26/4/24

کوکن میں ادب اطفال کی صورتِ حال، مضمون نگار، محمد دانش غنی

 

اردو دنیا، فروری 2024


کوکن کے اہالیانِ اردو نے کبھی اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ اردو زبان سے ہم رشتگی ان کے معاشی مسائل کو حل بھی کرسکے گی یا نہیں؟ وہ تو محض اپنی محبت اور ارتباطِ دلی کا مظاہرہ کرتے رہے لیکن اردو سے لگاوٹ نے انھیں محروم اور مایوس بھی نہیں ہونے دیا چنانچہ آج بھی ہزاروں خاندان صرف اردو زبان کی بدولت روزگار سے جڑے ہوئے ہیں۔ خطۂ کوکن سے علم و ادب میں ممتاز ہستیاں اٹھیں جنھوں نے اپنے نام اور کام سے پورے کوکن کو مقام امتیاز عطاکیا۔ شعر و افسانہ، تحقیق و تنقید، تعلیم و تہذیب، معاشرت اور سیاست و صحافت میں کتنے ہی نام روشن ہیں جن پر نہ صرف خطۂ کوکن کو ناز ہے بلکہ تاریخِ اردو زبان و ادب کا بھی ایک حصہ بنے ہوئے ہیں۔ یوں بھی خطۂ کوکن کو قدرت نے صورت و سیرت اور ذہانت و دولت کی بیش بہا نعمتوں سے سرفراز کیا ہے۔ ساتھ ہی یہاں کے پہاڑ، جنگل، ندی نالے، کھاڑیاں اور دریا... آم، ناریل، سپاری، چیکو، کاجو، ساگوان، بانس، نیلگری، مرغ و ماہی اور چاول وغیرہ کی پیداوار بھی عطیۂ پروردگار  اور انعامِ الٰہی کی مظہر ہے۔ یہاں حسنِ فطرت انگڑائیاں لیتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لیے خطۂ کوکن کے شعرا و ادبا نے اپنی طرزِ معاشرت، عادات و اطوار، تاریخ و واقعات اور حسنِ فطرت جیسے موضوعات کے ساتھ ساتھ بچوں کی جسمانی اور ذہنی عمر، شخصی انفرادیت، دلچسپی، خواہشات، تحیر خانۂ ادراک، اکتسابی صلاحیت اور شخصیت کے مکمل فروغ کو دھیان میں رکھتے ہوئے بچوں کا ادب تخلیق کیا ہے۔

آزادی سے پہلے بچوں کے ادب پر کوئی قابلِ ذکر کام اگرچہ دکھائی نہیں دیتا لیکن آزادی کے بعدکی ساتویں دہائی میں اس سمت توجہ ہوتی ہوئی نظر آتی ہے اور ادبِ اطفال کا رجحان بڑھتاہوا دکھائی دیتا ہے۔ متعدد شاعروں اور ادیبوں نے بچوں کے لیے تھوڑا بہت لکھنا شروع کیا لیکن بچوں کے ادب سے باقاعدہ وابستگی رکھنے والا ایک نام بدیع الزماں خاور کا ہے۔شری پاد جوشی نے انھیں ’ کوکن کا مغنی ‘ کہا ہے۔ خاور صاحب ایک مدرس تھے۔ عمرِ عزیز کا بڑا حصہ ننھے منوں کی محبت میں گزارا چنانچہ ان کی نفسیات، ان کی زبان اور ان کے پسندیدہ موضوعات سے انھیں بڑی واقفیت تھی اور پھر وہ خود بھی ایک قادرالکلام شاعر تھے اس لیے انھوں نے اسمعیل میرٹھی، افسر میرٹھی، شفیع الدین نیراور راجہ مہدی علی خاں کے زیر اثراپنے طرز پر بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں جن میں بطور خاص حب الوطنی، اخلاق و شرافت، کردار و سیرت اور تعلیمی رجحانات کو مدِ نظر رکھا۔ ان کی نظموں میں زورِ بیان، تسلسل، بچوں کی سوجھ بوجھ اور زبان کا سادہ پن بدرجہ اتم موجود ہے۔ چنانچہ یہ نظمیں نہ صرف خطۂ کوکن بلکہ پورے بھارت میں ذوق و شوق سے پڑھی گئیں۔ خاور صاحب نے بچوں کے لیے ’میرا وطن ہندوستان (1973) ‘،  ’امرائی (1976)‘، ’ ننھی کتاب (1983) ‘ اور ’ موتی پھول ستارے (1984) ‘ کے نام سے خوبصورت نظموں کے چار مجموعے دیے۔ اس طرح خطۂ کوکن سے بچوں کے ادب میں اٹھنے والا پہلا معتبر نام بدیع الزماں خاور کا ٹھہر تا ہے۔ 

خطۂ کوکن سے دوسرا اہم نام عبدالرحیم نشتر کا ہے۔ عبدالرحیم نشتر ہندوستان کی جدید اردو شاعری کا ایک نمایاں نام ہے۔ ان کے چار شعری مجموعے، بچوں کی نظموں کے پانچ مجموعے، ایک رپورتاژ، اردو افسانے پر ایک تحقیقی، تنقیدی اور تجزیاتی مطالعے کے علاوہ جدیداردو غزل کے دو انتخاب، ودربھ کی ادبی و شعری روایت سے متعلق نصف درجن کتابچے،کوکن اور پونے کی اردو تعلیم پر تین تحقیقی تصانیف اور برصغیر کے موقر رسائل و جرائد میں ان گنت تخلیقاتِ نظم و نثر شائع ہوچکی ہیں۔ 1960 کے بعد سے تاحال اردو کے اہم ترین رسالوں اور اخباروں میں ان کا نام کہیں نہ کہیں ضرور دکھائی دیتا ہے۔ دراصل ان کا تعلق علاقۂ ودربھ سے ہے۔ 1986  میں تلاشِ روزگار کے سلسلے میں کوکن آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ چونکہ وہ پیشۂ تدریس سے وابستہ تھے اس لیے ان کا ادبِ اطفال کی طرف توجہ دینا بھی فطری تھا۔ یوں تو وہ بچوں کے شعری ادب کی طرف 1990 میں متوجہ ہوئے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی شاعری کا آغاز ہی بچوں کے لیے نظمیں لکھنے سے ہوا۔اس وقت جب کہ دہلی سے کھلونا اور پھلواری شائع ہوتے تھے۔ ناگپور سے فیض انصاری کی ادارت میں’چاند‘ اور شفیقہ فرحت کی ادارت میں ’کرنیں ‘شائع ہوا کرتا تھا۔ غالباً یہ 1953 تا 1955 کی بات ہے۔یہی وقت تھا جب عبدالرحیم نشتر نے بچوں کے لیے نظمیں لکھنے کی ابتدا کی۔ شروع میں عبدالرحیم نشتر کی نظمیں ’ انقلاب‘ممبئی کے بچوں کے صفحے پر جگہ پاتی رہیں۔انقلاب میں بچوں کے صفحے کے ایڈیٹر چاچا ناصر نے اس وقت عبدالرحیم نشتر کو آل مہاراشٹر بچوں کی انجمن کاسکریٹری مقرر کیا اور کئی دفعہ انھوں نے انقلاب کے بچوں کے صفحے کی ترتیب کی ذمے داری انھیں سونپی۔ چنانچہ اس زمانے کے ’انقلاب ‘ممبئی کے بہت سے صفحات عبدالرحیم نشتر کے ترتیب دیے ہوئے تھے۔ انھوں نے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے بھی خوب لکھا۔ ان کی نظمیں بچوں کے معروف رسائل میں مسلسل شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اسی لیے بعض اہلِ قلم اور اہلِ نظر نے انھیں بنیادی طور پر بچوں کا شاعر کہا ہے۔ 

 عبدالرحیم نشتر کی نظموں کے پانچ مجموعے ’ بچارے فرشتے (1994) ‘، ’ کوکن رانی (1997) ‘، ’ موتی چور کے لڈو (2005)‘، ’گل چھرے (2007)‘ اور ’ بچوں کا سنسار (2021) ‘ کے نام سے شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔تمام مجموعوں کی شاعری ’گنگنائو مرے اشعار مچلتے جائو‘کے مصداق ہے۔ان نظموں میں شاعر کا بچوں کے بارے میں جو مشاہدہ ہے اور بچوں کی نفسیات کا جو عرفان اسے حاصل ہے،وہ اتنا اچھوتا،اتنا پیارا اور اتنا دل آویز ہے کہ طبیعت خود بہ خود کسی نظم کو منتخب کرکے گنگنانے پر مائل ہوتی ہے۔ایک اور بڑی خوبی نظموں کی یہ ہے کہ یہ سبق آموز ہیں۔خدا کی یاد تازہ کردیتی ہیں۔اس کی صناعی کی طرف توجہ کو مرکوز کرتی ہیں۔بچوں کو انسان بن کر جینے کی راہ دکھلاتی ہیں۔ان میں خود شناسی، خود اعتمادی اور شعور کی بالیدگی پیدا کرنے میں معاون نظر آتی ہیں۔حوصلوں کا درس دیتی ہیں۔ مستقل مزاجی کی تعلیم دیتی ہیں۔ کامیابیوں  کے گر سکھاتی ہیں۔قدرت،دنیا اور انسان کی پہچان کراتی ہیں۔ 

اقبال سالک نوجوان شاعر ہیں لیکن انھوں نے خود کو بچوں کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ لہذا ان کی پیاری پیاری اور خوبصورت نظمیں رسائل و جرائد میں نظر آجاتی ہیں۔ ’ پہلا قدم ‘ ان کی بچوں کے لیے لکھی ہوئی نظموںکا مجموعہ ہے جو 2014 میں رحمانی پبلی کیشنز  مالیگائوں کے زیر اہتمام شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے میں انھوں نے زیادہ تر ایسے موضوع کا انتخاب کیا ہے جن سے قاری اکثر وبیشتر گذرتا ہے لیکن یہ نظمیں اُن میں نئی کیفیات وسرشاری پیدا کرتی ہیں۔آسان اور سلیس زبان، چھوٹی بحریں اور مترنم الفاظ کے ساتھ ان نظموں کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ ان میں بچپن صاف طور سے دکھائی دیتا ہے۔

 ساغر ملک کا تعلق بھیونڈی سے ہے اور وہ بھی اسکول میں ٹیچر رہ چکے ہیں۔ بچوں کے درمیان رہتے سہتے اور انھیں سمجھتے سمجھاتے آئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کہانی کے میڈیم سے بچوں کی شخصیت اور کردار سازی میں ایک موثر کردار ادا کیاجا سکتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے کہانی کو اپنی پسندیدہ صنف قرار دیا اور بہت سی دلچسپ کہانیاں لکھیں۔ ساغر ملک کی شہرت ان کی کہانیوں کی پہلی کتاب ’ سفید کوا (1984)‘ سے ہوئی اور اب تک وہ بچوں کے لیے پانچ بہت اچھی کتابیں دے چکے ہیں جن میں ’ قاتل سائنسداں (1988)‘، ’کہانیاں (1990) ‘ اور ’کچے گھر کی دھوپ (1990) ‘ شامل ہیں۔ ان کتابوں میں ساغر ملک نے بچہ بن کر بچوں کی عمر اور مزاج کے مطابق پیاری پیاری، نصیحت آموز اور کردار ساز کہانیاں انھیں کی زبان اور پیرائے میں بیان کرنے کی بڑی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کہانیوں میں بچوں کی افتادِ طبع، پسند نا پسند اور ان کی نفسیات کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ ان کہانیوں کے کردار بچوں کے جانے پہچانے جانور اور پرندے یا پھر سادہ لوح اور بھولے بھالے انسان ہیں جن کی بدحواسیاں اور کارکردگیاں پر لطف مناظر سجاتی اور خوشگوار مزاح پیدا کرتی ہیں۔ ساتھ ہی ہر کہانی بچوں کو ایک سبق دیتی ہے، ایک پیغام پہنچاتی ہے اور ان پر اپنا اثر ڈالتی ہے۔ کہانیوں کی کتابوں کے علاوہ ان کے یہاں بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں کا ایک مجموعہ بھی ملتا ہے جو ’کرنیں ‘ کے نام سے 1983 میں شائع ہواتھا جس میں بچوں کے لیے اخلاقی اور سبق آموز نظمیں شامل ہیں۔  

ایم مبین اپنی کہانیاں اور ڈراما نگاری کی وجہ سے ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ ادبی دنیا میںان کی اپنی ایک شناخت بھی ہے۔ انھوں نے بچوں کے لیے بڑی خوبصورت کہانیاں لکھی ہیں۔ ان کی نگارشات کو ہندی حلقوں میں بڑی مقبولیت حاصل ہے۔ بچوں کے تمام رسائل میں ان کی تخلیقات پابندی سے شائع ہوتی ہیں۔ انھیں کہانی لکھنے کا اچھا سلیقہ ہے۔ دل پذیر اندازِ بیان، موثر زبان اور کسا ہوا بیانیہ ان کی کہانیوں کی خصوصیت ہے۔ انھوں نے کامیاب ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ یہ ڈرامے بھی کہانیوں کی طرح سبق آموز اور دل پر اثر کرنے والے ہیں۔ ’ مال مفت 1998) ‘، ’گدھے کی چوری (2005) ‘، ’پپو پاس ہوگیا (2006) ‘ ، ’ہزار روپے کا نوٹ (2008)‘، ’ میرا نام کرے گا روشن (2011) ‘، ’رانگ نمبر (2012) ‘، ’ گبر سنگھ نے ای میل کیا (2013)، ’دان دھرم (2018)، ’گونگا سچ ((2019)،  ’ابراہیم گاردی (2019)‘ اور ’ کھول دو (2020)،   وغیرہ ان کے ڈراموں کے مجموعے بچوں کی نفسیات اور سوجھ بوجھ کو چھوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ’جھنگا پہلوان نے کرکٹ کھیلا (2006)،  ’ انمول ہیرا (2007)،  ’ جادوئی چراغ (2007)، ’ ڈیجیٹل جنگل (2022)  اور ’ مشن اوزون (2023)، ایم مبین کی کہانیوں کے مجموعے ہیں۔ ’سر کٹی لاشیں (2004)،  ’ زحل کے قیدی (2004)، ’انگوٹھا (2013)، ’اے وطن تیرے لیے (2014)‘ اور ’ خلائی سفر (2021)‘  جیسے ناول انھوں نے بچوں کے لیے لکھے ہیں۔ ان کا تسلسل ان کی تازہ فکری اور غضب کی تخلیقی صلاحیت کا غماز ہے۔ انھیں بیانیہ پر قدرت حاصل ہے۔ وہ اپنے گرد و پیش بکھری ہوئی اور پھیلی ہوئی کہانیوں میں سے بچوں کے لائق کسی ایک موضوع کو منتخب کرلیتے ہیں اور پھر نہایت سادہ انداز میں شروع کرکے تحیر خیز واقعات کی کسی ہوئی ترتیب کے ساتھ بڑی دلچسپ انداز میں بیان کر دیتے ہیں۔ ان کہانیوں اور ڈراموں کے مجموعے ادبِ اطفال کے لیے بیش قیمت تحفے ہیں۔

صادقہ نواب سحر ایک مدت سے لکھ رہی ہیں۔ وہ ایک مقبول و معروف فکشن نگار ہیں، ان کے کئی ناول اور افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ہندی جگت والوں میں بھی ان کا نام بڑی اہمیت اور عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ بھی بچوں کی کامیاب اور پسندیدہ ادیب ہیں۔ تعلیم و تدریس میں عمر گزاری۔ مہاراشٹر کی اردو ابتدائی جماعتوں کی نصابی کتابیں تیار کرنے کا انھیں طویل تجربہ حاصل ہے۔ نصابی ضرورتوں کے تحت لکھتی رہی ہیں اس لیے نہایت غور و فکر، ہوش و حواس اور آہستہ روی کے ساتھ لکھتی ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتی ہیں کہ بچوں کے لیے کیا اور کیسے لکھا جائے۔ حالیہ برسوں میں صادقہ نواب سحر نے بچوں کے ادب میں وقیع اضافے کیے ہیں۔’ مکھوٹوں کے درمیاں ‘ صادقہ نواب سحرکا بچوں کے لیے یک بابی ڈراموں کا مجموعہ ہے جسے تخلیق کار پبلشر نئی دہلی نے 2012میں شائع کیا۔ یہ مجموعہ اسٹیج ڈراموں کی خصوصیات سے معمور ہے۔ ہر ڈرامہ بہ آسانی اسٹیج کیا جاسکتا ہے۔ بچوں سے متعلق دل چھولینے والے موضوعات کو چوکس تھیم اور جاندارا ور اثر آفریں مکالموں کے ساتھ بڑی کامیابی سے پیش کیا گیا ہے۔ ڈراموں کے سارے کردار جانے پہچانے اور ارد گرد کے ہی کردار ہیں۔ اسی وجہ سے ننھا قاری ان میں دلچسپی لیتا ہے۔ ڈراموں کے مناظر کی فضا بندی میں ہنر مندی نظر آتی ہے۔ مکالمے کردار کی عمر، پیشہ اور اس کی نفسیات اور عادات و اطوار کے لحاظ سے لکھے گئے ہیں۔ ڈراموں کے علاوہ صادقہ نواب سحر نے اچھی اچھی کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ یوں بھی کہانی لکھنے میں وہ خاصی مشاق ہیں۔ بچے، عورتیں اور بڑے بوڑھے سبھی ان کی کہانیوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس لیے بچوں کے نثری ادب میں وہ ایک ممتاز و معتبر مقام رکھتی ہیں۔ نو عمر طالبِ علموں کو ننھی منی کہانیوں اور نظموں کے سہارے پڑھایا جاتا ہے۔ نرسری میں نظموں کی اہمیت اسی لیے ہے۔ صادقہ نواب سحر اس نکتے سے بخوبی واقف ہیں اسی لیے انھوں نے بچوں کی بڑی خوب صورت نظمیں لکھیں۔ ’ پھول سے پیارے جگنو‘ ان کی نظموں کا مجموعہ ہے جو 2003میں شائع ہوا تھا۔ مجموعے میں شامل ساری نظمیںنہایت کامیاب اور مفید و موثر ہیں۔ بچوں کے سبھی رسالوں میں ان کی تخلیقات شائع ہوتی رہتی ہیں۔

غنی غازی بچوں کے مقبول اور پسندیدہ ادیب ہیں۔ وہ جب تک ممبئی میں رہے ماہنامہ ’ نقشِ کوکن ‘ سے جڑے رہے اور دلچسپ، مزے دار، سبق آموز کہانیاں تخلیق کرتے رہے۔ ان کی کہانیوں کے مجموعے ’ ریت کے گھروندے (1984) ‘، ’ مٹی کے گھروندے (1986) ‘، ’ شبنم کے موتی (1987)کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں جو نایاب تو نہیں کمیاب ضرور ہیں۔ غنی غازی نے ’ مردہ گھر ‘ کے نام سے بچوں کے لیے ایک ناول بھی تحریر کیا تھا جو 2016میں نقشِ کوکن پبلی کیشنز ٹرسٹ، ممبئی کے زیرِ اہتمام شائع ہوا تھا۔ ’ مردہ گھر ‘ کی کہانی شروع ہوتے ہی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ کہانی کی دلچسپی اور قاری کا تجسس آخر تک برقرار رہتا ہے۔ غنی غازی کی کہانیاں من گھڑت نہیں ہوتیں، وہ بچوں میں سائنسی شعور جگاتی ہیں۔ بچوں کے مزاج، رجحان اور زبان کی انھیں اچھی آگہی ہے۔ خیالات کو صفائی اور چابکدستی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کے یہاں زبان ایک موثر وسیلہ ہے اور وہ کہانی پن کو مجروح نہیں ہونے دیتے۔ 

 مسرت بانو شیخ بھی ادبِ اطفال کا ایک معروف نام ہے۔ وہ بھی پیشۂ تدریس سے وابستہ رہی ہیں اسی لیے ان کی نگارشات ادبِ اطفال کے تقاضے پوری کرتی ہیں۔ ایک زمانے میں وہ نہایت تیزی سے اٹھی تھیں۔ ان کے ڈرامے ماہنامہ نرالی دنیا، گل بوٹے  انقلاب اور دوسرے رسائل و جرائد میں پابندی سے شائع ہورہے تھے،لیکن اب وہ ایک عرصے سے خاموش ہیں۔ مسرت صاحبہ نے بچوں کے لیے ڈرامے بھی لکھے ہیں اور ان ڈراموں نے اسکول اسٹیج پر بڑی شہرت اور مقبولیت بھی حاصل کی۔ان کے ڈراموں کے پلاٹ عمدہ اور مکالمے برجستہ ہیں۔ انھوں نے بچوں کے مزاج اور ذہنی استعداد کا بھی خیال رکھا ہے۔ ڈراموں کے دو مجموعے ’ ہم ایک رہیں گے (1997) ‘ اور ’آدھا ادھورا (2001)‘ بھی شائع ہوچکے ہیں۔ 

شکیل شاہجہاں مہسلہ (رائے گڑھ) کے ایک کالج میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے ہوئے بچوں کے لیے کچھ ڈرامے تحریر کیے تھے۔ بعد میں ان ڈراموں کا مجموعہ ’ قطار میں آیئے (1994) ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ یہ تمام ڈرامے بچوں کے ذہن اور مزاج کو مدِ نظر رکھ کر لکھے گئے تھے۔

 نور جہاں نور بچوں کی نفسیات، ان کی ترجیحات، ذہنی سطح اور زبان دانی کی بہترین پارکھ تھیں۔ ان کی نظمیں، کہانیاں، مضامین اور ڈرامے ماہنامہ نرالی دنیا،گل بوٹے، انقلاب اور دوسرے رسائل و جرائد میں شائع ہوئے ہیںجن میں لفظوں کا برمحل استعمال جچا تلا انداز اور متاثر کن پیرایۂ اظہار پایا جاتا ہے۔ مدیرِ گل بوٹے محترم فاروق سید کے حوالے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ محترمہ دوکتابوں کی مصنفہ بھی تھیں اور یہ دونوں کتابیں گل بوٹے پبلی کیشنز  ممبئی کے زیرِ اہتمام شائع ہوئی تھیں لیکن ان کتابوں کے نام اب مدیرِ گل بوٹے کے حافظے میں محفوظ نہیں ہیں۔بس انھوں نے اتنا ہی بتایاکہ ان کتابوں میں سے ایک بچوں کی نظموں کا مجموعہ تھا اور دوسری کتاب بچوں کے ڈراموں پر مشتمل تھی۔

 نوگل بھارتی بھی بچوں کے لیے لکھتے رہتے تھے۔ ان کی دلچسپ اور سلیس نظمیں اور کہانیاں اکثر اخباروں کی زینت بنتی رہتی تھیں جنھیں ہم اپنے بچپن میں لہک لہک کر پڑھا کرتے تھے۔ 

 انجم عباسی ایک طویل عرصے تک تدریس سے جڑے رہے اس لیے انھیں بچوں کے ادب میں بھی خاص دلچسپی ہے۔ انھوں نے نہ صرف بچوں کے لیے نظمیں اور کہانیاں لکھیں بلکہ بچوں کے لیے مراٹھی زبان کی کئی اچھی تحریروں کا ترجمہ بھی کیا۔

 محمد حسین پرکار بھی اردو کے ساتھ مراٹھی ادب سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ ترجمے کی لسانی اور تہذیبی اہمیت سے واقفیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے مراٹھی اور اردو کی لسانی اور تہذیبی روایت کو قائم رکھنے میں اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے۔ محمد حسین پرکار نے مراٹھی شاعری اور ڈراموں کے اردو میں کامیاب تجربے کیے ہیں۔ جھانسی کی رانی لکشمی بائی کی حیات پر مبنی وی واشرواڈکر کا لکھا گیا ڈرامہ ’ و یزمھنالی دھرتی لا ‘کو اردو روپ دے کر مراٹھی اردو کے لسانی رشتے کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔

 شیریں دلوی اردو صحافت کا ایک معروف نام ہے لیکن بچوں کے ادب سے بھی ان کی دلچسپی کچھ کم نہیں ہے۔ انھوں نے بچوں کے لیے کئی کالم لکھے جو روزنامہ ہندوستان میں ’ ان دنوں ‘ کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔ نسوانی جذبات، خیالات و تاثرات اور صفات سے رچی ہوئی اس ادیبہ نے چھوٹے بچوں اور نوخیز لڑکیوں کے لیے بڑی خوبصورت کہانیاں لکھی ہیں۔ بچوں کے لیے ان کے کالم پابندی سے شائع ہوتے ہیں۔

عامل کھٹیلوی ( محمد اقبال خان دیشمکھ ) کا تعلق بھی صحافت کے پیشے سے رہا ہے۔ وہ ایک زمانے میں  ہفت روزہ ’ کوکن کی آواز ‘ کے نائب مدیر تھے۔ بچوں کے لیے انھوں نے ’ چاند تارے (2005) ‘ پیش کیا تھا۔ کہانیوں کے اس مجموعے میںبچوں کے لیے دلچسپ کہانیاں شامل ہیں۔ عامل کھٹیلوی کے پاس کہانی نویسی کا نہایت پر اثر فن موجود ہے۔ وہ اپنے فن کو ادبِ اطفال کی طرف مرکوز کردیں تو بچوں کے ادب کو ایک اچھا کہانی کار مل سکتا ہے۔

نظام فیضی، آدم نصرت، ملک تاسے، قاضی فراز احمد، مغل اقبال اختر،تسنیم انصاری، صابر مجگانوی، تاج الدین شاہد، بکر سیمابی اورجویریہ قاضی خطۂ کوکن کے ایسے قلم کار ہیں جن کے یہاں بچوں کے معیار اور ان کے فطری ذوق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کچھ اخلاقی نظم و نثر پائی جا تی ہیں جو بچوں کے رسائل میں شائع بھی ہوئی ہیں۔یہ نظم و نثر بچوں کو خیر کی جانب مائل کرتی ہیں۔ ان کے خوابیدہ جذبات کو مثبت انداز سے بیدار کرتی ہیں۔ غورو فکر کی دعوت اور صالح اقدار کو فروغ دیتی ہیں۔ شاہد مہسلائی، سعید کنول، مبشر کنول، تبسم منظور ناڈکر، فیروزہ تسبیح، نگینہ ناز اور دوسرے چند قلمکاروں نے بھی ادبِ اطفال میں حصہ لیا ہے لیکن بیشتر شعرا و ادبا نے نظمیں، ڈرامے،کہانیاں، تعلیمی مضامین، تاریخی کارنامے  پہیلیاں، لطیفے غرض جو کچھ بھی لکھا یا ترجمہ کیا ان کے مطالعے سے امید تو بندھتی ہے کہ خطۂ کوکن میں بچوں کا ادب اس معیار کا ہے کہ بزرگ بچوں کے مستقبل سے بات کرسکتے ہیں۔

خطۂ کوکن میںبچوں کے ادب کی روایت کو جاندار بنانے میں ماہنامہ ’نقشِ کوکن‘ ممبئی کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ رسالہ ادبِ اطفال کو بچانے اور سنبھالنے میں تاریخی کردار کا حامل ہے۔ اس ضمن میں محترم محمد شفیع پورکرکے  ہفت روزہ اخبار ’ کوکن کی آواز ‘ نے بھی لائقِ تحسین کردار ادا کیا ہے۔ نئے قلمکاروں اور قارئین کی ایک کھیپ تیار کی۔ مرحوم محمد شفیع پورکر کا کارنامہ یہ ہے کہ وہ بچوں سے قریب ہوئے اور بچوں کو اپنے قریب کیا۔ انھوں نے ہمیشہ بچوں کا ادب لکھنے والوں کی ہمت افزائی کی۔ انھوں نے ’ کوکن کی آواز ‘ کے آدھے صفحے کو بچوں کے لیے مختص کر کے ’ نئی پھلواری ‘کے نام سے پیش کیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ اس صفحے سے ادب کے ساتھ ساتھ بچوں کی دیگر ضرورتیں بھی پوری کی جارہی ہیں۔  اس طرح ’ کوکن کی آواز ‘ ادبِ اطفال کے فروغ میں برابر کا حصہ دار ہے۔ ’ بزم فروغ ادب کوکن، مہاڈ ‘، ’ آواز گروپ مہاڈ ‘، ’ نقشِ کوکن ٹیلنٹ فورم ممبئی ‘، ’ کوکن ٹیلنٹ فورم ممبئی ‘اور ’ کوکن ادبی فارم رتناگری ‘ کی مختلف النوع تقریبات اور کاوشوں کی بدولت کوکن کی درس گاہوں میں بہت سی ادبی اور کلچرل سرگرمیوں کا آغاز ہوا جن سے ادبِ اطفال کو تقویت پہنچی۔

 اب وقفے وقفے سے بچوں کے ادب پر اجلاس بھی منعقد ہونے لگے ہیں۔ کانفرنس اور سمینار کا اہتمام بھی کیا جانے لگا ہے۔ 2019 میں شعبۂ اردو، گوگٹے جوگلے کر کالج، رتناگری نے بچوں کے ادب پر ایک قومی سمینار کا انعقاد کیا تھا جس میں ملک کے اہم ترین اہلِ قلم نے شرکت فرمائی اور اپنے فکر و فن اور پر مغز تحریروں سے ادبِ اطفال کے مختلف گوشوں اور پہلوئوں کو روشن کیا۔ان مقالات کا مجموعہ ’ عصرِ حاضر میں بچوں کا ادب ‘ کے نام سے شعبۂ اردو، گوگٹے جوگلے کر کالج، رتناگری نے 2019  میں شائع بھی کیا ہے۔ دراصل یہ ایک سمینار نہیں بلکہ ادبِ اطفال اور بچوں کے قلم کاروں اور خود ادبِ اطفال کے قارئین کا جشن تھا جس کے چرچے ملک ہی میں نہیں بلکہ بیرونِ ملک میں بھی کیے گئے۔ گوگٹے جوگلے کر کالج کا شعبۂ اردو زبان و ادب کی ترقی اور نئے لکھنے والے اور نئے قارئین کی تعداد میں اضافے کے لیے مسلسل عمل و حرکت میں لگا ہوا ہے۔ کوکن کے بیشتر اردو ہائی اسکولوں میں ’ نقشِ دیوار ‘ کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں طلبا و طالبات اپنے اساتذہ کی مدد سے بچوں کا صفحہ ترتیب دیتے ہیں اور یہ سلسلہ نہایت مقبول ہو چلا ہے۔ اب بچوں اور اسکولوں کے مابین صحت مند مقابلہ آرائی اور مسابقت کے جذبے بھی پنپنے لگے ہیں۔ کمال مانڈلیکر نے مضمون نویسی، ذہنی لیاقت، الفاظ سازی، مباحثہ، تقریری مقابلہ اور جنرل نالج کی روایت کو پھر سے زندہ کردیا ہے۔ مبارک کاپڑی کی رہنمایانہ تحریریں بچوں میں اعلیٰ تعلیم اور اچھے نتائج کی تحصیل کا شعور بھی جگارہی ہیں اور ان میں نیا جوش و جذبہ بھی رچا رہی ہیں۔    

یہ عجیب بات ہے کہ اردو تنقید نے ابھی تک بچوں کے ادب پر ویسی توجہ نہیں کی  جیسا کہ اس کا حق ہے۔ بدیع الزماں خاور، عبدالرحیم نشتر، ایم مبین، صادقہ نواب سحر، ساغر ملک، مسرت بانو شیخ اور اقبال سالک نے بچوں کے ادب کا جو ذخیرہ فراہم کیا ہے اسے پوری طرح نہ تسلیم کیا گیا نہ ان کا قرض اتارا گیا۔ بچوں کا ادب بھی تنقید و تحقیق کے لائق ہے۔ اس طرف سب سے پہلا قدم ڈاکٹر عبدالرحیم نشتر نے اٹھایا ہے۔  انھوں نے ادبِ اطفال کے مسائل اور ان کی ضروریات کے پیشِ نظر کئی مضامین لکھے۔ ’ہندوستان میں ادبِ اطفال کی موجودہ صورتِ حال ‘، ’ ودربھ میں بچوں کا ادب ‘، ’ کیا بچوں کا ادب، ادب نہیں ہے ؟ ‘، ’کوکن کے بچوں میں مطالعے کا فقدان ‘ کے علاوہ بچوں کے شعرا و ادبا کی کتابوں پر لکھے گئے پیش لفظ اور مضامین سے ان کی سوچ کا دائرہ، احساس کی شدت اور جذبے کی سچائی کا پتہ چلتا ہے۔ان کے مضامین کا مجموعہ ’اردو زبان کا سوتیلا بچہ ‘ کے نام سے 2005  میں شائع ہوچکا ہے۔  

یہ ایک حقیقت ہے کہ علم و ادب سے عدم دلچسپی کا ایک بڑا سبب سوشل میڈیا ہے جس کی وجہ سے عصری ادب کی افہام و تفہیم میں مثبت کردار ادا کرنے والے قارئین کی کمی ایک مسئلہ بنتی جارہی ہے، بستیوں سے لائبریریاں غائب ہوگئی ہیں اور ہاتھوں میں موبائل فون آگئے ہیں۔ ہماری نئی نسل جو ابھی ثانوی مدارس میں زیرِ تعلیم ہے کتابوں سے زیادہ موبائل فون میں دل لگا رہی ہے۔ اس صورتِ حال کو دور کرنے کے لیے بھی بچوں کے بہترین ادب کی تخلیق بے حد ضروری ہے۔ خطۂ کوکن اس لحاظ سے خوش قسمت رہا ہے کہ اس کو ہر زمانے میں اچھے لکھنے والے میسر آئے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ دیارِ کوکن کے قلم کاروں سے ادبِ اطفال روشن ہے اور نئے لکھنے والوں نے اس باب میں پیش رفت کر رکھی ہے۔ 


Dr. Mohd. Danish Gani

Dept. of Urdu

Gogate Jogalekar College

Ratnagiri - 415 612

Mobile No. 7558600893


x

اردو ڈرامے کی ابتدا: مختلف نظریات کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ، مضمون نگار: شہباز ارشد


اردو دنیا، فروری 2024


اردو ڈرامے کی ابتدا سے متعلق محققین کے یہاں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ اردو کا پہلا ڈراماکس کو قرار دیا جائے؟ یہ بات محققین کے درمیان ایک لمبی مدت تک موضوعِ بحث رہی ہے، اور اردو کے نامورمحققین نے اس سلسلے میں مختلف نظریات پیش کیے ہیںجودلائل سے مزین بھی ہیں۔تاہم دور مابعد کے محققین نے ان میں سے بعض نظریات کو اپنے دلائل سے ردبھی کیا ہے۔اس مختصر سے مقالے میں میری کوشش رہے گی کہ اپنے مطالعے کی روشنی میں ان تمام نظریات کو ترتیب وار آپ کے سامنے پیش کروں۔

پہلانظریہ 

اردو ڈرامے کی ابتدا اور آغاز سے متعلق پہلا نظریہ یہ ہے کہ نوازکبیشر نامی شاعر نے فرخ سیر کے زمانے میں برج بھاشا میں ’شکنتلا‘کے نام سے ایک ڈراما لکھا تھاجس کا سنہ تصنیف بابائے اردو مولوی عبد الحق (1870-1961) کی تحقیق کے مطابق1716  عیسوی ہے۔یہی اردو کا پہلا ڈراما ہے۔ اردو ادب کے بہت سے محققین جن میں پنڈت برج موہن، رام بابو سکسینہ، مولوی سید محمد، سید بادشاہ حسین، ڈاکٹر اعجاز حسین اور ڈاکٹر عبد العلیم نامی وغیرہ شامل ہیں، اس نظریے کے قائل ہیں۔ دراصل ان محققین کامانناہے کہ’نواز‘ نامی شاعر کی یہ تصنیف کالی داس کی کتاب ’شکنتلا ناٹک‘کا ترجمہ ہے یہ ڈراما پہلے برج بھاشا میں لکھا گیا تھا، پھرفورٹ ولیم کالج کے قیام کے بعد پروفیسر جان گل کرسٹ کی خواہش پر مرزا کاظم علی نے 1801 میں اس کا سلیس اردوزبان میں ترجمہ کیاتھا۔ چنانچہ اِس سلسلے میںڈاکٹر محمد اسلم قریشی لکھتے ہیں:

’’ایک زمانے میں نواز نامی ایک شاعر نے،جسے ملک الشعرا (کبیشریا کبیشور)کاخطاب ملاتھا،ایک کتاب ’سکنتلا ناٹک (بہ سین مہملہ)‘ تحریر کی اور پھرفورٹ ولیم کالج کے زمانے میں شعبہ اردو کے پروفیسر جان گل کرسٹ کے ایما سے مرزا کاظم علی جوان نے ’شکنتلا ناٹک‘ تالیف کیا۔بعض محققین نے شکنتلا ناٹک کو اردو کا پہلا ڈراما قرار دیا ہے اورنواز یانواج کو اردو کا پہلا ڈراما نگار تسلیم کیا ہے۔‘‘1

متذکرہ بالا نظریہ اپنی جگہ پر، لیکن یہاں معاملہ یہ ہے کہ نوازکبیشر کی تصنیف ’شکنتلا ناٹک‘نہ توکالی داس کی کتاب ’شکنتلا ناٹک‘کا ترجمہ ہے اور نہ ہی اس میں ڈراما کی ہیئت موجود ہے،بلکہ نواز کی تصنیف کالی داس کی کتاب ’شکنتلا ناٹک‘کے مغایر ہے۔دوسری بات یہ کہ نواز ہندی کا شاعر تھا نہ کہ اردو کا،اس لیے نواز کو اردو کا پہلا ڈراما نگار تسلیم کرناقطعاً درست نہیں۔

سید مسعود حسن رضوی ادیب مذکورہ بالا قول کی تردید  میں لکھتے ہیں :

       ’’بعض لوگ نواز کے شکنتلا ناٹک کو اردو کا پہلا ڈراما کہتے ہیں۔ مگرنوازہندی کا شاعر تھا اور ہندی تلفظ کے مطابق’نواج‘تخلص کرتا تھا۔وہ کچھ دن اورنگ زیب کے بیٹے اعظم کے دربار سے وابستہ رہا۔ اس کی شکنتلا کا تر جمہ اردو میں فورٹ ولیم کالج کے ناظم علی جوان اور للو لال نے1801 میں کیا۔وہ ایک مسلسل قصے کی صورت میں ہے جس کوکسی طرح ڈراما نہیں کہہ سکتے۔‘‘2

مذکورہ بالا دلیل سے یہ واضح ہو گیاکہ نواز کبیشر نامی شاعر کی تصنیف ’شکنتلا ناٹک‘، کالی داس کی کتاب ’شکنتلاناٹک ‘ کا ترجمہ نہیںہے اور نہ ہی ڈرامے کی ہیئت میں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ نواز ہندی کے شاعر تھے۔  اس سے معلوم ہوا کہ نواز کبیشر اردو کا پہلا ڈراما نگار  نہیں ہے اور نہ ہی ’شکنتلا‘ اردو کا پہلاڈراماہے۔ علاوہ ازیںسید مسعود حسن رضوی ادیب نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’لکھنؤ کا عوامی اسٹیج‘ میں نواز کبیشر کے بارے میں سیر حاصل گفتگو کی ہے اور انھوں نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ نواز کی کتاب کالی داس کی تصنیف ’شکنتلا ناٹک‘ کا ترجمہ نہیں ہے۔ 

دوسرانظریہ 

اردو ڈرامے کی ابتدا سے متعلق عشرت رحمانی لکھتے ہیں:

’’چونکہ اس سے پہلے ڈراماکا اور کوئی نشان یا پتہ نہیں ملتا اس لیے قرائن سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اردو ڈراما کا پہلا نقش ’افسانہ عشق‘ تھا جو رہس یا اوپیراکی شکل میں پیش کیا گیا ہے، اور اس طرح اردو کے سب سے پہلے ڈرامہ نگار واجدعلی شاہ تھے ‘‘3

متذکرہ بالااقتباس سے دوسرا نظریہ یہ ابھرکر سامنے آتا ہے کہ نواب واجد علی شاہ کی معروف مثنوی ’افسانۂ عشق‘ میں ڈرامے کے بنیادی عناصر پائے جاتے ہیں، اور اس کا اندازِ پیش کش بھی ڈرامائی ہے، لہٰذا نواب صاحب کی مثنوی اردو کا اولین ڈراما ہے اور واجد علی شاہ اردوکا پہلا ڈراما نگار۔ اس نظریے کے قائل اردو ڈرامے کے مشہور و معروف نقاد عشرت رحمانی اور امتیاز علی تاج ہیں، جب کہ ڈاکٹر تاتارخان، واجد علی شاہ کی مثنوی ’افسانہ عشق‘ کو سرے سے ڈراما ہی تسلیم نہیں کرتے، چہ جائے کہ اردو کااولین ڈراما۔ خان صاحب کاماننا ہے کہ نواب واجد علی شاہ کی مثنوی ’افسانہ عشق‘ جسے عشرت رحمانی نے اپنی کتاب ’اردو ڈراما کا ارتقا‘ میں اردو کا پہلا ڈراما لکھا ہے وہ ڈراما نہیں ہے، بلکہ اس کا انداز تو ’اوپیرا یا رہس ‘کا سا تھا۔

ڈاکٹر تاتار خان لکھتے ہیں:

’افسانہ عشق‘کو ڈرامے کے زمرے میں شامل نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے کہ اس کاانداز اوپیرا یا رہس کا ساتھا۔‘‘4

لیکن خاں صاحب کی اس بات پرکئی اعتراضات کیے جاسکتے ہیں۔ پہلا اعتراض تو یہی ہوتاہے کہ نواب واجد علی شاہ کی مثنوی ’افسانۂ عشق‘ جسے خود نواب صاحب نے اسٹیج کرایا تھا، اورجس کو عشرت رحمانی نے اردو کا پہلا ڈراما ماناہے، اگراسے صرف اس لیے اولیت کا درجہ نہیں دیاجاسکتاہے کہ اس کاانداز اوپیرا یا رہس کا ساتھا توانھیں یہ بھی مانناپڑے گا کہ افسانۂ عشق ہی کیا، اندرسبھا امانت اور اردو ڈرامے کے ابتدائی دور کے بہت سے ڈرامے کو ڈراماہی نہیں کہاجاسکتاہے۔ خود امانت لکھنوی نے اپناڈراما ’اندر سبھا‘کو ڈراما نہیں کہاہے،کیونکہ اس زمانے میں کسی نے اس صنف کوڈرامے کانام نہیں دیا تھا۔ اس لیے تاتارخاں کی یہ بات کچھ درست نہیں لگ رہی ہے۔

تیسرانظریہ

اردو ڈرامے کی ابتدا سے متعلق ایک معروف نظریہ یہ بھی ہے کہ نواب واجد علی شاہ کی تخلیق ’رادھا کنہیا کا قصہ‘ اردوکا پہلا ڈرا ماہے اور واجد علی شاہ اردو کا پہلا ڈراما نگار۔  معروف محقق مسعود حسن رضوی ادیب اس نظریے کے قائل ہیں۔ انھوں نے ایک لمبی مدت کی ڈرامائی تحقیقات کے بعد اپنی دو تصنیفات’لکھنؤ کا عوامی اسٹیج‘ اور ’لکھنؤ کا شاہی اسٹیج‘ نذر قارئین کی ہیں۔ ثانی الذکر تصنیف میں موصوف نے اودھ کے نواب، واجد علی شاہ کی رنگین طبیعت اور اس رنگینیت کی وجہ سے وجود میں آنے والی مختلف دل فریبی اور دل لگی کی ایجاد ات کو اپنی بحث کا موضوع بنایا ہے اور پھر اخیر میں اپنے دلائل سے ثابت کیاہے کہ نواب واجد علی شاہ کی تصنیف ’رادھا کنہیا کا قصہ‘ ہی اردو کا پہلا ڈراما ہے،اور واجد علی شاہ اردو کا پہلا ڈراما نگار۔ ادیب صاحب’لکھنؤ کا شاہی اسٹیج ‘کے دیبا چے میں لکھتے ہیں:

 ’’واجد علی شاہ کے زمانے تک اردو میں ڈرامے کا وجود نہ تھا۔ اس اہم صنف ادب کی بنیاد ڈالنے کا فخر ان کے لیے اٹھ رہا تھا۔انھوں نے ولی عہدی کے دنوں میں رادھا کنہیا کی داستان محبت پر مبنی ایک چھوٹا سا ناٹک لکھا جو ہماری خوش قسمتی سے اب تک  موجود ہے۔ فنی اعتبار سے اس کا درجہ کچھ بھی ہو،اردو کا پہلا ڈراما ہونے کی حیثیت سے وہ بڑی اہمیت رکھتاہے۔‘‘5

آگے لکھتے ہیں:

’’بہرحال جس طرح اردو کا پہلا ڈراما لکھنے اور اردو ڈرامے کا پہلا کھیل تیار کرنے کا فخر واجد علی شاہ کے لیے ہے...‘‘6

اس کتاب میں مسعود حسن رضوی ادیب نے لکھا ہے کہ ہندوستان میں رام لیلا اور راس لیلا کا رواج زمانہ قدیم سے ہی موجود ہے۔نواب واجد علی شاہ نے اسی رام لیلا اور راس لیلا کے طرز پر رہس کی ایجاد کی اور اسے ڈرامائی انداز میں اسٹیج پر پیش کیا۔اردو ڈرامے سے متعلق چونکہ یہ پہلی کوشش تھی جس میں تمام تقاضوں کا التزام قریباً ناممکن تھا،اس لیے واجد علی شاہ کی اس کاوش میں بہت سی کمیاں اور خامیاں بھی پائی جاتی ہیں،جس کی وجہ سے اردو کے کچھ نقادوں نے واجد علی شاہ کے ’رادھا کنہیا کا قصہ‘ کو اردو کا پہلا ڈراماننے سے صاف انکار کیا ہے۔

چنانچہ ڈاکٹر عطیہ نشاط ’رادھا کنہیا کا قصہ ‘پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’ایک قصہ کو کرداروں کے ذریعہ پیش کرنے کی یہ کوشش ڈرامے کی ابتدائی منزل ہے اور اسی لیے ان کی اس کوشش کو اردو ڈرامے کا پہلا قدم کہا جا سکتا ہے لیکن اس ابتدائی کوشش کو ڈراما نہیں کہا جا سکتا ہے۔‘‘7

میراماننا ہے کہ کسی بھی صنف کے لیے اس کے ابتدائی زمانے میں سارے فنی لوازمات کا تقا ضادرست نہیں۔ڈرامے کے علاوہ اردو ادب کی اور بھی اصناف ہیں جن کے ابتدائی ا دوارمیںوجودمیں آنے والے ان کے اولین نقوش اپنے فنی تقاضوں کوپورا نہیں کرتے، لیکن اس کے باوجودان اصناف کے نقوش ِاول کو اردومیں اولیت کا درجہ حاصل ہے۔ کیا ’مراۃ العروس‘ ناول کے تمام تقاضوں کو پورا کرتا ہے؟ لیکن اس کے باوجود اسے اردو کا پہلا ناول ماناگیاہے نا؟  اس لیے ڈاکٹر نشاط کا ’رادھا کنہیا کا قصہ‘کو اردو کا پہلا ڈراماماننے سے سرے سے انکار کرنا واقعی تعجب خیز ہے۔کیونکہ جن وجوہات کی بنیادپرانھوں نے ’رادھاکنہیاکاقصہ ‘ کوڈراماماننے سے انکار کیاہے وہ ساری وجوہات توابتدائی دورکے اکثر ڈراموں میں پائی جاتی ہیں۔ اس لیے ڈاکٹرعطیہ  صاحبہ کااعترا ض راقم کے خیال میں زیادہ وزن نہیں رکھتا ہے۔

چوتھانظریہ 

اردو ڈرامے کی ابتدا سے متعلق ایک نظریہ یہ بھی ابھرکرسامنے آیاہے کہ ڈراما ’راجہ گوپی چند اورجلندھر‘ اردو کا پہلا ڈراما ہے۔ اس نظریے کے قائل ڈاکٹر عبدالعلیم نامی، ڈاکٹر عطیہ نشاط اور بعض دیگر حضرات ہیں۔ دراصل 1953 میں ڈاکٹر عبدالعلیم نامی نے بمبئی یونی ورسٹی میں اپنی ڈاکٹریٹ کا مقالہ ’اردو تھیٹر‘ کے عنوان سے جمع کیا تھا۔ بعد میں یہ مقالہ چارجلدوں میں کتابی شکل میں منظر عام پرآیااور خوب شہرت پائی۔اس تصنیف میں موصوف نے یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ اردو میں ڈراما نگاری کی روایت پر تگالی مبلغین سے شروع ہوتی ہے۔ اسی طرح اردو تھیٹر کے آغاز کا سہرا بھی انھوں نے پر تگالیوں کے سر باندھا ہے۔ علاوہ ازیں اس کتاب میں نامی نے نواب واجد علی شاہ کا ذکر سرے سے کیا ہی نہیں،اورلطف تو یہ کہ وہ امانت کو بھی ڈراما نگار تسلیم کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔

موصوف لکھتے ہیں:

’’اردو تھیٹر کی تاریخ شاہد ہے کہ اس کی ابتدائی ساخت و پرداخت کا تعلق ان باشندگان پرتگال سے  ہے جو1498میں بغرض تجارت ہندوستان آئے تھے۔ دراصل یہی لوگ ان کے جا نشین ’ماڈرن انڈین اسٹیج‘ کے بانی اور ہر اول دستے کے ہیرو ہیں۔ جب یورپ، امریکہ، روس، چین اورجاپان میں ’ماڈرن اسٹیج ‘کا نام  نہ تھا اس وقت پرتگالی مبلغین دکن اور شمالی ہند میں اردو ڈرامے اسٹیج کرتے تھے‘‘8

ڈاکٹر عطیہ نشاط اپنی کتاب ’اردو ڈراما :روایت اور تجربہ‘ میں نامی کے قول کی تائید کرتے ہوئے لکھتی ہیں:

’’راجہ گوپی چند اور جلندھر اردو کا پہلا ڈراما ہے۔یہ ڈراما اب دستیاب نہیں ہے۔نہ اس کی کہانی وغیرہ کی تفصیل کہیں ملتی ہے۔‘‘9

بتاتے چلیں کہ محققین نے اپنے دلائل وبراہین سے اس نظریے کی خوب تردیدکی ہے،اورکچھ ایسے مضبوط اعتراضات وارد کیے ہیں جنھیں دیکھ کر یقینا ایسالگتاہے کہ یہ اردو ڈرامے کی ابتداکے سلسلے میں کوئی مضبوط نظریہ نہیں ہے۔

پانچواں نظریہ

اردو ڈرامے کی ابتدا سے متعلق سب سے اہم نظریہ یہ ہے کہ ’اندر سبھا‘سے اردو ڈرامے کی باضابطہ ابتدا ہوتی ہے۔ لہٰذا ’اندر سبھا‘ ہی اردو کا پہلا ڈراما ہے۔ تاہم یہاں محققین میں یہ مسئلہ بھی موضوعِ بحث رہاہے کہ آیامداری لال کا ’اندر سبھا‘کو اولیت حاصل ہے یاپھر امانت لکھنوی کے ’اندرسبھا‘کو۔ واضح رہے کہ اردو ڈرامے کی تاریخ میں دو الگ الگ ہم عصر اندر سبھائیں پائی جاتی ہیں، ’اندرسبھا امانت‘ اور ’اندرسبھامداری لال‘۔ جس کی وجہ سے اولیت کے سلسلے میں محققین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض حضرات مداری لال کی’ اندر سبھا‘ کو اردو کا پہلا ڈراما مانتے ہیں تو بعض امانت لکھنوی کی ’اندر سبھا‘کو۔ اردو ادب کے اکثر محققین جنھوںنے ’اندر سبھا‘کو اردو کا پہلا ڈراما مانا ہے، اُن میں رام بابو سکسینہ، مولا نا عبدالسلام ندوی، سید بادشاہ حسین اور ڈاکٹر ابواللیث صدیقی وغیرہ شامل ہیں۔ ان محققین کا ماننا ہے کہ امانت لکھنوی کی ’اندر سبھا‘ اردو کا پہلا ڈراما ہے نہ کہ مداری لال کی اندرسبھا۔ جس کی سب سے بڑی وجہ اندرسبھامداری لال کی سنہ اشاعت کاعلم نہ ہونا ہے۔ کیونکہ اندرسبھامداری لال جو دستیاب ہوسکی  ہے اس میں اس کا سنہ اشاعت درج نہیں اورکسی تصنیف کازمانی تقدم وتاخرتبھی متعین ہوسکتاہے جب اس کا سنہ اشاعت معلوم ہو۔اس لیے مذکورہ بالامحققین اورکچھ دیگرمحققین بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ اندر سبھاامانت کو اندرسبھا مداری لال پر زمانی تقدم حاصل ہے اور اندرسبھا امانت اردو کا پہلا ڈراماہے۔

سید مسعود حسن رضوی ادیب، جن کی اردوڈرامے کی ابتداسے متعلق اپنی ایک الگ  رائے اورتحقیق ہے ا ور جس پر انھوں نے دو ضخیم کتابیں ’لکھنؤ کا عوامی اسٹیج‘ اور ’لکھنؤ کا شاہی اسٹیج‘ بھی تصنیف کی ہیں، وہ بھی کئی جہات (کلی طور پر نہیں)  سے امانت لکھنوی کی ’اندر سبھا‘کو اردو کا پہلا ڈراما تسلیم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ادیب صاحب، ’لکھنؤ کا  عوامی اسٹیج‘کے ’دیباچہ‘میں لکھتے ہیں :

’’اندر سبھا اردو کا پہلا ڈراما نہیں ہے، لیکن اس سے اس کی تاریخی اہمیت میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو عوامی اسٹیج کے لیے لکھا اور کھیلا گیا، وہ پہلا ڈراما ہے جسے عام مقبولیت نے ملک میں شہر شہر اور اودھ میں گاؤں گاؤں پہنچادیا۔وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو چھپ کر منظر عام پرآیا اور سیکڑوںمرتبہ شائع ہوا۔ وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو ناگری،گجراتی اور مرہٹی خطوں میں بھی چھاپا گیا۔‘‘10

مسعودحسن رضوی ادیب کے اس قول سے یہ سمجھ میں آتاہے کہ وہ بھی اندر سبھا امانت کو اردو کاپہلا  ڈراما مانتے ہیں۔ تاہم ان کا ماننا ہے کہ اندرسبھا امانت کو اردو ڈرامے میں اولیت حاصل توہے لیکن صرف اورصرف عوامی اسٹیج کی حیثیت سے۔جب کہ ان کے نزدیک اردو کا پہلا ڈراما ’رادھاکنہیاکاقصہ‘ ہی ہے۔

چھٹانظریہ

’اردوئے معلی‘ کے قدیم اردو نمبر، شمارہ 9میں، اردو کے مشہور ادیب خواجہ احمد فاروقی کا ایک مضمون بعنوان ’اردو کا قدیم ترین ڈراما‘ چھپا تھا۔ اس میں فاروقی صاحب نے ایک قدیم مخطوطہ،جس میں ڈرامے کا ڈیڑھ سین موجود ہے، پیش کرکے اس کو اردو کا پہلا ڈراما بتایاہے۔

فاروقی صاحب لکھتے ہیں:

’’جہاں تک میرا علم ہے،اردو کا کوئی ڈراما ان تاریخوں سے پہلے کا نہیں ملتا۔ اگر یہ اولین ڈراما نہیں تو اردو کے قدیم ترین ڈراموں میں ضرورشامل ہے۔‘‘11

اخلاق اثر،فاروقی کے اس نظریے کی  حمایت میں تحریرکرتے ہیں:

’’اس لیے اردو کا پہلا اور قدیم ترین ڈراماموجودہ تحقیق کی روشنی میں خواجہ احمد فاروقی کا تلاش کردہ ہے۔‘‘ 12

فاروقی صاحب کی اس نئی تحقیق سے اردو ڈرامے میں ایک نیا باب کھلا تھا،خود فاروقی صاحب اس سلسلے میں مزید تفصیلات اور تحقیقات میں لگے  ہوئے تھے، اور وہ اس  سلسلے میں انگلستان بھی جانے والے تھے،لیکن اسے اردوڈرامے کی بد قسمتی ہی کہیے کہ اس سے پہلے کہ فاروقی صاحب انگلستان جاتے، موت کا فرشتہ انھیں کہیں اور لے کر چلا گیا اور اس طرح اس نئی تحقیق کا سفر اپنی منزل تک پہنچنے سے قبل ہی ختم ہو گیا۔

ساتواں نظریہ 

اردو ڈرامے کی ابتدا سے متعلق ڈاکٹر مسیح الزماں نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ ’خورشید‘ اردو کا پہلا ڈراما ہے۔ ڈاکٹر مسیح الزماں نے ہی ڈراما ’خورشید‘ کو پہلی بار بڑے اہتمام کے ساتھ مرتب کرکے شائع کرایا ہے۔اپنے مرتبہ ڈراما ’خورشید‘کے مقدمے میں انہوں نے لکھا ہے :

’’رستم و سہراب1871 میں اسٹیج ہوا۔ اگر خورشید کے اسٹیج کیے جانے کے کچھ دنوں پہلے اسی کمپنی اور اسی ڈاکٹر کے اہتمام میں اردو کا ڈرامہ اسٹیج کیا جاچکا ہوتا تو مرزبان خورشیدکے دیباچے میں ہرگز نہ لکھتے کہ ’’زبان ہندوستان میں آج تک کوئی کھیل یا ناٹک لکھا گیادیکھنے میں نہیں آیا۔‘‘اس لیے تھیٹر کے اس دورمیں خورشید کی اولیت تسلیم کرنی چاہیے۔‘‘  13

مذکورہ بالا نظریات کے علاوہ بعض محققین نے اردوڈراما کی ابتداسے متعلق اور بھی کچھ نظریات پیش کیے ہیں۔تاہم ان نظریات میں مضبوطی کافقدان ہے لہٰذاہم ان سے قطع نظرکرتے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ مذکورہ بالا جتنے نظریات پیش کیے گئے ہیں وہ سارے کے سارے دلائل و براہین کی روشنی میں اپنی اپنی جگہ صحیح،مدلل اورمکمل ہیں۔ اور اس وجہ سے ان میں سے کسی بھی نظریے کو نظر انداز کرنا مشکل ہے، لیکن اب تک جتنے حقائق سامنے آئے ہیں ان کی بنیاد پر یہی کہا جا سکتا کہ ’اندر سبھا‘ ہی اردو کا پہلاباضابطہ ڈرامے ہے جو ڈراما کے تقاضوں پربہت حدتک کھرا اترتا ہے اور نواب واجدعلی شاہ کی مثنوی ’رادھا کنہیا کا قصہ‘ کو اگرچہ ’اندرسبھا‘ امانت پرزمانی تقدم حاصل ہے لیکن وہ شاہی اسٹیج پرپیش کیا گیا تھا جہاں عوام الناس کی پہنچ ناممکن تھی اس لیے اسے اردوکاپہلاڈرامہ کہا جاسکتاہے۔

حواشی

1 اردو ڈرامے کا تاریخی وتنقیدی پس منظر،ڈاکٹر محمد اسلم قریشی، ص274

2 دیباچہ، لکھنؤ کا عوامی اسٹیج،سید مسعود حسن رضوی ادیب، کتاب نگر دین دیال روڈ لکھنؤ، 1957، ص 6,7

3 اردو ڈراما کا ارتقا: عشرت رحمانی،ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، 2020، ص146، 

4 اردو ڈراما اور ابراہیم یوسف: ڈاکٹر محمد تاتار خان، شالیمار پرنٹرزاینڈپبلی کیشنز،حیدرآباد،1998، ص248

5 دیباچہ،لکھنؤکا شاہی اسٹیج،مسعودحسن رضوی ادیب، کتاب نگر دین دیال روڈ لکھنؤ1957، ص12

ایضاً،ص171

7 اردو ڈراما :روایت اور تجربہ،ڈاکٹر عطیہ نشاط،نصرت پبلشرز،لکھنؤ،1973، ص57

8 اردو تھیٹر۔جلد اول،ڈاکٹر عبد العلیم نامی، انجمن ترقی اردو پاکستان، انجمن پریس کراچی،1962، ص118

9 اردو ڈراما :روایت اور تجربہ، ڈاکٹر عطیہ نشاط، نصرت پبلشرز، لکھنو ٔ،1973،  ص 307 

10 دیباچہ، لکھنؤ کا عوامی اسٹیج: سید مسعود حسن رضوی ادیب، کتاب نگر دین دیال روڈ لکھنؤ، 1957، ص7,6

11 اردو کا قدیم ترین ڈراما: خواجہ احمد فاروقی، اردوئے معلی۔ قدیم اردو نمبر،ص256

12 اردو کا پہلا ڈراما،اخلاق اثر،پاشا پریس بھوپال، 1978، ص7،

13 خورشید،مرتبہ ڈاکٹرمسیح الزماں،ص 13,12


Dr. Shahbaz Arshad

Khaja Bandanawaz University

Gulbarga- 585104 (Karnataka)

Mob.: 6281262057

Email.: arshad@kbn.university


احسان سیوانی کو یاد کرتے ہوئے، مضمون نگار: اشتیاق سعید

 

اردو دنیا، فروری 2024


ممبئی میں رہنے بسنے والے زیادہ تر افراد رات گئے تک جاگنے اور صبح دیر تک سوئے پڑے رہنے کے عادی ہوتے ہیں، بالخصوص فنونِ لطیفہ نیز ادب سے وابستگی رکھنے والی شخصیات زیادہ تر رات کے آخری پہرہی بستر کی آغوش میں پناہ لیتی ہیں۔ خاکسار کا شمار بھی اسی قبیل کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ رات بھر الوؤں کی طرح جاگنا اور دِن چڑھے تک سوتے رہنا۔

 ایک دوپہر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا کہ خلافِ توقع موبائل کی گھنٹی گھنگھنائی۔ میں چونک کر اٹھ بیٹھا،موبائل اٹھا کے دیکھا تو احسان سیوانی کا نام فلیش ہورہا تھا۔ میں نے فوراً کال ریسیو کی۔ ’السلام علیکم‘ مخاطب کی آواز سرسرائی۔ ’’میں احسان سیوانی کاچھوٹا داماد بول رہا ہوں۔آج صبح دس بجے ان کا انتقال ہوگیا۔‘‘ اتنا سنتے ہی کب موبائل ہاتھ سے چھوٹ کر بستر پر گِرا مجھے ہوش نہیں۔ ذہن سوچنے لگا ابھی پرسوں ہی تو میں ان سے مِل کر آیا تھا۔ گھنٹے بھر میں ہم نے جانے کتنے سارے منصوبے بنائے تھے۔ وہ اپنی کتاب ’یادوں کے سائے‘ کی رسمِ رونمائی کرانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے بہتر ٹھکانہ چاہتے تھے۔ پہلی کتاب ’مٹی کی مہک‘ کی اجرائی تقریب ان کی بڑی بیٹی کے اسکول کے ہال میں بڑی نفاست کے ساتھ منعقد ہوئی تھی۔وہ ویسا ہی پروگرام چاہ رہے تھے۔ مگر بیٹی کا اسکول اب اس مقام سے تقریباً تین کلو میٹر دور چلا گیا تھا۔ کرائے کی جگہوں کا عالم یہی ہوتا ہے۔ دوسرے دو تین ہال جو آسانی سے دستیاب ہوسکتے ہیں وہ ریلوے لائن سے ملحق ہیں لہٰذا ہر دو تین منٹ کے بعد آنے جانے والی لوکل اور میل ٹرینوں کی گڑ گڑاہٹ سامعین کی سماعت پر بار بن سکتی ہے۔میں نے انہیں میراروڈ میں واقع اندرا گاندھی میونسپل ہاسپٹل کے پچھلے حصے میں پہلی منزل پر قائم کلچرل ہال کے تعلق سے بتایا۔ وہ خوش ہوئے اور کہا وہ ہال میرا دیکھا بھالا ہے چھ آٹھ مہینے قبل میں ایک ہندی کے پروگرام میں وہاں شریک تھا۔ وہ ہال بہتر ہے وہاں اردو والوں کے علاوہ ہندی والے بھی شریک ہوجائیں گے۔ بس میری صحت ٹھیک ہوتے ہی وہ ہال بک کرلو۔ اِن شاء اللہ میں دس پندرہ روز میں چلنے پھرنے کے قابل ہوجاؤں گا۔

 انھوں نے سیوان کے شعرائے کرام پر ہندی میں مرتب کی ہوئی سمیع بہواروی کی کتاب دِکھائی۔میں کتاب کی ورق گردانی کررہا تھا اور وہ اس کتاب پر زبانی تبصرہ فرما رہے تھے۔میں ان کی قوتِ گفتار اور رفتار پر حیران تھاکہ یہ کم گو آدمی آج کس قدر گفتگو کر رہا ہے۔ اسی دوران انھوں نے پورے یقین واعتماد کے ساتھ کہا تھا۔ ’’اشتیاق صاحب میں تمھیں سیوان لے چلنا چاہتا ہوں، وہاں کے تمام شعرا و ادبا تمھیں جانتے ہیں، سبھوںسے مِل کر تمھیں انتہائی خوشی ہوگی، بالخصوص ڈاکٹر ارشاد احمد اور سمیع بہواروی سے تمھیں ملوانا چاہتا ہوں‘‘۔افسوس ! کہ ان کی یہ خواہش دِل میں ہی رہ گئی۔

احسان سیوانی کی ولادت 11جولائی 1951 کو موضع بہوارہ، تھانہ بڑہریا ضلع سیوان کے ایک متوسط مذہبی گھرانے میں ہوئی۔ جن کا آبائی پیشہ کاشتکاری تھا۔والدِ محترم مولوی اقبال حسین اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس انعام و احسان سے خوش ہوکر نومولود کا نام احسان احمد تجویز فرمایا۔ والدہ حدیث النساء کچھ اردو کی شد بد رکھتی تھیں چنانچہ وہ انھیں کم عمری سے ہی الف سے اللہ پڑھانے لگی تھیں۔ یوں بھی آغوشِ مادر اولاد کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔بہر حال! احسان احمد کی پرورش گاؤں کے پرفضا ماحول میں ہوتی رہی۔ وہ بھی اسی ماحول میں گِرتے پڑتے،کھیلتے کودتے مدرسہ جانے کی عمر کو پہنچے تو والدِ محترم نے گاؤں ہی کے مدرسے میں داخل کرادیا۔اس لحاظ سے ابتدائی تعلیم کا سہرا گاؤں کے مکتب کے سر بندھتا ہے۔ پھر گاؤں سے تقریباً تین کلو میٹر پر واقع بڑہریا کے جی ایم ہائی اسکول سے 1968 میں انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔ ہائی اسکول کے زمانے میں اسکول میں جب بھی کوئی جلسہ منعقد ہوتا تو احسان کو نعت ِ پاک پڑھنے کی دعوت دی جاتی چونکہ اِن کی آواز کافی مترنم تھی۔ یہیں سے انھیں شعر گوئی کا بھی چسکا پڑا اور ٹوٹے پھوٹے مصرعے موزوں کرنے لگے تھے۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کی خاطرڈی اے وی پی جی کالج سیوان میں داخلہ لے لیا۔ حالانکہ والدہ سیوان جانے دینا نہیں چاہتی تھیں۔لیکن ان کے پڑھنے کے ذوق و شوق نے انھیں اجازت دینے پر مجبور کردیا۔ ان دنوں معروف ادیب ڈاکٹر انور سیوانی صدر شعبۂ اردو اور فارسی تھے۔ اسی سبب کالج کا ماحول خالص ادبی تھا۔ انھیں دنوں کالج میں کل ہند مشاعرے کا انعقاد ہوا جس میں ترنم اچھا ہونے کی بنا پر احسان کو بھی موقع دیا گیا۔انھوں نے اپنی مترنم آواز کا وہ جادو جگایا کہ سارے کالج میں جانے پہچانے جانے لگے۔  ڈاکٹر انور سیوانی اپنے دولت کدے پر ماہانہ نشست کا اہتمام کیا کرتے تھے جس میں شہر کے سبھی شعرا کی شرکت ہوا کرتی تھی۔ احسان سیوانی بھی اِس نشست میں پابندی سے شریک ہونے لگے۔

احسان سیوانی کی ذہنی پرداخت میں سیوان کا قدرے حصہ ہے۔ سیوان کے اسی کالج سے بی ایس سی کی سند حاصل کرکے برائے ملازمت بمبئی کے مضافاتی علاقہ باندرہ آگئے۔ کیونکہ باندرہ میں اِن کے برادرِ کلاں کی رہائش تھی۔ آپ سائنس کے طالب علم تھے اس لیے جلد ہی انجمن خیرالاسلام کے ادارے میں بحیثیت سائنس اور میتھ ٹیچر ملازم ہوگئے۔ ان دنوں تنخواہ قلیل تھی جیسے تیسے گزارا ہونے لگا۔ قریب چھ ماہ بعد جب ملازمت مستقل ہوئی تو کچھ روپئے بھی بڑھے۔وہ اخراجات کی گاڑی پرانی تنخواہ سے ہی کھینچتے رہے اور بڑھی ہوئی رقم پس انداز کرتے رہے۔دوسال بعد یہ رقم خاصی ہوگئی،پھر انھوں نے کرلا (مشرق) میں واقع قریش نگر کی پہاڑی پر ایک کمرہ خرید لیا اور باندرہ سے کرلا منتقل ہوگئے۔ 

میری ملاقات اِن سے 1995 میں عارف اعظمی کے توسط سے ہوئی۔ واقعہ یوں ہے کہ میرے ایک بزرگ دوست شعبان اعظمی جو سینٹرل ریلوے کے ماٹونگا ورک شاپ میں بطور الیکٹریشین ملازم تھے، سائڈ بزنس کے طور پر منڈپ ڈیکوریٹر کا بھی کام پھیلا رکھا تھا۔آپ ڈرامے اور مشاعرے کے بے حد شوقین تھے۔ایک روز ہم یوں ہی بیٹھے باتیں کر رہے تھے،جانے کیسے باتوں کے دوران مشاعرے کا ذکر چل پڑا۔ شعبان صاحب کہنے لگے۔ ’’میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب مل جل کر سال میں ایک مشاعرہ تو کرہی سکتے ہیں‘‘۔ سارے لوگوں نے اِن کی بات پر کان دھرا اور باہمی اتفاق سے طے پایا کہ ہم سال میں ایک مشاعرہ کیا کریں گے اور ادارہ سب رنگ کی بنیاد ڈالی گئی۔ اب مسئلہ یہ کھڑا ہوا کہ آخر مشاعرہ کریں گے کب؟ کسی نے تجویز رکھی 15 اگست جشنِ آزادی کے موقع پر کیا جائے۔ دوسرے نے یہ کہہ کے بات خارج کردی کہ اگست میں برسات کا موسم ہوتا ہے۔ پھر بات 26 جنوری یومِ جمہوریہ پر آٹکی۔شعبان صاحب نے کہا یومِ جمہوریہ تو مناسب ہے لیکن اس کے لیے ابھی کئی مہینے باقی ہیں۔اس پر خاکسار نے عرض کیا بھئی تین چار روز بعد رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہونے کو ہے۔کیوں نہ ہم ’عید ملن مشاعرہ ‘ منعقد کریں۔اس پر سبھی عش عش کر اٹھے اور طے پا گیا کہ عید کے فوراً بعد ’عید ملن مشاعرہ‘ منعقد کیا جائے گا۔ کرلا مشرق میں واقع قریش نگر سے عارف اعظمی اور راشد کانپوری جوکہ میرے عزیز دوستوں میں سے تھے، ہر روز پابندی کے ساتھ کرلا مغرب مجھ سے ملنے آیا کرتے تھے۔اگرچہ کبھی کبھار عیش کنول بھی آجاتے تھے۔ ’عید ملن مشاعرے ‘ کی خبر اِن احباب کی سماعت تک بھی پہنچی، انھوں نے خیر مقدم کیااور بھر پور تعاون کا وعدہ بھی کیا۔ اس تعلق سے علاقے کی چند بارسوخ شخصیات سے بھی گفتگو کی گئی۔انہوں نے بھی دامے درمے سخنے ساتھ رہنے کی ہامی بھری۔ پھر ہم نے اپنے میونسپل کاؤنسلر عبداللطیف لالہ سے مشورہ کیا انھوں نے اخراجات کا بڑا حصہ اپنے ذمے لے لیا،پھر کیا تھا،شاندار مشاعرہ منعقد ہوا۔ جس میں شہر و اطراف کے تمام بڑے شعرا نے شرکت کی اور مشاعرہ پوری آن بان اور شان کے ساتھ صبح فجر تک چلتا رہا، بڑی واہ واہ ہوئی جس کا نشہ غالباً چھ ماہ تک ہم سب پر طاری رہا۔

آئندہ سال رمضان کا مہینہ آتے ہی ’عید ملن مشاعرہ‘ کی تیاری شروع ہو گئی، شاعروں کی فہرست مرتب ہونے لگی۔ چند احباب نے مشورہ دیا کہ فہرست میں دو ایک ترنم سے پڑھنے والے شعرا کو بھی شامل کیا جائے، عارف اعظمی نے فوراً احسان سیوانی کا نام لکھوا دیا۔ مشاعرہ ہوا،سیوانی صاحب کو نعت ِ پاک پڑھنے کے لیے بلایا گیا۔انھوں نے اپنی مترنم آواز کا وہ جادو جگایا کہ سامعین جھوم جھوم اٹھے۔پھر چند نوخیز شاعروں کے بعد دوبارہ انھیں دعوتِ سخن دی گئی۔ خاموشی سے اٹھے اور انتہائی سادگی سے مائک پر تشریف لائے اور بغیر سلام کلام کیے اِس دِل پذیر انداز میں تان چھیڑا کہ نوجوان کیا، ضعیف العمرسامعین کے بھی دِل عشق و محبت کے سرور سے سرشار بلیوں اچھلنے لگے اور مجمع پر وہ سماں بندھا کہ الاماں! احسان صاحب کو محض ایک غزل پڑھنے کا موقع عنایت کیا گیا تھا مگر سامعین کے اصرار نے اِن سے تین غزلیں سن لیں باوجود اس کے ان کی تشنہ لبی بجائے سیراب ہونے کے تشنگی کے صحرا میں ریت پھانکتی معلوم ہوتی تھی۔مکرر مکرر اور ونس مور کا شور تھا کہ ستاروں سے ٹکرا کر بھیگتی رات کے سناٹے میں اِرتعاش پیدا کررہا تھا۔ ناظمِ مشاعرہ نے سامعین سے خطاب کیا اور احسان سیوانی کی توانائی سلب ہوجانے کی دہائی دی۔ وعدہ کیا کہ آئندہ تین چار شعرائے کرام کے بعد پھر انھیں دعوتِ کلام دیا جائے گا۔تب کہیں جاکر شور تھما اور مشاعرہ آگے بڑھا۔جی ہاں ! کہنے کو مشاعرہ آگے بڑھا،بظاہر احسان سیوانی نے جہاں چھوڑا تھا وہیں تھما رہا۔کئی ایک شعرائے کرام آئے اور گئے لیکن پھر وہ گرماہٹ وہ تپش لوٹ نہ سکی۔ حتیٰ کہ شاعرات کے لٹکے جھٹکے اور عشوہ طرازیوں کا بھی جادو نہ چل سکا۔ آخرکار مشاعرے کے صدر محترم رویندر جین نے مداخلت کی اور وہ بغیر دعوتِ سخن کے اٹھ کر مائک پر آئے اور نبی اکرم ؐ  کی شان میں نعتِ پاک کا نذرانہ پیش کیا اِن کے ایک ایک شعر پر لوگ داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے لگے اور مجمع تہہ و بالا ہوگیا۔ خیر صبح پانچ بجے مشاعرہ اختتام پذیر ہوا۔اس کے بعد مسلسل دس برس تک ’عید ملن مشاعرہ ‘ ہوتا رہا اور ہر مشاعرے میں احسان سیوانی کی شرکت یقینی ہوتی تھی۔ بعد کو قانونی پیچیدگیوں نے مشاعروں کی ڈور کاٹ دی مگر تعلق کی ڈور میرے اور احسان سیوانی کے درمیان ان کی آخری سانس تک مربوط اور مضبوط رہی۔

احسان سیوانی انتہائی ملنسار، سادہ مزاج اور صاف ذہن کے آدمی تھے۔ بناوٹ اور تصنع ان کے مزاج کا حصہ قطعی نہیں رہا۔ انانیت،غرور و تکبر تو شاید انھیں چھو کے بھی نہیں گزرے تھے۔ آپ لگ بھگ چالیس سال انجمن خیرالاسلام،مدنپورہ میں پوری تن دہی اور ایمانداری کے ساتھ تدریسی فرائض انجام دیتے ہوئے ملازمت سے سبکدوش ہوئے تھے۔ آپ کا نصب العین قوم کے بچوں میں تعلیم کو عام کرنااور انھیں تعلیم یافتہ بناناتھا۔ اس لیے آپ مدن پورہ،ممبئی ہی کے ایک میونسپل نائٹ اسکول میں بھی اپنی خدمات انجام دیا کرتے تھے۔ بعد کو اس اسکول کے پرنسپل بھی ہوئے۔علاوہ ازیں سہ پہر کے اوقات میں ایک تنظیم کے توسط سے جاری کوچنگ کلاسیس میں بھی معمولی اجرت پر اپنی خدمات انجام دیا کرتے تھے۔غرض کہ صبح چھ بجے گھر سے نکلتے اور رات 11بجے گھر لوٹتے۔ یہ سلسلہ کرلا سے میرا روڈ کی رہائش کے دوران بھی بدستور رہا۔ یاد رہے کہ کرلا سے مدن پورہ کا فاصلہ محض 12کلو میٹر  تھا جبکہ میرا روڈ کا فاصلہ 50 کلو میٹر ہے اور یہ تعلیم کا دیوانہ روز انہ سو کلو میٹر کا سفر کرتے ہوئے اپنی دیوانگی کو تسکین کے پہلو میں پناہ دیتا رہا۔ اب ایسا بھی نہیں تھا کہ انھیں روپئے پیسوں کا لالچ تھا اور وہ اپنی آمدنی میں اِضافے کی خاطر اتنی مشقت اٹھایا کرتے تھے۔اس بابت عرض ہے کہ آپ کی نرینہ اولاد نہیں ہے،اولادوں میں محض تین بیٹیاں ہیں،تینوں ہی تعلیم یافتہ ہیں اور تدریس کے پیشے سے منسلک ہیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے اب اپنے گھر بار کی بھی ہو چکی ہیں۔

احسان سیوانی نے گزشتہ برس حج بیت اللہ کا سفر بھی کرلیا تھا۔اب وہ اپنے تمام تر فرائض سے سبک دوش ہو چکے تھے،سرکاری وظیفے پر گزر بسر ہوتی تھی۔ آپ طبیعت سے کم آمیز اور کم گو رہے ہیں اس لیے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا نہ کے برابر تھا۔وہ اپنے تعلق سے برملا کہتے بھی ہیں  ؎

ہوں میں خاموش تو حیرت کیا ہے

بہت پہلے سے میں کم گو رہا ہوں

میں جہاں تک سمجھتا ہوں کم گوئی بری بات یا کوئی عیب نہیں ہے، یہ تو انسان کی طبعی صفات میں سے ایک ہے، یوں بھی لفاظ یا زیادہ بولنے والا شرفا میں قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، لوگ باگ ایسے شخص کو دروغ گو تصور کرتے ہیں، ہوتا بھی ہے کہ زیادہ بولنے والا بولتے بولتے کچھ ایسے نازیبا جملے بھی ادا کر بیٹھے جو سننے والے کو ناگوار گزرے۔

لاک ڈاؤن کے زمانے میں احسان سیوانی کورونا سے ایسے خائف ہوئے کہ لوگوں سے فاصلہ بنائے رکھنے کے لیے دو برس تک گھر کے قیدی بنے رہے۔ اِن کا فلیٹ عمارت کی پانچویں منزل پر واقع ہے، یہ کبھی نیچے نہیں اترے۔ ممکن ہے اسی سبب انھیں سانس کا عارضہ ہوگیا۔ رہ رہ کے سانسیں پھولنے لگیں۔ لیکن انھوں نے ڈاکٹر سے رجوع نہیں کیا۔ اور جب مرض حد سے بڑھ گیا تب تک دیر ہو چکی تھی۔جانچ سے معلوم ہوا آپ کے پھیپھڑے ناکارہ ہوچکے ہیں۔ دو ماہ ہسپتال میں آکسیجن پر رہنے کے بعد بھی افاقہ نہیں ہوا۔آخرش ڈاکٹروں نے انھیں گھر پر ہی رہنے کی صلاح دی اور آکسیجن کا سیٹ اَپ اِن کے کمرے میں اِنسٹال کردیا۔دوچار دِن میں جب کبھی اِن کا ادبی گفتگو کا دِل چاہتا مجھے فون کرلیتے اور دس پندرہ منٹ مسلسل بولتے رہتے۔جب سانس پھولنے لگتی اور دم اکھڑنے لگتا تو خدا حافظ کہہ کے فون بند کردیتے۔

بہرحال! سیوانی صاحب کا زیادہ تر وقت گھر کی چاردیواریوں کے درمیان لکھنے پڑھنے میں گزرتا رہا۔ شاعری آپ کی سرشت میں شامل تھی۔ آپ دورانِ طالب علمی ہی شعر کہنے لگے تھے۔ مقامی اخبارات میں چھپنے کے ساتھ ساتھ خوش گلو ہونے کے سبب مشاعرے بھی پڑھنے کے مواقع ملتے رہے۔مشاعروں نے انھیں بطور شاعر ایک شناخت عطا کی،نتیجتاً لوگ باگ انھیں پہچاننے لگے۔

نیوز ٹاؤن پبلشرز کے توسط سے آپ کے دو مجموعے جنوری 2017 میں ’مٹی کی مہک‘ اور نومبر 2022 میں ’یادوں کے سائے‘ شائع ہوکر مقبول عام ہوئے۔ دونوں مجموعوں کو بالترتیب بہار اردو اکادمی اور اتر پردیش اردو اکادمی نے انعام سے نوازا۔ آپ ہمارے ادارے سے شائع ہونے والے سہ ماہی رسالہ ’ادب گاؤں ‘ کی مجلس ادارت میں بھی شامل تھے اور گاہے گاہے کفالت بھی کیا کرتے تھے۔ ابھی حال ہی میں ہم نے ’ادب گاؤں ‘ میں احسان سیوانی پر ایک مبسوط گوشہ شائع کیا ہے۔ 

احسان سیوانی نے انسانی زندگی کو اپنی شاعری کا محور بنایا ہے،  انسان کے روزمرہ کو شاعری کے سانچے میں کچھ اس انداز سے ڈھالا ہے کہ انسان کا باطن تمام عیوب اور خوبیوں کے ساتھ شفاف شیشے کی مانند عیاں ہوجاتا ہے۔شعر ملاحظہ کریں ؎

محبت اور اخوت سب تو رخصت ہوگئے گھر سے 

بس اِک مضبوط رشتہ رہ گیا انسان کا زرسے

اِک مختصر دیوان ہے ستر صفحات کا

ہے آخری صفحہ یہ کتابِ حیات کا

احسان سیوانی پہلے شعر میں فرما رہے ہیں کہ محبت اور اخوت کا رشتہ جو ہمارے درمیان سرمایۂ حیات کی مانند اٹل تھا وہ اب جاتا رہا۔ہم نے اب اپنا اصل اور مضبوط رشتہ زر کو تسلیم کر لیا ہے۔یہ ایک برہنہ حقیقت ہے جو ہمارے معاشرے کو کمزور کر رہا ہے۔اسی کے چلتے معاشرے میں برائیاں پنپ رہی ہیں، بھائی بھائی کا دشمن ہوا جاتا ہے،بیٹے باپ کا قتل کیے دے رہے ہیں،بیوی شوہر سے دغا کر رہی ہے،بیٹیاں،بہنیں خود فریبی میں مبتلا ہیں۔

دوسرے شعر میں احسان سیوانی نے زندگی کا احاطہ کیا ہے۔وہ کہتے ہیں انسانی زندگی کی بساط کیا ہے ؟ ستر سال ؟؟یعنی انسان کی زندگی ستر صفحات کا محض ایک مختصر دیوان ہے اور جو بھی سال گزر رہا ہے وہ آپ کی کتابِ حیات یعنی آپ کی زندگی کا آخری صفحہ ہے۔موت کا کوئی دن معین نہیں ہے۔وہ کبھی بھی،کسی بھی وقت تمھارے ہمارے درِ زیست پر دستک دے سکتی ہے۔آخر کار 12جون 2023 کی صبح دس بجے موت نے احسان سیوانی کے درِ زیست پر دستک دے ہی دی، دستک کیا دیا ساتھ ہی لے گئی،اب ان کا یہ شعر بار بار ذہن میں گردش کرتا ہے اور دماغ کے خلیوں سے ٹکراتا رہتا ہے  ؎

اپنا پتہ بتایا نہ کوئی خبرکبھی

ایسا گیا کہ پھر نہیں آیا ادھر کبھی


Mr.  Ishtiyaque Saeed

B-01, New Mira Paradise

Geeta Nagar, Phase

Mira Road-401107 (Thane), Mumbai

Cell. : 9930211461

اردو زبان کے آغاز سے متعلق مختلف نظریات کا جائزہ، مضمون نگار: امتیاز احمد


اردو دنیا، فروری 2024

کسی بھی زبان کے آغاز کی کہانی اس قوم کی تہذیب و تمدن، معاشرت و ثقافت، سیاست اور سماجیات کے ارتقا سے وابستہ ہوتی ہے۔ اس کی نشوونما کسی خاص لمحے یا وقت میں نہیں ہوتی بلکہ یہ اپنی مستقل شکل اختیار کرنے سے پہلے مختلف مراحل سے گزرتی ہے جس کو رنگ روپ بخشنے اور نکھارنے میں مختلف عوامل اور عناصر کار فرما ہوتے ہیں۔ اردو زبان کو بھی وجود میں آنے سے پہلے مختلف مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔ زبان کے اس ارتقائی سفر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی ’کتاب تاریخ ادب اردو، جلد اول‘ میں لکھتے ہیں:

’’مختلف تہذیبی عوامل، رنگارنگ قدرتی عناصر، مسلسل میل جول اور رسومِ معاشرت گھل مل کر رفتہ رفتہ صدیوں میں جاکر کسی زبان کے خدوخال اجاگر کرتے ہیں۔ بولی صدیوں میں جاکر زبان بنتی، اپنی شکل بناتی اور اپنا خد و خال اجاگر کرتی ہے۔‘‘ (تاریخ اردو اردو، ص 1)

مولانا سلیمان ندوی نے بھی زبان کے تشکیلی مراحل کو اپنی کتاب’ نقوشِ سلیمانی‘ میں اجاگر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ قوموں اور زبانوں کی تاریخ ایک دن میں نہیں بنتی، ان کا خمیر اٹھتے، مزاج بنتے اور ایک صورت پکڑتے صدیاں لگتی ہیں۔‘‘ (نقوشِ سلیمانی، ص:100)۔

زبان کے ادبی معیار اور حیثیت کی تاریخ اس زبان کے آغاز سے شروع ہوتی ہے۔ ہر زبان کی طرح اردو کو بھی معاشرتی ضرورت اور سماجی اختلاط نے پیدا کیا جس میں دھیرے دھیرے تہذیبی خیالات اور ادبی تخلیقات کے لیے وسعت پیدا ہوتی گئی۔ انہی ضروریات و مقتضیات نے اردو کے وجود کو ممکن بنایا اور اس کے لیے ماحول سازگار بنایا اور اسے ایک ایسے معیار پر پہنچایا کہ اٹھارویں و انیسویں صدی میں متعدد ملکی و غیر ملکی علما نے ہندوستانی کے روپ میں اسے ملک کی عوامی زبان کا لقب دیا۔ اردو زبان کی تاریخ ایک طرح سے ہندوستان کی ہزار سالہ تاریخ ہے۔ اسی دور میں ہندوستان کی دوسری زبانوں کی بھی توسیع ہوئی۔ اس دوران ہندوستانی معاشرہ عروج و زوال اور تغیر و تبدل کے جن مراحل سے گزرا اس کا اثر یہاں کی ہر زبان و ادب پر پڑا یعنی تاریخی اور سماجی صورت حال نے کسی بولی اور زبان کو فروغ دیا تو کسی بولی و زبان کی نشوونما کو روک دیا۔ چنانچہ دسویں صدی کے بعد سے کچھ ایسی تاریخی صورت حال پیدا ہوئی کہ ہند آریائی زبانوں کے گروہ میں اس نئی زبان نے جنم لیا جسے آج اردو کہا جاتا ہے۔ 

اردو کا اصل مخرج و منبع کون سی زبان ہے؟ اس کا خمیر کس علاقے کی مٹی سے تیار ہوا؟ اس کا رنگ و روپ کہاں تیار ہوا؟ یہ کچھ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب دینے کے لیے ہمارے پاس نہ کوئی دستاویزی ثبوت ہے اور نہ ہی کوئی سائنٹفک حوالہ۔ اسی وجہ سے یہ مسئلہ ماہرینِ لسانیات کے نزدیک کافی پیچیدہ رہا ہے۔ لہٰذا اردو زبان کے دوسری قدیم زبانوں کے ساتھ تقابلی مطالعہ، قواعد، لفظیات، تراکیب اور اس کے لب و لہجے کے تجزیے کی روشنی میں ماہرینِ لسانیات اور ادبا نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔ 

سید سلیمان ندوی اپنی کتاب’ نقوشِ سلیمانی‘ میں اردو کو سندھ کی پیداوار قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق مسلمان سب سے پہلے محمد بن قاسم کی قیادت میں ایک بڑی تعداد میں سندھ میں داخل ہوئے اور اس کو فتح کر کے اسلامی حکومت کے ایک ریاست بنایا۔ مسلمان تقریباً تین سو سال تک سندھ میں قیام پذیر رہے۔ ان کے اور مقامی باشندوں کے اختلاط اور میل جول سے ایک نئی زبان کا وجود ہوا۔ سید سلیمان ندوی اپنی کتاب میں زبان کی پیدائش کے مختلف اسباب و وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اس میل جول سے جو زبان بنی اس کا پہلا نمونہ ہم کو 762ھ میں فیروز شاہ تغلق کے عہد میں سندھ میں ملتا ہے۔‘‘ (نقوشِ سلیمانی ،ص252) 

سید سلیمان ندوی اپنے نظریے کی تائید میں جو دلائل پیش کرتے ہیں وہ گرچہ اس لحاظ سے درست ہیں کہ مسلمانوں نے سندھ کی تہذیب و تمدن اور معاشرت پر اپنے اثرات مرتب کیے اور وہاں کی سندھی زبان پر بھی اثرانداز ہوئے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عربی اور سندھی کے اختلاط سے اردو وجود میں آئی البتہ یہ بات درست ہے کہ مسلمانوں نے اردو کی ترویج و ترقی، حلقہ اثر کی وسعت اور اس کو علمی و ادبی رنگ و روپ دینے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے جیسا کہ ماہر لسانیات سنیتی کمار چٹرجی اپنی کتاب ’ہند آریائی اور ہندی‘ میں لکھتے ہیں:

’’اگر مسلمان ہندوستان میں نہ آتے تو جدید ہند آریائی زبانوں کے ادبی آغاز و ارتقا میں دو ایک صدی کی تاخیر ضرور ہوتی۔‘‘ (ہند آریائی اور ہندی ، ص 971)۔

مسلمان جس حیثیت سے بھی ہندوستان میں داخل ہوئے ہوں انھوں نے اسے اپنا وطن سمجھا اور یہیں کی مٹی میں گھل مل گئے البتہ مسلمان تعداد میں بہت تھوڑے تھے اس لیے وہ اپنی زبان مقامی لوگوں پر نافذ نہ کر سکے لہٰذا انھوں نے یہاں کی کسی مقامی بولی کو اپنایا اور اسے اپنے خیالات و احساسات کا ذریعہ اظہار بنایا اور اس میں عربی و فارسی الفاظ داخل کیے۔ اس طرح مقامی اثرات اور مسلمانوں کے لسانی و تہذیبی اختلاط و امتزاج سے اس بولی نے ایک نیا رنگ وآہنگ اختیار کر لیا جس نے رفتہ رفتہ مختلف ناموں مثلاً ہندوی، ہندوستانی، گجری، دکنی اور ریختہ کے ناموں سے مقبول عام ہوتی ہوئی اردو کا روپ دھار لی۔

اردو کی جائے پیدائش کا دکنی حوالہ دیتے ہوئے نصیر الدین ہاشمی اپنی کتاب’ دکن میں اردو‘ میں دکن کو اردو کا اصل منبع و مخرج قرار دیتے ہیں۔ نصیر الدین ہاشمی استدلال میں کہتے ہیں کہ مسلمان سب سے پہلے سندھ کے علاوہ سواحلِ مالابار اور کارومنڈل پر بھی نمودار ہوئے تھے جن کا مقصد سیر و تفریح کے علاوہ کاروبار اور تجارت کو فروغ دینا بھی تھا جس کے حصول کے لیے سماجی روابط ضروری تھے لہذا سماجی روابط اور اختلاط بڑھتے گئے۔ اس سماجی اختلاط اور میل جول نے ایک نئی زبان کے وجود کو ممکن بنایا جو موجودہ اردو کی قدیم شکل تھی۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’برج بھاشا میں عربی، فارسی، ترکی، انگریزی اور پرتگالی الفاظ مل ملا کر ایک نئی زبان مروج ہوگئی جو شاہ جہاں کے زمانے میں اردوئے معلیٰ کے مبارک نام سے نامزد ہوئی اور تیمور کے زمانے میں ہندو مسلمانوں کے ربط ضبط اور روزانہ مراسم نے جنوبی ہند میں بھی ایک زبان کی بنیاد ڈالی جسے آج تک دکھنی کے لفظ سے یاد کرتے ہیں۔‘‘  (دکن میں اردو، ص: 5)

نصیر الدین ہاشمی نے اپنے نظریے کی تائید میں مسلمانوں کی آمد کے علاوہ دوسرے منطقی اور مستند شواہد پیش نہیں کیے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا نظریہ محض قیاس آرائی پر مبنی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دکنی بذات خود ایک زبان ہے جس میں نثری و شعری جواہر پارے موجود ہیں لہٰذا اردو کو دکنی کی قدیم شکل قرار دینا درست نہیں۔

ماہرِ لسانیات محمد حسین آزاد نے برج بھاشا کو اردو زبان کی بنیاد اور سرچشمہ قرار دیا ہے۔ وہ اپنی کتاب ’آبِ حیات‘ میں لکھتے ہیں:  ’’اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے اور برج بھاشا خاص ہندوستانی زبان ہے‘‘۔ (آب حیات، ص:16)محمد حسین آزاد کا خیال ہے کہ مسلمانوں کی زبان فارسی اور ترکی تھی اور ہندوؤں کی زبان برج بھاشا اس لیے ان دو زبانوں کے آپسی میل جول اور اختلاط سے اردو زبان پیدا ہوئی۔ حسین آزاد اپنے نظریے کی وجہ سے بہت مشہور بھی ہوئے اور ایک زمانے تک اربابِ اردو اور علمائے نقد و تنقید نے اسی کو حرفِ آخر تصور کیا۔ برج بھاشا دلی کے قرب و جوار میں بولی جانے والی زبانوں میں خاص اہمیت کی حامل تھی۔ یہ آگرہ کی زبان تھی جو کہ مسلمانوں کا پایہ تخت بھی رہا۔ اس کے علاوہ اردو کے قدیم شعری نمونوں خاص کر امیر خسرو کے کلام پر اس کا گہرا اثر نظر آتا ہے۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر محمد حسن آزاد نے یہ قیاس کر لیا کہ اردو کی بنیاد برج بھاشا ہے حالانکہ جب ہم برج بھاشا اور اردو کے بنیادی ڈھانچوں کا تقابلی مطالعہ کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اردو کا برج بھاشا سے ماں بیٹی کا رشتہ نہیں بلکہ بہنوں کا رشتہ ہے مثلاً اردو کے تمام اسما، افعال، صفات اور ضمائر الف پر ختم ہوتے ہیں جبکہ برج بھاشا میں ’او‘ پر ختم ہوتے ہیں۔ برج بھاشا کا تعلق مغربی ہندی کی ان بولیوں سے ہے جو واؤ بولیاں کہلاتی ہیں جبکہ اردو کا رشتہ الف والی بولیوں مثلاً ہریانی اور کھڑی بولی سے ہے۔ 

محمد حسین آزاد کے نظریے کو سب سے پہلے محمود شیرانی نے یہ کہتے ہوئے رد کیا کہ اردو اور برج بھاشا کا تعلق ماں بیٹی کا نہیں بلکہ ان کا رشتہ بہن بہن کا ہے۔ محمود شیرانی اپنی کتاب ’پنجاب میں اردو‘ میں رقمطراز ہیں:

’’ہم اردو کو برج بھاشا کی بیٹی سمجھتے رہے ہیں لیکن جب ان دونوں زبانوں کی صرف و نحو، دوسرے خد و خال اور خصائص پر غور کیا جاتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے راستے مختلف ہیں۔ اردو جہاں اپنے اسما و افعال کو الف پر ختم کرتی ہے، برج واو پر ختم کرتی ہے۔ برج میں جمع کا طریقہ بہت سادہ اور سہل ہے لیکن اردو میں بہت پیچیدہ ہے۔‘‘ ( پنجاب میں اردو، ص: الف)۔ 

محمود شیرانی محمد حسین آزاد کے نظریے کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اردو کی اصل جائے پیدائش پنجاب ہے اور یہ پنجاب سے ہی دہلی میں وارد ہوئی وہ لکھتے ہیں:

’’اردو دہلی کی قدیم زبان نہیں ہے بلکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ دہلی جاتی ہے اور چونکہ مسلمان پنجاب سے ہجرت کر کے جاتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ وہ پنجاب سے کوئی زبان اپنے ساتھ لے کر گئے ہوں۔‘‘( پنجاب میں اردو، ص:ب)

محمود شیرانی اپنے نظریے کو ثابت کرنے کے لیے کچھ تاریخی شواہد پیش کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان لسانی خصوصیات کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں جو پنجابی اور قدیم اردو کے درمیان مشترک تھیں۔ وہ دونوں زبانوں کی تذکیر و تانیث، واحد و جمع، اسما  و افعال اور قواعد پر تقابلی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ان کی تذکیر و تانیث اور جمع اور افعال کے تصرف کا اتحاد اسی ایک نتیجے کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ اردو اور پنجابی زبانوں کی ولادت گاہ ایک ہی مقام ہے۔ دونوں نے ایک ہی جگہ تربیت پائی ہے اور جب سیانی ہو گئی ہیں تب ان میں جدائی واقع ہوئی ہے۔‘‘ (پنجاب میں اردو، ص:17) 

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شیرانی کا نظریہ کسی روایتی قیاس یا محض خیالی مفروضے پر منحصر نہیں ہے بلکہ انھوں نے اپنا نظریہ تاریخی شواہد و دلائل کے پس منظر میں لسانی تجزیہ کرتے ہوئے پیش کیا ہے جس کی تائید لندن یونیورسٹی میں لسانیات پر تحقیق کرتے ہوئے ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے اپنی کتاب ہندوستانی فونٹکس میں کی ہے۔ ڈاکٹر زور کے مطابق اردو کا سنگ بنیاد اصل میں مسلمانوں کی فتح دہلی سے بہت پہلے رکھا جا چکا تھا یہ اور بات ہے کہ اس نے اس وقت تک ایک مستقل زبان کی حیثیت حاصل نہیں کی تھی جب تک کہ مسلمانوں نے اس شہر کو اپنا پایہ تخت نہ بنا لیا۔ ان کے علاوہ انگریزی کے مستند عالم ٹی گراہم بیلی، جارج گریرسن نے بھی شیرانی کے نظریے کی تائید کی ہے جبکہ شیر علی سرخوش پہلے ہی اپنے تذکرہ اعجاز سخن میں اس قسم کے خیالات کا اظہار کر چکے تھے۔ 

محمود شیرانی کا یہ نظریہ بنیادی طور پر دو وجوہات کے تحت سے معرضِ وجود میں آیا۔ ایک یہ کہ اردو نے عربی و فارسی سرمایے سے اخذ و استفادہ کیا ہے۔ ہندوستان کی دیگر بولیوں اور زبانوں کے مقابلے اردو میں عربی و فارسی کے الفاظ کثیر تعداد میں ہیں۔ ان الفاظ کی فراوانی کو دیکھ کر شیرانی صاحب نے یہ خیال کر لیا کہ اردو اسلامی دور میں اسلامی اثرات سے وجود میں آئی اور اس کی ابتدا کا تعلق ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد اور ان کے اقتدار و قیام سے جوڑ دیا۔ یہ وجہ اپنے آپ میں غیر مدلل ہے کیونکہ ہر زبان اپنے دور کی دوسری زبانوں سے اخذ و استفادہ کرتی ہے، الفاظ و کلمات کو اپنے دامن میں جگہ دیتی ہے اور اس کے قواعد و ڈکشن کو فراخ دلی سے قبول کرتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس کا وجود ان زبانوں کے اثرات کی وجہ سے ہوا ہو۔ دوسری وجہ یہ کہ مسلمانوں کا وہ سرپرستانہ اور مربیانہ سلوک و برتاؤ ہے جس نے اس زبان کو سینے سے لگایا اور نوک پلک سنوار کر اس قابل بنایا کہ اس کے ذریعے شعری و نثری خیالات کا اظہار ہو سکے، اس میں علمی و فنی کتابیں لکھی جا سکیں۔ یہ وجہ بھی غیر عقلی اور منطقی ہے کیونکہ مسلمانوں کے سیاسی اقتدار، سرپرستی اور دہلی میں آمد سے پہلے بھی وہاں ایک زبان موجود تھی اور بازار میں بولی جاتی تھی۔ 

مسعود حسین خان اس دور کی مختلف بولیوں کے تقابلی اور لسانی مطالعے کے تناظر میں شیرانی کے نظریے کو غیر مستند قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق شیرانی نے قدیم اور دکنی اردو کی جن خصوصیات کی نسبت پنجابی کی طرف کی ہے وہ دراصل دہلی اور اس کے اردگرد کی بولیوں میں موجود تھیں چنانچہ قدیم اردو کا پنجابی پن اس کا ہریانی پن بھی ہے لہٰذا قدیم اردو کے اس ہریانی پن کو نظر انداز کر کے صرف اس کے پنجابی پن پر زور دینا درست نہیں۔ 

مسعود حسین خان شیرانی کے نظریے کی تردید کرتے ہوئے اردو کی اصل اور سر چشمہ کو دہلی اور اس کے قرب و جوار کی بولیوں میں تلاش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق نواح دہلی کی چار بولیوں( ہریانی ، کھڑی بولی، برج بھاشا، میواتی ) نے اردو کے نوک پلک، لب و لہجہ اور ہیئت و ساخت کی تراش خراش میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہریانی اور کھڑی بولیوں نے اردو کی تشکیل اور تعمیر میں اہم کردار ادا کیا جبکہ برج اور میواتی بولیوں نے اس کے معیاری لب و لہجہ اور ہیئت و ساخت کو سنوارا۔ لہٰذا قدیم اردو کی تشکیل براہ راست ہریانی سے ہوئی جبکہ جدید اردو کھڑی بولی پر مبنی ہے۔ مسعود حسین خان ان بولیوں اور ان کے قدیم تحریری مواد کے تجزیے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں:

’’ قدیم اردو کی تشکیل براہِ راست دو آبہ کی کھڑی اور جمنا پار کی ہریانوی کے زیرِ اثر ہوئی ہے اور جب سولہویں صدی میں آگرہ دارالسلطنت بن جاتا ہے اور کرشن بھگتی کی تحریک کے ساتھ برج بھاشا عام مقبول زبان ہوتی ہے تو سلاطینِ دہلی کے عہد کی تشکیل شدہ زبان کی نوک پلک برجی محاورے کے ذریعے درست ہوتی ہے۔‘‘ (مقدمہ تاریخ زبان اردو، ص: 236 )۔

مسعود حسین خان اپنی کتاب میں دہلی اور نواحِ دہلی کی بولیوں کے دوسری بولیوں کے ساتھ منطقی اور لسانی تجزیے کے بعد قطعیت کے ساتھ لکھتے ہیں:

’’زبان دہلی و پیرامنش اردو کا اصل منبع و سر چشمہ ہے اور حضرت دہلی اس کا حقیقی مولد و منشا۔‘‘

 ( مقدمہ تاریخ زبان اردو، ص:262)

لفظ پیرامنش سے مراد دہلی اور اس کے نواح کی چار بولیاں ہیں جن میں ہریانی ، کھڑی بولی، برج بھاشا، میواتی شامل ہیں۔ کھڑی بولی کی دو شکلیں ہیں ایک وہ جو دو آبہ گنگ و جمن کے بالائی علاقے یعنی سہارنپور، مظفر نگر اور میرٹھ میں بولی جاتی ہے جبکہ دوسری شکل گنگا پار کے بجنور، رام پور اور مراد آباد کے علاقے میں بولی جاتی ہے۔ مسعود حسین خان نے انہی علاقوں میں بولی جانے والی کھڑی بولی کو اردو سے قریب ترین قرار دیا ہے۔ انھوں نے اپنے نظریے کے استدلال میں کھڑی بولی، ہریانی اور دکنی کی صوتی اور صرفی کئی مماثلتیں اور مثالیں پیش کی ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔ 

ہریانی اور قدیم دکنی دونوں میں جھ، بھ، چھ، دھ وغیرہ کا تلفظ سہل اور سادہ ہوتا ہے جیسے بھی (بی)، مجھ (مج)۔

ہریانی اور دکنی میں جمع بنانے کا طریقہ مشترک ہے جیسے غریباں، جھوٹاں، اونٹاں۔ 

دکنی کے ضمائر ہریانی سے زیادہ قریب ہیں جیسے متکلم جمع ہم اور ہمیں حاضر جمع تَم اور تمھیں ہریانی، جبکہ تۡم دکنی۔ 

دکنی اردو کی طرح کھڑی بولی میں بھی درمیانی ’ہ‘ گرا دی جاتی ہے اور نفسی آوازیں اپنی ہیئت کھو دیتی ہے جیسے وہ ( وو)، کہاں (کاں)، کبھی (کبی)۔

معیاری اردو کے بر عکس کھڑی بولی ڑ اور ڑھ کی جگہ ڈ اور ڈھ کو ترجیح دیتی ہے جیسے بوڑھا (بڈھا)، گڑھا (گڈھا)، پڑھ ( پڈھ)، چڑھ ( چڈھ)۔

مسعود حسین خان دہلی اور نواحِ دہلی کی زبانوں کے صوتی و صرفی تقابل کے وقت دکنی کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن اپنے نظریے کو صرف نواحِ دہلی تک محدود رکھتے ہیں جس سے ایک طرح کا ذہنی تضاد جھلکتا ہے۔ اسی طرح اردو کی ارتقائی شکل کے حوالے سے مسعود حسین نے جتنے بھی صوفیائے کرام کا ذکر کیا ہے۔ ان سب کے توسط سے انھوں نے شعوری طور پر صرف اور صرف شیرانی کے نظریے کی تردید کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مقصد اور نصب العین صرف شیرانی کے نظریے کی تردید تھی جس وجہ سے انھوں نے دہلی اور نواحِ دہلی کی بولیوں کے علاوہ کسی اور بولی پر توجہ نہیں دی۔ اس کا واضح ثبوت خود مسعود حسین خان کے درج ذیل الفاظ سے مل جاتا ہے:

’’زبانِ دہلی پورب اور دکن کے علاوہ پنجاب میں بھی اپنا گھر کر رہی تھی جس کا بیّن ثبوت گرونانک، نامدیو اور کبیر جیسے سنتوں کا کلام ہے، یعنی ایک طرف فارسی عربی کے عام مروجہ الفاظ کی آمیزش اور دوسری جانب ان لسانی اثرات کو قبول کرنا جو دہلی کے سر چشمے سے پھوٹ کر ہندوستان کے چاروں طرف پھیل رہے تھے۔‘‘(مقدمہ تاریخ زبان اردو، ص: 68)

اردو کی ابتدا کو دہلی اور نواحِ دہلی میں تلاش کرنے والے نظریہ سازوں میں شوکت سبزاواری بھی ہیں۔ انھوں نے اردو کے متعلق موجودہ تمام نظریات پر مدلل اور سیرِ حاصل گفتگو کے بعد یہ نظریہ دیا کہ اردو کھڑی بولی سے ترقی پا کر بنی ہے جو دہلی اور میرٹھ کے ارد گرد گیارہویں صدی میں بولی جاتی تھی۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب ’داستانِ زبانِ اردو‘ میں رقمطراز ہیں:

’’ہندوستانی کے مولد کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں، سب متفقہ طور سے اسے دہلی اور میرٹھ کی زبان بتاتے ہیں، اردو اس کی ادبی شکل ہے۔ اس زبان کو یہ نام بعد میں اس وقت دیا گیا جب مسلمانوں کی سرپرستی میں بول چال کی زبان سے ترقی کر کے اس نے ادب و شعر کی زبان کا درجہ پایا۔ ‘‘ ( داستان زبان اردو، ص: 39)۔

شوکت سبزواری براہ راست مسعود حسین کے نظریے کی تنقید تو نہیں کرتے لیکن مغربی ہندی کی بولیوں کو ذہنی تجرید اور منطقی اپج قرار دے کر مسترد کرتے ہیں اور اپ بھرنش کو اردو اور پراکرت کی درمیانی کڑی قرار دیتے ہیں جو دہلی اور میرٹھ میں گیارہویں صدی عیسوی میں بولی جاتی تھی۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اردو اور پراکرت کی درمیانی کڑی اپ بھرنش ہے،  اس لیے مغربی ہندی کو درمیان سے نکال کر یہ کہنا کہ اردو اپ بھرنش سے ارتقا پا کر وجود میں آئی زیادہ صحیح ہے۔‘‘

 (داستان زبان اردو، ص:79)

ڈاکٹر سہیل بخاری اور پروفیسر گیان چند جین شوکت سبزواری کے نظریے سے متفق نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر سہیل بخاری ’نقوش‘ کے شمارہ 102 میں اردو و ہندی پر تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد کھڑی بولی کو اردو کا اصل ماخذ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’دراصل اردو اور ہندی ایک ہی زبان کے دو روپ ہیں جسے ماہرین علم زبان نے کھڑی بولی کا نام دیا ہے۔ ان کے موجودہ روپوں میں دو فرق واضح ہیں۔ ایک لپی اور دوسرا دخیل لفظ... اس نقطہ نظر سے ہندی اور اردو کی تاریخ ایک ہی ہے خاص کر کھڑی بولی کی قدیم تاریخ، اردو زبان کا بھی ایسا ہی اہم حصہ ہے جیسا ہندی زبان کا۔‘‘( نقوش، شمارہ: 102، ص: 48)۔

پروفیسر گیان چند جین بھی شوکت سبزواری کے نظریے سے متفق نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب ’حقائق‘ میں لکھتے ہیں:

’’اردو کے آغاز کو دو منزلوں میں ڈھونڈنا چاہیے۔ اولاً کھڑی بولی کا آغاز، دوسری کھڑی بولی میں عربی فارسی لفظوں کا شمول جس کا نام اردو ہو جاتا ہے۔‘‘  ( حقائق، ص:063)

پروفیسر صاحب ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:

’’میں شوکت سبزواری اور سہیل بخاری سے اتفاق کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ لسانیاتی نقطہ نظر سے اردو ہندی اور کھڑی بولی ایک ہیں۔ اردو کھڑی بولی کا وہ روپ ہے جس میں عربی فارسی الفاظ کی قدر زیادہ اور تت سم سنسکرت الفاظ تقریباً نہیں کے برابر ہوتے ہیں لیکن اس خصوصیت کے باعث اردو کھڑی بولی سے علیحدہ زبان نہیں ہو جاتی۔‘‘ ( حقائق، ص: 853)۔

شوکت سبزواری نے اردو اور کھڑی بولی کے متعلق جو دلائل اور وضاحتیں دی ہیں ان میں کچھ مستند اور منطقی تو ہیں لیکن اپ بھرنش، قدیم مغربی ہندی اور ہندوستانی وغیرہ سے متعلق ان کی بہت سی توضیحات اور مباحث کافی گنجلک، مبہم اور متضاد ہیں۔ کبھی وہ اردو کے ارتقا کو براہ راست کھڑی بولی اور ہندوستانی سے جوڑنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی بول چال کی اپ بھرنش اور قدیم مغربی ہندی کی بولیوں میں اردو کی اصل تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ سہیل بخاری کی تائید پرانی ہے جسے انھوں نے بعد میں باطل قرار دے کر مسترد کیا ہے اور ایک دوسرا نیا نظریہ پیش کیا ہے جس کا تعلق اڑیا سے ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اردو سنسکرت سے الگ تھلگ اور آزاد ٹھیٹھ ہندوستانی یا دراوڑی بولی ہے جو جنم جنم سے اس دیس میں بولی جا رہی ہے۔ اب رہی بات کہ آج کل کی سب ہندوستانی بولیاں پراکرتوں سے نکلی ہیں سو یہ ناموں کا پھیر ہے جنھیں کل پراکرت کہتے تھے وہی آج بھاشائیں کہلاتی ہیں۔‘‘( اردو کا روپ، ص:35)۔

مذکورہ بالا نظریات کے دلائل و شواہد کا جب ہم بچشمِ غور مطالعہ کرتے ہیں اور ان کی منطقی و عقلی توضیح کرتے ہیں توہمیں دو بنیادی باتیں نظر آتی ہیں ایک یہ کہ مسلمانوں کی آمد سے یہاں ایک نئی زبان کا وجود ہوا۔ سید سلیمان ندوی سے لے کر شوکت سبزواری تک ہر ایک کے استدلال میں یہ بات نمایاں نظر آتی ہے۔ دوسری یہ کہ اس زبان نے مختلف عہد میں یہاں کی دیگر بولیوں سے اخذ و استفادہ کیا اور ان کے اثرات بھی لیے۔ یہ بات بھی ہمیں ان مذکورہ بالا شخصیات اور ماہرِ لسانیات کے یہاں پوری شد و مد اور حوالے کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔ احتشام حسین اپنی کتاب ’ہندوستانی لسانیات کا خاکہ‘ میں اردو زبان کے ماخذ کے حوالے سے جیولز بلاک، محی الدین قادری زور اور سنیتی کمار چٹرجی کے خیالات پر سیرِ حاصل بحث کے بعد لکھتے ہیں:

 ’’ جس نئی زبان کا ڈھانچہ عربی فارسی الفاظ اور آوازوں کے اختلاط سے بن رہا تھا اس میں پنجابی، ہریانی اور کھڑی بولی ہر ایک کو شریک سمجھنا چاہیے۔ ابتدا میں پنجابی اور کھڑی بولی میں صرف تدریجی فرق رہا ہوگا۔ بعد میں ایک بولی پنجابی بن گئی، دوسری کھڑی بولی،  اس لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ اردو نہ تو پنجابی سے مشتق ہے اور نہ کھڑی بولی سے بلکہ اس زبان سے جو ان دونوں کا مشترک سر چشمہ تھی۔‘‘ ( ہندوستانی لسانیات کا خاکہ، ص:65)

سید احتشام حسین اپنی دوسری کتاب ’اردو ادب کی تنقیدی تاریخ‘ میں سید سلیمان ندوی، سہیل بخاری اور شوکت سبزواری کے نظریات پر بحث کرتے ہوئے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کسی ایک بھاشا یا بولی نے اردو زبان کے لب و لہجہ، ہیئت و ساخت اور قواعد و لفظیات کو جنم نہیں دیا بلکہ مختلف بولیوں نے اس کو سنوارنے، نکھارنے اور ادبی شکل عطا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’دلی کے چاروں طرف بولی جانے والی کئی بولیوں میں فارسی، عربی کے لفظوں سے ملنے اور مغربی ہندی کی اس بولی میں جسے کھڑی بولی کہا جاتا ہے، نکھری ہوئی شکل اختیار کرنے سے ایک نئی زبان کا ارتقا ہوا۔ ابتدا میں اس پر پنجابی کا اثر زیادہ رہا لیکن دھیرے دھیرے کھڑی بولی ہی اردو کی شکل میں واضح ہوتی گئی۔ تاریخی اسباب سے اپنی ضروریات کے مطابق اس نے فارسی، عربی اور سنسکرت کے ذخیرہ لغات سے بھی کام لیا۔ اس کی موجودہ بنیاد کھڑی بولی ہے مگر ایک زندہ زبان ہونے کے باعث ان سبھی زبانوں کے الفاظ آ گئے ہیں جن سے اس کا ربط ضبط ہے۔‘‘( اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، ص71-81)۔

زبان کی اس فطرت اور نوعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے محمد حسن آزاد نے بھی اپنی کتاب قدیم اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، میں ایک متوازن نظریے کا اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیںکہ:

 ’’ کسی ایک مذہب کی کوئی ایک زبان نہیں ہوتی۔ مسلمان کے لفظ سے صرف مذہب کی پہچان ہوتی ہے، زبان اور تہذیب کی بناوٹ میں مذہب کے علاوہ دوسرے کئی عناصر شامل ہوتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ اردو زبان و ادب کے سلسلے میں مسلمان کے بجائے ترک، ایرانی اور افغان اثرات کا ذکر کیا جائے جو مذہبی نہیں تہذیبی اکائیاں تھیں جن کا ملاپ ہندوستان میں رہنے والی مختلف تہذیبی اکائیوں سے ہوا۔‘‘ ( قدیم اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، ص:9)

درج بالا تمام نظریات کے جائزہ اور منقطی توضیح و تفہیم کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کسی ایک نظریے کو دوسرے پر ترجیح دینا یا دوسرے سے مستند قرار دینا درست نہیں۔ ہمارے پاس ایسے دستاویزی ثبوت اور دلائل نہیں جن کی بنیاد پر کسی نظریے کو ہر طرح کے شک و شبہے اور خیالی مفروضے سے مبرّا بتایا جا سکے۔ کسی ایک نظریہ کو مستند نہ ٹھہرانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کوئی بھی زبان کسی مخصوص لمحے کی پیداوار نہیں ہوتی بلکہ وہ مختلف علاقوں کی بولیوں کی لفظیات، صوتیات، صرفیات اور مارفیمات سے اخذ و استفادہ کرتی ہے اور ان کے اثرات کو بخوشی قبول کرتی ہے۔  اردو زبان بھی ان مراحل و کیفیات سے دوچار ہوئی اور ہندوستان کی مختلف بولیوں مثلاً گجری، دکنی، پنجابی، ہریانی، میواتی، برج اور کھڑی سے مستفید ہوتی ہوئی اردو کی ایک مستقل و معیاری شکل و صورت بنی ہے۔ نیز کسی ایک نظریہ ساز کو دوسرے پر فوقیت اس لیے بھی نہیں دی جا سکتی کہ ہر زمانے اور عہد کے وسائل و ذرائع کی نوعیت اور رسائی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ اس لیے قوی امکان یہ بھی ہے کہ محمدحسین آزاد کے زمانے میں جتنے مواد اور ذرائع تک رسائی ممکن رہی ہو انھوں نے ان سبھی تک پہنچنے کی کوشش کی ہو۔ اسی طرح مسعود حسین کے زمانے میں اس سے زیادہ مواد اور دستاویزات کی فراہمی و حصولیابی سہل تھی تو انھوں نے ان کی روشنی میں اپنا نظریہ پیش کیا۔

حوالہ جات 

1 ڈاکٹر جمیل جالبی: تاریخ ادب اردو (جلد اول)، ایجوکیشن بک ہاؤس، علی گڑھ، 1993

2 مولانا سید سلیمان ندوی۔ نقوشِ سلیمانی، مطبوعہ معارف پریس، علی گڑھ، 1980

3 ڈاکٹر سنیتی کمار چٹرجی۔ ہند آریائی اور ہندی،ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، 1983

4 نصیر الدین ہاشمی: دکن میں اردو، نظام دکن پریس، حیدرآباد، 1924

5 محمد حسین آزاد: آب حیات (ڈیلکس ایڈیشن)، ایچ ایس آفیسٹ پرنٹرس، دہلی ، 2014

6 حافظ محمود شیرانی: پنجاب میں اردو، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، 1982

7 پروفیسر مسعود حسین خان: مقدمہ تاریخ زبان اردو(جدید ایڈیشن)، ایجوکیشن بک ہاؤس، علی گڑھ 1954

8 ڈاکٹر شوکت سبزواری: داستان زبان اردو، چمن بکڈپو، اردو بازار دہلی، 1961

9 ڈاکٹر سہیل بخاری، ’اردو کا قدیم ترین ادب‘ مشمولہ نقوش، شمارہ 102، ص: 84، مئی 1965.

10 ڈاکٹر سہیل بخاری: اردو کا روپ، پبلشربشیر احمد چوہدری، 1971

11 پروفیسر گیان چند جین۔ حقائق، نیشنل آرٹ پریس، الہ آباد، 1978

12 جان بیمز۔ ہندوستانی لسانیات کا خاکہ، مترجم، سید احتشام حسین، دانش محل، امین الدولہ پارک، لکھنؤ، 1971

13 محمد حسن۔ قدیم اردو ادب کی تنقیدی تاریخ ( اٹھارویں صدی تک)، دوسرا ایڈیشن، اترپردیش اردو اکادمی ،لکھنؤ، 2005


Imtiyaz Ahmad

Dept of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi- 110025










اردو مشاعروں کی افادیت اور ادبی روایت، مضمون نگار: گلشن مسرت

 

اردو دنیا، فروری 2024


زبان اردو کی آبیاری میں درباروں، بازاروں اور مختلف تہذیبی اداروں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ زبان اردو مغلیہ دور میں ابھری اور پروان چڑھی۔ اس کا تعلق محض درباروں سے نہیں رہا یہ عوام کی زبان تھی جو عوام کے درمیان اپنے مقامی رنگ میں ارتقا پزیر تھی۔غزل کیونکہ اردو شاعری کی سب سے محبوب و مقبول صنف ہے۔ زبانِ اردو کے تقریباً ہر شاعر نے غزل میں طبع آزمائی کی۔ مشاعروں کی ابتدا میں صنف غزل کی سحر آفرینی ہی ہے جس نے مشاعروں کی روایت کو نہ صرف وقار بخشا بلکہ زبان کے ارتقائی سفر کو مزید تقویت عطا کی اور زبانِ اردو کو عوام سے جوڑنے کا کارنامہ انجام دیا اور خاص و عام میں مقبولیت عطاکی۔اردو مشاعروں کی روایت صدیوں پر محیط ہے ، دور حاضر میں مشاعرے ایک تہذیبی روایت کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔

 دیگر ملکی زبانوں میں بھی شعری نشستوں کا انعقاد عمل میں آتا رہا ہے مگر ان میں سے کسی کو بھی عالمی سطح پر وہ امتیاز حاصل نہیں جو اردو مشاعروں کا اعزاز ہے شعراکی مقبولیت اور مشاعروں کی کامیابی کا انحصار شاعری پر ہے شاعری قلب و ذہن پر گزرنے والی واردات اور کیفیات کے اظہار کا بے حد مؤثر ذریعہ ہے جو بات دل سے نکلتی ہے دل پر اثر کرتی ہے۔حالی کے نزدیک ’شاعری عطیہ خداوندی ہے‘

 شاعری کا ذکر دنیا کی تمام زبانوں میں موجود ہے ہندوستانی تاریخ کے مطالعے سے اس کی تاریخی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ مذہبی کتابوں میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔ شاعری میں سکون قلب بھی ہے اور روح کو تڑپا دینے کا ہنر بھی۔ علم و فن کا مظاہرہ اور فن کی ستائش کی خواہش نے شعری نشستوں کی بنیاد رکھی تو مشاعروں کی روایت وجود میں آئی۔ 

مشاعرے کی تاریخ بہت قدیم ہے ہندوستان میں مشاعروں کے آغاز سے بہت پہلے عرب اور ایران میں مشاعروں کی ابتدا ہو چکی تھی حالانکہ ان کی نوعیت قدرے مختلف تھی عرب کے مشاعروں میں قبائلی زندگی کی روح اور حسب و نسب کا طمطراق موجود تھا تو ایران کے مشاعروں میں زندگی کی حقیقت اور درباروں کی نفاست کے لوازم موجود تھے۔عربی زبان سے اس روایت کا آغاز ہوا، مگر مقبولیت کے اعتبار سے فارسی اور اردو زبان میں اس کی روایت زیادہ طویل اور مستحکم نظر آتی ہے۔عربوں کے قبائلی جاہ و حشم اور پر تصنع تمدن سے کون واقف نہیں دور جاہلیت میں اس کی تاریخی مثالوں کا ایک باب رقم ہے۔

شاعری کے میدان میں بھی یہ روایت من و عن موجود تھی شاعری کا رواج عوامی سطح تک تھا ہر قبیلے کے اپنے شعراتھے جن کی سرپرستی اور قدردانی میں اہل عرب ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی غرض سے ان شعراکی تعظیم و تکریم میں کوئی کسر نہ باقی رکھتے،ہر قبیلہ اعلی ترین شاعر کی اپنے قبیلے میں موجودگی باعث افتخار سمجھتا تھا۔ یہ روایت عہد اسلام کے بعد بھی جاری تھی مگر اب فحاشی، عاشقانہ جذبات اور تلذذ کی جگہ مذہبی پاکیزگی اور ثنا سرائے نے لے لی تھی اور آہستہ آہستہ سماجی ، سیاسی اور مذہبی تبدیلوں کے باعث عربوں کی یہ قدیم عوامی روایت ماند پڑ گئی۔ 

ایران میں فارسی شعرا کا ایک جم غفیر موجود تھا جن میں سے کثیر تعداد ان شعراکی تھی جو درباروں سے وابستہ تھے درباروں سے وابستگی کے سبب ان شعرانے اپنا سارا زور قلم قصائد پر صرف کیا۔ قصائد کے شانہ بشانہ غزل اور دیگر اصناف سخن بھی فروغ پا رہے تھے۔شعراکی سرپرستی، سخاوت اور ادب نواز کہلانے کی خواہش نے اور اپنے درباروں کی رونق میں مزید اضافے کی غرض سے ان شعراکی قدر میں اس قدر اضافہ کیا کہ انھیں رشک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔

 قصائد کے شانہ بشانہ غزل بھی رواج میں آ چکی تھی، مگر اب بھی احساسات، جذبات و خیالات کی ترسیل ایک مخصوص دائرے میں محدود تھی۔ باقاعدہ مشاعرے کا آغاز 15ویں صدی میں 1519کے قریب ہوا، ایران کے شہروں میں مشاعرے کا انعقاد کیا جانے لگا اور شہر شیراز اس کا مرکز بنا۔لیکن ایران میں مشاعرے نے وہ عوامی صورت اختیار نہ کی تھی جو بعد میں فارسی شاعری کی تقلید میں ہندوستان میں واضح ہوئی۔

ہندوستان میں دکن میں جب اردو زبان نے ادبی حیثیت اختیار کی تو تمام اصناف سخن غزل، مثنوی، قصیدہ، مرثیہ کو فروغ حاصل ہوا نہ صرف شعرابلکہ متعدد بادشاہوں نے بھی فن شاعری میں تخلیقات پیش کیں اور قطب شاہی عہد کے تاجدار قلی قطب شاہ نے اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر ہونے کا افتخار بھی حاصل کیا۔ان میں بعض ایسے بادشاہ بھی شامل تھے جو شعر و سخن کے دلدادہ تو نہیں تھے مگر درباری وضع کی روایت کو برقرار رکھنے کی خاطر اس روایت کا حصہ بنے ہوئے تھے۔

15ویں صدی کی ابتدا کے ساتھ ہی عالمی سطح پر غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہونے لگی تھیں۔ہندوستان میں مغل سلطنت اپنے عروج پر تھی ملک کے دیگر خطوں پر مسلمان حکمرانوں کا تسلط قائم ہو چکا تھا۔ان درباروں میں کثیر تعداد میں شعراموجود تھے۔ ایرانی تہذیب و ثقافت کے اثرات ہندوستانی تہذیب کے ہر گوشے کو متاثر کر رہے تھے۔علم و فن ، تہذیب و ثقافت،عوامی زندگی سے حکومت وقت تک ایرانی تہذیب کے اثرات نمایاں تھے۔

دیوان ولی کی دہلی آمد کے بعد شمالی ہند میں با قاعدہ اردو میں شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ ولی کے اشعار گلی کوچوں، ادبی محفلوں اور اہل ذوق کی مجلسوں میں گونجنے لگے۔ شعرائے دہلی، ولی کی زمینوں میں شعر کہنے کو باعث فخر سمجھنے لگے محمد شاہی دور میں جب مغل سلطنت کے زوال کی ابتداہوئی تو بہت سی رنگ رلیوں کے ساتھ مشاعروں کی رونق میں بھی اضافہ ہوا اور غالباً اسی زمانے میں ریختہ اردو کے مشاعروں کی بھی ابتداہوئی۔

 ہندوستان میں شاعری نہ عرب کی طرح عوام سے مخاطب تھی نہ ایران کی طرح صرف خواص اور درباروں تک محدود۔ہندوستان میں ادب اور شاعری سب سے پہلے صوفیا کی خانقاہوں میں پروان چڑھی۔ جب شرفا میں مقبول ہوئی تو درباروں نے اس کی سرپرستی کا حق ادا کیا اور ایک نئی زبان جو آہستہ آہستہ اپنے ارتقاکی راہیں ہموار کر رہی تھی اسے بیک وقت عوام اور خواص دونوں کی محبت اور توجہ نصیب ہوئی۔ اب درباروں میں فارسی کے ساتھ اردو کو بھی اہمیت دی جانے لگی تھی، جہاں ایک طرف فارسی مشاعروں کی دھوم تھی تو دوسری جانب عہد سودا اور میر میں اردو ترقی کے ان ابتدائی مدارج کو طے کر کے اس مرحلے میں پہنچ چکی تھی کہ اس زبان میں مشاعروں کا آغاز ہو چکا تھا

’’میر تقی میر نے نکات الشعرا میں کئی اردو مشاعروں کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ فارسی مشاعروں سے ممتاز کرنے کے لیے لوگوں نے ریختہ کے مشاعروں کو ’مراختہ‘ کہنا شروع کیا۔ ‘‘

(ذوق ادب اور شعور: سید احتشام حسین، ص83، ادارہ فروغ اردو، لکھنؤ) 

 اردو شاعروں کو فارسی سے منفرد اور ممتاز کرنے کی غرض سے زبان ریختہ کے مشاعروں کو مراختہ کہا گیا جن میں صرف شعرا ہی نہیں شرفا، امرا، روسا،  اور صوفیا اور سلاطین باہم شرکت کرتے تھے ایسے کئی مشاعروں کی تفصیلات نکات الشعرا، ریاض الفصحا میں اور دیگر ابتدائی تذکروں میں موجود ہیں اردو شاعری کی مقبولیت کا اندازہ صرف اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نکات الشعرا  میں دکن اور شمالی ہند کے 140 شعراکا ذکر موجود ہے۔ 

 صوفی شعرانے بھی محفل سماع کے علاوہ مشاعروں کو بھی ایک تہذیبی روایت کی شکل دینے میں نمایاں کردار ادا کیا جن میں خواجہ میر درد کا نام خاص اہمیت کا حامل ہے۔ خواجہ میر درد ہر ماہ اپنے گھر پر ایک شعری نشست کا اہتمام کرتے جس میں شہر کے معزز شرفا، شعرا کے علاوہ بادشاہ وقت بھی شرکت کرتے تھے۔ 

دہلی پر احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے قتل و غارت گری کا ایسا بازار گرم کیا کہ دہلی کی آبادی اپنے محبوب وطن کو خیر آباد کہنے اور دوسرے شہروں کا رخ کرنے پر مجبور ہوگئی۔اس انتشار کا اثر صرف عوام تک ہی محدود نہ تھا سیاسی حالات پر بھی اس کا شدید اثر ہوا۔ ایسے سیاسی اور معاشی بحران سے متاثر سلاطین و روسا،شعراکی سرپرستی اور قدردانی کرنے والے خود پناہ تلاش کرنے پر مجبور تھے۔ شعراتلاش معاشں کی خاطر ملک کی دیگر ریاستوں سے منسلک ہو گئے۔

 اس وقت تک لکھنؤ ان ملکی حالات سے دوچار نہ ہوا تھا۔لکھنؤ میں امن و نشاط کا دور دورہ تھا ،دہلی کی شکست و ریخت سے متاثر شعرااپنی تمام تر شعری روایت کے ساتھ لکھنؤ منتقل ہوگئے اور لکھنؤ دوسرا ادبی مرکز بن کر ابھرا۔ لکھنؤ کا عیش پرست ماحول ان شعرا کی توقعات کے عین مطابق تھا۔نوابین اودھ شعروادب کے پرستار بھی تھے اور سرپرست بھی لکھنؤ میں باقاعدگی سے مشاعروں کی محفلوں کا انعقاد ہونے لگا۔ لکھنؤ کا رنگِ شاعری دہلی سے قدرے مختلف تھا۔ استاد شعرااپنے اپنے رنگِ دبستان کی بھرپور نمائندگی کر رہے تھے۔ اپنی اپنی ادبی وراثت کی برتری کی خواہش نے معاصرانہ چشمک کو جنم دیا۔یہاں تک کہ خدائے سخن میر تقی میرکی لکھنؤ آمد پر انھیں جن حالات سے دوچار ہونا پڑا اس درد و کرب کا احساس میر کے ان اشعار سے بخوبی ہو جاتا ہے       ؎

کیا بود و باش پوچھو ہو،پورب کے ساکنو

ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

دلی جو ایک شہر تھا،عالم میں انتخاب

رہتے تھے منتخب ہی،جہاں روزگار کے

اس کو فلک نے لوٹ کے،ویران کر دیا

ہم رہنے والے ہیں،اسی اجڑے دیار کے

 لکھنؤ شعر و سخن اور علم و فن کی فضا میں ڈوبا ہوا تھا لیکن 1857کے بعد اودھ جو اب تک عیش و نشاط کا گہوارہ تھا وہ بھی اب زوال کی زد میں تھا۔لکھنؤ اجڑ چکا تھا شہر کی ادبی رونق ماند پڑ چکی تھی اور مشاعروں کی پرانی روایت بھی تبدیل ہو گئی تھی۔

اس بدلی ہوئی فضا میں مشاعروں کی روایت کو جلا بخشنے کی سعی میں مولانا الطاف حسین حالی اور محمد حسین آزاد نے انجمن پنجاب کی بنیاد رکھی اور شاعری کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر دیا۔

’’21 جنوری 1865کو انجمنِ پنجاب قائم کی گئی۔ ڈاکٹر لانٹنر کو اس انجمن کا صدر منتخب کیا گیا... انجمنِ پنجاب اپنے وسیع تر تناظر میں مختلف امور کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔ اس زمانے میں بہت سی ادبی انجمنوں میں سے ایک انجمنِ پنجاب ہی ایسی تھی جس نے آگے چل کر اردو ادب پر گہرے نقوش مرتسم کیے۔‘‘

(انجمنِ پنجاب کے مشاعرے: عارف ثاقب، ص 22، الوقار پبلی کیشنز لاہور 1995) 

اب مشاعرے طرحی نہیں موضوعاتی ہونے لگے جس نے مشاعروں کو زندگی سے قریب کر دیا اور شاعری میں بھی حقیقی اور نیچرل شاعری کا اضافہ ہوا اور غزل کے ساتھ ساتھ ان مشاعروں میں نظم کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ اس بدلی ہوئی صورت حال میں بھلے ہی مشاعروں کا رنگ پہلے جیسا قائم نہ رہا ہو لیکن اس کی ادبی حیثیت سے انکار ممکن نہیں۔ مشاعروں کی اس بدلی ہوئی نوعیت پر ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی تغیرات کا گہرا اثر رہا۔لیکن ان مشاعروں نے نہ صرف مشاعرے کی روایت کو برقرار رکھا بلکہ حقیقی رنگ شاعری نے اس کے موضوعات کے دامن کو مزید وسعت عطا کی اور اردو کو اپنے دور کے بہترین شعرا سے متعارف کروایا۔

 تحریکِ آزادی کی جدوجہد نے زندگی کے ہر گوشے کو متاثر کیا ادب بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ شعری نشستوں میں بھی انہیں نظریات کی نمائندگی ہونے لگی، حب وطن اور پیغام آزادی کا درس رواج عام ہو گیا جس نے عوام میں جوش آزادی کا جذبہ بیدار کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ ادب کا دامن جیسے جیسے سیاسی اور سماجی تحریکات سے جڑنے لگا مشاعروں کے انداز اور موضوعات میں ایک بار پھر تبدیلی واقع ہوئی اور غزل اور نظم کا دامن مزید وسعت اختیار کرتا گیا۔

 آزادی سے قبل اور بعد میں مشاعرے کی روایت میں اتنی تبدیلی رونماہو چکی تھی کہ اب تصنع ، تکلف اور زبان کی تراش و خراش کی جگہ خیال و فکر کی سادگی و ندرت نے لے لی۔ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر شعراکی تخلیقات میں نئے شعور اور سماجی تغیرات کا اظہار بھی شامل ہوگیا۔اس عہد میں مشاعروں کی روایت نے انفرادی و اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو پیش کیا اور اردو شاعری کو نئے معنی اور نئی جہت عطاکی۔

مشاعرے کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔ زمانے کے اعتبار سے مشاعروں کے انداز بھی بدلے،خانقاہوں کی پاکیزہ فضا کی محفل سماع، میر و سودا کے عہد میں منعقد ہونے والے مراختے ،درد کے دولت کدے پر منعقد ہونے والی شعری نشستیں جن کا تعلق خواص سے تھا یا آتش و ناسخ  کے دور میں وہ عام سامعین کے مذاق کے مطابق ہونے والے مشاعرے، انجمن پنجاب اور ترقی پسند تحریک کے زیر اثر ہونے والے اصلاحی، فکری، سیاسی مشاعرے شمع سے لاؤڈ سپیکر اور ریڈیو تک کا سفر مشاعروں کی روایت نے جس کامیابی سے طے کیا۔عوام اور ادب کے درمیان جس طرح ایک پل کا کام کیا ان کی مجلسی ،اجتماعی اور لسانی اہمیت غیر معمولی نہیں۔

 مشاعرے میں شعرا نے ہر زمانے میں عام فہم زبان کا استعمال کیا اور ایسے مضامین کو اپنے اشعار میں سمونے کی کوشش کی جس سے سننے والے لطف اندوز ہو سکیں۔ برقی ترقی اور ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں پہلے ریڈیو پھر ٹیلی ویژن پر منعقد ہونے والے مشاعروں نے کامیابی کی نئی تاریخ رقم کی۔

 زبان اردو کی ترویج و اشاعت اور عوام سے اس کا تعلق استوار کرنے میں مشاعروں نے ابتدا سے ہی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ زمانہ قدیم جہاں لوگوں کو تفریح اور وقت گزاری کے مواقع میسر نہیں تھے، ایسے وقت میں لوگوں نے ان اجتماعی تقریبات میں جہاں روسا،امرا، اور صوفیاہی نہیں سلاطین کے ساتھ عوام کو باہم شرکت کے مواقع فراہم ہوئے، ان اجتماعی تقریبات کا ایک سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں کے آپسی میل جول سے تہذیب و ثقافت کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ ملک گیر سطح پر مختلف خطوں میں وہ شعری محفلیں مختلف تہذیبوں کے فروغ کا باعث بنیں۔زبان اردو جو ترقی مدارج طے کرتی ہوئی اپنی ادبی حیثیت منوانے کے لیے کوشاں تھی اردو شعرانے اپنی کاوشوں سے اس کے حسن کو مزید جاذبیت عطاکی۔شاعری جو کہ قلبی واردات اور جذبات و احساسات کے اظہار کا وسیلہ ہے اس نے عوام کو جوڑنے کا کام کیا۔شعراجو ان محفلوں کا حصہ رہے انہوں نے عوام کے مذاق اور تہذیبی روایات کو اپنی شعری کاوشوں میں قائم رکھنے کی پوری کوششیں کی کہیں داخلیت کا زور رہا تو کہیں خارجیت کی بھرمار اس کی مثال دبستانِ لکھنؤ اور دبستانِ دہلی کے رنگ شاعری سے واضح ہے۔

مشاعروں میں بہت سے اشعار ایسے ہیں جو ضرب المثل بن کر مقبول ہوئے یا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مشاعروں نے شعراکو مقبولیت کے بہترین مواقع فراہم کیے ان میں سے متعدد غزل اور نظم کے اشعار ایسے بھی ہیں جو شعراکی مقبولیت کے ضامن بنے تو بعض اشعار ایسے بھی ہیں جو شعراکے نام سے نہیں بلکہ اپنی جاذبیت کے سبب مقبول ہوئے۔مثال کے طور پر کچھ اشعار ملاحظہ ہوں         ؎

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو

خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

ان مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ اشعار شعراکی مقبولیت کے ضامن ہیں۔ ان میں سے بعض غزلیں یا صرف چند اشعار اور بعض اشعار کا صرف ایک مصرع ہی ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔

مشاعروں کی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات بھی  واضح ہو جاتی ہے کہ ہر زمانے اور ہر دور میں مشاعروں نے منفرد اور مقبول تاریخ مرتب کی ہے، جس سے زبان کو ترقی کے مواقع میسر آئے،تہذیبی روایات کو استحکام اور افتخار حاصل ہوا۔ سیاسی سماجی بیداری کا کارنامہ انجام دیا گیا، اور ایک ایسی روایت قائم ہوئی جس نے ذہنی انبساط اور دائرہ فکر کو وسعت عطاکی۔ آج زبان اردو پر مختلف آرا قائم کی جا رہی ہیں تاہم مشاعروں کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔


Gulshan Musarrat

347/161/16 ka, Old Tikait Ganj

Lucknow- 226017 (UP)

Mob.: 8004727071


’امالہ‘ سے بے نیازی: ایک بڑی غلطی، مضمون نگار: اسلم جاوداں


اردو دنیا، فروری 2024

امالہ اردو زبان کا ایک بے حد خاص اور پیچیدہ قاعدہ ہے، جس سے اکثر اہل زبان بے نیاز ہیں۔ جس کے سبب ان کی تحریر میں بڑی خاموشی کے ساتھ غلطی در آتی ہے، جو اہل زبان کی شان کے منافی ہے۔

پہلے تو یہ جان لیا جائے کہ ’امالہ‘ ہے کیا؟ آسان زبان میں کہا جاسکتا ہے کہ جملے کی ساخت کے اعتبار سے کچھ لفظوں کی کھڑی آواز کو پڑی آواز میں بدلنے کے عمل یا قاعدے کو ’امالہ‘کہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جملے کی ساخت کے اعتبار سے مخصوص الفاظ کے آخر میں آنے والے ’الف‘، ہائے مختفی اور ’ہ ‘ کو یائے مجہول یعنی بڑی ’ے‘ میں بدلنے کے عمل کو ’ امالہ‘ کہتے ہیں۔ جیسے لڑکا سے لڑکے، سہرا سے سہرے، کتا سے کتے، مدینہ سے مدینے، نقشہ سے نقشے وغیرہ۔

مثال کے طور پر کہا جائے کہ’اس لڑکا کو بلاؤ ‘ تو یہ غلط ہوگا، لفظ’ لڑکا ‘ میں امالہ مطلو ب ہے۔ جملے کی ساخت کے اعتبار سے ’لڑکا ‘ کے الف کو ’ ے ‘ سے بدلنا ہوگا :

یعنی ’اس لڑکے کو بلاؤ ‘ کہنا ہوگا۔ واضح رہے کہ لڑ کے یہاں پر جمع نہیں بلکہ امالہ یافتہ ہے۔

اسی طرح ’میخانہ میں شراب نہیں ہے‘ کی بجائے :

’میخانے میں شراب نہیں ہے‘۔ لکھا جائے گا۔

گویا جملے کی نوعیت کے اعتبار سے کسی خاص لفظ کے آخر آنے والے ’الف‘ یا ’ ہ‘ کو بڑی ’ یے ‘ میں بدلنے کے عمل کو امالہ کہا جاتا ہے۔ اگرچہ امالے کا عمل اس سے بھی آگے ہے۔ مگر اصل اور عمومی قاعدہ یہی ہے، جس کی واقفیت لازمی ہے۔

دوران مطالعہ مجھے اندازہ ہو تا رہا ہے کہ اس اہم قاعدے سے بڑے بڑے شاعر اور ادیب بھی بے نیاز یا ناواقف ہیں، ہما شما کی بات تو خیر جانے دیجیے، ان کے یہاں عام طور سے اس کا شعور بھی نہیں ہے۔

عالمی شہرت کے حامل شاعر پدم شری ڈاکٹر کلیم احمد عاجز بھی اس سے بے نیاز گزرے ہیں۔شعر ملاحظہ ہوں   ؎

نہ وہ محفل جمی ساقی نہ پھر وہ دور جام آیا 

ترے ہاتھوں میں جب سے’میکدہ ‘ کا انتظام آیا

( کلیات کلیم عاجز : ص176)

دوسرے مصر عے میں، ’میکدہ‘ کی جگہ ’میکدے ‘ ہونا چاہیے۔ یہاں امالہ مطلوب ہے۔

کلیم عاجز صاحب کے حج کے سفر نامے کا نام ہے :

’ یہاں سے کعبہ، کعبہ سے مدینہ ‘

جب کہ اس کا نام ’یہاں سے کعبہ،کعبے سے مدینہ‘ ہونا چاہیے تھا ۔ان کا شعر بھی ملاحظہ ہو ؎

سفر ہوتا بہ خم، پھر تا بہ مینا

یہاں سے کعبہ، کعبہ سے مدینہ

شفیع جاوید بہار کے اردو افسانے کا ایک معتبر اور مستند نام ہے۔ لیکن ان کے یہاں بھی امالے کی غلطیاں ہیں۔ ان کے افسانوں کے ایک مجموعے کا نام ہے :

’ دائرہ کے باہر ‘ جب کہ اس کا نام ہونا چاہیے تھا :

’دائرے کے باہر ‘۔

کتاب کا نام ہی غلط ہونا بڑا ستم ہے۔

اختر اورینوی جیسے جید زبان داں سے بھی کہیں کہیں چوک ہوئی ہے۔ لکھتے ہیں :

’’حسن عسکری نے اپنے ایک گرانقدر 'مقالہ 'میں مغلیہ عہد کے قبل کے ان اثرات کا ذکر کیا ہے۔‘‘

(بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا، ص183) 

حالانکہ مقالہ میں امالہ مطلوب ہے۔ ’ مقالے ‘ ہونا چاہیے ۔اسی طرح ایک اور جگہ لکھتے ہیں :

’’اس میں تعزیہ کی برائی۔۔۔ کا بیان ہے۔‘‘

( بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا، ص 321 )

بالکل واضح ہے کہ ’ تعزیے کی برائی ‘ ہونا چاہیے۔

جمیل جالبی لکھتے ہیں :

’’لیکن اس کے برخلاف گولکنڈا میں ان کے معاصر ۔‘‘ ( تاریخ ادب اردو جلد اول قدیم دور ،ص291 )

قاعدے کے حساب سے گولکنڈے ہونا چاہیے۔

دوسری مثال ملاحظہ کریں :

’’وہ ایک چڑیا کی طرح گاتا چلا جاتا ہے ۔‘‘

(تاریخ ادب اردو جلد اول قدیم دور، ص 333 )

’’وہ ایک چڑیے کی طرح گاتا چلا جاتا ہے۔‘‘

گوپی چند نارنگ کے یہاں بھی یہ بے نیازی ہے۔ لکھتے ہیں : 

’’ پوری ذمہ داری اور غور خوض کے بعد کی ہوں گی ۔‘‘

’’انھوں نے یہ ذمہ داری خاکسار کو سونپی ۔‘‘

(’املا نامہ‘ ص 39-49)

’ذمہ داری ‘کی بجائے’ذمے داری‘ہونا چاہیے ۔

’ مصرع کی علامت ‘ ( املا نامہ ص : 102)

’مصرعے کی علامت‘ لکھا جانا چاہیے۔

ناوک حمزہ پوری نے اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے کہ لکھنو کے ایک مدیر نے اپنے رسالے میں لکھا :

’’اس شمارہ کے ساتھ رسالہ اپنی اشاعت کے ستائیسواں سال میں داخل ہوگیا ۔‘‘

جب کہ ہونا چاہیے تھا:

’’اس شمارے کے ساتھ رسالہ  اپنی اشاعت کے ستائیسویں سال میں داخل ہوگیا۔‘‘

’دعوت‘ جیسے معتبر اور معیاری اخبار کے ہر شمارے کے پہلے صفحے پر آپ کو یہ تحریر ملے گی۔

’’اس شمارہ میں مزیدآپ کے لیے۔‘‘

جب کہ ہونا چاہیے تھا :

جب کہ ہونا چاہیے :

’’اس ’شمارے‘ میں مزید آپ کے لیے ۔‘‘

گویا املا سے بے نیازی اور لاعلمی آپ کو ہر جگہ نظر آئے گی۔         

اس کے باوجود امالے جیسے اہم موضوع پر قواعد کی کتابوں میں عموما کوئی تذکرہ نہیں ملتا ہے اور اس اہم موضوع کو اب تک غیر اہم سمجھا جاتا رہا ہے۔ زبان اور قواعد کے بڑے نکتہ داں رشید حسن خاں بھی امالے کے موضوع پر تقریبا خاموش ہی رہے ہیں۔ امالے کی بجائے غیر واضح انداز میں ’ محرف صورت‘ کہا ہے۔ لیکن اپنی اہم تصنیف ’تفہیم ‘ کے ص 155 (ہندوستانی فارسی میں تلفظ اور املا کے بعض مسائل )پر’امالہ‘ کے سلسلے میں انھوں نے کچھ باتیں تحریر کی ہیں، مگر وہ نگارش سے متعلق نہیں، بلکہ تلفظ سے متعلق ہیں۔ گویا سمجھا جا سکتا ہے کہ امالے جیسے اہم اصول و قاعدے سے اہل زبان میں بے اعتنائی رہی ہے اور بہتیرے تو اس سے واقف بھی نہیں ہیں۔ حالانکہ اس سے بے اعتنائی ہماری تحریر کو شرمسار کرتی ہے۔

میرے مطالعے کی حد تک دبستان بہار میں ناوک حمزہ پوری ہی ایک ایسے ماہر زباں ہیں، جنھوں نے امالے پر ایک مضمون لکھا اور اس پر کچھ روشنی ڈالی ہے، ورنہ یہ میدان خالی نظر آتا ہے۔

امالہ : قواعد اور اصول 

امالہ فہمی کے لیے ادب نگاروں کا اہل زبان ہونا لازمی شرط ہے۔ اگر وہ اہل زباں ہوں گے تو انھیں خود بخود اندازہ ہو جائے گا کہ اس لفظ میں امالہ مطلوب ہے یا نہیں؟

مثلا کسی بچے کو بلا نا ہوگا تو ایک اہل زبان یہ نہیں کہے گا کہ’اس بچہ کو بلاؤ‘، بلکہ وہ کہے گا’اس بچے کو بلاؤ۔‘

وہ یہ نہیں کہے گا کہ :

’میں پٹنہ جا رہا ہوں‘ بلکہ کہے گا ’ میں پٹنے جا رہا ہوں‘

وہ نہیں لکھے گا کہ ’میخانہ میں دور جام چل رہا ہے‘ بلکہ لکھے گا کہ ’میخانے میں دور جام چل رہا ہے۔‘

ایسا اس لیے ہوگا کہ وہ اہل زبان ہے، اس کی زبان سے ایسا خودبخود نکلے گا۔ 

آپ نے دیکھا کہ اس عمل میں اصول اور قواعد کے جاننے سے زیادہ زبان و بیان پر گرفت کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اہل زبان جملہ سازی کے وقت الفاظ کے صحیح استعمال پر پوری توجہ دیں۔ 

اما لے کے فن پر گرفت رکھنے کے لیے مندرجہ ذیل اصولوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

قاعدہ 1: جس اسم کے آخر میں الف ہو تو اس کو یائے مجہول یعنی بڑی ’ے ‘ میں تبدیل کر دیا جائے۔ 

مثلا : گھوڑا۔ گھوڑے پر بیٹھ جاؤ۔

جوتا۔ اس کو جوتے مارو 

باجا۔ باجے والے کو بلاؤ 

ڈھیلا۔ اس نے ڈھیلے سے سر پر مارا 

ڈراما۔ ڈرامے کی تاریخ روشن ہے۔

مٹکا۔ مٹکے سے دودھ ٹپک رہا ہے۔

سہرا۔ سہرے کی بہار خوب ہے۔

ڈنڈا۔ اسے ڈنڈے مار کر بھگاؤ۔

لیکن یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے،ایسا نہیں ہے کہ تمام اسما،جن کے بھی آخر میں ’ الف‘ ہے اس کو یائے مجہول سے بدل کر امالے کے قاعدے کی پیروی کی جا سکتی ہے۔

مثلا :راجا۔ راجا کو بلاؤ،

( لڑکے کو بلاؤ کی طرح راجے کو بلاؤ نہیں ہوگا )

ایسے عربی الفاظ جن کے آخر میں الف کے بعد ہمزہ ہو،(خواہ وہ ہمزہ لکھا جائے یا نہ لکھا جائے ) امالہ قبول نہیں کرتے ہیں۔ مثلا : 

دعاء،  بقاء،  فناء،  جزاء  وغیرہ  

قاعدہ 2: جس اسم کے آخر میں ہائے مختفی یا گول ’ہ‘ ہو تو اس کو بھی یائے مجہول یعنی بڑی ’ ے‘ میں بدلا جائے گا ۔ مثلا :

شیشہ۔ ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے 

بتا کیا تو میرا ساقی نہیں ہے 

افسانہ۔ ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے 

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے 

میخانہ۔ اب تو اتنی بھی میسر نہیں میخانے میں 

پیمانہ۔ جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں 

قاعدہ 3: جن شہروں یا ریاستوں کے نام کے آخر میں ’الف‘ یا ہائے مختفی یا گول ’ہ‘ ہو ان میں اکثر کو یائے مجہول یعنی بڑی ’ے‘ سے بدل دیتے ہیں۔ مثلا :   

مدینہ۔ ’ مدینے کا سفر ہے اور میں نمدیدہ نمدیدہ‘

مکہ۔ مکے کی روحانیت کا کیا کہنا۔ 

کلکتہ۔ ’کوئی چھینٹا پڑے تو داغ کلکتے چلے جائیں‘

آگرہ۔ ’ میں آگرے کے سینٹ پیٹرز کالج میں داخل ہو جاؤ ں۔‘ ( یادوں کی برات : جوش ملیح آبادی، ص 152 )

بنگالہ۔ جناب کا تعلقہ بنگالے میں کس طرف ہے ؟ 

( قرۃ العین حیدر : آگ کا دریا، ص 190)

پٹنہ۔ میں کل پٹنے جا رہا ہوں۔

گولکنڈا۔ گولکنڈے میں ہمارے کئی رشتے دار ہیں۔ 

پونہ۔ وہ پونے میں رہتا ہے۔

کعبے کو شہر مکہ کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اس لیے عام طور پر مکے کی جگہ کعبہ ہی استعمال ہوتا ہے۔ 

کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب . . (غالب) 

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے (اقبال) 

مگر یہ اصول آنکھ بند کر کے تمام شہروں پر نافذ نہیں ہوگا۔

مثلا : قسطنطنیہ، بخارا، بلیا، رومانیہ وغیرہ۔ یہاں پر لسانی صوابدید کا سہارا لینا ہوگا۔

قاعدہ4:  اکثر الفاظ جو اسم ہوں یا نہ ہو ں اگر ان کے آخر میں ہائے مختفی یا گول ’ہ‘ ہو، تو ان کو بھی یائے مجہول یعنی بڑی ’ ے‘ میں بدل دیا جائے گا۔  

مثلا : سانحہ سے سانحے، واسطہ سے واسطے وغیرہ

 اسی طرح ہنگامہ، واقعہ، ذریعہ، نظریہ، مقابلہ، نشانہ، فائدہ، وعدہ، نشہ، حصہ، معاملہ، معانقہ، مشاعرہ، مطالعہ، سلسلہ، وغیرہ بے شمار الفاظ اسی ضمن کے ہیں۔

قاعدہ5:  رشتے ظاہر کرنے والے کچھ الفاظ جن کے آخر میں الف یا ہائے مختفی ہو امالہ قبول کرتے ہیں، مثلا بیٹا، بھانجہ، بھتیجا، سالا، پوتا، نواسہ وغیرہ۔ لیکن ابا، چچا، پھوپھا، ماما، نانا، دادا، بھیا، آپا وغیرہ امالہ قبول نہیں کرتے ہیں۔ ان سب کا استعمال اہل زبان اپنی صوابدید سے کرتے ہیں۔

 قاعدہ6: مرکب الفاظ سے بنے ہوئے اسماجن کے بیچ اضافت نہیں ہو اور ان کے آخر میں ہائے مختفی یا گول ’ ہ‘ ہو وہ اکثر امالہ قبول کرتے ہیں۔

مثلا : شراب خانہ۔  

ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں 

 فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق (اقبال )

اسی طرح : میکدہ سے میکدے، دولت خانہ سے دولت خانے وغیرہ۔ 

مگر یہ قاعدہ بھی ہر جگہ نافذ نہیں ہوگا۔ جہاں گول ’ہ‘ لفظ کے آخر میں الگ سے آئے، وہاں امالہ نہیں ہوگا۔ مثلا چراگاہ سے چراگاہے نہیں ہوگا،نماز گاہ سے نماز گاہے نہیں ہوگا۔ ایسے الفاظ کے سلسلے میں بھی اپنی لسانی صوابدید کو روبہ عمل لانا ہوگا۔ 

عام طور سے یہ تصور ہے کہ الفاظ کے اواخر میں آنے والے الف، ہائے مختفی یا گول ’ہ ‘ کو یائے مجہول میں بدل دینے کے عمل کو ہی امالہ کہتے ہیں۔ مگر جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ امالے کاعمل اس سے بھی آگے ہے

(ساتواں اور آٹھواں قاعدہ ملاحظہ فرمائیے۔ اس میں بھی وہی قاعدہ ہے یعنی کھڑی آواز کو پڑی آواز، میں بدل دینا۔اس طورسے اسے بھی امالہ ہی کہا جاتا ہے )

قاعدہ 7 : ایسے اسما یا دوسرے الفاظ جن کے آخر میں ’اں‘  ہو،  اس کو ’ ئیں ‘ سے بدل کر امالہ بناتے ہیں۔

مثلا دھواں سے دھوئیں، کنواں سے کنو ئیں، رواں سے روئیں، دایاں سے دائیں، بایاں سے بائیں وغیرہ۔

قاعدہ8:  وہ صفات عددی جن کے آخر میں ’ اں‘ ہو، ان کو ’ یں‘ میں بدل کر امالے کی شکل دیتے ہیں۔ 

مثلاً: ساتواں سے ساتویں، بائیسواں سے بائیسویں، پچیسواں سے پچیسو یں۔ پچاسواں سے پچاسویں وغیرہ۔

امالے کی ایک اور شکل ہے۔ کتاب سے کتیب بنایا جائے۔ حساب سے حسیب، حجاب سے حجیب، حجاز سے حجیز وغیرہ۔ مگر امالے کا یہ قاعدہ بالخصوص ہماری فارسی میں مستعمل ہے۔

مذکورہ تفصیل اور مثالوں سے امالے کے سلسلے میں بہت حد تک بنیادی باتیں آگئی ہیں، مگر ان قواعد اور اصولوں کو جاننے سے زیادہ لسانی شعور اور الفاظ کے استعمال پر مضبوط گرفت لازمی ہے اور اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ اہل زبان نے مختلف الفاظ کا استعمال کس طور سے کیا ہے۔


Dr. Aslam  Jawedan

Darul Gheya 

Near  Hotel  Blue  Diamond 

Sabzi Bagh, Patna,: 800004, Bihar