17/7/18

شین مظفر پوری کے افسانوں کی عصری معنویت مضمون نگار:۔ شہاب ظفر اعظمی





شین مظفر پوری کے افسانوں کی عصری معنویت
شہاب ظفر اعظمی

اب تقریباً متفقہ طور پر ناقدین ادب کی طرف سے یہ اعتراف کر لیا گیا ہے کہ شین مظفر پوری اردو کے ایک اہم، معتبر اور قابل ذکر افسانہ نگار کا نام ہے۔ عبدالمغنی، وہاب اشرفی اور دیگر ہم عصرناقدین نے ان کے مختلف الجہات کارناموں کا نہ صرف ذکر کیا ہے بلکہ ان کی تحریروں کے تعین قدر کی کوشش بھی کی ہے ۔ اس اعتراف میں تاخیر کی وجوہات بھی شمار کروائی گئی ہیں،جن میں کچھ قصور مصنف کا، کچھ حالات کا اور کچھ عہد کارہا ہے۔ میرے خیال میں شین مظفرپوری پر ان کی زندگی میں توجہ نہیں دیے جانے کے جواسباب رہے ان میں درج ذیل اہم ہیں: 
1۔ ان کی زود نویسی جس کے سبب انہیں کمرشیل رائٹر سمجھ لیا گیا۔
2۔ اس عہد کا شعر وادب جدیدیت کے حلقہء اثرمیں رہنے کے باعث ایک خاص قسم کے تخلیقی رویہ سے گزر تا رہا اور شین مظفر پوری جیسے افسانہ نگار وں کے لیے اس حلقے میں کوئی گنجائش نہ تھی۔ 

3۔ ان کی تخلیقات کی اشاعت ان فلمی اور نیم ادبی رسائل میں زیادہ ہو تی رہی جنھیں ادب کے سربرآوردہ نقاد قابل اعتنا نہیں گردانتے تھے۔
4۔ ان کے ابتدائی افسانوں سے ان پر جنسی اور رومانی افسانہ نگار کا لیبل لگا دیا گیا اور بغیر غور و فکر کیے لوگ اس لیبل کو عرصۂ دراز تک ان کے فن پر چسپاں کرتے رہے۔
مذکورہ چاروں اسباب میں کچھ حد تک صداقت کا حصہ بھی ہے مگر ناقدین نے ان کی شخصیت، ضرورت اور مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے تو جیہات پیش کی ہیں۔ میرے خیال میں کسی فنکار نے اگر 300 کہانیاں، نصف درجن ناول اور نصف درجن دیگر موضوعات پر اپنی کتابیں چھوڑی ہیں تو اس کی ہر تحریر منفرد، نمایاں اور ادب کا سنگ میل نہیں ہوسکتی۔ ادب میں فیصلے مقدار کی بنیا د پر نہیں معیار پر کیے جاتے ہیں۔ شین مظفر پوری کے افسانوں میں اگر ایک معتدبہ حصہ کمزور کہانیوں کا ہے تو ایک بڑا حصہ اچھی اور فنی طور پر کامیاب کہانیوں کا بھی ہے۔ غیر جانبدار انہ تنقید کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ وہ جہاں کمزور افسانوں کا ذکر کرکے مصنف کو معتوب ٹھہرا رہی ہے وہیں اس کے ممتاز اور معیار ی افسانوں کی نشاندہی کرکے اس کے تعین قدر کا فریضہ بھی انجام دے۔ کیا پریم چند سے عبد الصمد تک لکھنے والوں کی تمام کہانیاں معیار ی اور فنی طور پر منفرد ہیں ؟ نہیں۔ اس کے باوجود ان کی ادبی عظمت مسلم ہے۔ اس لیے کہ تعین قدر کا فریضہ مصنف کی اچھی تخلیقات کو ہی سامنے رکھ کر کیا جاتاہے۔ شین مظفر پور ی کے یہاں بھی ایسی کہانیاں بڑی تعداد میں موجود ہیں جن میں موضوعات کا تنوع، سماجی مسائل کی عکاسی، فنی ہنرمندی اور اسلوب کی سحر کاری بہ آسانی محسوس کی جاسکتی ہے۔
شین مظفرپور ی کی کہانیوں کے فنی محاسن یعنی پلاٹ، کردار، اسلوب، نقطہ نظر اور زبان وبیان پر پروفیسر عبد المغنی سے آج تک تفصیل سے لکھا جاتا رہا ہے، میں یہاں اُن باتوں کو دہراکر آپ کا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا ۔میں اپنی گفتگوشین مظفر پوری کے افسانوں میں موجود اُن مسائل تک محدود رکھوں گا جو کل بھی سماج میں موجود تھے اور آج بھی سماج ان سے جوجھ رہا ہے۔ بڑے ادب کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ ہر زمانے کے لیے ہوتا ہے یعنی اس کے افکار ونظریا ت ہر عہد پر منطبق ہوتے ہیں۔ شین مظفر پوری نے جن مسائل کو اپنی کہانیوں میں بر تا ہے ان میں سے زیادہ تر مسائل آج بھی موجود ہیں، اس لیے ان کی عصری معنویت کل کی طرح آج بھی برقرار ہے۔ شین مظفر پوری نے خود کو سماج کا ایک ذمے دارفرد اور نمائندہ مان کر اپنے زمانے کے سماج اور اس سماج کے اہم مسائل کا فنکار انہ تجزیہ اپنے افسانوں کے ذریعے پیش کرتے وقت وجدانی محرکات کے ساتھ ساتھ شعور ی عوامل سے بھی کام لیا ہے۔ انھوں نے تقریبا اُن تمام مسائل کو اپنی کہانیوں کا موضوع و محور بنایا جو ان کے گرد وپیش پھیلے ہوئے تھے اور حیرت انگیز طور پر ان مسائل میں سے بیشتر آج بھی ہمارے سماج کا حصہ ہیں۔ مثلاً حلالہ، طلاق، عقد بیوگاں، بال ودھوا کے مسائل، جہیز، کثرت ازدواج، طبقاتی تفریق، ذات پات کی تفریق، ملاوٹ، کالا بازاری، چھواچھوت، قومی یک جہتی کی کمی، فرقہ وارانہ منافرت اور اونچ نیچ کا بھید بھاؤ جیسے مسائل کل کی طرح آج بھی موجود ہیں، اس لیے ان موضوعات پر شین مظفر پوری کے افسانے آج بھی قاری کو دعوت فکر وعمل دیتے نظر آتے ہیں۔
مثال کے طور پر دلت طبقہ اور اس کے مسائل آج بھی سماج کا اہم موضوع ہیں۔ اس طبقے کی ترقی کے لیے آزادی کے بعد سے مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں۔ مگر آج اکیسویں صدی میں بھی دلت نہ صرف سماجی عدم مساوات اور مغائرت و منافرت کا شکار ہیں بلکہ خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔شین مظفر پوری نے اپنے افسانے ’’کسی سے کہنا نہیں ‘‘میں اِس طبقے کے ساتھ اعلیٰ طبقات کے رویے کو بڑی فنکاری سے پیش کیا تھا۔ ایک اسٹیمر کے مسافروں میں اونچی ذات کے لوگوں کے علاوہ دُسادھ یعنی دلت طبقے کی ایک عورت بھی ہے۔برہمن ذات اور دُسادھ ذات کی عورت اپنے شیر خوار بچوں کو لے کر عرشے پر سوئی ہوئی ہیں۔ برہمن بچہ نیند میں کروٹ لیتے ہوئے دُسادھن کے پاس پہنچ کر اس کی کھلی ہوئی چھاتیوں سے چمٹ کر دودھ پینے لگتاہے۔یہاں افسانہ نگار کا یہ جملہ کہ
’’شاید ساری دنیا ؤں کی ماؤں کے دودھ کا مزہ ایک ہی ہوتاہے اور اس کا رنگ تو ایک ہی ہوتاہے‘‘
ماں کی عظمت کی گواہی دیتاہے۔برہمن مرد کی نظر جیسے ہی بچے پر پڑتی ہے وہ فوراً اپنی بیوی کو جگا کر صورت حال بتاتا ہے۔وہ لپک کر دسادھن کی چھاتی سے بچے کو جیسے نوچ لیتی ہے۔دسادھن بھی اپنے بچے کو گود میں لے کر بیٹھ جاتی ہے۔اسٹیمر کنارے پر لگنے والا ہوتاہے۔اسی وقت برہمن عورت دس روپے کانوٹ دسادھن کی چولی میں چپکے سے سرکا دیتی ہے اور بنتی کرتی ہے کہ وہ اس واقعہ کو کسی سے نہ بتائے۔یہی کام برہمن اسٹیمر سے اتر کر کرتاہے اور دسادھن کو پانچ کا نوٹ پکڑا دیتاہے۔تب وہ میلی کچیلی،ناکافی کپڑوں والی دسادھن عورت اپنی اہانت محسوس کرتی ہے اور دونوں نوٹوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے گنگا کی شانت اور مقدس لہروں کے سپرد کردیتی ہے۔ ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے دو قطرے ڈھلک کر گنگا کی ریت میں جذب ہو جاتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا آج اکیسویں صدی میں بھی دسادھن کی آنکھوں کے وہ آنسو خشک ہوئے ہیں؟ نہیں آج بھی سماج میں دسادھن کی وہی حیثیت ہے۔ اس لیے یہ افسانہ اکیسویں صدی کے موجودہ سماج کی بھرپور عکاسی کرتا نظر آتاہے۔
ہمارے معاشرے کی ایک سچائی یہ بھی ہے کہ ہندوؤں ہی نہیں مسلمانوں میں بھی ذات پات کی تفریق موجود ہے۔اسلام نے اگرچہ اپنی جانب سے کسی تفریق کی تعلیم نہیں دی مگر زمینی حقیقت یہی ہے کہ ہندستانی معاشرے میں اشرافیہ اور نچلے طبقے کے درمیان خلیج ہے اور اس کا اظہار بالخصوص شادی بیاہ کے مواقع پر ہوتاہے جب ہڈی سے ہڈی ملانے کی کوشش کی جاتی ہے۔شین مظفرپوری زمینی سچائیوں سے باخبر تھے اس لیے جہاں دلت استحصال پر انھوں نے اپنا احتجاج درج کیا وہیں مسلمانوں میں موجود اس برائی کابھی کھل کر اظہار کیا ہے۔ افسانہ ’عذاب‘ ملاحظہ کیجیے جو ہڈی سے ہڈی ملانے کے انتظار میں بیٹیوں کی شادی کی عمر گزاردینے کے موضوع پر مبنی ہے۔اس میں داروغہ نوشیرواں خاں عرف نوشیرخاں،اپنی اکلوتی اور چہیتی بیٹی نازی کی شادی کو صرف خاندانی لڑکا نہ ملنے کی وجہ سے ٹالتے رہتے ہیں۔ مصاحبین نے متعدد رشتے بتائے مگر سب جگہ کوئی نہ کوئی کھوٹ ملتی گئی۔ایک مصاحب نے پروفیسر امجد حسین کے لڑکے کی تعریف کی اور بات بڑھانے کی اجازت مانگی تو داروغہ نوشیرخاں نے مسکراکر کہا
’’ اس پر تو غور کیا جاسکتاہے مگر مشکل یہ ہے کہ وہاں گودا ہی گوداہے،ہڈی قلمی ہے۔
قلمی کیا ہوتی ہے؟ مصاحب نے حیرت سے پوچھا۔
میرا مطلب ہے کہ ہڈی پیوندی ہے...بھئی آپ جانتے ہیں کہ شیر کتنا ہی بھوکا ہو،مگر وہ گھاس نہیں کھا سکتا۔اور بے چارے مصاحب، خاں صاحب کا منہ تاکتے رہ گئے۔‘‘
اس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ وقت گزرتا چلا جاتاہے اور نازی کی ارمان اور امنگوں بھری جوانی کی راتیں کاٹے نہیں کٹتیں۔انجام یہ ہوتا ہے کہ گھر کا خاندانی نوکر بھیکو موقع کا فائدہ اٹھاتاہے۔یہ بات تب کھلتی ہے جب نوشیرخاں کو ایک خاندانی لڑکا مل جاتاہے اور وہ یہ بھی مان لیتاہے کہ گھر داماد بن کر رہے گا۔جس دن یہ بات طے پاتی ہے،اسی رات فجر کے وقت نازی کی ماں نے نازی کو کچھ عجیب حالت میں دیکھا۔ان کا ماتھا ٹھنکا اور کریدنے پر پتہ چلتاہے کہ نازی حاملہ ہے۔اس کا سبب بھیکو ہے جو پہلے ہی غائب ہو چکاہے۔نازی کی ماں نے بہت چاہا کہ یہ خبر نوشیر خاں تک نہیں پہنچے لیکن فجر کی نماز کو وضو کے لیے کمرے سے نکلے نوشیرخاں تک بات پہنچ جاتی ہے اور ان کی حرکتِ قلب بند ہو جاتی ہے۔افسانہ نگار کے لفظوں میں:
’’ داروغہ نوشیرخاں پر عذاب کا آخری لمحہ بھی گزر چکاتھا‘‘
کیا یہ افسانہ آج بھی ہمارے سماج کا المیہ بیان نہیں کررہا ہے؟
ملاوٹ اور کالابازاری بھی آج کا ایک بڑا مسئلہ ہے جس پر ہم حکومت کے ذریعہ اکثرو بیشتر مثبت اقدام کی بات سنتے رہتے ہیں۔مگر اناج سے دوا تک ہر چیز میں نقلی اور ملاوٹی اشیا پائی جاتی رہتی ہیں۔شین مظفر پوری نے سماج کے اِس سلگتے مسئلے کو بھی اپنے افسانہ’ثبوت‘ کا موضوع بنایاہے۔ ملک میں غذائی قلت سے پیدا ہونے والے بحران کے زمانے میں لالہ مرلی دھرن ایک طرف تو حکومت کا ہاتھ بٹاتے اور عوام کی ہمدردی بٹورتے نظر آتے ہیں لیکن پہلے وہ گیہوں میں باجرا پیسا کرتے تھے اب تو چونا،اینٹ اور مٹی پیسنے لگتے ہیں۔ان کا بیٹا مہندر بھی باپ کے راستے پر چل کر دوا کے کاروبار میں ملاوٹ کے دھندے سے دولت کا انبار لگا دیتا ہے۔لیکن اسی ملاوٹی کاروبار کے منفی اثرات سے ان کے بیٹے مہندر اور روپا کی موت ہو جاتی ہے۔پوسٹ مارٹم رپورٹ سے واضح ہوتاہے کہ ان کی موت زہریلی غذا اور نقلی دوا سے ہوئی تھی۔ لیکن اس کا کوئی پختہ ثبوت نہیں مل پاتا کہ جس تقریب میں یہ دونوں شریک ہوئے تھے اور پوریاں کھائی تھیں، اس کے لیے مرلی دھرن فلاور ملز نے ہی آٹا سپلائی کیا تھا۔ یہاں ’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘ کا مقولہ درست ثابت ہوتاہے اور ہمارے سماجی نظام کو کمزور کرنے والے ایک اہم مسئلے کی طرف قاری کو دعوت فکر دیتاہے۔
آج ہمارے سماج کا ایک بڑا مسئلہ مذہبی منافرت اور قومی یک جہتی کا کمزور ہوتا تصور بھی ہے۔سیاست اور اس کی ریشہ دوانیوں نے انسانوں کے ذہن میں زہر بھرنا شروع کردیاہے۔شین مظفر پوری کا افسانہ ’ودیا نگر کی مسجد‘ قومی یک جہتی،فرقہ وارانہ ہم آہنگی،مذہبی رواداری اور انسان دوستی کے تصور پر نہایت اثر انگیز افسانہ ہے۔یہ مسجد نچلے طبقے کے مزدور پیشہ اور مفلوک الحال باشندوں کے علاقے میں واقع ہے۔مسجد خس پوش ہے اور خستہ حال بھی۔ ایک بوڑھے میاں جی اس مسجد کے موذن بھی ہیں، امام بھی اور نمازی بھی۔یہاں بابو رام کنور جیسا سچا ہیرا بھی چمکتاہے جسے مذہبی رواداری میں اپنی مثال آپ قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ خود ایک مندر کی تعمیر چندے سے کر رہے ہیں لیکن مسجد کے اخراجات کی ذمہ داری اپنے سر لیے ہوئے ہیں۔مسجد میں جلنے والی لالٹین کے لیے تیل بھی انھیں کے گھر سے آتاہے۔اور فجر کی اذان پر نہ صرف وہ بیدار ہوتے ہیں بلکہ خالق باری کو یاد کرنے لگتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس ایک خوشحال مسلمان مبارک علی ہیں جنھیں اپنے مذہب سے چڑ ہے۔وہ غیر مسلم دوستوں اور شناساؤں کے درمیان نہ صرف مسلمان بلکہ اسلام کے تئیں توہین آمیز کلمات کے استعمال سے نہیں جھجکتے،بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں۔مسلمانوں کے عام رویّے سے موذن، امام اور نمازی میاں جی کس قدر نامطمئن اور بیزار ہیں اس کا احساس اس وقت ہو تاہے جب قریب المرگ میاں جی رام کنور کو ہی مسجد کی ذمہ داری اور نگرانی کے لیے منتخب کرتے ہیں۔میاں جی بابو رام کنور سے کہتے ہیں کہ یہ کام کسی اچھے آدمی کو سونپ کر مجھے اس ذمہ داری سے سبکدوش کر دیجیے۔چنانچہ بابو رام کنور کہتے ہیں آپ ہی بتا دیجیے وہ اچھا آدمی کون ہے؟ تو میاں جی کے منہ سے بے ساختہ نکل پڑتا ہے ’بابو رام کنور‘۔ مذہبی رواداری اور باہمی محبت کا یہ منظرنامہ آج ہمارے درمیان سے تیزی سے غائب ہو رہاہے۔شین مظفرپوری کی کہانی ہم سے اس منظرنامے کو باقی رکھنے کا تقاضا کر رہی ہے۔دراصل ہندستانی عوام نے آزادی سے قبل جو خواب دیکھے تھے آزادی کے بعد اس کی تعبیر یں حسرتناک اور اندوہ آگیں برآمد ہوئیں۔ بقول فیض ؂
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر 
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
عوام کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔ان کی تعبیر بہت بھیانک نکلی۔جس کا نتیجہ ہے کہ آج بھی سماجی تفریق قائم ہے۔آ ج بھی امیر امیر اور غریب، غریب۔ ان دونوں کے درمیان خلیج حائل ہے۔ مہاجنوں کے ہاتھوں آج بھی مزدور وں کا خون ہورہاہے،ہندو مسلم دنگے ہو رہے ہیں، چور بازاری ہو رہی ہے اور رشوت ستانی کا بازار گرم ہے۔ ذخیرہ اندوزی کا دھندہ زوروں پر ہے۔خواب اور حقیقت کے تصادم کا جو رد عمل سامنے آیا وہ شین مظفرپوری کے افسانہ ’کڑوے گھونٹ‘ کے اس قتباس میں دیکھیے:
’’ اور آج پورے ڈھیڑھ سال کے بعد میں اپنے گاؤں واپس آیاہوں۔میں ایک سال تک آگ اور خون کی ندی میں تیرتا رہا ہوں۔پہلے ملک غلام تھا،اب آزاد ہو گیاہے۔پہلے گیت اور قہقہوں کا اجارہ انگریز کے پاس تھا اب وہ ٹھیکہ بڑے لوگوں کے ہاتھ میں آگیا ہے۔ انھوں نے تمام گیت اور قہقہوں کو اپنے محلوں میں سمیٹ لیاہے۔اب تو ہر طرف موت کے راگ سنائی دیتے ہیں۔ جب ملک کے اونچے ایوانوں پر آزادی کا پرچم لہرایا گیا تھا،اس وقت بھی گیت اور قہقہے ناپید ہو گئے تھے۔چیخیں اور کراہیں فضا میں تیرتی پھرتی رہی تھیں۔فرنگی جادوگر نے نہ جانے کون سا منتر پڑھ کر پھونک دیا تھا دانت کاٹی روٹی کھانے والے بھی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے۔‘‘
اس اقتباس میں آپ شین مظفرپوری کی حقیقت نگاری اور تجربات کی سچائی کی داد دے سکتے ہیں۔ انھوں نے جن تلخ حقائق کی طرف اشارہ کیاہے وہ آج بھی متوسط طبقہ کی زندگی کی محرومیوں،الجھنوں اور نفرت آمیز معاشرہ میں زندگی بسر کرنے کی تکلیفوں کی آئینہ داری کرتے ہیں۔
مختصر یہ کہ شین مظفرپوری کے افسانے مختلف زندہ موضوعات پر بکھرے پڑے ہیں۔ان موضوعات کا تنوع دیکھ کر ایسا لگتاہے کہ اپنے سماج،اپنے عہد اور اس عہد کے مسائل پر ان کی نہایت گہری نظر تھی۔شاید ہی کوئی سماجی مسئلہ ہو جو ان کی نظر وں سے اوجھل رہا ہو۔شادی کے لیے تصویر دیکھ کر لڑکوں کو پسند ناپسند کرنے کا مسئلہ ہو یا ذات پات اور اونچ نیچ کے بھید بھاؤ کا۔فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا مسئلہ ہو یا فرقہ وارانہ فسادکا۔چھواچھوت کا مسئلہ ہو یا بے جوڑ شادی کا،انہوں نے معاشرے کے تمام زندہ مسائل کو اپنی فکر کا حصہ بنایا اور اس پر خوبصورت کہانیاں تخلیق کیں۔ جہیز کے مسئلہ پر افسانہ ’جہیز‘، کثرت ازدواج سے متعلق کہانی ’سیکنڈ ہینڈ وائف‘ اور ’نئی الف لیلہ‘، کثرت اولاد سے پیدا ہونے والے معاشی بحران پر ’بھگوان کی اِچھاّ‘، اونچی سوسائٹی کی کمزوریوں پر ’لاشوں کا ہنی مون‘ اور اخلاقی باختگی و جنسی عیاشی پر ’ اچھی بیٹی اور براآدمی‘ جیسے افسانوں میں ہمارا معاشرہ اور اس کی مختلف صورتیں دکھائی دیتی ہیں۔ انھوں نے تقریباً ان تمام مسائل پر قلم اٹھایاہے جو آج بھی ہمارے ارد گرد پھیلے ہوئے ہیں اور سنجیدہ شہری کو اس کی ذمے داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ شین مظفرپوری نے پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی سے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ:
’’ میں اس بات کا قائل ہوں کہ انسان انفرادی حیثیت سے زندہ نہیں رہ سکتا۔انسانی زندگی کے لیے سماج لازمی چیز ہے۔سماج کے تصور کے بغیر انسانی زندگی کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے انسان صرف اپنے بارے میں سوچ کر یا اپنے ذاتی مسائل کو اپنے فن اور اپنی تخلیق کا محور بنا کر اپنے فرائض کوپورا نہیں کر سکتا۔‘‘
( زبان وادب،پٹنہ، نومبر،دسمبر1996،ص53)
اس بیان سے پتہ چلتاہے کہ شین مظفر پوری کو بحیثیت ادیب سماج کے تئیں اپنی ذمے داریوں کا پورا پورا احساس تھا۔اس لیے انہوں نے سماج کے اُن مسائل کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا جن سے اُس عہد کا متوسط طبقہ دوچار تھا۔
بہترین ادب وہی ہوتاہے جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو۔ شین مظفرپوری کے افسانے اس لحاظ سے بڑے افسانے کہے جا سکتے ہیں کہ وہ عہد جس سے شین متصادم تھے اس کی ستم کوشیاں اب بھی جاری ہیں اور ان میں پیش کردہ مسائل سے آج بھی ہمار ا معاشرہ دوچارہے۔شین مظفرپوری کی کہانیاں اُس عہد کے ساتھ ساتھ ہمارے آج کے مسائل کی بھر پور نمائندگی کر رہی ہیں۔یعنی ان کی کہانیوں کی ہم عصر معنویت انہیں زندہ کہانیاں بنا رہی ہے۔ اس لیے یہ کہانیاں جب تک زندہ رہیں گی شین مظفرپوری کو بھلا کون مار سکتاہے؟
n
Dr.Shahab Zafar Azmi
Department of Urdu, Patna University
Patna- 800005 (Bihar)
Mob.: 9431152912
shahabzafar.azmi@gmail.com



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں