31/10/23

خلائی افق کا آفتاب ہیں خواتین: آسیہ خان

 

15اگست2019 کو ہندی فلم مشن منگل کی ریلیز سے قبل شاید ہی کوئی جانتا ہو کہ اس مشن کی کامیابی کا کریڈٹ ان خواتین کو جاتا ہے جنھوں نے ایسی سائنسی مشین کو پایۂ تکمیل پہنچانے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ حالانکہ مشن منگل کے ہیرو اکشے کمار تھے لیکن اس فلم میں5کردار ایسے تھے جو ہیرو کے کردار پرغالب آ گئے تھے او ریہ کردار ادا کیے تھے ودیا بالن، سوناکشی سنہا، تاپسی پنّو ، کیرتی کلہڑی اور نتیا مینن نے۔ ان اداکاروں نے جن کردارکو نبھایا یہی وہ کردار تھے جنھوں نے پوری دنیا میں اس مشن کی کامیابی پر مقبولیت حاصل کی اور ثابت کر دیا کہ سائنس کے میدان میں خواتین کی حصے داری اب بھی برقرار ہے اور صنف نازک کہلائی جانے والی عورت کسی بھی حصے میں مردو ںسے کم نہیں۔

آج زندگی کے ہر شعبے میں خواتین ایک اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ آج خلائی سائنس سے لے کر کیمسٹری، فزکس، بایولوجی، مخلوقیات، میڈیکل، نینو تکنیک ، جوہری تحقیق، زمین اور ماحولیاتی سائنس، ریاضی انجینئرنگ اور زراعتی سائنس جیسے چیلنجنگ شعبوں میں خواتین کامیابی کے پرچم لہرا رہی ہیں۔ حالانکہ سائنس، تکنیک، انجینئرنگ اور ریاضی کے شبعوں میں ان کی تعداد مردوں کے برابر تو نہیں ہے۔ لیکن ان شعبوں میں ان کی دلچسپی مسلسل بڑھ رہی ہے اور یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اپنی سماجی اور گھریلو ذمے داریوں کی وجہ سے خواتین کے لیے سائنس کی دنیا میں مقام حاصل کرنا کبھی بھی آسان نہیں رہا ہے۔ کچھ دہائیوں قبل ظاہر ہے حالات اور بھی مشکل تھے۔ جہاں لڑکیوں کا اسکول جانا بھی برا سمجھا جاتا تھا اور انھیں تعلیم سے محروم رکھا جاتا تھا۔ اس زمانے میں بھی خواتین نے تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے سائنس جیسے شعبے میں اپنی شناخت بنائی اور ایسی مثالیں قائم کیں جنھیں آج دنیا یاد کرتی ہے۔ ایسے میں ان سینئر خواتین سائنس دانو ںکا ذکر ضروری ہے جن کی شخصیت آنے والی نسلوں کے لیے ایک نذیر ہے۔یہاں ہم کچھ ایسی ہی خواتین کا ذکر کر رہے ہیں جن کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور پڑھا جا چکا ہے۔ جیسے انّا منی(23اگست 1918 16-اگست2001) جنھوں نے 8سال کی عمر میں تحفہ میں ملنے والے ہیرے کے بُندے ٹھکرا کر انسائیکلو پیڈیا بریٹینیکا(Britinica) مانگ لیا تھا۔انھوں نے1930 میں نوبل اعزاز سے سرفراز ہندوستانسی سائنس داں سی۔ وی رمن کے ساتھ بہت سے سائنسی پروجیکٹس پر کام کیا اور مختلف سائنسی اداروں میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہیں۔

 اسیما چٹرجی نے23ستمبر1917سے22نومبر2006 کو کیمسٹری کے شعبے میں بہت کام کیا ۔ انھوں نے کینسر جیسی کئی موذی امراض کے لیے موثر دوائیاں ایجاد کیں اور دنیا نے ان سے بہت فائدہ اٹھایا۔ مرگی سے لے کر ملیریا جیسی بیماریوں میں ان کے فارمولے پر بنی دوائیں آج بھی لوگوں کو راحت پہنچا رہی ہیں۔

کمل رن دیوے(15دسمبر1905سے11اگست 1970) ملک میں کینسر کے علاج کو ممکن بنانے میں انھوں نے بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں انھوں نے جزام جیسے مرض کے لیے بہت اہم دوائیوں کی ایجاد کرنے میں مدد کی جس کی وجہ سے انھیں ملک کے دوسرے سب سے بڑے اعزاز پدم وبھوشن سے نوازا گیا۔ اتنا ہی نہیں انھوں نے انڈین ویمن سائنس فیڈریشن کا قیام کرکے فیلڈ میں آنے والی نئی نسل کی خواتین کے لیے نئی رائیں بھی ہموار کیں۔

ای کے جانکی امّال(6نومبر1897سے7فروری1984) جانکی امال نے گنے کی ایک نہایت میٹھی قسم کی ایجاد کی۔ انھوں نے ایسے گنے کی بھی ایجاد کی جو کئی طرح کی بیماریوں اور قحط کے حالات میں بھی پیدا ہو سکے۔

انھیں صرف ایسی ریسرچس کی وجہ سے ہی نہیں جانا جاتا بلکہ آزادی کے فوراً بعد جو با صلاحیت سائنس داں یہاں سے جانا چاہتے تھے تو انھیں ملک میں روکنے کے لیے اور با صلاحیت شخصیات کی حوصلہ افزائی کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی درخواست پر انھوں نے انڈین بوٹینیکل سوسائٹی کا دوبارہ قیام کیا۔ انھیں1957میں پدم شری کے اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔

کملا سوہنی(18جون1911 سے28جون1998) کملا سوہنی مشہور سائنس داں پروفیسر سی وی رمن کی پہلی طالب علم تھیں۔ کملا سوہنی پہلی ہندوستانی خاتون سائنس دان بھی ہیں جنھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ انھوں نے نوبل اعزاز یافتہ فریڈرک ہاپ کنس کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔

آنندی بائی گوپال راؤ جوشی (31مارچ1865سے 26فروری 1887) ہندوستان کی پہلی خاتون فزییشن تھیں۔ ان کی شادی محض 9 سال کی عمر میں ہو گئی تھی اور وہ16سال کی عمر میں ماں بھی بن گئی تھیں ۔ کسی دوائی کی کمی کی وجہ سے بہت ہی کم عمر میں ان کے بیٹے کا انتقال ہو گیا جس کے بعد انھوں نے نئی نئی دوائیوں کی ایجاد کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ انھوں نے پینسل وینیا میڈیکل کالج میں پڑھائی کی تھی۔ اتنی مشکلات کے باوجود ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا اور انھوں نے اپنی جدوجہد سے کامیابی کی ایک نئی کہانی لکھی۔

ڈاکٹر درشن رنگا ناتھن(6جون1961 سے6جون 2001) نے بایو کیمسٹری کے شعبے میں نہایت اہم رول ادا کیا۔ دلی کے مرانڈا ہاؤس کالج میں پڑھا۔ وہاں سے اسکالرشپ مل گئی تو امریکہ چلی گئیں۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد آئی آئی ٹی کانپور میں ٹیچر سبرا منیم رنگا ناتھن سے شادی تھی۔ وہ سائنس سے متعلق جریدوں کی ایڈیٹر بھی رہیں۔ نیشنل سائنس اکیڈمی کی فیلو بھی رہیں۔ پھر انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل ٹیکنا لوجی حیدر آباد کی ڈائرکٹر کا عہدہ سنبھلا۔ 2001 میں دار فانی سے کوچ کر گئیں۔

کلپنا چاولہ: کلپنا اسپیس شٹل Space Shuttle سے خلاء میں جانے والی پہلی ہندوستانی خاتون سائنس داں ہیں۔ 1982 میں امریکہ جاکر ایئر و اسپیس انجینئرنگ ماسٹر ز کی ڈگری لینے والی کلپنا نے 1986میں دوسری ماسٹرز کی ڈگری لی اور پھر1988میں ایئر و اسپیس Airo Spaceانجینئرنگ میں پی ایچ ڈی مل گئی۔ فروری2003 کو کولمبیا شٹل ڈیزاسٹر (Columbia Shuttel disaster) میں مارے جانے والے کرو ممبرز میں سے ایک کلپنا چاولہ بھی تھیں۔

اب ہم ذکر کریں گے نئے دور کی ان خواتین سائنسدانوں کا جنھوں نے پوری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ ابھی حال ہی میں ہندوستان نے خلاء میں ایک سیٹیلائٹ کا کامیاب تجربہ کیا ۔ جس کی تعریف پوری دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی کر رہے ہیں۔ اس کامیابی کے پیچھے بھی خواتین سائنسدانو ںکا اہم رول رہا ہے اور خواتین نے پھر سے ثابت کر دیا کہ ان کی صلاحیتو ںکی کوئی حد نہیں وہ لا محدود ہیں۔ ان خواتین سائنسدانو ں میںریتو کرڈھال کا نام پہلے نمبر پر لیا جا سکتا ہے۔ ایسرو میں آنے والے کئی مسائل کو انھوں نے چٹکیوں میں حل کر دیا ہے۔ دو بچوں کی ماں ہیں اس کے باوجود اپنا زیادہ تر وقت ایرو میں ہی گزارتی ہیں وہ منگل یان مشن کی ڈپٹی آپریشن ڈائرکٹر رہیں اور اس مشن کو پورا کرنے والے کامیاب گروپ کی ایک اہم کردار ہیں۔

مومیتا دتّا۔ مومیتا دتا نے منگل یان مشن کے لیے بطور پروجیکٹ منیجر کام کیا۔ انھوں نے کولکاتا یونیورسٹی سے ایم۔ ٹیک کیا ہے۔

نندنی ہری ناتھ: نندنی ہری ناتھ اپنی پہلی ملازمت کے طور پر ایسرو میں شامل ہوئی تھیں اور آج20سال گزر جانے کے باوجود مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہیں اور اس پروجیکٹ کے لیے انھوں نے بہت محنت کی۔

انورادھاٹی کے: ایسرو میں ایک سینئر عہدے پر فائز ہیں اوردیگر خواتین سائنس دانو ںکے لیے ایک آئیڈیل ہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں انھیں بجائے رٹتے یا یاد کرنے کے منطقی سبجیکٹس زیادہ پسند تھے آج وہ ایسرو کے اہم ڈرپاٹمنٹ کی ہیڈ ہیں او راب بھی اسی طرح سوچتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ برابری یہاں برابری کے سلوک کی وجہ سے کئی بار انھیں یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ ایک خاتون ہیں یا کچھ الگ بھی ہیں۔

این ولارمتھی: ولارمتھی نے ہندوستان کے راڈار امیجنگ سیٹیلائٹ کی لانچنگ کی قیادت کی ہے۔ ٹی کے اندورادھا کے بعد وہ ایسرو کے سیٹیلائٹ مشن کی ہیڈ کے طور پر دوسری خاتون افسر ہیں۔52 سال کی عمر میں انھوں نے اپنی ریاست تمل ناڈو کے وقار میں اضافہ کیا ہے وہ ریموٹ سینسنگ سیٹیلائٹ مشن کی بھی ہیڈ رہی ہیں۔

مینل سنپتMeenal Sampat: مینل سمپت نے ایسرو کے سسٹم انجینئر کے طور پر 500 سائنسدانوں کی قیادت کی ہے۔مشن منگل میں کامیابی کے بعد اب ان کا دوسرا ٹارگیٹ نیشنل اسپیس انسٹی ٹیوٹ میں پہلی خاتون ڈائرکٹر بننا ہے۔

کیرتی فوجدار: ایرو کی کمپیوٹر سائنس داں ہیں جو سٹیلائٹ کو ان کی صحیح جگہ پر پہنچانے کے لیے ماسٹر کنٹرول فیسیلیٹی پر کام کرتی ہیں۔ کچھ بھی غلط ہونے پر سدھار کا کام وہی کرتی ہیں۔ کیرتی اب بھی پڑھائی کرنا چاہتی ہیں اور مزید بہتر کارکردگی کے لیے ایم ٹیک کرنا چاہتی ہیں۔

ٹیسی تھامس: ٹیسی ہندوستان کی وہ میزائل ویمن ہیں جنھوں نے اگنی4اوراگنی5مشن میں اہم رول دا کیا ہے۔ ٹیسی ڈی آر ڈی او کے لیے تکنیکی کام کرتی ہیں۔ اپنی صلاحیتوں اور کار گزاریوں کی وجہ سے ہی انھیں ’اگنی پتری ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

موجودہ دور میں6ہزار سے بھی زائد خواتین ایسرو کے لیے کام کر رہی ہیں۔ حالانکہ ایسرو کے سبھی 7ڈائرکٹرز مرد سائنس داں ہی رہے ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہزاروں خواتین ہمارے خلائی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والی نئی ریسرچوں کے لیے دن رات محنت کر رہی ہیںاور اگر سمت حکومت ہند کے اقدامات کی بات کریں تو خواتین سائنس دانو ںکی حوصلہ افزائی کے لیے حکومت نے ہر خواتین کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ سائنس ،ٹکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے مدیان میں کیریر بنانے کے لیے خواتین کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے جس کے تحت2019سے ’وگیان جیوتی‘ نامی ایک اسکیم بھی چلائی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی خواتین سائنس دانوں کی صلاحیتوں میں مزید نکھار کے لیے2014-15 میں ایک مہم ’’کیرن یوجنا‘‘ کا آغاز بھی کیا گیا ہے جس کے تحت ہزاروں خواتین کی سائنس کے تعلق سے کارگزاریوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ وقت کے ساتھ ساتھ خواتین نے سائنس کے میدان میں اپنی محنت اور لگن سے اپنی ایک الگ شناخت بنائی ہے۔ ہاں ان کی رفتار میں ابھی اتنی تیزی نہیں ہے لیکن ان کے تجربات اور نئی ایجادات نے دنیا کو آگے لے جانے میں بہت مدد دی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بے پناہ صلاحیت کی مالک جو اپنے ذاتی اور گھریلو حالات کے باوجود اتنی محنت کر رہی ہیں ان کو بھر پور تعاون دیا جائے۔ ان کے خاندان، تعلیمی ادارے، کمپنیاں اور حکومتیں سب کو ساتھ مل کر ان کے لیے کام کرنا ہوگا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ ساتھ ہی وہ خواتین جنھوں نے سائنس کی دنیا میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور اپنے تجربات اور ایجادات سے دنیا کو فائدہ پہنچایا ان کی کہانی ٹی وی۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے سب تک پہنچائی جانی چاہیے۔تاکہ تنگ ذہنیت والے لوگوں کو بیدا ر کیا جا سکے اور ملک کی بیٹیاں سائنس کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ اپنی حصہ داری کو یقینی بنا سکیں۔

 

 

Asiya Khan

1101, Chabuk Sawar

Lal Kuan, Chandni Chowk

Delhi-110006

Mob: 7011800481

30/10/23

سائنس میں مسلم خواتین: ڈاکٹر روبینہ



زمانہ قدیم ہی سےسائنس میں خواتین کا نمایاں کردار اور اس میدان میں ان کی نہایت وقیع خدمات رہی ہیں۔ اس میدان میں خدمات انجام دینے کے دوران خواتین کو کئی مشکلات کا سامنا رہا۔ اٹھارویں صدی میں جہاں خواتین کو مواقع میسر نہیں تھے لیکن اس کے باوجود بھی خواتین نے سائنس کے میدان میں بہت زیادہ پیش رفت کی۔ 19ویں صدی میں بھی خواتین کو کئی مشکلات درپیش تھیں وہ رسمی سائنسی تعلیم سے دور تھیں لیکن اس عرصے میں وہ تعلیم یافتہ سوسائٹیوں کا حصہ بننے لگی تھیں 19ویں صدی کے اواخر میں خواتین کے کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا اور یوں خواتین سائنس دانوں کو ملازمتیں اور تدریس کے مواقع میسر آئے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے خواتین کا تعلق کافی قدیم ہے اور اس میں مسلم خواتین سائنسدان قابل ذکر ہیںجن میں سے دو  مسلم خواتین سائنسدان کا ذکر درج ذیل ہے۔

ڈاکٹر حمیدہ سیدوظفر: ماہر امراض چشم

ڈاکٹر حمیدہ کون تھیں؟ اگرچہ ان کی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات پبلک ڈومین میں موجود ہیں لیکن ان کی زندگی کے بنیادی حقائق سے متعلق کافی مواد موجود ہے۔ دستیاب ذرائع میں سے ایک نامکمل سوانح عمری ہے جو انھوں نے اپنے پیچھے چھوڑی اور جو ان کی بے وقت موت کے بعد محترمہ شیلا حیدر کی کوششوں سے ایک کتاب کی صورت میں منظر عام پر آئی ہے۔

ڈاکٹر (مس) حمیدہ سیدو ظفر 16 جولائی 1921 کو نینی تال، اتر پردیش میں پیدا ہوئیں۔ وہ معروف فزیشن ڈاکٹر سیدو ظفر خان اور شوکت آرا بیگم کی بیٹی تھیں۔ ان کے والد لکھنؤ میڈیکل کالج میں اناٹومی کے پروفیسر تھے۔ حمیدہ سیدو ظفر نے MBBS،MS (Ophthalmology) اور DCMS کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے لندن یونیورسٹی کے مورفیلڈ آئی ہسپتال سے پی ایچ ڈی (آنکھوں کی سائنس) کی ڈگری حاصل کی۔ انھوں  نے کولمبو پلان کے تحت62- 1960کے دوران گلوکوما ریسرچ یونٹ، انسٹی ٹیوٹ آف آپتھلمولوجی، لندن یونیورسٹی سے جدید ترین تربیت اور تجربہ حاصل کیا۔ انھوں نے 1949 سے انسٹی ٹیوٹ آف آپتھلمولوجی، گاندھی آئی ہسپتال، علی گڑھ میں آپتھلمک سرجن کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،1 8-1978میں انسٹی ٹیوٹ آف آپتھلمولوجی کی ڈائریکٹر اور پروفیسر کے طور پر مقرر ہوئیں۔ انھوں نے 1983 میں ریٹائرمنٹ کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر ایمریٹس کے طور پر خدمات انجام دیں۔

ڈاکٹر حمیدہ ایک انتہائی معزز ماہر امراض چشم تھیں۔ ہندوستان سے فارغ التحصیل ہونے والی ابتدائی خواتین ڈاکٹروں میں سے ایک ہیں، ایسے دور میں جب خواتین کو گھر میں رہنا، اور خاندان اور گھر کا انتظام کرنا نصیب ہوتا تھا۔ یہاں وہ لکھنؤ کے کنگ جارج میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس مکمل کرنے والی پہلی طالبہ تھیں اور اس کے بعد میڈیکل پریکٹس کی دنیا اپنی پیشہ ورانہ ساکھ قائم کرنےکے بعد بالآخر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے منسلک گاندھی آئی ہاسپٹل میں امراض چشم کی پروفیسر بن گئیں۔ وہ رائل سوسائٹی آف میڈیسن، لندن کی فیلو تھیں۔ وہ برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن کی ممبر، ممبر آف تھلمولوجیکل سوسائٹی آف یو کے، ممبر آل انڈیا آپتھلمولوجیکل سوسائٹی، ممبر نیشنل سوسائٹی فار پریوینشن آف بلائنڈنس، ممبر اتر پردیش اسٹیٹ آپتھلمولوجیکل سوسائٹی، ممبر آف انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن اور ممبر ایشیا پیسیفک اکیڈمی آف آپتھلمولوجی نئی دہلی 1985کے طور پر کئی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں سرگرم رہیں۔

ڈاکٹر حمیدہ سیدو ظفر امراض چشم کے شعبے میں ایک نامور استاد اور معالج تھیں۔ انھوں نے اپنی سوانح عمری لکھی: حمیدہ سیدو ظفر خان (1988-1921)، جسے لولا چٹرجی نے ایڈٹ کیا اور 1996 میں شائع ہوئی۔ اپنی کتاب میں انھوں نے مرد کے تسلط والے معاشرے میں خواتین کے خلاف سماجی و اقتصادی حالات اور تعصب کا ذکر کیا۔ انھوں نے واضح کیا کہ علی گڑھ میڈیکل کالج کے پڑھے لکھے پروفیسروں میں بھی تعصب غالب تھا۔ فیکلٹی کا خیال تھا کہ خواتین ڈاکٹروں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہیے کیونکہ وہ جلد ہی شادی کے بعد یہ پیشہ چھوڑ دیں گی۔ عام طور پر خواتین ڈاکٹروں کو ان کی اعلیٰ مہارت کے لیے گائناکالوجی میں لے جایا جاتا تھا۔دوسرے محکموں میں ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی اور وہ قابل قبول نہیں تھے۔ جب حمیدہ نے MS (Ophthalmology) کورس میں داخلہ لیا تو فیکلٹی کے ساتھ ساتھ اس کے ساتھیوں کی طرف سے کافی مزاحمت ہوئی۔ انھوں نے اتر پردیش میں اندھے پن اور گلوکوما کی روک تھام پر وسیع تحقیقی کام کیا۔ انھوں نے اپنی تحقیق کو آنکھ کے پرتوں کی لچکدار خصوصیات اور آنکھ کے اندرونی دباؤ سے آنکھ کی سختی کے تعلق پر مرکوز کیا۔ انھوں نے آنکھوں کے Duane's retraction syndrome کے مختلف قسم پر اہم تحقیقی کام کیا۔ ڈاکٹر حمیدہ  نے اندھے پن کی روک تھام کو فروغ دینے کے لیے دیہی علاقوں میں کئی ورکشاپس اور کیمپس کا انعقاد کیا۔ انھوں نے چھوٹے دیہی کلینکوں میں گلوکوما اور اس کے استعمال کا جراحی علاج کروایا، جہاں بجلی کا سامان دستیاب نہیں تھا۔ انھیں ٹرافی برائے چشم خدمات، 1956 سے نوازا گیا۔ ہیورڈ ریسرچ فیلو برائے گلوکوما ریسرچ، لندن،70-1967اور ممتاز خاتون ایوارڈ، بنارس ہندو یونیورسٹی، 1982سے بھی نوازا گیا۔ ڈاکٹر حمیدہ  نے 1987 میں نابینا پن اور گلوکوما کی روک تھام کے بارے میں ڈبلیو ایچ او کے مشیر کے طور پر کام کیا۔ انھوں نے وسیع تر فیلڈ اسٹڈیز کیں اور انتہائی معروف طبی جرائد میں اپنی مہارت کے شعبے میں متعدد مضامین اور رپورٹس شائع کیں جن میں برٹش جرنل آف اوپتھلمولوجی اور امریکن جرنل آف اوپتھلمولوجی شامل ہیں۔

 ڈاکٹر حمیدہ فطرت سے محبت کرنے والی تھی۔ 1980 کی دہائی میں جیسے جیسے ماحولیاتی شعور بڑھ رہا تھا،مختلف یونیورسٹیوں میں آرنیتھو لوجیکل اور وائلڈ لائف اسٹڈیز کے لیے مختص شعبے یا مراکز بنائے جا رہے تھے۔ علی گڑھ میں بھی اس سمت میں منصوبے چل رہے تھے اور ڈاکٹر حمیدہ نے فراخ دلی سے ان کوششوں میں ہر ممکن مدد فراہم کی۔ ڈاکٹر سلیم علی جن کی شہرت اس وقت اپنے عروج پر تھی (وہ بی این ایچ ایس کے ڈائریکٹر تھے،  کئی تحقیقی منصوبوں کے پرنسپل انویسٹی گیٹر اور کئی ایوارڈز، پال گیٹی ایوارڈ، پدم وبھوشن وغیرہ کے فاتح تھے) حمیدہ کی دعوت پر علی گڑھ کا دورہ کیا تھا۔  اس دورے پر انھوں نے پرندوں پر گفتگو کی اور پرندوں کی نقل مکانی پر اپنی فلم کی نمائش کی۔ ان سرگرمیوں نے علی گڑھ میں جنگلی حیات کے محکمے کی تشکیل میں ایک رفتار پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم، بعد میں جب شعبہ شروع ہوا تو حمیدہ کو سائیڈ لائن کر دیا گیا، جس سے انھیں گہرا نقصان پہنچا۔ (اتفاق سے، نئے شعبہ کی تشکیل سے قبل ہونے والی کچھ پیش رفتوں نے اس زمانے میں تہلکہ مچا دیا تھا اور ان کا بہت چرچا ہوا تھا۔ پروفیسر اطہر ایچ صدیقی، جو حیوانیات کے پروفیسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے، اپنی سوانح عمری میں کچھ واقعات کا ذکر کرتے ہیں، "میں کیا میری حیات کیا")۔

ڈاکٹر حمیدہ نے ہمیشہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی اور جو بھی ان کے ساتھ رابطے میں آیا اس کے لیے وہ مددگار اور مہربان تھیں ۔ مثال کے طور پرڈاکٹر زویا زیدی جنھوں نے ماسکو میں طب کی تعلیم حاصل کی تھی اور اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ علی گڑھ واپس آئی تھیں ،وہ حمیدہ کی دلکش شخصیت سے متاثر تھیں ،وہ کہتی ہے کہ حمیدہ نوجوانوں کے ساتھ بہت اچھی طرح سے ملتی تھیں شاید اس لیے کیونکہ ان کی پاک روح  میں بچوں جیسی معصومیت تھی۔ ڈاکٹر حمیدہ نے شادی نہیں کی، وہ ہمیشہ اپنے پیشہ اور خاندانی حلقوں میں مصروف رہیں۔ ان کا انتقال 1988 میں ہوا۔

پروفیسر قمر رحمان

قمر رحمان ایک ہندوستانی سائنسدان ہیں جنہوں نے نینو پارٹیکلز کے جسمانی اثرات کو سمجھنے کے لیے پچھلے 40 سالوں میں بڑے پیمانے پر کام کیا ہے۔ وہ بین الاقوامی سطح پر ایسبیسٹوسس، سلیٹ ڈسٹ اور دیگر گھریلو اور ماحولیاتی ذرات کی آلودگی کے اثرات اور پیشہ ورانہ صحت کو بہتر بنانے کے ذرائع پر اپنے کام کے لیے جانی جاتی ہے۔ قمر رحمان 1944 میں  قصبہ شاہجہاں پور  میں پیدا ہوئی ۔

 سال 1950 میں ایک پرانے معروف پردہ دار خاندان میں 6 سال کی ایک لڑکی (قمر رحمان) اپنی ماں کو گھر میں ایک لیڈی ڈاکٹر کے زیر علاج دیکھتی ہے۔ وہ طبیب سے بہت متاثر ہے۔ وہ ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کرتی ہے۔ وقت گزرتا گیا اور ایک دن جب وہ عبداللہ اسکول علی گڑھ میں نویں جماعت میں تھی تو وہ اپنی ماں کے پاس گئیں اور بتایا کہ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں۔ ان کی ماں نے اس خیال کو منظور نہیں کیا۔ جیسا کہ ان کی رائے میں لیڈی ڈاکٹرز اپنے مرد مریضوں کے ساتھ کچھ ایسی باتوں پر تبادلہ خیال کرتی ہیں جو بہت مہذب نہیں ہوتیں۔ جب وہ بی ایس سی میں تھی تو ان کی شادی ہو گئی۔ بدقسمتی سےانھیں اپنی شادی شدہ زندگی میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ یہ وہ زندگی نہیں ہے جو وہ چاہتی تھی۔ کسی ایسے شخص کے ساتھ رہنا جو بہت مختلف تھا اور اس کا احترام بھی نہیں کرتا تھا،وہ ایسی چیز تھی جسے وہ قبول نہیں کر تی تھی اور نہ کر سکتی تھیں۔

وہ اپنی بیٹی کے ساتھ اپنے والدین کے گھر چلی آئی جو چند ماہ کی تھی۔ انھوں نے M.Sc. میں آگرہ کے سینٹ جانس کالج میں فزیکل کیمسٹری میں جہاں ان کے والد کمشنر کے عہدے پر تعینات تھے وہاں داخلہ لیا۔ ایک بچے کے ساتھ پڑھنا کافی مشکل تھا لیکن ان کی ماں نے چھوٹے بچے کے ساتھ ان کی بہت مدد کی اور انھوں نے اپنی تعلیم جاری رکھی۔ ایم ایس سی کرنے کے بعد وہ اپنے والدین کے ساتھ دوبارہ شاہجہاں پور آ گئیں۔

ایک دن وہ لکھنؤ میں اپنی بہن سے ملنے گئی اور کرامت حسین مسلم گرلز کالج کی پرنسپل محترمہ وسیم سے ملاقات کی۔ محترمہ وسیم انٹرمیڈیٹ کلاسز کے لیے کیمسٹری کے لیکچرر کی تلاش میں تھیں۔

انھوں نے بحیثیت کیمسٹری کے لیکچرر کالج جوائن کر لیا اور یہ اس کی زندگی کا بہت اچھا تجربہ تھا۔ نوجوان لڑکیوں کو سائنس کی تعلیم دینا، پرکنگ سینئر اور جونیئر جیسے سائنسدانوں کے بارے میں بات کرنا، Kekulé اور Fischer's کے خوابوں پر گفتگو کرنااس کے لیے فخر کی بات تھی۔ لیکن پھر بھی انھوں بہت کچھ کرنا تھا۔ ایک دن وہ لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ بایو کیمسٹری میں گئی اور پروفیسر پی ایس کرشنن سے ملاقات کی جو ایک مشہور بایو کیمسٹ تھےاور اپنے شعبے کے ایک لیجنڈ تھے۔ قمر رحمان نے ان سے درخواست کی کہ وہ اسے پی ایچ ڈی کے لیے اپنی نگرانی میں لیں ۔ پہلے تو وہ نہیں مانےلیکن ان کے عزم کو دیکھ کر انھوں نے  قمر رحمان کو ڈیپارٹمنٹ جوائن کرنے کی اجازت دے دی۔ جلد ہی (1970) انڈسٹریل ٹاکسیکولوجی ریسرچ سینٹر نے (سائنسی اور صنعتی تحقیق کی کونسل کی معروف قومی لیبارٹری میں سے ایک) جونیئر سائنٹیفک ریسرچ اسسٹنٹ (JSA) کی پوسٹ کا اشتہار دیا۔ انھوں نے اس کے لیے درخواست دی اور پوزیشن حاصل کی۔ ڈاکٹر اے ایس پینٹل سلیکشن کمیٹی کے چیئرپرسن تھے۔ انھوں نے کہا کہ"تم  اس میدان میں اپنا نام پیدا کرو گی۔"

اپنے سائنسی سفر میں وہ مختلف تجربات سے گزری۔ انھوں نے محسوس کیا کہ ہر مرحلے پر عورت کو مرد سے زیادہ محنت کرنی چاہیے۔ مرد کے تسلط والے معاشرے میں عورت کے لیے مقام حاصل کرنا اور نام کمانا بہت مشکل ہے۔ لیکن انھوں نے کبھی ہار قبول نہیں کی اور بہت سی رکاوٹوں کے باوجود خود کو آگے بڑھایا۔ا ٹاکسیکولوجی کا انھیں گہرا تجربہ ہے، یہ ایک ایسا شعبہ جس میں وہ وسیع پیمانے پر کام کر رہی ہیں۔ ان کی تحقیق کا بنیادی شعبہ ریشوں، ذرات اور نینو پارٹیکلز وغیرہ پر مبنی ہے۔ اپنے کام کی بنیاد پر انھوں نے بین الاقوامی شہرت کے جرائد میں130 سےزائد مقالے شائع کیے ہیں۔

انھوں نے سیلیکا، ایسبیسٹوس، ایسبیسٹوس کے متبادل، سلیٹ ڈسٹ، قالین کی دھول، کاجل اور دیگر انتہائی باریک ذرات، معروف ماحولیاتی اور پیشہ ورانہ فضائی آلودگی کے ساتھ کام کیا ہے۔ قمر رحمان نے خطرے کی تشخیص کے تجزیہ کے لیے مالیکیولر لیول پر بائیو مارکر کا استعمال کرتے ہوئے  آبادی پر ان آلودگیوں کے اثرات کی نگرانی کے لیے وبائی امراض کے سروے بھی کیے ہیں۔

انھوں نے منظم اور غیر منظم دونوں شعبوں میں ایسبیسٹس پر مبنی صنعتوں میں گہرائی سے مطالعہ کیا ہے اور بیماری کے عمل کو تیز کرنے والے ہندوستانی صنعتوں میں موجود پیش گوئی کرنے والے عوامل پر روشنی ڈالی ہے۔ اس تحقیق میں ثابت ہوا کہ سگریٹ کے دھوئیں اور مٹی کے تیل کا مرکب آبادی میں بیماری کے عمل کو تیز کرتا ہے۔ ہندوستان میں ایسبیسٹس پر مبنی صنعتوں کے مطالعہ نے پیشہ ورانہ طور پر قابل احترام آبادی کو اجاگر کیا۔ یہ نتائج ایسبیسٹس کے بے نقاب کارکنوں کو سگریٹ نوشی سے پرہیز کرنے، غیر پروسیس شدہ کھانا پکانے والے ایندھن کی نمائش سے بچنے کے لیے مشورہ دینے کے لیے بڑی قومی اہمیت کے حامل ہیں۔فضائی آلودگی اور خواتین کے مسائل پر تحقیقی کام کی بنیاد پر، امریکہ، کامن ویلتھ سائنس کونسل، لندن، جرمنی اور حکومت ہند کی جانب سے مالی اعانت سے بین الاقوامی اور قومی اشتراکی منصوبے شروع کیے گئے۔

ان کی سائنسی کامیابیوں کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا جیسا کہ انھیں بیرون ملک تحقیقی دوروں کی ادائیگی، جائزہ مضامین لکھنے، بین الاقوامی میٹنگز منعقد کرنے کے لیے موصول ہونے والے دعوت ناموں سے ظاہر ہوتا ہے۔ انھیں بین الاقوامی سطح پر معروف اداروں جیسے کہ نیشنل سینٹر فار ٹوکسیولوجیکل ریسرچ نومبر 1981، کریٹیل یونیورسٹی، پیرس، فرانس، 1987 یو ایس انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی، اور ڈیوک یونیورسٹی، نارتھ کیرولینا، ای پی اے، 94، کے تعاون پر مبنی پروگراموں کے تحت مہمان سائنسدان کے طور پر مدعو کیا گیا ہے۔ یو ایس نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف انوائرنمنٹل ہیلتھ سائنسز، 1996، جرمن فار schungszentrum Karlsruhe، 1994 اور 1996، Institute for Cell Biology and Biosystem Technology University of Rostock،1998، 1999، 2001، 2002 ، 2004، 2006، 2007، 2008 انہیں قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں مذاکرے اور کلیدی خطابات دینے کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ سائنس میں ملک کی ترقی کے ساتھ ساتھ سماجی کاموں اور نوجوان سائنسدانوں کی ترقی کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

پروفیسر رحمن کو حال ہی میں حکومت ہند کی اقلیتی وزارت نے سنٹرل وقف کونسل برائے تعلیم کا رکن مقرر کیا تھا۔ستمبر 2009 میں انھیں روسٹک یونیورسٹی جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی گئی۔ یونیورسٹی کے 600 سالوں میں وہ پہلی ہندوستانی ہیں جنہوں نے یہ اعزاز حاصل کیا اور انھوں نے اس پلیٹ فارم کو آئن اسٹائن جیسے نوبل انعام یافتہ افراد کے ساتھ شیئر کیا۔

حوالہ جات

  • Chattopadhyay, Anjana (2018). Women
  • Scientists in India: Lives, Struggles & Achievements (PDF). National Book Trust, India.
  • ISBN 978-81-237-8144-0.
  • Urfi, Jamil (1 May 2020). "Remembering Dr. Hamida
  • Saiduzzafar: A birdwatcher par excellence".
  • Karvaan India. Retrieved 18 October 2020.
  • https://en.wikipedia.org/wiki/Hamida_Saiduzzafar
  • https://www.ias.ac.in/Initiatives/Women_in_
  • Science/The_Women_Scientists_of_Inda
  • https://en.wikipedia.org/wiki/Qamar_Rahman
  • http://www.niehs.nih.gov/

 

Dr. Rubeena

H. No 9-4-131/1/N/15,

First Floor, Lane No:4

 Neeraja Colony, Tolichowki

  Hyderabad-500008 (T.S)

27/10/23

منفرد زبان و بیان کا ناول ’’ریت سمادھی‘‘ :زیبافاروقی


 

2022 کے عالمی بُکراعزازسے نوازا گیا گیتانجلی شری کا ناول Tomb of Sandبنیادی طور پر ہندی میں لکھے گئے ان کے ناول کا انگریزی ترجمہ ہے۔ ہندی میں یہ ناول ’’ریت سمادھی‘‘کے نام سے جنوری 2018 میں شائع ہوا تھا۔ جون2022 میں اس کا چھٹاایڈیشن منظرعام پر آیا۔ 2021 میں جن دو ہندوستانی ناولوں کو فرانس کے ایملی گیمٹ ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا ان میں سے ایک ریت سمادھی تھا۔ 2022 میں بُکر پرائز کا حاصل ہونا ناول کی عظمت کا عالمی سطح پر اعتراف ہے۔

ریت سمادھی کی جو خوبی فوری طور پر قاری کو متوجہ کرتی ہے وہ ہے اس کا بیانیہ۔ ناول کا بیانیہ ابتدا سے ہی قاری کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے گویا آپ ایک دلچسپ نظم پڑھ رہے ہیں جو اپنے ساتھ آپ کو بہائے لیے جارہی ہے۔ ایک دلچسپ پُراسرار نظم جس میں کہانی بہ یک وقت خود کو چھپاتی اور ظاہرکرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ ناول کا آغاز یوں ہوتا ہے:

’’ایک کہانی اپنے کو کہے گی، مکمل کہانی ہوگی اور ادھوری بھی، جیسا کہانیوں کا چلن(चलन ، روایت) ہے۔ دلچسپ کہانی ہے۔ اس میں سرحد ہے اور عورتیں جو آتی ہیں، جاتی ہیں، آرم پار (आरमपार )۔ عورت اور سرحد کا ساتھ ہو تو خودبہ خودکہانی بن جاتی ہے بلکہ عورت بھر(भर )،محض) بھی۔ کہانی ہے۔ سگ بگی (सुगबुगि ) سے بھری۔ پھر جو ہوا چلتی ہے اس میں کہانی اڑتی ہے۔ جو گھاس اُگتی ہے، ہوا کی دِشا दिशा )، سمت) میں دیہہ देह )، جسم) کو اکساتی، اس میں بھی اور ڈوبتا سورج بھی کہانی کے ڈھیروں قندیل جلاکر بادلوں پر ٹانگ دیتا ہے۔‘‘ (ص:9)

ناول ایک عمررسیدہ عورت کی کہانی بیان کرتا ہے۔ یہ بزرگ عورت جو1947 کی ہولناکیوں کو عبور کرتی ہوئی ہندوستان کے حصے میں آئی تھی، ماضی کو طاقِ نسیاں کے حوالے کردیتی ہے اور ہندوستان میں ایک بھرپور زندگی گزارتی ہے۔ اب وہ ایک اعلیٰ افسر بیٹے اور شہرت یافتہ بیٹی کی ماں ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ماضی کہیں پیچھے چھوٹتا چلا جاتا ہے۔ ماضی سے اس کا رابطہ صرف روزی کے ذریعہ ہے جو وقتاً فوقتاً اس سے ملاقات کرتی رہتی ہے لیکن ان کے درمیان تعلق کے راز سے کوئی واقف نہیں۔ شاید کسی کے نزدیک اس رشتے کی کوئی اہمیت بھی نہیں۔ ناول کی ابتدا اس بزرگ خاتون جو اب اماں کے نام سے مقبول ہیں‘ کی بیوگی سے ہوتی ہے۔ ایک طویل عمر گزارکر اماں کے شوہر اس دارِ فانی کو الوداع کہہ گئے ہیں اور اماں نے ان کے غم میں بستر پکڑ لیا ہے۔ گوشہ نشینی کے اس عالم میں اماں ارادی یا غیرارادی طور پر اپنی زندگی کا محاسبہ کرتی ہیں۔ اوراقِ پارینہ ان کی نظروں کے سامنے گردش کرنے لگتے ہیں اور بھولا بسرا ماضی دل کے نہاں خانوں میں زندہ ہواٹھتا ہے۔ وہ دور زندگی جو ان کی حیات کا سب سے بڑا راز ہے، جس پر وقت کی گرد جم چکی ہے۔ قتل و غارت گری کا دریا عبور کرنے کے بعد جس دنیا نے انھیں اپنی پناہ میں لیا تھا اس کی اولین شرط تھی گزشتہ زمانے کو فراموش کر یہاں کی مٹی میں جڑیں جمانا۔ اماں نے تاعمر اس شرط کو نبھایا لیکن اب ماضی کی بازگشت کو ردکرنا ممکن نہیں۔ ماضی ہی تو اس کی اصل شناخت ہے۔ اس کی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت۔ تو اس سے فرار آخر کب تک۔ رفتہ رفتہ پرانی یادیں عودکرآنے لگتی ہیں اور بے خیالی میں زبان سے ایسے کلمات اداہوتے ہیں جو اس کے موجودہ کنبے کے لیے ضعیفی میں ذہن کے شل ہونے کی علامت کے ماسوا کچھ بھی نہیں لیکن اماں دل ہی دل میں تہیہ کرچکی ہیں۔ پاکستان کے سفر کے اُن کے عزم کو اہل خانہ روزی کی آخری خواہش کی تکمیل کی آرزو سے تعبیر کرتے ہیں لہٰذا بیٹی ’’بیچاری‘‘ اماں کی خوشی کے لیے پاکستان ساتھ جاتی ہے:

’’بوڑھی ماں کو کچھ چھوٹی موٹی خوشی چلو دے دیں اس آخری مقام پر۔‘‘ (ص:319)

پاکستان میں یکے بعد دیگرے عجیب وغریب انکشافات بیٹی کو بیحد بیچین کردیتے ہیں۔ بالآخر اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ حقیقت محض وہی نہیں جو نگاہوں کے سامنے ہے بلکہ اماں کی ایک دنیا متوازی طور پر بھی چلتی رہی ہے جو اہل خانہ کی نظروں سے مخفی لیکن ہمیشہ دائم و قائم ہے۔

ناول دوکرداروں اماں اورروزی کے اردگرد گردش کرتا ہے۔ اماں کا نام چندر پربھا ہے لیکن اوائل عمر میں وہ چندا کے نام سے مقبول تھی۔ لاہور میں اس نے اپنی سہیلی کوثر کے بھائی انور سے محبت کی شادی کی تھی۔ تب اس کی عمر سولہ سال تھی۔ انھیں دنوں ملک کی تقسیم کا غلغلہ ہوا۔ بلوائیوں نے اسے اغوا کرلیا۔ ایک عرصہ تک شرپسندوں کی گرفت میں رہنے کے بعد چندا اور اس جیسی بہت سی لڑکیوں کو رہائی نصیب ہوئی۔ مظلوم لڑکیوں کے اسی گروہ میں روزی بھی تھی جو اس وقت پانچ چھ برس کی ننھی بچی تھی۔ درندوں کے چنگل سے جس جگہ رہائی ملی وہ صحرائی علاقہ تھا۔ لاتعداد ایام صحرا میں روزی کے ہمراہ بھٹکتی رہی۔ بالآخر ایک دن کمزوری کی تاب نہ لاکر بیہوش ہوگئی۔ ہوش آیا تو ہندوستانی سرحد کے کسی ملٹری ہسپتال میں تھی۔ چندا کے چندرپربھا بننے کی تفصیلات ناول میں ندارد ہیں۔ سولہ برس کی چند اسّی سالہ بیوہ چندرپربھا دیوی کے طور پر ہم سے پہلے پہل روبرو ہوتی ہے۔ ایک عام مشرقی خاتون کی طرح شوہر کے انتقال کے بعد ان کی زندگی پر جمود طاری ہوگیا ہے۔ گھراور بچوں سے بے نیاز ہوکر وہ گوشہ نشین ہوگئی ہیں۔ اس دوران گزشتہ زمانے کی تصاویر جن پر وقت کی گرد جم چکی ہے، خالی ذہن ان کی ورق گردانی کرنے لگتا ہے۔ لاشعور میں دفن ہوچکے واقعات تحت الشعور کی حدوں کو پار کرکے شعور پر دستک دینے لگتے ہیں۔ انھیں دنوں صحت یابی کی غرض سے بیٹی اماں کو اپنے گھر لے آتی ہے۔ ماں کے بدلتے رویے اور گفتگو کا انداز بیٹی کو اکثر وبیشتر استعجاب میں مبتلا کردیتا ہے۔ بیٹی ماں کو خوش دیکھ کر مطمئن تو ہے لیکن کہیں کچھ تو ہے جو بعیدالقیاس ہے:

’’دل ڈوبا ڈوبا بیٹی کا۔ یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزولے کر چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں۔‘‘ (ص:146)

’’پر بیٹی کی مسکان وسکان ہلکان (हलकान) ہوچکی تھی اور سب غائب تھا، کیول केवल)، صرف) تراس (غم،त्रास(رہ گیا تھا جو خود پر تھا۔‘‘ (ص:229(

اماں کی بے نیازی میں بتدریج اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ تمام رشتوں ناطوں سے لاتعلق ہوکر اماں روزی، پیڑ پودوں اورپرندوں میں محو ہیں۔ بیٹی کے دورِ بلوغت میں اماں نے اسے ایک آزادانہ زندگی بسر کرنے اور معاشرے میں عزت دار مقام حاصل کرنے کی جدوجہد میں بھرپور تعاون کیا تھا۔ لیکن حقوقِ نسواں کی علمبردار عالی مرتبہ بیٹی اپنی ماں کی ضعیف جوانی کو قبول کرنے پر راضی نہیں۔ ماں نے بھی کبھی بیٹی کو اپنے ماضی کی رازدار نہیں بنایا۔لہٰذا اب جبکہ اماں اپنے باطن میں ماضی کی بازیافت کررہی ہیں اور پاکستان جانے کو بضدہیں تو سبھی ششدر رہ جاتے ہیں:

’’جیسے ایک ایک کرکے سارے اوڑھنے اتاردیے ہوں، بیوی، اماں، چاچی، بوا बुआ)، پھوپھی) عین شین کے اور آخرکار بس وہ ہی ہے، اگھڑی (उद्यङी)، اجنبی، اپنی، کسی اور کے خیال یا فکر سے اچھوتی۔

اسّی سال پے ماں سوار تھی स्वार्थी)، مطلبی) ہوگئی۔‘‘ (ص:263)

پاکستان پہنچ کر بیٹی کے سامنے ماں کے راز رفتہ رفتہ بے نقاب ہوتے ہیں۔ اتنے بڑے ذہنی خلفشار سے نبردآزماہونا کارسہل نہیں۔ زندگی کی یکسرنئی اور غیرمتوقع نہج بیٹی کو حواس باختہ کردیتی ہے جبکہ اماں پرسکون ہیں کیوںکہ ان کے لیے یہ گھر واپسی کا عمل ہے۔ بالآخر اماں اپنی محبت اور شوہر انور سے ملاقات میں کامیاب ہوتی ہیں۔ زندگی کے آخری ایام میں ایک سیاہ رات ان کی اس ملاقات کی گواہ ہے۔ وقت کا دریا ایک دفعہ پھر انھیں اسی موڑ پر لے آیا ہے جہاں سے اس نے اپنی سمت بدلی تھی۔ ایک دفعہ پھر انور کا ہاتھ ان کے ہاتھوں میں ہے۔ بھلے ہی حالات، زمانہ، وقت سبھی کچھ تبدیل ہوچکا ہے لیکن بالآخر محبت نے بازی جیت لی ہے۔ منزل دیر سے ہی سہی لیکن حاصل ہوگئی ہے۔ اماں کا کردار اپنے اندر مختلف شیڈس سمیٹے ہوئے ہے۔ خانہ داری کی ذمہ داریوں سے نبردآزما ہوتے ہوئے بھی پہلی محبت کی مدھم لو بجھنے نہیں پاتی۔ زمانے کی تمام پابندیوں کے درمیان رہ کر بھی اماں بیٹی کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کی نہ صرف حمایت کرتی رہی ہیں بلکہ حتی الامکان مدد بھی کرتی ہیں۔ ایک روایتی ہندو گھرانے میں یہ تقریباً ناممکن ہے۔ بڑے بھائی کی سخت مخالفت اور ناراضگی کے باوجود بیٹی اگر معاشرے میں بلند مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکی ہے تو اس کے پسِ پشت ماں کی محنت، بلاشرط محبت اور بیٹی کی خواہشات کے احترام کا جذبہ کارفرما ہے لیکن جب بیٹی کے روبرو ماں کے تئیں انھیں جذبات کا امتحان درپیش ہے تو وہ سخت ہیجان میں مبتلاہوجاتی ہے۔

ناول کا دوسرا اہم کردار روزی ہے۔ وہ بچی جو ہنگامہ ہائے محشر کے دوران چندا کے ہمراہ تھی، تاعمر اس کا ساتھ دیتی ہے۔ روزی Transgenderمخنث ہے۔ ہندوستان کی سرحد میں پناہ لینے کے بعد کبھی یتیم خانے، کبھی سکھ لنگر اور کبھی گرجاگھر کے سہارے اس کی زندگی آگے بڑھتی ہے۔ اپنی حقیقت کا تلخ احساس اسے دوہری زندگی جینے پر مجبو رکرتا ہے۔ ایک جانب وہ ٹیلر ماسٹر رضا ہے جو نہایت شائستگی سے گفتگو کرتا ہے اور اپنے پیشے میں ماہر ہے۔ دوسری جانب وہ روزی ہے جو اپنے مخصوص کنبے کی شناخت ہے اوربیحد فعال ہے۔ اماں کے بیٹی کے گھرمنتقل ہونے کے بعد روزی اور اماں کے تعلقات میں مزید قربت پیدا ہوجاتی ہے۔ ان کے رشتے کی حقیقت سے بے خبر بیٹی اس قربت کو پسند نہیں کرتی لیکن ماں کی خوشی کی خاطر سب گوارا کرتی ہے۔ روزی اماں کے لیے اپنے ماضی سے تعلق قائم رکھنے کا واحد ذریعہ ہے۔ روزی کی موجودگی چندا کے وجود کی ضامن ہے۔ روزی کے ذریعہ وہ اپنے ماضی کی بازگشت کرتی آئی ہیں۔ روزی کی موت کے بعد لاہور کے سفر کے علاوہ ماضی سے ملاقات اور خود سے روبرو ہونے کا کوئی راستہ ممکن نہ رہا۔

ریت سمادھی یعنی ریت کا دفینہ۔ دفینے میں عموماً نادر ونایاب اشیاء دریافت ہوتی ہیں۔ صحرا میں ریت کی آندھیاں چلتی ہیں جو قرب وجوار کی ہر شے کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہیں اور ان پر ریت کا ذخیرہ اس طرح جمع ہوجاتا ہے کہ اس شے کا نام ونشان باقی نہیں رہتا۔ پھر رفتہ رفتہ وقت کے ساتھ وہ ریت زائل ہونے لگتی ہے اورایک دن ریت میں دفن اشیاء اپنی اصل شناخت کے ساتھ سامنے آجاتی ہیں۔ ریت سمادھی نام علامت ہے اماں کے ماضی کی جو وقت کی تہوں میں دفن ہوگیا ہے۔ شوہر کے انتقال کے بعد جب ان کی زندگی میں جمود آتا ہے تو ماضی کا احاطہ کرنے والی ریت آہستہ آہستہ ہٹنا شروع ہوتی ہے۔ پاکستان کا سفر ان کے ماضی کو نئی آب وتاب کے ساتھ روشن کردیتا ہے۔ یعنی ریت میں سمادھی (دفینہ) کوئی مستقل خاتمہ نہیں ہے بلکہ ایک نئی آگہی کی جانب مراجعت کا ذریعہ ہے۔ یہ آگہی بہت سے نئے پرانے رنج وانبساط کے لمحات ہمراہ لائی ہے اوربعض کے لیے زندگی میں نئے معنی اورنئے امکانات روشن ہوتے ہیں۔ قائم شدہ رشتے اور سرحدیں بے معنی ہوجاتے ہیں اور بہت سے غیرضروری اور غیرواضح تعلقات میں رشتوں کے نئے باب وا ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ ماں کی تسکین کی خاطر لاہور کا سفر اختیار کرنے والی بیٹی اس امر سے ناواقف ہے کہ وہاں ایک نئی، نامانوس او رقطعی مختلف دنیا اس کا انتظار کررہی ہے جس سے مراجعت کبھی ممکن نہیں ہوگی۔

ریت سمادھی میں کہانی آہستہ آہستہ اپنے ابعاد کو روشن کرتی ہے۔ انجام تک پہنچتے پہنچتے ناول میں ایسے حیرت انگیز پہلو ظاہر ہوتے ہیں کہ قاری استعجاب میں غرق ہوجاتا ہے۔ ناول میں کئی دفعہ اساطیری حوالے بھی آئے ہیں۔ متعد دمصنفین اور ان کی تصانیف کا بھی گاہے بہ گاہے ذکر ہے جو برصغیر ہند کی تقسیم کے گواہ بنے۔ اس خوں چکاں دور کو بذاتِ خود دیکھا، محسوس کیا اور اپنی کاوشوں میں مختلف زاویوں سے پیش کیا۔البتہ ان حوالوں کی معنویت وہی سمجھ سکتا ہے جس نے ان تخلیقات کا مطالعہ کیا ہو۔ چند مثالیں دیکھیے:

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

(ص:146 بحوالہ صبح آزادی، از فیض احمدفیض)

بدھائی۔ ڈاکٹرنی نے کہا۔ نہیں، لڑکا، لڑکی، سائیکل نہیں کہا۔ (ص:223، بحوالہ ٹوپی شکلا از راہی معصوم رضا)

بشن سنگھ بھی ایک ہاتھ کان پر لگائے، دوسرا آنکھ پر، آواز کو غور سے سننے کی مدرا میں آجاتا ہے۔

(ص:269 بحوالہ ٹوبہ ٹیک سنگھ، از سعادت حسن منٹو)

جو نہ دیکھنا تھا وہ بھی دیکھ لیا۔ آگے دیکھنے کی تاب نہیں ہے۔ (ص:271 بحوالہ بستی، از انتظار حسین)

بلاشبہ ادب کاایک سنجیدہ قاری ہی ان جملوں سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ناول میں ہندوپاک کے گزشتہ بیس، پچیس برس کے واقعات کا بھی جا بجا ذکر آیا ہے، جس سے ناول کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ناول کا سب سے قوی پہلو اس کا بیانیہ ہے جو قاری کے سامنے معنویت کے بہت سے جہات روشن کرتا ہے۔ تہہ دار جملے سنجیدہ قاری کو بے ساختہ اپنی جانب متوجہ کرلیتے ہیں۔ ناول کے کرداروں میں کوّا بھی شامل ہے، سڑک بھی، گھر کا دروازہ اور ایک بے نام دوست بھی۔ الگ الگ مواقع پر یہ سبھی راوی کا کردار اداکرتے ہیں اور اپنے مخصوص مشاہدے کے ذریعہ واقعات کے ایک مختلف رخ کو قاری کے روبرو پیش کرتے ہیں۔ حقیر پرندہ کوّا اماں کے کنبے کے دکھ سکھ میں برابر کا شریک ہے لیکن انسان ان کی زبان سمجھنے اور اس کی ہمدردیاں وصول کرنے سے قاصر ہے۔ تاہم اس کی مستقل موجودگی انسانوں کو اس کے خلوص کا احساس تو کرواہی دیتی ہے۔ سڑک تقسیم ملک کے دور کے خونیں واقعات کی گواہ ہے۔ جب راحت صاحب ایک طویل عرصہ کے بعد بھی اس مقام پر آتے ہیں جہاں وہ عہدطفلی میں ان واقعات کا حصہ رہے تھے تو سڑک انیں پہچان لیتی ہے اور شفقت سے انھیں اپنی آغوش میں سمیٹنا چاہتی ہے، گویا وہ ابھی بھی وہی معصوم بچے ہوں جو اس سڑک پر آنے والے قتل وخون کے سیلاب میں زندہ بچ گیا تھا۔ اسی طرح اماں کے بڑے بیٹے ’بڑے‘ کے گھر کا دروازہ ارد گرد کی تمام حرکات وسکنات پر نظر رکھتا ہے۔ یہ دروازہ بدلتے ہوئے زمانے اور رسوم ورواج کا گواہ ہے۔ تبدیلیِ حال اکثر اسے حیرت واستعجاب میں غرق کردیتی ہے۔ سدھارتھ کا بے نام دوست ناول میں کوئی کردار نہیں نبھاتا تاہم وقتاً فوقتاً اہم مواقع پر موجود ہوتا ہے اورواقعہ کی تمام جزئیات کی کامیاب تصویرکشی کرتا رہتا ہے۔ یہ بے نام بے چہرہ شخص ہی اماں کی آنکھوں میں قوس قزح کے رنگوں کو اترتے ہوئے دیکھتا ہے جو دراصل اماں کے نئے ذہنی رویوں کے غماز ہیں۔ کوّے اور سڑک کا بیان جہاں ہمدردی اور یگانگت کے جذبات سے پُر ہے وہیں سدھارتھ کا دوست بے فکروخوش مزاج نوجوان ہے جو مذاق مذاق میں ہی بڑے انکشافات کرجاتا ہے اور مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے لیے قاری کو ذہنی طور پر تیا رکرتا ہے۔

 ناول نگار نے ایک معصوم او رمختصر داستانِ عشق کی بنیاد پر ایک خوبصورت کہانی تخلیق کی ہے جس میں زندگی کے سبھی رنگوں کا امتزاج ہے۔ معصوم محبت کی یہ داستان اس انداز میںمکمل ہوتی ہے کہ قاری کو تشنگی کا احساس نہیں ہوتا تاہم ایک موہوم سی حسرت دل میں خلش پید اکرتی ہے۔ یہی ناول کی کامیابی ہے کہ ہم خود کو اس کی مرکزی کردار اماں یا چندا سے جوڑلیتے ہیں او رناول کے غیرمتوقع انجام پر مطمئن بھی ہوتے ہیں اور افسردہ بھی۔ ناول کی تکنیک بے مثال ہے جو گیتانجلی شری سے ہی عبارت ہے۔ بیانیہ میں الفاظ کی بازی گری متاثر کرتی ہے۔ زبان ایسی گویانثر لکھتے لکھتے مصنفہ کے جذبات ومحسوسات کو الفاظ کا جامہ پہنانے کی خاطر پُراسرار سی نظم شروع ہوجائے۔ یہی شاعرانہ نثر ناول کے بیشتر حصوں کا احاطہ کرتی ہے اور ایک حساس قاری کے لیے ذہنی تلذذ کا سامان مہیا کرتی ہے۔

نوٹ: مضمون میں شامل اقتباسات ریت سمادھی کے ہندی متن مطبوعہ راج کمل پیپر بیکس (Rajkamal Paperbacks)،2022 سے اخذ کیے گئے ہیں۔

 

Dr. Zeba Farooqui

Asstt. Professor

Mahatma Gandhi Girls, P.G. College

Firozabad-283203 (UP)

Mobile Number: 7417660002

دبستان لکھنؤ کی چند ممتاز مرثیہ نگار خواتین:رانی حفیظ

یوں تو زندگی کے ہر شعبے میں خواتین نے اپنی بھر پور نمائندگی درج کی ہے لیکن ادب سے ان کی دلچسپی شروعات سے ہی بہت زیادہ رہی ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ ادب زندگی کا آئینہ ہوتا ہے ۔اردو ادب کا جو ابتدائی سرمایہ ہے اس میں خواتین بطور مصنفہ اور شاعرہ نظر نہیں آئیں ہیں لیکن بطور سر پرست ان کی خدمات قابلِ ذکر رہی ہیں۔ اردو میں ترقی پسند تحریک نے خواتین کو ایک نیا پلیٹ فارم عطا کیا ہے۔ 1936میں لکھنؤ میں ترقی پسند تحریک کے پہلے جلسے میں بطور صدر منشی پریم چند نے جو خطبہ دیا اس نے اردو ادب کے ’’حسن کے معیار بدلنے ‘‘کا جو تاریخی جملہ کہا اس نے خواتین کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ خواتین نے دیگر شعبہ جات کی طرح اردو ادب میں بھی اپنی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کیا ہے خواتین معاشرے کا ایک لازمی اور اہم حصہّ ہیں اردو شاعری ہویا دنیا کی دوسری زبانوں کی شاعری اس میں خواتین کا حصّہ بہت کم ہے لیکن ہندوستان میں بالغ نظر شاعرات کی کمی نہیں ہے اردو شاعری میں اودھ کی شاعرات کا بڑا نام ہے اور ان شاعرات کے نام اودھ کی تاریخ میں ملتے ہیں ۔ اردو ادب کی ابتداء میں خواتین شاعرات کا بڑا ذخیرہ ہے اس کی تخلیق میں خواتین نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں اس پر اکثر گفتگو ہوئی ہے اور مضامین اور مقالے بھی لکھے گئے ہیں کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں اردو ادب کی تاریخ میں ہر دور میں خواتین کی حصے داری رہی ہے۔

ہر سال 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین بین الاقوامی سطح پر منایا جاتا ہے اس کا مقصد دنیا کو خواتین کی اہمیت سے آگاہ کرانا ہے 1911 میں پہلا عالمی یومِ خواتین منایا گیا ۔ بیسویں صدی کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اردو مرثیہ نگاری میں خواتین نے بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا ہے ،باقاعدہ طور پر بیسویں صدی کے آغاز سے ہی خواتین میں یہ جذبہ دیکھنے کو ملا یہ دور خواتین کا پہلا دور تھا اس دور کی شروعات میں مرثیہ نگاری پر بہت کام ہوئے ہیں جن میں سے چند لکھنؤکی مشہور خواتین مرثیہ نگاروں کے بارے میں مختصر گفتگو آپ کے سامنے پیش کی جا رہی ہے۔

1۔ملکہ زمانی

 ان کاپورا نام ملکہ آفاق زمانی بیگم تھا ملکہ زمانی بیگم ریاست اودھ کی ملکہ ،اور نواب اودھ نصیر الدین حیدر شاہ کی زوجہ تھیں ۔ان کی پیدائش انیسویں صدی کی نویں دہا ئی میں ہوئی ان کے والد کا نام صابر علی خان صابر تھا یہ ایک صاحب دیوان شاعراور ریا ست ٹونک سے تعلق رکھتے تھے رام پورکے نواب لوگوں سے قریبی تعلق تھا ۔ملکہ آفاق نے ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی۔ذاتی شوق سے اردو فارسی پر کامل دسترس حاصل کی ان کی بہن بھی شاعرہ تھیں ملکہ زمانی سید ظفر حسین منتظر امروہوی کی شاگرد ہ بنیں۔ان کا شعری مجموعہ ’’باغ دلکشا‘‘ 1940میں شائع ہوا جب ان کا مجموعہ شائع ہوا تو سنبھل میں تھیں اور کافی لمبی عمر پائی ان کا انتقال 1983میں ہوا۔ان کی کتاب باغ د لکشا سے چند شعر ملاحظہ فرمائیں:

کیوں نہ ہو مطلع سے ساطع نور مہر و ماہ کا

صفحۂ قرطاس پر طغرا ہے بسم اللہ کا

طالبِ منصب نہ ہے وارفتہ عزًو جاہ کا

بے نیاز خلق ہے جو تیری در گاہ کا

راہِ وحدت عشق میںبھی ہاتھ سے جاتی نہیں

خط کی پیشانی پہ لکھے ہیں الف اللہ کا

2۔سلطان عالیہ

ان کا نام سلطان عالیہ عثمانی تھا یہ ایک عثمانی شہزادی تھی ان کی پیدائش 24 اگست 1880 کو چراغاں محل میں ہوئی ان کے والد سلطان مراد خامس پنجم جو عبد المجید اول اور شیو کفذا قادین کے بیٹے تھے ان کی ماں کا نام ریسان ہانم تھا۔ سلطان عالیہ سلام اور مرثیہ کہتی تھیں اور اپنی مادر گرامی کی طرح مرزا دبیر کی شاگرد تھیں ان کے پانچ سلام مخطوطات زاہد سہارنپوری سے دستیاب ہوئے ہیں ان کے ایک سلام ’’زہے جمال حسین و خوشالقائے حسین‘‘ کے تین اشعار پر مرزا دبیر کی نظمیں سامنے آئی ہیں شاگردکے کلام پر استاد کی نظمیں ایک نرالی بات ہے ان کا انتقال19 دسمبر 1903 کو 23 سال کی عمر میں ہوا ان کو کپوڈن پاشا محمد علی پاشا کے مقبرے میں دفن کیا گیا جو ایوب قبرستان استنبول میں واقع ہے۔

نمونہ کلام:

حیاتِ حضرت شبّیر ہے لقائے حسین     

کوئی بزرگ نہ سر پر تھا اب سوائے حسین

حسین روئے تھے خود کہہ کے ہائے ہائے حسین 

فغان و آہ کر اے مجرئی برائے حسین

 نہیں حسین کے ماتم سے کم عزائے حسین

3۔تاجدار لکھنوی

تاجدار لکھنوی لکھنؤکی مشہور مرثیہ گو شاعرہ تھیں ان کو تاجدار بہو بھی کہا جاتا تھا ان کا ایک مرثیہ ’’کتب خانے‘‘محمود آبادمیں محفوظ ہے اور ان کا پورا مرثیہ کہیں نقل نہیں ہوا ہے صرف ایک بندنقل کیا گیا ہے تاجدار بہو نے اس بند میں حضرت امام حسین اور حضرت عباس کے ساتھ ہونے کو حضرت حمزہ اور حضرت علی کے ساتھ ہو نے سے تعبیر کیا ہے۔

نمونہ کلام:

یہ جنگ بھی جہاں کے لیے یاد گار ہے

یہ معرکہ بھی قدرت پروردگار ہے

حمزہ کی اور علی کی بہم کا راز ہے

فوج عدد میں رعب سے اب انتشار ہے

4۔حزیں نیوتنوی

 ان کی پیدائش 1909 میں بمقام کانپور میں ہوئی ان کو ثم لکھنوی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ان کے والد کا نام حکیم سید اصغر حسین تھا ان کی شادی ایک ممتاز ادیب محقق سید مسعود حسین رضوی ادیب سے ہوئی۔ شوہر کی زندگی میں شریک ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی تحقیق میں بھی شریک رہیں خود ایک اچھی شاعرہ اور محقق تھیں اور انھوں نے ’’اردو امثال ‘‘پر بھی تحقیقی کام کیا۔

نمونہ کے طور پر چار مصرعے میسر آئے ہیں:

جانبِ میدان ہمکتے تھے جو اصغر بار بار

ماں لگاتی تھی سینے سے تڑپ کر بار بار

اک غم شہ کے سوادنیا میں کوئی غم نہ ہو

یہ خزیں تجھ سے دعا کرتی ہے داور بار بار

5۔گوہر آرا بیگم لکھنوی:

 ان کا پورا نام گوہر آرا بیگم تھااور تخلص گوہر تھاان کی پیدائش 17 جون1631 کوبرہانپور میں ہوئی ۔یہ ایک مغل شہزادی تھیں ۔ان کے والد مغل سلطنت کے مشہور بادشاہ شاہ جہاں تھے۔ ان کی والدہ کا نام ممتاز محل تھا ۔ممتاز محقق ڈاکٹر اکبر حیدری کی رائے میں میر خلیق،میاں دلگیر اورمیر ضمیروغیرہ کی ہم عصر شاعرہ تھیں ۔ڈاکٹر اکبر حیدری کشمیری نے ان کا ایک مرثیہ دریافت کیا ہے جو بہت ہی شیریں سادہ اور شگفتہ زبان میں ہے۔ یہ مرثیہ مہاراج کمار مرحوم والی محمود آباد کے کتب خانہ محمودآباد ہائوس لکھنؤ میں محفوظ ہے ان کا انتقال 1706 میں ہوا۔

مذکورہ بالا مرثیہ گو شاعرات کے علاوہ بھی لکھنؤ کی سرزمین پر     بے شمار خواتین ہوئیں ہیں جنھوں نے اس فن کو وسعت و ترقی بخشنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے لیکن طوالت کے خوف سے انھیں قلم انداز کیا جاتا ہے۔

نمونہ کلام:

برباد الہٰی نہ کوئی پردہ نشیں ہو

بے مقصد و چادر نہ کوئی زار و حزیں ہو

پردیس میں ویراں نہ کوئی صاحب دیں ہو

تر خونِ برادر سے کسی کی نہ جبیں ہو

زینب سی جو آوارہ وطن ہو وہی جانے

بازو میں بندھی جس کے رسن ہو وہی جانے

6۔ دیو روپ کماری 

بیسویں صدی کے نصف اوّل میں جدید مرثیہ کے حوالے سے خواتین مر ثیہ نگاروں میں ایک نام دیو روپ کماری کا آتا ہے ددیوروپ کماری پہلی اور واحد غیر مسلم خاتون مرثیہ گو شاعرہ کی حیثیت سے اردو ادب میں اپنا منفرد مقام رکھتی ہیں ان کی پیدائش آگرہ میں ہوئی ان کا تعلق کشمیر ی پنڈت گھرانے سے تھا۔ گھر اور سماج کا ماحول بھگتی شاعری سے لبریز تھا اردو فارسی اور انگریزی زبان پر مہارت حاصل تھی۔ فارسی زبان سے انھوں نے منشی کامل کا امتحان بھی پاس کیا اور انگریزی زبان پر کامل دسترس حاصل کی۔ان کا پہلا مرثیہ’’بادہ عرفان ‘‘ 1932 میں تصنیف ہوا اور یہ مرثیہ اتنا مقبول ہوا کہ کچھ سالوں میں پانچ مرتبہ شائع ہوا ۔ان کے استاد حضرت فضل رسول تھے اور دیوی روپ کماری کے کلام پر چھاپ کی وجہ یہ ہے کہ ان کے استاد انیس کی فرد میرانس کے شاگرد تھے۔

نمونہ کلام :

صنعت صانع قدرت کا بیان مشکل ہے

راز قدرت کرے انسان عیاں مشکل ہے

کس طرح پہنچے وہاں وہم و گمان مشکل ہے

جب تلک ہو پیمبرکی زبان مشکل ہے

مجھ سے اس وقت بیاں ہو سکے اس کی توحید

با خدا یا کہ ہو، ہم نام خدا کی تائید

7۔ امت الحمدی شہرت

ان کا نام امتہ الحمدی ،تخلص شہرت تھا۔ ان کا وطن حیدر آباد (دکن)مرزاشہر کی پوتی تھیں ۔مرزا علی بادر کی صاحبزادی اور رفیہ بیگم ریاضت کی چچا زاد بہن ہیں ۔انھوں نے تہذیب اور حیا کی  چار دیواری میں رہ کر مرثیہ کہنا شروع کیا خواتین کی مجالس میں بھی مرثیہ پڑھتی رہیں۔ وفات کے کئی برس بعد پہلی بار ان کا مرثیہ شائع ہوا اس کے بعد سے ہی لوگ ان کے نام کو جاننے لگے تھے کچھ عرصے بعد ان کے تین اور مرثیے دستیاب ہوئے ان کے آٹھ مرثیوں کا مجموعہ 1990 میں باب العلم سوسائٹی حیدرآباد کے زیر اہتمام شائع ہوا ۔ ان کے مرثیوں کو لوگوں نے خوب پسند کیا۔ ان کے مراثی میں مدح اور مصائب پر زور دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود مرثیہ کی روایت اور لفظیات کا انھیں پورا ادراک تھا اس کے تحت ان کے مرثیے کہیں دعا،کہیں مدح،کہیں گریہ تھے۔نمونہ کلام:۔

شیعوں کی جان تجھ پہ ہو قربان یا علی    

اسلام جسم اور تو ہے جان یا علی 

تیری ولا کا نام ہے ایمان یا علی

واللہ تو ہے مفتی قرآن یا علی

توعالمِ علوم خدائے علیم ہے

تو جانشیں خاص رسولِ کریم ہے

ان کے مرثیوں کو سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سامنے بیٹھ کر مرثیہ سن رہے ہو ۔اس کی وجہ ان کی پردہ داری تہذیبی ماحول تھاشہرت کے مراثی کے دو مجموعے شائع ہوئے ہیں:

1۔پنج مراثی (پانچ مرثیوں کا مجموعہ)

2۔ہشت مراثی(آٹھ مرثیوں کا مجموعہ)

8۔گل فروا امروہوی

ان کی پیدائش 1971میں لاہور میں ہوئی ان کا وطن مالوف امروہہ ہے لیکن ہندوستان تقسیم ہونے کے بعد ان کے والد ہجرت کر کے پاکستان آگئے انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم پاکستان میں ہی حاصل کی۔کراچی یونیورسٹی سے1992 میں انھوں نے اسلامک اسٹڈیز میں ایم۔اے کیا انھوں نے 19 برس کی عمر میں 1990 میں پہلا مرثیہ کہا انھیں شعر کہنے کا شوق تھا بچپن سے ہی انھوں نے شعر کہنا شروع کر دیا تھا 16 برس کی عمر میں ان کی نظمیں سامنے آنی شروع ہو گئیں۔اتنی کم عمر میں انھوں نے مرثیہ کہے جو لوگوں کو بہت پسند آئے۔ مرثیہ گوئی کے لیے شعر گوئی پر اور تاریخ پر کامل دسترس ضروری ہے تب جا کر کہیں مرثیہ کہا جا سکتا ہے انھوں نے جو پہلا مرثیہ کہا اسے مرثیہ تسلیم کیا گیا ہے ان کے مرثیے کے کچھ بند درج ذیل ہیں :

گل فروا کے پہلے مرثیہ کا عنوان ’’تصویر وفا‘‘ ہے۔

گلزار مصطفی میں ہے ہر سو نئی مہک

 ہر برگ گل پکارتی ہے یہ لہک لہک

آمد چمن میں آج نئی اک کلی کی ہے

 شامل فضا میں سارے پرندوں کی ہے چہک

گھر میں علی کے خلد بریں کی جو ہے بہار

 اک عید ہے ولادت عباس نا مدار

9۔سلطانہ ذاکر ادا

ان کی پیدائش 1 ستمبر 1929میں رامپور (یوپی)میں ہوئی، ان کا نام مصطفی سلطانہ اور تخلص ادا تھا اور قلمی نام سلطانہ ذاکر ادا۔والد کا نام خورشید علی مرزا قمی کاظمی تھا سلطانہ کی شادی 16 مئی 1944 میں امروہہ کے نقوی خاندان میں کر دی گئی تھی ۔شوہر کانام سید ذاکر حسین نقوی تھا وہ نواب رام پور کی فوج میں افسر تھے انہوں نے شاعری کی ابتدا 17 برس کی عمر میں کی انھوں نے اپنی کتاب ’’سفر کب تک ‘‘  میں خود اس بارے میں بتایا ہے۔ ان کے مرثیہ کی ابتدا1994میں ’’السوبرانتے ‘‘ کیلیفورنیا (امریکہ) میں ہوئی 1936سے 1994تک سلطانہ نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ان کا کلام ’’نمودِ سحر ‘‘ میں شائع ہوا ہے جسے ’’جاوداں ‘‘ کراچی نے 1999 میں شائع کیا تھا ان کا پہلا مجموعہ کلام ــــ’’معراج وفا‘‘ ہے جو 1996میں شائع ہوا اس کتاب میں سب سے پہلی مناجات کا سنہ تخلیق 1969پہلی نعت 1973 اور پہلا مرثیہ 1994 درج ہے- سلطانہ ذاکر ادا کی تصانیف کی ترتیب وتعداد حسب ذیل ہے۔

1)  ’’معراج وفا‘‘ حمد نعت،منقبت،سلام۔مرثیہ مطبوعہ1996

2)  ’’نمودِ سحر‘‘غزلیات،منظومات1999

3)  ’’سفر کب تک‘‘نثر کی کتاب

سلطانہ ذاکر اداکی مرثیہ گوئی نہ میر انیس کی مرثیہ گوئی ہے نہ ہی جمیل مظہری ،نہ آلِ رضا کی شاعری ہے لیکن ان کی مرثیہ گوئی فنی نشیب و فراز سے در گزر سلطانہ ذاکر ادا کی مرثیہ گوئی ہے اور ان کے مرثیہ میں محبت عقیدت نمایاں ہے ۔ان کے پہلے مرثیے کاآغاز کربلامیں امام حسین علیہ السلام کے درود مسعود سے ہوتا ہے۔

 وارد جو کربلا میں شہ کربلا ہوئے     

اور جمع گردِ شاہ سبھی باوفا ہوئے

نزدِفرات خیمے حرم کے بپا ہوئے

اہلِ ستم بھی جمع برائے جفا ہوئے

 اکبر ہیں جو پھوپھی کی عماری کو لائے ہیں

عباس بھی جلوسواری کے آئے ہیں


10:۔بانو نقوی

ان کی پیدائش 1933 بمقام جگراؤں ضلع لدھیانہ میںہوئی ان کا نام شہر بانو،قلمی نام سادات نقوی۔ ولد گرامی سید محمد عسکری نقوی تھا ۔انھوں نے ابتدائی تعلیم گھر میںہی حاصل کی کیوں کہ ان کے والد گرامی سید محمد عسکری نے گھرمیں علمی ماحول رکھا اور ساری زندگی علوم محمد کی ترویج میں مصروف رہے ۔ان کی والدہ جناب شریف العماء کی پوتی ہیں انھیں میر انیس کے بہت سے مرثیے یاد ہیں شہر بانو نقوی نے دس برس کی عمر میں 1945 میں ایک نوحہ کہا ۔ لوگوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور شہر بانوکے لیے شعر و ادب کے دروازے کھل گئے ۔شہر بانو درس گاہِ کربلا کی طالبہ علم شہر بانو کے ذہن میں ظلم اور مظلومیت کے خطوط واضع ہو گئے ۔کر بلا نے شہر بانو کو نفرتوں کی آندھیوں میں محبت کے چراغ جلانے کا سلیقہ دیا ۔انھوں نے جب اپنا پہلا مرثیہ کہاتب یہ سلیقہ ابھر کر سامنے آیا ۔شہر بانو کا یہ مرثیہ62بندوں پر مشتمل ہے۔ اس مرثیے کا عنوان ’’ماہ بنی ہاشم‘‘ تھا اور اس کی ابتدا’’محبت‘‘ کے بیان سے شروع ہوئی:

خالق نے عجب چیز بنائی ہے محبت  

انسان کو فطرت نے سکھائی ہے محبت

یوں روح میں ہر شے کی سمائی ہے محبت

ہر عضو و بدن اـترآتی ہے محبت

تصدیق بھی ہو جاتی ہے لولاک لماسے

ہے رابطہ بندے کا اسی طور خدا سے

مذکورہ بالامرثیہ گو شاعرات کے علاوہ بھی لکھنؤکی سرزمین پر بے شمار خواتین رہی ہیں جنھوں نے اس فن کو وسعت و ترقی بخشنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے لیکن طوالت کے خوف سے انھیں قلم انداز کیا جاتا ہے۔

 

Rani Hafeez

Research Scholar

Arabic & Persian Department

University Of Allahabad

Prayagraj-211002  (U.P)

Mobile No.: 9628947998