27/6/25

ہوش صاحب، مضمون نگار: عبد اللہ خالد

 اردو دنیا، مارچ 2025

میانہ قد،گندمی رنگت، باوقار چہرہ اور پرعزم وتابناک آنکھوں والے ہوش نعمانی صاحب کی پیدائش 22 مارچ1933کو رامپورکے محلہ ٹھوٹر میں ہوئی تھی۔ اُن کے والد سعادت یار خاں سلطانی ریاست رامپور میں کسی معمولی عہدے پر تھے۔ والیِ رامپور کی ناراضگی کے سبب ملازمت سے برطرف کردیے گئے تو گھر سے آسودگی بھی رخصت ہوگئی، تنگی کے اسی دور میں ہوش صاحب کی پیدائش ہوئی۔ شرافت یار خاں نام رکھا گیا،  ہوش سنبھالا تو تعلیم کی ابتدا ہوئی۔ چند درجات تک حصولِ تعلیم کے بعد حالات کی سختی مانع آئی اور اعلیٰ تعلیم کا خواب پورا نہ ہوسکا۔البتہ علم وادب سے ایسا شغف تھا کہ مطالعے اور علمی مجلس سے بہت کچھ سیکھا۔ نوعمری سے ہی شاعری کرنے لگے۔ کچھ عرصہ بعد رامپور کے نامور استاد شاعر جلیل نعمانی کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہوگئے۔ جوانی کی عمر میں معاش کا مسئلہ درپیش آیا تو چند ملازمتیں کیں، مختلف اخبارات ورسائل سے وابستہ رہے لیکن جب مشاعروں میں خوب شرکت کرنے لگے اور مشاعروں سے معاش کا مسئلہ بھی حل ہونے لگا تو ساری غیر ادبی نوکریاں چھوڑ کر مستقل ملازمتِ سخن ہی اختیار کرلی۔ رفتہ رفتہ وہ دن بھی آئے کہ ہوش صاحب مشاعروں کے مقبول اور کامیاب شاعروں میں شمار ہونے لگے۔ مشاعروں سے الگ انھوںنے نہ جانے کتنی شعری وادبی انجمنیںقائم کیں، بے شمار سخن دوست افراد اور نومشق شعرا کو ادبی سرگرمیوں میں شامل رکھا ۔۔۔۔اور نہ جانے کیا کیا۔میں 1996 میں جب ان کا شاگر دہوا تو اُن کی مذکورہ ادبی سرگرمیاں بڑی حد تک کم ہوچکی تھیں۔ کبھی وہ دور بھی تھا کہ مسلسل مشاعروں میں شرکت کے سبب اہلِ خانہ کئی کئی دن بعد ان کا دیدار کرتے تھے ‘ اب یہ حال کہ زیادہ تر گھر میں رہتے۔ لیکن ارادوں میں مضبوطی اور قوتِ عمل میں وہی تازگی تھی۔ ان کا زیادہ تر وقت مطالعے، شعر گوئی اور تلامذہ کی تربیت میں صرف ہوتاتھا اوران مشغولیات میں کچھ وقت وہ بھی تھا جب احباب، سخن دوست اصحاب اورمقامی شعرا کی آمد ورفت کا سلسلہ جاری رہتا۔ لوگوں کی مسلسل آمد ورفت اور پیہم ربطِ خاص ہوش صاحب کی شخصیت کے سحر کا اثر تھا،  نہ جانے کب اور کن مراحل سے گزر کر انھوںنے اپنی انا کو اتنا دبا دیا تھا کہ وہ تقریباً معدوم ہوکر رہ گئی تھی۔ دل نوازی وانکساری سے آراستہ ان کی گفتگو مخاطب کو ایسا باندھ لیا کرتی تھی کہ پھر کبھی نہیں چھوٹتا تھا۔ انکساری محض شخصیت اور سماجی مراسم کا حصہ ہی نہ تھی بلکہ ان کی شاعری میں بھی اس کا نمونہ نظر آتا ہے۔ یہ انکسار کا مظہر ہی تو ہے کہ ایک شعر تمام زندگی میں انھوںنے ایسا نہیں کہا جس سے تعلّی کا رنگ جھلکتا ہو‘ پھر سب کی تعریف اور حوصلہ افزائی کی خوبی بھی ان میں موجود تھی۔ تعریف اتنے بھرپور انداز میں، ایسی صداقت اور خلوص کے ساتھ کرتے تھے کہ احمق تو احمق، باشعورآدمی کادماغ بھی گھنٹوں آسمان میں پرواز کرتا تھا۔ کوئی طنزیہ لہجہ اختیار کرے یا کسی معاملے میں اعتراض، ہوش صاحب انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اُڑا دیتے اور اپنی شانِ دلنوازی میں کمی نہ آنے دیتے تھے۔مجھے خوب معلوم ہے کہ کبھی ان کی کسی سے معاصرانہ یا منافرانہ چشمک نہیں رہی۔ صلحِ کل کی پالیسی ‘منکسر المزاجی اور شخصی وقار ہمیشہ اس قسم کے مراحل سے ان کو بچالیتا۔ْ بنیادی طور پر وہ’چشمک دار‘ شاعر نہیں تھے۔

ہوش نعمانی صاحب بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔غزل سے ہی آغازِ سخن کیا تھا اور ان کی آخری کاوش بھی غزل ہی کی شکل میں یادگار ہے۔ بقول ہوش صاحب ان کا پہلا شعر یہ تھا         ؎

جب بھی ہم آشیاں بناتے ہیں

اک تغیر فضا   میں  پاتے  ہیں

ابتدا میں روایتی شاعری کا زور رہا، پھر مطالعے ومشاہدے نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ زمانے کے سردوگرم، زندگی کے تجرباتِ نو بہ نو اور حادثات و واقعات نے بھی غزل میں جگہ پانا شروع کی۔ اُن کا ذہن اپنے آس پاس کے ماحول،  سماجی صورت حال،  شہر،  وطن اور دنیا کے حالات کی جستجو سے لبریز تھا۔ ٹی وی اور ریڈیو پر مستقل خبریں سننا، پابندی سے اخبارکا مطالعہ کرنا ، گھر، باہر، محلہ، پڑوس ہر جگہ حالات وکیفیات اور ساکن ومتحرک رجحانات پر نظر رکھنا اور ان کو اپنے اشعار کا حصہ بنانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ شاید اسی لیے رامپور کے شعرا میں شاد عارفی کے بعد سماج، حالات وواقعات اور نئے رجحانات پر مشتمل اشعار ہوش صاحب کے کلام میں سب سے زیادہ ہیں۔ روایت کے قدردان تھے لیکن جدت کے لیے بھی ان کا دروازۂ فکر کھلا ہوا تھا۔ نہ صرف موضوعات بلکہ لسانی حوالے سے بھی کشادہ ذہن تھے اسی لیے ان کی شاعری میں ٹھیٹھ ہندی اور انگریزی کے الفاظ بھی کثرت سے ملتے ہیں،  انھوںنے بے تکلفانہ طورپر ’تِلک، چندن، آرسی،  پجارن، سَمے، استھان، اسنان‘ اور خالص انگریزی الفاظ ’گٹر، کَوَر،بلب، سگریٹ، سُوئچ‘وغیرہ کا استعمال کیا ہے          ؎

تمھارا شہر بنارس نہیں کہ  بس  جائوں

تِلک لگاکے یہیں پر برہمنوں کی طرح

یہ لاش اصل میں ہے قاتلوں کی لاچاری

یہاں قریب میں کوئی  گَٹَر  نہیں  ہوگا

غزل کے علاوہ انھوںنے تقریباً سبھی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی،  حمد ونعت ومناقب‘ منظومات،  قطعات، مدس، مخمس، مستزاد، تضمین، رباعی، مرثیہ، قصیدہ، چہار ابیات، ہائیکو، گیت، دوہے اور تاریخ گوئی کے نمونے ان کے مجموعہ ہائے کلام میں موجود ہیں۔

ہوش صاحب انتہائی قادرالکلام شاعر تھے، مسلسل مشق نے انھیں اس مرحلے تک پہنچا دیا تھا کہ ان کے لیے شاعری عام بول چال کی طرح ہوگئی تھی۔  تقریباً روزانہ ہی اُنھیں کچھ نہ کچھ اپنے یادوسروں کے لیے کہنا پڑتاتھا۔ جو یہ سب ان کی آمدنی کا ذریعہ بھی تھے،  پھر تلامذہ اور استفادہ کرنے والوں کے کلام پر اصلاح ومشورہ وغیرہ۔ غرض ان کا سارا دن اسی طور سے بسر ہوتا، تلامذہ کے علاوہ اُن سے استفادہ کرنے والوں میں ایسے بھی تھے جن کے اساتذہ کو گزرے ہوئے زمانہ ہوچکا تھا، مرحوم اساتذہ کے زندہ شاگردوں میں سے کچھ ہوش صاحب کاحقِ محنت ادا کرکے سبک دوش ہوجاتے اور کچھ اُن سے مشورۂ سخن کا اعتراف کرکے پیسے بچالیتے تھے۔ خفیہ استفادہ کرنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی بلکہ ان میں دو ایک تو ایسے بھی تھے کہ ہوش صاحب کی زود گوئی کے سہارے خود اپنے شاگردوں کی تعداد میں اضافہ کرتے رہتے اور ہوش صاحب کا دم اُن کے لیے ایسا غنیمت تھا کہ شرمندگی سے بچے رہتے تھے۔

ہوش صاحب کے تلامذہ کی تعدا د بھی کثیر تھی، کچھ نے شاعری چھوڑ کر دنیا داری سے دل لگالیا اور کچھ ہوش صاحب کی بے پناہ ہمت افزائی اور تعریف سے پھول کر ’اپنی استادی‘ کے مدعی ہوگئے۔حسبِ عادت ہوش صاحب نومشقوں کی اتنی حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ اکثر لوگ شکایت بھی کرتے ’آپ نومشقوں کا دماغ خراب کررہے ہیں ‘مگر وہ کسی کو کوئی صفائی دیے بغیر اپنی روش پر تاعمر قائم رہے۔ کتنے ہی نوواردانِ سخن اُن کی حوصلہ افزائی کے سبب پراعتماد ہوکر شعر کہنے لگے اور مشہور بھی ہوئے۔

ہوش صاحب کے مقامی وبیرونی تلامذہ کی صحیح تعداد لکھنا تو مشکل ہے مگر راقم الحروف کے علاوہ آزر نعمانی، طاہر کنول نعمانی،  عتیق جیلانی سالک، حسن اقبال، شارق نعمانی اور ہاشم نعمانی تادمِ حیات اُن کے رابطے میں رہے۔

ہوش نعمانی صاحب کی بارہ تصانیف ان کی حیات ہی میں منظرِ عام پر آگئی تھیں: ’اِندر دھنش (شاعری 1968)، میرا وطن (تذکرہ،  اردو نثر1974)، گھائوشبدوں کے (ہندی، منظومات وغزلیات اور گیت، 197)، زمزم وفرات (1987)، کائنات (1986)، شہادت نامہ (1994)، ادب گاہِ رامپور (1997)،  انجانی راہیں، ‘چھیڑ خوباں سے(2004)، آئینۂ مسدس(2006)، بیاں اپنا (غزلیات، (2008)،  اتمام(منظومات وغزلیات 2009)۔  قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اتمام یعنی آخری مجموعۂ کلام کی اشاعت کے بعد انھوںنے اپنے انتقال تک محض دو ایک غزلیں اور ایک نظم ہی کہی جن کی اشاعت روزنامہ رامپور کا اعلان میں ہوگئی تھی۔ اُن کی شخصیت وفن پر تین کتابیں ’’آج کا شاعر ہوش نعمانی از عتیق جیلانی سالک، 1986اور ’شناخت ( ہوش نعمانی اور ان کے چند تلامذہ کا کلام وتعارف) مرتبہ تبسم نشاط مرحوم، 1996 اور آزر نعمانی کی کتاب ’ہوش نامہ‘  1999میں شائع ہوکر مقبول ہوچکی ہیں۔ ہوش نعمانی شخص وشاعر کے عنوان سے ایک کتاب زیرِ تکمیل ہے جس کے مصنف رضوان لطیف خاں ہیں۔

ان کی زود گوئی کا اصل رنگ میں نے اس وقت دیکھا جب وہ ’ادب گاہِ رامپور‘ کی تکمیل کررہے تھے،  ایک ایک نشست میں ڈیڑھ سو، دوسو اشعار کہنا عام بات تھی یہاں تک کہ وہ بولتے جاتے اور میں لکھتے لکھتے تھک جاتا تو ہاتھ روکنے کے بہانے کہتا ’’ہوش صاحب! پان کھالیجیے کافی دیر سے نہیں کھایا آپ نے۔‘‘ ہوش صاحب اچھا کہہ کر اُٹھ جاتے اور اس طرح کچھ دیر مجھے آرام کا موقع مل جاتا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کی زود گوئی نے انھیں کسی حد تک نقصان بھی پہنچایا،  ظاہر ہے کہ انھیں وقت ہی میسر نہ آسکا کہ اپنے کلام پر نظرِ ثانی یا ترمیم کرسکیں جس کی وجہ سے بہت سے ایسے اشعار بھی ان کی غزلیات ومنظومات میں در آئے جو اُن کے معیارِسخن سے کم تر تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے غزل کو کئی عمدہ اور یادگار اشعار دیے ہیں جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے بالخصوص ذیل کے دو اشعار تو ادبی دنیا میں کافی مشہور ہیں           ؎

وہ تو بتا رہا تھا کئی روز کا سفر

زنجیر کھینچ کر جو مسافر اتر گیا

جسم تو خاک ہے اور خاک میں مل جائے گا

میں بہر حال کتابوں میں  ملوں  گا  تم کو

اول الذکر شعر صبا افغانی رامپوری کے اچانک انتقال پر کہا تھا اور دوسرا شعر ماہنامہ الحسنات رامپور کے’ مولانا مودودی نمبرؒ‘ کے ٹائٹل کے لیے فی البدیہہ کہا۔

ہوش صاحب کا بچپن کشمکش سے بھرا ہوا ضرور رہا ہوگا لیکن جوانی سے بڑھاپے تک کی عمر انھوںنے کسی قدر سکون وعافیت کے ساتھ گزاری۔ ان کی اہلیہ زیب النساء بیگم انتہائی خدمت گزار اور شوہر پرست خاتون تھیں۔ اولاد میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا بلاغت یار خاں المعروف بان نعمانی بھی ان سے بہت محبت کرنے والے تھے۔ کبھی کبھی وہ مجھ سے بڑے فخر سے کہتے تھے کہ :دنیا کچھ کہے، کچھ مانے، لیکن میرے لیے یہی بہت ہے کہ خود میرے گھر میں بہ حیثیت شاعر مجھے بہت عزت حاصل ہے۔‘‘حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ مقامی ادبی حلقوں میں اُنھیں بہت اعتبار اور پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا تھا وہ ایسے شاعر تھے جن کا کلام بے شمار عام وخاص لوگوں کو یاد تھا۔ ایک بار ایک رکشہ والا بڑی مستی کے عالم میں رکشہ چلاتے ہوئے شعر گارہا تھا         ؎

چاندی کے چراغوں سے نہ جل جائے جوانی

ماٹی کے دیے چھوڑ کے گائوں  سے  نہ  جائو

میں نے کہا :’’شعر تو بہت اچھا ہے ،کس کا ہے؟‘‘ بولا:’’ مجھے کیا پتہ ؟ نمائش کے مشاعرے میں سنا تھا۔‘‘ میں نے بتایاکہ ہوش نعمانی صاحب کا شعر ہے تو بولا: ’’ارے وہ ، جو بجوڑیوں( محلہ باجوڑی ٹولہ رامپور) میں رہتے ہیں۔‘‘ میںنے کہا :’’ہاں وہی۔‘‘اسی طرح مزدور طبقہ‘ دوکاندار‘ چائے کے ہوٹل والے ‘ اور کئی پھیری والے ایسے تھے جن کو ہوش صاحب کے اشعار یا گیت یاد تھے۔

2013 کی بات ہے۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگے : ’اتنی لمبی زندگی یوں ہی شاعری میں برباد کردی،  سب لاحاصل۔۔۔۔نہ کوئی جانتا ہے،  نہ مانتا ہے ۔۔۔ہائے افسوس۔‘‘ یہ سن کر لمحہ بھر کو مجھے سکتہ سا ہوگیا۔ ہمت کرکے انھیں تسلی دینے کے لیے بہت کچھ کہا مگر ان کو مطمئن نہ کرسکا۔ البتہ اس روز مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ ہوش صاحب کو اپنی موت کا یقین ہوچلا ہے۔ واقعی اس کے بعد وہ آہستہ آہستہ شکستگی سے دوچار ہوتے چلے گئے،  رامپور میں کئی ڈاکٹروں کو دکھایا پھر علی گڑھ میڈیکل کالج میں زیرِ علاج رہے جہاں ڈاکٹروں نے پیٹ میں آخری اسٹیج کا کینسر ہونے کی نشاندہی کردی۔ سعادت مند اکلوتے بیٹے نے اپنا کاروبار چھوڑ کر ان کا علاج اوربہت خدمت کی، وفا شعار اہلیہ ہمہ وقت سرہانے موجود رہیں۔ احباب مسلسل ان کو دیکھنے جاتے اور تسلیاں دیتے۔دعائیں ہوئیں ، ممکنہ دوائیں کی گئیں مگر کچھ کارگر نہ ہوسکا۔ پھر وہ دن (21 اگست 2014) بھی آیا کہ بولتی ہوئی آنکھیں بے جان، چہرہ ہر قسم کے تاثرات سے عاری اور مردِ سراپا سخن ہمہ تن خاموش تھا۔ واقعی اُن کی موت ہوگئی تھی۔

 

Abdullah Khalid

Ghair Kate Bazar Khan

Rampur - 244901 (UP)

Mob.: 9897496925

abdullahkhalidrmp@gmail.com

جمیل مظہری کی شاعرانہ خصوصیات، مضمون نگار: اسلم رحمانی

اردو دنیا، مارچ 2025

جمیل مظہری (2ستمبر1904، 23جولائی 1979) کا نام اردوشاعری میں محتاج تعارف نہیں ہے۔ وہ باکمال شاعر تھے۔ان کی شاعری معنی آفرینی،جدت طرازی اورمتنوع مضامین کا احاطہ کرتی ہے۔ جمیل مظہری ان کم یاب و کامیاب شاعروں میں ہیں جن کی مقبولیت کا سبب فن کی سچائی اور تخلیقیت کی وہ سطح ہے جہاں تخلیق اور تخلیق کار اس طرح ہم آہنگ ہو جاتے ہیں کہ تخلیق اپنے خالق کا آئینہ اور تخلیق کار اپنی تخلیق کا عکس بن جاتا ہے۔

جمیل مظہری کی زبان سادہ اور عام فہم ہے۔ ان کی نظموں اور غزلوں میں انسانی جذبات کی گہرائی اور سچائی ہوتی ہے، جو قاری کے دل کو چھو لیتی ہے۔مظہری نے اپنی شاعری میں نئے اور منفرد موضوعات کو چھیڑا ہے، جیسے محبت، زندگی کے مسائل اور معاشرتی موضوعات۔ ان کی شاعری میں خوبصورت تصویریں اور تشبیہیں ہوتی ہیں، جو قاری کو ایک نئے تجربے میں لے جاتی ہیں۔ ان کا رومانی انداز اور محبت کی خوبصورت تعبیرات انھیں خاص مقام عطا کرتی ہیں۔یہ عوامل مل کر جمیل مظہری کی شاعری کو مقبول بناتے ہیں، اور اردو ادب میں ایک اہم مقام عطا کرتے ہیں۔

جمیل مظہری کا ایک نمایاں وصف ان کی بہت سی غزلوں کا بے حد ذاتی ہوتے ہوئے بھی غیر ذاتی ہونا ہے۔ انھوں نے جو کچھ کہا وہ اکثر ان کے اپنے ذاتی در د و داغ کی داستان ہے، اس لیے اس میں تجربے کی سچائی اور جذبے کی وہ گرمی موجود ہے جو فرد کے نجی اوصاف کی مرہون منت ہوتی ہے۔ فنکاری یہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی تجربے میں قاری و سامع کو اس طرح شریک رکھتے ہیں کہ وہ درد اس کو اپنا سا محسوس ہوتا ہے۔ شاعرانہ فنکاری کا مطلب ہے شاعری میں تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال۔ اس میں چند اہم عناصر شامل ہیں:

(الف )  زبان اور الفاظ کا انتخاب: شاعر کو الفاظ کا ایسا انتخاب کرنا ہوتا ہے جو جذبات اور خیالات کو بہتر انداز میں پیش کرے۔

(ب)  تخیل: شاعر اپنے خیالات کو منفرد اور جاذب نظر انداز میں پیش کرنے کے لیے تخیل کا استعمال کرتا ہے۔

(ج)  غنائیت اور موسیقیت:   شاعری میں ایک خاص ردم اور قافیہ کی اہمیت ہوتی ہے جو اسے موسیقی کی طرح جاذب بناتی ہے۔

(د)  پیکر تراشی:  شاعری میں الفاظ کے ذریعے بصری، سمعی یا حسی تجربات کو زندہ کرنا، تاکہ پڑھنے والا احساسات میں ڈوب جائے۔

(ہ)  مضامین اور موضوعات:شاعری میں مختلف موضوعات جیسے محبت، فطرت، زندگی، موت وغیرہ کو پیش کیا جاتا ہے۔

یہ عناصر مل کر شاعری کو ایک منفرد اور دلکش شکل دیتے ہیں، جو پڑھنے والوں کے دلوں کو چھو لیتی ہے۔ جب ہم جمیل مظہری کی شاعری بالخصوص غزلوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی شاعری فنکارانہ معیار پر کھری اترتی ہے۔عام طور پر شاعری میں اور خاص طور پر غزل اور نظم میں فکر کی صلابت اور جذبے کی حلاوت کا متناسب امتزاج قائم رکھنا آسان نہیں ہے۔ صلابت کا مطلب ہے مضبوطی اور ثابت قدمی، جبکہ توانائی زندگی کی شدت اور جوش و خروش کی علامت ہے۔غزل میں یہ عناصر عشق، جدوجہد، اور استقامت کے ساتھ مل کر گہرائی اور اثر پیدا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، عشق میں صلابت کا اظہار وفاداری اور عزم کے ذریعے ہوتا ہے، جبکہ توانائی اس عشق کی شدت اور خلوص کو اجاگر کرتی ہے۔یہ دونوں کیفیتیں شاعر کی تخلیق میں ایک خاص چاشنی اور اثر پیدا کرتی ہیں، جو قاری کو متاثر کرتی ہیں اور زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کرنے کی ہمت دیتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جمیل مظہری نے یہ مراحل شخصی تہہ داریوں اور تخلیقی باریکیوں کے ساتھ کامیابی سے طے کیے ہیں۔ ورنہ غزل اور نظم میں  دانشوری  کے اتنے سراب زدہ مواقع آتے ہیں کہ اگر دل دردمند، ظرف تربیت یافتہ، جذبہ سچا، زبان، متعلقات زبان پر عبور اور آنکھوں میں خواب نہ ہوں تو نہ  شعر کے  کلام موزوں بننے میں دیر لگتی ہے اور نہ آدمی کے نام نہاد نقاد بننے میں۔ مسائل و مقاصد کو ذات میں جذب کرکے جس شعری سطح پر جمیل مظہری نے غزلوں اور نظموں میں نبھایا ہے اس کی مثال شاعری کے موجودہ منظر نامے میں خال خال ہی ہے بطور مثال چند اشعار ملاحظہ فرمائیں        ؎

بس ایک احساس نارسائی نہ جوش اس میں نہ ہوش اس کو

جنوں پہ حالت ربودگی کی خرد پہ عالم غنودگی کا

ہے روح تاریکیوں میں حیراں بجھا ہوا ہے چراغ منزل

کہیں سر راہ یہ مسافر پٹک نہ دے بوجھ زندگی کا

خدا کی رحمت پہ بھول بیٹھوں یہی نہ معنی ہے اس کے واعظ

وہ ابر کا منتظر کھڑا ہو مکان جلتا ہو جب کسی کا

وہ لاکھ جھکوا لے سر کو میرے مگر یہ دل اب نہیں جھکے گا

کہ کبریائی سے بھی زیادہ مزاج نازک ہے بندگی کا

جمیل حیرت میں ہے زمانہ مرے تغزل کی مفلسی پر

نہ جذبۂ اجتبائے رضوی نہ کیف پرویز شاہدی کا

جمیل مظہری کے شعری فن پاروں میں معاشرتی بحران کا انعکاس بخوبی ہوا ہے۔ انھوں نے موجودہ دور کا انتشار، اضطراب، تجسس، ہیجان اور پیچیدگیاں شعوری اور لا شعوری طور پربرتا ہے۔ جمیل مظہری نہ صرف ادبی حسن رکھتے ہیں بلکہ معاشرتی مسائل کی گہرائی میں جا کر ان کی تشریح کرتے ہیں، جو کہ معاشرتی بحران کی صورت حال کی عکاسی ہے۔ ان نظموں میں بیان کی خطابت نہیں بلکہ اظہار کی صلابت ہے۔کیونکہ ان کی شاعری چکاچوندھ سے پاک ہے۔چکا چوندھ سے پاک شاعری کا مطلب ہے ایسی شاعری جو سادگی،  شفافیت اور خلوص پر مبنی ہو۔ اس میں الفاظ کی بھاری بھرکم استعمال سے گریز کیا جاتا ہے، اور خیال کی وضاحت اور صفائی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس طرح کی شاعری میں انسانی جذبات، تجربات اور حقیقتوں کی عکاسی کی جاتی ہے، جس میں گہرائی ہوتی ہے لیکن پیچیدگی نہیں۔

جمیل مظہری نے اپنی شاعری میں عمیق احساسات کو سادہ اور مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔ان کی شاعری کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غزل کے روایتی مضامین اور خاص کر معاملہ بندی اور وادیِ عشق کے عامیانہ موضوعات ان کے یہاں نہیں ہیں۔  چند اشعار ملاحظہ فرمائیں            ؎

خلاف رسم تغزل غزل سرا ہوں میں

رباب وقت کی بگڑی ہوئی صدا ہوں میں

فضائیں دیں نہ جگہ میری بے قراری کو

ہوائیں مجھ کو سلا دیں کہ جاگتا ہوں میں

جمیل خنکیِ مرہم کا میں نہیں قائل

جراحتوں کو نمک داں دکھا رہا ہوں میں

جمیل مظہری کی شاعری میں ان کا اندازعموما قدرے انفرادی ہوتا ہے اوران کے تخلیقی وجدان میں حقیقت پسندی کی جو فکری سر شاری ہوتی ہے وہ ان کی شاعری میں بالکل نئی اور عجیب و غریب اہمیت کی حامل بنتی محسوس ہوتی ہے۔اور اسی سے ان کی شاعری میں زندگی کی حرارت اور توانائی بھی پیدا ہوتی ہے۔

مظہری کی شاعری میں بھی حرارت اور توانائی ہے، ان کی نظم نگاری ہو یا غزل گوئی ان کے یہاں صرف الفاظ کی اداکارانہ ترتیب اور قافیہ پیمائی کا نام شاعری نہیں ہے بلکہ فکر و تخیل،تجربات و مشاہدات اور احساسات وجذبات کے تخلیقی حسن کے ساتھ فنی اظہار کا نام شاعری ہے اور ہر اچھی اور قابل قدر شاعری میں ان خصوصیات کا ہونا ناگریز بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ فکری ریاضت اور فنی مزاولت بھی شاعر کے لیے درکار ہوتی ہے،کیونکہ شاعری لفظوں میں زندگی کی حرارت اور اندرونی سوز کی آنچ لفظی پیکروں میں ڈھال دینے سے وجود میں آتی ہے اور یہ وہ اوصاف ہیں جو فکری اور فنی زرخیزی کے ساتھ تہذیب اور تمدنی روایات و اقدار اور عرفان کے بغیر ممکن نہیں ہوتی ہیں۔یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ ماضی کے عرفان،حال کی معرفت اور مستقبل کے امکان سے شاعری میں حیرت انگیزی، کشش،جاذبیت،اور تاثیر در آتی ہے اور شاعری کے ان تمام اسرار و رموز سے جمیل مظہری پورے طور پر واقف نظر آتے ہیں۔ان کے لفظوں میں، خیالات کے ارتقا میں جو ربط و تسلسل ہوتا ہے وہ دراصل زندگی کے ماضی حال اور مستقبل کے ربط و تسلسل سے عبارت ہوتا ہے۔اس لیے ان کی غزلوں کی معنویت میں بھی ایک مخصوص قسم کی ضابطگی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنی غزل کو روایتی لہجے اور لفظیات سے الگ رکھا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں          ؎

بہت مشکل ہے پاس لذت درد جگر کرنا

کسی سے عشق کرنا اور وہ بھی عمر بھر کرنا

سر محفل ترا وہ پرسش زخم جگر کرنا

مری جانب بمشکل اک نظر کرنا مگر کرنا

مسلّم ہو گئی ہے بے اختیاری جذب باطن کی

محبت اس سے کرنا جس سے نفرت اس قدر کرنا

بڑھا کر ہاتھ تارے آسماں سے کون توڑے گا

جمیل اک کار ناممکن ہے تقلید قمر کرنا

جہاں تک بات جمیل مظہری کی شاعری کے فنی اوصاف کی ہے تو ان کے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کلام میں تراکیب، مغلق الفاظ اور اضافت کی کثر ت سے گزرتے ہیں۔ تشبیہات و استعارات کا نظام بھی بہت ہی فطری ہے۔ الفاظ نہایت سادہ اور عام فہم ہیں۔ الفاظ کی نشست میں فنکاری ملتی ہے۔ کلام میں روانی اور سوز وگداز بہت ہے۔یہاں تک کہ اکثر اشعاراپنی بے ساختگی اور روانی کی وجہ سے ضرب المثل بن چکے ہیں۔ سہل ممتنع کی بیشتر مثالیں ان کے کلام میں جا بجا دیکھنے کو ملتی ہیں۔ حالانکہ سادگی کے باوجود معنی کی بلندی اور تاثیر کلام ہاتھ سے نہیں جاتی، زبان کی سلاست، کلام کی پختگی اور مضامین کی بہتات نے بجا طو رپر انھیں استاد کا مرتبہ عطا کیا ہے۔ ان کی شاعری میں مختلف شعری فنون کا خوبصورت استعمال دیکھا جا سکتا ہے۔ان کی غزلوں کی فنی خصوصیات میں کئی اہم عناصر شامل ہیں:

.1            موضوعات کی وسعت: ان کی غزلیں انسانی جذبات، عشق، وطن، فلسفہ اور خودی جیسے موضوعات پر مشتمل ہیں۔ ان کی شاعری میں روحانی اور معاشرتی پہلوؤں کی جھلک ملتی ہے۔

.2            تشبیہات و استعارات:  ان کی شاعری میں تشبیہات اور استعارے کی خوبصورتی نمایاں ہے۔ وہ قدرتی مناظر، تاریخی شخصیات اور فلسفیانہ تصورات کو استعمال کرتے ہیں۔

.3            موسیقیت: ان کی غزلوں میں ایک خاص قسم کی موسیقیت ہے، جو پڑھنے یا سننے میں دلکش لگتی ہے۔ اس کے لیے وہ مخصوص بحر اور قافیہ بندی کا خیال رکھتے ہیں۔

.4            خودی کا تصور: ان کی شاعری میں اقبال کی طرح ’خودی‘کا  فلسفہ بھی نمایاں ہے، جو خود اعتمادی اور خود شناسی کی ترغیب دیتا ہے۔

.5              زبان و بیان: ان کی زبان میں سادگی اور پیچیدگی کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان کا اسلوب بامحاورہ اور عمیق ہوتا ہے، جس میں فلسفیانہ نکتہ چینی کی جھلک ملتی ہے۔

.6            نئے تجربات: انھوں نے روایتی غزل کی حدود کو توڑ کر نئے تجربات کیے، جیسے جدید خیالات اور متنوع شکلوں کا استعمال۔

یہ فنی خصوصیات جمیل مظہری کی شاعری بالخصوص غزلوں کو منفرد بناتی ہیں اور ان کے شاعری کے عالمی معیار کو بلند کرتی ہیں۔ اشعار دیکھیں         ؎

کہو نہ یہ کہ محبت ہے تیرگی سے مجھے

ڈرا دیا ہے پتنگوں نے روشنی سے مجھے

سفینہ شوق کا اب کے جو ڈوب کر ابھرا

نکال لے گیا دریائے بے خودی سے مجھے

ہے میری آنکھ میں اب تک وہی سفر کا غبار

ملا جو راہ میں صحرائے آگہی سے مجھے

خرد انہی سے بناتی ہے رہبری کا مزاج

یہ تجربے جو میسر ہیں گمرہی سے مجھے

شاعری میں اضطراب ایک معیاری موضوع ہے، جو شاعر کے ذہنی اور جذباتی حالات کی عکاسی کرتا ہے۔

ادب کی تنقید میں اضطراب کی کیفیت کو اکثر اہمیت دی جاتی ہے، کیونکہ یہ انسانی جذبات کی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں مددگار ہوتی ہے۔شاعری میں اضطراب انسانی تجربات کی عکاسی کرتا ہے، اور یہ ایک ایسا عنصر ہے جو قاری کو شاعر کی داخلی دنیا میں داخل ہونے کی دعوت دیتا ہے۔کچھ مشہور شعرا جیسے غالب، اقبال، اور فیض احمد فیض نے اضطراب کو اپنے کلام میں باریک بینی سے بیان کیا ہے، جو انسانی تجربات کی پیچیدگیوں کو واضح کرتا ہے۔اسی طرح جمیل مظہری کی شاعری میں بھی اضطراب ایک مرکزی موضوع ہے جو ان کی اندرونی کشمکش اور زندگی کی تلخیوں کو نمایاں کرتا ہے۔ ان کی نظموں میں زندگی کی بے یقینی، عشق کی ناکامی، اور وجود کی تلاش کے عناصر ملتے ہیں۔ پروفیسر وہاب اشرفی لکھتے ہیں کہ:

’’جمیل مظہری کی نظموں میں اضطراب اور الجھن کی کیفیت نمایاں ہے۔ یہ اضطراب ان کی تشکیک کا نتیجہ ہے۔‘‘

(ذکر جمیل،ناشر خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ، ص 45)

مظہری کی غزلوں میں اکثر ایسے لمحات پیش کیے جاتے ہیں جہاں انسان اپنے احساسات کی گہرائیوں میں غرق ہوتا ہے، اور یہ اضطراب اس کی شناخت کا حصہ بن جاتا ہے۔ اور یہ اضطراب ان کی تشکیک کا نتیجہ ہے۔ اشرفی مزید لکھتے ہیں کہ:

’’جمیل مظہری کی تشکیک انھیں خون کی آنسو رلاتی ہے۔وہ مسلسل کرب اور کشمکش میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ان کا ہیجان انھیں کوئی منزل عطا نہیں کرتا بلکہ بیچ راستے میں ایک کھوئے ہوئے مسافر کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ وہ نتیجتا تشکیک ہی کے نہیں بلکہ تضادات کے بھی پیکر بن جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنا تعارف خود اس طرح کرایا ہے   ؎

دو جمیل اک جمیل کے اندر

یہ تضاد اور یہ دوئی کیوں ہے

یعنی جب وہ ہے منکر ادیان

ذہن پھر اس کا مذہبی کیوں ہے

جمیل مظہری کی شاعری میں یہ اضطراب ایک ایسی قوت کے طور پر بھی نظر آتا ہے جو تخلیق کا باعث بنتا ہے، جہاں درد اور خوشی کی باریکیوں کو ایک ساتھ محسوس کیا جاتا ہے۔ اس طرح، جمیل مظہری کی شاعری میں اضطراب صرف ایک احساس نہیں بلکہ فن کا ایک حصہ بھی ہے۔ جمیل مظہری کے تعلق سے یہ نظریہ بھی مشہور ہے کہ وہ تشکیک کے شاعر ہیں اور یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری کے متعلق قاری اپنے ذہن میں منفی رائے قائم کر لیتا ہے۔ جب کہ شاعری میں تشکیک ایک اہم موضوع ہے جو فلسفیانہ اور وجودی سوالات پر مبنی ہے۔

تشکیک شاعری میں گہرائی اور بصیرت کا ایک عنصر ہے، جو قاری کو نہ صرف متن کے بارے میں بلکہ زندگی کے بارے میں بھی غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ ایک ایسے سفر کی مانند ہے جہاں قاری نئے خیالات اور تجربات کی تلاش میں نکلتا ہے۔ جمیل مظہری کی شاعری میں تشکیکی رویے پر غور کرنے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ انہوں نے تشکیک کے موضوعات کو اپنے کلام میں بڑے موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری میں الجھن کا عنصر بھی ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ سوالات، وجودی مشکلات اور انسانی تجربات کی پیچیدگیاں واضح ہوتی ہیں۔ وہ اپنی نظموں میں مختلف جذبات اور خیالات کو پیش کرتے ہیں، جو پڑھنے والے کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ مظہری کی شاعری میں الفاظ کا انتخاب اور تشبیہات کا استعمال اس الجھن کو مزید گہرا کرتا ہے، جس سے قاری کو ایک نئی بصیرت ملتی ہے۔ ان کے خیالات کی کثرت اور گہرائی ان کی تخلیقات کو خاص بنا دیتی ہے، جہاں کبھی زندگی کی سادگی اور کبھی اس کی پیچیدگیوں کو بیان کیا گیا ہے۔

 

Aslam Rahmani

P.O.:Ramna, Mohammadpur Kazi Musahri, Muzaffarpur-  842002 (Bihar)

Mob: 6201742128

Email: rahmaniaslam9@gmail.com 

26/6/25

مجاز کی نظموں کا صوتی آہنگ، مضمون نگار: ناز بیگم

 اردو دنیا، مارچ 2025

شاعری میں ایسے پیرائے اظہار یا اسلوب کا اہتمام کرنا جو محض ادائے مطلب کے لیے ضروری نہیں بلکہ کلام میں مزید حسن و لطافت اور معنی پیدا کرے صنعت کہلاتا ہے۔ صنعتیں بذات خود شاعری کا مقصد نہیں ہوتیں لیکن شاعری کا مقصد ان کے بغیر پورا بھی نہیں ہوتا کیونکہ ان کے ذریعے شعر کے تاثر میں اضافہ ہوتا ہے۔ بعض علمائے بدیع نے ان خوبیوں کو کلام کے حسن عارضی سے تعبیر کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ لفظوں کی ان خوبیوں کی وجہ سے نہ صرف کلام دلکش ہوجاتا ہے بلکہ بعض اوقات یہی لفظی خوبیاں کلام کے فکری اور معنوی اوصاف کو بھی چمکا دیتی ہیں۔ بہت سی لفظی اور معنوی صنعتوں کی بنیاد اصوات کی تکرار اور ترتیب پر قائم ہے۔ شاعر جب اپنے کلام میں اصوات کی خاص ترتیب و تنظیم قائم کرتا ہے تو نہ صرف کلام میں مخصوص صوتی آہنگ پیدا ہوتا ہے بلکہ شاعر کے جمالیاتی انبساط کا بھی پتا چلتا ہے۔

مجاز کے کلام میں اصوات کی تنظیم اور ان کی تکرار کو خاص دخل ہے۔ وہ شعوری طور پر الفاظ میں صوتی رعایت کوملحوظ رکھتے ہیں۔ مجاز ترقی پسند شاعر ہیں لیکن ترقی پسندی ان کے رومانی مزاج سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ انھوں نے غزلوں سے زیادہ نظمیں لکھیں ہیں۔ یہاں غزلوں سے قطع نظر ان کی نظموں میںلفظی خوبیوں اور صوتی ہنر مندیوں کی نشان دہی مقصود ہے۔ مجاز کی نظم ’نذر علی گڑھ‘ کے دو اشعار کے مختصر ترکیبی تجزیے اور اس کے بعد دیگر نظموں کے متفرق اشعار یا مصرعوں میں صوتی تنظیم اور لفظی صنعتوں کی نشان دہی سے ان کی نظموں میں صوتی آہنگ کی امتیازی خصوصیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ’نذر علی گڑھ‘ کا پہلا شعر ہے        ؎

سر شار نگاہ  نرگس ہوں  پا بستہ گیسوئے سنبل ہوں  

یہ میرا چمن ہے میرا چمن، میں اپنے چمن کا بلبل ہوں

 شعر میں بلبل، اور سنبل، اصل قافیے ہیں چمن مزید قافیہ کا حکم رکھتا ہے اس کی تکرار نے آہنگ میں ایک کھنک اور گونج پیدا کر دی ہے۔ س اور رائے مہملہ کی بکثرت تکرار ہے جس سے روانی اور تسلسل میں اضافہ ہوا ہے۔ مصرعوں کے دونوں ٹکڑوں میں وقفہ دے کر آواز میں مدو جزر بھی لایا گیا ہے۔ اس طرح کی خوبیاں پوری نظم میں ملتی ہیں۔ نظم کا ایک اور شعر ہے۔

اس بزم میں نیزے پھینکے ہیں اس بزم میں خنجر چومے ہیں

اس بزم میں گر کر تڑپے ہیں اس بزم میں پی کر جھومے ہیں

 شعر کی پہلی خوبی یہ ہے کہ دونوں مصرعوں کے الفاظ ہم وزن ہیں۔ چھوٹی بڑی آوازوں کی جو ترتیب مصرع اول کے الفاظ میں ہے وہی ترتیب مصرع ثانی میں بھی ہے۔ دوسری ہنر مندی یہ ہے کہ اصل قافیہ’چومے‘ اور’جھومے‘ ہے لیکن مصرع اول کے دو مزید قافیے  ’پھینکے ‘  اور خنجر کے جواب میں مصرع ثانی میں بالترتیب’تڑپے‘ اور ’پی کر‘ مصرعے کے درمیان میں لائے گئے ہیں اس کی ردیف ’ہیں‘ ہے۔ اس کے علاوہ ایک فقرہ’اس بزم میں‘ چار بار لایا گیا ہے۔ آہنگ سازی کا یہ انداز مجاز کا مخصوص حربہ ہے۔ رز اورم کی آوازیں مکرر لائی گئی ہیں۔ گویا پوری نظم میں ایک طرح کا داخلی توازن اور آرائش کار فرما ہے۔ـ

صوتی تکرار کی وجہ سے شعر کی نغمگی میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کا شمارمحاسنِ شعری میں کیا جاتا ہے۔ پروفیسر مغنی تبسم صاحب لکھتے ہیں:

’’ہرزبان کے علم بدیع میں ایسی بہت سی لفظی صنعتیں اور بعض معنوی صنعتیں ملتی ہیں جن کا مقصود ہی اصوات کی تکرار ہے یا جن کا استعمال بیشتر صورتوں میں تکرار اصوات کا باعث ہوتا ہے۔‘‘

(درست بلاغت: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، ص 121)

 اردو میں متعدد لفظی صنعتیں ہیں۔ ان میں سے چند ذوقافیتین، مع الحاجب، تضمن المزدوج، تکریر مطلق، تکریر مع الوسائط، رد العجز علی الحشو مع التکرار، واسع الشفتین، صنعت تفریح اور صنعت ترصیع وغیرہ۔ یہ سب دراصل صوتی صنعتیں ہیں۔ مجاز کے کلام میں مذکورہ بالا تمام صنعتیں استعمال کی گئی ہیں ان کے علاوہ مجاز کے کلام میں تکرارو اصوات کے ایسے کئی نمونے ملتے ہیں جن کے لیے علم بدیع میں کوئی نام نہیں دیا گیا ہے۔                                                                 

لفظ آواز سے بنتے ہیں اور لفظوں کی تکرار یعنی آوازوں کی تکرار سے آہنگ پیدا ہوتا ہے۔ آہنگ کا ایک خاص نظام ہو تو وہ نظم ہوتی ہے۔ نظم کا ایک خاص جزو قافیہ ہے۔ قافیہ شعر کو خوش آہنگ بنانے کا لطیف ترین طریقہ ہے۔ اکثر شعرا ایک شعر یا مصرع میں ایک سے زیادہ قافیے لاتے ہیں۔ شعر یا مصرعوں کے بیچ میں کسی خاص ترتیب سے لائے جانے والے دو یا زیادہ قافیوں کو علم بدیع میں صنعت ذوقافیتین کا نام دیا گیا ہے۔ اندرون قافیہ کے ذریعے نظم کا صوتی آہنگ مزید دل کش ہو جاتا ہے۔ جناب شمس الرحمن فاروقی صاحب اندرون قافیہ کے بیان میں لکھتے ہیں:

’’شعر کے اندر آنے والے قافیاتی لفظ کے ذریعہ شاعری، خاص کر آزاد شاعری کی خوب صورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 121)

حقیقت یہ ہے کہ مجاز کے یہاں آزاد نظموں کی تخصیص نہیں۔ انھوں نے آزاد نظمیں نہیں لکھیں۔ ان کی نظمیں پابند اور نیم پا بند ہیئت میں ہیں۔ ان میں قافیوں کی پابندی ہیئت کے مطابق کی گئی ہے لیکن نظموں کے اکثر بندوں، اشعار اور مصرعوں میں اندرون قافیہ کی کارفرمائی ہے جس سے کلام کی خوش آہنگی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مجاز کی نظموں میں اندرون قافیہ یا ذوقافیتین کی ایک شکل وہ ہے جہاں ایک ساتھ دو قافیوں کا التزام کیا گیا ہے۔ مثلاً       ؎

 اس فرش سے ہم نے اڑ اڑ کر افلاک کے تارے توڑے ہیں

ناہید سے  کی ہے سرگوشی  پروین سے  رشتے جوڑے ہیں

 اس شعر میں’ تارے‘ اور’ توڑے‘ کے جواب میں مصرع ثانی میں رشتے اور جوڑے قافیے ہیں۔

جب دو قافیوں کے درمیان ردیف لائی گئی ہو، صنائع لفظی کی رو سے ایسا پیرایہ بیان صنعت ذوقافیتین مع الحاجب کا حکم رکھتا ہے۔ مجاز کے کلام سے اس کی مثال ملاحظہ ہو       ؎

تجھ پہ یہ بار غلامی  کا گراں  ہے کہ نہیں

جسم میں خون جوانی کا رواں ہے کہ نہیں

جس طرح دو قافیوں کے درمیان ایک ردیف کا التزام کیا گیا ہے اسی طرح دور دیف کے درمیان ایک قافیے کا التزام بھی مجاز کا مخصوص انداز ہے۔ مثلاً         ؎

 وہ اک مضراب ہے اور چھیڑ سکتی ہے رگ جاں کو

وہ چنگاری ہے لیکن پھونک سکتی ہے گلستاں کو

ذوقافیتین کی ایک شکل صنعت تضمین المزدوج کی ہے جہاں اصل قافیے کے علاوہ بھی کچھ ہم قافیہ الفاظ کا التزام کیا گیا ہے۔ علم بدیع میں ایسے ہم آواز الفاظ با قاعدہ  قوافی کا حکم تو نہیں رکھتے لیکن صوتی یکسانیت کے لحاظ سے قافیہ کا نام دیا گیا ہے۔ کلام مجاز میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں           ؎

اسلام کے اس بت خانے میں اصنام بھی ہیں اور آزر بھی

تہذیب کے اس مے خانے میں شمشیر بھی ہے اور ساغر بھی

کوئی بتائے عظمت خاک وطن کہاں ہے اب

کوئی بتائے غیرت اہل وطن کو کیا ہوا

میزان جوانی میں اسے تول رہی ہے

لب ساکت وصامت ہے نظر بول رہی ہے

وہ تسکین دل تھی سکون نظر تھی

نگار شفق تھی جمال سحر تھی

یاں ہم نے کمندیں ڈالی ہیں، یاں ہم نے شب خون مارے ہیں

 یاں ہم نے قبائیں نوچی ہیں،  یاں ہم نے  تاج  اتارے ہیں

مجاز کے کلام میں اندرونِ قافیہ کی ایسی صورتیں بھی ملتی ہیں جن کا شمارلفظی اور صوتی صنائع میں نہیں ہوتا۔ اس تنظیم  میں شعر کے کسی ایک مصرعے کے پہلے دوٹکڑے میں یا دونوں مصرعوں کے پہلے ٹکڑوں میں اصل قافیے کے ہم قافیہ الفاظ لائے گئے ہیں۔ مثلاً          ؎

یہ دشت جنوں دیوانوں کا یہ بزم وفا پروانوں کی

 یہ شہر طرب رومانوں کا یہ خلدِ بریں ارمانوں کی

ہر سر و  سمن پر برسے گا، ہر دشت  و  دمن پر برسے گا

خود اپنے چمن پر برسے گا، غیروں کے چمن پر برسے گا

اس گل کدہ پارینہ میں پھر آگ بھڑ کنے والی ہے

پھر ابر گرجنے والے ہیں، پھر برق کڑکنے والی ہے

 قافیے کے استعمال کی ایک صورت یہ ہے کہ شعر میں مقفی الفاظ کسی خاص ترتیب کے بغیر لائے جائیں۔ مجاز کے کلام میں اندرونی اور غیر منظم قافیوں کی وجہ سے اصوات کی تکرار میں خاصا تنوع پیدا ہو گیا ہے۔ مثلاً       ؎

رقصاں چلا گیا، نہ غزل خواں چلا گیا

سوز و گداز و درد میں غلطاں چلا گیا

 وہ انجیل پڑھ کر سناتی تھی مجھے کو

ہنسائی تھی مجھ  کو رلاتی تھی مجھ کو

آہنگ سازی کا ایک طریقہ یہ ہے کہ شعر کے دونوں مصرعوں کے تمام الفاظ ہم وزن رکھے جائیں۔ ایسا التزام صنعت ترصیع کا حکم رکھتا ہے۔ مجاز کے کلام میں اس کی مثالیں جا بہ جاملتی ہیں۔ مثلاً

 


پہلے شعر کے مصرع اول میں پہلے لفظ کی آواز ایک چھوٹی ایک بڑی ہے۔ دوسرے لفظ کی ایک بڑی آواز ہے۔ تیسرے لفظ کی ایک بڑی ایک چھوٹی اور ایک بڑی آواز ہے۔ چوتھے لفظ کی دو بڑی ایک چھوٹی اور آخری لفظ کی دو بڑی آوازیں ہیں۔ آوازوں کی یہی ترتیب مصرع ثانی میں بھی ہے۔ بقیہ اشعار میں بھی ہم وزن الفاظ کا التزام کیا گیا ہے۔ نظم ’پہلا جشن آزادی ‘کے بیشتر بند کے دو دو مصرعے ہم وزن الفاظ پر مشتمل ہیں۔

 جب کسی شعر یا فقرے میں ایسے الفاظ لائے جائیں جن میں کسی بھی لفظ کی ادائیگی میں لب سے لب نہ ملے تو اس میں صنعت واسع الشفتین کی خوبی پیدا ہو جاتی ہے۔ مجاز کے کلام میں ایسے متعدد اشعار یا مصرعے ہیں جن میں اس صنعت کی خوبی موجود ہے۔ مثلا        ؎

سر راہ گذر کچھ سنائے چلا جا

ہنسائے چلا جار لائے چلا جا

کیسی سندر ہے کیا کہیے

ننھی سی اک سیتا کیسے

اس کنارے نوچ لوں اور اس کنارے نوچ لوں

ایک دو کا ذکر کیا سارے کے سارے نوچ لوں

دو الفاظ جو ایک ہی معنی رکھتے ہوں شعر یا مصرعوں میں برابر جمع کیے جائیں تو ایسے پیرائے بیان کو صنعت تکریر یا تکرار کہتے ہیں۔ اس کی مختلف شکلوں میں ایک تکریر مطلق ہے جس میں لفظ مکر رلائے جاتے ہیں مجاز کے کلام میں ایسے اشعار اور مصرعے کثرت سے ہیں جن میں صنعت تکرار کی خوبی ہے۔ مثلاً      ؎

اک اک ادا میں سیکڑوں پہلوئے دل دہی

اک اک نظر میں پرسش پنہاں لیے ہوئے

آگے آگے جستجو آمیز نظریں ڈالتی

شب کے ہیبت ناک نظاروں سے گھبرائی ہوئی

بستی بستی لوٹ مچی ہے

سب پینے ہیں سب بیو پاری

 رات ہنس ہنس کر یہ کہتی ہے کہ مے خانے میں چل

پھر کسی شہناز لالہ رخ کے کاشانے میں چل

صنعت تکریر کی دوسری قسم صنعت تکریر مع الوسائط کی ہے جس میں دو مکر رلفظوں کے درمیان کوئی اور لفظ موجود ہو۔ مجاز کے کلام سے چند مثالیںملا حظہ ہوں         ؎

کشمکش  سی کشمکش میں ہے مذاق  عا شقی

کامراں سی کامراں ہر سعی امکانی ہے آج

 دل مجروح کو مجروح تر کرنے سے کیا حاصل؟

 تو آنسو پونچھ کر  اب مسکرا لیتی  تو اچھا  تھا

 اس طرف ہاتھوں میں شمشیریں ہی شمشیریں ہیں

 اس طرف  ذہن میں  تدبیریں ہی تدبیریں ہیں

ان مکرر الفاظ کے ذریعے نہ صرف آہنگ میں لطافت پیدا ہو گئی ہے بلکہ زور بیان بھی دوبالا ہو گیا ہے۔ صنعت تکر یر مع الوسائط کی ایسی مثالیں مجاز کے کلام میں بکثرت ہیں۔

ہماری زبان میں ایسی کئی صنعتیں ہیں جن کی وجہ سے پورے لفظ کی تکرارکسی خاص ترتیب و تنظیم کے ساتھ ہوتی ہے۔ جب شعر میں وہ لفظ جو عجز میں آئے وہی لفظ حشو میں ہو اور وہ لفظ تجنیس کی رعایت کے بغیر دہرایا جائے تو صنعت رد العجز علی الحشو مع التکرار ہوتی ہے۔ مجاز کے کلام میں اس کی مثالیں ہیں لیکن کم۔ ایک مثال ملاحظہ ہو   ؎

کبھی اس کی شوخی میں سنجید گی تھی

 کبھی اس کی سنجیدگی میں بھی شوخی

شعر میں لفظ’ شوخی‘  حشو اور عجز میں لایا گیا ہے۔

مجاز نے چند ایسے اشعار بھی نظم کیے ہیں جن میں صدر کے لفظ کا آخری حرف عجز کے لفظ کے آخری حرف کے موافق ہوتا ہے۔ یہ ایک مشکل فن ہے لیکن اس کی مثالیں مجاز کی نظموں میں ملتی ہیں۔ مثلاً       ؎

محرم  درد  و مسرت   راز دار ِ  صبح  و  شام

محفل فطرت کی خاموشی ہے تجھ سے ہم کلام

خوں کے  دریا نظر آئیں گے  ہر میدان میں

ڈوب جائیں گی چٹانیں خوں کے طوفاں میں

پہلے شعر کے صدر محرم کا آخری حرف ’م ‘  عجز’ کلام‘  کے موافق ہے۔دوسرے شعر کے صدر’ خوں‘  کا ’ں‘   عجز ’ میں‘  کے نون ِغنہ کے موافق ہے۔

شعر یا مصرعے میں کوئی لفظ مکرر آتا ہے تو گویا اس لفظ کی تمام آوازیں (مصوتے اور مصمتے) ایک خاص ترتیب و تنظیم سے دہرائی جاتی ہیں لیکن بعض اوقات لفظ کی تکرار کسی ترتیب و تنظیم کے بغیر لائے جاتے ہیں۔ مجاز کے کلام میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ چند مثالیں دیکھیے       ؎

تو انقلاب کی آمد کا  انتظار نہ کر

 جو ہو سکے تو ابھی انقلاب پیدا کر

با چشم ِنم ہے آج زلیخائے کائنات

زنداںشکن وہ یوسفِ زنداں چلا گیا

یہ غیرت  چھین  لیتی ہے  حمیت چھین لیتی ہے

یہ انسانوں سے انسانوں کی فطرت چھین لیتی ہے

ہم دیکھتے ہیں کہ اصوات کی تکرار میں مجاز کو بہت دلچسپی ہے۔ ان کے کلام میں ایسے بہت سے الفاظ اور مرکبات ملتے ہیں جن میں صوت یا اصوات کی منظم یا غیر منظم تکرار ہیں۔ الفاظ اور مرکبات میں منظم اصوات تکرار کی چند صورتیںیہ ہیں:

(1)           لفظ یا مرکب جس مصمتے سے شروع ہو وہی مصمتہ آخر میں بھی آئے۔ مثلاً رخسار، نگہبان، نشیمن، معصوم مریم، مظالم

(2)         مرکبات میں تکرار اصوات کی ایک صورت یہ ہے کہ ہر جزو کی یا ایک سے زیادہ اجزا کی ابتدا ایک خاص مصمتے سے ہو مثلاً (ت) تب و تاب، تاب و  توانائی، (د) در و دیوار، دشت و در، (س) سوز و ساز، ساز و سامان، سرو سمن، (ش) شانِ شایان ،  شراب و شبستاں، (ل) لطیف لہجہ، (م) محرومی و مجبوری، منزل مقصود، (ن) نگاہ نرگس، نرم و نازک، ناشاد وناکارا، نرگس ناز، (ع) عیس وعشرت، (ز) زنجیر زنداں۔

(3)         تکرار اصوات کی دوسری صورت وہ ہے کہ جس میں ہر جزو خاص مصمتے پر ختم ہوتا ہے مثلاً (ب) آب و تاب، (ر) دختر نیک اختر، در بدر، شور محشر، خمار کوثر، گوہر بار، (م) خرام و رم، دم بدم، بزم عام (ہ) رخشندہ و تا بندہ (ش) دوش بدوش، (ت) ساکت و صامت، دشت ظلمات، ساغرِسرشار۔

(4)         ایک صورت یہ ہے کہ پہلا جز جس مصمتے پر ختم ہو دوسرا جزو اسی مصمتے سے شروع ہو مثلاً (ت) بہشت ترکمانی، عشرت تنہائی، (ب) قلب بلبل (د) سرود دل نشیں، (ز) ساز زیست (ع) شمع ِعلم وفن (ن) سکونِ نظر، تمکینِ ناز، (چ) چشمِ مخمور (ر) سرِرہ گذر۔

اصوات کی تکرار اور ان کی ترتیب سے پیدا ہونے والے صوتی آہنگ سے مجاز کی غیر معمولی دل چسپی کا نتیجہ کہنا چاہیے کہ وہ الفاظ کے انتخاب میں بالعموم صوتی مماثلت کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ ان کی نظموں کے بیشتر مصرعوں میں ایک اصوات ایسی ہوتی ہیں جن کا تکرار سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ مثلاً

(i)            ہر شام ہے شام  مصر یہاں،  ہر شب ہے شب شیراز  یہاں

                ہے سارے جہاں کا سوز یہاں اور سارے جہاں کا سازیہاں

اس شعر میں (الف) پندرہ بار، (ہ) دس بار، (ر) چھ بار، (ں) چھ بار، (یائے معروف اور یائے مجہول) پانچ پانچ بار، (ش) پانچ بار (س) چار بار اور (ر)، (م)، (ب) مکر رلائے گئے ہیں۔

 (ii)        زمانے کے نظام زنگ آلودہ سے شکوہ ہے

                قوانین کہن،  آئینِ فرسودہ سے شکوہ ہے

اس شعر میں(ہ) آٹھ بار، (ن) چھ بار، (ک) چار بار، (و) پانچ بار، (ے) پانچ بار، اور (م)، (الف)، (ز)، (د) مکرر آئے ہیں۔

 اصوات کے استعمال کے سلسلے میں مجاز کے کلام میں ایک میلان یہ نظر آتا ہے کہ وہ شعر یا بند کے کسی مصرعے کے کسی جزو میں ایسے الفاظ یک جا کر دیتے ہیں جن میں ایک یا زیادہ اصوات مشترک ہوتی ہیں۔ اصوات کے ایسے اجتماع اور تکرار سے مجاز کے کلام میں جو متنوع صوتی صورتیں بنتی ہیں وہ بڑی دلکش معلوم ہوتی ہیں۔ مصمتوں سے ترتیب پانے والی چند صورتیں ملاحظہ ہوں         ؎

آج بھی ساز سے مرے گرمیِ بزم سرکشی

(  ش)

آج بھی آتش سخن شعلہ فشاں شرر فشاں

( ش ش ش ش)

پھر خبر گرم ہے وہ جانِ وطن آتاہے

(  ن  ن )

پھر وہ زندانی زندانِ وطن آتا ہے

(  ز ن ن   ز ن ن  ن)

مکھی   بھنگے   بھن  بھن  کرتے

(  ھ   ھ   ھ  ن   ھ  ن  )

ڈھونڈے  ہیں مکڑی  کے جالے

(  ھ )

مجاز کے کلام میں (س)، (ش)، (ہ)،(ر)،(الف)،(ت)، (و) اور نون غنہ کی بہت تکرار ہے۔ ماہر اصوات نے لکھا ہے کہ (س)، (ز)، (ش) کی صغیری آوازوں سے سرگوشی، خاموشی، سناٹا، سکون اور راز دارانہ کیفیات کے اظہار میں مدد ملتی ہے اور یہ کہ مظاہر فطرت اور قدرتی بیان میں یہ آواز میں بکثرت استعمال ہوتی ہیں۔ مجاز کی نظموں کے صوتی مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاں (س) اور (ش) کی اصوات جنگ، غیظ و غضب، بے اطمینانی اور اضطراری کیفیت کی ترجمانی کے لیے زیادہ استعمال ہوتی ہیں۔ ان کے یہاں (ش) سے بننے والے زیادہ تر الفاظ انھیں کیفیات سے متعلق ہیں مثلاً لشکر، شمشیر، مشیت، شکنجوں، نشیمن، خوں آشام، حشر، محشر، شب، شام، نشتر، شعلہ، شرر، وحشت، ناشاد، آشفتہ اور سنگ وحشت وغیرہ۔

(م) اور (ن) جیسے انفی مصمتے موسیقیت کی ترجمانی کرتے ہیں اور ان کے صوتی آہنگ سے شعر کی نغمگی کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔ مجاز کی بیشتر نظموں میں ’م ‘اور ’ن‘ کی آواز یں کثرت سے سنائی دیتی ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں        ؎

درس سکون و صبر بہ  ایں اہتمامِ ناز

نشتر زنیِ  جنبشِ مژگاں لیے ہوئے

رنگِ گل ہائے گلستان ِوطن تم سے ہے

شورشِ  نعرئہ  زندانِ  وطن تم سے ہے

نشئہ  نرگسِ  خوبانِ  وطن تم سے ہے

عفتِ  ماہ   جبینانِ  وطن تم سے ہے

 تم ہو غیرت کے امیں تم ہو شرافت کے امیں

اور یہ خطرے میں ہیں احساس تمھیں ہے کہ نہیں

 مجاز کی نظموں میں صوتی مطالعے کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ مجاز کی شاعری میں صوتی آہنگ ان کے کلام کی امتیازی خصوصیت ہے۔ جس کے سبب اپنے موضوع کی اہمیت سے قطع نظر خود آوازوں کی سطح پر ان کا کلام انتہائی خوش آہنگ ہو گیا ہے۔ سماعت پر نغمے کا یہ خوش گوار اثر کلام ِمجاز کی مقبولیت کا ایک اہم سبب ہے۔

 

Dr. Naz Begum

Assistant Professor, Urdu, Incharge Urdu Section

MMV, Banaras Hindu University

Varanasi- 221005 (UP)

Mob. 6393494769, email id- nazb985@gmail.com

تازہ اشاعت

ہوش صاحب، مضمون نگار: عبد اللہ خالد

  اردو دنیا، مارچ 2025 میانہ قد،گندمی رنگت، باوقار چہرہ اور پرعزم وتابناک آنکھوں والے ہوش نعمانی صاحب کی پیدائش 22 مارچ1933کو رامپورکے محلہ...