27/10/23

منفرد زبان و بیان کا ناول ’’ریت سمادھی‘‘ :زیبافاروقی


 

2022 کے عالمی بُکراعزازسے نوازا گیا گیتانجلی شری کا ناول Tomb of Sandبنیادی طور پر ہندی میں لکھے گئے ان کے ناول کا انگریزی ترجمہ ہے۔ ہندی میں یہ ناول ’’ریت سمادھی‘‘کے نام سے جنوری 2018 میں شائع ہوا تھا۔ جون2022 میں اس کا چھٹاایڈیشن منظرعام پر آیا۔ 2021 میں جن دو ہندوستانی ناولوں کو فرانس کے ایملی گیمٹ ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا ان میں سے ایک ریت سمادھی تھا۔ 2022 میں بُکر پرائز کا حاصل ہونا ناول کی عظمت کا عالمی سطح پر اعتراف ہے۔

ریت سمادھی کی جو خوبی فوری طور پر قاری کو متوجہ کرتی ہے وہ ہے اس کا بیانیہ۔ ناول کا بیانیہ ابتدا سے ہی قاری کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے گویا آپ ایک دلچسپ نظم پڑھ رہے ہیں جو اپنے ساتھ آپ کو بہائے لیے جارہی ہے۔ ایک دلچسپ پُراسرار نظم جس میں کہانی بہ یک وقت خود کو چھپاتی اور ظاہرکرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ ناول کا آغاز یوں ہوتا ہے:

’’ایک کہانی اپنے کو کہے گی، مکمل کہانی ہوگی اور ادھوری بھی، جیسا کہانیوں کا چلن(चलन ، روایت) ہے۔ دلچسپ کہانی ہے۔ اس میں سرحد ہے اور عورتیں جو آتی ہیں، جاتی ہیں، آرم پار (आरमपार )۔ عورت اور سرحد کا ساتھ ہو تو خودبہ خودکہانی بن جاتی ہے بلکہ عورت بھر(भर )،محض) بھی۔ کہانی ہے۔ سگ بگی (सुगबुगि ) سے بھری۔ پھر جو ہوا چلتی ہے اس میں کہانی اڑتی ہے۔ جو گھاس اُگتی ہے، ہوا کی دِشا दिशा )، سمت) میں دیہہ देह )، جسم) کو اکساتی، اس میں بھی اور ڈوبتا سورج بھی کہانی کے ڈھیروں قندیل جلاکر بادلوں پر ٹانگ دیتا ہے۔‘‘ (ص:9)

ناول ایک عمررسیدہ عورت کی کہانی بیان کرتا ہے۔ یہ بزرگ عورت جو1947 کی ہولناکیوں کو عبور کرتی ہوئی ہندوستان کے حصے میں آئی تھی، ماضی کو طاقِ نسیاں کے حوالے کردیتی ہے اور ہندوستان میں ایک بھرپور زندگی گزارتی ہے۔ اب وہ ایک اعلیٰ افسر بیٹے اور شہرت یافتہ بیٹی کی ماں ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ماضی کہیں پیچھے چھوٹتا چلا جاتا ہے۔ ماضی سے اس کا رابطہ صرف روزی کے ذریعہ ہے جو وقتاً فوقتاً اس سے ملاقات کرتی رہتی ہے لیکن ان کے درمیان تعلق کے راز سے کوئی واقف نہیں۔ شاید کسی کے نزدیک اس رشتے کی کوئی اہمیت بھی نہیں۔ ناول کی ابتدا اس بزرگ خاتون جو اب اماں کے نام سے مقبول ہیں‘ کی بیوگی سے ہوتی ہے۔ ایک طویل عمر گزارکر اماں کے شوہر اس دارِ فانی کو الوداع کہہ گئے ہیں اور اماں نے ان کے غم میں بستر پکڑ لیا ہے۔ گوشہ نشینی کے اس عالم میں اماں ارادی یا غیرارادی طور پر اپنی زندگی کا محاسبہ کرتی ہیں۔ اوراقِ پارینہ ان کی نظروں کے سامنے گردش کرنے لگتے ہیں اور بھولا بسرا ماضی دل کے نہاں خانوں میں زندہ ہواٹھتا ہے۔ وہ دور زندگی جو ان کی حیات کا سب سے بڑا راز ہے، جس پر وقت کی گرد جم چکی ہے۔ قتل و غارت گری کا دریا عبور کرنے کے بعد جس دنیا نے انھیں اپنی پناہ میں لیا تھا اس کی اولین شرط تھی گزشتہ زمانے کو فراموش کر یہاں کی مٹی میں جڑیں جمانا۔ اماں نے تاعمر اس شرط کو نبھایا لیکن اب ماضی کی بازگشت کو ردکرنا ممکن نہیں۔ ماضی ہی تو اس کی اصل شناخت ہے۔ اس کی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت۔ تو اس سے فرار آخر کب تک۔ رفتہ رفتہ پرانی یادیں عودکرآنے لگتی ہیں اور بے خیالی میں زبان سے ایسے کلمات اداہوتے ہیں جو اس کے موجودہ کنبے کے لیے ضعیفی میں ذہن کے شل ہونے کی علامت کے ماسوا کچھ بھی نہیں لیکن اماں دل ہی دل میں تہیہ کرچکی ہیں۔ پاکستان کے سفر کے اُن کے عزم کو اہل خانہ روزی کی آخری خواہش کی تکمیل کی آرزو سے تعبیر کرتے ہیں لہٰذا بیٹی ’’بیچاری‘‘ اماں کی خوشی کے لیے پاکستان ساتھ جاتی ہے:

’’بوڑھی ماں کو کچھ چھوٹی موٹی خوشی چلو دے دیں اس آخری مقام پر۔‘‘ (ص:319)

پاکستان میں یکے بعد دیگرے عجیب وغریب انکشافات بیٹی کو بیحد بیچین کردیتے ہیں۔ بالآخر اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ حقیقت محض وہی نہیں جو نگاہوں کے سامنے ہے بلکہ اماں کی ایک دنیا متوازی طور پر بھی چلتی رہی ہے جو اہل خانہ کی نظروں سے مخفی لیکن ہمیشہ دائم و قائم ہے۔

ناول دوکرداروں اماں اورروزی کے اردگرد گردش کرتا ہے۔ اماں کا نام چندر پربھا ہے لیکن اوائل عمر میں وہ چندا کے نام سے مقبول تھی۔ لاہور میں اس نے اپنی سہیلی کوثر کے بھائی انور سے محبت کی شادی کی تھی۔ تب اس کی عمر سولہ سال تھی۔ انھیں دنوں ملک کی تقسیم کا غلغلہ ہوا۔ بلوائیوں نے اسے اغوا کرلیا۔ ایک عرصہ تک شرپسندوں کی گرفت میں رہنے کے بعد چندا اور اس جیسی بہت سی لڑکیوں کو رہائی نصیب ہوئی۔ مظلوم لڑکیوں کے اسی گروہ میں روزی بھی تھی جو اس وقت پانچ چھ برس کی ننھی بچی تھی۔ درندوں کے چنگل سے جس جگہ رہائی ملی وہ صحرائی علاقہ تھا۔ لاتعداد ایام صحرا میں روزی کے ہمراہ بھٹکتی رہی۔ بالآخر ایک دن کمزوری کی تاب نہ لاکر بیہوش ہوگئی۔ ہوش آیا تو ہندوستانی سرحد کے کسی ملٹری ہسپتال میں تھی۔ چندا کے چندرپربھا بننے کی تفصیلات ناول میں ندارد ہیں۔ سولہ برس کی چند اسّی سالہ بیوہ چندرپربھا دیوی کے طور پر ہم سے پہلے پہل روبرو ہوتی ہے۔ ایک عام مشرقی خاتون کی طرح شوہر کے انتقال کے بعد ان کی زندگی پر جمود طاری ہوگیا ہے۔ گھراور بچوں سے بے نیاز ہوکر وہ گوشہ نشین ہوگئی ہیں۔ اس دوران گزشتہ زمانے کی تصاویر جن پر وقت کی گرد جم چکی ہے، خالی ذہن ان کی ورق گردانی کرنے لگتا ہے۔ لاشعور میں دفن ہوچکے واقعات تحت الشعور کی حدوں کو پار کرکے شعور پر دستک دینے لگتے ہیں۔ انھیں دنوں صحت یابی کی غرض سے بیٹی اماں کو اپنے گھر لے آتی ہے۔ ماں کے بدلتے رویے اور گفتگو کا انداز بیٹی کو اکثر وبیشتر استعجاب میں مبتلا کردیتا ہے۔ بیٹی ماں کو خوش دیکھ کر مطمئن تو ہے لیکن کہیں کچھ تو ہے جو بعیدالقیاس ہے:

’’دل ڈوبا ڈوبا بیٹی کا۔ یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزولے کر چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں۔‘‘ (ص:146)

’’پر بیٹی کی مسکان وسکان ہلکان (हलकान) ہوچکی تھی اور سب غائب تھا، کیول केवल)، صرف) تراس (غم،त्रास(رہ گیا تھا جو خود پر تھا۔‘‘ (ص:229(

اماں کی بے نیازی میں بتدریج اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ تمام رشتوں ناطوں سے لاتعلق ہوکر اماں روزی، پیڑ پودوں اورپرندوں میں محو ہیں۔ بیٹی کے دورِ بلوغت میں اماں نے اسے ایک آزادانہ زندگی بسر کرنے اور معاشرے میں عزت دار مقام حاصل کرنے کی جدوجہد میں بھرپور تعاون کیا تھا۔ لیکن حقوقِ نسواں کی علمبردار عالی مرتبہ بیٹی اپنی ماں کی ضعیف جوانی کو قبول کرنے پر راضی نہیں۔ ماں نے بھی کبھی بیٹی کو اپنے ماضی کی رازدار نہیں بنایا۔لہٰذا اب جبکہ اماں اپنے باطن میں ماضی کی بازیافت کررہی ہیں اور پاکستان جانے کو بضدہیں تو سبھی ششدر رہ جاتے ہیں:

’’جیسے ایک ایک کرکے سارے اوڑھنے اتاردیے ہوں، بیوی، اماں، چاچی، بوا बुआ)، پھوپھی) عین شین کے اور آخرکار بس وہ ہی ہے، اگھڑی (उद्यङी)، اجنبی، اپنی، کسی اور کے خیال یا فکر سے اچھوتی۔

اسّی سال پے ماں سوار تھی स्वार्थी)، مطلبی) ہوگئی۔‘‘ (ص:263)

پاکستان پہنچ کر بیٹی کے سامنے ماں کے راز رفتہ رفتہ بے نقاب ہوتے ہیں۔ اتنے بڑے ذہنی خلفشار سے نبردآزماہونا کارسہل نہیں۔ زندگی کی یکسرنئی اور غیرمتوقع نہج بیٹی کو حواس باختہ کردیتی ہے جبکہ اماں پرسکون ہیں کیوںکہ ان کے لیے یہ گھر واپسی کا عمل ہے۔ بالآخر اماں اپنی محبت اور شوہر انور سے ملاقات میں کامیاب ہوتی ہیں۔ زندگی کے آخری ایام میں ایک سیاہ رات ان کی اس ملاقات کی گواہ ہے۔ وقت کا دریا ایک دفعہ پھر انھیں اسی موڑ پر لے آیا ہے جہاں سے اس نے اپنی سمت بدلی تھی۔ ایک دفعہ پھر انور کا ہاتھ ان کے ہاتھوں میں ہے۔ بھلے ہی حالات، زمانہ، وقت سبھی کچھ تبدیل ہوچکا ہے لیکن بالآخر محبت نے بازی جیت لی ہے۔ منزل دیر سے ہی سہی لیکن حاصل ہوگئی ہے۔ اماں کا کردار اپنے اندر مختلف شیڈس سمیٹے ہوئے ہے۔ خانہ داری کی ذمہ داریوں سے نبردآزما ہوتے ہوئے بھی پہلی محبت کی مدھم لو بجھنے نہیں پاتی۔ زمانے کی تمام پابندیوں کے درمیان رہ کر بھی اماں بیٹی کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کی نہ صرف حمایت کرتی رہی ہیں بلکہ حتی الامکان مدد بھی کرتی ہیں۔ ایک روایتی ہندو گھرانے میں یہ تقریباً ناممکن ہے۔ بڑے بھائی کی سخت مخالفت اور ناراضگی کے باوجود بیٹی اگر معاشرے میں بلند مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکی ہے تو اس کے پسِ پشت ماں کی محنت، بلاشرط محبت اور بیٹی کی خواہشات کے احترام کا جذبہ کارفرما ہے لیکن جب بیٹی کے روبرو ماں کے تئیں انھیں جذبات کا امتحان درپیش ہے تو وہ سخت ہیجان میں مبتلاہوجاتی ہے۔

ناول کا دوسرا اہم کردار روزی ہے۔ وہ بچی جو ہنگامہ ہائے محشر کے دوران چندا کے ہمراہ تھی، تاعمر اس کا ساتھ دیتی ہے۔ روزی Transgenderمخنث ہے۔ ہندوستان کی سرحد میں پناہ لینے کے بعد کبھی یتیم خانے، کبھی سکھ لنگر اور کبھی گرجاگھر کے سہارے اس کی زندگی آگے بڑھتی ہے۔ اپنی حقیقت کا تلخ احساس اسے دوہری زندگی جینے پر مجبو رکرتا ہے۔ ایک جانب وہ ٹیلر ماسٹر رضا ہے جو نہایت شائستگی سے گفتگو کرتا ہے اور اپنے پیشے میں ماہر ہے۔ دوسری جانب وہ روزی ہے جو اپنے مخصوص کنبے کی شناخت ہے اوربیحد فعال ہے۔ اماں کے بیٹی کے گھرمنتقل ہونے کے بعد روزی اور اماں کے تعلقات میں مزید قربت پیدا ہوجاتی ہے۔ ان کے رشتے کی حقیقت سے بے خبر بیٹی اس قربت کو پسند نہیں کرتی لیکن ماں کی خوشی کی خاطر سب گوارا کرتی ہے۔ روزی اماں کے لیے اپنے ماضی سے تعلق قائم رکھنے کا واحد ذریعہ ہے۔ روزی کی موجودگی چندا کے وجود کی ضامن ہے۔ روزی کے ذریعہ وہ اپنے ماضی کی بازگشت کرتی آئی ہیں۔ روزی کی موت کے بعد لاہور کے سفر کے علاوہ ماضی سے ملاقات اور خود سے روبرو ہونے کا کوئی راستہ ممکن نہ رہا۔

ریت سمادھی یعنی ریت کا دفینہ۔ دفینے میں عموماً نادر ونایاب اشیاء دریافت ہوتی ہیں۔ صحرا میں ریت کی آندھیاں چلتی ہیں جو قرب وجوار کی ہر شے کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہیں اور ان پر ریت کا ذخیرہ اس طرح جمع ہوجاتا ہے کہ اس شے کا نام ونشان باقی نہیں رہتا۔ پھر رفتہ رفتہ وقت کے ساتھ وہ ریت زائل ہونے لگتی ہے اورایک دن ریت میں دفن اشیاء اپنی اصل شناخت کے ساتھ سامنے آجاتی ہیں۔ ریت سمادھی نام علامت ہے اماں کے ماضی کی جو وقت کی تہوں میں دفن ہوگیا ہے۔ شوہر کے انتقال کے بعد جب ان کی زندگی میں جمود آتا ہے تو ماضی کا احاطہ کرنے والی ریت آہستہ آہستہ ہٹنا شروع ہوتی ہے۔ پاکستان کا سفر ان کے ماضی کو نئی آب وتاب کے ساتھ روشن کردیتا ہے۔ یعنی ریت میں سمادھی (دفینہ) کوئی مستقل خاتمہ نہیں ہے بلکہ ایک نئی آگہی کی جانب مراجعت کا ذریعہ ہے۔ یہ آگہی بہت سے نئے پرانے رنج وانبساط کے لمحات ہمراہ لائی ہے اوربعض کے لیے زندگی میں نئے معنی اورنئے امکانات روشن ہوتے ہیں۔ قائم شدہ رشتے اور سرحدیں بے معنی ہوجاتے ہیں اور بہت سے غیرضروری اور غیرواضح تعلقات میں رشتوں کے نئے باب وا ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ ماں کی تسکین کی خاطر لاہور کا سفر اختیار کرنے والی بیٹی اس امر سے ناواقف ہے کہ وہاں ایک نئی، نامانوس او رقطعی مختلف دنیا اس کا انتظار کررہی ہے جس سے مراجعت کبھی ممکن نہیں ہوگی۔

ریت سمادھی میں کہانی آہستہ آہستہ اپنے ابعاد کو روشن کرتی ہے۔ انجام تک پہنچتے پہنچتے ناول میں ایسے حیرت انگیز پہلو ظاہر ہوتے ہیں کہ قاری استعجاب میں غرق ہوجاتا ہے۔ ناول میں کئی دفعہ اساطیری حوالے بھی آئے ہیں۔ متعد دمصنفین اور ان کی تصانیف کا بھی گاہے بہ گاہے ذکر ہے جو برصغیر ہند کی تقسیم کے گواہ بنے۔ اس خوں چکاں دور کو بذاتِ خود دیکھا، محسوس کیا اور اپنی کاوشوں میں مختلف زاویوں سے پیش کیا۔البتہ ان حوالوں کی معنویت وہی سمجھ سکتا ہے جس نے ان تخلیقات کا مطالعہ کیا ہو۔ چند مثالیں دیکھیے:

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

(ص:146 بحوالہ صبح آزادی، از فیض احمدفیض)

بدھائی۔ ڈاکٹرنی نے کہا۔ نہیں، لڑکا، لڑکی، سائیکل نہیں کہا۔ (ص:223، بحوالہ ٹوپی شکلا از راہی معصوم رضا)

بشن سنگھ بھی ایک ہاتھ کان پر لگائے، دوسرا آنکھ پر، آواز کو غور سے سننے کی مدرا میں آجاتا ہے۔

(ص:269 بحوالہ ٹوبہ ٹیک سنگھ، از سعادت حسن منٹو)

جو نہ دیکھنا تھا وہ بھی دیکھ لیا۔ آگے دیکھنے کی تاب نہیں ہے۔ (ص:271 بحوالہ بستی، از انتظار حسین)

بلاشبہ ادب کاایک سنجیدہ قاری ہی ان جملوں سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ناول میں ہندوپاک کے گزشتہ بیس، پچیس برس کے واقعات کا بھی جا بجا ذکر آیا ہے، جس سے ناول کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ناول کا سب سے قوی پہلو اس کا بیانیہ ہے جو قاری کے سامنے معنویت کے بہت سے جہات روشن کرتا ہے۔ تہہ دار جملے سنجیدہ قاری کو بے ساختہ اپنی جانب متوجہ کرلیتے ہیں۔ ناول کے کرداروں میں کوّا بھی شامل ہے، سڑک بھی، گھر کا دروازہ اور ایک بے نام دوست بھی۔ الگ الگ مواقع پر یہ سبھی راوی کا کردار اداکرتے ہیں اور اپنے مخصوص مشاہدے کے ذریعہ واقعات کے ایک مختلف رخ کو قاری کے روبرو پیش کرتے ہیں۔ حقیر پرندہ کوّا اماں کے کنبے کے دکھ سکھ میں برابر کا شریک ہے لیکن انسان ان کی زبان سمجھنے اور اس کی ہمدردیاں وصول کرنے سے قاصر ہے۔ تاہم اس کی مستقل موجودگی انسانوں کو اس کے خلوص کا احساس تو کرواہی دیتی ہے۔ سڑک تقسیم ملک کے دور کے خونیں واقعات کی گواہ ہے۔ جب راحت صاحب ایک طویل عرصہ کے بعد بھی اس مقام پر آتے ہیں جہاں وہ عہدطفلی میں ان واقعات کا حصہ رہے تھے تو سڑک انیں پہچان لیتی ہے اور شفقت سے انھیں اپنی آغوش میں سمیٹنا چاہتی ہے، گویا وہ ابھی بھی وہی معصوم بچے ہوں جو اس سڑک پر آنے والے قتل وخون کے سیلاب میں زندہ بچ گیا تھا۔ اسی طرح اماں کے بڑے بیٹے ’بڑے‘ کے گھر کا دروازہ ارد گرد کی تمام حرکات وسکنات پر نظر رکھتا ہے۔ یہ دروازہ بدلتے ہوئے زمانے اور رسوم ورواج کا گواہ ہے۔ تبدیلیِ حال اکثر اسے حیرت واستعجاب میں غرق کردیتی ہے۔ سدھارتھ کا بے نام دوست ناول میں کوئی کردار نہیں نبھاتا تاہم وقتاً فوقتاً اہم مواقع پر موجود ہوتا ہے اورواقعہ کی تمام جزئیات کی کامیاب تصویرکشی کرتا رہتا ہے۔ یہ بے نام بے چہرہ شخص ہی اماں کی آنکھوں میں قوس قزح کے رنگوں کو اترتے ہوئے دیکھتا ہے جو دراصل اماں کے نئے ذہنی رویوں کے غماز ہیں۔ کوّے اور سڑک کا بیان جہاں ہمدردی اور یگانگت کے جذبات سے پُر ہے وہیں سدھارتھ کا دوست بے فکروخوش مزاج نوجوان ہے جو مذاق مذاق میں ہی بڑے انکشافات کرجاتا ہے اور مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے لیے قاری کو ذہنی طور پر تیا رکرتا ہے۔

 ناول نگار نے ایک معصوم او رمختصر داستانِ عشق کی بنیاد پر ایک خوبصورت کہانی تخلیق کی ہے جس میں زندگی کے سبھی رنگوں کا امتزاج ہے۔ معصوم محبت کی یہ داستان اس انداز میںمکمل ہوتی ہے کہ قاری کو تشنگی کا احساس نہیں ہوتا تاہم ایک موہوم سی حسرت دل میں خلش پید اکرتی ہے۔ یہی ناول کی کامیابی ہے کہ ہم خود کو اس کی مرکزی کردار اماں یا چندا سے جوڑلیتے ہیں او رناول کے غیرمتوقع انجام پر مطمئن بھی ہوتے ہیں اور افسردہ بھی۔ ناول کی تکنیک بے مثال ہے جو گیتانجلی شری سے ہی عبارت ہے۔ بیانیہ میں الفاظ کی بازی گری متاثر کرتی ہے۔ زبان ایسی گویانثر لکھتے لکھتے مصنفہ کے جذبات ومحسوسات کو الفاظ کا جامہ پہنانے کی خاطر پُراسرار سی نظم شروع ہوجائے۔ یہی شاعرانہ نثر ناول کے بیشتر حصوں کا احاطہ کرتی ہے اور ایک حساس قاری کے لیے ذہنی تلذذ کا سامان مہیا کرتی ہے۔

نوٹ: مضمون میں شامل اقتباسات ریت سمادھی کے ہندی متن مطبوعہ راج کمل پیپر بیکس (Rajkamal Paperbacks)،2022 سے اخذ کیے گئے ہیں۔

 

Dr. Zeba Farooqui

Asstt. Professor

Mahatma Gandhi Girls, P.G. College

Firozabad-283203 (UP)

Mobile Number: 7417660002

1 تبصرہ: