہے اور بینائی جاتی رہتی ہے۔ یہ زہر عام طور پر گھٹیا قسم کے تمباکو میں پایا جاتا ہے۔ 
(3) نیوکلاسین Neoclacin: اس عنصر میں روغنی جز پایا جاتا ہے۔ یہ بھی بہت خطرناک قسم کا زہر ہوتا ہے۔ اس زہر کا ایک قطرہ کتے کو ہلاک کرسکتا ہے۔
(4) فرفیورل (Furfuril): یہ الکوحل Alcohol سے کئی گنا زائد زہریلے اثرات رکھتا ہے۔ اس کی مقدار ایک سگریٹ میں 2 تولہ وہسکی کے برابر ہوتی ہے۔ یہ عنصر پٹھوں کو کمزور کرتا ہے۔ دماغی اور اخلاقی کمزوریوں کا باعث بنتا ہے۔
عام مضرات ایک نظر میں
تمباکونوشی عام جسمانی طاقت کو زائل کرتی ہے۔ اس کے علاوہ کند ذہنی صرع یعنی Epilpcy و بے خوابی یعنی Insomania کمزوری دماغ Weakness of Mind اختلاج القلب اور بدحواسی کا شکار بناتی ہے۔ مزید یہ کہ اس کے مضر اثرات حواس خمسہ یعنی قوت شامہ، قوت باصرہ اور قوت ذائقہ پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ تمباکو نوشی سرطان زبان (Cancer of Tonge) بھی پیدا کرتی ہے۔ گلے کی متعدد بیماریوں کی بھی جڑ ہے۔

Dr. HKM. S Habibur Rehman
Hakeem Ajmal Khan Memorial Academy
97/128, Talaq Mahal
Kanpur (UP)


قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


25/7/18

مراسلہ نگاری اور ذرائع ابلاغ۔ مضمون نگار بدر محمدی





مراسلہ نگاری اور ذرائع ابلاغ۔
    بدر محمدی

زندگی کی بقا فطرت زندگی سے ہے اور انسانی زندگی کی اہم فطرت آبادی کے درمیان زندگی گذارنا ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم باہمی رابطہ بنائے رکھنا ضروری ہے ورنہ کاروبار زندگی منجمد ہو جائے۔ ایک دوسرے کی خبرگیری تقاضائے فطرت انسانی ہے۔ ضروریات زندگی کے لیے لوگ پھیل رہے ہیں تو آپسی رابطے کے سبب دنیا سمٹ رہی ہے۔ یہ رابطہ ان دنوں مختلف ذرائع سے ممکن ہے، جنھیں ذرائع ابلاغ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ذرائع ابلاغ پر انسان کی روزمرہ کی زندگی کا انحصار سا ہو گیا ہے کیونکہ یہ عوام کو باخبر، بیدار اور بہرہ ور کرتے ہیں۔خبروں سے آگاہی کے علاوہ مختلف شعبۂ حیات کی معلومات بھی ان سے فراہم ہوتی ہیں۔ چنانچہ بودو باش، طور طریقے اور خیالات کو ایک دوسرے سے روشناس کر ا کے باہمی اتحاد، انسیت اور اخوت کے جذبے کو ذرائع ابلاغ نے فروغ دیا ہے۔ ایک دوسرے کو اچھی طرح سے سمجھنے کا ہمیں موقع ملا ہے۔ ہم ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں شریک رہنے لگے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اب ع
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
فرد کی ذاتی خبر رسانی میں ان دنوں ٹیلی مواصلات کی بالا دستی ہے۔ ان کے ذریعے آن کی آن میں خبر پہنچ جاتی ہے۔ تاہم خطوط نویسی کی اہمیت اپنی جگہ آج بھی مسلم ہے۔ مراسلہ جتنا پر معنی اور پہلودار ہے ٹیلی مواصلات قطعی نہیں۔ خط کو آدھی ملاقات یونہی نہیں کہا گیا ہے۔ زبان و بیان کی خوبیاں مراسلے کو مکالمہ بنا دیتی ہیں۔ ’’کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کے‘‘ صرف خط نویسی سے ہی ممکن ہے۔ فون میں دوران گفتگو دماغ کا دخل ہوتا ہے جبکہ مراسلے میں دم تحریر دل کی پاسداری ہوتی ہے۔ وہ لمحاتی اور یہ دائمی چیز ہے۔ ٹیلی وسیلہ کا رگذار شے ہے جبکہ مراسلہ یادگار ورثہ۔ ڈاک و تار کا شعبہ بظاہر ٹھہرا سا لگتا ہے۔ لیکن واقعتا آج کی تاریخ میں یہ زیادہ رواں دواں ہے۔ فیکس،ای میل، فیس بک، واٹس ایپ اور ٹیوٹر نے اسے مزید تیز گامی عطا کی ہے۔ مراسلہ نگاری کی اہمیت و افادیت بدستور قائم و دائم ہے۔فیس بک اورواٹس ایپ کی اطلاعات، کمینٹ، سوال و جواب، تبادلۂ خیالات یہ سب مراسلے بازی کا حصہ ہیں۔ مذکورہ سوشل میڈیا ایک دوسرے کو جوڑنے کا کام کر رہے ہیں۔
مراسلے نے سرکاری غیر سرکاری کاموں میں اپنی جگہ بنا رکھی ہے۔ تقرری ہو یا استعفا، شکایت ہو یا مطالبہ، مراسلے کے توسط سے ہی یہ چیزیں منظر عام پر آتی ہیں۔ دفاتر کے اعلانیہ خط کے ذریعے ہی مشتہر کیے جاتے ہیں۔ مراسلہ نگاری فقط نصاب تعلیم کا حصہ نہیں بلکہ اس کی ضرورت متعدد شعبہ ہائے زندگی میں ہے، حتیٰ کہ خود ذرائع ابلاغ مراسلوں کے محتاج ہیں۔ انھیں خاص و عام کے مراسلوں کا بڑے شدومد سے انتظار رہتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ مراسلے کے توسط سے تخلیقات کی فراہمی ہوتی ہے۔ بلکہ اس لیے بھی کہ ان کی کارکردگی پر عوام کی گرانقدر رائے حاصل کی جاتی ہے۔ مراسلہ ذریعۂ ابلاغ کا آئینہ ہے جس میں اس کی شکل و صورت نظر آتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی مقبولیت کا اندازہ عوام کی پسند و ناپسند سے ہوتا ہے۔ یہ پسند و ناپسند مراسلے کے توسط سے ہی دستیاب ہوتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے اثرات کس قدر عوام پر اثر انداز ہوئے یہ تبصرہ سے ہی پتہ چلتا ہے۔
اپنے الجھے سلجھے بالوں کو ہر شخص آئینے میں دیکھنا چاہتا ہے۔ تاکہ ان کی آرائش و زیبائش کی جاسکے یہی کام عوام کے مراسلے سے ہوتا ہے۔ اس سے مضمون نگار حوصلہ پاتا ہے اور رہنمائی بھی حاصل کرتا ہے۔ اہل کاروں کوا پنی کارگذاری مزید بہتر کرنے میں مدد ملتی ہے۔ کیونکہ زبان خلق نقارۂ خدا کے مترادف ہے۔ لہٰذا ذریعۂ ابلاغ کی خدمات کا محنتانہ تب وصول ہوتا ہے جب عوام میں اس کے رد و قبول کا پتہ چلتا ہے۔مراسلہ حمایت میں بھی لکھا جاتا ہے اور مخالفت میں بھی۔ ذرائع ابلاغ کو اپنی خوبی و خامی کا اندازہ خود نہیں لگتا۔ لہٰذا وہ عوام الناس کے تبصروں پر مبنی مراسلہ نما آئینہ سے اس کے احتساب کی سعی کرتے ہیں۔ اخبارات و رسائل نے اس کے لیے کالم مخصوص کر رکھا ہے۔ جبکہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں ہفتہ وار پروگرام ہوا کرتا ہے اور پتہ بتا کر خط لکھنے کی درخواست کی جاتی ہے کہ پروگرام کیسا لگا؟ بار بار اصرار کیا جاتا ہے گذارش کی جاتی ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کی آرا کا انتظار رہے گا۔ یعنی اظہار خیال کی کھلی دعوت دی جاتی ہے۔اظہار خیال کی کھلی دعوت کس طرح دی جاتی ہے اس کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں:
’’صحت مند تبصرہ کسی بھی رسالے کو جلا بخشنے اور اسے مزید بہتر بنانے میں مدد گار ہوتا ہے۔ اس لیے ہر شمارے کے بعد ہمیں باذوق قارئین کے تبصروں اور تجزیوں کا انتظار رہتا ہے۔ اس لیے اپنے تاثرات سے ہمیں ضرور آگاہ کرتے رہیں۔ یہ قارئین کی ادبی ذمہ داری بھی ہے اور ان کی محنت اور خلوص کا نذرانہ بھی۔‘‘
(اداریہ ’ایوان اردو‘ ستمبر2016)
’’ہماری کوشش یہی رہتی ہے کہ نئے نئے موضوعات پر عمدہ مضامین شائع کیے جائیں۔ ہمیں اس میں کتنی کامیابی ملی ہے یہ آپ کے تاثرات سے اندازہ ہوگا ...... اس تعلق سے آپ کے گرانقدر مشوروں کا ہمیں انتظار رہے گا۔‘‘
(اداریہ ’فکروتحقیق‘ اکتوبر تا دسمبر 2016)
’’قارئین کے خطوط ہمارے لیے میزان کا کام کرتے ہیں ہم اپنی کاوشوں کو اس میزان پر تولتے رہتے ہیں، ساتھ ہی ہم اپنی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
(اداریہ ’زبان و ادب‘ پٹنہ جنوری 2017)
’’میں اپنے احباب سے بضد ہو کر اس بات کی درخواست کرتا ہوں کہ وہ مجھے فون، ایس ایم ایس اور ای میل کی بجائے خط لکھیں اور اپنی محبت کا ثبوت ارزاں کریں۔‘‘ 
(اداریہ ’سرسبز‘ جنوری تا مارچ 2017)
’’ہمیں قطعی کوئی دعویٰ نہیں کہ ہم نے کوئی بہت اہم کام انجام دیا ہے۔ زیر نظر شمارہ آپ کے سامنے ہے۔ ہم نے اس شمارے میں روایت سے ذرا ہٹ کے کچھ کرنے کی کوشش کی ہے۔ شمارہ حاضر ہے اسے پڑھنے کے بعد آپ کی جو بھی رائے ہو بلا جھجک ہمیں اس سے ضرور مطلع کریں۔‘‘ (اداریہ ’آج کل‘ ڈائمنڈ جوبلی نمبر جولائی2017)
قاری یا سامع کو بھی اپنے خیالات کے اظہار کی ضرورت ہوتی ہے۔گونا گوں مضامین پڑھ کر یا پروگرام سے محظوظ ہو کر اس پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں انھیں وہ قلم بند کرنا چاہتا ہے۔ جس طرح مشاعرے میں سامع کی واہ واہ بے ساختہ نکل پڑتی ہے ذرائع ابلاغ کی پیش کش پر عوام کو لب کھولنے کی چاہت ہوتی ہے۔ اس سے قاری یا سامع میں رائے زنی کا شوق پیدا ہوتا ہے اور وہ خود کو فعال ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ چنانچہ وہ مراسلے کا وسیلہ اختیار کرتا ہے۔مراسلے سے ذریعۂ ابلاغ کی رہنمائی ہی نہیں تشہیر بھی ہوتی ہے۔ اچھی پیش کش کی تعریف اور چھچھلے پن کی شکایت یعنی کارکردگی کی کمی بیشی پر اظہار خیال کر کے عوام اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔کیونکہ ایک اچھے شہری کی یہی صفت ہے۔ یہ درست ہے کہ دفتر تک پہنچنے والے سارے مراسلے منظر عام پر نہیں آتے لیکن دل کی بھڑاس تو نکلتی ہے۔ اور کتنے ایسے ہیں کہ ان کے دل میں بات آتی تو ہے مگر وہ صفحۂ قرطاس تک نہیں پہنچ پاتی۔ لیکن ہر فرد پر اثر مرتب ضرور ہوتا ہے۔ کچھ ایسے بھی مراسلے لکھے جاتے ہیں جو غیر ضروری ہوتے ہیں۔ ایسی تحریر کا مقصد محض مبصرین میں شامل ہونا رہتا ہے۔ کچھ لوگ تنقید سے زیادہ تنقیص پر زور دیتے ہیں تو کچھ لوگ ضرورت سے زیادہ تعریف پر۔ دونوں طریقے نا مناسب ہیں۔ مراسلے کو حقیقت کا آئینہ دار اور غیر جانبدار ہونا چاہیے نہ کہ طرفدار یا مخالف۔
ذرائع ابلاغ اور مراسلہ نگاری میں گہرا رشتہ دکھائی دیتا ہے۔دونوں ایک دوسرے کے محرک ہیں۔یہ رشتہ دراصل ذرائع ابلاغ اور عوام کا رشتہ ہے۔ مراسلہ نگاری ذرائع ابلاغ کی زندگی سے عبارت ہے۔ ان کی شریانوں میں اس سے خون دوڑانے کا کام لیا جاتا ہے۔ویسے ذرائع ابلاغ کا عوام سے تو رشتہ ہوتا ہی ہے مگر مراسلہ نگاری سے مزید رابطے کا پتہ چلتا ہے ۔ کسی رسالے کے اگلے شمارے کا انتظار یہ دیکھنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے کہ گذشتہ شمارے میں شائع شدہ تحریر پر رد عمل کیا ہے گویا مراسلہ خوش یا مایوس بھی کرتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کا مقصد و منشاء اور باتوں کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ان سے مقامی فنکاروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ انھیں ابھرنے اور فروغ پانے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن سارے لوگ تو فنکار ہوتے نہیں۔ لہٰذا فنکارانہ صلاحیت کی یہ کمی مراسلہ نگاری سے پوری ہو جاتی ہے۔ جو مضمون نہیں لکھ سکتے مراسلہ ہی تحریر کر کے تسکین حاصل کر لیتے ہیں۔ چنانچہ ہم بہت سارے مراسلوں میں دیکھتے ہیں کہ ان میں تخلیقی اور فنکارانہ رنگ ہوتا ہے، مضمون کا سا عکس پایا جاتا ہے۔ اور پھر خط لکھتے لکھتے وہ جناب مضمون بھی لکھنے لگتے ہیں۔ بہت سے صاحب مضمون بھی مراسلہ لکھ کر اپنے تاثرات ارسال کرتے ہیں۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ افراد کو شرکت کا موقع ملتا ہے۔
مراسلے معیاری اور غیر معیاری بھی ہوتے ہیں۔ ایک ہی فرد کے مراسلے کا معیار مختلف رسائل میں الگ الگ ہوتا ہے۔ مراسلے کی تنقیدی حیثیت بھی ہے۔ یہ ناقدانہ رائے پیش کرتا ہے۔ اس سے تنقیدی رجحان کو فروغ ملتا ہے۔ اسے نقد و تبصرہ سے موسوم کیا جانا بے جا نہیں۔ اس عمل کو علمی خراج کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ مراسلے کی صورت میں جو رائے منظرعام پر آتی ہے وہ قاری کی رائے ہوتی ہے۔ ادیب بھی مراسلہ قاری ہی کی حیثیت سے لکھتا ہے۔ مراسلہ شائقین ادب کے رد عمل کی اطلاع بلا معاوضہ قارئین تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ اسے تصحیح نامہ یا مطلق تعریف کا حصہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ یہ کھرے کھوٹے کی پہچان کرا تا ہے۔ دعوے کی دلیل پیش کرتا ہے۔ اپنی کارکردگی کی خود ستائی یا اپنی خامیوں کا محاسبہ خود ممکن نہیں لہٰذا مراسلوں کے ذریعے یہ کام عوام کے توسط سے کرایا جاتا ہے۔ عوام کی رائے سے مضمون اور صاحب مضمون کا مقام متعین کیا جاتا ہے اور وابستگان ذرائع ابلاغ اس سے صاف صاف بچ جاتے ہیں۔ وہ یہ کہہ کر دامن جھاڑ لیتے ہیں کہ مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس طرح ایک تیر سے دو شکار کی حکمت عملی اپنائی جاتی ہے۔
ذریعۂ ابلاغ کو ارسال کیا گیا مراسلہ عوام سے عوام کا رشتہ استوار کرتا ہے۔ میری مراد قلمی دوستی سے نہیں بلکہ اس لامتناہی سلسلے سے ہے جو مراسلہ نگاری سے شروع ہوتا ہے۔ اردو کے متعدد روزناموں میں ایسے معرکے دیکھے گئے ہیں کہ مراسلہ کا دوطرفہ جواب در جواب کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات مدیرمخل ہو کر اسے روک دیتے ہیں ورنہ یہ قلمی جنگ دیر تک اور دور تک چلتی رہے۔ واضح ہو کہ یہ معرکہ آرائی دلچسپی سے خالی نہیں ہوتی۔ اخبارات و رسائل خطوط فراہمی کے اور بھی طریقے اپناتے ہیں۔ مثلاً کوئی موضوع منتخب کر کے اس پر رائے عامہ طلب کی جاتی ہے۔ اور ان گرانقدر آرا کو مشتہر کیا جاتا ہے۔ حوصلہ بخش کلمات اور افادیت آمیز تاثرات سے راہیں سہل ہو جاتی ہیں۔ قاری کی رائے کی روشنی میں رسالے کو مزید بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ ا س طرح کا کام ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بھی ہوتا رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ محکمۂ ڈاک کی خدمات انجام دے کر عوام کے مابین پیغام رسانی کا کام بھی کیا کرتے ہیں۔ چند سال قبل عراق پر امریکی حملے کے دوران اس طرح کا پروگرام بی بی سی ریڈیو پر چلایا گیا تھا۔ خلیج میں مقیم ایشیائی لوگ اور ان کے لواحقین کے مابین خبروں کا تبادلہ اور خیریت کی بھرپور آگاہی کی گئی تھی۔
ریڈیو یا ٹیلی ویژن پر فون سے بھی پیغام اور خیالات بھیجے جاتے ہیں مگر خط سے جو بیان ارسال کیا جاتا ہے اس کی بات جدا گانہ ہوتی ہے۔ دونوں کا فرق سامعین و ناظرین واضح طور پر سمجھتے ہیں۔ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ مراسلہ نسبتاً زیادہ پر کشش ہوتا ہے۔ ای میل، فیکس، فیس بک، واٹس ایپ اور ٹیوٹر کی صورت میں ہی سہی مگر مراسلہ چیزے دیگر کی حیثیت رکھتا ہے۔اس الیکٹرانک عہد میں بھی ذرائع ابلاغ خطوط نویسی کی صنف کو زندہ جاوید رکھنے کی کامیاب کوشش کیے ہوئے ہیں۔ مراسلے کے حوالے سے مراسلہ نگار نہ صرف اپنا تعارف پیش کرتا ہے بلکہ تعریفی پہلو کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ اس کے اس عمل سے ذریعۂ ابلاغ کے دائرۂ کار کا پتہ چلتا ہے کہ کتنی دور تک اس کی پہنچ ہے؟ ذرائع ابلاغ سے زبان کا بھی فروغ ہوا ہے اور زبان سے ذرائع ابلاغ کو فائدہ پہنچا ہے۔ چنانچہ زبان اردو اور ذرائع ابلاغ کا رشتہ مستحکم ہے۔
مراسلہ نگاری اور ذرائع ابلاغ ایک دوسرے سے گہرے طور پر مربوط ہیں مگر ایسا نہیں کہ ایک دوسرے کے بغیر دونوں زندہ نہیں رہ سکتے۔ ذرائع ابلاغ کے بغیر بھی مراسلہ نگاری رواں دواں رہے گی اور مراسلہ کے بغیر ذرائع ابلاغ ختم نہیں ہو جائیں گے۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ عوام کے مراسلوں کے بغیر ذرائع ابلاغ متاثر ضرور ہوں گے اور یہ بات اس کی اہمیت و افادیت کے لیے کافی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کے لیے مراسلے کی وہی اہمیت ہے جو زبان کے لیے قواعد کی۔ چنانچہ مراسلہ نگاری ذرائع ابلاغ میں محض خانہ پری کے لیے مقبول نہیں بلکہ اس کے خیر مقدم کا سلسلہ ضرورتاً جاری و ساری ہے۔ اس کا دوطرفہ افادی پہلو ہے۔ اور اس عمل میں کچھ کام کی بات بھی ہو جاتی ہے۔ بہت سے مشورے بروئے کار آتے ہیں اور ان سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ مراسلے سے عوامی فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے صدائے احتجاج بلند کی جاتی ہے۔ حالات کا منظر نامہ پیش کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ حکومت تک اپنی بات پہنچائی جاتی ہے۔ ذاتی یا اجتماعی مسائل کی طرف حکام کی توجہ مبذول کرائی جاتی ہے۔ اس طرح ذرائع ابلاغ کو ارسال کیے گئے مراسلوں سے نہ صرف عوام سے عوام کا رشتہ ہموار ہوتا ہے بلکہ عوام کا حکومت سے براہ راست تعلق قائم ہوتا ہے۔
Badr Mohammadi
AT - Chandpur Fatah
P.O. - Bariarpur - 843102 (Bihar)
Cell - 9939311612
E-mail:badrmohammadi1963@gmail.com




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

23/7/18

فضیل جعفری اور لحنِ شور انگیز ۔۔ مضمون نگار:۔ پروفیسر عتیق اللہ






فضیل جعفری اور لحنِ شور انگیز
پروفیسر عتیق اللہ

فضیل جعفری بھی نہیں رہے (وفات30اپریل 2018) فضیل الہ آباد کے تھے۔ وہیں ایم اے انگریزی ادبیات تک تعلیم پائی۔ شروع ہی سے بے حد سرگرم اور فعال تھے۔ ان کے اپنے کچھ اصولِ زندگی تھے اور کچھ نظریاتِ ادب جنھیں عقیدت کی طرح انھوں نے حرزِ جاں بنا کر رکھا تھا۔ ارادے کے مضبوط تھے۔ سو ثابت قدم رہے۔ انحراف، انکار اور اپنے قول پر قائم رہنے میں کبھی اپنے آپ کو کم زورنہیں ہونے دیا۔ تھے جعفری خاندان کے فرد لیکن اپنی آن بان میں ولایتی پٹھانوں جیسا کرو فر تھا جو ایام جوانی میں شدید تھا اور یہ شدت کسی نہ کسی طور سے اورنگ آباد تک برقرار رہی، بمبئی جانے کے بعد تھوڑی سی دم لینے کی منزل بھی آئی مگر خود کو پسپائی، مورچہ چھوڑنے یا گوشہ گیری کا موقع فراہم نہیں کیا۔ میں جب 1971 میں اورنگ آباد منتقل ہوا تو وہاں ان کی یادوں کے محض کچھ نقوش لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ تھے۔ بعض حضرات کا خیال تھا کہ ان کی شخصیت میں کجی تھی لیکن وہ کج رو نہیں تھے، بعض کے لیے انا پرست، بعض کے لیے دوستوں کے دوست، اخلاق مند، بے ریا،بے لوث۔ اتنی بہت سی خوبیوں کی جو شخصیت مالک ہو اس میں ا گر تھوڑی سی کجی ہو، وہ تھوڑاسا خود سر ہو تو اسے انگیز نہ کرنے میں کوئی اور چیز مانع نہیں آسکتی۔ یہ کم نہیں کہ وہ خود سر تھے خود سِتا نہیں تھے۔ خود رائے تھے خود خواہ نہیں تھے۔ اسی لیے اردو ادبی معاشرے میں ا نھوں نے پبلک رلیشننگ پر کبھی یقین نہیں کیا۔ دربارداری سے ہمیشہ دامن کش رہے۔ ان کی فرہنگ حیات میں تشہیربازی کی کوئی قیمت نہیں تھی۔ یہی ان کی سعادتیں تھیں اور یہی انعام و اکرام۔
مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ الہ آباد یونیورسٹی کے لائق طالب علم ہونے کے باوجود وہاں اپنے لیے کوئی راہ کیوں نہیں نکال سکے یا ملازمت کے حصول میں ان کا مزاج مانع آتا رہا۔ جامعات کے شعبے عموماً امیدواروں کی اہلیت کو کم ان کی خدمت گزاری، چاپلوسی اور غلامانہ ذہنیت کو زیادہ اہل اور مستحق سمجھتے ہیں۔ فضیل جعفری مرحوم کوا ماں ملی بھی تو کہاں، سلطنتِ آصفیہ کا شہر اورنگ آباد، جسے ملک عنبر نے بسایا تھا اورنگ زیب نے جب اسے اپنا مستقر بنایا تو اس کانام اورنگ آباد ہوگیا۔جو دولت آباد سے بیس بائیس میل کے فاصلے پر واقع ہے، یہ دولت آباد وہی ہے جسے محمد بن تغلق نے ہندوستان کا دارالسلطنت قراردیا تھا۔ جب فضیل اورنگ آباد پہنچے تو محمد بن تغلق کو دولت آباد سے رخصت ہوئے تقریباً چھ سو برس ہوچکے تھے اور اورنگ زیب کاانتقال 1707 میں ہوچکا تھا۔سارا میدان خالی پڑا ہوا تھا۔ ان حالات میں اورنگ آباد میں فضیل کا ورود بامسعود ہوا جہاں بزرگوں میں مولوی یعقوب عثمانی مرحوم تھے۔ ان کے علاوہ سکندر علی وجد،جوگندرپال، قاضی سلیم، بشر نواز، قمر اقبال، شیخ عصمت جاوید، صفی الدین صدیقی، شمیم احمد، صادق، جاوید ناصر، رفعت نواز، عارف خورشید، یوسف عثمانی وغیرہ سے ادب کی انجمن آراستہ تھی۔ اس پر فضیل کی آمد آمد سونے پر سہاگا۔ جدیدیت کا بگل بج چکا تھا، سوغات، تلاش اور تخلیق کے علاوہ جس رسالے نے سارے منظرنامے کی کایا ہی پلٹ دی تھی، وہ تھا شب خون (الہ آباد) یعنی فضیل کی زاد بوم اور ترقی پسندوں کا مرکز۔ فاروقی نے شب خوں مار کے ترقی پسندوں پر ایسی ضرب لگائی کہ ادب کا میدان ایک اکھاڑے میں بدل گیا۔ وہ تو شکر کیجیے کہ اصلی ترقی پسند جنگ باز تو بڑھاپے کی کگار پر تھے اور قویٰ مضمحل ہوچکے تھے جب کہ جدیدیوں کی پلٹن نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ وہ زیادہ پرجوش، سرکش اور نئے ادبی رجحانات کا علم رکھتے تھے۔ انھیں میں فضیل جعفری بھی تھے، جو شاعر پیدا ہوئے تھے اور اپنے انداز کے منفرد غزل گو تھے لیکن انگریزی بحرِ ادبیات کے شناور بھی تھے۔ ایک تو اورنگ آباد کی فضا نے مہمیز کی دوسرے علم کا زور، تیسرے جنگ بازی کو کھیل سمجھنے کا شوق۔ بس فضیل بھی محاذ آرا ہوگئے۔ جدیدیت کی خوب وکالت کی، ترقی پسند ادیبوں کی خوب خبر لی۔ دلائل کی دھونس دی، آہنگ کو بلند رکھا، شعر شورانگیز نہ کہاہولیکن لحنِ شور انگیز ضرور رکھا۔
فضیل جعفری ان معدودے چند نقادوں میں سے ہیں، جن کی تحریروں کا مجھے شدت سے انتظار رہا کرتا تھا۔ انتظار اس لیے کہ ’بے باکی اور صاف گوئی‘ ان کی تنقیدی گفتار کی ایک نمایاں شان ہے۔ میرے نزدیک وہ محمد حسن عسکری، سلیم احمد، شمیم احمد(پاکستان) اور وارث علوی کی قبیل کے نقاد ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ فضیل محض چھیڑخانی پر اکتفا نہیں کرتے ، وہ نہ استدلال پر تاثر کی بے محابا رَوکوحاوی ہونے دیتے ہیں نہ اپنے دعوے کو دیگر غیرمتعلق جزئیات میں گم ہونے دیتے ہیں۔ فضیل جعفری کی نئی تنقیدی کتاب ’آبشار اورآتش فشاں‘ (جس میں سنہ اشاعت 2007 درج ہے اورجسے قومی کونسل دہلی نے شائع کیا ہے) ان کے اِسی شعار کے ساتھ مخصوص ہے اور جو گیارہ طویل مقالات پر مشتمل ہے۔
فضیل جعفری کی پہلی تنقیدی تصنیف ’چٹان اور پانی‘ (1974) شروع سے آخرتک کئی متنازع ادبی مسائل کومحیط تھی۔ ان دنوں فضیل جعفری جو ان العمر تھے اور وہ جدیدیت کازمانہ عروج تھا۔ محمودہاشمی ، خلیل الرحمن اعظمی، وزیر آغا، شمس الرحمن فاروقی اورگوپی چند نارنگ کی تحریریں جدیدیت کا روزمرہ بن گئی تھیں۔ احتشام حسین اور عمیق حنفی کے مناظرے نے ان مباحث میں کافی شدت و حدت پید اکردی تھی۔ اسی دوران فضیل بھی جدیدیت کے ایک اہم علم بردار کے طور پر ابھرے اور اس فتیلے کو آگ دکھانے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔ ’چٹان اور پانی‘ میں انھوں نے ترقی پسندی کے برخلاف جدیدیت کو قائم کرنے نیز جدیدیت سے متعلق ان شکوک وشبہات کو دور کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا جو قریب ترین پیش رَووں کی طرف سے پیدا کیے گئے تھے۔
فضیل اردو ادب کے استاد نہیں تھے اس لیے نصابی قسم کا کوئی مضمون ’چٹان اور پانی‘ میں عنوان نہیں بنا۔ بیش تر مقالات متنازعہ، ہنگامہ خیز، بحث طلب اور معاصر ادبی مسائل کو مختص تھے۔ زبان بہت ڈھیلی ڈھالی، اکھڑی اکھڑی بلکہ اکثر صحافتی نوعیت کا شائبہ فراہم کرتی تھی۔ اس دور میں فضیل کی نظر بس مسئلے پر ہوتی تھی کہ کہیں کوئی بحث کی راہ نکل آئے تو پھر ان کو روکنا مشکل تھا۔آؤ دیکھتے نہ تاؤ پل پڑتے۔ وہ اکھاڑ پچھاڑ مچاتے کہ ادبی ماحول عین سرما کے ٹھٹھرتے ہوئے دنوں میں بھی گرماگرم ہوجاتا اور پھر یار لوگوں کی وہ داد و دہش ملتی کہ فضیل اکھاڑہ چھوڑنے پر تیار ہی نہیں ہوتے۔ بشرنواز بھی کم من چلے نہیں تھے۔ رسالوں کے کیڑے تھے۔ مجال ہے کوئی تحریر ان کی نظر سے بچ جائے۔ فضیل کو وہ اور بشر کو فضیل شہ دیا کرتے تھے۔ ایک اعتبار سے فضیل انھیں پٹری پرلے آئے۔ بشر بھائی نے ان دنوں کئی نہایت عمدہ مضامین لکھے۔ نثر بھی خوب لکھتے تھے اور فضیل سے اچھے نثر نگار تھے لیکن بشر بھائی کو بھی بس کوئی مسئلہ درکار تھا، جہاں کوئی ادبی مسئلہ کھڑا ہوا، بشر بھائی بھی اٹھ کھڑے ہوتے اور بے حد مدلل اور جامع گفتگو کرتے۔ فضیل کا انگریزی ادبیات کا پس منظر تھا اس لیے ان کی دلیلوں کی نہج کچھ اور ہوتی۔ فضیل جب تک اورنگ آباد میں ا نگریزی کے استاد رہے۔ شاعری کم کی مجادلے اور مناظرے زیادہ کیے۔ الہ آباد والے تھے اس لیے شب خون مارنا جیسے ان کی فطرت میں شامل تھا۔ معاف کیجیے گا یہ جملہ محض معترضہ تھا ورنہ فضیل کبھی شب خوں نہیں مارتے دوبدو، دو ٹوک،صاف اور شفاف گفتگو کرتے۔ا ن کے اورنگ آباد سے جانے کے بعد بشر بھائی نے بھی تنقید کاکاروبار چھوڑ دیا، قاضی سلیم اپنی عادت کے مطابق میٹر گیج گاڑی کی طرح سست رفتاری پر قائم رہے۔ سلیم بھائی کا دربار سلامت تھا، ادبی مسائل کے حل کے لیے وہی ایک محفوظ جگہ تھی اور جوگندرپال کا دم غنیمت تھا، جو پھونک پھونک کر اورنگ آباد کی ادبی فضا کو تازہ دم رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔
’آبشار اور آتش فشاں‘ کے بالترتیب دو مضامین موسوم بہ ’ساختیاتی کباب میں رد تشکیل کی ہڈی‘ اور تھیوری، امریکی شوگر ڈیڈی اور مابعدجدیدیت ‘ میں مابعد جدیدیت پر فضیل اسی طرح حملہ آور ہوئے ہیں جس طرح ’چٹان اورپانی‘ میں ترقی پسندوں کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ ان مضامین کو پڑھنے کے فوری بعد یہ ضرور محسوس ہواتھا کہ فضیل کی نگاہیں کہیں پرتھیں اورنشانے پر کوئی اورتھا۔ ورنہ دونوں مضامین میں محض ان حوالوں کو بنیاد بنا کرباتیں زیادہ بنائی گئی ہیں جو تصویر کے محض ایک رخ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ بہتر یہ ہوتا کہ گوپی چند نارنگ کو ذہن میں رکھے بغیر ان نظریات کے برمحل اوربے محل ہونے ہی پر اپنے موقف کی بنیاد رکھی جاتی جن سے اس کے تناظر کی تشکیل ہوئی ہے۔ جدیدیت خود ایک صورت حال تھی، جس نے مغرب میں مذہبی سطح پراصلاح وانکار کی روش کوہوا دی تھی اور جوبہ یک وقت ادب ہی نہیں مصوری، موسیقی اور آرچی ٹیکچر کے اسالیب پر اثرانداز ہوئی تھی۔ ایڈولف لوز کے اس تصور نے ایک اشتہار کی صورت اختیار کرلی تھی کہ Decoration is a crime لاکور بسے کا یہ تصور کہ A house is a machine for living بہت مشہور ہوا تھا۔ اسی کی تمثیل کی ایک صورت اس زمانے کے ’جوتاگھروں‘ اور ’دنبل دارعمارتوں‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ مابعد جدیدیت کے اثرات زِگمنٹ بامین اورانتھنی گڈنس وغیرہ کے عمرانیاتی مطالعوں، بین الاقوامی رابطوں پرجیمس ڈیرڈیرین اورسیاست، اخلاقیات اور شناخت وغیرہ موضوعات پر جان ارّی اور اسکاٹ لیش وغیرہ کے مابعدجدید مطالعوں سے نئی اور بدلی ہوئی صورت حال کوبخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ بالخصوص سوزان ہیکمن، اسٹیون سیڈمین، ڈونا ہراوے اور کیتھرین ہیلیس کی تحریروں سے جنسی سیاسیات، تہذیبی شناخت، سائبرنیٹکس، جدیدبرقیاتی تکنالوجی اور ادب وغیرہ میں جو غیر روایتی اوربنیاد مخالف تصورات نے راہ پائی ہے، اسے مابعد جدید صورت حال ہی سے ملحق کرکے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس مختصر تحریر میں فضیل جعفری کے خیالات پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کی نہ توگنجائش ہے اور نہ ہی مجھے مناظرہ آرائی سے کوئی خاص ذہنی نسبت ہے، بس اتنا ہی کہناچاہوں گاکہ جوحوالے انھوں نے مابعدجدیدیت کو مسترد کرنے کی غرض سے یکجا کیے ہیں وہ یقیناًکم اہم نہیں ہیں لیکن مابعد جدیدیت کے حق میں جن کتابوں کا ایک انبارسا لگا ہے، انھیں چھونے کی بھی انھوں نے زحمت نہیں کی۔ ساختیات پس ساختیات کی قدر وقیمت گھٹانے کے ساتھ ان کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ ’’شمس الرحمن فاروقی نے پہلے غالب اورپھرمیر کے صدہا اشعار کی تشریح جس انداز میں کی ہے اس کے ڈانڈے ساختیاتی اور پس ساختیاتی تنقید سے ہی ملتے ہیں (سب سے پہلے میں نے ہی ڈی کنسٹرکشن کے ذیل میں فاروقی کے اس اطلاقی عمل کی طرف اشارہ کیاتھا، جو ادبی اصطلاحات کی وضاحتی فرہنگ بابت 1996 میں شامل ہے)۔ فضیل نے خلیل مامون کے بارے میں لکھا ہے کہ ایڈمنڈہُسرل اور مارٹن ہیڈیگر کے فلسفہ لسان پر سب سے پہلے انھیں نے بحث کی تھی۔ جب کہ ستر کے دہے میں محمدعلی صدیقی نے نہ صرف انھیں اپناموضوع بنایاتھابلکہ ساختیات کے عنوان سے پہلا مضمون بھی انہیں کا لکھا ہوا ہے، جو ان کی پہلی تنقیدی کتاب ’توازن‘ میں شامل ہے۔ مظہری ساختیات یا پس ساختیات پر ہائیڈیگر کے اثرات اورہائیڈیگر زندہ خداؤں کے درمیان جیسے مضامین میں ضمیر علی بدایونی نے ایسے بہت سے پہلوؤں کا احاطہ کرلیا ہے جنھیں دیگر نقادوں نے چھوا تک نہیں تھا۔ برسبیل تذکرہ یہ بھی عرض کردوں کہ وجودیت پر سب سے پہلا مضمون بھی ضمیرعلی بدایونی کا تھا۔ یہ مضمون ’اقبال وجودیوں کے درمیان‘ کے عنوان سے ’ماہِ نو‘ (کراچی) میں شائع ہوا تھا۔
فضیل جعفری نے مابعد جدیدیت کے تعین زماں کے مسئلے پر بھی بحث کی ہے۔ جدیدیت کے آغاز اور خاتمے کے بارے میں بھی ہم کسی ایک تاریخ پر متفق نہیں ہوسکتے۔ آخری تجزیے کے طور پر بس یہی کہہ کرتسلی کرلی جاتی ہے کہ جدیدیت ایک سلسلہ جاریہ ہے اور ہردور کی جدیدیت کے اپنے تقاضے اوراپنی پہچان کے معیار ہوتے ہیں۔ ایندریو بینیٹ بھی مابعدجدیدیت کے تعلق سے اس خیال کاحامی ہے کہ مابعد جدیدیت میں ’مابعد‘ کاسابقہ خود ایک استبعاد کا حکم رکھتا ہے۔ کیوں کہ (مابعد :Post) یاعصری (جدید:Modern) کے بعد کیا۔ عصری کے بعد کیسے کوئی چیز واقع ہوسکتی ہے۔ جب کہ عصری محض عرصۂ رواں سے عبارت ہے۔ اس صورت میں وہ مابعد جدیدیت کے کسی بھی زمانی تعین کے خلاف ہے۔ جیسے جدیدیت کے لیے وقت کا تعین خودایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ اگرمعروضیت کے ساتھ غور کیا جائے تو جدیدیت کی قائم کردہ Vocabulary اور مابعد جدیدیت کی Vocabulary کے تقابل ہی سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ (خصوصاً) ادبی مطالعے میں دونوں میں جتنا اتفاق ہے اختلاف اس سے کم نہیں ہے۔ جدیدیت کی طرح مابعد جدیدیت سے بھی اختلاف کی کافی گنجائش ہے، لیکن مابعد جدیدیت نے ادب کی تفہیم کے دائرے کو وسیع بھی کیاہے اورانکار کی اس روش کو برقرار بھی رکھا ہے، جس کے لیے پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ انکاریت ایک ایسی وبا ہے جو مغربی معقولیت پسندوں کی طویل روایت، استقامت اور اخلاقی نفاست کے تئیں ایک چیلنج کا حکم رکھتی ہے۔ مابعدجدید تصورکے تناظرمیں ردتشکیل Deconsrtuction کی خاص اہمیت ہے، جس کے بارے میں یہ سوال کیاجاسکتا ہے کہ کیا واقعی اس کا مقصد ہر اس روایت کوتہس نہس کرنا ہے (جیسے جدیدیت کے تشکیلی تناظر میں مستقبلیت اور دا دائیت وغیرہ کے علاوہ ایبسرڈِٹی کے تصور کا خاص حصہ تھا جن کی بنائے ترجیح NO پر تھی)جو صدیوں سے نکھرتی،سنورتی اورمنتقل ہوتی چلی آرہی ہے یااس تنظیم ہی کی مخالفت اس کے مقصد میں شامل ہے جوانسانوں کو یکجہتی کے ساتھ زندگی بسرکرنے کے بلند کوش مقصد پر استوار ہے۔ کیا ردتشکیل کے پاس ان شبہات کا کوئی تدارک ہے کہ اس نے بھی Cynic علم و اشاعت کے لیے زمین تیار کی ہے جودانش ورانہ منظرنامے میں ایک ایسے مہلک کیڑے کی طرح ہے جو نباتات کواندر اور باہرکی طرف کھوکھلا اور چھلنی کردیتاہے۔
فضیل جعفری کی اس کتاب کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے نظریات کے مباحث کو محض دو مضامین تک محدود رکھا ہے۔ دوسرے تمام مضامین کاتعلق اطلاقی سے زیادہ عملی تنقید سے ہے۔ عملی تنقید میں فضیل پہلے سے قائم کردہ دعووں کی تکرار سے ہمیشہ گریز کرتے ہیں۔ اپنے اس عمل میں وہ دوسروں نقادوں کی طرح مغربی حوالوں کی بارات بھی نہیں سجاتے اور نہ ہی اقرار پر اکتفا کرتے ہیں کیونکہ ’انکار‘ ان کی تنقید کا بھی سب سے نمایاں کردارہے۔ ’پریم چند کو سمجھنے کی ایک ناتمام کوشش‘ اس ذیل میں توجہ کے لائق ہے۔ پریم چند کا نام اور اردو فکشن کی روایت میں ایک آرچی ٹائپ کی حیثیت رکھتا ہے۔ انتظار حسین نے جس طور پر پریم چند کو رد کیاتھا، جدیدیت نے اس سے کہیں زیادہ پریم چند کو بے اوقات ٹھہرانے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔ جس سے پریم چند کاتو کچھ نہیں بگڑا ہماری ایک پوری نوجوان نسل ضرور گم کردہ راہ ہوئی۔فضیل نے پورے استدلال اور قوت کے ساتھ پریم چند کے غیرمعمولی Contribution کو ثابت کرنے کی سعی کی ہے۔ فضیل کا یہ خیال نہایت درست ہے کہ ’’پریم چند کے افسانوں کا کینوس بہت وسیع ہے‘‘ اور یہ بھی کہ ’’منٹو، بیدی، کرشن چندر اورغلام عباس وغیرہ نے غیر محسوس طریقے سے پریم چند کی حسیت کی توسیع کی ہے‘‘ لیکن خطابت وحمایت کی دھن میں وہ بعض مقامات پر غیرضروری وکالت کرتے ہوئے عجیب سا تاثرمہیا کرتے ہیں۔ وہ یہ تو بتاتے ہیں کہ پریم چند نے جن راجپوت روایات (خود داری ، قوم پرستی اورحب الوطنی وغیرہ) کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایاہے وہ ہمارا قیمتی ورثہ ہی نہیں ہمارے لیے ایک زندہ حقیقت بھی ہے۔(تسلیم) لیکن وہ یہ نہیں بتاتے ہیں کہ ان افسانوں کی فنی قدر کیا ہے۔ محض کسی قدر کو Glorify کرنے سے کوئی بھی تحریر ، تخلیق کادرجہ حاصل نہیں کرلیتی۔ پریم چند کے یہاں اور بھی بہت کچھ ہے، جس میں تنوع بھی ہے اور جو تخلیقیت کے اعتبار سے بھی کافی اہم ہے۔
فضیل جعفری نے غلام عباس یااحمد ندیم قاسمی پر قلم اس لیے نہیں اٹھایا ہے کہ وہ ان کے نزدیک اہم فکشن نگار ہیں بلکہ اس لیے کہ انھیں مسلسل نظرانداز کیاجاتارہاہے۔ غلام عباس یقیناًایک اہم افسانہ نگار ہیں اور بقول فضیل منٹو، کرشن چندر، بیدی اورعصمت کے ساتھ ان کانام بھی لینا چاہیے۔ فضیل نے مجموعاً غلام عباس کی تکنیک کو موضوع بحث بنایاہے نیز یہ کہ کردار نگاری، اسی تکنیک کاایک حصہ ہے۔ فضیل نے غلام عباس کی کردار نگاری پر بڑی عمدہ بحث کی ہے۔ خودغلام عباس نے اپنے ایک مضمون میں لکھاتھا کہ ’’کہانی لکھنے کے لیے سب سے پہلے مجھے ایک کردار کی جستجوہوتی ہے۔ یہ کردار سچ کا یعنی گوشت پوست کا ہوناچاہیے۔ میں اسے اپنے ذہن میں تخلیق نہیں کرتا بلکہ وہ مجھے زندگی ہی میں مل جاتا ہے۔ میرا اس پر کچھ قابو نہیں ہوتا اورنہ میں اپنے نظریات اس کی زبان سے کہلواتا ہوں۔ میں تو خود چپکے چپکے اس کی باتیں سنتا اور اس کے اعمال وافعال کو دیکھتا رہتا ہوں اور یوں رفتہ رفتہ میں اس کے مزاج کو کچھ کچھ پہچاننے لگتاہوں۔ کردار اور افسانہ نگار کی اسی جان پہچان کو دراصل کردار نگاری سمجھتا ہوں۔ ‘‘ فضیل، سیاہ وسفید، بھنور، سایہ، غازی مرد، اور بردہ فروش‘ کے کرداروں پربحث کرتے ہوئے اس نکتے پر بجا طور پر خصوصی زور دیتے ہیں کہ ’وہ (غلام عباس) کرداروں کی خارجی زندگی کااستعمال محض داخلی پہلوؤں کوابھارنے اوراجاگر کرنے کے مقصد سے کرتے ہیں۔‘‘ ’عصمت چغتائی کا فن‘ عصمت کے فکشن پر لکھے ہوئے مضامین میں معرکے کا مانا جائے گا کیوں کہ فضیل نے نہایت معروضیت کے ساتھ عصمت کے مقام کا تعین کیا ہے اور بیانیہ پر ان کی مضبوط گرفت کو ایک دعوے کے طور پر پیش کیا ہے۔
’وارث علوی اورفکشن کی تنقید‘ ایک اچھا مضمون ہے۔ یہ اور بھی اچھا ہوسکتا تھا اگرفضیل ان کی کمزوریوں کو بار بار Justify کرتے ہوئے نہ چلتے۔ وارث اور ان کی تنقید فضیل کو عزیز ہے، اسی محبت آمیز رشتے نے فضیل کے قلم پربھی قدغن لگائی اور وہ کھل کر وارث کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کرسکے۔ ضرب مارنا، چمکارنا، بچالینا بھی تنقید کے داؤ پیچ ہیں، جنھیں آزمانے کا فن ہمارے فضیل جعفری کو خوب آتاتھا۔ ’آبشار اور آتش فشاں‘ بھی اس طرح کے داؤ پیچ سے خالی نہیں ہے۔
لطف کا اک مقام ہے یہ بھی
بمبئی میں فضیل کی سرگرمی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ وہ ایک کالج میں ا نگریزی کے استاد رہے۔ عہدساز اور تاریخ ساز روزنامہ ’انقلاب‘ کی ادارت کے فرائض بھی بڑی دیانت داری اور ذمہ داری کے ساتھ سنبھالے، جہاں رہے اپنی شرطوں کے ساتھ رہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ جوان العمری کے خروش میں بھی تھوڑی بہت کمی آگئی تھی۔ ہر کسی دیوار سے سر پھوڑنے سے گریزبھی کیا اور پگڑی بھی سنبھالی۔ شاعری کو بالائے طاق رکھایا شاعری کے لیے مہلت ہی کم ملی۔ معاصر تنقید پر ایک نہایت فکرانگیز تجزیاتی مطالعہ بعنوان ’کمان اور زخم‘ (1986) بمبئی کی عدیم الفرصتی کی دین ہے۔ کالج میں پڑھاتے بھی تھے اور ایک جامع منصوبے کے تحت مذکورہ عنوان کے ساتھ وفا بھی نبھاتے رہے۔ چونکہ جدید تنقیداور جدید نامور نقادوں اور مدحیہ نیز مزاحیہ تنقید کے نمونموں میں بہت کچھ ایسا تھا جسے برداشت کرنا فضیل جیسے سچے اور صاف گو صاحبِ علم کے لیے مشکل تھا، سو انھوں نے قلم کی دھار کو تیز رکھا، اپنے اسلوبِ نقد میں چھانٹ چھانٹ کے محاوروں کی مار مارتے رہے۔ سلیم احمدکی انھیں کی زبان سے خبر لی۔ آل احمد سرور، محمد حسن، شمس الرحمن فاروقی، وزیرآغا،گوپی چند نارنگ،وارث علوی وغیرہ کی تنقید کے لائق تحسین پہلوؤں کی تعریف بھی کی اور مزے لے لے کر ضربیں بھی ماریں۔ حامدی کاشمیری جیسے اہم نقاد سے انھوں نے کیوں صرفِ نظر کیا ہے؟ اس کے وہ یقیناًقصوروار ہیں۔ بس ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ انھیں معاف کرے۔
زبیر رضوی نے جدید نظم پر ایک سمینار منعقد کیا تھا۔ جس میں کلیدی خطبہ فضیل جعفری کا تھا۔فضیل نے زبانی کچھ باتیں کیں جو بے حد سرسری اور تشنہ تھیں۔ وہ مجھے کچھ بجھے بجھے نظر آئے۔ سمینار ختم ہوا، شام کو زبیر بھائی کے یہاں ان سے ملاقات ہوئی۔ اورنگ آباد کابھی ذکر نکلا۔میں نے پوچھ ہی لیا کیا بات ہے اورنگ آباد والا طرار فضیل کہاں گم ہوگیا۔
’’نہیں بھائی ا یسا کچھ نہیں ہے۔ کبھی موڈ ہوتا ہے، کبھی نہیں ہوتا‘‘ فضیل نے جواب دیا۔
’’لیکن ابھی ابھی نارنگ کی کتاب پر تو آپ نے خوب جم کر لکھا ہے۔ ضربیں مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سامعین گوش برآواز تھے کہ آج اسی فضیل جعفری کا شعلہ انگیز خطبہ ہوگا، لیکن آپ151‘‘
’’ارے یار عتیق یہ سب چھوڑو تم نے بھی کس کی یاد دلادی، زبیر بیچ میں ٹپک پڑے فضیل نے لقمہ دیا ’’بھائی سنو، ہم نے وہی لکھا جو صحیح سمجھا۔ کلیدی خطبہ وغیرہ یونیورسٹی کے اردو اساتذہ کو مبارک۔ زبیر سے کہا بھی تھا یار، اس چکرمیں مجھے مت ڈالو۔‘‘
’’فاروقی تو کسی یونیورسٹی سے منسلک نہیں ہیں، لیکن وہ تو گذشتہ تیس برسوں سے دھڑلے کے ساتھ سمیناروں کی صدارت بھی کررہے ہیں ا ور انھوں نے کلیدی خطبے بھی دیے۔‘‘
’’ارے یار آپ نے یہ کون سا مسئلہ چھیڑ دیا‘‘ زبیر بولے ’’نہیں زبیر بات یہ ہے کہ فاروقی نے جب شب خون نکالا تھا اس وقت جدیدیت کو قائم کرنا ان کا اوّلین مقصد تھا، ایلیٹ، رچرڈز، لیوس اور ولیم ایمپسن کے تصورات ان کے ذہن پر حاوی تھے۔ پھر تشریح و تفہیم کی راہ پر نکل گئے جس کے باعث جامعات اور کالجوں کے اساتذہ اور طلبا میں بھی انھیں شہرت ملی اور اس طرح تعلیمی اداروں کے دروازے بھی ان پر کھل گئے۔ ہم تو کسی شمار میں نہیں۔ نہ پہلے تھے اور نہ اب ہیں۔‘‘
’’پھر بھی موضوع نئی نظم سے متعلق تھا اور آپ نے افتخار جالب کی ایک ایسی نظم کی معنی کشائی کی تھی کہ اسے مہمل کہنے والوں کو سانپ سونگھ گیا تھا‘‘ میں نے یاد دلایا۔
فضیل نے جواباً کہا ’’یہ معنی کشائی خوب کہا، پہلی بار سنا، ارے یار ایسا نہیں ہے ان دنوں بکواس لکھنے والوں کی بھی ایک بھیڑ تھی، ابہام کا طوطا فاروقی نے نئے لکھنے والوں کو تھما دیا تھا، وہ لغو، بے معنی، مہمل لکھتے اور رسالوں کے خطوط میں خوب خوب تعریفیں حاصل کرتے۔‘‘
’’اب تو سارا منظر نامہ ہی بدل گیا ہے‘‘میں نے کہا۔
’’لیکن یہ تو ہونا ہی تھا‘‘
’’تو کیا اسے مابعد جدید دور کہنا چاہیے‘‘ میں نے انھیں چھیڑا۔
اتنے میں زبیر پھر ٹپک پڑے ’’ارے کھانا ٹھنڈا ہورہاہے، باتیں پھر کرنا۔‘‘
میں دیکھ رہا تھا کہ فضیل کی تیزیِ گفتار، نرمیِ گفتار میں بدل گئی تھی۔ ممبئی کی مصروفیت اور عمر کے تقاضے نے ان پر کچھ نہ کچھ اثر ضرور ڈالاہے۔ سنا کرتے ہیں کہ بندر بوڑھا ہوجائے لیکن گلاٹیں لگانا نہیں بھولتا، زبیر تو نہیں بھولے لیکن فضیل بھولتے ہوئے نظر آئے کیونکہ وہ باتیں مان بھی رہے تھے اور ان کے لہجے میں کرختگی شمہ برابر نہیں تھی۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ جب کوئی ہر بات ماننے لگے تو سمجھو کہ وہ بوڑھا ہوگیا ہے۔ خیر سے فضیل بوڑھے نہیں ہوئے تھے، جیسے ہم نہیں ہوئے ہیں۔ ہم نے عیش زیادہ کیا دھکے کم کھائے۔ کھائے بھی تو انھیں یاد کم رکھا۔ فضیل مرحوم نے دھکے بہت کھائے۔ انھیں جو کچھ ملا محض ان کی اہلیت کی وجہ سے۔ اورنگ آباد ہو کہ ممبئی ان کے قدردانوں کی کمی نہیں ہے۔ ویسے بھی مردم شناسوں سے کوئی دور خالی نہیں رہا۔ فضیل صاحب نے اختلاف بہتوں سے کیا لیکن دشمن کسی کو نہیں سمجھا۔ یوں بھی وہ ماضی کو کم ہی دہراتے تھے۔ غالباً بھلانے کی انھوں نے مشق کررکھی تھی۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ جن کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے وہ بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ بھلانے اور بھولنے میں جو عافیت ہے وہ یاد رکھنے میں کہاں۔ زبیر بھائی کا یہی مسئلہ تھاکہ ایک بات جب ان کے ذہن میں بیٹھ جاتی وہ نکلتی نہیں تھی۔ بالآخر اس کاانجام بھی ہم نے دیکھ لیا۔ فضیل مرحوم کی یہ بڑی خوبی تھی کہ ناگوار باتوں کو وہ ذہن سے جھٹک دیتے تھے۔ کوئی یاد بھی دلاتا توہنس کر ٹال دیتے یا ان سنی کردیتے۔ دہلی تو مکارانِ ادب کا گہوارہ ہے۔ اچھا ہی ہوا انھوں نے الہ آباد سے نکل کر دہلی کے بجائے دور دیس بسایا ورنہ کینہ وروں اور کینہ توزوں سے یہاں بچنا محال تھا۔ ویسے جو اخلاص مند اور بے لوث ہیں، ان کی گھِگِھی بندھی رہتی ہے اور پھر آپ انھیں بہ آسانی شمار بھی کرسکتے ہیں۔ یہ شہر آج بھی قصبات کا شہر ہے۔ یہاں انا گزیدہ نام نہاد علمائے ادب اور ارباب حل و عقد کے بول سندکا درجہ رکھتے ہیں، جو ہوتا آیا ہے۔ لوگوں کے پاس غیبتوں اور ریاکاریوں کے لیے وقت ہی وقت ہے۔ ممبئی واقعتاً عروس البلاد ہے۔ وقت کسی کے پاس نہیں۔ سب اپنے اپنے غموں اور مسئلوں میں گرفتار زندگی کی دوڑ میں مصروف ہیں۔ فضیل نے ممبئی بسا کر اچھا ہی کیا۔ان میں تعلّی نام کو نہیں تھی۔ جیسے اندر تھے ویسے ہی باہر تھے۔ ادب اور انسان کو جانچنے کی ان کی اپنی کسوٹی تھی جس پر وہ قانع رہے اور یہ ان کاحق تھا۔ سوچیے اس حق کا ہم میں سے کتنے لوگ استعمال کرتے ہیں۔

Prof. Ateequllah
125-C/1, Flat NBo:5, Basera Apts. Johri Farms
Jamia Nagar, Okhla
New Delhi - 110025




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے




19/7/18

شاہ عالم ثانی آفتاب کی شاعری ۔ مضمون نگار:۔ محبوب الٰہی





شاہ عالم ثانی آفتاب کی شاعری
محبوب الٰہی


ہندوستان کا مغلیہ شاہی خاندان نہ صرف یہ کہ ادب اور آرٹ کی سرپرستی کرتا رہا بلکہ اسے ادب اور فن سے گہری دل چسپی بھی تھی۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ خود شاہی خاندان کے بہت سے افراد نے قابل قدر ادبی کارنامہ انجام دیا اور نظم و نثر میں اپنی یادگار چھوڑیں۔ انھیں میں سے ایک شاہ عالم ثانی آفتاب کی اہم شخصیت ہے۔ وہ اورنگ زیب کی وفات کے بعد دسواں مغل بادشاہ تھے۔ ان کی پیدائش 14 جون 1728 عیسوی میں ہوئی۔ جب مغلیہ سلطنت رو بہ زوال ہوچکی تھی۔
شاہ عالم ثانی آفتاب کو کئی مشرقی زبانوں پر دستگاہ حاصل تھی۔ حالانکہ ان کی پوری زندگی بے چینی میں گزری لیکن انھوں نے ہر حال میں ادب اور شاعری سے اپنی دلچسپی قائم رکھی۔ مطالعے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھیں ادب اور شاعری سے یک گونہ ذہنی سکون ملتا تھا۔ اور یہی ان کی تنہائی کا بہترین ہم نشیں ہے۔
شاہ عالم ثانی آفتاب نے اردو فارسی کے علاوہ بھاشا اور پوربی میں بھی شاعری کی ہے۔ شاعری سے انھیں کس قدر دلچسپی تھی اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جب بکسر کی جنگ کے بعد انگریزوں کی سرپرستی یا نگرانی میں الہ آباد میں بے کاری کے دن گزار رہے تھے۔ ان دنوں انھوں نے اردو فارسی اور ہندی تینوں زبانوں میں شاعری کی۔ غرض یہ کہ دربدری کے باوجود انھوں نے شعر و شاعری کو ترک نہیں کیا۔ حتیٰ کہ وہ سفر میں بھی فکر سخن سے غافل نہیں رہتے تھے۔ خصوصاً جب غلام قادر خان نے شاہ عام ثانی آفتاب کی دونوں آنکھیں نکال لی تھیں تو وہ صرف کان اور زبان سے ہی دل بہلایا کرتے تھے۔ چنانچہ ان کے دور کے نامور شعرائے کرام جیسے حکیم ثناء اللہ خاں فراق، قدرت اللہ خاں قاسم، شاہ ہدایت میاں شکیبا، شیخ ولی اللہ محب وغیرہ اپنے کلام سے نابینا بادشاہ کو محظوظ کرتے اور ان کا دل بہلاتے اور بادشاہ کے کلام کی داد دیا کرتے تھے۔ خاص طور پر سید انشاء اپنے کلام کے علاوہ ادبی اور ظرافت آمیز باتوں سے شرکائے مجلس کو مسکرانے اور قہقہہ لگانے پر مجبور کردیتے تھے۔ اس لیے شاہ عالم ثانی آفتاب کو ان سے زیادہ تعلق ہوگیا تھا اور وہ سید انشا کی سب سے بڑھ کر قدردانی کرتے اور ان کی ہر ضرورت اور فرمائش پوری کردیا کرتے تھے۔

شاہ عالم ثانی آفتاب صاحب دیوان شاعر تھے۔ اردو فارسی میں ان کے کئی شعری مجموعے تھے۔ فارسی زبان میں ان کی شاعری کا مجموعہ ’مثنوی منظوم اقدس‘ کے نام سے ہے اور اردو میں ان کے دیوان کا نام ’نادراتِ شاہی‘ ہے لیکن شاہ عالم ثانی آفتاب کا اردو دیوان جس کا ذکر ڈاکٹر اشپرنگر نے دیوان آفتاب کے نام سے کیا ہے وہ اب نایاب ہے یہی حال منظوم اقدس کا ہے مگر مختلف تذکروں میں ان کے اردو اشعار ضرور پائے جاتے ہیں۔

اب وہ شاہ عالم ثانی آفتاب کے اردو، فارسی، ہندی اور پنجابی کلام کا ایک مجموعہ یعنی ’نادراتِ شاہی‘ دستیاب ہے جسے رضا لائبریری رامپور نے 1984 میں شائع کیا ہے۔ ایک اقتباس دیکھیے: 
’’یہ کتاب اس عہد کی صاف ستھری ہندی زبان کا قیمتی نمونہ ہونے کے سبب ہندی ادب کی تاریخ میں نمایاں جگہ پانے کی مستحق ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شاہ کے زمانے میں ہندوؤں کے حکومت سے کیسے تعلقات تھے قلعہ معلی میں اسلامی اور ہندوانہ کون کون سی رسمیں کس طرح برتی جاتی تھیں اور بادشاہ کو دیسی زبانوں سے کتنی دلچسپی تھی اس لیے یہ کتاب سیاسی اور سماجی حیثیت سے بھی بہت دلچسپ ہے، اور آخری صفت۔ جو اہمیت میں پہلی خوبیوں سے کس طرح کم نہیں۔ یہ ہے کہ اسے بادشاہ نے دیوناگری اور نستعلیق دونوں خطوں میں لکھوا کر اس مسئلے کا بڑا اچھا حل پیدا کردیا جو آج بھی ہندوؤں اور مسلمانوں سے طے نہیں ہوسکا۔‘‘ 
(بحوالہ مقدمہ: تقریب نادرات شاہی)
نادرات شاہی کے مطالعے سے اٹھارہویں صدی کے ان مذہبی اور معاشرتی رسوم اور تہواروں کا پتہ چلتا ہے جو ہندوؤں اور مسلمانوں میں رائج تھے۔ شاہ عالم ثانی آفتاب نے ان کا ذکر اس انداز سے کیا ہے جس سے یہ اندازہ ہی نہیں بلکہ یقین ہوتا ہے کہ عید، بقرعید، شب برات، چھٹی، بسم اللہ، منگنی، مہندی، ہولی اور دیوالی وغیرہ جیسے رسوم اور تہواروں کو وہ خود قلعے کے اندر منایا کرتے تھے۔ ذیل میں عید پر ایک شعر ملاحظہ ہو:
جو ماہ عید، اس پر رہے گی نظر جہاں
تعریف ہوسکے نہیں، کچھ تیرے ابرواں کی
(بحوالہ صف نمبر 9 نادرات شاہ)
مذکورہ شعر میں عید کا لفظ استعمال ہوا ہے لیکن اس شعر کا مرکزی خیال عید نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ماہ عید آتا ہے تو شاعر کو اپنے محبوب کی یاد شدت سے آنے لگتی ہے چونکہ عید خوشیوں کا تہوار ہے اور اس مناسبت سے محبوب کا بننا سنورنا اور ا س کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل جائے تو عاشق کے لیے راحت کا باعث بن جاتا ہے۔ اصل جو خاص بات ہے وہ یہ کہ عید کے لفظ کا استعمال شاہ عالم ثانی آفتاب نے اس شعر میں کیا ہے جس سے ان کی دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک شعر میں ’عید‘ اور ’شب برات‘ دونوں کا استعمال ایک مصرعہ میں کس خوبصورتی سے کیا ہے ذرا ملاحظہ کیجیے ؂
دن عید کا ساگر ہو، اور شب برات کی رات
تو ہی نہ ہو، تو پھر یہ دن رات کچھ نہیں ہے
(بحوالہ صفحہ نمبر 17 نادرات شاہی)
عید ہو یا شب برات بغیر محبوب کے سب بیکار ہے، مزہ تو تب ہے کہ ہر دن ہو اور ہر رات شب برات ہو عید قربان پہ بھی ایک شعر ملاحظہ کیجیے:
عید قربان، بتو، ای شاہ، مبارک باشد
ہر زمان شادی دلخواہ مبارک باشد
(بحوالہ صفحہ نمبر 78 نادرات شاہی)
اس طرح سے ہم نے دیکھا کہ ان کی شاعری میں کتنی جہات ہیں۔ اب ہولی پہ بھی ایک شعر دیکھیے:
آج رنگ کھیل آئیں سکل برج کی ناری
چووا، چندن، عبیر، گلال اور پچکاری رنگ ماری
(بحوالہ صفحہ نمبر 141، نادرات شاہی)
شاہ عالم ثانی آفتاب کی شاعری کسی مقصد کے تحت نہیں تھی اگر مقصد ان کی شاعری پہ غالب ہوتا تو مختلف تہواروں کا ذکر ان کی شاعری میں نہیں ہوتا۔ اس سے ان کی آزاد خیالی کا اندازہ ہوتا ہے جس میں گنگا جمنی تہذیب کی ترجمانی دکھائی دیتی ہے سلطنت کی پیچیدہ ذمے داریوں سے دست برداری کے بعد ان کی شاعری میں ان کے احساسات کی بھرپور عکاسی ملتی ہے۔
اٹھارہویں صدی اردو ادب و شاعری کے لحاظ سے ایک عظیم اور انقلابی دور تھا اس صدی میں سیاسی تبدیلی رونما ہوئی۔ شاہ عالم ثانی آفتاب نے اسی سیاسی اور لسانی انقلاب کی صدی میں فارسی، ہندی اور پنجابی کے علاوہ اردوئے معلی میں نہ صرف شاعری کی بلکہ نثر میں ’عجائب القصص‘ جیسی تاریخی اہمیت کی حامل داستان بھی تصنیف کی۔
شاہ عالم ثانی آفتاب کی شاعری خصوصاً غزل اگرچہ اپنے دورکے بلند پایہ اور نامور شعرا جیسے میر، سودا، اور درد کے ہم پلہ نہیں بلک دوسرے درجے کی شاعری ہے لیکن ان کی شاعری اس دور کی تہذیب اور روایت کی عکاس ہونے کے اعتبار سے یقیناًمنفرد اور ممتاز ہے۔ چنانچہ امتیاز علی خاں عرشی نے شاہ عالم ثانی آفتاب کی شاعری کے بارے میں لکھا ہے کہ:
’’ان کے شعروں کی خاص خوبی یہ ہے کہ ان میں پیچ دار خیالات، مشکل فقرے یا لفظ اور دورازکار تشبیہیں نہیں ملتیں۔ ان کی شاعری جذبات کی شاعری ہے جو کچھ دل پر گزرتی ہے۔ خوشی ہو یا رنج، آرام ہو یا تکلیف اسے سادہ طریقے سے بیان کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں شان و شکوہ کم مگر اثر زیادہ ہے۔ ممکن نہیں کہ آپ ان کے شعر پڑھیں اور پڑھ کر ان کی خوشی یا رنج کے ساتھی نہ بن جائیں۔ رہ گئی زبان تو وہ قلعہ معلی کے ممتاز رکن تھے۔ ان سے زیادہ ستھری اور پاک صاف اردو کون لکھ سکتا تھا وہ جو کچھ لکھ گئے ہیں ہمارے لیے سند ہے۔ ایسی سند جس کے روبرو میر اور سودا جیسی تحریریں بھی ناقابل قبول ہیں۔ چنانچہ آپ ان کے عہد کے شاعروں کے کلام سے مقابلہ کریں تو زبان کے لحاظ سے بڑے سے بڑے شاعر کو بھی ان کا ہم پلہ نہ پائیں گے۔‘‘
مثال کے طور پر ایک غزل ملاحظہ ہو ؂
مطلوب دل ہمارا، اے گلعزار، تو ہے
سب گل رخاں پے غالب، بے نوبہار، تو ہے
مجھ کو نہ سیر بھاوے باغوں کی اور گل کی
میرے بہار دل کی، اے میرے یار، تو ہے
سورج مکھی کیا دل اس آفتاب رو نے
اودھر کو دل پھرے ہے، جیدھر کو یار تو ہے
دل بیقرار ہر دم تیرے فراق میں، آہ!
مجھ بیقرار دل کا، پیارے، قرار تو ہے
مجھ زلف میں پھنسا ہے دل آفتاب کا اب
اب دیں رہا نہ اسلام، زناردار! تو ہے
(بحوالہ نادرات شاہی، ص 22)
مذکورہ بالا اشعار سے شاہ عالم ثانی آفتاب کے رنگ وآہنگ اورطرز ادا کا اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اس غزل میں جو کہ غزل مسلسل ہے جس کا کلیدی لفظ دل ہے اوردل کو مختلف طریقہ سے تقریبا ہر مصرعہ میں برتنے کی کوشش کی ہے اورجب کسی شاعر کے یہاں دل اور گل یا پھر گل وبلبل کی باتیں ہوں تو قاری کا ذہن عشق وعاشقی کی طرف منتقل ہوہی جاتا ہے ،شاہ عالم ثانی آفتاب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں معلوم ہوتے ہیں چونکہ جس کرب کا اظہار وہ مذکورہ غزل میں کررہے ہیں یہ انھیں کا خاصہ معلوم ہوتا ہے اور اس غزل کے پہلے ہی مصرع میں اپنے مقصدکا اظہار کررہے ہیں کہ اے گلعزار میرے دل کا مقصد توہی ہے اورتمام گلوں پر فوقیت حاصل ہے تمھاری اس خوبی اورخوبصورتی کو دیکھ کر میرا دل ہی نہیں کرتا کہ باغوں کی طرف جاؤں اور گلوں کا نظارہ کروں ہم جو کچھ بھی دیکھنا چاہتے ہیں وہ سب تمھارے یہاں موجود ہے میرے یار اوردل کے بہار بلکہ سورج مکھی کی طرح تمھارا چہرہ ہے میرادل بھی اس پھول کے مانند ہے جس پھول کا رنگ تم سے مشابہت رکھتا ہے۔غزل کے تیسرے مصرع میں شاہ عالم ثانی نے آفتاب کا لفظ استعمال کیا ہے اور ان کا تخلص بھی آفتاب ہے اسے نہایت ہی چابکدستی کے ساتھ ذومعنی استعمال کیا ہے تخلص کی وجہ سے شعر کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے پوری غزل میں خیالات کا تسلسل برقرار ہے جبکہ غزل کا ہر مصرعہ جداگانہ ہوتا ہے لیکن شاہ عالم ثانی کی یہ انفرادیت کہ غزل میں تسلسل برقرار رہتا ہے۔اور مرکزی خیال سے قاری کو بھٹکنے نہیں دیتا اگر ایک طرح سے دیکھا جائے تو ان کی بیشتر غزلوں کا رنگ ایک ہی طرح کا ہے وہی خیالات کا تسلسل یہ غزل کی خوبیوں میں شمار ہوتا ہے شاہ عالم ثانی جس وقت یہ شاعری کررہے تھے وہ اردو کا ایک طرح سے ابتدائی زمانہ ہے اورمغلیہ سلطنت کے زوال کا اس وقت ہندوستان کی دفتری زبان فارسی ہواکرتی تھی اس اثنا میں اردو نے اپنی آنکھیں کھولنی شروع کردیں۔
ڈاکٹر خاور جمیل نے شاہ عالم ثانی آفتاب کی شاعری کے اوصاف و خصوصیات کے ساتھ اس میں پائے جانے والے بعض نقائص اور عیوب پربھی روشنی ڈالی ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں:
’’انھوں نے شاعری صرف تفنن طبع کے طو رپر نہیں کی بلکہ پوری سنجیدگی سے کی ہے۔ انھیں ادب و شعر کا ملکہ قدرت نے ودیعت کیا تھا۔ شاہ عالم نے اپنے دور پر شاعر و ادیب بادشاہ کی حیثیت قابل ذکر اثرات چھوڑے ہیں۔‘‘
آگے چل کر لکھتے ہیں:
’’بحیثیت مجموعی شاہ عالم کی غزل اٹھارہویں صدی کی نمائندہ غزل ہے۔ ان کی شاعری آپ بیتی ہے جو کچھ دل پر گزرا ہے اسے بیان کردیا۔ اس تخلیقی عمل میں شاعری کی آواز میر، سودا، درد کی طرح تو نہیں ابھرتی لیکن لہجے اور زبان کالوچ، اظہار کی گرمی، جذبہ و احساس کی قوت ایسی اور اتنی ضروری ہے کہ ان کا شعر ہمیں آج بھی متاثر کرتا ہے۔‘‘
جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ غلام قادر خاں نے شاہ عالم کی دونوں آنکھیں نکال لی تھیں۔ چنانچہ آنکھ جیسی چیز سے محرومی کے بعد بھی انھوں نے جو شاعری کی اس میں انھوں نے آنکھ کو کئی طرح سے استعمال کیا ہے اور جس لاچاری اور کرب سے انھیں سابقہ پڑا اس کا اظہار انھوں نے کئی غزلوں میں اور مختلف پیرایہ میں کیا ہے۔ مثلاً ؂
لاچار ہوں میں اپنی آنکھوں کے بات یارو
کرتی ہیں دشمنی نت یہ میرے سات یارو
(بحوالہ صفحہ نمبر 5 نادرات شاہی)
یہاں دو غزلوں کے دو دو اشعار درج کیے جاتے ہیں جن میں شاہ عالم ثانی نے آنکھیں نہ ہونے کے دکھ اور لاچاری کو بیان کیا ہے ؂
کرتی ہیں میرے دل پر جو کچھ جفا سو آنکھیں
تقصیر نہیں کسو کی جو ہیں بلا سو آنکھیں
خوباں سے آشنا ہو بیگانہ ہم سے ہوگئیں
دیکھی ہی سب جہاں میں نا آشنا سوآنکھیں
(بحوالہ صفحہ نمبر 12 نادرات شاہی)
دست ستم سے اس بت ظالم کے دل کو اب
ہرگز نہیں نباہ ان آنکھوں نے کیا کیا
اے آفتاب! کر نہیں سکتا ہوں کچھ بیاں
مجھ سے سلوک واہ ان آنکھوں نے کیا کیا
(بحواہ صفحہ نمبر 22 نادراتِ شاہی)
شاہ عالم ثانی آفتاب نے نہ صرف غزلیں اور نظمیں کہی ہیں بلکہ مختلف رسوم اور تہواروں کے موقعوں کے لیے کبت، سوہرے، ترانے وغیرہ کے علاوہ شادی بیاہ کے موقعے کے لیے سیٹھنے بھی کہے ہیں۔ اس طرح تمام مواقع کے کے لیے گانے والو ں اور گانے والیو ں کو بول دیے ہیں۔ 
چنانچہ خود قلعہ معلی کے اندر ہندوؤں اور مسلمانوں کے ہر قسم کے تہوار منائے جاتے تھے جس میں شاہ عالم دلچسپی لیتے تھے اور گویوں اور مراثنوں کو قلعہ معلی اور دیگر مقامات پر ہونے والی تقریبات میں گانے کے لیے ایسی شاعری اور بول کی ضرورت پڑتی تھی۔ اس ضرورت کو شاہ عالم نے صرف محسوس ہی نہیں کیا بلکہ خود اپنی شاعری کے ذریعے وقت کی اس ضرورت کو پورا کیا۔
شاہ عالم ثانی آفتاب کی شاعری کا دائرہ محدود نہیں ہے بلکہ ان کی شاعری ہر سطح کے لوگوں کے لیے ہے جس میں تنوع ہے ایک ایسا شاعر جس نے عید بقرعیدپہ شاعری کی ہے تو ہولی دیوالی نوروزوغیرہ کو بھی اپنے احساسات کے قالب میں ڈھالا ہے اسی وجہ سے ان کی شاعری میں گنگا جمنی تہذیب کی عکاسی ملتی ہے۔بادشاہ ہونے کی وجہ سے مختلف قسم کے لوگوں سے ان کا رابطہ رہا ہے۔ چونکہ بادشاہ کے دربار میں ہرطرح کے لوگوں کا آنا جانا لگارہتا ہے اور مختلف النوع خیالات کی رعایا سے ان کا ملنا جلنا اور بات کرنا ایک اچھے بادشاہ ہونے کی دلیل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ احساسات کے شاعر تھے تو بیجا نہ ہوگا ان کی شاعری ایک ایسے دور کی غماز ہے جو کسی تحریک سے وابستہ نہیں عمر کے آخری ایام میں آنکھوں کی بینائی کے جانے کے بعد انھوں نے اپنے محض احساسات سے جس طرح کی شاعری کی ہے اسے پڑھنے کے بعد رقت سی محسوس ہونے لگتی ہے زبان نہایت ہی سادہ ہے اور ہندوستان کی رنگا رنگ تہذیب کو بھی اپنے دائرہ اختیار میں لانا شاہ عالم ثانی آفتاب کی خصوصیت معلوم ہوتی ہے مغلیہ سلطنت کا یہ ٹمٹماتا ہوا چراغ جسے وقت اور حالات نے کچھ اس طرح مجبور کردیا تھا کہ ایسے حالات میں وہ اس کے علاوہ اپنی شاعری میں کہہ بھی کیا سکتے تھے ہر کیف انہی خصوصیات کی وجہ سے ہم ان کی شاعری پر آج کے دور میں بھی نظر ڈالیں تو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی عکاس نظر آتی ہے۔


Mahboob Ilahi

F-39, Near Nisar Masjid

Shaheen Bagh, Jamia Nagar
New Delhi - 110025


Mob: 9811148447, Email:elahi1983@gmail.com



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


17/7/18

شین مظفر پوری کے افسانوں کی عصری معنویت مضمون نگار:۔ شہاب ظفر اعظمی





شین مظفر پوری کے افسانوں کی عصری معنویت
شہاب ظفر اعظمی

اب تقریباً متفقہ طور پر ناقدین ادب کی طرف سے یہ اعتراف کر لیا گیا ہے کہ شین مظفر پوری اردو کے ایک اہم، معتبر اور قابل ذکر افسانہ نگار کا نام ہے۔ عبدالمغنی، وہاب اشرفی اور دیگر ہم عصرناقدین نے ان کے مختلف الجہات کارناموں کا نہ صرف ذکر کیا ہے بلکہ ان کی تحریروں کے تعین قدر کی کوشش بھی کی ہے ۔ اس اعتراف میں تاخیر کی وجوہات بھی شمار کروائی گئی ہیں،جن میں کچھ قصور مصنف کا، کچھ حالات کا اور کچھ عہد کارہا ہے۔ میرے خیال میں شین مظفرپوری پر ان کی زندگی میں توجہ نہیں دیے جانے کے جواسباب رہے ان میں درج ذیل اہم ہیں: 
1۔ ان کی زود نویسی جس کے سبب انہیں کمرشیل رائٹر سمجھ لیا گیا۔
2۔ اس عہد کا شعر وادب جدیدیت کے حلقہء اثرمیں رہنے کے باعث ایک خاص قسم کے تخلیقی رویہ سے گزر تا رہا اور شین مظفر پوری جیسے افسانہ نگار وں کے لیے اس حلقے میں کوئی گنجائش نہ تھی۔ 

3۔ ان کی تخلیقات کی اشاعت ان فلمی اور نیم ادبی رسائل میں زیادہ ہو تی رہی جنھیں ادب کے سربرآوردہ نقاد قابل اعتنا نہیں گردانتے تھے۔
4۔ ان کے ابتدائی افسانوں سے ان پر جنسی اور رومانی افسانہ نگار کا لیبل لگا دیا گیا اور بغیر غور و فکر کیے لوگ اس لیبل کو عرصۂ دراز تک ان کے فن پر چسپاں کرتے رہے۔
مذکورہ چاروں اسباب میں کچھ حد تک صداقت کا حصہ بھی ہے مگر ناقدین نے ان کی شخصیت، ضرورت اور مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے تو جیہات پیش کی ہیں۔ میرے خیال میں کسی فنکار نے اگر 300 کہانیاں، نصف درجن ناول اور نصف درجن دیگر موضوعات پر اپنی کتابیں چھوڑی ہیں تو اس کی ہر تحریر منفرد، نمایاں اور ادب کا سنگ میل نہیں ہوسکتی۔ ادب میں فیصلے مقدار کی بنیا د پر نہیں معیار پر کیے جاتے ہیں۔ شین مظفر پوری کے افسانوں میں اگر ایک معتدبہ حصہ کمزور کہانیوں کا ہے تو ایک بڑا حصہ اچھی اور فنی طور پر کامیاب کہانیوں کا بھی ہے۔ غیر جانبدار انہ تنقید کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ وہ جہاں کمزور افسانوں کا ذکر کرکے مصنف کو معتوب ٹھہرا رہی ہے وہیں اس کے ممتاز اور معیار ی افسانوں کی نشاندہی کرکے اس کے تعین قدر کا فریضہ بھی انجام دے۔ کیا پریم چند سے عبد الصمد تک لکھنے والوں کی تمام کہانیاں معیار ی اور فنی طور پر منفرد ہیں ؟ نہیں۔ اس کے باوجود ان کی ادبی عظمت مسلم ہے۔ اس لیے کہ تعین قدر کا فریضہ مصنف کی اچھی تخلیقات کو ہی سامنے رکھ کر کیا جاتاہے۔ شین مظفر پور ی کے یہاں بھی ایسی کہانیاں بڑی تعداد میں موجود ہیں جن میں موضوعات کا تنوع، سماجی مسائل کی عکاسی، فنی ہنرمندی اور اسلوب کی سحر کاری بہ آسانی محسوس کی جاسکتی ہے۔
شین مظفرپور ی کی کہانیوں کے فنی محاسن یعنی پلاٹ، کردار، اسلوب، نقطہ نظر اور زبان وبیان پر پروفیسر عبد المغنی سے آج تک تفصیل سے لکھا جاتا رہا ہے، میں یہاں اُن باتوں کو دہراکر آپ کا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا ۔میں اپنی گفتگوشین مظفر پوری کے افسانوں میں موجود اُن مسائل تک محدود رکھوں گا جو کل بھی سماج میں موجود تھے اور آج بھی سماج ان سے جوجھ رہا ہے۔ بڑے ادب کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ ہر زمانے کے لیے ہوتا ہے یعنی اس کے افکار ونظریا ت ہر عہد پر منطبق ہوتے ہیں۔ شین مظفر پوری نے جن مسائل کو اپنی کہانیوں میں بر تا ہے ان میں سے زیادہ تر مسائل آج بھی موجود ہیں، اس لیے ان کی عصری معنویت کل کی طرح آج بھی برقرار ہے۔ شین مظفر پوری نے خود کو سماج کا ایک ذمے دارفرد اور نمائندہ مان کر اپنے زمانے کے سماج اور اس سماج کے اہم مسائل کا فنکار انہ تجزیہ اپنے افسانوں کے ذریعے پیش کرتے وقت وجدانی محرکات کے ساتھ ساتھ شعور ی عوامل سے بھی کام لیا ہے۔ انھوں نے تقریبا اُن تمام مسائل کو اپنی کہانیوں کا موضوع و محور بنایا جو ان کے گرد وپیش پھیلے ہوئے تھے اور حیرت انگیز طور پر ان مسائل میں سے بیشتر آج بھی ہمارے سماج کا حصہ ہیں۔ مثلاً حلالہ، طلاق، عقد بیوگاں، بال ودھوا کے مسائل، جہیز، کثرت ازدواج، طبقاتی تفریق، ذات پات کی تفریق، ملاوٹ، کالا بازاری، چھواچھوت، قومی یک جہتی کی کمی، فرقہ وارانہ منافرت اور اونچ نیچ کا بھید بھاؤ جیسے مسائل کل کی طرح آج بھی موجود ہیں، اس لیے ان موضوعات پر شین مظفر پوری کے افسانے آج بھی قاری کو دعوت فکر وعمل دیتے نظر آتے ہیں۔
مثال کے طور پر دلت طبقہ اور اس کے مسائل آج بھی سماج کا اہم موضوع ہیں۔ اس طبقے کی ترقی کے لیے آزادی کے بعد سے مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں۔ مگر آج اکیسویں صدی میں بھی دلت نہ صرف سماجی عدم مساوات اور مغائرت و منافرت کا شکار ہیں بلکہ خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔شین مظفر پوری نے اپنے افسانے ’’کسی سے کہنا نہیں ‘‘میں اِس طبقے کے ساتھ اعلیٰ طبقات کے رویے کو بڑی فنکاری سے پیش کیا تھا۔ ایک اسٹیمر کے مسافروں میں اونچی ذات کے لوگوں کے علاوہ دُسادھ یعنی دلت طبقے کی ایک عورت بھی ہے۔برہمن ذات اور دُسادھ ذات کی عورت اپنے شیر خوار بچوں کو لے کر عرشے پر سوئی ہوئی ہیں۔ برہمن بچہ نیند میں کروٹ لیتے ہوئے دُسادھن کے پاس پہنچ کر اس کی کھلی ہوئی چھاتیوں سے چمٹ کر دودھ پینے لگتاہے۔یہاں افسانہ نگار کا یہ جملہ کہ
’’شاید ساری دنیا ؤں کی ماؤں کے دودھ کا مزہ ایک ہی ہوتاہے اور اس کا رنگ تو ایک ہی ہوتاہے‘‘
ماں کی عظمت کی گواہی دیتاہے۔برہمن مرد کی نظر جیسے ہی بچے پر پڑتی ہے وہ فوراً اپنی بیوی کو جگا کر صورت حال بتاتا ہے۔وہ لپک کر دسادھن کی چھاتی سے بچے کو جیسے نوچ لیتی ہے۔دسادھن بھی اپنے بچے کو گود میں لے کر بیٹھ جاتی ہے۔اسٹیمر کنارے پر لگنے والا ہوتاہے۔اسی وقت برہمن عورت دس روپے کانوٹ دسادھن کی چولی میں چپکے سے سرکا دیتی ہے اور بنتی کرتی ہے کہ وہ اس واقعہ کو کسی سے نہ بتائے۔یہی کام برہمن اسٹیمر سے اتر کر کرتاہے اور دسادھن کو پانچ کا نوٹ پکڑا دیتاہے۔تب وہ میلی کچیلی،ناکافی کپڑوں والی دسادھن عورت اپنی اہانت محسوس کرتی ہے اور دونوں نوٹوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے گنگا کی شانت اور مقدس لہروں کے سپرد کردیتی ہے۔ ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے دو قطرے ڈھلک کر گنگا کی ریت میں جذب ہو جاتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا آج اکیسویں صدی میں بھی دسادھن کی آنکھوں کے وہ آنسو خشک ہوئے ہیں؟ نہیں آج بھی سماج میں دسادھن کی وہی حیثیت ہے۔ اس لیے یہ افسانہ اکیسویں صدی کے موجودہ سماج کی بھرپور عکاسی کرتا نظر آتاہے۔
ہمارے معاشرے کی ایک سچائی یہ بھی ہے کہ ہندوؤں ہی نہیں مسلمانوں میں بھی ذات پات کی تفریق موجود ہے۔اسلام نے اگرچہ اپنی جانب سے کسی تفریق کی تعلیم نہیں دی مگر زمینی حقیقت یہی ہے کہ ہندستانی معاشرے میں اشرافیہ اور نچلے طبقے کے درمیان خلیج ہے اور اس کا اظہار بالخصوص شادی بیاہ کے مواقع پر ہوتاہے جب ہڈی سے ہڈی ملانے کی کوشش کی جاتی ہے۔شین مظفرپوری زمینی سچائیوں سے باخبر تھے اس لیے جہاں دلت استحصال پر انھوں نے اپنا احتجاج درج کیا وہیں مسلمانوں میں موجود اس برائی کابھی کھل کر اظہار کیا ہے۔ افسانہ ’عذاب‘ ملاحظہ کیجیے جو ہڈی سے ہڈی ملانے کے انتظار میں بیٹیوں کی شادی کی عمر گزاردینے کے موضوع پر مبنی ہے۔اس میں داروغہ نوشیرواں خاں عرف نوشیرخاں،اپنی اکلوتی اور چہیتی بیٹی نازی کی شادی کو صرف خاندانی لڑکا نہ ملنے کی وجہ سے ٹالتے رہتے ہیں۔ مصاحبین نے متعدد رشتے بتائے مگر سب جگہ کوئی نہ کوئی کھوٹ ملتی گئی۔ایک مصاحب نے پروفیسر امجد حسین کے لڑکے کی تعریف کی اور بات بڑھانے کی اجازت مانگی تو داروغہ نوشیرخاں نے مسکراکر کہا
’’ اس پر تو غور کیا جاسکتاہے مگر مشکل یہ ہے کہ وہاں گودا ہی گوداہے،ہڈی قلمی ہے۔
قلمی کیا ہوتی ہے؟ مصاحب نے حیرت سے پوچھا۔
میرا مطلب ہے کہ ہڈی پیوندی ہے...بھئی آپ جانتے ہیں کہ شیر کتنا ہی بھوکا ہو،مگر وہ گھاس نہیں کھا سکتا۔اور بے چارے مصاحب، خاں صاحب کا منہ تاکتے رہ گئے۔‘‘
اس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ وقت گزرتا چلا جاتاہے اور نازی کی ارمان اور امنگوں بھری جوانی کی راتیں کاٹے نہیں کٹتیں۔انجام یہ ہوتا ہے کہ گھر کا خاندانی نوکر بھیکو موقع کا فائدہ اٹھاتاہے۔یہ بات تب کھلتی ہے جب نوشیرخاں کو ایک خاندانی لڑکا مل جاتاہے اور وہ یہ بھی مان لیتاہے کہ گھر داماد بن کر رہے گا۔جس دن یہ بات طے پاتی ہے،اسی رات فجر کے وقت نازی کی ماں نے نازی کو کچھ عجیب حالت میں دیکھا۔ان کا ماتھا ٹھنکا اور کریدنے پر پتہ چلتاہے کہ نازی حاملہ ہے۔اس کا سبب بھیکو ہے جو پہلے ہی غائب ہو چکاہے۔نازی کی ماں نے بہت چاہا کہ یہ خبر نوشیر خاں تک نہیں پہنچے لیکن فجر کی نماز کو وضو کے لیے کمرے سے نکلے نوشیرخاں تک بات پہنچ جاتی ہے اور ان کی حرکتِ قلب بند ہو جاتی ہے۔افسانہ نگار کے لفظوں میں:
’’ داروغہ نوشیرخاں پر عذاب کا آخری لمحہ بھی گزر چکاتھا‘‘
کیا یہ افسانہ آج بھی ہمارے سماج کا المیہ بیان نہیں کررہا ہے؟
ملاوٹ اور کالابازاری بھی آج کا ایک بڑا مسئلہ ہے جس پر ہم حکومت کے ذریعہ اکثرو بیشتر مثبت اقدام کی بات سنتے رہتے ہیں۔مگر اناج سے دوا تک ہر چیز میں نقلی اور ملاوٹی اشیا پائی جاتی رہتی ہیں۔شین مظفر پوری نے سماج کے اِس سلگتے مسئلے کو بھی اپنے افسانہ’ثبوت‘ کا موضوع بنایاہے۔ ملک میں غذائی قلت سے پیدا ہونے والے بحران کے زمانے میں لالہ مرلی دھرن ایک طرف تو حکومت کا ہاتھ بٹاتے اور عوام کی ہمدردی بٹورتے نظر آتے ہیں لیکن پہلے وہ گیہوں میں باجرا پیسا کرتے تھے اب تو چونا،اینٹ اور مٹی پیسنے لگتے ہیں۔ان کا بیٹا مہندر بھی باپ کے راستے پر چل کر دوا کے کاروبار میں ملاوٹ کے دھندے سے دولت کا انبار لگا دیتا ہے۔لیکن اسی ملاوٹی کاروبار کے منفی اثرات سے ان کے بیٹے مہندر اور روپا کی موت ہو جاتی ہے۔پوسٹ مارٹم رپورٹ سے واضح ہوتاہے کہ ان کی موت زہریلی غذا اور نقلی دوا سے ہوئی تھی۔ لیکن اس کا کوئی پختہ ثبوت نہیں مل پاتا کہ جس تقریب میں یہ دونوں شریک ہوئے تھے اور پوریاں کھائی تھیں، اس کے لیے مرلی دھرن فلاور ملز نے ہی آٹا سپلائی کیا تھا۔ یہاں ’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘ کا مقولہ درست ثابت ہوتاہے اور ہمارے سماجی نظام کو کمزور کرنے والے ایک اہم مسئلے کی طرف قاری کو دعوت فکر دیتاہے۔
آج ہمارے سماج کا ایک بڑا مسئلہ مذہبی منافرت اور قومی یک جہتی کا کمزور ہوتا تصور بھی ہے۔سیاست اور اس کی ریشہ دوانیوں نے انسانوں کے ذہن میں زہر بھرنا شروع کردیاہے۔شین مظفر پوری کا افسانہ ’ودیا نگر کی مسجد‘ قومی یک جہتی،فرقہ وارانہ ہم آہنگی،مذہبی رواداری اور انسان دوستی کے تصور پر نہایت اثر انگیز افسانہ ہے۔یہ مسجد نچلے طبقے کے مزدور پیشہ اور مفلوک الحال باشندوں کے علاقے میں واقع ہے۔مسجد خس پوش ہے اور خستہ حال بھی۔ ایک بوڑھے میاں جی اس مسجد کے موذن بھی ہیں، امام بھی اور نمازی بھی۔یہاں بابو رام کنور جیسا سچا ہیرا بھی چمکتاہے جسے مذہبی رواداری میں اپنی مثال آپ قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ خود ایک مندر کی تعمیر چندے سے کر رہے ہیں لیکن مسجد کے اخراجات کی ذمہ داری اپنے سر لیے ہوئے ہیں۔مسجد میں جلنے والی لالٹین کے لیے تیل بھی انھیں کے گھر سے آتاہے۔اور فجر کی اذان پر نہ صرف وہ بیدار ہوتے ہیں بلکہ خالق باری کو یاد کرنے لگتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس ایک خوشحال مسلمان مبارک علی ہیں جنھیں اپنے مذہب سے چڑ ہے۔وہ غیر مسلم دوستوں اور شناساؤں کے درمیان نہ صرف مسلمان بلکہ اسلام کے تئیں توہین آمیز کلمات کے استعمال سے نہیں جھجکتے،بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں۔مسلمانوں کے عام رویّے سے موذن، امام اور نمازی میاں جی کس قدر نامطمئن اور بیزار ہیں اس کا احساس اس وقت ہو تاہے جب قریب المرگ میاں جی رام کنور کو ہی مسجد کی ذمہ داری اور نگرانی کے لیے منتخب کرتے ہیں۔میاں جی بابو رام کنور سے کہتے ہیں کہ یہ کام کسی اچھے آدمی کو سونپ کر مجھے اس ذمہ داری سے سبکدوش کر دیجیے۔چنانچہ بابو رام کنور کہتے ہیں آپ ہی بتا دیجیے وہ اچھا آدمی کون ہے؟ تو میاں جی کے منہ سے بے ساختہ نکل پڑتا ہے ’بابو رام کنور‘۔ مذہبی رواداری اور باہمی محبت کا یہ منظرنامہ آج ہمارے درمیان سے تیزی سے غائب ہو رہاہے۔شین مظفرپوری کی کہانی ہم سے اس منظرنامے کو باقی رکھنے کا تقاضا کر رہی ہے۔دراصل ہندستانی عوام نے آزادی سے قبل جو خواب دیکھے تھے آزادی کے بعد اس کی تعبیر یں حسرتناک اور اندوہ آگیں برآمد ہوئیں۔ بقول فیض ؂
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر 
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
عوام کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔ان کی تعبیر بہت بھیانک نکلی۔جس کا نتیجہ ہے کہ آج بھی سماجی تفریق قائم ہے۔آ ج بھی امیر امیر اور غریب، غریب۔ ان دونوں کے درمیان خلیج حائل ہے۔ مہاجنوں کے ہاتھوں آج بھی مزدور وں کا خون ہورہاہے،ہندو مسلم دنگے ہو رہے ہیں، چور بازاری ہو رہی ہے اور رشوت ستانی کا بازار گرم ہے۔ ذخیرہ اندوزی کا دھندہ زوروں پر ہے۔خواب اور حقیقت کے تصادم کا جو رد عمل سامنے آیا وہ شین مظفرپوری کے افسانہ ’کڑوے گھونٹ‘ کے اس قتباس میں دیکھیے:
’’ اور آج پورے ڈھیڑھ سال کے بعد میں اپنے گاؤں واپس آیاہوں۔میں ایک سال تک آگ اور خون کی ندی میں تیرتا رہا ہوں۔پہلے ملک غلام تھا،اب آزاد ہو گیاہے۔پہلے گیت اور قہقہوں کا اجارہ انگریز کے پاس تھا اب وہ ٹھیکہ بڑے لوگوں کے ہاتھ میں آگیا ہے۔ انھوں نے تمام گیت اور قہقہوں کو اپنے محلوں میں سمیٹ لیاہے۔اب تو ہر طرف موت کے راگ سنائی دیتے ہیں۔ جب ملک کے اونچے ایوانوں پر آزادی کا پرچم لہرایا گیا تھا،اس وقت بھی گیت اور قہقہے ناپید ہو گئے تھے۔چیخیں اور کراہیں فضا میں تیرتی پھرتی رہی تھیں۔فرنگی جادوگر نے نہ جانے کون سا منتر پڑھ کر پھونک دیا تھا دانت کاٹی روٹی کھانے والے بھی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے۔‘‘
اس اقتباس میں آپ شین مظفرپوری کی حقیقت نگاری اور تجربات کی سچائی کی داد دے سکتے ہیں۔ انھوں نے جن تلخ حقائق کی طرف اشارہ کیاہے وہ آج بھی متوسط طبقہ کی زندگی کی محرومیوں،الجھنوں اور نفرت آمیز معاشرہ میں زندگی بسر کرنے کی تکلیفوں کی آئینہ داری کرتے ہیں۔
مختصر یہ کہ شین مظفرپوری کے افسانے مختلف زندہ موضوعات پر بکھرے پڑے ہیں۔ان موضوعات کا تنوع دیکھ کر ایسا لگتاہے کہ اپنے سماج،اپنے عہد اور اس عہد کے مسائل پر ان کی نہایت گہری نظر تھی۔شاید ہی کوئی سماجی مسئلہ ہو جو ان کی نظر وں سے اوجھل رہا ہو۔شادی کے لیے تصویر دیکھ کر لڑکوں کو پسند ناپسند کرنے کا مسئلہ ہو یا ذات پات اور اونچ نیچ کے بھید بھاؤ کا۔فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا مسئلہ ہو یا فرقہ وارانہ فسادکا۔چھواچھوت کا مسئلہ ہو یا بے جوڑ شادی کا،انہوں نے معاشرے کے تمام زندہ مسائل کو اپنی فکر کا حصہ بنایا اور اس پر خوبصورت کہانیاں تخلیق کیں۔ جہیز کے مسئلہ پر افسانہ ’جہیز‘، کثرت ازدواج سے متعلق کہانی ’سیکنڈ ہینڈ وائف‘ اور ’نئی الف لیلہ‘، کثرت اولاد سے پیدا ہونے والے معاشی بحران پر ’بھگوان کی اِچھاّ‘، اونچی سوسائٹی کی کمزوریوں پر ’لاشوں کا ہنی مون‘ اور اخلاقی باختگی و جنسی عیاشی پر ’ اچھی بیٹی اور براآدمی‘ جیسے افسانوں میں ہمارا معاشرہ اور اس کی مختلف صورتیں دکھائی دیتی ہیں۔ انھوں نے تقریباً ان تمام مسائل پر قلم اٹھایاہے جو آج بھی ہمارے ارد گرد پھیلے ہوئے ہیں اور سنجیدہ شہری کو اس کی ذمے داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ شین مظفرپوری نے پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی سے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ:
’’ میں اس بات کا قائل ہوں کہ انسان انفرادی حیثیت سے زندہ نہیں رہ سکتا۔انسانی زندگی کے لیے سماج لازمی چیز ہے۔سماج کے تصور کے بغیر انسانی زندگی کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے انسان صرف اپنے بارے میں سوچ کر یا اپنے ذاتی مسائل کو اپنے فن اور اپنی تخلیق کا محور بنا کر اپنے فرائض کوپورا نہیں کر سکتا۔‘‘
( زبان وادب،پٹنہ، نومبر،دسمبر1996،ص53)
اس بیان سے پتہ چلتاہے کہ شین مظفر پوری کو بحیثیت ادیب سماج کے تئیں اپنی ذمے داریوں کا پورا پورا احساس تھا۔اس لیے انہوں نے سماج کے اُن مسائل کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا جن سے اُس عہد کا متوسط طبقہ دوچار تھا۔
بہترین ادب وہی ہوتاہے جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو۔ شین مظفرپوری کے افسانے اس لحاظ سے بڑے افسانے کہے جا سکتے ہیں کہ وہ عہد جس سے شین متصادم تھے اس کی ستم کوشیاں اب بھی جاری ہیں اور ان میں پیش کردہ مسائل سے آج بھی ہمار ا معاشرہ دوچارہے۔شین مظفرپوری کی کہانیاں اُس عہد کے ساتھ ساتھ ہمارے آج کے مسائل کی بھر پور نمائندگی کر رہی ہیں۔یعنی ان کی کہانیوں کی ہم عصر معنویت انہیں زندہ کہانیاں بنا رہی ہے۔ اس لیے یہ کہانیاں جب تک زندہ رہیں گی شین مظفرپوری کو بھلا کون مار سکتاہے؟
n
Dr.Shahab Zafar Azmi
Department of Urdu, Patna University
Patna- 800005 (Bihar)
Mob.: 9431152912
shahabzafar.azmi@gmail.com



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے