اردو دنیا، اپریل 2025
تقریباً مردوں کے دوش بدوش ہی خواتین نے بھی ناول نگاری
کی ابتداکی۔ بس یہی کوئی دس بارہ برسوں کے فاصلے سے، کہ ڈپٹی نذیر احمد نے
اپناپہلا ناول مراۃ العروس 1869میں لکھا اور رشیدالنسا نے 1881 میں۔ یہ ہندوستان میں
مسلمانوں کے سیاسی، سماجی، تہذیبی اور تعلیمی زوال اور جہالت و توہم پرستی کے عروج
کا زمانہ تھا۔ مرد اساس معاشرے میں ہر سطح پر ان کی برتری کا تسلط تھا، خواتین کی
حیثیت ثانوی تھی اوران کی تعلیم و تحفظ کی صورت حال مردوں سے کہیں زیادہ بدتر۔ لیکن
اس اعتبار سے یہ عہد نیک شگون اور خیر کا حامل قرار پایا کہ اس میں ابھرنے والی
بعض سیاسی تحریکوں اور جدید تعلیم کے اثر سے نظام زندگی اور طرز فکر میں مثبت تبدیلیاںآنی
شروع ہوئیں، ایک نئے دور کے آغاز کی بنیاد پڑی۔سماجی اور ادبی زندگی کو نئی جہت
بخشنے میں اس تاریخی تبدیلی کے آغاز و ارتقامیں سیاسی و سماجی تحریکوں اور قدیم و
جدید تعلیم ونظریات کی آمیزش کے فروغ کے ساتھ ساتھ ایک اہم رول فکشن بالخصوص
ناولوں کا بھی رہا ہے۔
اس حوالے سے اردو کے ابتدائی ناولوں میں ڈپٹی نذیر احمد
کے’ مرأۃ العروس‘، ’توبۃ النصوح‘، ’ایامیٰ‘ اور علامہ راشدالخیری کے’ صبح زندگی‘،
’شام زندگی‘ اور ’شب زندگی‘ وغیرہ کو نمایاں مثال کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے۔ ان
ناولوں کی بنیادی جہتوں میں سے ایک جہت عورتوں کی تعلیم وتربیت اور تعظیم و توقیر
کی طرف توجہ مبذول کرانااور اصلاح معاشرہ کی کامیابی میںان کے حقوق کی بحالی اور
سرگرمی عمل کی شراکت کو یقینی بنانا تھا۔ ان دونوں حضرات کے بعد خواتین کے تعلیمی
اور خانگی مسائل پر جن ادیبوں نے بطور خاص توجہ دی ان میں مردوں کے مقابلے خواتین
کی تعداد کثیر، قابل ذکر اور لائق تعریف ہے۔ چنانچہ بیسویں صدی کے ابتدائی دو
عشروں یا کہیے ربع اول میں تعلیم یافتہ خواتین کی ایک ایسی جماعت سامنے آئی جس نے
اپنی تحریروں کے ذریعے عورتوں کے مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنے اور ان پر ہونے والی
زیادتیوں کی وجوہ کو دکھانے کی کوششیں کیں،ساتھ ہی ان کے حقوق کی بازیابی کے لیے ایک
رجحان پیدا کرنے اور اسے ایک محاذ کی صورت قائم کرنے میں کافی حد تک کامیابی حاصل
کی۔ اس رجحان سازی کے آغاز میں لاہور سے نکلنے والے ’تہذیب نسواں‘، علی گڑھ سے
شائع ہونے والے ’خاتون‘ اور دہلی سے جاری ہونے والے ’عصمت‘ جیسے اخبار و رسائل کی
اشاعت وفروغ اور عورتوں کی بعض انجمنوں مثلاً ’مدرسۃ النسواں(1906) وغیرہ کے قیام
کو بھی بنظر تحسین و توصیف دیکھنا چاہیے۔ تعلیم بالخصوص مغربی تعلیم کے زیر اثر
خواتین کی روایتی سوچ و فکرمیں جدت پیدا ہوئی، انھوں نے قدیم طرز زندگی کا رخ
موڑنے کی کوششیں کیںاور جلسوں، سیاسی تحریکوں اور ادبی مشاغل میں حصہ لینا شروع کیا۔
خواتین کی ان تمام جدو جہد کے ذرائع میں سب سے اہم، زیادہ کنونسنگ، دیرپا اور اثر
انگیز ذریعہ ناول نگاری قرار پایا، کہ دوسرے تحریکی اور علمی و ادبی وسائل کے
مقابلے اس صنف میں دلچسپی، تجسس، ترغیب، تحرک، فکری تنزیہ،ذہنی ترفع اور روحانی
آسودگی جیسے عناصر زیادہ اور دیرپا ہوتے ہیں۔ ناول کے یہ وہ عناصر ہیں جوذہنی تبدیلی،
انفرادی و اجتماعی شخصیت کی تشکیل،سماج کی تعمیر اور معاشرے کی ترقی میں اپنے
کردار مستحکم،متواتر اور موثر طریقے سے ادا کرتے ہیں۔
اردو میں خواتین ناول نگاری کی تاریخ رشید النسا کے
ناول ’اصلاح النساء ‘ سے شروع ہوتی ہے۔ رشید النساء کے بعد محمدی بیگم کا نام آتا
ہے اور پھر خواتین ناول نگاروں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ اس فہرست میں اکبری بیگم،
نذر سجاد حیدر،عباسی بیگم،بیگم صغرا ہمایوں، ا۔ض حسن بیگم، بیگم شاہنواز، ضیا
بانو،طیبہ بیگم،حجاب امتیاز علی،والدہ افضل علی،صالحہ عابد حسین اور پھر رضیہ سجاد
ظہیر، عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر وغیرہ سے لے کر آج اکیسویں صدی کے ربع اول
تک خواتین ناول نگاروں کا سلسلۃ الذہب موضوعاتی تنوع، اسلوب سازی اورفکری ارتفاع کی
روشن مثال کی صورت ناول کی دنیا کوثروت مند بنارہا ہے۔
رشید النساعظیم آباد کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا
ہوئیں۔ ان کے والد شمس العلماسید وحید الدین چیف جسٹس تھے اور بھائی ’کاشف
الحقائق‘ والے شمس العلما سید امداد امام اثر۔سو، انھیں علمی و ادبی مجلسوں اور
مذاکروں اور مشاعروں والا ماحول ملا۔گھر کی الماریاں مختلف علوم و فنون اور متعدد
زبانوں کی کتابوں سے آراستہ تھیں اور صحبتیں روشن خیالی اور جدید مباحث سے معمور۔
عورتوں کی تعلیم و اصلاح کا آغاز انھوں نے یوں کیا کہ پہلے تو رشتہ دار لڑکیوں کو
گھر میں پڑھانا شروع کیا اور پھر لڑکیوں کا باضابطہ ایک مکتب قائم کیا۔ لہٰذا رشیدالنسا
کو بہار میں تعلیم نسواں کا پہلا علمبردار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
رشید النسا کو ناول لکھنے
کا خیال خواتین کی اصلاح کرنے،انھیں غلط رسم و رواج سے نجات دلانے اور ان کی زندگی
کو کامیاب اور بامقصدبنانے کے لیے آیا۔ حیرت نہ کیجیے کہ انھوں نے یہ ناول ایک
فرضی نام سے چھے مہینے میں مکمل کرلیا تھا لیکن تیرہ برسوں تک ردی کی مانند پڑا
رہا۔ جب ان کے لڑکے محمد سلیمان لندن سے بیرسٹر بن کر آئے تو انھوں نے والدہ سے
ان کے ناول کے بار ے میں پوچھا :
’’
۔۔۔ آپ جو کتاب لکھتی تھیں وہ کہاں ہے؟میں
نے کتاب نکال کر دے دی۔برخوردار موصوف نے اول سے آخر تک اس کو پڑھ کر کہاکہ نہایت
افسوس ہے ایسی عمدہ کتاب اتنی مدت تک وہیں ہی پڑی رہی۔۔۔۔۔ اب اس کو ضرور طبع کرنا
چاہیے۔۔۔۔ برخوردار محمد سلیمان نے مطبع قیصری میں خود جاکر چھپنے کے لیے اس کتاب
کو دے دیا۔‘‘ (دیباچہ اول (1894)،اصلاح النساء، اشاعت 2000،ص 6،گلشن اقبال، کراچی)
واضح رہے کہ یہ ناول ابتدائی اشاعتوں میں بغیر دیباچے
کے والدہ محمد سلیمان کے نام سے شائع ہوتا رہا تھا۔1994کی اشاعت میں اس کا پہلا دیباچہ
رشید النسا نے لکھا۔ بعد کی اشاعتوں میں
دوسرا دیباچہ ثریا قرنی اور تیسرا سید قیصر امام نے تحریر کیا۔مصنفہ نے ناول کا
مقصد یوں بیان کیا ہے جس سے ناول کا موضوع و مافیہ پوری طرح سے نمایاں ہوجاتا ہے:
’’
اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں بڑی عاجزی سے یہ دعا مانگتی
ہوں کہ یا اللہ اس کتاب سے میری رشتہ مند لڑکیوں اور ہم وطن اور ملک کی عورتوں کو
فائدہ پہنچا۔ اور ان کے توہمات اور ان کے بد خیالات کو رفع فرمااور ان کے برے
عقائد کی اصلاح کر۔آمین۔چونکہ اس کتاب میں عورتوں ہی کی اصلاح مقصود ہے اس لیے اس
کا نام ’اصلاح النساء‘رکھا گیا۔‘‘ (ایضاً)
رشید النسا کے بعد خاتون ناول نگاروں میں مسز مولوی
سراج الدین کا نام گو کہ فراموش کردہ لیکن اہم ہے۔ ان کا ناول ’ناول دکن‘ کے عنوان
سے رسالہ ’خاتون ‘کے 1905کے شماروں میں قسط وار شائع ہوا، بالکل پنڈت رتن ناتھ
سرشار کے فسانۂ آزاد کی طرح، جوابتداً اودھ اخبار کی اشاعتوں میں1878سے 1879 تک
شائع ہوتا رہاتھا۔اس ناول کی تخلیقی فضا اور اس کے کرداروں میں مسز مولوی سراج الدین
نے مشرق و مغرب کی تہذیب اور قدیم و جدید تعلیم کے عناصر و اثرات کے امتزاج کو سلیقے
سے پیش کیا ہے۔
صغریٰ ہمایوں مرزا کی پیدائش حیدرآباد میں ہوئی۔ والدمعروف
سرجن اورنظام حیدر آباد کی فوج میں کیپٹن کے عہدے پر فائزتھے۔ والدہ عربی فارسی کی عالمہ اور ادبی ذوق کی
حامل تھیں۔صغریٰ نے گھر پر ہی اردو فارسی کی تعلیم حاصل کی تھی۔ سولہ سال کی کم
عمری میں ان کی شادی مشہور بیرسٹر ہمایوں مرزا سے کی گئی۔ بیگم صغریٰ ہمایوں مرزا
نے ہندو مسلم اتحاد،پردہ سسٹم کی خرابیوں، گائے کے ذبیحے پر پابندی اور قومی یونیورسٹی
کی ضرورت جیسے موضوعات پر متعدد مضامین، چھے سفرنامے اور چودہ ناول لکھے جن میں سے
’مشیر نسواں‘، ’سرگزشت ہاجرہ‘ اور’ موہنی‘ کو بڑی شہرت ملی۔ انھوں نے حیا نام سے
شاعری بھی کی۔ دو جلدوں میں ان کا سفر نامۂ یورپ خاصا اہم ہے۔ انھیں حیدرآباد کی
پہلی خاتون ناول نگار ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ ان کا ناول ’مشیر نسواںیا زہرہ‘ کے
نام سے 1906میں شائع ہواجس میں قدیم و جدید تہذیبی زندگی اور انگریزی طرز حیات کی
عکاسی کے ساتھ روشن خیالی کے فروغ اور بے جا رسومات سے گریز کو کہانی کے مرکز میں
رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انھوں نے اپنے ناول ’موہنی‘ میں طلاق اور دوسری شادی جیسے
معاملات کوبھی بحث کا موضوع بنایا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ناول کی فضا خاصی پر
اسرار، متصوفانہ قسم کی ہے۔
محمدی بیگم دارالعلوم دیوبند کے تعلیم یافتہ مولوی سید
ممتاز علی دیوبندی کی اہلیہ،مشہور ڈرامہ نگار امتیاز علی تاج کی والدہ،رسالہ ’تہذیب
نسواں ‘ کی ایڈیٹر اور حافظ قرآن تھیں۔ انھوں نے اپنے شوہر سے عربی فارسی پڑھی
اور پھر انگریزی، ہندی اور حساب سیکھے۔ انھوں نے اپنے رسالے تہذیب نسواں میں جبری
نفقہ، طلاق، تعدد ازدواج اور پردہ کی مخالفت میں بہت سے مضامین شائع کیے۔ یوں محمدی
بیگم کو ہندوستان کی پہلی مسلم فیمنسٹ اور پہلی خاتون ایڈیٹر کہا جاناچاہیے۔محمدی
بیگم نے مختلف موضوعات پر تقریباً درجن بھر کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں سے تین کو
ناول کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ ’شریف بیٹی(1908) چھپن صفحات پر مشتمل چھوٹا سا
ناول ہے۔ اہم اور حیرت کی بات یہ ہے کہ خلاف رواج اس قصے یا ناول کامرکزی کردار ایک
غریب لڑکی ہے۔ناول میں غریب لڑکیوں کی تعلیم اور سلیقہ شعاری کے حصول کو مرکزی
موضوع بنایاگیاہے۔’ ناول ’صفیہ بیگم‘ میں بچپن کی منگنی کے عبرتناک انجام کو دکھایا
گیاہے اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ لڑکپن میںبچوں کے رشتے دراصل لڑکے اور
لڑکی دونوں کے لیے زبردستی کی شادی کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ صفیہ بیگم‘ 1913 میں
شائع ہونے والا نوابواب پر مشتمل ننانوے صفحات کا مختصر سا ناول ہے، اس ناول میں
بد چلن، جاہل اور ایسے لڑکوں سے شادی کے خلاف والدین کو اکسایا گیا ہے جسے لڑکی
پسند نہ کرتی ہو۔ مرکزی کردار صفیہ کی آخری وصیت کے عنوان سے قائم کیے گئے باب کا
یہ اقتباس دیکھیے :
’’میری
آخری التجا یہ ہے کہ تم اپنی اولاد کے بیاہ شادی میں جان توڑ چھان بین کرو۔ یہ
چھان بین جس طرح ذات اور نسب کی کی جاتی ہے اسی طرح علم کی، صحت جسمانی کی، عادات
کی، چال چلن کی، مزاج کی، کیفیت کی، اخلاق کی اور سب سے زیادہ لڑکی کی رضامندی کی
کی جائے۔ ‘‘
(صفیہ
بیگم،دارالاشاعت پنجاب، 1913ص،98)
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ناول کا ہر باب کسی نہ کسی شعر
سے شروع ہوتا ہے۔بالکل مرزا محمد ہادی رسوا کے ’امراؤ جان ادا‘ کی طرح۔
والدہ افضال علی کا اصل
نام اکبری بیگم تھا۔لیکن مرد اساس معاشرے کے جبر اور تب کی مروجہ روایت کی مجبوری
کے باعث انھوں نے اپنا پہلا ناول ’گلدستۂ محبت‘ عباس مرتضیٰ کے فرضی مردانہ نام
سے شائع کروایااور بعد میں والدہ افضال علی کے قلمی یا کنیتی نام سے لکھنے لگیں۔
انھوں نے چار ناول لکھے : ’گلدستۂ محبت‘، ’شعلۂ پنہاں ‘، ’عفت نسواں‘ اور ’گوڈر
کا لال‘۔ ناول ’گوڈر کالال ‘ کے بارے میںقرۃ العین نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ
پہلی بار یہ 1907میں شائع ہوا۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ
:
’’گوڈر
کا لال چھپتے ہی دھوم مچ گئی۔بہت جلد اس نے نئی مڈل کلاس مسلم عورتوں کی بائبل کی
حیثیت اختیار کرلی۔ لڑکیوں کو جہیز میں دیا جانے لگا۔ اس کے قارئین کونہ یہ معلوم
تھا کہ’ والدہ افضال علی‘ کون ہیں اور نہ یہ کہ انھوں نے اس ناول کا پس منظر اور
کردار کہاں سے حاصل کیے ہیں۔‘‘
(کار
جہاں دراز ہے، ممبئی، 1977،ص،156)
ستائیس ابواب اور سات سو اٹھائیس صفحات پر مشتمل یہ ایک
ضخیم ناول ہے۔پہلے یہ تین الگ الگ حصوں اول، دوم اور سوم کے طور پر شائع ہوا،بعد
ازاں تینوں حصے ایک ساتھ شائع ہوئے۔ اس ناول کی اہمیت اس اعتبار سے بھی ہے کہ اکبری
بیگم نے معاشرے میں رائج برائیوں اور گھریلو مسائل کو موضوع بنانے کے علاوہ اس
ناول کے ذریعے پردے کی مخالفت کی ہے اور غالباً پہلی بار مسلم لڑکیوں کے لیے مخلوط
تعلیم کی وکالت کی ہے۔
نذر سجاد حیدر اردو کے پہلے افسانہ نگار(بعض قول کے
مطابق)سید سجاد حیدر یلدرم کی اہلیہ اور مشہور فکشن نگار قرۃ العین حیدر کی والدہ
تھیں۔ انھوںنے متعدد مضامین اور مختصر کہانیوں کے علاوہ کئی ایک ناول بھی لکھے ہیں۔یہ
آزادی نسواں اور تعلیم نسواں جیسی تحریکوں کی اہم رکن بھی رہی ہیں۔نذرسجاد حیدر
کے پہلے ناول ’اخترالنساء بیگم ‘ کو مولوی ممتاز علی نے ‘ نول کشور پریس لاہور سے
1911میں شائع کروایا تھا۔ اس ناول میں جہالت، غلط رسم و رواج اور توہم پرستی کی
مخالفت کے ساتھ عورتوں کی تعلیم و تربیت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ماقبل ناولوں کے
مقابلے اس ناول کی ہیروئن خاصی ترقی پسند اور روشن خیال ہے چنانچے وہ جگہ جگہ
جرأت مندانہ قدم اٹھاتی رہتی ہے۔کہنا چاہیے کہ اس پر سرسید تحریک کا اثر کافی حد
تک نمایاں ہے۔اختر النساء بیگم کے علاوہ ان کے چھے ناول : حرماں نصیب، آہ
مظلوماں،جاں باز، ثریا، نجمہ ‘اور ’مذہب اور عشق‘ خاصے مقبول رہے ہیں۔ان تمام کو
قرۃ العین حیدر نے ’ہوائے چمن میں خیمۂ گل ‘ کے نام سے مرتب کرکے اڑتالیس صفحات
کے بے حد معلوماتی دیباچے کے ساتھ یکجا شائع کردیا ہے۔
فخرالنسا بیگم کا نام ان کے ناول ’افسانۂ نادر جہان‘
پر اس طرح لکھا ہوا ہے۔ طاہرہ بیگم الملقبہ بہ نواب فخرالنسا نادر جہاں بیگم۔ دو
سو چونسٹھ صفحات پر مشتمل مذکورہ ناول منشی نول کشور لکھنؤ سے 1917میں شائع ہوا۔
اس ناول میں بھی تب کے ادبی رواج کے مطابق غلط رسم و رواج کی مذمت، تعلیم نسواںکی
اہمیت، لڑکیوں کی سلیقہ شعاری اور امور خانہ داری کی بحث کو موضوع بنایا گیا ہے۔
ساتھ ہی مردوعورت کے حقوق اور مساوات کے پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔یہ ایک
مسلسل ناول ہے جس میں کہیں بھی کوئی فصل یا باب قائم نہیں کیا گیا ہے۔ بیانیے کو
کسی حد تک مسجع اور مقفی بنانے کی کوشش کی گئی ہے، تاہم ناول روز مرہ،محاورے اور
عمدہ زبان کی آمیزش سے دلچسپ ہوگیا ہے۔
طیبہ بیگم نواب عمادالملک بہادر کی صاحبزادی تھیں،
بلگرام میں پیدا ہوئیں، گھر پر ہی ایک مولوی صاحب سے اردو فارسی اور عربی کی تعلیم
حاصل کی، بعد ازاں حیدرآباد کے اسکول میں مشہور سیاست داں مسزسروجنی نائیڈو کے
ساتھ انگریزی وغیرہ کی تعلیم پائی اور پھر 1894میں مدراس یونیورسٹی سے بیچلر کی
ڈگری حاصل کرکے پہلی مسلم خاتون گریجویٹ بنیں۔ ڈاکٹر مرزا کریم خان خدیو جنگ بہادر
سے شادی کرنے کے بعد آگے کی تعلیم موقوف کردی۔ عورتوںکی تعلیم اور اصلاح معاشرہ
کے جذبے کے تحت انھوں نے حیدرآباد میں آٹھ اسکول بنوائے اور’لیڈیز ایسوسی ایشن ‘
کے نام سے ایک انجمن قائم کی۔ انھوں نے ’انجمن خواتین اسلام ‘کا چارج بھی سنبھالا
جسے بیگم رقیہ سخاوت حسین نے عورتوں کی تعلیم، آزادی اور ہنر کے حصول کے لیے قائم
کیا تھا۔طیبہ بیگم خدیو جنگ نے ہندوستانی لوک کہانیوں اور لوک گیتوں پر بھی کام کیا
ہے۔ انھوں نے دو ناول تحریر کیے ہیں: ’حشمت النسا‘ اور ’انوری بیگم‘۔ انوری بیگم
کو انھوں نے 1905 میںمکمل کیا تھا اور 1909میں شائع کیا، تاہم اس کی سرکاری اشاعت
ان کے انتقال کے بعد 1922میں ہوئی۔ان ناولوں میں بھی تعلیم نسواں اور معاشرتی صورت
حال کو مرکزی محور بنایاگیا ہے۔ دونوں ناولوں کی خوبی یہ ہے کہ ان میں حیدرآباد
کا رہن سہن، وہاں کی تہذیب و ثقافت،بود وباش اور حیدرآباد کی خواتین کی زندگیاں
آئینے کی مانندشفاف نظر آتی ہیں۔
عباسی بیگم مشہور فکشن نگار حجاب امتیاز علی کی والدہ
تھیں۔ وہ اپنے عہد کی اہم خاتون مدیر، نظم نگار،مکتوب نگار اور ناول نگار تھیں۔ان
کا ناول ’زہرا بیگم‘1929میں شائع ہوا۔اس میں ایک تعلیم یافتہ خاندان کی لڑکی کا
فسانۂ درد والم بیان کیا گیا ہے جسے اس
کے والدین نے دولت کی لالچ میں شادی کرکے اسے زندہ درگور کردیا۔عباسی بیگم نے اپنی
تحریروں میںسماج بالخصوص مسلم معاشرے کی خرابیوں کو بیان کرکے انھیں دور کرنے کی
کوشش کی ہے۔
حجاب امتیاز علی حیدرآباد کے ایک معزز خاندان کے فرد سید
محمد اسماعیل کی صاحب زادی تھیںلیکن ان کی پیدائش 1908میں مدراس میں ہوئی۔یہ
ہندوستان کی پہلی اور دنیا کی دوسری مسلم خاتون پائلٹ تھیں۔ان سے دوسال قبل یعنی
1934میں آذربائیجان کی مسلم خاتون زلیخا سید مامدووانے اپنا پائلٹ کا لائسنس حاصل
کیا تھا۔ حجاب کو کم عمری سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔ان کی پہلی کہانی نو برس کی
عمر میں شائع ہوئی اور انھوں نے اپنا پہلا اور اردو کا اہم رومانی ناول ’ میری
ناتمام محبت‘بارہ سال کی عمر میں لکھ لیا تھا۔ پہلے یہ حجاب اسماعیل کے نام سے
لکھتی تھیں۔1930میں ان کی شادی اردو کے مشہور ڈرامہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر امتیاز
علی تاج سے ہوئی تو حجاب امتیاز علی نام سے لکھنے لگیں۔ حجاب امتیاز علی کا تحریری
عرصہ ساٹھ برسوں کو محیط ہے۔ انھوں نے سگمنڈ فرائڈ کا گہرا مطالعہ کیا تھا جس کے
اثرات ان کی تحریروں میں نمایاں ہیں، خاص طور سے ان کے ناول ’اندھیرا خواب ‘ اور
’پاگل خانہ‘ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ان کے یادگار ناولوں میں’ظالم محبت‘، وہ بہاریں
یہ خزائیں‘،’موم بتی کے سامنے ‘ اور ’سیاح عورت‘ شامل ہیں۔ حجاب امتیاز علی اپنے
رومانی فکشن کے حوالے سے مستحکم اور مستند
شناخت رکھتی ہیں۔ان کی شہرت ڈائری نگار، مکتوب نگار اور مضمون نگارکی حیثیت
سے بھی ہے۔ان کے ناول و افسانے کی دنیا ایسی سحرانگیز ہوتی ہے کہ قاری اس میں کھو
سا جاتا ہے۔ بالعموم ان کی کہانیاں عورت، رومان، فطرت اور نفسیات کے تانے بانے سے
تیار ہوتی ہیں۔ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انھوں نے اردو ناول کو چند خوبصورت اور
یادگار کردار دیے ہیں جیسے: ڈاکٹر گار،سر ہارلی،دادی زبیدہ،روحی، جسوتی اور حبشاں
زوناش وغیرہ۔
صالحہ عابد حسین کا تعلق ایک بڑے علمی و ادبی گھرانے سے
تھا۔یہ خواجہ الطاف حسین حالی کی پڑپوتی،ممتاز عالم خواجہ غلام الثقلین کی بیٹی،
خواجہ غلام السیدین کی بہن اور معروف دانشور سید عابد حسین کی اہلیہ تھیں۔صالحہ
عابد حسین نے سیرت و سوانح، ڈرامے، خطوط، مضامین، تراجم،آپ بیتی،بچوں کے ادب اور
افسانوںکے ساتھ ساتھ آٹھ عدد ناول بھی لکھے ہیں : عذرا، آتش خاموش، راہ عمل،
قطرہ سے گہر ہونے تک، یادوں کے چراغ، اپنی اپنی صلیب،الجھی ڈور، گوری سوئے سیج پر
اور ساتوں آنگن۔ان کے ناولوں میںمشرقی عورتوں کے مسائل، ان کی طرز فکر اور ان کے
جذبات و احساسات کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ان کے یہاں تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی اور
گھریلو رشتوں کی رنگا رنگی ہے۔ رشید احمد صدیقی کے انشائیوں کی مانند ان کی تحریروں
میں بھی علی گڑھ جگہ جگہ سانس لیتا ہوا نظر آتا ہے۔
ان سب کے علاوہ ابتدائی خواتین ناول نگاروں کی ایک طویل
فہرست ہے جس میں ب۔ سدید(بیاض سحر)، ا۔ ض حسن(روشنگ بیگم)،ضیا بانو(فغان اشرف، فریب
زندگی، انجام زندگی)،حمیدہ سلطان مخفی(ثروت آرا بیگم)، بیگم شاہنواز(حسن آرا بیگم)،
ظفر جہاں بیگم (اختری بیگم)، خاتون اکرم (پیکر وفا)، فاطمہ بیگم منشی فاضل (صبر کا
پھل) اور خاتون (شوکت بیگم) وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ ان سبھوں نے اپنے اپنے وقت میںتعلیمی،
اصلاحی، افادی اورمقصدی ناول لکھ کر اردو ناول نگاری کی بھرپور خدمت کی،ایک نئے
سماج اور بہتر معاشرے کی تعمیر میںہاتھ بٹایااور فکشن کے فن اور زبان و اسلوب کی
توسیع میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔
Abu
Bakar Abbad
Dept.
of Urdu
Delhi
University
Delhi-
110007
bakarabbad@yahoo.co.in
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں