27/10/23

دبستان لکھنؤ کی چند ممتاز مرثیہ نگار خواتین:رانی حفیظ

یوں تو زندگی کے ہر شعبے میں خواتین نے اپنی بھر پور نمائندگی درج کی ہے لیکن ادب سے ان کی دلچسپی شروعات سے ہی بہت زیادہ رہی ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ ادب زندگی کا آئینہ ہوتا ہے ۔اردو ادب کا جو ابتدائی سرمایہ ہے اس میں خواتین بطور مصنفہ اور شاعرہ نظر نہیں آئیں ہیں لیکن بطور سر پرست ان کی خدمات قابلِ ذکر رہی ہیں۔ اردو میں ترقی پسند تحریک نے خواتین کو ایک نیا پلیٹ فارم عطا کیا ہے۔ 1936میں لکھنؤ میں ترقی پسند تحریک کے پہلے جلسے میں بطور صدر منشی پریم چند نے جو خطبہ دیا اس نے اردو ادب کے ’’حسن کے معیار بدلنے ‘‘کا جو تاریخی جملہ کہا اس نے خواتین کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ خواتین نے دیگر شعبہ جات کی طرح اردو ادب میں بھی اپنی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کیا ہے خواتین معاشرے کا ایک لازمی اور اہم حصہّ ہیں اردو شاعری ہویا دنیا کی دوسری زبانوں کی شاعری اس میں خواتین کا حصّہ بہت کم ہے لیکن ہندوستان میں بالغ نظر شاعرات کی کمی نہیں ہے اردو شاعری میں اودھ کی شاعرات کا بڑا نام ہے اور ان شاعرات کے نام اودھ کی تاریخ میں ملتے ہیں ۔ اردو ادب کی ابتداء میں خواتین شاعرات کا بڑا ذخیرہ ہے اس کی تخلیق میں خواتین نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں اس پر اکثر گفتگو ہوئی ہے اور مضامین اور مقالے بھی لکھے گئے ہیں کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں اردو ادب کی تاریخ میں ہر دور میں خواتین کی حصے داری رہی ہے۔

ہر سال 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین بین الاقوامی سطح پر منایا جاتا ہے اس کا مقصد دنیا کو خواتین کی اہمیت سے آگاہ کرانا ہے 1911 میں پہلا عالمی یومِ خواتین منایا گیا ۔ بیسویں صدی کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اردو مرثیہ نگاری میں خواتین نے بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا ہے ،باقاعدہ طور پر بیسویں صدی کے آغاز سے ہی خواتین میں یہ جذبہ دیکھنے کو ملا یہ دور خواتین کا پہلا دور تھا اس دور کی شروعات میں مرثیہ نگاری پر بہت کام ہوئے ہیں جن میں سے چند لکھنؤکی مشہور خواتین مرثیہ نگاروں کے بارے میں مختصر گفتگو آپ کے سامنے پیش کی جا رہی ہے۔

1۔ملکہ زمانی

 ان کاپورا نام ملکہ آفاق زمانی بیگم تھا ملکہ زمانی بیگم ریاست اودھ کی ملکہ ،اور نواب اودھ نصیر الدین حیدر شاہ کی زوجہ تھیں ۔ان کی پیدائش انیسویں صدی کی نویں دہا ئی میں ہوئی ان کے والد کا نام صابر علی خان صابر تھا یہ ایک صاحب دیوان شاعراور ریا ست ٹونک سے تعلق رکھتے تھے رام پورکے نواب لوگوں سے قریبی تعلق تھا ۔ملکہ آفاق نے ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی۔ذاتی شوق سے اردو فارسی پر کامل دسترس حاصل کی ان کی بہن بھی شاعرہ تھیں ملکہ زمانی سید ظفر حسین منتظر امروہوی کی شاگرد ہ بنیں۔ان کا شعری مجموعہ ’’باغ دلکشا‘‘ 1940میں شائع ہوا جب ان کا مجموعہ شائع ہوا تو سنبھل میں تھیں اور کافی لمبی عمر پائی ان کا انتقال 1983میں ہوا۔ان کی کتاب باغ د لکشا سے چند شعر ملاحظہ فرمائیں:

کیوں نہ ہو مطلع سے ساطع نور مہر و ماہ کا

صفحۂ قرطاس پر طغرا ہے بسم اللہ کا

طالبِ منصب نہ ہے وارفتہ عزًو جاہ کا

بے نیاز خلق ہے جو تیری در گاہ کا

راہِ وحدت عشق میںبھی ہاتھ سے جاتی نہیں

خط کی پیشانی پہ لکھے ہیں الف اللہ کا

2۔سلطان عالیہ

ان کا نام سلطان عالیہ عثمانی تھا یہ ایک عثمانی شہزادی تھی ان کی پیدائش 24 اگست 1880 کو چراغاں محل میں ہوئی ان کے والد سلطان مراد خامس پنجم جو عبد المجید اول اور شیو کفذا قادین کے بیٹے تھے ان کی ماں کا نام ریسان ہانم تھا۔ سلطان عالیہ سلام اور مرثیہ کہتی تھیں اور اپنی مادر گرامی کی طرح مرزا دبیر کی شاگرد تھیں ان کے پانچ سلام مخطوطات زاہد سہارنپوری سے دستیاب ہوئے ہیں ان کے ایک سلام ’’زہے جمال حسین و خوشالقائے حسین‘‘ کے تین اشعار پر مرزا دبیر کی نظمیں سامنے آئی ہیں شاگردکے کلام پر استاد کی نظمیں ایک نرالی بات ہے ان کا انتقال19 دسمبر 1903 کو 23 سال کی عمر میں ہوا ان کو کپوڈن پاشا محمد علی پاشا کے مقبرے میں دفن کیا گیا جو ایوب قبرستان استنبول میں واقع ہے۔

نمونہ کلام:

حیاتِ حضرت شبّیر ہے لقائے حسین     

کوئی بزرگ نہ سر پر تھا اب سوائے حسین

حسین روئے تھے خود کہہ کے ہائے ہائے حسین 

فغان و آہ کر اے مجرئی برائے حسین

 نہیں حسین کے ماتم سے کم عزائے حسین

3۔تاجدار لکھنوی

تاجدار لکھنوی لکھنؤکی مشہور مرثیہ گو شاعرہ تھیں ان کو تاجدار بہو بھی کہا جاتا تھا ان کا ایک مرثیہ ’’کتب خانے‘‘محمود آبادمیں محفوظ ہے اور ان کا پورا مرثیہ کہیں نقل نہیں ہوا ہے صرف ایک بندنقل کیا گیا ہے تاجدار بہو نے اس بند میں حضرت امام حسین اور حضرت عباس کے ساتھ ہونے کو حضرت حمزہ اور حضرت علی کے ساتھ ہو نے سے تعبیر کیا ہے۔

نمونہ کلام:

یہ جنگ بھی جہاں کے لیے یاد گار ہے

یہ معرکہ بھی قدرت پروردگار ہے

حمزہ کی اور علی کی بہم کا راز ہے

فوج عدد میں رعب سے اب انتشار ہے

4۔حزیں نیوتنوی

 ان کی پیدائش 1909 میں بمقام کانپور میں ہوئی ان کو ثم لکھنوی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ان کے والد کا نام حکیم سید اصغر حسین تھا ان کی شادی ایک ممتاز ادیب محقق سید مسعود حسین رضوی ادیب سے ہوئی۔ شوہر کی زندگی میں شریک ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی تحقیق میں بھی شریک رہیں خود ایک اچھی شاعرہ اور محقق تھیں اور انھوں نے ’’اردو امثال ‘‘پر بھی تحقیقی کام کیا۔

نمونہ کے طور پر چار مصرعے میسر آئے ہیں:

جانبِ میدان ہمکتے تھے جو اصغر بار بار

ماں لگاتی تھی سینے سے تڑپ کر بار بار

اک غم شہ کے سوادنیا میں کوئی غم نہ ہو

یہ خزیں تجھ سے دعا کرتی ہے داور بار بار

5۔گوہر آرا بیگم لکھنوی:

 ان کا پورا نام گوہر آرا بیگم تھااور تخلص گوہر تھاان کی پیدائش 17 جون1631 کوبرہانپور میں ہوئی ۔یہ ایک مغل شہزادی تھیں ۔ان کے والد مغل سلطنت کے مشہور بادشاہ شاہ جہاں تھے۔ ان کی والدہ کا نام ممتاز محل تھا ۔ممتاز محقق ڈاکٹر اکبر حیدری کی رائے میں میر خلیق،میاں دلگیر اورمیر ضمیروغیرہ کی ہم عصر شاعرہ تھیں ۔ڈاکٹر اکبر حیدری کشمیری نے ان کا ایک مرثیہ دریافت کیا ہے جو بہت ہی شیریں سادہ اور شگفتہ زبان میں ہے۔ یہ مرثیہ مہاراج کمار مرحوم والی محمود آباد کے کتب خانہ محمودآباد ہائوس لکھنؤ میں محفوظ ہے ان کا انتقال 1706 میں ہوا۔

مذکورہ بالا مرثیہ گو شاعرات کے علاوہ بھی لکھنؤ کی سرزمین پر     بے شمار خواتین ہوئیں ہیں جنھوں نے اس فن کو وسعت و ترقی بخشنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے لیکن طوالت کے خوف سے انھیں قلم انداز کیا جاتا ہے۔

نمونہ کلام:

برباد الہٰی نہ کوئی پردہ نشیں ہو

بے مقصد و چادر نہ کوئی زار و حزیں ہو

پردیس میں ویراں نہ کوئی صاحب دیں ہو

تر خونِ برادر سے کسی کی نہ جبیں ہو

زینب سی جو آوارہ وطن ہو وہی جانے

بازو میں بندھی جس کے رسن ہو وہی جانے

6۔ دیو روپ کماری 

بیسویں صدی کے نصف اوّل میں جدید مرثیہ کے حوالے سے خواتین مر ثیہ نگاروں میں ایک نام دیو روپ کماری کا آتا ہے ددیوروپ کماری پہلی اور واحد غیر مسلم خاتون مرثیہ گو شاعرہ کی حیثیت سے اردو ادب میں اپنا منفرد مقام رکھتی ہیں ان کی پیدائش آگرہ میں ہوئی ان کا تعلق کشمیر ی پنڈت گھرانے سے تھا۔ گھر اور سماج کا ماحول بھگتی شاعری سے لبریز تھا اردو فارسی اور انگریزی زبان پر مہارت حاصل تھی۔ فارسی زبان سے انھوں نے منشی کامل کا امتحان بھی پاس کیا اور انگریزی زبان پر کامل دسترس حاصل کی۔ان کا پہلا مرثیہ’’بادہ عرفان ‘‘ 1932 میں تصنیف ہوا اور یہ مرثیہ اتنا مقبول ہوا کہ کچھ سالوں میں پانچ مرتبہ شائع ہوا ۔ان کے استاد حضرت فضل رسول تھے اور دیوی روپ کماری کے کلام پر چھاپ کی وجہ یہ ہے کہ ان کے استاد انیس کی فرد میرانس کے شاگرد تھے۔

نمونہ کلام :

صنعت صانع قدرت کا بیان مشکل ہے

راز قدرت کرے انسان عیاں مشکل ہے

کس طرح پہنچے وہاں وہم و گمان مشکل ہے

جب تلک ہو پیمبرکی زبان مشکل ہے

مجھ سے اس وقت بیاں ہو سکے اس کی توحید

با خدا یا کہ ہو، ہم نام خدا کی تائید

7۔ امت الحمدی شہرت

ان کا نام امتہ الحمدی ،تخلص شہرت تھا۔ ان کا وطن حیدر آباد (دکن)مرزاشہر کی پوتی تھیں ۔مرزا علی بادر کی صاحبزادی اور رفیہ بیگم ریاضت کی چچا زاد بہن ہیں ۔انھوں نے تہذیب اور حیا کی  چار دیواری میں رہ کر مرثیہ کہنا شروع کیا خواتین کی مجالس میں بھی مرثیہ پڑھتی رہیں۔ وفات کے کئی برس بعد پہلی بار ان کا مرثیہ شائع ہوا اس کے بعد سے ہی لوگ ان کے نام کو جاننے لگے تھے کچھ عرصے بعد ان کے تین اور مرثیے دستیاب ہوئے ان کے آٹھ مرثیوں کا مجموعہ 1990 میں باب العلم سوسائٹی حیدرآباد کے زیر اہتمام شائع ہوا ۔ ان کے مرثیوں کو لوگوں نے خوب پسند کیا۔ ان کے مراثی میں مدح اور مصائب پر زور دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود مرثیہ کی روایت اور لفظیات کا انھیں پورا ادراک تھا اس کے تحت ان کے مرثیے کہیں دعا،کہیں مدح،کہیں گریہ تھے۔نمونہ کلام:۔

شیعوں کی جان تجھ پہ ہو قربان یا علی    

اسلام جسم اور تو ہے جان یا علی 

تیری ولا کا نام ہے ایمان یا علی

واللہ تو ہے مفتی قرآن یا علی

توعالمِ علوم خدائے علیم ہے

تو جانشیں خاص رسولِ کریم ہے

ان کے مرثیوں کو سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سامنے بیٹھ کر مرثیہ سن رہے ہو ۔اس کی وجہ ان کی پردہ داری تہذیبی ماحول تھاشہرت کے مراثی کے دو مجموعے شائع ہوئے ہیں:

1۔پنج مراثی (پانچ مرثیوں کا مجموعہ)

2۔ہشت مراثی(آٹھ مرثیوں کا مجموعہ)

8۔گل فروا امروہوی

ان کی پیدائش 1971میں لاہور میں ہوئی ان کا وطن مالوف امروہہ ہے لیکن ہندوستان تقسیم ہونے کے بعد ان کے والد ہجرت کر کے پاکستان آگئے انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم پاکستان میں ہی حاصل کی۔کراچی یونیورسٹی سے1992 میں انھوں نے اسلامک اسٹڈیز میں ایم۔اے کیا انھوں نے 19 برس کی عمر میں 1990 میں پہلا مرثیہ کہا انھیں شعر کہنے کا شوق تھا بچپن سے ہی انھوں نے شعر کہنا شروع کر دیا تھا 16 برس کی عمر میں ان کی نظمیں سامنے آنی شروع ہو گئیں۔اتنی کم عمر میں انھوں نے مرثیہ کہے جو لوگوں کو بہت پسند آئے۔ مرثیہ گوئی کے لیے شعر گوئی پر اور تاریخ پر کامل دسترس ضروری ہے تب جا کر کہیں مرثیہ کہا جا سکتا ہے انھوں نے جو پہلا مرثیہ کہا اسے مرثیہ تسلیم کیا گیا ہے ان کے مرثیے کے کچھ بند درج ذیل ہیں :

گل فروا کے پہلے مرثیہ کا عنوان ’’تصویر وفا‘‘ ہے۔

گلزار مصطفی میں ہے ہر سو نئی مہک

 ہر برگ گل پکارتی ہے یہ لہک لہک

آمد چمن میں آج نئی اک کلی کی ہے

 شامل فضا میں سارے پرندوں کی ہے چہک

گھر میں علی کے خلد بریں کی جو ہے بہار

 اک عید ہے ولادت عباس نا مدار

9۔سلطانہ ذاکر ادا

ان کی پیدائش 1 ستمبر 1929میں رامپور (یوپی)میں ہوئی، ان کا نام مصطفی سلطانہ اور تخلص ادا تھا اور قلمی نام سلطانہ ذاکر ادا۔والد کا نام خورشید علی مرزا قمی کاظمی تھا سلطانہ کی شادی 16 مئی 1944 میں امروہہ کے نقوی خاندان میں کر دی گئی تھی ۔شوہر کانام سید ذاکر حسین نقوی تھا وہ نواب رام پور کی فوج میں افسر تھے انہوں نے شاعری کی ابتدا 17 برس کی عمر میں کی انھوں نے اپنی کتاب ’’سفر کب تک ‘‘  میں خود اس بارے میں بتایا ہے۔ ان کے مرثیہ کی ابتدا1994میں ’’السوبرانتے ‘‘ کیلیفورنیا (امریکہ) میں ہوئی 1936سے 1994تک سلطانہ نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ان کا کلام ’’نمودِ سحر ‘‘ میں شائع ہوا ہے جسے ’’جاوداں ‘‘ کراچی نے 1999 میں شائع کیا تھا ان کا پہلا مجموعہ کلام ــــ’’معراج وفا‘‘ ہے جو 1996میں شائع ہوا اس کتاب میں سب سے پہلی مناجات کا سنہ تخلیق 1969پہلی نعت 1973 اور پہلا مرثیہ 1994 درج ہے- سلطانہ ذاکر ادا کی تصانیف کی ترتیب وتعداد حسب ذیل ہے۔

1)  ’’معراج وفا‘‘ حمد نعت،منقبت،سلام۔مرثیہ مطبوعہ1996

2)  ’’نمودِ سحر‘‘غزلیات،منظومات1999

3)  ’’سفر کب تک‘‘نثر کی کتاب

سلطانہ ذاکر اداکی مرثیہ گوئی نہ میر انیس کی مرثیہ گوئی ہے نہ ہی جمیل مظہری ،نہ آلِ رضا کی شاعری ہے لیکن ان کی مرثیہ گوئی فنی نشیب و فراز سے در گزر سلطانہ ذاکر ادا کی مرثیہ گوئی ہے اور ان کے مرثیہ میں محبت عقیدت نمایاں ہے ۔ان کے پہلے مرثیے کاآغاز کربلامیں امام حسین علیہ السلام کے درود مسعود سے ہوتا ہے۔

 وارد جو کربلا میں شہ کربلا ہوئے     

اور جمع گردِ شاہ سبھی باوفا ہوئے

نزدِفرات خیمے حرم کے بپا ہوئے

اہلِ ستم بھی جمع برائے جفا ہوئے

 اکبر ہیں جو پھوپھی کی عماری کو لائے ہیں

عباس بھی جلوسواری کے آئے ہیں


10:۔بانو نقوی

ان کی پیدائش 1933 بمقام جگراؤں ضلع لدھیانہ میںہوئی ان کا نام شہر بانو،قلمی نام سادات نقوی۔ ولد گرامی سید محمد عسکری نقوی تھا ۔انھوں نے ابتدائی تعلیم گھر میںہی حاصل کی کیوں کہ ان کے والد گرامی سید محمد عسکری نے گھرمیں علمی ماحول رکھا اور ساری زندگی علوم محمد کی ترویج میں مصروف رہے ۔ان کی والدہ جناب شریف العماء کی پوتی ہیں انھیں میر انیس کے بہت سے مرثیے یاد ہیں شہر بانو نقوی نے دس برس کی عمر میں 1945 میں ایک نوحہ کہا ۔ لوگوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور شہر بانوکے لیے شعر و ادب کے دروازے کھل گئے ۔شہر بانو درس گاہِ کربلا کی طالبہ علم شہر بانو کے ذہن میں ظلم اور مظلومیت کے خطوط واضع ہو گئے ۔کر بلا نے شہر بانو کو نفرتوں کی آندھیوں میں محبت کے چراغ جلانے کا سلیقہ دیا ۔انھوں نے جب اپنا پہلا مرثیہ کہاتب یہ سلیقہ ابھر کر سامنے آیا ۔شہر بانو کا یہ مرثیہ62بندوں پر مشتمل ہے۔ اس مرثیے کا عنوان ’’ماہ بنی ہاشم‘‘ تھا اور اس کی ابتدا’’محبت‘‘ کے بیان سے شروع ہوئی:

خالق نے عجب چیز بنائی ہے محبت  

انسان کو فطرت نے سکھائی ہے محبت

یوں روح میں ہر شے کی سمائی ہے محبت

ہر عضو و بدن اـترآتی ہے محبت

تصدیق بھی ہو جاتی ہے لولاک لماسے

ہے رابطہ بندے کا اسی طور خدا سے

مذکورہ بالامرثیہ گو شاعرات کے علاوہ بھی لکھنؤکی سرزمین پر بے شمار خواتین رہی ہیں جنھوں نے اس فن کو وسعت و ترقی بخشنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے لیکن طوالت کے خوف سے انھیں قلم انداز کیا جاتا ہے۔

 

Rani Hafeez

Research Scholar

Arabic & Persian Department

University Of Allahabad

Prayagraj-211002  (U.P)

Mobile No.: 9628947998

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...