24/7/24

کلیاتِ سودا اور کلیات قائم کی مشترک مثنویاں، مضمون نگار: فردوس جہاں

 سہ ماہی فکر و تحقیق، اپریل -جون 2024


تلخیص

مرزا محمد رفیع سودا اپنے عہد کے ایسے باکمال شاعر ہیں جن کی شاعری کی شہرت اورمقبولیت نیز افادیت آج بھی مسلم ہے۔ 18ویں صدی دراصل ریختہ کے عروج کا زمانہ تھا۔یہ صدی اردو شاعری کی تاریخ میں ’عہد زریں‘کے نام سے جانی جاتی ہے۔اس دور کے جن شاعروں نے ریختہ کی شاعری کو وقار بخشا اس میں درد،سودااورمیرسب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔

سودا نے اپنے شعری سفرکاآغاز فارسی شاعری سے کیا اورسراج الدین علی خاں آرزو کو اپنا کلام دکھاتے رہے لیکن باضابطہ طورپرانھیں اپنا استاد نہیں بنایا۔کیونکہ چند روز میں ہی سودا خانِ آرزو کے مشورے پر فارسی چھوڑ کرریختہ میں شعر کہنے لگے اورشاہ حاتم کو اپنا استاد تسلیم کیا۔جو شہرت ومقبولیت سودا کو ان کی زندگی میں حاصل ہوئی وہ کسی اورشاعر کے حصے میں نہیں آئی۔ان کی ہر دل عزیزی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ انھیں کسی حکومت کے ذریعے ملک الشعرا کا خطاب نہیں ملا تھا اس کے باوجودوہ اپنے عہد میں ’ملک الشعرا‘ ہی کہے جاتے تھے۔ان کی شہرت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھوںنے اردو کی تمام شعری اصناف میں نظمیں کہی ہیں۔مثلا غزل، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی، رباعی، قطعہ، مثمن، مسدس،مخمس،مثلث اورشہر آشوب وغیرہ نیز ایک عدد واسوخت ان کے کلیات کا حصہ ہے۔ علاوہ ازیں ’عبرۃ الغافلین‘ اور’سبیل ہدایت‘ بھی انھوںنے اپنی یادگار چھوڑی ہیں۔

سودا کے کلام کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خوبصورت تشبیہات اورطرفہ تراکیب کے استعمال پر انھیں کامل دسترس حاصل تھی۔مگر افسوس کہ قدیم شعرا کے ساتھ ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کا کلام مطبوعہ ہویا غیر مطبوعہ، الحاقات وتصرفات اورتحریفات سے یکسر پاک نہیں کہا جاسکتا ہے۔کلیات سودا کے جتنے نسخے غیر مطبوعہ یا مطبوعہ شکل میں ملک یا بیرون ملک کے کتب خانوں میں ملتے ہیں اتنے اس عہد کے کسی دوسرے شاعرکے نہیں ملتے۔سوداکے کلیات میں جتنی بڑی تعداد میں ان کے معاصرین شعرا اورشاگردوں کے کلام شامل ہیں اوراصل متن میں جس کثرت سے تصرفات وتحریفات کی غلطیاں واقع ہوئی ہیں اس کی مثال بھی کہیں اورنہیں ملتی۔

سودا ایک مسلم الثبوت استاد شاعر ہیں۔ان کے شاگردوں کی فہرست بہت طویل ہے۔عہد سودا کے ایک شاعر قیام الدین قائم چاند پوری ہیں جن کو سودا کا شاگردہونے کا شرف حاصل ہے۔قائم کی سات مثنویاں جن کا عنوان ہے: درہجو سرما، درہجو طفل پتنگ باز، قصہ شاہ لدھا مسمیٰ بہ عشق درویش، حکایت، حکایت، حکایت، حکایت دانستہ یا نادانستہ طورپر کلیات سودا میں شامل ہوگئی ہیں۔زیر تصنیف مضمون میں ان سات مثنویوں کے حوالے سے داخلی اورخارجی شواہد کی روشنی میں مدلل بحث کی گئی ہے۔

کلیدی الفاظ

مرزا محمد رفیع سودا، کلیاتِ سودا، غلام حیدر، گارساں دتاسی، میر شیر علی افسوس، نسخہ مصطفائی، نسخۂ آسی، ڈاکٹر خورشیدالاسلام، پروفیسر نسیم احمد، قائم چاند پوری، مثنوی، کلیاتِ قائم۔

—————

سودا کا پورانام مرزا محمد رفیع اورتخلص سودا ہے۔ ان کے آباواجداد کہاں سے آئے تھے یا کہاںکے رہنے والے تھے اس بارے میں تذکرہ نگاروں کی دو رائے ملتی ہیں۔حکیم قدرت اللہ قاسم، نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ،مولوی کریم الدین،عبدالغفور نساخ،لالہ سری رام،شیخ چاند، مفتی صدرالدین وغیرہ نے لکھا ہے کہ سودا کے آباواجدادکابل سے ہندوستان آئے تھے۔اوربعض تذکرہ نگاروں اورمورخین کی رائے یہ ہے کہ وہ لوگ بخاراسے ہندوستان آئے تھے،یہی درست معلوم ہوتا ہے کیوں کہ نقش علی سے سودا کے ذاتی مراسم تھے۔انھوںنے سودا کے بزرگوں کا وطن بخارابتایا ہے۔1؎

          نیز بھگوان داس ہندی رقم طراز ہیں:

’’ان(سودا) کے اجداد بخارا سے ہندوستان آئے اوردہلی میں مستقل سکونت اختیار کی۔‘‘2؎

اس بات کا اعتراف خلیق انجم نے بھی کیا ہے، جو سودا کے ایک بڑے سوانح نگار ہیں۔وہ لکھتے ہیں:

                   ’’ان کے آباواجداد بخارا سے ہی آئے تھے۔‘‘3؎

سوداکا خاندانی پیشہ کیا تھایہ تو کسی کتاب سے معلوم نہ ہوسکا۔لیکن ان کے والد مرزا شفیع دہلی میں ایک تاجر تھے۔ سوداکی ولادت کے متعلق بیشتر تذکرہ نگاروں اورمحققین نے قیاس آرائی سے کام لیا ہے۔ محمد حسین آزاد نے ان کی یو م پیدائش 1125ھ بتایا ہے۔لیکن کوئی دلیل پیش نہیں کی اورتحقیق میں بغیر دلیل کے کوئی دعویٰ قابل قبول نہیں سمجھاجاتا۔ناصر لکھنوی نے مرزا کا سال ولادت 1124ھ بتایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ایک فقیر نے پیشین گوئی کی تھی کہ انشاء اللہ تعالیٰ شہرت تیری چہاردانگ ہندوستان میں بے حد وحساب اورعمر تخلص کے ہم عدد ہوگی۔‘‘4؎

ناصر لکھنوی کے اس قول کے مطابق مرزا کے تخلص سودا سے 71برآمد ہوتے ہیں چونکہ سودا کی وفات 1195ھ میں ہوئی ہے اس میں 71سال کم کرنے سے 1124ھ برآمد ہوتا ہے۔

سودا پر تحقیقی مقالہ لکھنے والے پہلے محقق شیخ چاند نے سودا کاسال ولادت1106ھ بتایا ہے۔5؎

قاضی عبدالودودسودا کا سال ولادت1128ھ بتاتے ہیں۔6؎ڈاکٹر خلیق انجم نے سودا کا سال ولادت 1118ھ مقرر کیا ہے۔7؎ علاوہ ازیں جمیل جالبی نے بھی خلیق انجم کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے سودا کا سال ولادت 1118ھ ہی بتایا ہے۔8؎

سید حنیف احمد نقوی نے سودا کا سال ولادت 1125ھ ٹھہرایا ہے اوراس کے پیچھے ایک دلیل پیش کی ہے وہ لکھتے ہیں:

’’سودا اورمیرکی عمر میں تقریباً دس سال کا فرق تھایعنی سودا میر سے دس سال بڑے ہیں۔ میر کے متعلق یہ بات طے ہوچکی ہے کہ وہ 1135ھ میں پیدا ہوئے تھے..... اس بنیاد پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ سودا ان سے دس سال پہلے 1125ھ میں پیداہوئے ہوںگے۔‘‘9؎

سودا کے سنہ ولادت کے متعلق متذکرہ بالا محققین کی جتنی آراہیں ان میں سید حنیف احمد نقوی کی رائے سب سے زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔

سودا نے اپنے شعری سفرکا آغاز فارسی شاعری سے کیا اوراولاً خانِ آرزو سے اصلاح لی۔ انھوں نے فارسی میں ایک مختصر دیوان بھی چھوڑا ہے۔لیکن تھوڑے ہی دنوں میں وہ خان آرزو  کے مشورے پر ریختہ کی طرف مائل ہوگئے۔عاشقی عظیم آبادی اپنے تذکرے میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ابتدا میں موزونیت طبع کی وجہ سے فارسی گوئی شروع کی اورسراج الدین علی خاں آرزوسے اصلاح لی۔خان آرزونے کہا کہ کلام فارسی کا درجہ بہت بلند ہے اورہماری تمھاری زبان ہندی ہے۔ہر چند اہل ہند نے فارسی دانی کو مدارج ارتفاع تک پہنچا دیا، لیکن استاد ان سلف وایران کے سامنے وہی حیثیت ہے جو چراغ کی آفتاب کے سامنے ہوتی ہے۔ابھی تک ریختہ گوئی میں کسی نے شہرت نہیں پائی۔لہٰذا اگر تم زمانے میں مشق سخن کرو تو فیض طباعت سے شاید اس فن کا امام ہوجائو۔‘‘10؎

سودا کو خانِ آرزو کا مشورہ پسند آیا۔ انھوںنے فارسی چھوڑکر ریختہ میں مشق سخن جاری کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ریختہ گو شعرا کے استاد ہوگئے اورہندوستان کے تمام ریختہ کے شعرا انھیں اس فن کا امام سمجھنے لگے۔تذکرہ نگاروں اورمحققین کے اقوال کے مطابق سودا کے چاراستادوں کا نام نمایاں ہوتا ہے۔  پہلے خان آرزوہیں۔جن سے سودا فارسی کلام پر اصلاح لیا کرتے تھے۔دوسرے استاد سلمان قلی خاں وداد ہیں۔ تیسرے استاد نظام الدین صانع اورچوتھے استاد شاہ حاتم ہیں۔ان میں سے اول الذکرتین صاحبان سودا کے باضابطہ استاد نہیں تھے۔لیکن ابتدا میں ان سے اصلاح لیا کرتے تھے۔ البتہ شاہ حاتم بلا شبہ سوداکے استاد تھے اوران کو سوداکا استاد ہونے کا فخر بھی تھا۔

سودا کا مولد دہلی تھا اوروہ اپنے وطن عزیز سے بڑی محبت کرتے تھے۔اس لیے نادرشاہ کے حملے کے بعد بھی وہ دلی میں ڈٹے رہے۔لیکن احمد شاہ ابدالی کے حملوںنے ان کے پائے استقلال میں لغزش پیداکردی۔یہ حملے تھے بھی دل دہلادینے والے۔متعدد شعرا وادبا جو دہلی کی گلیوں پر جان چھڑکتے تھے وہ اسے چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔سودا جو ہنوزدہلی میں مقیم تھے۔1174ھ میں فرخ آباد آگئے۔ اودھ کے باقاعدہ سیاسی وثقافتی مرکز بننے سے پہلے فرخ آباد ہی ایسی جگہ تھی جہاں نواب احمد خان بنگش کے دیوان مہربان خان رند جو شعروشاعری کا ذوق رکھتے تھے،انھوںنے شاعروںکو پناہ دے کر انھیں پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ان میں سودا کا بھی نام شامل ہے۔ سودا مہربان خان رند کے دربار سے وابستہ ہوگئے۔بعض لوگوں نے سودا کو رند کا استاد بتایا ہے لیکن یہ درست نہیں ہے کیونکہ مہربان خان رند  کے باقاعدہ استاد میر سوزتھے۔ البتہ رندسودا سے اپنے کلام پروقتاً فوقتاً اصلاح لیا کرتے تھے۔لیکن باضابطہ طورپر انھوںنے سودا کی شاگردی اختیار نہیںکی تھی۔

1185ھ میں نواب احمد خاں بنگش کا انتقال ہوگیا، جس کے سبب مہربان خان رند پر دکھوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، جو مہربان خان رند متعدد شعرا کے مربی ہوا کرتے تھے۔انھیںخود ہی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ سودا 1185ھ کے اواخر میں نواب شجاع الدولہ کے عہد حکومت میں فیض آباد آگئے۔اس وقت اودھ کا دارالخلافہ فیض آباد ہی تھا۔ یہاں نواب شجا ع الدولہ نے سودا کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔سودا نواب کے دربار سے وابستہ ہوگئے۔ان کی تنخواہ دوسوروپے ماہوار تھی۔نواب شجاع الدولہ کے بعد نواب آصف الدولہ تخت نشین ہوئے۔ انھوںنے اپنادارالخلافہ لکھنؤ منتقل کرلیا۔سودا بھی ان کے ساتھ لکھنؤ آگئے اوربدستور دربار سے آخر عمر تک منسلک رہے البتہ نواب آصف الدولہ کے عہد حکومت میں مقررہ رقم ماہ بہ ماہ نہیں ملتی تھی جس کے سبب سودا کی مالی حالت اکثر خراب رہتی تھی۔اس لیے سودا کو اپنے قصیدوں کے ذریعے بادشاہ کے سامنے اپنی مالی تنگی اورکسمپرسی کا احوال بیان کرنا پڑتا تھا۔سودا آخر عمر تک لکھنؤ میںہی مقیم رہے اور6رجب 1195ھ بہ مطابق 27جون 1781 میں ریختہ کا ایک باکمال استاد شاعر اس دار فانی سے رخصت ہوگیااورحسین قلی خاں عاشقی و مرزا علی لطف کے بیان کے مطابق سودا لکھنؤ کے ایک امام باڑہ امام باقر میں مدفون ہوئے۔

اردو شاعری میں مرزا محمد رفیع سودا کو ایک بلند مقام حاصل ہے۔ انھیں ریختہ گوئی پر غیر معمولی ملکہ حاصل تھا۔ تشبیہات واستعارات جیسے ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے۔جو شہرت سودا کوان کی زندگی میں حاصل ہوئی وہ اورکسی دوسرے کے حصے میں نہیں آئی۔اردو شاعر ی میں سوداکے مقام ومرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے استاد شاہ حاتم نے خود سودا کی زمین میں غزلیں لکھیں۔ سودا کے معاصر تذکرہ نگاروں نے سودا کی قادرالکلامی کا لوہا مانا ہے۔سودا کو باقاعدہ ملک الشعراکا خطاب تو نہیں ملا تھا اس کے باوجود بھی عوام میں ’ملک الشعرا‘ہی مشہور تھے۔

سوداریختہ کے استاد تو تھے ہی اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ خوش اخلاق اوراچھے کردار کے مالک تھے۔ اپنے زمانے کے رواج کے مطابق سودا آداب مجلس سے بھی واقف تھے۔سوداکو نہ صرف بادشاہوں اورسلاطین کی صحبتوں میں نشست وبرخاست کا سلیقہ خوب آتا تھا۔بلکہ اپنے شاگردوں سے بھی خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔انھیں خوبیوںکی وجہ سے سودا اپنے معاصرین شعرا میں ہردل عزیز تھے۔

سودا اپنے عہد کے ایک عدیم المثال اورباکمال شاعر ہیں،جن کی شاعری کی شہرت ومقبولیت اورافادیت آج بھی مسلم ہے۔ان کی شہرت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھوںنے اردوکی تمام مروجہ شعری اصناف میں نظمیں کہیں۔مثلاً قصیدہ، غزل، مرثیہ، مثنوی، رباعی، قطعہ، مثلث، مخمس، مسدس، مثمن، شہر آشوب اورایک عدد واسوخت بھی ان کی یادگار ہے۔کلام سودا کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک وسیع الذہن اوربے پناہ قوت اختراع کے مالک تھے۔نادر تشبیہات اورطرفہ تراکیب کے استعمال پر کامل دسترس رکھتے تھے۔سودااگر قصیدہ کے امام ہیں تو ان کی غزلیں بھی کسی طورپر اعلیٰ ادبی معیار سے ساکت نہیں کہی جاسکتیں۔اس کے ساتھ ہی ساتھ مرثیے، مثنویات، رباعیات، قطعات، مخمسات اورمسدسات بھی ادبی معیار ومیزان پرکھرے اترتے ہیں۔شعری اصناف کے علاوہ دو نثری مختصر تصنیفات بھی سودا  نے تحریر کی ہیں۔ اول’عبرۃ الغافلین‘ہے جو پانچ ابواب پر مشتمل فارسی رسالہ ہے۔ اس میں سودا نے فارسی شاعر مرزا فاخر مکین کے ان اعتراضات کا جواب دیا ہے جو انھوں نے بزرگ شاعروں کے کلام پر کیے ہیں۔اس تحریر کے مطالعے سے سودا کی تنقیدی بصیرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔دوسری کتاب ’سبیل ہدایت‘ہے۔ اس میں سودا نے ایک مرثیہ گو میر تقی (یہ محمد تقی میر سے علاحدہ شخص ہیں)ہیں،کے ایک سلام اورمرثیے پر اعتراض کیا ہے۔ اس کتاب کی ابتدا میں ایک دیباچہ اردو نثر میں لکھا ہوا ملتاہے۔ا س دیباچے کی اہمیت اردو ادب میںخصوصیت کی حامل ہے۔کیونکہ اس عہد کے تمام شعرا کی نثری تخلیقات فارسی زبان میں ملتی ہیں۔مثلاًمیر،درد،قائم،میر حسن،مصحفی وغیرہ نے اپنی نثری تصنیفات یا دیباچے فارسی زبان میںلکھے ہیں۔

آج صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ بیرونِ ملک کے متعدد کتب خانوں میں کلیات سوداکے لاتعداد مطبوعہ وغیر مطبوعہ نسخے ملتے ہیں۔کلیات سودا کے جتنے قلمی نسخے ہماری نظرسے گزرے ہیں۔اس میں سب سے قدیم نسخہ ’نسخۂ حبیب گنج‘ہے۔یہ نسخہ مولانا آزادلائبریری،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ملکیت ہے۔اس کا سنہ کتابت 1174ھ ہے۔اس نسخے کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ یہ سودا کی زندگی کا نسخہ ہے۔علاوہ ازیں نسخۂ بنارس1177ھ،کلیات سودا نسخۂ خدابخش لائبریری 1193ھ،انتخاب سودا1193ھ انجمن ترقی اردو ہند دہلی،دیوان سودا1195ھ ادارۂ ادبیات اردوحیدرآباد وغیرہ قلمی نسخے بھی ان کی زندگی میں کتابت کا شرف حاصل کرنے کے باعث اردو ادب میں خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔

سودا کے قلمی نسخوںکی طرح ان کے مطبوعہ نسخے بھی لاتعداد ہیں۔گارساں د تاسی ایک فرانسیسی عالم تھے جو اردو زبان سے خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔کلام سودا کی اشاعت کے بارے میں انھوںنے اپنی معلومات کا اظہار ان لفظوںمیں کیا ہے:۔

’’1803 میں اعلان ہواتھا کہ کلکتہ میں کلیات سودا تین جلدوں میں زیر طبع تھا۔‘‘11؎

غالباً دتاسی کے اسی بیان کی بنیاد پر شیخ چاند رقم طراز ہیں:

’’سودا کا کلیات سب سے پہلے ان کی وفات 1781 کے بائیس سال بعد1803 میں کلکتہ میں طبع ہوا۔‘‘12؎

          نیز قاضی عبدالودوددتاسی کے مندرجہ بالا بیان سے متاثر ہوکر رقم کرتے ہیں:

’’میر کا کلیات وفات میر(1810)کے کچھ ہی دنوں بعد کلکتہ (فورٹ ولیم کالج)سے شائع ہواتھا۔ اہل کلکتہ (فورٹ ولیم کالج)کے ارباب حل وعقدکوکلیات سودا کی اشاعت کا خیال آیا ہو تو تعجب کی بات نہیں۔‘‘13؎

متذکرہ بالا بیان کے علاوہ میر شیر علی افسوس نے بھی اپنی تصنیف ’آرائش محفل‘کے آغاز میں رقم کیا ہے کہ:

’’بے کار رہنا اس ناکارے کا جو شعار نہیں بنا براس کے چند اوقات سرمنشۂ شعرا(شیر بیشۂ شعرا)مرزارفیع سودا کے کلیات کی صحت میں کاٹے از بس کہ وہ کاتبوں کے قلم جہل سے اغلاط ہوگیا تھا۔جیسا چاہے ویساصحیح نہیں ہوسکا اورنسخہ بھی دوسرا کہ مرتبہ صحیح ہوبہم نہ پہنچا سبب اس کے کہیں کہیں غلط رہ گیا۔‘‘14؎

لیکن افسوس کہ اس بیان اورقاضی عبدالودود کی قیاسی تائید کے باوجود اب تک 1803 میں شائع شدہ کلیات سودا کے کسی نسخے کی موجودگی کا علم نہیں ہے۔

البتہ کلیات سودا کا ایک مطبوعہ انتخاب ایشیا ٹک سوسائٹی کلکتہ میں اندراج نمبرU.N.D.3A (Soc. 225) موجود ہے۔کتاب کی ابتدا میں سرورق پر انگریزی میں فورٹ ولیم کالج کندہ ہے جو مہر بھی ہوسکتی ہے۔اس کی سیاہی متن کی سیاہی سے مختلف ہے۔ متن کے مشکل الفاظ پر جگہ جگہ انگریزی میں ان کے معنیٰ لکھے ہوئے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ کتاب کسی انگریزکی درس وتدریس میں رہ چکی ہے۔یہ نسخہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔حصہ اول میں چودہ قصیدے،تین مخمس،ایک واسوخت اورنو مثنویاں شامل ہیں۔اس حصے کے خاتمے پر ’تمام ہواانتخاب قصائد اورمخمسات اورمثنویات مرزا محمد رفیع سودا‘ رقم ہے۔حصہ دوم غزلیات، مطلعات،رباعیات ایک قطعہ اورایک پہیلی پر مشتمل ہے۔اس انتخاب میں نہ صرف تحریفات وتصرفات کی غلطیاں دیکھنے کو ملتی ہیں بلکہ الحاقی کلام بھی متن میں شامل ہیں۔اس نسخے میں اول تاآخر ایسا کوئی ثبوت فراہم نہیں ہوتا جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ یہ 1810 میں چھپا ہوا نسخہ ہے۔البتہ ایشیاٹک سوسائٹی،لائبریری،کلکتہ (نمبرU.N.d.3b)اورخدابخش لائبریری، پٹنہ (نمبرH.L.13-446-)میںغلام حیدرنامی شخص کا مرتب کردہ سودا کا ایک انتخاب ملتا ہے۔جس کے خاتمۃ الطبع کی عبارت سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اول الذکر کلام سودا کا انتخاب 1810 میں ہی فور ٹ ولیم کالج سے شائع ہواتھا۔مذکورہ انتخاب کی طرح غلام حیدر کا مرتب کردہ انتخاب بھی دو حصوں میںمنقسم ہے۔حصۂ اول میں قصائد،مخمسات،ایک عددواسوخت اورچند مثنویات کے ساتھ ساتھ ایک مرثیہ بھی شامل ہے۔اس حصے کے آخر میں خاتمہ الطبع کی عبارت کے ساتھ ساتھ غلام حیدر کی مہر بھی موجود ہے۔ عبارت کی تحریر کچھ اس طرح ہے:

’’الحمدللہ کہ انتخاب قصائد کلیات مرزا رفیع سودا کا اہتمام سے عاصی پر معاصی غلام حیدر ساکن ہوگلی کے مطبع ’مرأۃ الاخبار ‘میںپہلی تاریخ رجب سنہ 1263ھ قدسی اورپندرہویںجون 1847 میں دوسری بار سینتیس برس بعد معدن علم وفضل جناب میجر جارج ٹرنبل مارشل صاحب بہادرسیکریٹری فورٹ ولیم کالج کے وقت میںچھاپا گیاجو کوئی بے مہرا حقر غلام حیدر کے اس کو بکتے دیکھے ہر گز مول نہ لے اورجانے کہ بے شک وہ چوری کا ہے اوراگر سارق مسروق کو عاصی کے پاس پکڑ کر لاوے تو ایک جلد قصائد محنت کے بدل پاوے جانا چاہیے کہ انتخاب مذکورہ میں بہ نسبت آگے کے عاصی نے قصیدے سودا کے زیادہ کیے ہیں اورمرثیے بھی اس کے کہے ہوئے داخل کیے ہیں تاکہ ان کا ڈھب بھی پڑھنے والوں کو معلوم ہو۔اسی طرح انتخاب غزلیات میں جو کلیات سودا سے ہواتھا غزلیں اس کی زیادہ کی ہیں اوران دونوں قسمتوںکو جلد اول میں چمن مسرت کے جو تالیف کی ہوئی بندے کی ہے داخل کیا ہے حال اس کا مفصل دیباچے سے معلوم ہوگا۔‘‘15؎

خاتمۃ الطبع کی اس عبارت کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ غلام حیدر نامی شخص نے اس انتخاب کا پہلا حصہ جو قصائد کا ہے اسے 15جون 1847 میں مطبع’مراۃ الاخبار‘سے شائع کرایا۔ ایک اوربات قابل غور ہے کہ اس نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ پہلے والا انتخاب جو 1810 میں شائع ہواتھا اسے 37سال بعد پہلے والے انتخاب کے بہ نسبت قصائد کے تعدادبڑھاکر اورمزید ایک مرثیہ شامل کرکے چھاپا گیا ہے۔اوردونوں نسخوںکا مقابلہ کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ غلام حیدر کا دعویٰ درست ہے۔

غلام حیدر کے مرتب کردہ کلیات سودا کے اس انتخاب کے دوسرے حصے میں غزلیات،مطلعات، رباعیات،ایک قطعہ اورپہیلی شامل ہیں۔اس حصے کے آخر میںبھی خاتمۃ الطبع کی عبارت غلام حیدر کی مہر کے ساتھ موجود ہے۔جو ذیل میں نقل کیاجارہا ہے:

’’الحمدللہ انتخاب غزلیات کلیات مرزا رفیع سودا کا اہتمام سے عاصی پر معاصی غلام حیدر ساکن ہوگلی کے مطبع ’اخوان الصفا‘ میںپہلی تاریخ رجب سنہ 1263ھ قدسی..... فورٹ ولیم کالج سے چھاپا گیا… انتخاب مذکور میں بہ نسبت آگے کے عاصی نے غزلیں سودا کی زیادہ کی ہیں۔اسی طرح انتخاب قصائد میں جو کلیات سودا سے ہوا تھا قصیدے اس کے زیادہ کہے ہیں اورمرثیہ بھی اس کے کہے ہوئے داخل کیے ہیں تاکہ پڑھنے والوں کو اس کا ڈھب معلوم ہو……‘‘16؎

مذکورہ انتخاب کلیات سودا کا دوسرا حصہ پہلی مرتبہ کلکتہ کے ’اخوان الصفا‘ مطبع سے شائع ہوا اور 1810 والے نسخے کے بہ نسبت غزلیات کی تعداد بڑھادی گئی ہے۔غلام حیدر نے انتخاب کلام سودا کے دونوں حصوں کو الگ الگ مطبع سے شائع کرایا ہے اوربعد میں یکجا کرکے میجر جارج ترنبل مارشل صاحب بہادرسکریٹری فورٹ ولیم کالج کے وقت میں اسی سال یعنی1847 میں چھپ کر منظر عام پر آیا۔ غلام حیدر کی خاتمۃ الطبع کی عبارت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فورٹ ولیم میں شائع ہواانتخاب کلام سودا کا پہلا نسخہ 1810 کا ہے۔

گارساں دتاسی اورمیر شیر علی افسوس 1803 میں فورٹ ولیم کالج سے طبع ہونے والے کلیات سودا کے جس نسخے کے متعلق اپنی معلومات کا اظہار کررہے تھے،اس کی موجودگی کی نشان دہی اب تک نہیں ہوئی۔قوی امکان ہے کہ کسی وجہ سے کلیات مکمل نہ ہوسکاہواورفورٹ ولیم کالج نے کلیات سودا کا انتخاب ہی شائع کردیا ہو۔مذکورہ کلیات سوداکا انتخاب بھی دو حصوں میں ہے لیکن کالج کے تمام اہتمام کے باوجود یہ نسخہ الحاقی کلام سے پاک نہیں ہے اورغلام حیدر کے مرتب کردہ نسخے کا ماخذ بھی یہی نسخہ تھا۔ اس لیے اس نسخے کی تمام غلطیاں اس میں بھی شامل ہوگئیں۔مذکورہ کلیات سودا کے انتخاب کو 1810کا انتخاب تسلیم نہ کرنے کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔

کلیات سوداکاپہلا مطبوعہ نسخہ مطبع مصطفائی سے پہلی بار1856 میں شائع ہوکرمنظرعام پر آیا اس نسخے کا ماخذ کلیات سودا مرتبہ غلام احمد ہے جس کا ثبوت نسخۂ مصطفائی کے پہلے ایڈیشن کے خاتمہ مصنفۂ مولف کی عبارت میں درج ہے۔اس عبارت کو ذیل میں درج کیا جارہا ہے:

’’بعد شکر ایزدواہب العطیات ونعت سید الموجود ات بندۂ غلام احمد کہ مولف کلیات ہیز است.....  دیوان ہاے افضل المتاخرین مرزا رفیع المتخلص بہ سودا بہ شوق تمام وذوق مالا کلام بہ کمال محنت ودماغ سوزی از چند جابہم رسانیدہ ترتیب دلپذیر مرتب ساختہ یادگار روزگار گذاشت۔چوں ایں کلیات جامع تراز دیگر دواوین مشہور است۔ آخرعزیزان وصاحبان شوق بہ قیمت صدروپیہ طالب نسخہ موصوفہ بودند۔لیکن دوری آں قبول طبع خاکسار نیفتاد خدا شاہد ایں مقال است..... فقط۔‘‘17؎

منقولہ بالا عبارت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نسخۂ مصطفائی غلام احمد کے مرتب کردہ نسخے پر مبنی ہے لیکن سودا کے کلیات کا کوئی علاحدہ ایسا نسخہ نہیں ملتا جس کو غلام احمد نے ترتیب دیا ہو۔لیکن ہم منقولہ بالا عبارت کی بنیاد پر یہ قیاس کرسکتے ہیں کہ اصلح الدین کے بعد غلام احمد دوسرے اہم شخص ہیں جنھوںنے مختلف ذرائع سے دستیاب سودا کے تمام شعری کلام کو ایک کلیات کی شکل میں یکجا کردیا تھا۔ جس کی بنیاد پر نہ صرف نسخۂ مصطفائی کا پہلا ایڈیشن بلکہ دوسرا تمام ایڈیشن ریاست بالواسطہ اسی نسخے کی بنیاد پر شائع ہوئے ہیں۔بدقسمتی سے ارباب مطبع کے تمام تر حزم واحتیاط کے باوجود نہ صرف تحریفات وتصرفات کے اغلاط سے پر ہے بلکہ معاصرین وشاگردان سودا کے بہت سے کلام بھی شامل ہوگئے ہیں۔

نسخۂ مصطفائی کے طرز پر مطبع نول کشور کانپورنے کلیات سودا پہلی بار 1872 میں شائع کیا۔اس کے بعد بالترتیب 1873،1877، 1905 اور1916 میں کلیات سودا کے نسخے مسلسل مطبع نول کشور سے شائع ہوکرمنظر عام پر آتے رہیں۔لیکن مطبع نول کشور سے شائع ہونے والے کلیات سودا کے تمام نسخے کاماخذ نسخۂ مصطفائی  ہونے کے باعث اس کی تمام خوبیاں اورخامیاں بھی شامل ہوگئی ہیں۔مولوی آسی نے بہ گمان خود کلیات سودا کے مطبوعہ نسخوںکے تمام اسقام کی تصحیح کرکے اسے دو حصوں میں مرتب کیا جسے مطبع نول کشور نے1932 میں شائع کیا۔ یہ نسخہ اپنے ماقبل نسخوں سے بالکل مختلف ہے کیونکہ اس کے پہلے کے سارے ایڈیشن نسخہ مصطفائی کی نقل تھے۔بہ حوالہ قاضی عبدالودود آسی رقم طراز ہیں:

’’اس سے یہ فائدہ ہوا کہ جو چیزیں آپ کو ڈھونڈنی ہو فوراًنکال سکتے ہیں اورایک قسم کا تمام سودا کا کلام ایک جگہ مل سکتا ہے۔‘‘18؎

بے شک نسخۂ آسی صاف ستھرے خط نستعلیق میں شائع ہواہے لیکن متن کے لحاظ سے معتبر نہیں ہے کیونکہ اس میں نسخۂ مصطفائی کی تمام غلطیاں تو شامل ہیں ہی بعض دوسرے اسقام بھی اس نسخے کو اوربھی مشکوک کردیتے ہیں۔

ڈاکٹر شمس الدین صدیقی نے کلیات سوداکو مرتب کیا جس پر لندن یونیورسٹی نے انھیں 1967 میں پی ایچ  ڈی کی ڈگری تفویض کی۔ بعد میں ڈاکٹر شمس الدین صدیقی کے اس مقالے کو مجلس ترقی اردو ادب، لاہور نے چار جلدوںمیں شائع کیا۔جس کی تفصیل ہے:۔

جلد اول کو1973 میں شائع کیا گیا ہے یہ حصہ سودا کی غزلیات پر مشتمل ہے۔جلد دوم کی تاریخ اشاعت اپریل 1976 ہے۔اس جلد میں قصیدے کو رکھا گیا ہے۔جلد سوم میں مثنویاں،مرثیہ محمد تقی اورشرح سودا وغیرہ پر مشتمل ہے۔جو 1984 میں چھپا اورجلد چہارم مخمسات،مسدسات،رباعیات، قطعات اورواسوخت پر مبنی ہے۔اس جلد کاسنہ اشاعت مارچ 1987ہے۔

مذکورہ بالانسخے میں تذکیرو تانیث کی غلطیاں جابہ جادیکھنے کو ملتی ہیں۔قدیم متن میں یائے معرو ف اوریاے مجہول میں عدم تفریق ہوتا تھا۔مرتب نے متن کی تصحیح میں ذاتی پسند وناپسند سے کام لیا ہے۔

کلیات سودا کے قلمی نسخے اورمطبوعہ نسخوں کے علاوہ متعدد انتخاب بھی ہیں۔ ان میں سے دو انتخابوں کا تذکرہ تو قبل کے صفحات پر کیا جاچکا ہے۔منتخب مثنویات سودا(کتاب نمبرU.232-)کے عنوان سے کلام سودا کا ایک انتخاب ایشیا ٹک سوسائٹی کلکتہ میں محفوظ ہے۔جو مطبع حبل المتین سے 1903 میں شائع ہوااس کے علاوہ ڈاکٹر خورشید الاسلام نے بھی کلام سوداکاایک انتخاب مرتب کیا تھا جسے انجمن ترقی اردو،علی گڑھ نے 1964 میں شائع کیا۔ مرتب نے مشکوک نسخوں،نسخۂ 1؎جانسن19؎ اور نسخۂ آسی کی بنیاد پر متن کو مرتب کیا۔علاوہ ازیں رشید حسن خاں کا مرتب کردہ کلیات ’انتخاب سودا‘جس کو مکتبہ جامعہ دہلی نے 1972 میں شائع کیا تھا اس کی بنیاد نسخۂ جانسن ہی کے متن پر قائم ہے۔ مرتب نے گمراہ کن نسخے کو بنیادی نسخہ بنایا ہے اس لیے اس کا متن معتبرومستند نہیں کہا جاسکتا ہے۔نیز ہاجرہ ولی الحق انصاری کا مرتب کردہ دیوان ’غزلیات مرز ا محمد رفیع سودا‘کا بھی ماخذ نسخۂ جانسن ہی رہا ہے۔

پروفیسر نسیم احمد نے ’غزلیات سودا‘کو مرتب کیا جس پر بنارس ہندویونیورسٹی نے انھیں 1986 میں ڈاکٹرآف فلاسفی کی ڈگری تفویض کی اورتقریباً پندرہ سال بعد 2001 میںضروری اضافوں اور ترمیمات کے ساتھ بنارس ہندویونیورسٹی نے اسے شائع کیا۔ اب تک کلام سودا کے جتنے بھی دواوین مرتب کیے گئے تھے ان کا بنیادی ماخذ نسخۂ جانسن ہونے کی وجہ سے متن تحریفات وتصرفات اورالحاقات کی اغلاط سے خالی نہیں رہا ہے۔موصوف نے اس روایت کو نہ صرف توڑا بلکہ مدلل بحث کرکے یہ ثابت کیا کہ نسخۂ جانسن ایک جعلی اورگمراہ کن نسخہ ہے۔انھوںنے نہایت ایمان داری،محنت اوردماغ سوزی سے ’غزلیات سودا‘ کو ترتیب دیا ہے۔

 مرزا محمد رفیع سودا کے شاگردوں کی فہرست کافی طویل ہے۔ لیکن اس میں قیام الدین قائم کے سوا اورکوئی اپنی منفرد شناخت قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔سودا کے شاگردوں میں امیر،متوسط اور غریب ہرطبقے کے لوگ شامل تھے۔ان میں کئی صاحب دیوان بھی تھے۔انھیں میں سے ایک نام قائم چاند پوری کا بھی ہے۔

 قائم چاند پوری کا پورا نام قیام الدین عرف محمد قائم اور تخلص قائم تھا۔ لیکن تذکروں اورتاریخ ادب اردوکی کتابوں میں قائم چاندپوری کے نام سے مشہور ہوئے۔یہ ضلع بجنور کے قصبہ چاند پور میں تقریباً 1138ھ بہ مطابق1725-26  میں پیدا ہوئے اور 1208ھ بہ مطابق1795 میں رامپور میں ان کی وفات ہوئی۔

معاش کے سلسلے میں قائم کا زیادہ وقت دہلی میں ہی گزرا۔ تلاش معاش میں جب دہلی پہنچے تو اس وقت میر ومرزا کا اردو شاعری میں ڈنکابج رہا تھا۔شاعری سے شغف انھیں پہلے ہی سے تھا اور طبیعت بھی سازگار تھی۔ شروع میں شاہ ہدایت اللہ ہدایت جو میر درد کے شاگرد تھے، کے سامنے زانوے تلمذتَہ کیا پھر جلد ہی ان سے قطع تعلق ہو کے درد سے اپنے کلام پر اصلاح لینے لگے اور آخر میں سودا کی شاگردی اختیار کرلی۔قائم نے تقریباً تمام اصناف شاعری میں طبع آزمائی کی اورایک بڑا دیوان مرتب کیا علاوہ اس کے اردو شاعروں کا ایک تذکرہ’ مخزن نکات‘بھی اپنی یادگار چھوڑا ہے۔قائم چاند پوری کے معاصرین تذکرہ نگاروں اور مختلف ناقدین نے ان کے فن شعر گوئی کی تعریف کی ہے۔اردو ادب کے پہلے تذکرہ نگار محمد تقی میر نے اپنی تصنیف ’نکات الشعرا‘میں ان کی شعر فہمی کی تعریف نہیں کی لیکن مذمت بھی نہیں کی ہے۔ علاوہ ازیں بقیہ تذکرہ نگاروں نے قائم چاند پوری کی شعر وشاعری کی تعریف کی ہے :

کریم الدین احمد نے تو انھیں سودا کا ہم پلہ ہی بتا دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ :

’’عجب طرح کا شاعر گفتار، بلند مرتبہ موزونِ طبع عالی مقدار ہے کہ اوس کی برابری اچھے اچھے شاعر نہیں کر سکتے کیوں کہ وہ شخص اس رتبہ کا ہے کہ دیوان دیکھنے سے اس کی قدر کھلتی ہے بعض بعض …… سودا سے بہتر کہتے ہیں۔‘‘20؎

سید عبد الحیٔ کا خیال ہے کہ :

’’ان کے طرز ادا کو دیکھ کر سودا کے کلام کا دھو کا ہو تا ہے۔‘‘21؎

          محمد حسین آزاد نے فرمایا ہے:

’’یہ صاحب کمال چاند پور کے رہنے والے تھے مگر فن شعر میں کامل تھے ان کا دیوان ہر گز میر ومرزا کے دیوان سے نیچے نہیں رکھ سکتے مگر کیا کیجے کہ قبول عام اور کچھ شے ہے …شہرت نہ پائی۔‘‘22؎

بہ حیثیت مجموعی قائم یقیناً اردو کے عمدہ شاعر ہیں، اس امر کا اعتراف تقریباً سارے تذکرہ نگاروں نے کیا ہے۔ سودا کا تقریباً کل کلام بہ صورت کلیات مطبع مصطفائی دہلی میں پہلی بار چھپ کر 1856 میں شائع ہوا ہے۔ارباب مطبع کے تمام تر حزم و احتیاط کے باوجود اس میں متعدد تحریفیں درآئی ہیں۔ علاوہ ازیں اُن کے بعض معاصرین اور شاگردوں کا خاصا کلام بھی اس پہلے ایڈیشن میں سہوا ًشامل ہو کر شائع ہو گیا ہے۔نیز صاحب دیوان اوران کے معاصرشاعر قائم چاندپوری کی سات مثنویاں چند متفرق اشعار دو مکمل غزلیں دو مخمسات کلام سودا کے بعض چھپے ہوئے نسخوں میں اور چند قلمی نسخوں میں شامل ہو گئے ہیں۔پیش نظر جائزے میں اختصار ملحوظ رکھتے ہوئے ہم یہاں صرف ان کی مثنویوں کا جائزہ لیں گے جو سودا اور قائم دونوں کے یہاں تخلص کی تبدیلی کے ساتھ موجود ہیں۔

(1) درہجو سرما

ع    سردی اب کے برس ہے اتنی شدید

یہ مثنوی ’درہجوموسم سرما‘کے عنوان سے کلیات سودا کے تمام مطبوعہ ایڈیشنوںکے علاوہ بعض قلمی نسخوں میں بھی ملتی ہے۔ مثلاً دیوان سودااندراج نمبر UIX3/68/2کتب خانۂ بنارس ہندو یونیورسٹی، دیوان سودا، (اندراج نمبر 888، رضا لائبریری رام پوراوردیوان سوداکتاب نمبرS.L.70،مخزونہ خدا بخش لائبریری پٹنہ وغیرہ میں اسے سودا کے نام سے دیکھا جاسکتا ہے۔برخلاف اس کے کلیات قائم کے تمام معلوم شدہ قلمی ومطبوعہ نسخوںمیں یہ مثنوی ’درہجو شدت سرما‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ علاوہ ازیں معاصر تذکرہ نگاروںمیں مثلاً میر حسن،علی ابراہیم خاں خلیل، مرزا علی لطف اورقدرت اللہ وغیرہ نے بھی اسے قائم ہی سے منسوب کیا ہے اورنمونۂ کلام میں اس مثنوی کے چند اشعار بھی انھی کے نام سے نقل کیے ہیں۔اسی بنیاد پر شیخ چاند،خلیق انجم، پروفیسرگیان چندجین اورپروفیسر نسیم احمد نے اپنے اپنے تحقیقی مقالوںمیں اس مثنوی کو قائم کی ملکیت بتائی ہے۔ کلیات سودا اورکلیات قائم میںاس مشترک مثنوی میں متنی اختلافات کے ساتھ ساتھ اشعار کی تعداد میں بھی تفاوت ہے۔ مثلاً کلیات قائم میں اس کے اشعار کی تعداد 58ہے اورکلیات سودانسخۂ مصطفائی (1272ھ)میں 56اورنول کشور ی ایڈیشن (1916) میں صرف54 شعرہی ملتے ہیں۔ کلیات قائم میں زائد اشعار یہ ہیں       ؎

1

عیش کا دل میں کیونکہ ہووے خیال

ٹھنڈ سے خایہ چڑھ گئی پتاّل

2

ایسی جاگہ نہیں کوئی خالی

جس میں نمد بہ ہوئے یا قالی

3

ریزش نزلہ ہے زبس کہ عموم

رکھے ہیں منہ پہ رینٹ سے خرطوم

4

صرف ہیزم کیا میں سرمایہ

گر ہوا پر تنور کا خایہ

ان اشعار میں سے پہلا اورچوتھا شعر کلیات سودانسخۂ مصطفائی میں بہ ادنیٰ تصرف اس طرح نقل ہیں        ؎

 

کلیات سودا (نسخۂ مصطفائی

کلیات قائم جلد دوم (اقتداحسن)

1

 عیش کا دل میں کیوں کہ ہووے خیال

……………آئے خیال

 

ٹھنڈے خایہ چڑھ گئی پتال

……………………

2

 صرف ہیزم کیا میں سرمایہ 

……………سب ساماں

 

گر ہو پر تنور کا خایہ

……ہے ……خایہ کہاں

لیکن نسخۂ نول کشوری 1916 میں یہ چاروں شعر موجود نہیں ہیں۔

(2)

درہجو طفل پتنگ باز

 

ایک لونڈا پتنگ کا ہے کھلاڑ

یہ مثنوی بھی کلیات سودا کے ابتدائی مطبوعہ نسخوںکے علاوہ بعض قلمی نسخوں میں بھی موجود ہے مثلاً       کلیات سودانسخۂ بنارس(اندراج نمبر UIX3/68/2میں بہ عنوان ’درہجو طفل پتنگ باز‘شامل ہے،لیکن بعد کے مطبوعہ نسخوں سے بر بناے فحش اسے حذف کردیا گیا ہے۔ اصلاً یہ مثنوی قائم کی ہے کیونکہ قدرت اللہ شوق اورشاہ کمال نے اپنے اپنے تذکروں میں اس کے چند اشعار مع عنوان کلامِ قائم کے طورپر دیے ہیں۔ اس کے برعکس کسی  بھی تذکرے میں اس مثنوی کا ایک بھی شعر سودا کے نام سے نہیں ملتا۔ اورسودا کے معتبر نسخے بھی اس مثنوی کے اندراج سے خالی ہیں۔ ان شواہد کی بنا پر سودا کے ناقدین اورمحققین مثلاً شیخ چاند،خلیق انجم، شمس الدین صدیقی، قاضی عبدالودود، پروفیسر گیان چند جین اور پروفیسر نسیم احمد، وغیرہ نے اسے قائم کی مثنوی ہی تسلیم کیا ہے۔

کلیات قائم میں شامل اس مثنوی میں صرف 55اشعار ہیں جب کہ کلیات سودا میں اشعار کی تعداد 56ہے۔ درج ذیل شعر کلیات قائم میں نہیں ہے      ؎

اوڑتی دیکھے جس جگہ لکڑی

پھینک مارے ہے اس جگہ پگڑی

کلیات سودا اورکلیات قائم میں شامل اس مثنوی کے متن میں بھی چند اختلافات ہیں مثلاً          ؎

 

کلیات سودا

کلیات قائم

1

 اگر کوئی گیر سست بہتا ہے

سست ہوٹک جو کام میں کوئی مرد

 

    ہاتھ میں اس کو لے کے کہتا ہے

دیکھ کر اس کو یہ کہے ہے بے درد

2 

شکر کرتا ہے اس کا جس تس سے

……………………

 

    آپ کھاتا ہے جس سے یہ گھِس سے

خوب……………

سودا اورقائم کے کلیات میں شامل اس مثنوی کے مقطعے کے شعر میں صرف تخلص کا فرق ہے۔

کلیات سودا       ؎

بس نہ سودا زیادہ بات بڑھائو

کلیات قائم       ؎

بس نہ قائم زیادہ بات بڑھائو

(3) قصہ شاہ لدھا مسمیٰ بہ عشق درویش

یہ مثنوی بلاکسی عنوان کے کلیات سودا کے سبھی مطبوعہ نسخوںاوربعض قلمی نسخوںمیںبھی ملتی ہے۔ مثال کے طورپر دیوانِ سودا،اندراج نمبر888مخزونہ رضالائبریری رام پور، کلیات سودااندراج نمبر UIX3/68/2،ملکیت کتب خانہ بنارس ہندو یونیورسٹی وغیرہ۔دوسری طرف کلیات قائم کے تمام مطبوعہ اورقلمی نسخوںمیں یہ مثنوی منقولہ بالا عنوان کے ساتھ شامل ہے۔ نیز معاصر تذکرہ نگاروں مثلاً شاہ کمال، قدرت اللہ شوق اورسعاد ت خاں ناصر نے اسے قائم ہی سے منسوب کیا ہے اورشاہ کمال اور ناصر نے تو اس مثنوی کے چندشعر بھی قائم کے نمونۂ کلام میں نقل کیے ہیں۔البتہ قدرت اللہ شوق نے اختصار ملحوظ رکھتے ہوئے صرف اتنا ہی لکھا ہے کہ:

’’مثنوی شاہ لدھا کہ فقیر تکیہ دارعاشق مزاج مجنوں منش درنواحی پنجاب بود بسیار بہ اداہاے رنگین بستہ، از اول تاآخر ہمہ اشعار انتخاب است۔‘‘

گیان چند جین نے اپنی تصنیف ’اردو مثنوی شمالی ہند میں ‘اس مثنوی کو قائم کی تخلیق بتایا ہے اوراس مثنوی کا عنوان ’جذب الفت‘لکھا ہے۔یہ عنوان انھوںنے اس مثنوی کے قصے کی ابتدا کے اس مصرع سے اخذ کیا ہے  ع

کہوں میں داستانِ جذب الفت

آگے جین صاحب اس مثنوی کے متعلق لکھتے ہیںکہ:

’’داخلی شہادت کی بنا پر بھی یہ مثنوی سودا کی نہیں ہوسکتی۔ سودا شیعہ تھے اورقائم اہل سنت..... اس مثنوی میں منقبت نہیں بلکہ نعت کے بعد یہ شعر ہے        ؎

خداوندا پئے آلِ پیمبر

بہ حق باطن ہر چار سرور

ظاہراًچار سرور(خلفائے راشدین )کی بات وہی کرے گا جو سنی المسلک ہوگا۔ اورسودا شیعہ مسلک کے پیروتھے، وہ یہ بات کیسے کہیں گے۔ اس لیے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ مثنوی قائم کی ہی ہے کیونکہ قائم اہل سنت تھے۔

کلیات سودا اورکلیات قائم میں شامل اس مثنوی کے اشعار کی تعداد میں فرق ہے۔ مثلاً کلیات سوداکے مطبوعہ نسخہ میں 359؍اشعارہیں جب کہ کلیات قائم (مرتبہ اقتدا حسن)میں یہ تعداد بڑھ کر373ہوگئی ہے۔اس کے علاوہ کم سے کم 13؍شعر کلیات سودا میں اورہیںجو قائم کے یہاں نہیں ملتے اوراسی طرح کلیات قائم میں 28؍شعر ایسے ہیں جو کلیات سودا میں نہیں ہیں۔سطور ذیل میں یہ اشعار نقل کیے جاتے ہیں:

کلیات سودا (نسخۂ مصطفائی )کے زاید اشعار       ؎

1

بہ رنگ شمع سرسے پانوں تک نار

پہ تھی اک اشتعالک اس کو درکار

2

بھلا اے سفلہ ودور از فتّوت

بہی ہوتی ہے عالم میں مروت

3

کہ یھاں سے گرابھی چلیے توہے خوب

کہ ہو معلوم وھاں کا کیا ہے اسلوب

4

غرض یہ دکھ ہے کچھ ایسی ہی بابت

جہاں حیراں ہے سو طب اور طبابت

5

نہ ملا پاسکے ہرگز یہ اسرار

عبث ضائع ہے یھاں تعویز وطومار

6

عناصر سے ہوگر زیادہ کوئی چیز

طبیب اس کی کرے تشخیص وتجویز

7

نشستہ ہووے جو ں دُر دتِہ آب

اگر سود  تو  کیجے فصد  و جلاب

8

وگر صفراکرے صحت کی غارت

ہو تبرید یوٗں سے اِطفائے حرارت

9

مگر وہ جس کو اس کالے نے مارا

نہیں جز مرگ اس کا کوئی چارا

10

جو پوچھیںگے ہمیں خویش اوربرادر

کہاں چھوڑی وہ تم نے ناز پرور

11

جواب اس کے سوا ہم کیا کہیںگے

کہ شرمندہ سے ہوکر چپ رہیںگے

12

اگر ہم جانتے ایسا سرانجام

نہ لیتے یھاں کے رہنے کا کبھو نام

13

بہ رنگ گل گریباں چاک ومضطر

پڑے لُوٹے تھے اس مرقد کے اوپر

کلیات قائم کے زائد اشعار    ؎

1

تنک نسبت کراپنی اس سے معلوم

کہ ہو رمزِ حقیقت تجھ کو مفہوم

2

چبھی دل میں میرے یارب یہ کیا پھانس

کہ جی خار سا کھٹکے ہے ہر سانس

3

پڑی دل میں میرے وہ آتشِ غم

کہ مانگے الاماں جس سے جہنّم

4

میں ہوں وہ طائرِ باز و شکستہ

کہ صحرا میں با صد غم نشستہ

5

جلیں دوں سے بناگہ خاروخاشاک

ہلیں جب تک جگہ سے جل کے ہوخاک

6

سنیں جو کوئی یہ حرف جاں کاہ

نہ مارے تھا وہ دم جز نالہ و آہ

7

تھی گھر میں ہرطرف شادی سے سودھوم

پہ وہ بے چارہ اک حالت میں مغموم

8

تھے خوبی میں جو کل مشہورِ ایاّم

نہ آج اُن سے نشاں باقی ہے نے نام

9

غرض کرنے کو اس وحشی کی تسخیر

بچھاتی تھی وہ دامِ حسن تدبیر

10

مگر باقی تھا اس مہ سے یہ آثار

کہ اک گوشہ تھا مقنع کا نمودار

11

کہا سب نے کہ کھودے اس جگہ کو

ہوشاید اس تلک لے جائیں رہ کو

12

جو کھودا گور کوتو وہ وفا کوش

تھے دونوں ایک بغلی میں ہم آغوش

13

اگرچہ دوتھے یوں ظاہر میں وہ لیک

مشابہ یہ کہ ہیں دونوں گویا ایک

14

نہ کرسکتا تھا فرق ان میں کوئی فرد

کہ ہے زن کون سی اورکون ہے مرد

15

نہ بن آئے کوئی جب اُن سے تدبیر

کیا اس گور کو ویساہی تعمیر

16

پہ جیسے ہو وضعِ اہلِ ماتم

تھے وہاں سارے اسیر محنت و غم

17

کسو کی چشم خوں بار اشک سے تر

کوئی پیٹے تھا سینہ اورکوئی سر

18

الا اے واقف زار نہانی

نہ جان اس بات کو میری کہانی

19

ٹک اس عشق مجازی کو توٗکر غور

کہ ہر گہ ہوویں اس بازی کے یہ طور

20

کہ ہوجب ساز اس کا وحدت آہنگ

کرے معشوق سے عاشق کو ہم رنگ

21

تو وہ معشوق معنی جس سے ہم سب

ہیں جوں آئینہ سرتاپالبالب

22

جو ہم سے ٹک وہ اپنے منہ کو لے پھیر

تو ہم کیا ہیں، یہی اک خاک کا ڈھیر

23

کرے ہم پر جو استیلا وہ احوال

نہ ہوکیوںکر بناے بودپامال

24

کریںگے اس انانیت کو مطلق

نہ پاویں آپ میں جز ہستیِ حق

25

بہ ہر صورت عجب کچھ ہیں وہ احباب

کہ ہیں جو قطرہ اس دریا میں نایاب

26

ہوئے ہیں ذاتِ حق میں اس طرح غرق

کہ ہے دشوار اپنا آپ انھیں فرق

27

کہوں آگے میں کیا حرف وحکایات

کہ کہنے میں نہیںآتی ہے یہ بات

28

وگرہو لفظ یا معنی میں خامی

تو مثلِ قول مولانا ئے جامی

کلیات سودا اورکلیات قائم میں شامل مذکورہ مثنوی کے اشعار میں کمی وبیشی کے علاوہ اس کے بعض متون میں بھی اختلاف دیکھنے کو ملتے ہیں۔مثال کے طورپر چند اشعار دیکھیے     ؎

 

دیوان سودا

دیوان قائم

1

زموج اشک وبے خنجر گلو کو

زخونِ دید گاں تر کر گلو کو

 

نیابت دے سناں کی موبہ موکو

……………………

2

نہ ہوتا وہ اگر زینت دہِ خاک

……………………

 

تصدق خاک کی ہوتے نہ افلاک

بلاگردان خاک ……………

3

جہاںمیں ہے یہ جتنا کچھ ہویدا

ہے جتنا کچھ کہ عالم میں ہوپیدا

 

ہوا اس کے لیے سب کچھ وہ پیدا

………………………

4

سکوت بر محل ہے دل کی تفریح

کہ چپ رہنا جو واقع میں بجا ہے

 

سخن پر اس کو سودرجہ ہے ترجیح

کلام غیر موقع سے بھلا ہے

5

مرے اس خاک کی دھوئیں سے کلفت

وہ مے دے جائے جس سے دل کی کلفت

 

کہوںمیں داستانِ جذب الفت

………………………

6

  غرض سائے کی وھاں کے ہر سلاسل

اک ہم ہیں خلقت انساں کے ننگ

 

کشا تھی سوطرف سے دامنِ دل

کسی سے ہم،کوئی ہم سے ہے یاں تنگ

7

ہواگردونِ دوں اس سے مساعد

ہوا اس سے مساعد چرخ کج باز

 

لی اپنے ہاتھ میں ان نے وہ ساعد

لی اُن نے ہاتھ میں وہ ساعدِ ناز

8

دماغ اپنا جلاتے تھے زن ومرد

………………………

 

ولے افزود تھا ہر لحظہ وہ درد

پہ صدچنداں تھا ہر اک لحظہ وہ درد

9

بہ نحوی قصۂ ودستان معقول

کبھی، جیسے ہیں دل جوئی کے معمول

 

کبھو رکھتی تھی اس وحشی کو مشغول

یہ باتوںمیں اسے رکھتی تھی مشغول

10

غرض وھاں کے خیاباں کے اطراف

گلشن …سے تکیے………

 

ہیں سینے سے بھی مہ رویوں کے کچھ صاف

………………………

11

کہ یارب کس طرح اب گھر کو ہم جائیں

کہ یارب فرق ان کا کس طرح پائیں

 

   بھلا جاویں تومنہ کیا لے کے دکھلائیں

کسے رہنے دیں یاں اورکس کو لے جائیں

(4)حکایت

سنا ہے کہ ایک مرد اہل طریق

یہ مختصر سی مثنوی گیارہ اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ سودا کے اولین مطبوعہ نسخوںمیں شامل ہے۔کلیات سودا مرتبہ مولوی عبدالباری آسی میں یہ نہیں ملتی۔ ڈاکٹر شمس الدین صدیقی نے اس مثنوی کو اپنے مرتبہ کلیات سودا حصۂ مثنوی میں شامل نہیں کیا ہے۔ علاوہ ازیں کلیات سودا کے کسی قلمی نسخے میں خواہ معتبر ہوں یا غیر معتبر یہ مثنوی نہیں ملتی اورنہ ہی کسی تذکرے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ سوداکی تصنیف ہے۔

دوسری طرف یہ مثنوی کلیات قائم کے تمام قلمی ومطبوعہ نسخوںمیں ایک طویل مثنوی ’رمز الصلوٰۃ‘ میں ’حکایت‘ کے ذیلی عنوان سے اشعار نمبر221 سے234 تک ہے۔ قائم کی یہ مثنوی ’مثنوی رمز الصلوٰۃ‘ 254؍ اشعار پر مشتمل ہے۔اس مثنوی میں قائم نے الگ الگ عنوان سے سبق آموز حکایات بیان کی ہیں۔ انھی میں سے یہ حکایت بھی ہے جو غلطی سے بعض الحاقی مثنویوں کی طرح سودا کے کلیات میں شامل ہوگئی ہے۔

کلیات سوداکے مقابلے میں کلیات قائم (اقتداحسن) میں تین شعر زائد ہیں۔یعنی قائم میں مذکورہ مثنوی 14؍اشعار کی ہے زائد اشعار نیچے دیے جارہے ہیں       ؎

1

سوتو گر کرے چشم عبرت سے سیر

تری ہی تو ایذا ہے ایذاے غیر

2

ہے یہ بھی ترابلکہ ناداں گماں

کدھر ہے تو موجود اورمیںکہاں

3

ہے جاں گرچہ تن سے حقیقت میں فرد

پہ ہے دردِ جاں جو کہ تن کا ہے درد

کلیات سودا اورکلیات قائم میں شامل اس مثنوی کے اشعار کی تعداد میں فرق کے ساتھ ساتھ بعض اشعار کے متن میں بھی اختلاف ہے چند اشعار دیکھیے     ؎

 

کلیات سودا(نسخۂ مصطفائی)

کلیات قائم (اقتداحسن)

1

صفت سے تواضع کی موصوف تھا

……………………

 

تعدی کے عالم میں معروف تھا

تأدب   ………………

2

غرض چاہیے آدمی میں جو چیز

……………………

 

رکھے تھا سبھی خوبیاں وہ عزیز

…………خوبیں ………

3

قضاکار مجلس میں ہوتا کہیں

چنانچہ جو صحبت…………

 

اڑاتا نہ منہ سے مگس کے تئیں

……………………

4

کہا راستی ہے جوتیں نے کہا

……………تو ……

 

ولے اس سے یہ ہے مرا مدعا

……………………

5

کہ جس حال میں دوں میں اس کواڑ

………………اڑائے

 

ہے ممکن کسی اورپر بیٹھ جا

………………جائے

(5)     حکایت

سلف کے زمانے کا تاریخ داں

23؍اشعار کی یہ مثنوی بہ عنوان ’حکایت‘کلیات سودا کے تمام مطبوعہ نسخوںمیں موجود ہے۔یہاں تک کہ مولوی عبدالباری آسی نے بھی اپنے مرتب کردہ کلیات سودا میں اسے شامل کیا ہے۔ البتہ کلیات سودا مرتبہ ڈاکٹر شمس الدین صدیقی اس کے اندراج سے خالی ہے۔دوسری طرف کلیات سودا کے کسی بھی قلمی نسخے میں یہ مثنوی دیکھنے کو نہیں ملتی جب کہ کلیات قائم کے تمام قلمی اورمطبوعہ نسخوںمیں موجود ہے اسی بنیاد پر اقتدا حسن نے بھی کلیات قائم حصہ دوم میں اس مثنوی کو جگہ دی ہے۔ بنا بریں یہ مثنوی قائم کی تخلیق معلوم ہوتی ہے۔

 کلیات سودا میں مذکورہ مثنوی میں اشعار کی تعداد 23ہے،لیکن کلیات قائم میں 22؍اشعار ہی ہیں۔ کلیات سودا میں تین شعر ایسے ہیں جو کلیات قائم میںنہیں ہیںاورکلیات قائم میں ایسے دو شعرہیں جو کلیات سودا میں ندارد ہیں۔ نیچے بالترتیب یہ اشعار نقل کیے جارہے ہیں۔

کلیات سودا کے زائد اشعار     ؎

نہ گزرا تھا اس بات کو ایک دم

جو زایل ہوا نفخ دردِ شکم

ہے در پیش یک عمدہ تجھ کو سفر

رکھ احوال ٹک وھاں کا مدِ نظر

کہ یھاں تو جو کچھ پیش آجائیںگے

بہر حال دودن میں کٹ جائیںگے

کلیات قائم کے زاید اشعار       ؎

اورہے واقعی بھی جو سمجھے تو بات

کہ وابستہ تجھ سے ہے سب کائنات

نہ کرفکر دنیا کہ باطل ہے یہ

نہ آلودہ کر دل کو یاں،دل ہے یہ

کلیات سودااورکلیات قائم میں مشمولہ مذکورہ مثنوی کے متن میں بھی اختلافات ہیں۔مثال کے طور پر چند اشعار دیکھیے      ؎

 

کلیات سودا

کلیات قائم

1

طلب کی اطبا کی تجویز سے

………… نے ………

 

طبیعت کے تئیں ہر چیز سے

……………پرہیز

2

دواسے نہ دیکھی جو شہ نے فلاح

……………جب ان

 

کی ارکانِ دولت سے اُن سے صلاح

……………………

3

سنا شاہ نے جب گدا کا سوال

……………………

 

یہ کچھ کرکے دل بیچ اپنے خیال

کیا دل میں اپنے یہ اس دم خیال

4

بہر حال تب شہ نے پائی شفا

غرض پائی جس وقت ان نے شفا

 

کہا کرکے وعدہ کو اپنے وفا

لگا کرنے وعدے …………

5

یہ دنیا جہاںجائے یک چند ہے

غرض ………………

 

عبث دل تیرا اس جگہ بند ہے

……………………

6

مسلّم ہوا جب کہ ہونا ہلاک

مصمم ہواپس جو…………

 

چہ بر تخت مردن چہ برروئے خاک

……………………

 

(6)     حکایت

سنا ہے کہ اک مرد آزادہ طور

یہ مثنوی کل 16؍اشعار پر مشتمل ہے اورکلیات سودا کے تمام مطبوعہ نسخوں میں موجود ہے۔صرف ڈاکٹر شمس الدین صدیقی کے مرتب کردہ کلیات سودا میں نہیں ہے۔ علاوہ ازیں کلیات سودا کے کسی بھی قلمی نسخے میں یہ مثنوی نہیں ملتی۔دوسری طرف کلامِ قائم کے تمام قلمی ومطبوعہ دواوین وکلیات میں موجود ہے۔ بنابریں ڈاکٹر اقتدا حسن نے اسے دیوان قائم حصہ دوم میں شامل کیاہے۔اورسوداکے محققین ومرتبین مثلاً شیخ چاند،خلیق انجم، پروفیسر گیان چند جین،پروفیسر نسیم احمدنے اس مثنوی کا انتساب سودا سے غلط ٹھہرایا ہے۔

سودا سے اس مثنوی کے انتساب کا کوئی ثبوت نہیں ملتا حتیٰ کہ تذکرے بھی اس معاملے میں خاموش ہیں۔ لہٰذا وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مثنوی قائم کی ہے۔

کلیات سودا اورکلیات قائم میں شامل اس مثنوی کے اشعار کی تعداد یکساں ہے۔ یعنی دونوں کے یہاں  16شعر ملتے ہیں۔ ہاں!متن میں اختلاف ضرور پایا جاتاہے۔ ذیل میں مثالیں درج کی جاتی ہیں     ؎

 

کلیات سودا

کلیات قائم

1

کہا اس کو اس شخص نے کیا بعید

سے ………………

 

اگر ہم بھی خدمت میں ہوں مستفید

………………………

2

کوئی دن تو اس جا پہ کیجے معاش

………جو …………

 

معین ہو یک جابہم بودوباش

……کہیں ہوئے یک جائے باش

3

مگر وھاں سے جاتا کہیں بہر کار

وگر……………پر بہ کار

 

کھلے چھوڑتا اس جگہ کے کوار

………………………

4

کھلی جب کہ ہمسایگاں پر یہ بات

………………………

 

سبب کو وہ سایل ہوئے اس کے سات

……کردہ ……………

5

اس عقدہ کو کیجے گا ہم پر بھی صاف

وہ ہم پر بھی کیجے اس عقدے کو صاف

 

کہ وضع جہاں سے ہے یہ برخلاف

……  کا یہ کیا  …………

6

کہا چیز کیا اس میں اشکال ہے

……خیر………………

 

موافق تمھیں سے تو یہ حال ہے

………………………

7

جو رکھتا ہے کچھ اپنے دل میں ہوس

سوترے جتنے کہ اسباب ہیں

 

تواس رمز سے ایک اشارت ہے بس

خیالات بے ہودہ درخواب ہیں

 

(7)حکایت

سنا جاے ہے ایک مہوش کا حال

بار ہ اشعار کی یہ مثنوی کلیات سوداکے تمام چھپے ہوئے ایڈیشنوںمیں موجود ہے۔ البتہ ڈاکٹر شمس الدین صدیقی کے مرتب کردہ کلیات سودا سے غیر حاضر ہے۔ بہ ایں طور کلیات سودا کے کسی قلمی نسخے میں بھی یہ مثنوی نہیں ملتی۔ بر خلاف اس کے کلیات قائم کے تمام قلمی اورمطبوعہ نسخوںمیں یہ موجود ہے۔اسی بنیاد پر ڈاکٹر اقتدا حسن نے بھی کلیات قائم حصہ دوم میں اس کو شامل کیا ہے۔ مزید برآں شیخ چاند، خلیق انجم، پروفیسر نسیم احمد، وغیرہ نے اس مذکورہ مثنوی کو قائم کی طرف منسوب کیا ہے جو حق بہ جانب ہے۔

کلیات سودا اورکلیات قائم میں مشمولہ مثنوی میں اشعار کی تعداد یکساں ہے۔ البتہ دونوں کے متن بعض جگہ مختلف ضرور ہیں۔مثلاً

 

کلیات سودا

کلیات قائم

1

یہ اجزا ہیں اس کے توجا اور لیا

……………توجاکرلے آئو

 

 یہ ترکیب ہے اس طرح سے بنا

……………………بنائو

2

یہ نسخہ تو جس وقت لے کر بنائے

………………………

 

کبھوںدل میں بندر کا خطرہ نہ لائے

کہیں ………خطرہ نہ آئے

3

کہا اپنی یہ بات ممکن نہیں

……اس نے …………

 

جو خطرہ ہودل میں وہ جاوے کہیں

……………………

4

نہ سمجھا غرض اس کے رمزِ نکات

…………………رمزونکات

 

کہ پردے میں تھی مردِ عارف کی بات

………………………

5

کہ جب دل کو خطرے پہ قادر کیا

تو……………………

 

تو پھر پشم ہے خطرۂ کیمیا

………………………

حواشی

1        باغ معانی (قلمی)از نقش علی،ص62

2        سفینۂ ہندی از بھگوان داس ہندی،مرتبہ عطاء الرحمن کا کوی،ص105

3        مرزا محمد رفیع سودا از خلیق انجم،ص56

4        تذکرہ خوش معرکہ زیبا ازسعادت حسن خاں ناصر،ص130

5        سودااز شیخ چاند،ص41

6        دردو سودااز قاضی عبدالودود،ص70-71

7        مرزا محمد رفیع سوداازڈاکٹر خلیق انجم،ص71-72

8        تاریخ ادب اردو(جلد دوم)از جمیل جالبی، ص650

9        متعلقاتِ سودااز پروفیسر نسیم احمد(اس کتاب میں شامل سید حنیف احمد نقوی کا ایک مضمون بہ عنوان’سودا کا سالِ ولادت‘سے ماخوذ ہے۔)ص17

10      نشتر عشق ازحسین علی خاں عاشقی عظیم آبادی،ص665

11      تاریخ ادبیات جلد سوم ازگارساں دتاسی،ص70

12      سوداازشیخ چاند،ص70

13      دردوسودا از قاضی عبدالودود،ص90

14      آرائش محفل از شیر علی افسوس،ص27

15      انتخاب کلیات سودا(1847)مرتبہ غلام حیدر،مطبع فورٹ ولیم کالج،کلکتہ،ص118

16      انتخاب کلیات سودا(1847)مرتبہ غلام حیدر،مطبع اخوان الصفا،ص114

17      کلیات سودا(1856)مطبع مصطفائی،دہلی،ص49

18      دردوسودا از قاضی عبدالودود،ص90-91

19      غزلیات سودااز پروفیسر نسیم احمد،ص۔45-48،  متعلقات سودااز پروفیسر نسیم احمد،ص19-46

20      گلدستۂ ناز نیناں مولف مولوی کریم الدین،مرتبہ ڈاکٹر احمد لاری،ص:30

21      میر وسوداکا دورازثناء الحق،ص:350

22      آب حیات ازمحمد حسین آزاد،ص:156

 

Dr. Firdos Jahan D/o Mohd. Aslam

Vill. Akauna

Post.  Mirpur Rahimapar

Dist. Mau- 275306 (U.P.)

Mob.: 7355772327

Email. jahanbhu@gmail.com

تازہ اشاعت

کلیاتِ سودا اور کلیات قائم کی مشترک مثنویاں، مضمون نگار: فردوس جہاں

  سہ ماہی فکر و تحقیق، اپریل - جون 2024 تلخیص مرزا محمد رفیع سودا اپنے عہد کے ایسے باکمال شاعر ہیں جن کی شاعری کی شہرت اورمقبولیت نیز اف...