اردو دنیا، مارچ 2025
شاعری میں ایسے پیرائے اظہار یا اسلوب کا اہتمام کرنا جو محض ادائے مطلب کے لیے ضروری نہیں بلکہ کلام میں مزید حسن و لطافت اور معنی پیدا کرے صنعت کہلاتا ہے۔ صنعتیں بذات خود شاعری کا مقصد نہیں ہوتیں لیکن شاعری کا مقصد ان کے بغیر پورا بھی نہیں ہوتا کیونکہ ان کے ذریعے شعر کے تاثر میں اضافہ ہوتا ہے۔ بعض علمائے بدیع نے ان خوبیوں کو کلام کے حسن عارضی سے تعبیر کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ لفظوں کی ان خوبیوں کی وجہ سے نہ صرف کلام دلکش ہوجاتا ہے بلکہ بعض اوقات یہی لفظی خوبیاں کلام کے فکری اور معنوی اوصاف کو بھی چمکا دیتی ہیں۔ بہت سی لفظی اور معنوی صنعتوں کی بنیاد اصوات کی تکرار اور ترتیب پر قائم ہے۔ شاعر جب اپنے کلام میں اصوات کی خاص ترتیب و تنظیم قائم کرتا ہے تو نہ صرف کلام میں مخصوص صوتی آہنگ پیدا ہوتا ہے بلکہ شاعر کے جمالیاتی انبساط کا بھی پتا چلتا ہے۔مجاز کے کلام میں اصوات کی تنظیم اور ان کی تکرار کو
خاص دخل ہے۔ وہ شعوری طور پر الفاظ میں صوتی رعایت کوملحوظ رکھتے ہیں۔ مجاز ترقی
پسند شاعر ہیں لیکن ترقی پسندی ان کے رومانی مزاج سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ انھوں
نے غزلوں سے زیادہ نظمیں لکھیں ہیں۔ یہاں غزلوں سے قطع نظر ان کی نظموں میںلفظی
خوبیوں اور صوتی ہنر مندیوں کی نشان دہی مقصود ہے۔ مجاز کی نظم ’نذر علی گڑھ‘ کے
دو اشعار کے مختصر ترکیبی تجزیے اور اس کے بعد دیگر نظموں کے متفرق اشعار یا
مصرعوں میں صوتی تنظیم اور لفظی صنعتوں کی نشان دہی سے ان کی نظموں میں صوتی آہنگ
کی امتیازی خصوصیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ’نذر علی گڑھ‘ کا پہلا شعر ہے ؎
سر شار نگاہ
نرگس ہوں پا بستہ گیسوئے سنبل ہوں
یہ میرا چمن ہے میرا چمن، میں اپنے چمن کا بلبل ہوں
شعر میں بلبل، اور سنبل،
اصل قافیے ہیں چمن مزید قافیہ کا حکم رکھتا ہے اس کی تکرار نے آہنگ میں ایک کھنک
اور گونج پیدا کر دی ہے۔ س اور رائے مہملہ کی بکثرت تکرار ہے جس سے روانی اور
تسلسل میں اضافہ ہوا ہے۔ مصرعوں کے دونوں ٹکڑوں میں وقفہ دے کر آواز میں مدو جزر
بھی لایا گیا ہے۔ اس طرح کی خوبیاں پوری نظم میں ملتی ہیں۔ نظم کا ایک اور شعر ہے۔
اس بزم میں نیزے پھینکے ہیں اس بزم میں خنجر چومے ہیں
اس بزم میں گر کر تڑپے ہیں اس بزم میں پی کر جھومے ہیں
شعر کی پہلی خوبی یہ ہے
کہ دونوں مصرعوں کے الفاظ ہم وزن ہیں۔ چھوٹی بڑی آوازوں کی جو ترتیب مصرع اول کے
الفاظ میں ہے وہی ترتیب مصرع ثانی میں بھی ہے۔ دوسری ہنر مندی یہ ہے کہ اصل قافیہ’چومے‘
اور’جھومے‘ ہے لیکن مصرع اول کے دو مزید قافیے
’پھینکے ‘ اور خنجر کے جواب میں
مصرع ثانی میں بالترتیب’تڑپے‘ اور ’پی کر‘ مصرعے کے درمیان میں لائے گئے ہیں اس کی
ردیف ’ہیں‘ ہے۔ اس کے علاوہ ایک فقرہ’اس بزم میں‘ چار بار لایا گیا ہے۔ آہنگ سازی
کا یہ انداز مجاز کا مخصوص حربہ ہے۔ رز اورم کی آوازیں مکرر لائی گئی ہیں۔ گویا
پوری نظم میں ایک طرح کا داخلی توازن اور آرائش کار فرما ہے۔ـ
صوتی تکرار کی وجہ سے شعر کی نغمگی میں اضافہ ہوتا ہے
اور اس کا شمارمحاسنِ شعری میں کیا جاتا ہے۔ پروفیسر مغنی تبسم صاحب لکھتے ہیں:
’’ہرزبان
کے علم بدیع میں ایسی بہت سی لفظی صنعتیں اور بعض معنوی صنعتیں ملتی ہیں جن کا
مقصود ہی اصوات کی تکرار ہے یا جن کا استعمال بیشتر صورتوں میں تکرار اصوات کا
باعث ہوتا ہے۔‘‘
(درست
بلاغت: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، ص 121)
اردو میں متعدد لفظی صنعتیں
ہیں۔ ان میں سے چند ذوقافیتین، مع الحاجب، تضمن المزدوج، تکریر مطلق، تکریر مع
الوسائط، رد العجز علی الحشو مع التکرار، واسع الشفتین، صنعت تفریح اور صنعت ترصیع
وغیرہ۔ یہ سب دراصل صوتی صنعتیں ہیں۔ مجاز کے کلام میں مذکورہ بالا تمام صنعتیں
استعمال کی گئی ہیں ان کے علاوہ مجاز کے کلام میں تکرارو اصوات کے ایسے کئی نمونے
ملتے ہیں جن کے لیے علم بدیع میں کوئی نام نہیں دیا گیا ہے۔
لفظ آواز سے بنتے ہیں اور لفظوں کی تکرار یعنی آوازوں
کی تکرار سے آہنگ پیدا ہوتا ہے۔ آہنگ کا ایک خاص نظام ہو تو وہ نظم ہوتی ہے۔ نظم
کا ایک خاص جزو قافیہ ہے۔ قافیہ شعر کو خوش آہنگ بنانے کا لطیف ترین طریقہ ہے۔
اکثر شعرا ایک شعر یا مصرع میں ایک سے زیادہ قافیے لاتے ہیں۔ شعر یا مصرعوں کے بیچ
میں کسی خاص ترتیب سے لائے جانے والے دو یا زیادہ قافیوں کو علم بدیع میں صنعت
ذوقافیتین کا نام دیا گیا ہے۔ اندرون قافیہ کے ذریعے نظم کا صوتی آہنگ مزید دل کش
ہو جاتا ہے۔ جناب شمس الرحمن فاروقی صاحب اندرون قافیہ کے بیان میں لکھتے ہیں:
’’شعر
کے اندر آنے والے قافیاتی لفظ کے ذریعہ شاعری، خاص کر آزاد شاعری کی خوب صورتی میں
اضافہ ہوتا ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 121)
حقیقت یہ ہے کہ مجاز کے یہاں آزاد نظموں کی تخصیص نہیں۔
انھوں نے آزاد نظمیں نہیں لکھیں۔ ان کی نظمیں پابند اور نیم پا بند ہیئت میں ہیں۔
ان میں قافیوں کی پابندی ہیئت کے مطابق کی گئی ہے لیکن نظموں کے اکثر بندوں، اشعار
اور مصرعوں میں اندرون قافیہ کی کارفرمائی ہے جس سے کلام کی خوش آہنگی میں نمایاں
اضافہ ہوا ہے۔ مجاز کی نظموں میں اندرون قافیہ یا ذوقافیتین کی ایک شکل وہ ہے جہاں
ایک ساتھ دو قافیوں کا التزام کیا گیا ہے۔ مثلاً ؎
اس فرش سے ہم نے اڑ اڑ کر
افلاک کے تارے توڑے ہیں
ناہید سے کی ہے
سرگوشی پروین سے رشتے جوڑے ہیں
اس شعر میں’ تارے‘ اور’
توڑے‘ کے جواب میں مصرع ثانی میں رشتے اور جوڑے قافیے ہیں۔
جب دو قافیوں کے درمیان ردیف لائی گئی ہو، صنائع لفظی کی
رو سے ایسا پیرایہ بیان صنعت ذوقافیتین مع الحاجب کا حکم رکھتا ہے۔ مجاز کے کلام
سے اس کی مثال ملاحظہ ہو ؎
تجھ پہ یہ بار غلامی
کا گراں ہے کہ نہیں
جسم میں خون جوانی کا رواں ہے کہ نہیں
جس طرح دو قافیوں کے درمیان ایک ردیف کا التزام کیا گیا
ہے اسی طرح دور دیف کے درمیان ایک قافیے کا التزام بھی مجاز کا مخصوص انداز ہے۔
مثلاً ؎
وہ اک مضراب ہے اور چھیڑ
سکتی ہے رگ جاں کو
وہ چنگاری ہے لیکن پھونک سکتی ہے گلستاں کو
ذوقافیتین کی ایک شکل صنعت تضمین المزدوج کی ہے جہاں
اصل قافیے کے علاوہ بھی کچھ ہم قافیہ الفاظ کا التزام کیا گیا ہے۔ علم بدیع میں ایسے
ہم آواز الفاظ با قاعدہ قوافی کا حکم تو
نہیں رکھتے لیکن صوتی یکسانیت کے لحاظ سے قافیہ کا نام دیا گیا ہے۔ کلام مجاز میں
اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں ؎
اسلام کے اس بت خانے میں اصنام بھی ہیں اور آزر بھی
تہذیب کے اس مے خانے میں شمشیر بھی ہے اور ساغر بھی
کوئی بتائے عظمت خاک وطن کہاں ہے اب
کوئی بتائے غیرت اہل وطن کو کیا ہوا
میزان جوانی میں اسے تول رہی ہے
لب ساکت وصامت ہے نظر بول رہی ہے
وہ تسکین دل تھی سکون نظر تھی
نگار شفق تھی جمال سحر تھی
یاں ہم نے کمندیں ڈالی ہیں، یاں ہم نے شب خون مارے ہیں
یاں ہم نے قبائیں نوچی ہیں، یاں ہم نے
تاج اتارے ہیں
مجاز کے کلام میں اندرونِ قافیہ کی ایسی صورتیں بھی ملتی
ہیں جن کا شمارلفظی اور صوتی صنائع میں نہیں ہوتا۔ اس تنظیم میں شعر کے کسی ایک مصرعے کے پہلے دوٹکڑے میں یا
دونوں مصرعوں کے پہلے ٹکڑوں میں اصل قافیے کے ہم قافیہ الفاظ لائے گئے ہیں۔
مثلاً ؎
یہ دشت جنوں دیوانوں کا یہ بزم وفا پروانوں کی
یہ شہر طرب رومانوں کا یہ
خلدِ بریں ارمانوں کی
ہر سر و سمن پر
برسے گا، ہر دشت و دمن پر برسے گا
