چہار
بیت کی ایجاد کا سہرا افغانستان کے سرحدی پٹھانوں کے سر باندھا جاتا ہے۔ پشتو میں چہار بیت کا آغاز اردو سے پہلے ہوا لیکن
زمانہ وہی ہے جو اردو کا ہے۔ چہار بیت کو پٹھانوں کا لوک گیت بھی کہا جاتا ہے۔ اسے پٹھان راگ بھی کہتے ہیں۔ چہار بیت کا رہنما
یا سربراہ کوئی استاد ہوتا ہے جس کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ فی البدیہہ شعر کہہ سکتاہے۔
اگلے صف میں خلیفہ اور دائیں بائیں دو ایسے ہمنوا ہوتے ہیں جن کی آواز خلیفہ کی طرح
اونچی اور حافظہ تیز ہو باقی لوگ دوسری اور تیسری صفوں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ تیسری صف
والے کھڑے رہتے ہیں۔ دف نوازی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ سارے ہمنوا کسی ایک تال پر دف بجاتے
ہیں۔ چہار بیت پٹھانوں کی بستیوں میں کافی مشہور ہے جیسے بھوپال، ٹونک، رام پور، قائم
گنج، احمد آباد وغیرہ۔ چہار بیت میں غزلوں کے ذریعے رچی ہوئی معیاری زبان استعمال
ہوتی ہے جو عوام تک پہنچتی ہے۔
کوئی
بھی زبان اپنی ابتدائی شکل میں بولی کی صورت کوچہ و بازار میں عوام کے درمیان وجود
میں آتی ہے اور خواص کی نظر التفات سے قبل عوام کے لاڈ پیار کے سائے میں گلی، کوچوں
اور بازاروں میں پروان چڑھتی ہے۔ زبان اردو کا لوک ادب بھی ابتدا میں چھوٹے چھوٹے علاقوں
میں ہی پروان چڑھا۔ اردو زبان میں لوک ادب کو عرصہ دراز تک قابلِ اعتنا نہیں سمجھا
گیا ۔اسے قابل توجہ اس لیے بھی نہیں سمجھا گیا کیونکہ اردو اپنی نفاست،لطافت اور نزاکت
میں یکتائی کے سبب شہروں، درباروں، امرا اور روسا کی محفلوں میں حکومت کر رہی تھی اس
لیے شہروں تک محدود تھی لوک ادب کو ناقابل توجہ جان کر ادب کے زمرے میں نہیں رکھا گیا
اس کا سبب یہ بھی تھا کہ لوک ادب پر مقامی بولیوں کے اثرات بہت نمایاں تھے اس لیے یہ عوام میں اپنی فطری حیثیت اور روایت کی شکل میں
پھلتا پھولتا رہا اور ایک عوامی روایت کی صورت آج بھی موجود ہے۔
لوک
ادب کا تعلق زمینی سطح پر چھوٹے چھوٹے گاؤں قصبوں میں پروان چڑھنے والے ان نغموں قصّوں،کہانیوں
سے ہے جو آہستہ آہستہ کسی مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ لوک ادب شہر
کی بھاگ دوڑ بھری مصنوعی زندگی کے مقابلے میں فطری احساسات اور جذبات کا آئینہ ہے
جس میں زندگی اپنی پوری حقیقی صورت میں جلوہ گر نظر آتی ہے۔
ہندوستان
قصّوں، کہانیوں کا ملک ہے جہاں کتنی ہی قدیم کہانیاں روایت کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ ہندوستانی آبادی کا ایک بہت بڑا حصّہ دیہاتوں میں زندگی بسر کرتا ہے دیہی ثقافت کی اس
عظیم وراثت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔لوک ادب کو بھلے ہی دہقانی یا دیہی ادب مان کر ادب کی حیثیت سے تسلیم نہ کیا
گیا ہو مگر اس کے عوامی رشتے کتنے گہرے اور اس کی تاریخی روایت کتنی مستحکم ہے اس سے
انکار ممکن نہیں۔لوک ادب کی کوئی باضابطہ تاریخ
تو نہیں کیونکہ ابتدا میں یہ صرف زبانی روایت کی شکل میں فروغ پاتا رہا مگر
یہ تاریخ اور روایت سینہ بہ سینہ اور بعض اوقات تاریخی بیاضوں کی صورت آج بھی موجود
اور محفوظ ہے۔
لوک
ادب میں پیش ہونے والا ادبی سرمایہ کسی نہ کسی صورت میں ماضی کی بازیافت بیان کرتا
نظر آتا ہے۔لوک ادب کو اسی تہذیبی و ثقافتی اور
تاریخی روایت کے ساتھ سنجو یا اور سنبھالا جاتا ہے۔ دیہی معاشر میں منعقدہ میلوں،
شادیوں، تیوہاروںاور تقریبات میں اسے اسی فطری رنگ میں پسند کیا جاتا ہے اس لئے آج بھی یہ اپنی پرانی روش پر قائم ہے۔
لوک
ادب کی شعری روایت کے مطالعے سے ہمیں اس کی مختلف اقسام کا پتہ چلتا ہے۔اس ضمن میں
چہار بیت کا ذکر بہت اہم ہے۔اس کی ادبی روایت پیشاور سے لے کر ہندوستان کے ضلع ٹونک تک پھیلی ہوئی ہے اور اپنی مخصوص روایت کے
ساتھ ہندوستان میں بھی عرصہ دراز سے محبوب و مقبولِ عام ہے۔
چہار
بیت کا رواج ہندوستان میں کب سے ہے یہ قطعی طور پر تو نہیں کہا جا سکتا لیکن چہار بیت
کی صنف اردو میں فارسی شاعری کے توسط سے داخل نہیں ہوئی اور نہ فارسی شاعری میں اس
فنِ شاعری کے متعلق کوئی تاریخی شواہد موجود ہیں
نہ کوئی تفصیلات موجود ہیں۔
چہار
بیت کے تاریخی ارتقاپر غور کریں تو یہی صورتحال اردو کی تصانیف میں بھی نظر آتی ہے۔
اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اس کی کوئی مکتوبی تاریخ موجود نہیں ہے۔
چہار
بیت انیسویں صدی کی ابتدامیں روہیل کھنڈ کے اضلاع
رامپور، سنبھل، مرادآباد، امروہہ میں رائج تھی اس کی تصدیق معتبر روایات اور قلمی
بیاضوں سے ہوتی ہے۔
سرحدی
قبائل کے باشندگان جب کسی تقریب میں شامل ہوتے ہیں تو غول در غول حلقے کی شکل اختیار کر کے اپنی زبان میں ہم آواز ہو کر گیت گاتے ہیں، مخصوص
انداز میں دف بجاتے اور سپاہیانہ انداز میں رقص کرتے ہیں۔ چہار بیت کی روایت مخصوص فوجی نغمے کی صورت پشتو زبان سے اردو تک پہنچی،اردو میں چہار بیت کا
فروغ فیض اللہ خان کے زمانے میں 1774 کے آس پاس ہوا جب افغانستان کے سرحدی علاقوں
کے پشتو قبائل ریاست رام پور میں آباد ہوئے جب یہ قبائل ترک وطن کے بعد ہندوستان آئے
اور روہیلکھنڈ اور اس کے اضلاع میں سکونت اختیار کی اس دور کی ملکی سیاسی صورتحال اور
ذریعہ معاش کی خاطر فوجی ملازمت اختیار کی۔ یہ سپاہی دن بھر کی تھکاوٹ سے فرار حاصل
کرنے کی غرض سے، فوجی چھاؤنیوں میں اس مردانہ رقص کو پیش کرتے جو ان کے اندر جوش و
خروش پیدا کر دیتا اور ناظرین اس سے لطف اندوز ہوتے۔
ہندوستان
کے مختلف قوموں اور قبائل کے اختلاط نے ان کے رہن سہن اور زبان کو متاثر کیا یا تو
ان کے پشتو نغموں نے چہار بیت کی شکل اختیار کر لی اسی زمانے میں روہیلکھنڈ میں پٹھانی ریاستوں کا
قیام عمل میں آیا اور شمالی ہند میں اس عہد میں اردو شاعری اپنے عروج پر تھی ان پشتو
نغموں نے بھی اردو کے دامن وسعت میں پناہ اختیار کی اور روہیلکھنڈ اس کا مرکز بنا۔چہار
بیت کی روایت روہیل کھنڈ اور اس کے اضلاع کے علاوہ اس وقت تک ملک کے کسی حصے میں رائج نہ تھی
جب یہ روہیلی سپاہی وسط ہند سے سفر کر کے راجستھان،بھوپال اور ٹونک تک پہنچے تو ان کے ساتھ چہار بیت کی روایت
بھی ان ملکی حصّوں میں ان سپاہیوں کے ساتھ پہنچی۔
چہار
بیت کے لفظی معنی چار شعر کے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ چہار بیت چار اشعار پر ہی مشتمل
ہو، چہار بیت مثلث، مسدس، مثنوی اور متضاد کی ہئیت میں بھی لکھی جاتی ہے۔ اس میں ہیئت اور موضوعات کا غیر معمولی تنوع موجود
ہے۔ ہیئت کے اعتبار سے یہ مثلث،مسدس،مثنوی
اور متضاد ہے تو موضوعاتی اعتبار سے اس میں عشقیہ، مذہبی، اخلاقی، تاریخی، قومی،سیاسی،سماجی
اور تقریباتی موضوعات شامل ہوتے ہیں۔
ابتداً
چہار بیت کو سپاہی الگ الگ گروہوں میں دف بجا کر گایا کرتے تھے جو نہ کسی ادبی معیار
کے پابند تھے اور نہ کسی دبستان سے وابستہ۔
وہ اپنے فطری اور عامیانہ جذبات، جس میں اپنی جواں مردی کی ستائش، اپنے مقابل کی بزدلی
کا اظہار،محبوب کی بے وفائی کا بیان اور محبوب بے وفا کی تضحیک و تمسخر اور توہین ان
فوجی نغموں کے مخصوص موضوعات تھے جسے وہ بڑی بے تکلفی کے ساتھ ادا کرتے تھے۔اکثروبیشتر
یہ طنز و تضحیک، آپسی چشمک،رنجش اور خوں ریزی
کی شکل ختیار کر لیتی تھی یہی سبب ہے کہ مہذب شعرا نے چہاربیت کی ان محفلوں سے اجتناب
برتا اور چہار بیت مہذب اور معیاری شاعری میں کوئی خاص مقام حاصل نہ کر سکی۔
چہار
بیت کی جو ہئیت آج رائج ہے اس میں ایک مطلع اور اس کی بحر میں تین مصرعے کہے جاتے ہیں جن کا
قافیہ مطلع سے مختلف ہوتا ہے اور چوتھا مصرعہ مطلع کا ہم قافیہ ہوتا ہے اسی ہیئت پر
چہار بیت کا ایک بند مکمل ہوتا ہے۔ لیکن یہ
شرط نہیں ہے کہ چہار بیت میں چار ہی بند ہو بلکہ بند کی تعداد کم اور زیادہ بھی ہو
سکتی ہے۔
صنف
چہار بیت فوجی نغمے کی صورت روہیلی سپاہیوں
کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف خطوں کا سفر طے کر رہی تھی جہاں جہاں پشتو سپاہیوں نے سکونت اختیار کی ان کا پشتو نغمہ بھی ان کے ساتھ
گیا۔ شمالی ہند میں اردو شاعری کا چرچا تھا تو یہ علاقے بھی اس کے اثر سے خالی نہ رہے اور ان فوجی نغموں میں بھی اردو زبان کی حلاوت گھل
مل کر اسے مختلف تہذیبی رنگ میں پیش کرنے لگی اور ان نغموں کی آواز ان علاقوں میں
سنائی دینے لگی جہاں جہاں یہ پشتو پٹھان اپنے
ساتھ اس عوامی روایت کو لے گئے۔
رام
پور، چاند پور، امروہہ،سنبھل، مرادآباد، مدھیہ پردیش، حیدرآباد اور راجستھان کے ٹونک
ضلع میں چہار بیت کی صنف رائج ہوئی جو آج بھی قائم ہے تاہم اب تک اس کی شناخت صرف رزمیہ تھی، یہ سپاہی حلقوں میں
تقسیم ہوتے، حلقے سے کوئی ایک فرد تان دیتا اور باقی ساتھی اس کو ہم آواز ہوکر دہراتے
اس طرح وہ اپنی شجاعت اور دلیری کی داستانیں گاتے اور ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے اب
تک چہار بیت میں ایک بے نیازی اور پھکڑ پن
شامل تھا شاید یہی سبب تھا کہ اب تک اس کی
رسائی بزم تک نہ ہوسکی تھی چہار بیت بزم کی
رونق بخشنے کے سلسلے میں نواب محمد اسماعیل علی خان بہادر تاج کا نام سب سے نمایاں ہے۔جن کی نظر التفات کے زیر اثر چہار
بیت جیسی عوامی صنف میں بھی بلند آہنگی، رفعت و فکر اور قادر الکلامی جیسے رنگ شامل ہوگئے جس کے سبب دوسرے شعرا کی توجہ بھی اس طرف مبذول ہوئی، اور جلد ہی چہار بیت وسیع الخیال
شعراء کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ اب چہار بیت
میں مقصدیت،معنویت،جدّتِ بیان اور وسعت افکار بھی شامل ہو گئے جس نے اسے قدرومنزلت
سے روشناس کیا۔
ان
تبدیلیوں کا چہار بیت کی روایت پر خاطر خواہ اثر ہوا ان کے موضوعات میں جہاں تنوع شامل
ہوا تو ان کی پیشکش کے طریقہ کار میں بھی مہذب طریق و اطوار در آئے اور آہستہ آہستہ
چہار بیت رزم کی ہی نہیں بزم کی بھی زینت بن گئی۔ لیکن عوامی دلچسپی کے باعث
پھکڑپن کے عناصر اس میں شامل رہے شاید یہی وجہ رہی کہ دونوں دبستانِ فن نے اسے نہ
ادبی سند عطا کی نہ دبستان دہلی اور لکھنؤ کے اساتذہ نے ادبی حیثیت سے اسے قبول کیا۔مگر
عوامی تقریبات میں ان محفلوں کا انعقاد رواج
پا چکا تھا اور کثیر تعداد میں لوگ بلا تفریقِ مذہب و ملّت ان محفلوں میں شرکت کرتے اور لطف اندوز
ہوتے۔
یوں
تو چہار بیت کی صنف ملک کے دوسرے حصوں میں
رائج ہو چکی تھی مگر راجستھان کے ضلع ٹونک نے اس کی ترقی میں گراں قدر اضافہ
کیا اور اسے مقبول خاص و عام بنایا۔ آہستہ آہستہ شرفا بھی ان محفلوں میں شرکت کرنے لگے اور چہار بیت کی صنف پر طبع آزمائی
بھی کی لیکن ابتدا میں یہ شعرا چہار بیت اپنے نام سے منسوب کرنے سے گریز کرتے تھے۔
ریاست
ٹونک قدیم راجپوتانہ کی واحد مسلم ریاست تھی حکومت برطانیہ اور نواب امیر الدولہ بہادر
کے درمیان سیاسی معاہدے کی شکل وجود میں آئی۔نواب خود سرحدی پٹھان تھے جن کے بزرگ ترک وطن کے بعد سنبھل، مراد آباد میں
آباد ہوئے تھے۔ ان کی فوج میں بیشتر وہی پشتو قبائلی شامل تھے جو ترک وطن کر کے روہیلکھنڈ
میں آباد ہوئے اور جب 1817 میں ریاست ٹونک کا قیام عمل میں آیا تو چہار بیت کا نغمہ
بھی ٹونک میں رائج ہوگیااور اردو کے ساتھ ساتھ چہار بیت کی صنف کو بھی فروغ حاصل ہوا۔
نواب ابراہیم علی خان بہادر کے عہد حکومت میں صنف چہار بیت کی جانب خصوصی توجہ دی گئی
اور مقامی شعرا کے علاوہ دہلی اور لکھنو کے
شعرانے بھی صنف چہار بیت پر توجہ مرکوز کی۔ 1930 سے 1948 تک کا زمانہ چہار بیت کے لیے بہت اہم ہے۔ اس عہد میں اسے غیر
معمولی فروغ حاصل ہوا۔
تشکیل
راجستھان کے بعد پیدا شدہ سیاسی،معاشی تبدیلیوں
کے سبب کچھ وقت کے لیے یہ صنف بھی تعطل کا شکار ہوئی مگر جلد ہی نئے جوش و خروش کے ساتھ نئی پارٹیاں وجود میں آنے لگیں۔ اب چہار
بیت کو شعرا نے جوش و خروش سے ہی نہیں ادبی
اور عصری تقاضوں سے روشناس کرایا چہار بیت کی آواز گلیوں،بازاروں گھروں اور جلسوں
اور تقریبات میں پھر سنائی دینے لگی۔
چہار
بیت کو ملک کے کونے کونے تک پہنچانے میں جماعت ہند کے زیر اہتمام 1978 میں منعقد ہونے
والا وہ جلسہ تاریخی اہمیت رکھتا ہے جس نے ملک کے کونے کونے سے آنے والوں کو چہار
بیت کی صنف سے نہ صرف متعارف کروایا بلکہ اسے
ادبی حیثیت عطا کی اس کے بعد عالمی سطح پر منعقدہ ہندوستانی لوک ادب کے حوالے سے ہونے
والے پروگراموں میں بھی راجستھان ٹونک کے چہار بیت فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
اور عالمی سطح پر چہار بیت کو ادبی شناخت بخشی۔ٹونک کے شعرانے چہار بیت کی روایت کو
مزید استحکام بخشنے کی غرض سے اس کے موضوعات کے دائرے کو وسعت عطا کی جس میں رزمیہ،عشقیہ،
سیاسی، رندی، قومی، وطنی موضوعات شامل تھے جنھوں نے چہار بیت کی فنی اور ادبی روایت
کو فروغ دینے کا کارنامہ انجام دیا۔
1930 سے 1947 تک کا زمانہ
نواب سعادت علی خان سعید کے دور حکومت میں
چہار بیت کی روایت کے فروغ کا زمانہ تھا جس میں
اختر شیرانی, بسمل سعدی،صولت ٹونکی،عرشی
اجمیری،اُفق اجمیری،امیر ٹونکی،ساحل ٹونکی،صائب ٹونکی،بصر ٹونکی،مولانا عبدالحئی فائز،
دل ایوبی، بزمی ٹونکی، مراد سعدی، ناظر ٹونکی، چندن بھارتی، جام ٹونکی وغیرہ کے نام
صنف چہار بیت کے حوالے سے معروف شعراء کی حیثیت سے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان شعراء
کی چہار بیت کے چند بند دیکھیں۔
چندن
بھارتی کی چہار بیت کا ایک بند کچھ اس طرح ہے
مطلع
دل
لگانا ہی پڑے گا مجھے معلوم نہ تھا
خاک
اڑانا ہی پڑے گا مجھے معلوم نہ تھا
بند
بحر الفت کو میں سمجھا کہ ہے اک راہ گزر
تھی
یہ امید کے بھر لوں گا میں دامن میں گہر
میں
نے آغاز میں انجام پے ڈالی نہ نظر ڈوب جانا ہی پڑے گا مجھے معلوم نہ
تھا
چندن بھارتی کی ایک چہار بیت کا بند جس میں حب الوطنی کا اظہار ہے کچھ اس طرح ہے
مطلع
بڑی
مشکل سے طوفاں غمِ حرماں سے نکلے ہیں
کہ
ہم آزاد ہو کر خانہ زنداں سے نکلے ہیں
بند
وطن
کو کس لیے سمجھیں نہ اب اہل وطن اپنا
گل
اپنے شاخ تر اپنی بہار اپنی چمن اپنا
بگاڑے
گا نئے بھارت میں کیا چرخ کہن اپنا
کہ
ہم با عزم و ہمت گردشِ دوراں سے نکلے ہیں
مولانا
عبدالحئی فائز کی چہار بیت کا ایک بند ملاحظہ ہو۔
مطلع
دکھائی دیتا ہے یوں آفتاب شیشے میں
کہ
جیسے تیرا رُخ پر عتاب شیشے میں
بند
وہ
مست ناز وہ شوخی کا ایک حسیں پیکر
وقار
حسن، سراپا شباب، رشکِ قمر
جب
آئینے کے مقابل وہ آیا بن ٹھن کر
سمٹ
کے آ گیا سارا شباب شیشے میں
ان
شعرا کے علاوہ صنف چہار بیت کی مختلف لوگوں کا قیام عمل میں آیا جنھوں نے نہ صرف چہار
بیت کے قدیم رنگ کو قائم رکھنے میں نمایاں کردار ادا کیا بلکہ اسے مذاق زمانہ سے ہم
آہنگ کر کے اس کی ترقی کی راہیں ہموار کیں۔ ان گروہوں میں شامل ہونے والے لوگوں کی
تعداد تو متعین نہیں تاہم ان گروہوں میں عموماً 11 اور 13 افراد شامل ہوتے ہیں۔
یہ
گروہ ملکی اور عالمی سطح پر وقتًافوقتًا منعقدہ اجلاس میں شرکت کرتے ہیں اور اپنے فن
کا مظاہرہ کرتے ہیں، شان ہند، شان ایمان، شان چمن، شان وطن، آفتاب ہند، تاج ہند وغیرہ
کا شمار صنف چہار بیت کی مقبول پرفارمنس پارٹیوں میں ہوتا ہے۔ ان کے درمیان باہمی مقابلے
بھی ہوتے ہیں۔ صنف چہار بیت کی بقاء اور ترقی میں ان کا بھی نمایاں کردار ہے۔
Dr. Gulshan Masarrat
347/161/16 Ka,
Old Tikait Ganj
LUCKNOW-26017(U.P)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں