13/8/25

ادب پر اساطیر اور مہماتی قصوں کا اطلاق، ماخذ: اردو ہندی فکشن میں اساطیر،مصنف: ناز قادری

 اردو دنیا، اپریل 2025


وہ تہذیبیں زیادہ تخلیقیت اور بارآوری کی حامل ہوتی ہیں جن کے پاس اساطیر کا بیش بہا خزانہ ہوتا ہے۔ ادب و فنون کے علاوہ کئی دیگر علومِ انسانیہ پر اساطیری بصیرت کے گہرے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ دراصل یہ علامتیں ہیں یا یہ کہا جائے کہ ثقافتی علامتیں ہیں۔ دنیا کی مختلف ثقافتوں کے مطالعے میں اساطیری علامتوں کی خاص اہمیت ہے۔ کیونکہ کوئی تہذیب خلا میں پیدا نہیں ہوتی بلکہ ایک انسانی کُرے اور ایک خاص جغرافیائی وحدت میں وہ نشو و نما پاتی ہے۔ ہم نہ صرف یہ کہ اساطیری مطالعے سے ان تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے انسانی گروہوں کی افتاد طبع، ان کی اخلاقیات، ان کی ذہنی زندگی اور ان کے نظریات و عقائد کا پتہ لگا سکتے ہیں بلکہ تہذیبی مطالعے سے بھی ہم ان اساطیری جڑوں تک پہنچ سکتے ہیں جن کا ایک وسیع پس منظر ہوتا ہے اور جو تخیلاتی پیداوار ہونے کے باوجود انسان کا ایک محل اور ہمیشہ قائم رہنے والی معنویت ہوتی ہے۔ انور صدیقی نے اشاریت کی تہذیبی بنیادوں کے ذیل میں علامتوں کی تخلیق کو ثقافتی عمل قرار دیتے ہوئے ان کے اساطیری رشتے کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے:

اشاروں اور علامتوں کی تخلیق و تزئین ایک تہذیبی عمل ہے۔ کسی تہذیب کی ترقی پذیری یا انحطاط کا مطالعہ اس خاص تہذیب کی اشاریت کے بغیر نامکمل رہتا ہے۔ علامتیں ثقافت کی روح کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ بڑے شاعروں کی طرح تہذیبیں بھی اشاروں میں بولتی ہیں اور اپنے عزائم، اپنے احساس کے سارے اضطراب اور وجدانی مطالبوں کا اظہار علامتوں میں کرتی ہیں اور روحِ تہذیب کی صورت گری کا نام شاعری ہے۔

دنیا کی مختلف تہذیبوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر تہذیب اپنی افتادِ طبع، مزاج اور عقائد کے اعتبار سے علامتیں اور اساطیر وضع کرتی ہے اور جب اس تہذیب پر کسی دوسری تہذیب کی پرچھائیاں پڑنے لگتی ہیں یا وہ غروب ہونے لگتی ہے تو پہلے ایک خاموش اور غیرمحسوس تبدیلی اس کے بطون میں دبے پاؤں رینگ آتی ہے۔اس تبدیلی کا اظہار سب سے پہلے فنونِ لطیفہ میں نئی ابھرنے والی علامتیں کرتی ہیں... وہ تہذیبیں جن کی دیومالائیں اور اساطیر ہیں بہترین خلاق تہذیبیں ہیں۔ تصویروں اور تمثالوں میں سوچنے والی تہذیبیں اسی انداز سے سوچنے والے فنکارو ںکی طرح بڑی پر عظمت ہوتی ہیں۔ کائنات کی میکانکی توجیہ، تشریح یا میکانکی نظریہ کبھی کسی بڑے ادب یا بڑی تہذیب کو جنم نہیں دے سکتا۔ 1

لیوی اسٹراس نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف Structural Anthropology میں لوک کہانی، اسطوری کہانی کی جڑوں تک پہنچنے کی سعی کی ہے۔ بنیادی طور پر اس کا یہی خیال ہے۔ ہر ثقافت کی بنیاد اس کے نظامِ اساطیر میں دستیاب ہے۔ اس طریقے سے وہ انسانی ذہن کی جڑوں تک پہنچتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ قدیم تہذیبی نظاموں میں رائج اوہام، رسومات، تہوار اور تقریبات ایک مربوط سماجی نظم و ضبط کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ لیوی اسٹراس نے The Savage Mind میں متھ کو محض خیالی پرواز سے موسوم نہیں کیا بلکہ  اسے a kind of thought ایک خیال، ایک پیغام سے تعبیر کیا ہے جس کی اساس halfway between precepts and concepts کے عناصر پر ہے۔ گوپی چند نارنگ نے اپنی تصنیف ’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘ میں لیوی اسٹراس کے اس خیال کی ان لفظوں میں وضاحت کی ہے کہ:

متھ ایک طرح کا پیغام ہے جو اس ثقافت کے افراد کے لیے ہے جس ثقافت میں وہ متھ رائج ہے۔ مزید یہ کہ جب تک کوئی ثقافت وحدانی رہتی ہے۔ متھ میں تبدیلی نہیں ہوتی، لیکن جب اس میں دوسرے اثرات کے در آنے سے مختلف پرتیں پیدا ہوتی ہیں تو متھ میں بھی تبدیلیاں نمودار ہوجاتی ہیں۔ تاہم متھ کا اصل پیغام نہیں بدلتا بلکہ  یہ وہی رہتا ہے۔ 2

قبائلی بصیرت

اساطیر کے بارے میں اس خیال سے اب کم ہی متفق ہیں کہ بصیرت یا محسوسات سے یہ بے بہرہ ہوتے ہیں۔ قبائلی انسان جس طور پر علامتوں میں سوچتا تھا اور جس طور پر کائنات فطرت اور وجود کے پیچھے مخفی اسرار تک پہنچنے کی جستجو کرتا تھا اس کا اظہار اساطیری کہانیوں میں ہوا ہے۔ قبائلی انسان ان اساطیر اور سورماؤں کی کہانیوں (لیجنڈ) میں انکشاف کے طور پر ان حقائق کو پیش کرتا تھا۔ ان کے محسوسات اور ان کے جذبات بھی فطرت ہی کی طرح بے میل اور شفاف  تھے۔ صنعتی تہذیب کے تحفظات نے ان کے تخیل کی آزادروی پر حدبندیاں قائم نہیں کی تھیں۔ کانٹ بھی یہی کہتا ہے کہ انسانی ذہن کوئی مجہول آئینہ نہیں ہے جس کا کام ہی ہر اس چیز کا عکس مہیاکرنا ہے جو اس کے سامنے موجود ہوتا ہے بلکہ انسانی ذہن ایک فعال قوت ہے جو کسی چیز کا عکس مہیا نہیں کرتا بلکہ اپنے طور پر اس حقیقت پر اثرانداز بھی ہوتا ہے یعنی اس حقیقت کو ایک نئی شکل بھی مہیا کرتا ہے جس کا ہم ادراک کرتے ہیں۔ اس معنی میں قبائلی انسان کے علامتیانے کا عمل نہ تو مہمل اور لایعنی ہے اور نہ طفلانہ childish۔ اس عمل کے پیچھے ان کے اپنے میلانات ہوتے ہیں جو اپنے طور پر ’صداقت‘ کا تعین کرتے ہیں۔ یعنی ان کی سچائیاں ان کے ذ ہنی اور ثقافتی تناظر کی کوکھ سے برآمد ہوتی ہیں۔ جن کے کوئی ایک معنی نہیں ہوتے جیسا کہ علامت کے کوئی ایک معنی نہیں ہوتے بلکہ علامتی تصورات ہمیشہ بڑھتے اور پھیلتے ہیں وہ جامد اور ساکن نہیں ہوتے جس طرح عموماً لغوی معنی اور مفاہیم ہوتے ہیں۔

اساطیر اور تمثیل allegory

اساطیر کی ایک تمثیلی جہت بھی ہوتی ہے۔ اس معنی میں اس کی تشکیل استعارے کی مرہون ہوتی ہے۔ استعارہ حقیقت کو ایک نئے معنی مہیا کرنے کا نام ہے۔ وہ حقیقت کو رد نہیں کرتابلکہ حقیقت کے اور دوسرے بہت سے نام ممکن ہیں۔ ان ممکنات پر سے وہ پردہ اٹھاتا ہے۔ جس طرح تمثیلی قصہ یا داستان دورانِ محض میں واقع ہوتی ہے اسی طرح اساطیری کہانی میں بھی زمان کا تعین ناممکنات میں سے ہوتاہے۔ اساطیر کی تمثیلی تشریحات بھی کی جاتی رہی ہیں۔ ان کے اندر کارفرما علامتی اور استعاراتی معنی کو بھی بحث کا موضوع بنایا جاتا رہا ہے۔ پروفیسر عتیق اللہ نے اپنی اہم تالیف ’ادبی اصطلاحات کی وضاحتی فرہنگ‘ میں تمثیل (allegory) کے ضمن میں اسطور اور تمثیل، اسطور اور اجتماعی حافظہ، اسطور اور اخلاقی اصول سازی، اسطور اور قوتوں کی نمائندگی پر تجزیاتی بحث کرتے ہوئے لکھا ہے:

انسان نے اپنی بیش بہا اور فطری تمثیلی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر ان اشیا کو حرکت میں بدل د یا جو مجہول تھیں۔ انھیں محجرّ کردکھایا جو مجرد تھیں یا محض کیفیات و اوصاف سے جن کا تعلق تھا۔ ان جانوروں اور اشیا کو زبان دے دی گئی جو غیرناطق تھیں۔ آہستہ آہستہ اساطیر نے انفرادی اور اجتماعی حافظے میں اپنی جڑیں گہری کرلیں۔ اعادے اور تکرار، نیز زمانہ بہ زمانہ فاصلوں میں اضافے کے باعث ان کی اصلیتیں بھی تبدیل ہوتی رہیں اور مختلف قوموں، قبیلوں اور فرقوں میں ان کی حیثیت اخلاقی رہ نما کی ہوگئی۔ بعد ازاں یہود نے سب سے پہلے اسطور پر ضرب لگائی تاہم اسطوری دانش کا فیضان جاری رہا۔ مذاہب نے انھیں خرافات کا نام دیا لیکن ان سے اپنے اصول بھی وضع کیے۔ اس طور پر اساطیر کی علامتی معنویتوں میں اضافہ ہوتا گیا اور اب وہ محض ایسے مظاہر  میں بدل گئے ہیں جو انسانی حقائق اور قوتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ 3

اسطور کی علامتی توضیح

جیسا کہ اس سے قبل یہ عرض کیا جاچکا ہے کہ اسطوری کہانیاں اور اسطوری کردار محض خیالی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ استعارے اور علامت کی طرح ان کی دو سطحیں ہوتی ہیں۔ ظاہری سطح پر جس معنی سے ہم دوچار ہوتے ہیں معنی کا وہ محض ایک پہلو بلکہ ایک جھلک (flash) ہوتی ہے۔ جب کہ اصل معنی اس کے نیچے اور نیچے ہوتے ہیں۔ وہ بھی اس معنی میں اضافی ہوتے ہیں کہ علامتی معنی کی خاصیت ہی اس کا حرکی کردار ہے۔ وہ کسی ایک تصور پر قانع نہیں ہوتی اور نہ متوازیت کے معنی میں دونوں معنی ایک دوسرے کے برابر ہوتے ہیں۔ اکثر پہلی پرت کے معنی کو دوسری پرت کے معنی رد بھی کرتے ہیں۔ قبائلی انسان کی علامتیت پر سب سے پہلے وائکو (Vico) نے دانشورانہ نوعیت کی روشنی ڈالی تھی، وائکو ہی کے خیالات کی توسیع بشریات اور نفسیات کے علما کی جدید ترین تحقیقات میں ملتی ہیں۔ علوم کے ان میدانوں میں وائکو کو کئی اعتبار سے بنیاد گزار کہا جاتا ہے۔ ارنسٹ کیسرر نے بھی اپنی تصنیف Philosophy of Symbolic Forms میں زبان اور اسطور کے ماخذ پر بحث کرتے ہوئے ان کی علامتی معنویت کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ اس کی نظرمیں زبان اور علامت نے ایک ہی زمین سے نمو پائی ہے۔ (two diverse shoots from the some parent stem) گویا علامتی تشکیل میں دونوں کا محرک ایک ہی ہے۔ وہ واضح لفظوں میں یہ کہتا ہے کہ علامتیں انسانوں کی ضروریات اور مقاصد کے مطابق اپنی شکل بناتی ہیں۔ علامت میں کسی حقیقت کا کوئی پہلو نہیں ہوتا بلکہ وہ خود حقیقت ہوتی ہے۔ علامت میں موضوع اور معروض کے درمیان ایک اندر ہی اندر رواں شناخت کی صورت ہوتی ہے۔ یعنی علامت موضوع اور معروض کے مابین ایک ’مقامِ ملاقات meeting place ہے۔ کیسرر نے شعری اظہار اور سائنس کی زبان کے تعلق پر جو بحث کی ہے۔ ڈبلیو۔ ایم۔ اربن نے اپنی تصنیف Language and Reality میں اسطور کو بنیاد بنایا ہے۔ لیکن کہیں کہیں کیسرر سے اختلاف بھی کیا ہے۔ وہ مابعدالطبیعیات کو علامتی زبان کے طور پر اخذ کرتا ہے جو سائنس اور فن کی علامتی زبانوں کے درمیان رابطے کا کام کرتی ہے۔ نارتھروپ فرائی نے کیسرر اور سوزان کے لینگر کے اساطیری علامتی نظام کے تصور کو اپنی تصنیف The Anatomy of Criticism میں بحث کا موضوع بنایا ہے۔ کیسرر اور لینگر نے شاعری اور متھ کے فرق کو بنیاد بنایا تھا جب کہ فرائی دونوں کے انضمام پر زور دیتا ہے۔

اسطور اور دوسرے علوم و مکاتب

اساطیر بہ یک وقت کئی علوم پر اثرانداز ہوئے ہیں۔ اساطیر کی علامتی جہتوں سے کئی جدید علوم نے اپنی تحقیقات میں مدد لی ہے۔ تحلیل نفسی اساطیری مفاہیم کو خصوصی طور پر آفاقی نفسی تصادمات کے مظہر کے طور پر اخذ کرتی ہے جس کی بہترین مثال ایڈی پس کامپلیکس کی ہے۔ سی۔ جے۔ یونگ نے محض اساطیر کے مطالعے ہی کو بنیاد بنا کر اپنے تصورات قائم نہیں کیے بلکہ خوابوں، مذہب اور فن کی مثالوں سے آر کی ٹائپ کا تصور قائم کیا۔ جسے وہ آفاقی تشکیلی عملیے کی بنیاد قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہتا ہے کہ یہ عملیہ Process ہی اساطیر کی تشکیل و تعمیر کرتا ہے۔ تہذیبی بشریات کی رو سے اساطیر سوسائٹی کی یک جہتی اور ہم آہنگی کو مستحکم کرنے کی سب سے بڑی طاقت اور ذریعہ ہوتے ہیں۔ درخیم نے سماجی مطالعات میں اساطیر کو اجتماعی ضمیر کا مظہر کہا ہے۔ یہ وہ اصول اور شعائر ہوتے ہیں جن سے روشنی اخذ کرکے افراد سماجی بنتے ہیں اور جو صنعتی دور سے پہلے اور بعد کی سوسائٹیوں میں مضبوط رشتہ قائم کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔ فرانسیسی مارکسی فلسفی جیورجس سوریل کی تصنیف Reflection on Violence (1907) میں وہ عصری سیاست اور سماجی واقعات کو طاقتور اساطیر کے طور پر اخذ کرتا ہے۔ (جیسے عام ہڑتال)۔ اس قسم کے اساطیر لازماً عوامی سیاسی عمل کے لیے تحریک کا باعث بننے والے جذبات کومشتعل کرتے ہیں۔

لیوی اسٹراس ساختیاتی بشریات میں سوسیئر کی نشانیات کی تھیوری پر اساس رکھتا ہے۔ وہ اساطیر کو نشانیاتی نظام کے طور پر مانتا ہے۔ وہ ان اصولوں کی تحقیق کرتا ہے کہ کس طرح ایک اسطور دوسرے اسطور کے قالب میں ڈھل جاتا ہے۔ بعد ازاں رولاں بارتھ نے بھی اسطور کو اپنے تجزیے میں ایک اوزار کے طور پر استعمال کیا۔ اس طرح اس نے اسطور اور عصری تہذیب کے باہمی ربط کو حوالہ بنایا ہے۔ اسٹراس کا کہنا ہے کہ نشان sign اسطور کو مجسم کرتا ہے اور مجرد تصورات کو ایک خاص اظہار کی صورت بخشتا ہے۔

اسطور اور نفسیات

سگمنڈ فروئڈ وہ پہلا نفسیات داں ہے جس نے اپنی تحقیقات اور نفسیاتی تجربات و نتائج کو مستحکم کرنے کے لیے اساطیر سے جابجا کام لیا ہے اس سلسلے میں اس کی معرکۃ الآرا تصنیف The Interpretation of Dreams کا خاص مقام ہے۔ وہ کہتا ہے کہ بچے میں اپنی ماں کے لیے زبردست دبی کچلی خواہش ہوتی ہے۔ باپ اس کی راہ میں ایک ایسی رکاوٹ ہوتا ہے جسے وہ ہٹا کر ماں پر پورا اختیار چاہتا ہے۔ اسے وہ Oedipus Complex کہتا ہے۔ اسی طرح لڑکی کے اندر بھی باپ کے لیے اسی قسم کی نفسی خواہش ہوتی ہے جسے فروئڈ Electra Complex کے نام سے موسوم کرتا ہے۔ اس مظہرے Phenomenonکو خوابوں،  اساطیر، پریوں کی کہانیوں، لوک قصوں اور حتیٰ کہ لطائف میں دیکھا جاسکتا ہے۔ فروئڈ نے Oedipus اور Electra جیسے کردار اساطیر ہی سے اخذ کیے تھے۔ وہ کہتا ہے کہ:

Myth was the distorted wish- dreams of entire people

اساطیر تمام انسانوں کے ٹوٹے پھوٹے خواہش بیز خواب ہیں۔

اسی بنا پر فروئڈ کا خیال ہے کہ خواہش کی راہ میں رکاوٹ کے باعث بچہ باپ سے بغاوت پر آمادہ ہوتا اور اسے قتل کرنے کے درپے بھی ہوجاتا ہے اور ایڈی پس کی طرح اپنی ماں کو لے کر فرار بھی ہوسکتا ہے۔

جے۔ اے۔ ایٹکنسن کی مرتبہ ’ڈکشنری آف سائیکلوجی‘ میں ایڈی پس کامپلیکس کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ:

The child's repressed desires for sexual intercourse with the parent of the opposite sex. Originally Freud used the term Odepus Complex to refer the boy's desire for the mother, and the term Electra Complex to refer to the corresponding  desire of the girl for the father. More recently, psychoanalysts  use Oedepus  Complex to refer to both sexes. 4

ترجمہ:مرد بچے کی اپنے مخالف جنس والدین کے ساتھ جنسی عمل کی شدید خواہش۔ بنیادی طور پر فروئڈ نے ایڈی پس کامپلیکس کی اصطلاح کو صرف مرد بچے کی اس خواہش کو مدنظر رکھ کر کیا تھا جو وہ ماں کے تعلق سے رکھتا ہے اور الیکٹرا کامپلیکس کو اسی معنی میں لڑکیوں کی اس خواہش سے وابستہ کیا جس کا مرکز باپ ہوتا ہے۔ جدید ترین نفسیات داں اب دونوں یعنی لڑکی اور لڑکے کے لیے ایڈی پس کامپلیکس کی اصطلاح ہی استعمال کرتے ہیں۔

فروئڈ نے یہ اصطلاح سوفوکلیز کے شہرۂ آفاق المیہ ’ایڈی پس دی کنگ‘ سے لی تھی جس میں ایڈی پس کے ذریعے نادانستہ طور پر اس کے باپ کا قتل ہوجاتا ہے اور پھر وہ اپنی ماں سے شادی کرلیتا ہے۔ اسطوری ادوار ہی میں نہیں عہد وسطیٰ اور اس کے بعد کے شہنشاہیت کے زمانوں میں بھی فاتح بادشاہ مفتوح ملکاؤں سے شادی کرلیا کرتے تھے۔ ایڈی پس بھی لاعلمی میں باپ کے قتل اور ماں سے شادی کرکے ایک عمومی سماجی اخلاقی قانون کی خلاف ورزی کربیٹھتا ہے جو بالآخر اس کے لیے بہت بڑے عذاب کا سبب بھی بنتا ہے۔

ایڈی پس کے بارے میں یہ اسطوری کہانی مشہور ہے کہ تھیبیس کے بادشاہ لایوس (Lauis) کا بیٹا تھا۔ اس کی ماں کا نام ملکہ جو کاسٹا تھا۔ لایوس کے ایک گناہ کی پاداش میں اسے یہ بشارت دی گئی تھی کہ اس کی موت اس کے بیٹے کے ہاتھوں ہوگی۔ برسوں تک وہ اپنی بیوی سے فاصلہ بنا کے رکھتا ہے لیکن ایک روز نشے کے عالم میں وہ مجامعت کربیٹھتا ہے۔ ایڈی پس اسی کا ثمر تھا۔ ایڈی پس کے پیدا ہونے پر لایوس اس کے پاؤں چھید کر اسے دور ایک پہاڑ پر مرنے کے لیے پھینک دیتا ہے۔ ایک چرواہے کی نظر اس پر پڑجاتی ہے وہ اسے کورنتھ کے بادشاہ پولی بس کے سپرد کردتیا ہے جو لاولد تھا۔ چونکہ ایڈی پس کا پیر مخدوش تھا۔ اس لیے وہ اس کا نام ایڈی پس رکھتا ہے جس کے معنی سوجے ہوئے (متورّم) کے ہوتے ہیں۔ بڑے ہوکر اس کی جنگ تھیبیس کے بادشاہ لایوس (اس کے باپ) سے ہوتی ہے جو مارا جاتا ہے اور ایڈی پس لاعلمی میں اپنی ماں سے شادی کرلیتا ہے۔ جو کاسٹا کے بطن سے دو لڑکے اور دو لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی اثنا میں تھیبیس میں پلیگ کی بیماری پھیل جاتی ہے۔ ہزاروں انسانوں کی موت واقع ہوتی ہے۔ لایوس، کریون، کو ڈیلفی کے مندر بھیجتا ہے۔ غیب سے یہ جاننے کے لیے کہ اس تباہی کی وجہ کیا ہے۔ یہ کس گناہ کی پاداش میں آسمانی عتاب نازل ہوا ہے، ٹائیرے سس (Tiresias) نامی ایک بزرگ ایڈی پس کو گناہ گار بتاتے ہیں۔ ایڈی پس کے لیے یہ خبر ناقابلِ برداشت تھی۔ وہ اپنی آنکھیں پھوڑ لیتا ہے اور تھیبیس کو چھوڑ کر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ جو کاسٹا خودکشی کرلیتی ہے۔    ایڈی پس کی بیٹی ایٹی گنی اس کا ساتھ دیتی ہے۔ ایتھنس کے قریب کولونس کے مقام پر اس کی موت واقع ہوتی ہے۔ ایتھنس کے باشندوں کے لیے ایڈی پس کی موت کی خبر ایک خوش شگونی کے مترادف تھی۔ اس کی موت پر عوامی جشن منائے جاتے ہیں۔

فروئڈ نے ایڈی پس کی طرح الیکٹرا کی اصطلاح بھی یونانی اسطور سے حاصل کی ہے۔ الیکٹرا، اگامینن کی بیٹی تھی جو مائی سینائے Mycenae کا بادشاہ تھا۔ الیکٹرا کے معنی ہیں ’آگ‘ چمک یا بجلی۔ جب اگامینن ٹرائے کی جنگ سے لوٹا تو اس کی بیوی اپنے عاشق ایگس تھس Aegisthus کے ساتھ مل کر اسے قتل کردیتی ہے۔ الیکٹرا کو ایگس تھس کے قاتلانہ ارادوں سے واقف تھی وہ اس کے ظلم سے اپنے بھائی اوریس ٹس Orestus کو بچا کر انھیں وہاں سے دور روانہ کردیتی ہے۔ برسہابرس کے بعد اوریس ٹس مائی سینائے لوٹتا ہے۔ دونوں بہن بھائی باپ کی قبر پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔

لیوی بروہل اور جے۔ سی۔ یونگ کے اسطوری تصورات فروئڈ کے مقابلے میں زیادہ مثبت اور تخلیقی ہیں۔ بروہل بھی اسطور کو پس منطقی Pre-logical ذہانت کی اختراع مانتے ہوئے ایک ایسے طریق فکر سے منسوب کرتا ہے جو قدیم انسانوں میں عمومیت کا درجہ رکھتی تھی۔ حتیّٰ کہ موجودہ زمانوں میں جہاں جہاں قبائلی گروہ اپنے اپنے حدود میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ ان کے یہاں بھی سوچنے کا یہ ڈھنگ عام ہے۔ ان کی اس سوچ میں ایک mystical participation سرّی شمولیت کی جھلک کا بھی تجربہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ موضوع اور معروض کو ایک ہی وحدت میں دیکھتے اور سوچتے ہیں۔ یونگ نے اساطیر ہی سے ’اجتماعی لاشعور‘ کا تصور اخذ کیا۔ اسی طرح اس کے آر کی ٹائپس (archetypes) کے تصور کی جڑیں بھی اساطیری نظام ہی میں پیوست ہیں۔ آر کی ٹائپس بنیادی قماشات ہیں۔ وہ ان کا رشتہ اساطیر‘ پریوں کی کہانیوں اور خوابوں سے جوڑتا ہے۔ جو تمام انسانوں کی سائیکی میں مشترک ہیں۔

اسطور اور مذہب

اسطور کے بارے میں بڑی آسانی کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی ایک حیثیت قبائلی مذہب کی ہے۔ وہ سارے مذاہب جن کی جڑیں مشرق وسطیٰ میں ملتی ہیں یا ہندوستان میں یا ایران کے زرتشتوں کے یہاں کسی نہ کسی پہلو سے ان کی اسطورسازی میں اساطیری روایت کا دخل ضرور ہے۔ اساطیر کی ایک شکل دیوی دیوتاؤں کی صورت میں دستیاب ہے۔ دوسری ان کی ماورائی اور مابعدالطبیعیاتی متعلقات سے وابستہ ہے۔ بعض رسومیات جو محض اساطیری ثقافت سے منتقل ہوتی ہوئی چلی آرہی  ہیں اصولی طور پر مذہبی شعائر سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کی بنیاد محض ثقافت میں جمی ہے۔ مختلف انسانی سماجوں میں کئی انقلاب آفریں تبدیلیاں واقع ہونے کے نیز سائنس اور منطق کی سطح پر ترقیات کی نئی منازل چھونے کے باوجود ان مذہبی رسومات و عقائد کا سلسلہ برقرار ہے بالخصوص جن کی کوئی عقلی بنیاد نہیں ہے۔ جیمس فریزر نے ابتدائی انسانوں کے سماجی رسوم، موسمی تقریبات، شکست و فتح کے جشن وغیرہ کے بارے میں بحث کرتے ہوئے اسطور کو قدیم ترین مذہبی شعور سے تعبیر کیا ہے۔ اسطوری تہذیبوں کے بعد جن مذاہب نے نشو و نما پائی ان کی علامتی نمائندگیوں میں اساطیر کی حیثیت ایک عظیم ماخذ کی ہے۔ وہ فطرت جو اسطور میں پوری طرح غالب اور محیط ہے مذاہب میں اس کی جگہ انسان لے لیتا ہے۔ انسانی اخلاقیات کی ایک ایسی دنیا تشکیل پاتی ہے جہاں عبادات، زندگی گزارنے کے طریقے، جرم و سزا کے قوانین، ماورائی دنیا کے طلسماتی تناظر کی غیرعقلی بنیاوں کو اسطور سے جوڑا جاسکتا ہے لیکن انھیں عقائد کا درجہ دینے کے باعث کسی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ متھ کو بھی کسی سند کی ضرورت نہیں ہے لیکن انھیں عقلی سطح پر شک کی نظر سے دیکھنے کے باوجود اور کبھی کبھی مسترد کرنے کے باوجود ان سے علامتی رشتے کو قائم رکھنا بنی نوع انسان کی مجبوری ہے۔

برٹانیکا کے مطابق عہدنامہ قدیم میں اسطوری مواد کافی ہے۔ بشریات کے ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ یہ اسطوری تھیم قدیم یونانی، چینی اور ہندوستانی اساطیری فکر کے سلسلوں سے مناسبت رکھتے ہیں۔ یہود نے مذہبی سطح پر سب سے پہلے ان پر ضرب لگائی۔ کیونکہ ان قصص کی کوئی صداقت بیز بنیاد نہیں تھی۔ اسطوری دیوی دیوتاؤں کے ایک بڑے حصے کی شکلیں فطرت سے اخذ کی گئی ہیں یا فطرت کی بنیاد پر ان کی تشکیل ہوئی ہے جیسے ہوا کے دیوتا (یا خدا)، پانی، سیلاب، تباہی، سورج، چاند، وغیرہ کے دیوتاؤں کا ایک سلسلہ ہے جو مصر، بابل و نینوا، چین، یونان اور ہندوستان وغیرہ کے اساطیر کی نظاموں میں مشترک قدر کا حکم رکھتا ہے۔ جن مذاہب کی بنیادیں مشرق وسطیٰ میں ملتی ہیں وہ کئی سطحوں پر اسطور مخالف ہیں۔ عہدنامۂ جدید میں بھی اسطور کو godless اور مضحک بتایا گیا ہے۔ اسلام نے اسطور کو کبھی حوالہ نہیں بنایا بلکہ اسطور سازی میں بت ساز ی کا شائبہ بھی ہے اس لیے اسلام اساسی طور پر اسطور مخالف مذہب ہے۔ بعض ضمنی مماثلتوں کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اسلامی شعائر کی تشکیل و ترکیب میں اسطوری بصیرت اور اسطوری تجربے کا کوئی دخل ہے۔ مثلاً وہ علامتی مخلوق جسے جِنّ کہا گیا ہے اور جس کا استعمال اکثر اِنس (انسان) کے ساتھ ملتا ہے۔ کوئی اسطوری تخلیق نہیں ہے۔ جیسا کہ برٹانیکا کا خیال ہے:

Islam is  emphasis on the transcendence of God, as attested in the Quran, similarly allows little room for mytheological stories. The activities of the supernatural beings known as 'Jinn' however are acknowledged even by official Islam besides being prominent in popular belief (as in the Thousand and One Nights); and other mythological themes, for example motifs relating to the and of time (eschatology), also figure in Islamic religion.5

ترجمہ:خدا کے ماورائی یا انسانی تجربے سے پرے جو قرآنی تصور ہے وہ کسی قدر اسطوری کہانیوں سے میل کھاتا ہے۔ اسلام ’جن‘، جیسی فوق الفطری مخلوق کا اقرار کرتا ہے علاوہ اس کے جسے ایک مقبول عام عقیدے کے طور پر ’ایک ہزار ایک رات‘ نام کی داستان میں نمایاں طور پر جگہ دی گئی ہے۔ دوسری مثال کے طور پر آخرت (یا روز قیامت) سے متعلق تصورات کا بھی اسطوریاتی موضوعات سے تعلق ہے۔ مذہبِ اسلام میں ان کا بھی خاص مقام ہے۔

اس سے قبل کئی جگہ یہ عرض کیا جاچکا ہے کہ عقائد کو کسی سند کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سماوی الفاظ کی تفاسیر کا سلسلہ روزِ قیامت تک جاری رہے گا کیونکہ سماوی الفاظ کی غیرمحدود معنویت اور وسیع تر علامتیت کی فہم و شرح کے لیے انسانی ذہن کی حدود اور صلاحیت ناکافی ہے۔ وہ تفاسیر جو سو دوسو برس یا ہزار برس پہلے لکھی گئی تھیں۔ موجودہ ادوار میں قلم بند کی گئیں تفاسیر کے مقابلے میں کافی محدود اور مخصوص ہیں۔ مختلف نت نئے علوم اور تحقیقات کی روشنی میں تفاسیر کا معنوی کُرہ بے حد وسیع ہوا ہے۔ جہاں تک برٹانیکا کے مرتبین کے بعض اسلامی تصورات کے سلسلے میں خیالات ہیں اس کا ایک بڑا سبب  یہ ہے کہ وہ اسلام کو بھی تحریف شدہ عیسائیت کے مقابلے پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ عیسائیت نے جب روم و یونان میں اپنے قدم مضبوطی سے جمائے تو ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اسطور شکنی تھا۔ انھوں نے اسطور کو خرافات کا نام ضرور دیا لیکن اسطوری تناظر سے اپنی تفاسیر کو ثروت مند اور معتبر بنانے کی سعی بھی کی، جیسا کہ پروفیسر عتیق اللہ نے ’عہد بزنطینی‘ کے تحت یہ واضح کیا ہے کہ:

یونانِ قدیم کی تہذیب اور اس کے آثار، فنونِ لطیفہ، فلسفہ اور دیگر علوم، اساطیر اور اساتین (سورما) وغیرہ کو رومیوں نے مشرف بہ روم اور بعد ازاں مشرف بہ مسیح تو کرلیا تھا مگر یونانی روح کی بالادستی بڑی حد تک قائم رہی۔ چوتھی صدی عیسوی میں جب شہنشاہِ قسطنطین نے مسیحیت قبول کرلی تب بزنطینیوں کو یونانی فکر و فن، کفر و الحاد بہ الفاظِ دیگر خرافات کا مجموعہ نظر آنے لگا۔ ایک ایسی عظیم ترین تہذیب کو چشم زدن میں تہس نہس کر دینا آسان نہ تھا جس کی تاریخ ماضی میں کئی صدیوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ ہر عمل کے برابر ہی اس کا ردِّعمل ہوتا ہے۔ ضدیں،باہمی تناقض کے باوجود ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتی ہیں اور آخری شمار میں کسی ایک واحدے میں ضم ہوجاتی ہیں یا ان کی خلقی original  صورتیں یکسر بدل چکی ہوتی ہیں۔ 6

اس تجزیے کے بعد وہ یہ بتاتے ہیں کہ کس طرح عیسائیت کو اسطور کے سامنے سپر ڈالنی پڑی؟ اور عقیدے کے اِس تصادم کے بعد عیسائیت میں مسلسل ضمنی اور نمایاں تبدیلیاں واقع ہوتی رہیں؟ روحانیت، مادیت میں ضم ہوتی چلی گئی۔ سائنس کے نت نئے کائناتی تصورات اور تحقیقات نیز مادّی آسائش کو عبادات و اخلاقی احکامات پر ترجیح دی جانے لگی۔ پروفیسر عتیق اللہ نے اِس مسئلے کو بھی موضوعِ بحث بنایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

داخلی سطح پر یونانی فکر کی صلابت اور حرکیت، اسطوری، ذہنی و دانش ورانہ حریت، صداقت کی تلاش و تحقیق اور استنباطِ نتائج کے طریق ہائے کار کے معنی آہستہ آہستہ مسیحی ضمیر کا حصہ بننے لگتے ہیں۔ بعد ازاں جس کے اثمار قرونِ وسطیٰ کی موخر صدیوں سے رونما ہوتے ہیں۔ پروٹسنٹ فرقے کا قیام، کلیسائے روم کی مرکزیت کا کم زور پڑنا، مشرقی بنیادی مسیحی روح سے انحراف اور اس مغربیت کی ترویج جس کا مصدر اصلاً یونانی دانش کی حیاتیات تھی نیز حضرت ِ عیسیٰ اور حضرت مریم کا ایک مجسم اسطور کی شکل اختیار کرلینا ایسے واضح نشانات ہیں جو یونانی فکر کی بالیدہ ساختوں کا ثبوت فراہم کرتے ہیں بیسویں صدی تک آتے آتے مسیحی عقیدے کے معنی صرف مسیح پر ایمان کے ہوگئے۔ خدا پر اس کا یقین ہو یا نہ ہو مسیح پر ایمان ہی ایک عیسائی کے لیے کافی ہے۔7

حواشی

1   انورصدیقی: ساخت و شناخت، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی 1993

2  گوپی چند نارنگ ’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، ایجوکیشنل ہاؤس دہلی، 1993 ص 115

3             پروفیسر عتیق اللہ ’ادبی اصطلاحات کی وضاحتی فرہنگ‘، اردو مجلس دہلی 1996، ص 127

4             A Dictionary of Psychology, ed. J. A. Atkins & others, IV edition, 1987

5             Encyclopaedia of Britanica Vol. 24

6             پروفیسر عتیق اللہ، ادبی اصطلاحات کی وضاحتی فرہنگ، اردو مجلس 1996، ص 345

7             -do-

 

ماخذ: اردو ہندی فکشن میں اساطیر،مصنف: ناز قادری، پہلی اشاعت: 2021، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

ادب پر اساطیر اور مہماتی قصوں کا اطلاق، ماخذ: اردو ہندی فکشن میں اساطیر،مصنف: ناز قادری

  اردو دنیا، اپریل 2025 وہ تہذیبیں زیادہ تخلیقیت اور بارآوری کی حامل ہوتی ہیں جن کے پاس اساطیر کا بیش بہا خزانہ ہوتا ہے۔ ادب و فنون کے عل...