خود اپنے چمن پر برسے گا، غیروں کے چمن پر برسے گا
اس گل کدہ پارینہ میں پھر آگ بھڑ کنے والی ہے
پھر ابر گرجنے والے ہیں، پھر برق کڑکنے والی ہے
قافیے کے استعمال کی ایک
صورت یہ ہے کہ شعر میں مقفی الفاظ کسی خاص ترتیب کے بغیر لائے جائیں۔ مجاز کے کلام
میں اندرونی اور غیر منظم قافیوں کی وجہ سے اصوات کی تکرار میں خاصا تنوع پیدا ہو
گیا ہے۔ مثلاً ؎
رقصاں چلا گیا، نہ غزل خواں چلا گیا
سوز و گداز و درد میں غلطاں چلا گیا
وہ انجیل پڑھ کر سناتی تھی
مجھے کو
ہنسائی تھی مجھ
کو رلاتی تھی مجھ کو
آہنگ سازی کا ایک طریقہ یہ ہے کہ شعر کے دونوں مصرعوں
کے تمام الفاظ ہم وزن رکھے جائیں۔ ایسا التزام صنعت ترصیع کا حکم رکھتا ہے۔ مجاز
کے کلام میں اس کی مثالیں جا بہ جاملتی ہیں۔ مثلاً
پہلے شعر کے مصرع اول میں پہلے لفظ کی آواز ایک چھوٹی
ایک بڑی ہے۔ دوسرے لفظ کی ایک بڑی آواز ہے۔ تیسرے لفظ کی ایک بڑی ایک چھوٹی اور ایک
بڑی آواز ہے۔ چوتھے لفظ کی دو بڑی ایک چھوٹی اور آخری لفظ کی دو بڑی آوازیں ہیں۔
آوازوں کی یہی ترتیب مصرع ثانی میں بھی ہے۔ بقیہ اشعار میں بھی ہم وزن الفاظ کا
التزام کیا گیا ہے۔ نظم ’پہلا جشن آزادی ‘کے بیشتر بند کے دو دو مصرعے ہم وزن
الفاظ پر مشتمل ہیں۔
جب کسی شعر یا فقرے میں ایسے
الفاظ لائے جائیں جن میں کسی بھی لفظ کی ادائیگی میں لب سے لب نہ ملے تو اس میں
صنعت واسع الشفتین کی خوبی پیدا ہو جاتی ہے۔ مجاز کے کلام میں ایسے متعدد اشعار یا
مصرعے ہیں جن میں اس صنعت کی خوبی موجود ہے۔ مثلا ؎
سر راہ گذر کچھ سنائے چلا جا
ہنسائے چلا جار لائے چلا جا
کیسی سندر ہے کیا کہیے
ننھی سی اک سیتا کیسے
اس کنارے نوچ لوں اور اس کنارے نوچ لوں
ایک دو کا ذکر کیا سارے کے سارے نوچ لوں
دو الفاظ جو ایک ہی معنی رکھتے ہوں شعر یا مصرعوں میں
برابر جمع کیے جائیں تو ایسے پیرائے بیان کو صنعت تکریر یا تکرار کہتے ہیں۔ اس کی
مختلف شکلوں میں ایک تکریر مطلق ہے جس میں لفظ مکر رلائے جاتے ہیں مجاز کے کلام میں
ایسے اشعار اور مصرعے کثرت سے ہیں جن میں صنعت تکرار کی خوبی ہے۔ مثلاً ؎
اک اک ادا میں سیکڑوں پہلوئے دل دہی
اک اک نظر میں پرسش پنہاں لیے ہوئے
آگے آگے جستجو آمیز نظریں ڈالتی
شب کے ہیبت ناک نظاروں سے گھبرائی ہوئی
بستی بستی لوٹ مچی ہے
سب پینے ہیں سب بیو پاری
رات ہنس ہنس کر یہ کہتی
ہے کہ مے خانے میں چل
پھر کسی شہناز لالہ رخ کے کاشانے میں چل
صنعت تکریر کی دوسری قسم صنعت تکریر مع الوسائط کی ہے
جس میں دو مکر رلفظوں کے درمیان کوئی اور لفظ موجود ہو۔ مجاز کے کلام سے چند مثالیںملا
حظہ ہوں ؎
کشمکش سی کشمکش
میں ہے مذاق عا شقی
کامراں سی کامراں ہر سعی امکانی ہے آج
دل مجروح کو مجروح تر
کرنے سے کیا حاصل؟
تو آنسو پونچھ کر اب مسکرا لیتی
تو اچھا تھا
اس طرف ہاتھوں میں شمشیریں
ہی شمشیریں ہیں
اس طرف ذہن میں
تدبیریں ہی تدبیریں ہیں
ان مکرر الفاظ کے ذریعے نہ صرف آہنگ میں لطافت پیدا ہو
گئی ہے بلکہ زور بیان بھی دوبالا ہو گیا ہے۔ صنعت تکر یر مع الوسائط کی ایسی مثالیں
مجاز کے کلام میں بکثرت ہیں۔
ہماری زبان میں ایسی کئی صنعتیں ہیں جن کی وجہ سے پورے
لفظ کی تکرارکسی خاص ترتیب و تنظیم کے ساتھ ہوتی ہے۔ جب شعر میں وہ لفظ جو عجز میں
آئے وہی لفظ حشو میں ہو اور وہ لفظ تجنیس کی رعایت کے بغیر دہرایا جائے تو صنعت
رد العجز علی الحشو مع التکرار ہوتی ہے۔ مجاز کے کلام میں اس کی مثالیں ہیں لیکن
کم۔ ایک مثال ملاحظہ ہو ؎
کبھی اس کی شوخی میں سنجید گی تھی
کبھی اس کی سنجیدگی میں
بھی شوخی
شعر میں لفظ’ شوخی‘
حشو اور عجز میں لایا گیا ہے۔
مجاز نے چند ایسے اشعار بھی نظم کیے ہیں جن میں صدر کے
لفظ کا آخری حرف عجز کے لفظ کے آخری حرف کے موافق ہوتا ہے۔ یہ ایک مشکل فن ہے لیکن
اس کی مثالیں مجاز کی نظموں میں ملتی ہیں۔ مثلاً ؎
محرم درد و مسرت
راز دار ِ صبح و شام
محفل فطرت کی خاموشی ہے تجھ سے ہم کلام
خوں کے دریا
نظر آئیں گے ہر میدان میں
ڈوب جائیں گی چٹانیں خوں کے طوفاں میں
پہلے شعر کے صدر محرم کا آخری حرف ’م ‘ عجز’ کلام‘
کے موافق ہے۔دوسرے شعر کے صدر’ خوں‘
کا ’ں‘ عجز ’ میں‘ کے نون ِغنہ کے موافق ہے۔
شعر یا مصرعے میں کوئی لفظ مکرر آتا ہے تو گویا اس لفظ
کی تمام آوازیں (مصوتے اور مصمتے) ایک خاص ترتیب و تنظیم سے دہرائی جاتی ہیں لیکن
بعض اوقات لفظ کی تکرار کسی ترتیب و تنظیم کے بغیر لائے جاتے ہیں۔ مجاز کے کلام میں
اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ چند مثالیں دیکھیے ؎
تو انقلاب کی آمد کا
انتظار نہ کر
جو ہو سکے تو ابھی انقلاب
پیدا کر
با چشم ِنم ہے آج زلیخائے کائنات
زنداںشکن وہ یوسفِ زنداں چلا گیا
یہ غیرت چھین لیتی ہے
حمیت چھین لیتی ہے
یہ انسانوں سے انسانوں کی فطرت چھین لیتی ہے
ہم دیکھتے ہیں کہ اصوات کی تکرار میں مجاز کو بہت دلچسپی
ہے۔ ان کے کلام میں ایسے بہت سے الفاظ اور مرکبات ملتے ہیں جن میں صوت یا اصوات کی
منظم یا غیر منظم تکرار ہیں۔ الفاظ اور مرکبات میں منظم اصوات تکرار کی چند صورتیںیہ
ہیں:
(1)
لفظ یا مرکب جس مصمتے سے شروع ہو وہی مصمتہ
آخر میں بھی آئے۔ مثلاً رخسار، نگہبان، نشیمن، معصوم مریم، مظالم
(2) مرکبات
میں تکرار اصوات کی ایک صورت یہ ہے کہ ہر جزو کی یا ایک سے زیادہ اجزا کی ابتدا ایک
خاص مصمتے سے ہو مثلاً (ت) تب و تاب، تاب و
توانائی، (د) در و دیوار، دشت و در، (س) سوز و ساز، ساز و سامان، سرو سمن،
(ش) شانِ شایان ، شراب و شبستاں، (ل) لطیف
لہجہ، (م) محرومی و مجبوری، منزل مقصود، (ن) نگاہ نرگس، نرم و نازک، ناشاد
وناکارا، نرگس ناز، (ع) عیس وعشرت، (ز) زنجیر زنداں۔
(3) تکرار
اصوات کی دوسری صورت وہ ہے کہ جس میں ہر جزو خاص مصمتے پر ختم ہوتا ہے مثلاً (ب)
آب و تاب، (ر) دختر نیک اختر، در بدر، شور محشر، خمار کوثر، گوہر بار، (م) خرام و
رم، دم بدم، بزم عام (ہ) رخشندہ و تا بندہ (ش) دوش بدوش، (ت) ساکت و صامت، دشت
ظلمات، ساغرِسرشار۔
(4) ایک
صورت یہ ہے کہ پہلا جز جس مصمتے پر ختم ہو دوسرا جزو اسی مصمتے سے شروع ہو مثلاً
(ت) بہشت ترکمانی، عشرت تنہائی، (ب) قلب بلبل (د) سرود دل نشیں، (ز) ساز زیست (ع)
شمع ِعلم وفن (ن) سکونِ نظر، تمکینِ ناز، (چ) چشمِ مخمور (ر) سرِرہ گذر۔
اصوات کی تکرار اور ان کی ترتیب سے پیدا ہونے والے صوتی
آہنگ سے مجاز کی غیر معمولی دل چسپی کا نتیجہ کہنا چاہیے کہ وہ الفاظ کے انتخاب میں
بالعموم صوتی مماثلت کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ ان کی نظموں کے بیشتر مصرعوں میں ایک
اصوات ایسی ہوتی ہیں جن کا تکرار سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ مثلاً
(i)
ہر شام ہے شام مصر یہاں،
ہر شب ہے شب شیراز یہاں
ہے
سارے جہاں کا سوز یہاں اور سارے جہاں کا سازیہاں
اس شعر میں (الف) پندرہ بار، (ہ) دس بار، (ر) چھ بار،
(ں) چھ بار، (یائے معروف اور یائے مجہول) پانچ پانچ بار، (ش) پانچ بار (س) چار بار
اور (ر)، (م)، (ب) مکر رلائے گئے ہیں۔
(ii)
زمانے کے نظام زنگ آلودہ سے شکوہ ہے
قوانین
کہن، آئینِ فرسودہ سے شکوہ ہے
اس شعر میں(ہ) آٹھ بار، (ن) چھ بار، (ک) چار بار، (و)
پانچ بار، (ے) پانچ بار، اور (م)، (الف)، (ز)، (د) مکرر آئے ہیں۔
اصوات کے استعمال کے
سلسلے میں مجاز کے کلام میں ایک میلان یہ نظر آتا ہے کہ وہ شعر یا بند کے کسی
مصرعے کے کسی جزو میں ایسے الفاظ یک جا کر دیتے ہیں جن میں ایک یا زیادہ اصوات
مشترک ہوتی ہیں۔ اصوات کے ایسے اجتماع اور تکرار سے مجاز کے کلام میں جو متنوع صوتی
صورتیں بنتی ہیں وہ بڑی دلکش معلوم ہوتی ہیں۔ مصمتوں سے ترتیب پانے والی چند صورتیں
ملاحظہ ہوں ؎
آج بھی ساز سے مرے گرمیِ بزم سرکشی
( ش)
آج بھی آتش سخن شعلہ فشاں شرر فشاں
(
ش ش ش ش)
پھر خبر گرم ہے وہ جانِ وطن آتاہے
( ن ن )
پھر وہ زندانی زندانِ وطن آتا ہے
( ز ن ن ز ن ن
ن)
مکھی
بھنگے بھن بھن
کرتے
( ھ ھ
ھ ن ھ ن )
ڈھونڈے ہیں مکڑی کے جالے
( ھ )
مجاز کے کلام میں (س)، (ش)، (ہ)،(ر)،(الف)،(ت)، (و) اور
نون غنہ کی بہت تکرار ہے۔ ماہر اصوات نے لکھا ہے کہ (س)، (ز)، (ش) کی صغیری
آوازوں سے سرگوشی، خاموشی، سناٹا، سکون اور راز دارانہ کیفیات کے اظہار میں مدد
ملتی ہے اور یہ کہ مظاہر فطرت اور قدرتی بیان میں یہ آواز میں بکثرت استعمال ہوتی
ہیں۔ مجاز کی نظموں کے صوتی مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاں (س) اور (ش) کی
اصوات جنگ، غیظ و غضب، بے اطمینانی اور اضطراری کیفیت کی ترجمانی کے لیے زیادہ
استعمال ہوتی ہیں۔ ان کے یہاں (ش) سے بننے والے زیادہ تر الفاظ انھیں کیفیات سے متعلق
ہیں مثلاً لشکر، شمشیر، مشیت، شکنجوں، نشیمن، خوں آشام، حشر، محشر، شب، شام،
نشتر، شعلہ، شرر، وحشت، ناشاد، آشفتہ اور سنگ وحشت وغیرہ۔
(م) اور (ن) جیسے انفی مصمتے موسیقیت کی
ترجمانی کرتے ہیں اور ان کے صوتی آہنگ سے شعر کی نغمگی کہیں سے کہیں پہنچ جاتی
ہے۔ مجاز کی بیشتر نظموں میں ’م ‘اور ’ن‘ کی آواز یں کثرت سے سنائی دیتی ہیں۔ چند
مثالیں ملاحظہ ہوں ؎
درس سکون و صبر بہ
ایں اہتمامِ ناز
نشتر زنیِ
جنبشِ مژگاں لیے ہوئے
رنگِ گل ہائے گلستان ِوطن تم سے ہے
شورشِ
نعرئہ زندانِ وطن تم سے ہے
نشئہ نرگسِ خوبانِ
وطن تم سے ہے
عفتِ ماہ جبینانِ
وطن تم سے ہے
تم ہو غیرت کے امیں تم ہو
شرافت کے امیں
اور یہ خطرے میں ہیں احساس تمھیں ہے کہ نہیں
مجاز کی نظموں میں صوتی
مطالعے کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ مجاز کی شاعری میں صوتی آہنگ ان کے کلام کی
امتیازی خصوصیت ہے۔ جس کے سبب اپنے موضوع کی اہمیت سے قطع نظر خود آوازوں کی سطح
پر ان کا کلام انتہائی خوش آہنگ ہو گیا ہے۔ سماعت پر نغمے کا یہ خوش گوار اثر
کلام ِمجاز کی مقبولیت کا ایک اہم سبب ہے۔
Dr. Naz Begum
Assistant Professor, Urdu, Incharge Urdu
Section
MMV, Banaras Hindu University
Varanasi- 221005 (UP)
Mob. 6393494769, email id-
nazb985@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں