23/6/25

اردو زبان و ادب کے فروغ میں منشی نول کشور کا حصہ، مضمون نگار: محمد شہباز عالم

 اردو دنیا، مارچ 2025

منشی نول کشور (1836-1895) برصغیر کی علمی و ادبی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں، جنھوں نے اردو، فارسی، عربی، اور سنسکرت زبانوں کی اشاعت اور علمی ورثے کے تحفظ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 1858 میں ان کے ذریعے قائم ہونے والا نول کشور پریس نہ صرف برصغیر، بلکہ پوری دنیا میں مشرقی ادب کے تحفظ، اشاعت، اور فروغ کا اہم ذریعہ بنا۔ اس پریس نے نایاب کتابوں اور مخطوطات کو شائع کر کے انھیں نئی زندگی بخشی۔ ان کا مطبع انیسویں صدی کے علمی اور ادبی ورثے کے تحفظ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

منشی نول کشور 3 جنوری 1836 کو متھرا کے ایک گاؤں ریڑھا میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا، منشی بالمکند، آگرہ میں سرکاری خزانچی تھے، جبکہ ان کے والد منشی جمنا داس ایک کاروباری شخص تھے۔ نول کشور نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں میں حاصل کی جہاں انھوں نے عربی اور فارسی پڑھی۔ بعد میں وہ آگرہ کالج میں داخل ہوئے۔ مطالعہ ان کا جنون تھا اور جلد ہی وہ مضامین لکھنے لگے جو آگرہ سے شائع ہونے والے معروف اردو اخبار ’صفیر‘ میں چھپنے لگے۔ 17 سال کی عمر تک وہ ایک مشہور قلمکار بن چکے تھے۔ انگریزی، سنسکرت اور ہندی میں بھی انھیں مہارت حاصل تھی۔

مطبع کا قاچم

1858 میں وہ لکھنؤ پہنچے اور وہاں ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں لیتھو پریس خرید کر کاروبار شروع کیا۔ ابتدائی طور پر نصابی کتب اور مذہبی کتابیں چھاپیں جو جلد فروخت ہو گئیں۔ ان کا اصل مقصد ایک اخبار نکالنا اور علمی و ادبی کام شائع کرنا تھا۔

اودھ اخبار‘کی اشاعت

 نومبر 1858 میں انھوں نے لکھنؤ سے’اودھ اخبار‘ جاری کیا جو برصغرکی اردو صحافت کا سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس پر برطانوی حکومت کی حمایت کا الزام بھی لگا، لیکن ’اودھ اخبار‘ اردو صحافت کا ایک اہم ستون ثابت ہوا۔

نادر مخطوطات کا تحفظ

منشی نول کشور نے 1857 کے بعد ہندوستانی نادر مخطوطات کے تحفظ کے لیے بڑی محنت کی۔ انھوں نے نایاب نسخے خریدے، ماہرین سے ان کی تدوین کروائی اور انھیں  شائع کیا۔ ان کا یہ کام نہ صرف علمی خزانے کو محفوظ کرنے کا باعث بنا، بلکہ ان محققین کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی بنا جو 1857 کے بعد بے روزگار ہوچکے تھے۔

اردو اور دیگر زبانوں کی خدمات

 انھوں نے اپنے مطبع سے اردو داستانوں جیسے ’امیر حمزہ‘، ’طلسم ہوشربا‘، ’بوستان خیال‘ وغیرہ کو شائع کیا۔ عربی، فارسی، ہندی اور سنسکرت کے نایاب نسخے شائع کیے۔ ان کی غیر متعصب سوچ کے تحت رامائن، مہابھارت، گیتا کے ساتھ قرآن، حدیث اور اسلامی کتب بھی ان کے مطبع سے شائع ہوئیں۔

انتقال

 47سال کے مختصر عرصے میں بے مثال خدمات انجام دینے والے منشی نول کشور 19 فروری 1895 کو اچانک انتقال کر گئے۔ لیکن اردو زبان و ادب اور مشرقی علوم کے فروغ کے لیے ان کا چھوڑا ہوا ورثہ ناقابل فراموش ہے۔

منشی نول کشور کا مقصد ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرنا تھا جو علمی، ادبی، اور ثقافتی ورثے کو محفوظ کر سکے۔ ان کا ادارہ ہندوستان کا پہلا پریس تھا جس نے نہ صرف اردو زبان، بلکہ عربی، فارسی، ہندی، سنسکرت، اور دیگر زبانوں میں کتابیں شائع کیں۔ آہستہ آہستہ یہ پریس جدید طباعتی ٹیکنالوجی سے لیس ہوا اور اپنے وقت کے اعلیٰ معیار کے مطابق کتابوں کی اشاعتیں کیں۔

نول کشور پریس کی خدمات

1858 میں لکھنؤ میں قائم ہونے والے نول کشور پریس نے مشرقی علوم و فنون کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس مطبع نے نہ صرف اسلامی علوم، جیسے قرآن، حدیث، تفسیر، اور فقہ، بلکہ سنسکرت، ہندی، اور فارسی کے نادر و نایاب مخطوطات بھی شائع کیے۔مطبع نے اردو، عربی، فارسی اور ہندی میں تقریباً 3,000 کتابیں شائع کیں، جن میں زیادہ تعداد اردو کتابوں کی تھی۔

اس مطبع کی ایک بڑی کامیابی داستانِ امیر حمزہ کی 46 جلدوں کی اشاعت ہے، جسے شمس الرحمن فاروقی ناقابل فراموش قرار دیتے ہیں:

’’اگر نول کشور پریس داستانِ امیر حمزہ شائع نہ کرتا تو یہ ہمیشہ کے لیے ناپید ہو جاتی۔‘‘

پریس نے دیگر ادبی اور مذہبی کتابوں کے ساتھ ساتھ کئی کلاسیکی اور جدید موضوعات پر مبنی کتب شائع کیں، جنھوں نے برصغیر کے علمی ورثے کو محفوظ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

نول کشور پریس اور اردو زبان کا فروغ

 اردو زبان برصغیر کی تہذیبی اور ثقافتی وراثت کا ایک اہم جزو ہے۔ یہ نہ صرف ایک زبان ہے بلکہ مختلف تہذیبوں، ثقافتوں، اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی علامت بھی ہے۔ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب میں اردو کا کردار مرکزی رہا ہے، اور اس کردار کو پروان چڑھانے میں مختلف افراد اور اداروں نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ان میں منشی نول کشور کا نام ہمیشہ نمایاں رہے گا۔ ان کے قائم کردہ نول کشور پریس نے اردو ادب کے فروغ میں ایک انقلابی کردار ادا کیا۔ یہ پریس نہ صرف اردو ادب کی اشاعت کا مرکز بنا، بلکہ اس نے مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے ادبی شاہکاروں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

اشاعتی مقاصد

اردو ادب کے کلاسیکی اور جدید ذخیرے کو عام قارئین تک پہنچانا۔

مختلف مذاہب کی مقدس کتابوں کی اشاعت کر کے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینا۔

ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی نمائندگی کرنا۔

مختلف زبانوں کے ادبی شاہکاروں کو ایک دوسرے کے قریب لانا۔

اردو ادب کی ترویج میں نول کشور پریس کا حصہ

.1            شاعری کی اشاعت: اردو شاعری کی ترقی میں نول کشور پریس کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ اس پریس نے اردو شاعری کے کلاسیکی شعرا کے دیوان نہایت عمدہ طباعت کے ساتھ شائع کیے۔

دیوانِ غالب: غالب کی شاعری کو بہتر ترتیب اور معیار کے ساتھ پیش کیا۔

دیوانِ میر: میر تقی میر کی شاعری کو نئی نسل تک پہنچایا۔

دیوانِ سودا: سودا کی طنزیہ اور فکری شاعری کو دوبارہ زندہ کیا۔

.2            نثری ادب کی اشاعت: نول کشور پریس نے اردو نثر کو فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ان کے شائع کردہ مشہور ادبی کارنامے درج ذیل ہیں:

باغ و بہار: میر امن دہلوی کی اس داستان کو شائع کر کے اردو نثر کے حسن کو اجاگر کیا۔

فسانہ آزاد: پنڈت رتن ناتھ سرشار کے اس ناول کو شائع کیا جو اردو نثر کی ابتدا کا اہم سنگ میل ہے۔

داستان امیر حمزہ: داستانوی ادب کے اس شاہکار کو بڑے پیمانے پر عام کیا۔

.3            تراجم:نول کشور پریس کی سب سے اہم خدمات میں مختلف زبانوں کے ادبی شاہکاروں کے تراجم شامل ہیں۔

سنسکرت سے اردو: رامائن اور مہابھارت جیسے ہندو دھرم گرنتھوں کو اردو زبان میں منتقل کیا۔

فارسی سے اردو: فارسی کے مشہور ادبی شاہکار جیسے شاہنامہ فردوسی کو اردو قارئین کے لیے پیش کیا۔

عربی سے اردو: اسلامی علوم، تفسیر، حدیث، اور دیگر مذہبی کتب کو اردو میں ترجمہ کیا۔

.4            مذہبی ادب: نول کشور پریس نے مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے مختلف مذاہب کی کتابوں کو شائع کیا:

اسلامی ادب: قرآن مجید کے اردو تراجم، احادیث و  تفاسیرکی اردوکتب، اور فقہ پر مبنی اردو کتابیں۔

ہندو دھرم گرنتھ: بھگوت گیتا اور دیگر ہندو مقدس کتب کے اردو تراجم۔

دیگر مذاہب: عیسائی اور سکھ مذہب کی کتابوں کی اردو زبان میںاشاعت۔

ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے فروغ میں نول کشور کا کردار

ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے میل جول کا ایک مظہر ہے۔ نول کشور پریس نے اس تہذیب کے فروغ میں درج ذیل طریقوں سے کردار ادا کیا:

زبانوں کی یکجہتی: اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں کتابیں شائع کر کے لسانی ہم آہنگی کو فروغ دیا۔

ثقافتی پہلو: ہندو اور مسلم ثقافتوں کے مشترکہ پہلوؤں کو اجاگر کیا۔

مشترکہ موضوعات: ایسی کتابوں کی اشاعت کی جو دونوں مذاہب کے لیے اہم تھیں، جیسے مذہبی اخلاقیات اور سماجی موضوعات پر کتب۔

بین المذاہب ہم آہنگی:نول کشور پریس نے مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ ان کی شائع کردہ کتابیں مختلف مذاہب کے مقدس نظریات کو قارئین تک پہنچانے کا ذریعہ بنیں۔

نول کشور پریس کی خصوصیات:

اعلیٰ طباعت: نول کشور پریس نے جدید طباعتی تکنیک کے ذریعے اعلیٰ معیار کی کتابیں شائع کیں۔

دلکش سرورق: ان کی کتابوں کے سرورق دیدہ زیب اور خوبصورت ہوتے تھے۔

معیاری مواد: مواد کی ترتیب اور اشاعت میں معیاری اصولوں کا خیال رکھا گیا۔

جدید تحقیق میں نول کشور پریس کی اہمیت

آج بھی نول کشور پریس کی شائع کردہ کتابیں تحقیق کے لیے ایک اہم ذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔

ڈیجیٹلائزیشن: جرمنی کی ہائیڈلبرگ یونیورسٹی اور دیگر اداروں نے نول کشور پریس کی کتابوں کو ڈیجیٹلائز کیا ہے۔

لائبریریوں میں موجودگی: دنیا کی بڑی لائبریریوں میں نول کشور پریس کی کتابیں موجود ہیں۔

تحقیقی ذرائع: اردو ادب، تاریخ، اور تہذیب پر تحقیق کے لیے ان کتابوں کو بنیادی ذرائع سمجھا جاتا ہے۔

نول کشور پریس کی مقبولیت

1858 میں، منشی نول کشورکا قائم کردہ مطبع جلد ہی برصغیر کے بڑے علمی و ادبی مراکز میں شمار ہونے لگا۔ یہ مطبع ان کے عزم، محنت، اور دیانت کا آئینہ دار تھا۔ سر رابرٹ منٹگمری اور کرنل ایبٹ کی سرپرستی نے ان کے کام کو مزید عروج بخشا۔ نول کشور کی دیانت داری، قابلیت، اور اشاعت کے اصولوں نے انھیں علمی دنیا میں منفرد مقام عطا کیا۔

رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں:

’’ان کی دیانتداری اور اصول پسندی نے مطبع نول کشور کو ہندوستان اور ایشیا کا ایک نمایاں علمی مرکز بنا دیا۔‘‘

عبدالحلیم شرر اس حوالے سے لکھتے ہیں:

’’نول کشور پریس نے مشرقی ادب کو زندہ کر دیا۔ یہ ایک ایسا مرکز بن گیا جس کی علمی خدمات وسط ایشیا کے کاشغر و بخارا سے لے کر افغانستان و ایران تک محسوس کی گئیں۔‘‘

نول کشور پریس کی بین الاقوامی اہمیت:

نول کشور پریس کی شہرت برصغیر سے باہر بھی پہنچی۔ ان کی مطبوعات دنیا کی بڑی لائبریریوں، جیسے برٹش لائبریری، ہارورڈ، اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی لائبریریوں میں شامل ہوئیں۔ معروف یورپی جرنل Libri  نے بھی ان کی خدمات کا اعتراف کیا اور انہیں مشرقی ادب کے تحفظ کا ایک سنگ میل قرار دیا۔

منشی نول کشور اردو زبان و ادب کے وہ معمار ہیں جنھوں نے اردو کے فروغ کے ساتھ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی بقا میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ ان کا ادارہ مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ نول کشور پریس نے جو خدمات انجام دیں، وہ آج بھی اردو ادب، ہندوستانی تہذیب، اور علمی و ادبی حلقوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ان کے کام کا تسلسل ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے وجود کو تقویت دینے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

حوالہ جات:

.1            رام بابوسکسینہ: تاریخ ادب اردو (ہسٹری آف اردو لٹریچر)، منشی نول کشور، لکھنؤ

.2            نیر مسعود: لکھنؤ کا عروج و زوال، نا معلوم تنظیم۔

.3            شمس الرحمن فاروقی: اردو کا ابتدائی زمانہ، آج کی کتابیں، کراچی، 2009

.4            مرزا غالب: خطوط غالب، مرتبہ غلام رسول مہر، شیخ غلام علی اینڈ سنز ایجوکیشنل پبلشرز، لاہور، 1962

.5            شبلی نعمانی: مقالات شبلی، دار المصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ

.6            Merket-Hilf, Nicole "naval Kishore Press: hidden Treasures" Heidelberg Unversity Library, 2018

.7            مرزا خلیل احمد بیگ: اردو زبان کی تاریخ، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 1995

.8            ضیاء الرحمن صدیقی: اردو ادب کی تاریخ، لاہوتی پریس، دہلی، 2018

.9            منشی  نول کشور: فہرست کتب خانہ تجارتی منشی نول کشور، منشی نول کشور پریس، لکھنؤ، 1930

.10         امیر حسن نورانی: سوانح منشی نول کشور، خدا بخش لائبریری، 1995

.11         امیر حسن نورانی: منشی نول کشور اور ان کے خطاط و خوش نویس، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، 1994

.12         ڈاکٹر آصفہ زمانی: منشی نول کشور اور ان کی ادبی خدمات، روہتاشو پرنٹرس، لکھنؤ، 2000

.13         آر ایس ورما:تعمیر ہریانہ (منشی نول کشور نمبر)،  جولائی، اگست، شمارہ نمبر 008۔ 007، 1979

 

Mohammad Shahbaz Alam

Head, Department of Arabic

Sitalkuchi College, Sitalkuchi, Cooch Behar-736158 (West Bengal)

Mobile: 9064502370

Email: shahbazslkc@gmail.com

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب کے فروغ میں منشی نول کشور کا حصہ، مضمون نگار: محمد شہباز عالم

  اردو دنیا، مارچ 2025 منشی نول کشور (1836-1895) برصغیر کی علمی و ادبی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں، جنھوں نے اردو، فارسی، عربی، اور سنسکرت زبا...