5/9/24

علم طب، ماخوذ ازہمارا قدیم سماج، مصنف: سید سخی حسن نقوی

 ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024

علم طب کی ابتدا بھی ویدک دور ہی میں ہوگئی تھی۔ اتھرووید میں بہت سی بیماریوں اور ان کے علاج کا ذکر موجود ہے۔ آریہ لوگ اپنی قربانیوں کی چیر پھاڑ کیا کرتے تھے تاکہ قربانیاں دیوتاؤں کے شایانِ شان تحفہ بن سکیں۔ اس عمل سے انھوں نے ویدک دور ہی میں ’تشریح اعضا‘ کمے سلسلے میں کافی اہم تجربات کرلیے اور اس طرح گویا طب و جراحی کی عظیم عمار ت کی خشتِ اوّل رکھی۔

قدیم ہندوستانیوں نے دواؤں میں کام آنے والی جڑی بوٹیوں کے بارے میں حضرت عیسیٰ سے سیکڑوں برس پہلے سیکڑوں تجربوں کے بعد کافی معلومات فراہم کرلی تھیں۔ اس سلسلے میں نوجوان راجکمار جیوک کی کہانی، جس کا ذکر گذشتہ باب میں تفصیل کے ساتھ آچکا ہے، اس کا بہترین ثبوت ہے۔ جڑی بوٹی کی اس  معلومات نے نتیجے میںاس علم کو جنم دیا جسے ’آیورویدک‘ کہتے ہیں۔

چرک

آیورویدک کی باقاعدہ تعلیم چھٹی صدی ق م سے بہت پہلے اتریہ اور کھیتل نامی دو طبیبوں اور ان کے چھ شاگردوں نے دی جن میں اگنی ویش سرفہرست تھا۔ اگنی ویش کے ایک شاگرد چرک نے فن طب پر ایک سام ہِت لکھا۔ چرک کو، جوٹکشیلا کے دارالعلوم سے وابستہ تھا، فن طب کا امام مانا جاتا ہے۔ چرک کے سام ہِت پر دوسری صدی عیسوی میں ایک دوسرے عالم نے جس کا نام بھی چرک ہی تھا، نظر ثانی کی۔ چرک کا سام ہت اس اعتبار سے کہ وہ اتنے پرانے زمانے میں لکھا گیا، ایک عظیم الشان تصنیف ہے۔ منجملہ اور بہت سی باتوں کے اس میں ایک مثالی شفاخانے کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ اس میں جڑی بوٹیوں سے تیار کی گئی دواؤں اور سونے اور دوسری دھاتوں سے بنائے گئے مرکبات کے نسخے (کشتہ جات) درج ہیں۔

طب موریہ عہد میں

تیسری صدی ق م میں ہم دیکھتے ہیں کہ اشوک نے حکومت کا رنگ ہی بدل دیا۔ اس کا دورِ حکومت رفاہِ عام کے کاموں کے لیے ممتاز ہے۔ منجملہ اور بہت سی باتوں کے اشوک نے دواؤں میں کام آنے والی جڑی بوٹیوں کی کاشت کا انتظام کرایا تھا جو نہ صرف ملک میں کام میں لائی جاتی تھیں بلکہ بیرونی ممالک کو مفت بھیجی جاتی تھیں۔ اشوک نے اپنی سلطنت میں جابجا انسانوں اور حیوانوں کے لیے شفا خانے کھلوائے تھے جہاں علاج مفت کیا جاتا تھا۔ تقریباً اسی زمانے میں شالی ہوترا نامی طبیب نے جانوروں کے علاج کے موضوع پر ایک کتاب لکھی۔ یونانی شہادتیں مظہر ہیں کہ سکندر اعظم نے پنی فوج میں چند ہندوستانی طبیبوں کو ملازم رکھ لیا تھا جس سے ظاہر ہے کہ ہندوستانی فنِ  طب سے لوگ کافی متاثر تھے۔

فن جراحی

فن جراحی (سرجری) سے جس پر مغربی دنیا آج ناز کررہی ہے، قدیم ہندوستان کے لوگ ناواقف نہ تھے اور چھٹی صدی ق م میں بے تکلفی کے ساتھ اسے کام میں لاتے تھے۔ سشرت نامی طبیب کاشی کے دارالعلوم میں جو آج بھی ہندوستان کے قدیم علوم کا مرکز ہے فن جراحی میں درس دیا کرتا تھا۔ اس نے طب اور جراحی پر ایک کتاب لکھی جس میں جراحی کے 17 آلات کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں بعض اتنے تیز ہوتے تھے کہ ان سے بال کی کھال نکالی جاسکتی تھی۔ اے اِل بیشم کہتا ہے ’’پیٹ چاک کرکے بچہ پیدا کرنے، ہڈیو ںکے جوڑ کو جگہ پر بٹھانے اور جسم کی ناقص ساخت کو درست کرنے کا فن، جسے آج کل کی اصطلاح میں ’پلاسٹک سرجری‘ کہتے ہیں، ہندوستان میں کمال کے اس درجے پر پہنچ گیا تھا جس کی مثال دنیا کے کسی اور ملک میں ملنی مشکل ہے۔ قدیم ہندوستانی جراح ناک، کان اور ہونٹوں کو جو جنگ میں یا عدالتی قطع و برید کے نتیجے میں بگڑ جاتے، درست کرنے میں حیرت انگیز مہارت رکھتے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سرجنوں نے مصنوعی ناک لگانے کا فن ہندوستانیوں سے سیکھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستانی طب اس معاملے میں یورپ کی طب سے اٹھارویں صدی عیسوی تک آگے رہی۔

علم معدنیات

ان طبی سرگرمیو ںکے متوازی ہم دیکھتے ہیں علم معدنیات میں بھی تجربے کیے جارہے تھے جنھوں نے نتیجے میں فنِ طب کو تقویت پہنچائی۔ پانچویں صدی ق م اور اس کے بعد ہندوستان آنے والے یونانیوں نے ہندوستان والوں کو بے تکلفی کے ساتھ دھاتوں کو استعمال کرتے دیکھا۔ ہندوستان کے لوگ اس وقت تک تمام دھاتوں کے استعمال سے واقف ہوچکے تھے۔ وہ کانسہ کو پگھلانا اور ڈھالنا جانتے تھے۔ کانسہ ایک بہت نازک دھات ہوتی ہے۔ آج تک گھڑیالیں اسی دھات کی بنائی جاتی ہیں۔ یہ اتنی نازک ہوتی ہے کہ گھڑیال زمین پر گرکر فوراًٹوٹ  جاتی ہے۔

چنانچہ دوسری صدی ق م کی مشہور شخصیت، پتنجلی، جس نے پانینی کی مشہور و معروف ویاکرن کی شرح لکھی، معدنیات اور کیمیا دونوں کا ماہر تھا۔ اس زمانے میں لوہے کا لفظ تمام دھاتوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ پتنجلی کی لوہا شاستر جس میں دھاتوں کو پگھلانے، نتھارنے اور مختلف دھاتوں کے مرکب تیار کرنے کے مسائل پر بحث کی گئی ہے، معدنیات کے موضوع پر ہماری قدیم ترین اور سب سے مستند کتاب ہے۔

الکیمی

دوسری یا تیسری صدی عیسوی کا ایک بودھ عالم، ناگ ارجن، جو بدھ مذہب کے ’مہایان‘ فرقے کا مبلغ، ماہر موسیقی، طبیب اور یوگی تھا، علم طب و معدنیات میں کافی اہمیت رکھتا ہے۔ ناگ ارجن کو الکیمی کا، یا جسے عرفِ عام میں آج کل کیمیا گری کہتے ہیں، امام مانا جاتا ہے۔ معمولی اور گھٹیا قسم کی دھاتوں کو کیمیاوی عمل کے ذریعے سونے میں تبدیل کرنا، اس کی دلچسپی کا مرکز تھا۔ چنانچہ ناگ ارجن ’بڑے بڑے پتھروں کو ایک مقدس اور خاص طریقے سے جوش دیے گئے عرق، دوا، یا مرکب سے تر کرکے سونے میں تبدیل کردیتا تھا۔ ناگ ارجن ہی نے سشرت کی کتاب پر نظر ثانی کی اور اس میں ضروری اضافے کیے۔

رسائن

الکیمی کی طرح ایک او رفن جسے ’رسائن‘ کہتے ہیں یعنی زندگی کو طول دینے اور بڑھاپے کو جوانی میں تبدیل کرنے کا فن اس زمانے میں کافی مقبول تھا۔ سیکڑوں قسم کی جڑی بوٹیوں سے تیار کیے گئے طرح طرح کے مرکبات، نسخے اور سونے چاندی کے کشتے استعمال کیے جاتے تھے۔ ناگ ارجن نے اس موضوع پر بھی ایک رسالہ سپردِ قلم کیا۔

اہم تصانیف

چھٹی صدی عیسوی تک فن طب و جراحی میں خاطر خواہ اضافے ہوگئے۔ خصوصاً دواسازی یا عطاری کے فن کی تدوین اسی زمانے میں ہوئی۔ کیمیاتیات (باٹنی) اور طب نے مل جل کر ترقی کی راہیں طے کیں۔ تعلیمی درس گاہوں میں طب اور جراحی کا درس برابر دیا جاتا رہا۔ طلبا لاشوں کو چیرتے پھاڑتے، مختلف تجربات کرتے اور مریضو ںکے آپریشن کرتے۔ بودھ خانقاہوں اور جین مذہب کے تعلیمی مرکزوں میں طب کی تعلیم خصوصیت کے ساتھ دی جاتی تھی۔ ملک میں جگہ جگہ اسپتال قائم تھے جن کی نگرانی قابل وید اور طبیب کرتے تھے۔ اس دور میں فن طب پر کئی اہم کتابیں تصنیف کی گئیں۔ فن طب کے ایک ماہر مادھوا کر نے ایک کتاب رگونی وَن چیہ تصنیف کی۔ اسی دور میں دھن ونتری نے جو چندرگپت وکرمادتیہ کے نورتنوں میں سرفہرست تھا، طب کی ایک فرہنگ تیار کی جسے دھن ونتری نگھنتو کہتے ہیں۔

قدیم ہندوستانی طب کا بنیادی تصور

قدیم ہندوستانی طب کا بنیادی تصور اخلاط اربعہ ہیں، یعنی بلغم، سودا، صفرا اور خون۔ ابتدا میں صرف پہلی تین خِلطیں شما رکی جاتی تھیں، خون کا اضافہ بعد میں کیا گیا۔ ہندوستانی طبیب صحت مند جسم کے لیے ان خلطوں کا متوازن رہنا ضروری سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک پانچ قسم کی ہواؤں سے جسم کا عمل برقرار رہتا ہے۔ پہلے وہ ہوا جو حلق سے نکلتی ہے اور تقریر پیدا کرتی ہے۔ دوسری وہ جو دل سے نکلتی ہے جس کے ذریعے انسان سانس لیتا اور غذا نگلتا ہے۔ تیسرے وہ جو مبرز سے نکلتی ہے اور پیٹ میں غذا کو پکاتی اور ہضم میں مدد دیتی ہے۔ چوتھی وہ جس کے ذریعے فضلات خارج ہوتے ہیں۔ پانچویں ’نفوذ پذیر‘ ہوا، جو جسم کی رگوں میں سرایت کرتی ہے اور جس کے ذریعے دورانِ خون اور جسم کی حرکت قائم ہے۔

اہلِ ہند اس بات کے قائل تھے کہ پہلے معدہ غذا کو پکاتا ہے، پھر وہ دل کی طرف منتقل ہوتی ہے اور اس کے بعد جگر کی طرف، جہاں اس کا جوہر خون میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ خون کا ایک حصہ گوشت بن جاتا ہے اور باقی سے چربی اور ہڈیاں وغیرہ بنتی ہیں۔ ہندوستان کے قدیم اطبا کے نزدیک استحالۂ خون کے اس عمل کو تیس دن لگنے چاہئیں۔ ہندوستان کے قدیم اطبا اگرچہ دماغ کے افعال سے پوری واقفیت نہیں رکھتے تھے اور دل ہی کو عقل کا مرکز بھی جانتے تھے لیکن وہ ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت اور نظامِ عصبی کے وجود سے واقف تھے۔

ہندوستانی طبیب بغداد میں

آٹھویں اور نویں صدی عیسوی میں عباسی خلفا نے ہندوستانی طبیبوں کو اپنے دربار میں طلب کیا۔ حکومت نے انھیں سرکاری شفاخانوں میں طبیبِ خاص کے اعلیٰ مناصب سے نوازا، اور ان سے طب، دواسازی، سمیات، فلسفہ، ہیئت اور دوسرے علوم کی سنسکرت کی کتابوں کے عربی زبان میں ترجمے کرائے۔ خلیفہ مامون کے زمانے میں جو عباسی خلفا میں سب سے زیادہ اولوالعزم تھا، ریاضیات، ہیئت، طب اور دیگر علوم نے پہلے کے مقابلے میں زیادہ ترقی کی۔ بے شمار سنسکرت کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کرایا گیا اور دوبان نامی ایک برہمن عالم کو دارالترجمہ کا نگرانِ اعلیٰ مقرر کیا گیا۔

جس طرح یورپ کی طب عربی فن طب سے  متاثر ہے اسی طرح عرب کی طب ہندوستانی فنِ طب کی مرہون منت ہے۔ عرب  کے عالم ہندوستانی کتابوں کی بہت قدر کرتے تھے۔ چنانچہ اَوِی سینا (ابن سینا)، دھازیز (الرازی) اور سراپین (ابن سرابی) کے جو ترجمے عربی سے لاطینی زبان میں کیے گئے، ان میں حکیم شرک (چرک) کا نام بار بار آتا ہے، اور یہ وہی چرک ہے جس نے چھٹی ق م میں فن طب پر ایک سام ہِت تصنیف کیا، اور دوسری صدی عیسوی میں دوسرے چرک نے اس پر نظرثانی کی۔

ہندوستانی طب یورپ میں

ہندوستان میں الکیمی (کیمسٹری) ’فن طب کی لونڈی‘ کی حیثیت رکھتی تھی اور اسی حیثیت میں وہ بیرونی ممالک میں پہنچی۔ بیماریوں کے علاج کے سلسلے میں ہندوستانی دواؤں نسخوں اور کشتوں کا استعمال یورپ میں عام ہوگیا اس کا ایک معمولی ثبوت یہ ہے کہ انگریزی میں جست کی آکسیجن کے مرکب کو ٹٹی کہتے ہیں۔ انگریزی میں اسے عربی ’طوطیہ‘ سے لیا گیا، اور طوطیہ خود سنسکرت کے ’تتھ‘، جست (زِنک) سے ماخوذ ہے، جسے عام طور پر ’نیلا تھوتھا‘ کہتے ہیں۔

اب جب کہ ہم آزاد ہوچکے ہیں اور اپنے ملک و قوم کی تعمیر میں ہمہ تن مصروف ہیں، موقع ہے کہ ہم اپنے عظیم ماضی کے آئینے میں ایک شان دار مستقبل کی تعمیر کریں اور ہر علمی معاملے میں رہنمائی اور ہدایت کے لیے مغربی سائنس دانوں گیلیلیو، آرکیمیڈیز اور کاپرنکس کی بجائے کناد، چرک، اور آریہ بھٹ اور اپنے دوسرے عظیم عالموں سے استفادہ کریں جنھیں زمانہ لاکھ بھلانے کی کوشش کرے لیکن تاریخ رہتی دنیا تک یاد رکھے گی۔

 

ماخذ: ہمارا قدیم سماج، مصنف: سید سخی حسن نقوی، تیسرا ایڈیشن: 1998، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،نئی دہلی

 

مہاراشٹر میں اردو تحقیق، مضمون نگار: محمد زبیر

 ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024

ہندوستان کے دیگر صوبوں اورخطو ں کی طرح صوبۂ مہاراشٹر بھی اردو زبان وادب کے لیے سازگار رہا ہے۔یہاں متعدد تحقیقی اداروں میں اردو زبان وادب پر تحقیقات ہوئی ہیں۔ان اداروں میں اولین نام ’انجمن اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بمبئی ‘کا ہے۔اس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے قیام ( فروری 1947)میں سیف طیب جی کارول سب سے اہم ہے۔سید نجیب اشرف ندوی اس انسٹی ٹیوٹ کے اعزازی ناظم بنائے گئے۔انہی کی نگرانی میںانجمن اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا سہ ماہی رسالہ ’نوائے ادب‘جنوری 1950 سے نکلنا شروع ہوا۔اپنے علمی، ادبی اور تحقیقی معیار کے سبب اس رسالے نے ادبی حلقوں میں اپنی شناخت قائم کرنے کے ساتھ بہت جلد مقبولیت بھی حاصل کرلی۔ ان کی محنت اور کوششوں سے انجمن اسلام کی کریمی لائبریری تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے ایک کارآمد لائبریر ی کاعمدہ نمونہ بنی اور متعدد تحقیقی کا م معرضِ وجود میں آئے۔انہی میں سے ایک تحقیقی مقالہ’دبستانِ دبیر‘ ہے جسے ذاکرحسین فاروقی نے نجیب اشرف ندوی کی نگرانی میں 1963 میں مکمل کیا۔ ظہیرالدین مدنی، شیخ فرید اور نظام الدین ایس گوریکر کی نگرانی میں بہت سے مقالے سپرد قلم کیے گئے جن میں ’دارالمصنفین کی ادبی خدمات ‘ 1976 (خورشید مظہر الحق نعمانی)، ’سید سلیمان ندوی: حیات اور خدمات‘ 1983 (شیخ عبداللہ غلام)، ’مولانا محمد علی جوہر:سیاسی فکروفن‘ 1983 (سید شبیرعلی)، ’حسن وعشق کا تصوراردو شاعری میں‘  1983 (سید محمد حسن)، ’اردو میں طنزومزاح‘ 1983 (خواجہ عبدالغفور)، ’جگن ناتھ آزاد اور ان کا فن‘ 1989 (شیخ نجم الہدیٰ)، ’مغربی خاندیش کی شعری خدمات‘ 1989 (محمد سلیم انصاری)،’اردو میں تعلیمات کا استعمال سماجی‘ 1995 (سید شاہ)وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔

مہاراشٹر کے محققین میں نجیب اشرف ندوی کا نام سرِفہرست ہے۔’لغاتِ گجری‘ 1962ان کا ایک اہم تحقیقی کارنامہ ہے۔اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں کوئی لفظ زائد یابھرتی کے داخل نہیں کیے گئے۔اسے نجیب اشرف ندوی نے اپنی برسوں کی ریاضت اور مطالعے کے بعد مرتب کیا ہے۔’لغاتِ گجری‘ پر نجیب اشرف ندوی کا فاضلانہ مقدمہ ان کی تحقیق وتدوین سے دلچسپی کا ثبوت فراہم کرتاہے۔ لسانیات پر تحقیق کرنے والوں کے لیے یہ کتاب کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔انجمن اسلام اردوریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے ولی دکنی پر ایک کتاب ’ولی گجراتی‘ 1950 میں شائع کیاتھا۔اس کے مصنف ظہیرالدین مدنی ہیں۔ اس میں’ ولی کازمانہ‘ تا ’ولی کی صوفیانہ شاعری‘ نو مضامین شامل ہیں۔ ولی کا وطن محققین میں موضوع بحث رہا ہے۔ میرتقی میر نے اسے اورنگ آبادی لکھا ہے، قاضی احمد میاں اختر جوناگڑھی نے ولی کی وطنیت پر محققانہ مقالہ پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ولی دراصل گجرات کاباشندہ تھا۔ ڈاکٹر ظہیرالدین مدنی نے ولی کو بغائر نظر تحقیق کیا، ان کی وطنیت پر کئی اہم ثبوت فراہم کیے اوراطمینان بخش حد تک یہ ثابت کیا کہ ولی کاوطن گجرات ہے۔

ادبی وتحقیقی سرگرمیوںکے حوالے سے عبدالرزاق قریشی کا نام خاصا اہم ہے۔ انھوںنے مختلف موضوعات پرکئی اہم تحقیقی کام سرانجام دیا۔ مرزامظہرجانِ جاناں اوران کااردوکلام کے عنوان سے ایک مبسوط مقالہ سپرد قلم کیا۔ اس کتاب میں مرزامظہرکے حالاتِ زندگی، ان کی روحانی ودابی خدمات،اردووفارسی شاعری اور اردوزبان کے متعلق ان کی مساعی کا تذکرہ تفصیل سے کیاہے۔دیوانِ عزلت کی ترتیب وتدوین (1962) اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ دونوں کتابیںتحقیقی نقطۂ نظر سے بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔’مبادیات تحقیق‘ عبدالرزاق قریشی کی تحقیق کے فن پر اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے۔ اصولِ تحقیق سے متعلق اس کتاب کو اولیت کاشرف حاصل ہے۔ انجمنِ اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے وابستگی اور طلبہ کی رہنمائی کے دوران اردومیں فنِ تحقیق پر کوئی ایسی منضبط تصنیف نہیں تھی جس میں تحقیق کے طریق کارسے بحث کی گئی ہو۔ چنانچہ عبدالرزاق قریشی نے اسی مقصد کے حصول کے پیشِ نظر اپنا مبسوط مقالہ ’مبادیاتِ تحقیق‘ سپرد قلم کیا۔

ڈاکٹر حامداللہ ندوی مہاراشٹرکے محققین میں سے ہیں۔ انھیں عربی،فارسی اور اردو زبانوں پر اچھی دسترس ہے۔ انجمنِ اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں بحیثیت لائبریرین ایک عرصے تک اپنی خدمات انجام دی ہیںاور فیلو کی حیثیت سے تحقیقی کام بھی کیا۔ ان کی مرتب کردہ کتاب’ کتب خانہ جامع مسجد بمبئی کے اردومخطوطات ‘ اسی زمانے کی یادگارہے۔ اس میں ایک سواٹھاسی مخطوطات کا تفصیلی تعارف ہے۔ یہ تمام مخطوطے بہ ذاتِ خود اہمیت رکھتے ہیں لیکن ان میں دومخطوطے تاریخی اورادبی اعتبار سے  خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک ’سندرسنگار ‘ جو شاہجہاں کے عہد کے ایک نامورسیاستداں اور شاعر پنڈت سندرداس کے زورِ قلم کانتیجہ ہے اوردوسرا ’سیہ پوش‘ جو اورنگ آباد کے مشہوربزرگ شاہ رحمن کی ایک دکھنی مثنوی ہے۔

عبدالستار دلوی کا شمار مہاراشٹر کے اردو محققین میں ہوتا ہے۔ ’اردو میں لسانیاتی تحقیق‘ (1971) لسانیات پر ان کی مرتبہ کتاب ہے۔اس میں نامورماہرین لسانیات کے 29 تحقیقی مقالات کو جگہ دی گئی ہے۔ لسانیات پر تحقیق کرنے والوں کے لیے یہ کتاب کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ شعبۂ اردو بمبئی یونیورسٹی سے وابستگی کے دوران عبدالستاردلوی کی کتاب ’ادبی اور لسانی تحقیق اصول اور طریقِ کار‘ 1984 میں منظر عام پر آئی۔اس میں اردو کے پندرہ نامور محققین کے تحقیقی مقالات جمع کردیے گئے ہیں اور عبدالستاردلو ی کے دومضامین ’ادبی اور لسانی تحقیق اصول اور طریقِ کار‘ اور’اردو میں لسانی تحقیق کی اہمیت‘ شامل ہیں۔ عبدالستاردلوی کی تصنیف کردہ تحقیقی کتابوں میں  ’دوزبانیں دوادب‘  اور ’ادبی ولسانی تحقیق اور تقابلی ادب‘ لسانیاتی تحقیق میں حوالہ جات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ’دوزبانیں دوادب‘ گیان چند جین کی کتاب ’ایک بھاشا، دولکھاوٹ، دوادب‘کے جواب اوررد میں لکھی گئی ہے۔ کھڑی بولی کو ہندی کے ساتھ جوڑنے، ہریانی، برج، اودھی اور بھوجپوری کو ہندی کی وسیع تربرادری کافرد گرداننے کی کوشش کی ہے۔ اسے عبدالستاردلوی نے دلائل کے ساتھ رد کیا ہے :

’’ان کا یہ کہنا کہ ’کھڑی بولی ہندی(اندازاً 1000ء تا1500ء)محض ایک واحد زبان نہیں بلکہ شمالی ہند کی مختلف زبانوں اور بولیوں کا وفاق ہے‘‘وغیرہ محلّ نظر ہے۔ سب سے پہلے تو’ کھڑی بولی ہندی‘کا فقرہ ہی غلط ہے۔یہ تو صرف کھڑی بولی ہے، جس سے بہت بعد میں ہندی کا ارتقا ہوا۔ 1000  تا 1500 کھڑی بولی ہندی تھی ہی نہیں۔ یہ تو ایک زبان کا تشکیلی دور تھا۔ جین صاحب کا یہاں انداز علمی نہیں بلکہ سیاسی ہے ورنہ علمی طور پر، ہریانوی، برج، اودھی، بھوجپوری وغیرہ ہندی کی وسیع تر برادری کی زبانیں نہیں بلکہ آزاد زبانیں اور آزاد ادب ہیں۔ ان زبانوں کے بولنے والوں سے کب کسی نے پوچھا کہ ان کی رائے کیا ہے۔کیا وہ آزادانہ شناخت چاہتے ہیں یا ہندی میں ضم ہونا چاہتے ہیں ؟ یہ تو یکطرفہ فیصلہ ہے جو ہندی سامراجیت کی مثال ہے۔‘‘(دوزبانیں دوادب،ص 33-34)

ہمارے تحقیقی ادب میں غالب ابتداہی سے ایک اہم موضوع رہا ہے۔جس پر بے شمار مضامین،مقالات اورکتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ شمیم طارق کی کتاب’غالب اور ہماری تحریک آزادی‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو غالبیات میں بحث کے نئے درواکرتی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ پران کی نگاہ بڑی گہری ہے، انہوںنے ہندوستان کے سیاسی، سماجی اورتہذیبی پہلوئوں کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ اس کتاب کاخاصّہ یہ ہے کہ اس میں غالب اورعہدِ غالب کی چلتی پھرتی جاذب نظر تصویریں دیکھی جاسکتی ہیں جو غالب شناسی میں اہم رول اداکرسکتی ہیں۔تصوف کے موضوع پر شمیم طارق کی تصنیف ’تصوف اور بھکتی تنقیدی اور تقابلی مطالعہ‘ ایک جامع کتاب ہے۔اس میں تصوف اوربھکتی کا مذہبی پس منظر اور مفہوم کو اجاگر کرنے میں جس سعی بلیغ سے کام لیا ہے،وہ صرف انھیں کا حصہ ہے۔

اسمٰعیل یوسف کالج بمبئی، مہاراشٹر کے تحقیقی اداروں میں سے ہے۔یہاں اردو میں متعددتحقیقی مقالات لکھے گئے۔جن میں’گجرات کے اردوشعرا‘ 1948  (سید ظہیرالدین مدنی)، ’امین گجراتی مثنوی یوسف وزلیخا‘ 1948 (محمد عبدالحمید فاروقی)، ’اردوتھیٹر‘ 1953 (عبد العلیم نامی)، ’اکبرالہ آبادی :حیات اور کارنامے‘ 1957 (عقیلہ نذیراحمد خان)، ’میاں خوب محمد چشتی: مثنوی خوب ترنگ‘ 1959 (علی نقوی جعفری )، ’بمبئی میں اردو‘ 1961 (میمونہ دلوی)، ’محمد حسین آزاد: حیات اور کارنامے‘ 1962 (عبدالستاردلوی)، ’آرزولکھنوی: حیات  اور کارنامے‘  1971 (سید مجاہد حسین حسینی) وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اسمٰعیل یوسف کالج سے شائع ہونے والی کتاب ’اردو غزل ولی تک‘ سید ظہیرالدین مدنی کا ایک تحقیقی کارنامہ ہے۔ ا س میں دکن کے قدیم اردوغزل گوشعراپر سیرحاصل بحث ہے اوران کے نمونۂ کلام بھی درج ہیں۔ اس کتاب میں امیرخسرو کے دور سے زمانۂ ولی تک کے ریختہ اورغزل کاتاریخی وتنقیدی جائزہ لیا گیاہے۔ اس کے مطالعے سے ریختہ کے ارتقائی سفرکا جائزہ لینے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ آخرمیں ولی اورغزل کے حوالے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ زمانۂ ولی،غزل کا نقطۂ آغازہے۔

میاں داد خاں سیاح اور ان کا کلام‘ (1957) سید ظہیرالدین مدنی کی ایک جامع اورمستند کتاب ہے۔ میاں دادخاں سیاح، مرزا غالب کے شاگردوں اور دوستوں میں سے تھے۔ ظہیرالدین مدنی نے سیاح کے حالات زندگی اورکارنامے کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ سیاح کاوطن اورنگ آباد تھا اور عنفوان شباب میں سورت میں قیام پذیر ہوگئے تھے۔ ظہیرالدین مدنی کے تحقیقی کارناموں میں سب سے مہتم بالشان کارنامہ ’سخنوران گجرات‘کی تصنیف و تالیف ہے،جس پربمبئی یونیورسٹی نے1948 میں ظہیرالدین مدنی کوپی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی ہے۔ اس میں محقق کی علمی،ادبی اورتحقیقی صلاحیتیں ابھرکرسامنے آگئی ہیں۔ ’سخنورانِ گجرات‘ میں گجرات کے بیشتر شعراکو جگہ دی گئی ہے اورنمونۂ کلام بھی پیش کردیے گئے ہیںاس لحاظ سے اسے شعرائے گجرات کا تذکرہ کہنابجا ہے۔

میمونہ دلوی شعبۂ اردو اسماعیل یوسف کالج بمبئی میں درس وتدریس سے وابستہ تھیں۔انھوں نے تین کتابیں تالیف کی ہیں۔ اول ’بمبئی میں اردو 1914 تک‘ سید ظہیرالدین مدنی کی نگرانی میں لکھا گیا تحقیقی مقالہ ہے۔ 1970 میں یہ مقالہ کتابی شکل میں شائع ہوا۔ملک کے مختلف خطوں میںعلاقائی سطح پر ’دکن میں اردو‘ (1924)، ’پنجاب میں اردو‘ (1928) اور ’بہار میں اردو‘ جیسی اہم کتابیں لکھی گئیں۔انہی کتابوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے میمونہ دلوی نے ’بمبئی میں اردو‘کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا۔ ان سے قبل بمبئی میں اردو ادب کی مختلف اصناف میں جو کچھ کام ہوا تھا اسے انھوں نے یکجا کرنے کا کام کیا ہے۔ اس ضمن میں اپنی کتاب ’بمبئی میں اردو‘ کے پیش لفظ میں رقم طراز ہیں:

’’میرا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ اردو زبان نے بمبئی کی سرزمین پرجنم لیا ہے تاہم اتنا ضرور کہا جاسکتاہے کہ جس زمانے میں مذکورہ بالا صوبوں اور شہروں میں اردوزبان وادب اپنی ارتقائی منزلیں طے کررہے تھے۔ اسی زمانے میں بمبئی میں بھی اس زبان وادب کے لیے کام ہوتا رہا ہے۔  چنانچہ زیرِ نظر مقالے میں، میںنے یہی کوشش کی ہے کہ بمبئی میں اردو کے سلسلے میں جو کچھ علمی وادبی کام ہوا ہے اسے یکجا طورپر پیش کرسکوں۔ ‘‘(پیش لفظ بمبئی میں اردو،ص4)

بمبئی میں اردو سے متعلق تحقیق کرنے والے اسکالرز کے لیے یہ کتاب کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ دُکھڑے اردو کی ایک غیر معروف صنف سخن ہے۔ میمونہ دلوی نے بمبئی یونیورسٹی کی لائبریری اور کتب خانہ محمدیہ جامع مسجد بمبئی سے دُکھڑے اورپند نامہ کے چند مخطوطات کو ’دُکھڑے‘ (1979) کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیاہے۔ ان کی تیسری کتاب ’کوکن اور ممبئی کے اردو لوک گیت‘ (2001) ہے۔ اس کتاب میں کوکن کے حوالے سے خصوصاً گفتگو کی گئی ہے اور اردو لوک گیت کو یکجا کردیا گیاہے۔

سینٹ زیویرس کالج بمبئی کے ابتدائی تعلیمی اداروں میں سے ہے۔ پروفیسرعبد المحی رضا کی نگرانی میں شعبۂ اردو قائم(1922) ہوا۔ اس شعبے میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے ہوئے نظام الدین گوریکر نے تحقیق کے میدان میں اردوزبان وادب کی بیش بہاخدمات انجام دی ہیں۔ ان کی نگرانی میں اردوزبان میں کئی اہم موضوعات پر تحقیقی مقالے لکھے گئے۔جن میں  ’مرزارسوا: حیات اورناول نویسی‘ 1962 (آدم غلام حسین شیخ)، ’نظیراکبرآبادی: حیات اورشاعری‘ 1963 (ضمیراحمد خان)، ’قائم چاند پوری: حیات اورفن‘ 1965 (سید عبدالمحی رضا)، ’وجہی کی تاج الحقائق‘ 1969 (نورالسعید اختر )، ’نوح ناروی: حیات اورشاعری‘ 1972 (ظفرالاسلام ظفر)، ’سردارجعفری:حیات اور شاعری‘ 1973 (دائود کشمیری) اور ’ جلیل مانک پوری : حیات اورفن‘ 1977 (عبدالخالق انصاری )وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔

نظام الدین ایس گوریکرکی تحقیقی کتابوں میں ’طوطیانِ ہند‘ اور ’فکرونظر‘ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ’طوطیانِ ہند‘ فارسی کے تین مشہور شاعر امیرخسرو دہلوی، حکیم ابوالفیض فیضی اورمرزااسداللہ خاں غالب کی حیات وفن پر مختصر اور جامع کتاب ہے۔ فیضی کی تصانیف میں قرآن شریف کی بے نقط تفسیر’سواطع الالہام‘ اور ’نل ودمن‘ بہت مشہورہیں جس کاانتخاب نظام الدین گوریکر نے اپنی کتاب ’طوطیانِ ہند‘ میں ’داستانِ نل ودمن ‘کے نام سے کیا ہے۔ علاوہ ازیںگوریکر کی کتاب ’فکرونظر ‘  مختلف مضامین اورمقالات کا مجموعہ ہے جوان کی تحقیقی وتنقیدی بصیرت کا غمازہے۔

 مہاراشٹر کے محققین میں محمد ابراہیم ڈار،صفدر آہ سیتاپوری،عصمت جاوید، عالی جعفری، شرف الدین ساحل،  یونس اگاسکر، انیس چشتی، رفیق جعفر، شمیم طارق اور پروفیسر صاحب علی ایسے نام ہیں جن کے ذکر کے بغیر مہاراشٹر کے محققین کی فہرست مکمل نہیں ہوتی۔ لہٰذا ان تمام محققین اور ان کی تحقیقی کاوشوں کا ذکر ناگزیر ہے۔ محمد ابراہیم ڈار عربی،فارسی اوراردوکے ایک وسیع المطالعہ محقق، ادیب اورانشاپردازتھے۔ انھوں نے اورینٹل کالج لاہورمیں پروفیسر محمدشفیع کی نگرانی میں مشہور عربی دانشور اور عالم جاحظ پر میکلوڈ عربک ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے کام کیا۔ انھوںنے بے شمار تحقیقی مقالات سپردِ قلم کیے۔ ڈاکٹر ظہیرالدین مدنی نے ابراہیم ڈارکے بکھرے ہوئے مضامین کو ’مضامین ڈار‘ کے نام سے مرتب کیا۔ مضامین ڈارکو انجمن اسلام اردوریسرچ انسٹی ٹیوٹ، بمبئی نے چند مضامین کے اضافے کے ساتھ 2014 میں ’مقالاتِ پروفیسر محمد ابراہیم ڈار‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس میں شامل مضامین تحقیق وتنقید کے اعلیٰ معیارپر ہیں۔ اس سے ان کی وسعتِ فکر اوربالغ نظری کااندازہ ہوتاہے۔

صفدرآہ سیتاپوری کاشماربمبئی کے اردومحققین میں ہوتاہے۔ تلسی داس پر ان کی تحقیقی تصنیف ’تلسی داس اور رام چرت مانس‘ اردومیں اپنی نوعیت کی ایک منفرد کتاب ہے، جس کی ادبی حیثیت مسلّم ہے۔اس کتاب میںانھوں نے تلسی کے عہد کا پس منظر، اس کی حیات، تصانیف اور شاعری کا تحقیقی جائزہ لیا ہے۔ صفدرآہ کی دوسری اہم کتاب ’فردوسیِ ہند‘ ہے۔ جس میںمیرانیس کے عزیز شاگرد فارغ اور ان کے رزمیہ مرثیے کااس طرح جائزہ لیا گیا ہے کہ مرثیے کی تمام خوبیاں سامنے آگئی ہیں۔ ’میر اور میریات ‘  صفدرآہ کا ایک تحقیقی کارنامہ ہے۔  اس میں میرکے سوانحی کوائف، خاندانی پس منظر اور شاعری سے بحث ہے۔ ماہرین ادب نے میر کی شاعری کونہ صرف پرکھا ہے بلکہ ان کی حیثیت کو تسلیم بھی کیاہے بعض نے تو اردوکا سب سے بڑاشاعرمانا،یہاں تک کہ ’خدائے سخن‘ کہاگیا۔

عصمت جاویدایک محقق اور ماہرلسانیات ہیں۔ان کاآبائی وطن مئو ناتھ بھنجن (اترپردیش) ہے۔ ان کی پیدائش (1922) پونے میں ہوئی۔ ان کے پردادا شیخ حسام الدین کا ذکراثرانصاری نے اپنی کتاب ’تذکرہ سخنورانِ مئو‘ میں کیاہے۔ عصمت جاوید تقریباً اٹھارہ کتابوں کے مالک ہیں۔ ان کی پہلی مطبوعہ تصنیف ’فکرپیما‘ (1971) ہے۔ اس کاموضوع ’لسانیات اورادبی تنقید‘ ہے۔ ’لسانیاتی جائزے‘ بھی ان کی اہم کتاب ہے۔ ’نئی اردوقواعد‘ عصمت جاوید کابہترین کارنامہ ہے۔ اس میںانھوں نے اردوقواعد کاتجزیہ سائنٹفک اورتکنیکی انداز میں پیش کیاہے اور اس کے لسانی پہلوئوں پرتحقیقی و تنقیدی نگاہ بھی ڈالی ہے۔اس کے علاوہ ’ادبی تنقید‘، ’وجدان‘ اور ’اردوپر فارسی کے لسانی اثرات تصرف کے آئینے میں ‘ ایسی کتابوں کو لکھنے میں عصمت جاوید نے بڑی دیدہ وری اورتحقیق سے کام لیاہے۔ایک اورکتاب ’اردومیں فارسی کے دخیل الفاظ پر تصرف کاعمل‘ بھی اعلیٰ پایے کا نمونہ ہے، اس پر انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی ہے۔ یہ کتاب بنیادی طورپر اردومیں عربی فارسی الفاظ کے تصرف کاتاریخی اعتبارسے جائزہ ہے۔اس میں الفاظ کے صوتی، نحوی اورصرفی تصرف کاتجزیہ پیش کرتے ہوئے بڑی کارآمد بحث کی ہے۔

ڈاکٹر عالی جعفری، شاعری،  تنقید اورتحقیق سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔زبان وبیان، لسانی ارتقا، مختلف زبانوں کے اردوپر اثرات اورلفظ ومعنی کے رشتے پر ان کامطالعہ کافی گہراتھا۔ بمبئی کے اسمٰعیل یوسف کالج اور الفنسٹن کالج کے شعبۂ اردو سے وابستہ تھے۔انھوں نے گجرات کے مشہورصوفی شاعرخوب محمد چشتی کی نادر و نایاب متصوفانہ شعری تصنیف ’خوب ترنگ‘ پر پروفیسر ظہیرالدین مدنی کی نگرانی میں تحقیقی مقالہ سپرد قلم کیا۔ ’خوب ترنگ‘ کا موضوع مسئلۂ وحد ت الوجود ہے۔اس میں وہ لسانی خصوصیا ت موجود ہیں جو قدیم پنجابی، قدیم برج، ہریانی، مرہٹھی اوردکھنی میں ملتی ہیں۔اس کاشمار جدید اردومثنوی کی بنیادی کتابوں میں ہوتا ہے۔اس مقالے کو گجرات اردواکادمی نے 1963 میں شائع کیا ہے۔ علاوہ ازیں ’گجرات کی ایک غیرمعروف مثنوی موسیٰ سہاگ‘ ایک تحقیقی مقالہ ہے جسے بابائے اردو مولوی عبدالحق نے رسالہ اردومیں 1951 میں کراچی سے شائع کیاتھا۔اس میں عالی جعفری نے موسیٰ سہاگ کی شخصیت اوراس مثنوی کی ادبی ولسانی حیثیت پر عالمانہ گفتگو کی ہے۔ایک محققانہ اور مبسوط مقالہ ’بمبئی کے کتب خانوں میں دیوان ولی کے قلمی نسخے‘ بھی اہم کارنامہ ہے۔

جالب مظاہری کاوطن سہسرام تھا مگر انھوں نے اپنی عمرِعزیز کابیشترحصہ عروس البلادبمبئی میں گزارا۔زبان وادب پر ان کامطالعہ کافی گہراتھا۔ تدریسی کام کے دوران بچوں سے رابطے کی بناپر تلفظ کی عا م غلطیوں سے پوری طرح واقف ہوچکے تھے۔ انھیں پہلوئوں کے پیش نظر ان موضوعات پر تحقیق کی جانب راغب ہوئے۔مہاراشٹر میں اردوتحقیق کے لیے بہ لحاظ اصول وقواعد ایس جالب مظاہری کو سرِ فہرست رکھاجاسکتا ہے۔ انھوں نے علم عروض، صنائع بدائع، قواعد اردو اور اقسام نظم جیسے موضوعات پر کئی اہم تحقیقی تصانیف ادبی دنیا کو پیش کی ہیں۔ ان میں ’رموزِنظم‘، ’ممتازالقواعد‘ (فارسی) ’اصلاح تلفظ‘ اور ’قاموس الادب‘ وغیرہ بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ ’مطائبات شبلی‘علامہ شبلی نعمانی کے شذرات ولطائف پر مبنی ایک لطیف ودلچسپ کتاب ہے۔

یونس اگاسکراردو کے ایک معروف محقق، ناقد اور مترجم ہیں۔ اردو ادب کو انھوں نے کئی اہم کتابیںدی ہیں، جو ان کی علمی، ادبی اور تحقیقی صلاحیت کی غماز ہیں۔ ’مراٹھی ادب کا مطالعہ‘، ’اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی ولسانی پہلو‘، ’فکروفن اور فکشن‘، ’نٹ سمراٹ‘ اور’ غالب ایک بازدید‘وغیرہ ان کی اہم کتابیں ہیں۔تحقیق کے موضوع پر ان کی جامع تصنیف ’اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی ولسانی پہلو‘ ہے۔یہ تحقیقی مقالہ  ڈاکٹر نظام الدین ایس گوریکر کی نگرانی میں تحریرکیا گیاجس پر بمبئی یونیورسٹی نے یونس اگاسکرکو پی ایچ۔ڈی کی ڈگری تفویض کی ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹریونس اگاسکر کی علمی صلاحیت اور ان کی کتاب ’اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی ولسانی پہلو‘ کی ادبی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’ڈاکٹر یونس اگاسکر ادب کے ساتھ ساتھ سماجیات کے بھی سند یافتہ ہیں اور لسانیات کی باقاعدہ تربیت حاصل کرچکے ہیں۔ ان کا زیرنظر تھیسس’اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی ولسانی پہلو‘ سماجیات ولسانیات کا خوب صورت سنگم ہے۔ اردو میں ضرب الامثال اور کہاوتوں پر کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ اکثر وبیشتر کہاوتوں، محاوروں اور تلمیحوں کو ملادیا گیاہے۔ڈاکٹریونس اگاسکر نے نہ صرف تمام مآخذ کو پوری دل جمعی سے کھنگالا ہے، بلکہ تمام وکمال سعی وجستجو سے کام لیاہے اور موضوع کے تمام گوشوں پر بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ یہ اپنے موضوع پر پہلی جامع تصنیف ہے۔‘‘

پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اس کتاب کو اپنے موضوع پر پہلی جامع تصنیف ہونے کی سنددے دی ہے جس سے اس کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔

شرف الدین ساحل محقق،ناقد اور تخلیق کارہونے کے ساتھ ادب کے پارکھ بھی ہیں۔ تقریباً دو درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔ان کی تصانیف کسی مخصوص صنف تک محدود نہیں بلکہ ادب کی مختلف اصناف کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔عہدِ حاضرمیں ان کا شمارمہاراشٹرکے اہم محققین میں ہوتاہے۔ انھوں نے1977 میں ’ناگپور میں اردو ‘ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ناگپور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ شرف الدین ساحل کی تحقیق ’ناگپور میں اردو ‘اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ اس سے قبل اس موضوع پر کوئی تحقیقی کام نہیں ہواہے۔ اپنے تحقیقی مقالے میں انھوں نے اٹھارہویں صدی کی ابتدا سے لے کر بیسویں صدی کی آخری دہائی تک ناگپورکی ادبی شخصیتوں اور ان کے تحریری کارناموں کا بغائر مطالعہ کرتے ہوئے اپنی ذہانت اور تنقیدی صلاحیتوں کا عملی ثبوت فراہم کیاہے، اور ان کے ادبی سرمایوں کی قدر و قیمت کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ ’بیان میرٹھی : حیات اور شاعری‘ ساحل کا ایک عمدہ تحقیقی کارنامہ ہے۔ شرف الدین ساحل کی یہ کاوش ان کے تحقیقی جوش، ہمت واستقامت اور مسلسل کارکردگی کی بدولت ہی ممکن ہوسکا ہے۔

دکن مسلم ایجوکیشن اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پونہ بنیادی طورپر ایک علمی ادارہ ہے۔ اسے اردو اور فارسی زبان وادب کی تدریس اور فروغ کے مقصدسے قائم کیا گیا۔ اس ادارے میںعلم وادب کی تدریس کے ساتھ ریسرچ کے طلبہ کے لیے ایک ریسرچ سینٹر بھی قائم ہے۔جہاں سے ریسرچ اسکالر اپنے تحقیقی کام میں خوب استفادہ کرتے ہیں۔اس انسٹی ٹیوٹ سے شائع ہونے والی کتابوں میں ’خان بہادر پروفیسر شیخ عبدالقادر سرفراز احوال وآثار‘ (2003) اور’جنوبی ہند میں اردو زبان وادب کی تدریس کے مسائل ‘(2004)اہمیت کی حامل ہیں۔

انیس چشتی مہاراشٹر کے شہر پونے کے ایک معروف اسکالر اور محقق ہیں۔انھوں نے بے شمار علمی،ادبی اور تحقیقی مقالات لکھے۔عالمی رابطۂ ادبِ اسلامی کے سمیناروں، اردو اکیڈمیوں، یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں میں اپنے مقالے پیش کیے۔ان کے تحقیقی، علمی وادبی مقالات کا مجموعہ ’عصری وتحقیقی مقالات‘ کے نام سے 2012 میں شائع ہوا۔

رفیق جعفر ایک ممتاز ادیب، افسانہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر کے ساتھ ایک محقق بھی ہیں۔ اردو ادب کوانھوں نے کئی کتابیں دی ہیں۔ ’اردوادب کے تین بھائی ‘ ان کی تحقیقی کتاب ہے۔ اس میں اردو ادب کے تین بھائی محبوب حسین جگر،ابراہیم جلیس اور مجتبیٰ حسین کے ادبی وصحافتی کارناموں کا تفصیلی جائزہ لیاگیاہے۔

شعبۂ اردو ممبئی یونیورسٹی (قیام 1982) تحقیق وتدریس کاایک اہم شعبہ ہے۔ اپنے قیام کے ابتدائی زمانے سے ہی ایک فعال اور متحرک شعبہ رہا ہے۔اس شعبے کو پروفیسر عبدالستار دلوی، پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی،پروفیسر یونس اگاسکر، پروفیسر معین الدین جینا بڑے اور پروفیسر صاحب علی جیسے اساتذہ ملے جن کی رہنمائی میں بے شمار تحقیقی مقالے لکھے گئے۔اس شعبے کا ریسرچ اینڈ ریفرڈ جرنل ’اردو نامہ‘ پروفیسر صاحب علی کی سعی بلیغ کا نادرونایاب کارنامہ ہے،جو اپنی علمی وفکری ترجیحات اور رویوں کے سبب ایک معتبر جریدے کی حیثیت رکھتاہے۔

 

Dr. Mohammad Zubair

MANUU Coordinator

LSC. M.S College of Arts.Comm.Sci. & BMS

Kausa Mumbra, Thane - 400612  (MS)

Mob: 9022951081

m.zubair.mau@gmail.com

 

عادل ناگپوری: فن اور شخصیت، مضمون نگار:محمد اسد اللہ

 ماہنامہ اردو دنیا ،جولائی2024



وسط ہند کا شہر ناگپور ادب کے مشہور مراکز مثلا دہلی، لکھنؤ، لاہور،حیدر آ باد وغیرہ کی طرح ابتدا ہی سے علمی و ادبی سر گر میوں کی آ ماجگاہ نہیں تھا لیکن ان تہذیبی مراکز کی دھڑکنوں سے بیگانہ بھی نہیں رہا۔ اس دعوے کے ثبوت میں شہر ناگپور کی ادبی روایات اور تخلیق کاروں کے رشحاتِ قلم کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان میں ایک اہم نام عادل ناگپوری (1823-1894) کا بھی ہے۔ جہاں عادل ناگپوری، ناگپور کے ایک اہم قدیم شاعر کے طور پر معروف ہیں وہیں ان کی انتظامی خدمات بھی ان کی شخصیت کو قدآوری عطا کرتی ہے۔ وہ ناگپور کے فرمانرواں  رگھوجی بھوسلہ ثالث کے عہد میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔

حالاتِ زندگی

عادل ناگپوری فارسی اور اردو کے قادر الکلام شاعر تھے، مختلف زبانوں پر انھیں عبور حاصل تھا۔ عادل کانام سید محمد عبد العلی، کنیت ابوالکاظم اور تخلص عادل تھا۔وہ 1823 میں ناگپور میں پیداہوئے تھے۔۔ ٹیپو سلطان کی شہادت 1799 کے بعد عادل ناگپوری کا خاندان ریاست میسور سے ناگپور میں منتقل ہوا تھا۔عادل ناگپوری نے دینیات کی ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر ہی حاصل کی تھی۔ اس میں قرآن مجید حفظ کیا اور قرأت اور تجوید کے بنیادی اصول سیکھے۔ اس کے بعد وہ ناگپور کے سب سے بڑے مدرسے رسولہ میں داخل کیے گئے۔ عادل ناگپوری رگھوجی بھوسلہ ثانوی کے عہد میں حکومت کی انتظامیہ میں شامل ہوئے اور رگھوجی بھوسلہ ثالث کے دور میں پہلے جمعدا ر اور پھر رسالدار کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔ عادل کو دینی علوم اور تصوف سے خصوصی شغف تھا۔آ خر عمر میں وہ کئی عوارض کے سبب بہت کمزور ہوگئے تھے۔ 1894 میں ان کا انتقال ہوا۔

 یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ مشہور محقق اور ادیب و شاعر ڈاکٹر محمدشرف الدین ساحل نے عادل ناگپور ی کو ان کی تمام تر ادبی خدمات کے ساتھ اردو دنیا سے متعارف کروایا اور اس عظیم شاعر کے متعلق تحقیقی کاموں کے لیے راستے ہموار کیے۔انھوں نے کلیاتِ عادل کو مرتب کر نے کے علاوہ عادل ناگپوری شخص،شاعر،نثر نگار ( مطبوعہ 2011) جیسی کتاب لکھ کر عادل ناگپوری کے حالاتِ زندگی اور ان کے فکر و فن کا احاطہ کیا۔ اس کے علاوہ ماہنامہ قرطاس کا عادل ناگپوری نمبر بھی ان کی رہنمائی میں شائع ہوا۔ ڈاکٹر ساحل نے نہ صرف عادل ناگپوری کے اردو اور فارسی کلام کو محفوظ کیا بلکہ اس پر تحقیق کا حق بھی ادا کیا۔وہ عادل ناگپوری کے حالاتِ زندگی کے متعلق لکھتے ہیں:

عادل جب سنِ شعور کو پہنچے تو رگھوجی ثالث کی انتظامیہ سے وابستہ ہوئے اور ترقی کرکے نائب رسالدار  کے منصب پرفائز ہوئے تھے کہ 11 دسمبر 1853 کو راجہ کا انتقال ہوگیا اور اسی کے ساتھ بھوسلہ حکومت کا چراغ بھی گل ہوگیا۔ انگریزوں کا دورِ حکومت شروع ہوا تو انتظامِ حکومت کی نئی پالیسی وضع ہوئی۔مراٹھی اور فارسی کی جگہ انگریزی زبان نے لے لی اس سیاسی انقلاب کے باعث عادل کی نوکری جاتی رہی اب وہ خاندانی جاگیر اور کھیتی باڑی کی آ مدنی پر گزر بسر کر نے لگے ان کے لیے 1862 میں برٹش گورنمنٹ نے کچھ رقم بھی وظیفے کے طور پر مقرر کی تھی... عادل بھونسلہ راجہ کے خاندان اور انگریز افسران کے بے انتہا وفادار تھے اس لیے 1857 کے تاریخی انقلاب کے بعد ان کی جاگیر محفوظ رہی۔اس انقلاب کے بعد بیشتر مسلم خاندان تلاشِ معاش میں دوسرے شہروں میں منتقل ہوگئے لیکن عادل ناگپور ہی میں مقیم رہے۔

(ڈاکٹر شر ف الدین ساحل،  عادل ناگپوری، شخص، شاعر، نثر نگار، 2011، ص27)

 عادل ناگپوری غالب، مومن اور ذوق کے ہم عصر تھے اور غالب گمان ہے کہ یہ شعرا ان کے کسبِ نور کا منبع رہے ہوں۔ان میں لکھنؤ کے شعرا ناسخ،آ تش،انیس، دبیر کے کلام کا اثر عادل کے یہاں نمایاں ہے۔ عادل نے جن شعرا کی زمینوں میں طبع آ زمائی کی ان میں غالب، میر،سودا، آ تش، ناسخ اور ممنون، بھی شامل ہیں البتہ ان کے کلام کا سر سری مطالعہ بھی اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ انھوں نے لکھنؤ کے طرزِ فکر اور اندازِ سخن کو قبول کیا اور اپنی شاعری کو ان ہی خطوط پر آ گے بڑھایا تھا۔ ا ن کے کلام میں خارجیت،مضمون آ فرینی،معنی آ فرینی،قادر الکلامی زبان و بیان کی رنگینی اور لطافت، صنائع بدائع کا بڑے پیمانے پر استعمال ثابت کرتا ہے کہ وہ لکھنوی طرزِ شاعری کے دلداہ تھے۔یہی وہ رنگ ہے جس کی توضیح ہمیں آ تش کے اس شعر میں دکھائی دیتی ہے         ؎

بندشِ الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں

شاعری بھی کام ہے آ تش  مرصع ساز کا

عادل ناگپوری کے یہاں عاشقانہ متصوفانہ اور رندانہ مضامین ملتے ہیں۔ عادل کی شعریت اور تغزل فارسی و عربی الفاظ کی مدد سے خیال آ فرینی کی بہار دکھاتی ہے۔ یہ خوبیاں لکھنوی طرزِ سخن کا طرہ ٔ امتیاز ہے البتہ معروف ناقد سلیم شہزاد ان کے کلام کے عمیق مطالعے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کر تے ہیںکہ عادل ان تمام شعرا کے مقابلے میں مرزا غالب سے زیادہ متاثر تھے۔ وہ عادل کے متعلق لکھتے ہیں :

ان کا اردو کلام با ٓ وازِ بلند اعلان کر رہا ہے کہ میں اپنے پیش روؤں کے علاوہ سب سے زیادہ نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا اسد اللہ خان غالب  سے متاثر ہوں۔ غالب کی طرح عادل بھی کثیر الاطراف اظہار کے فنکار تھے۔ فارسی نظم و نثر، مکتوب نگاری،تفسیر و فقہ، تصوف و تاریخ اور لغت نگاری جیسے لسانی تعملات ان کے حیطۂ اظہار میں شامل تھے۔ان کی اردو شاعری کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ آ نجناب کے غزلیہ اظہار پر بھی غالبیت کا غلبہ ہے۔ عربی فارسی الفاظ و تراکیب، خیالات اور شعری نحو میں غالب کی سی لسانی پیچیدگی عادل کے کلام کی نمایاں خصوصیت ہے۔

(سلیم شہزاد، رزم کی زبان،مطبوعہ عادل ناگپوری،مرتبہ ڈاکٹر محمد شر ف الدین ساحل2011، ص 13)

غزل گوئی

 عادل ناگپوری کا اردو کلام ان کی قادرالکلامی استادانہ مہارت، صنائع بدائع کے بھر پور استعمال کی قدرت اور سخت و مشکل زمینوں میں طبع آ زمائی کی صلاحیت کا بین ثبوت ہے۔ انھوں نے طویل غزلیں کہیں،ان کے کلام میں دو غزلہ، سہ غزلہ، پنچ غزلہ اوربعض قافیوں میںکئی اشعار کہنے کی مثالیں موجود ہیں۔عادل ناگپوری نے قوافی اور ردیفوں کے استعمال میں یہ کمال دکھایا کہ معنی آ فرینی کے جس قدر امکانات ان الفاظ میں موجود تھے انھیں اپنے تخلیقی جوہر سے چمکایا۔ اپنی مشکل پسندی کے باوصف وہ محبوب کے سراپے کو معنی آ فرینی اور مضمون آ فرینی کے ساتھ رعایتِ لفظی کے ساتھ پیش کر تے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ فر مائیں        ؎

عیاں زلفوں میں ایسا نور ہے رُوئے درخشاں کا

کہ جیسے سنبلستاں میں ہو جلوہ ماہِ کنعاں کا

آ نکھ اس کی نرگسِ مخمور سے کچھ کم نہیں

لب مذاقِ بادۂ انگور سے کچھ کم نہیں

اس مستِ ناز کے لبِ میگوں کے سامنے

ہوتی ہے فرطِ شرم سے خُم میں شراب آ ب

گر الٹ دے رخِ پر نور سے اپنے وہ نقاب

ہو شبِ ماہ سے روشن،شبِ تار آ پ سے آ پ

عادل کی شاعری میں درد و غم، اضطراب اور سوزو گداز کا ااظہاربھی پر اثر انداز میں ہوا ہے۔ چمن سے ماخوذ وہ پیکر اور نور و نکہت کے تصورات جو عادل کی شاعر ی میںمحبوب کا سراپا بیان کرتے ہیں،حسبِ ضرورت زندگی کے دکھ درد کے استعارے بھی بن جاتے ہیں          ؎

ہنستا ہے گل تو روتی ہے شبنم تمام رات

خالی غم و طرب سے جہاں کا چمن نہیں

تصور ہے دم گریہ یہ کس کے روئے تاباں کا

کہ ہر قطرے میں عالم ہوگیا برقِ درخشاں کا

دمِ تحریر حالِ سوزشِ داغِ دل ِ مضطر

قلم میں دفعتاً عالم ہوا سروِ چراغاں کا

بوئے پیراہن مرے یوسف کی لائی تب صبا

صورتِ یعقوب زائل جب بصر اپنا ہوا

سدا رہتا ہے دل مشغول ِ ماتم

مرا سینہ ہے یا بزمِ عزا ہے

تجھ کو پہلے ہی قدم میں آ بلہ پائی ہوئی

منزلِ غم کا ہنوز اے دل بیاباں دور ہے

قصیدہ نگاری

عادل ناگپوری نے اردو اور فارسی میںقصائد قلم بند کیے ہیں۔  اردو میںان کے چار قصائد کے عنوانات حسب ذیل ہیں (1) قصیدہ ( در) مسند نشیں رگھوجی بھونسلہ چہارم (2) قصیدہ ختنہ ( کذا) اعظم شاہ بہادر راجہ قلعہ ناگپور (3)  قصیدہ در مدح شیو شنکر لال (4) ایضاً

مشہور محقق ڈاکٹر نور السعید اختر ان کے متعلق لکھتے ہیں:

عادل نے غزلوں سے زیادہ قصائد میں اپنی قادر الکلامی کا ثبوت دیا ہے۔فارسی میں ان کے کل قصائد کی تعداد18 ہے۔ فارسی شاعری اور انشا پر دازی میں جو کارنامے اپنے پیچھے چھوڑے ہیں میں یہ بات مکمل وثوق کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ پورے مہاراشٹر میں اتنا زبردست کارنامہ کسی شاعر نے انجام نہیں دیا ہے۔ فکری و معنوی لحاظ سے بھی عادل کے کارنامے منفرد ہیں۔اس تبحر علمی اور فنی لیاقت کے باعث انھوں نے تقریبا ڈیڑھ درجن کتابیں اردو اور فارسی میں تصنیف و تالیف کیں۔ان میں زیادہ تر کتابیں فارسی میں ہیں۔دیوانِ فارسی،دیوانِ قصائد،دیوانِ تاریخات، مثنوی سحرِ بابل اور مثنوی ریاض العمارب وغیرہ اس کا بیّن ثبوت ہیں۔

(ڈاکٹر نور السعید اختر، عادل فارسی کا ایک قادر الکلام شاعر، ماہنامہ قرطاس، اگست 2010، ص39)

ڈاکٹر غلام السیدین ربانی کا خیال ہے کہ ’’عادل ناگپوری کی تخلیقی قوتیں، ان کی تشبیہات اور استعاروں میں پوری آ ب و تاب کے ساتھ جھلکتی ہیں عادل کے ہنر کے غماز ان کے قوافی بھی ہیں۔عادل نے اپنے زمانے کے اہم واقعات سے متاثر ہوکر متعدد تاریخیں کہی ہیں۔ ان تاریخی قطعات میں زبرست علمیت اور استادانہ مہارت کا مظاہر کیا ہے۔ ‘‘

(ڈاکٹر غلام السیدین ربّانی،عادل کی قصیدہ نگاری، ماہنامہ قرطاس، اگست 2010،ص132)

 مرثیہ نگاری

عادل ناگپور نے مرثیہ نگاری میں بھی اپنے جوہر نمایاں کیے ہیں۔ امام حسین کی شہادت سے متعلق ان کے تین مر ثیے ان کے کلیات میں موجود ہیں۔ یہ ان فنی خوبیوں سے آ راستہ ہیں جو انیس و دبیر کے یہاں پائی جاتی ہیں۔ ان میں صنائع بدائع کا استعمال اوراحساسات و جذبات کی عکاسی پر اثر انداز میں کی گئی ہے        ؎

دیدہ دمِ تحریر مرا اشک  فِشاں ہے

آ نسو کے عوض آ نکھ سے خون ناب رواں ہے

چشم ابر کی مانند سدا گریہ کناں ہے

بلبل کی صفت سینے میں دل نعرہ زناں ہے

پیدا سرِ ہر مو ئے بدن گر چہ زباں ہو

یہ وہ ہے الم جس کا زباں سے نہ بیاں ہو

 مثنوی نگاری

عادل ناگپور نے مثنوی نگاری میں بھی اپنی قادر الکلامی کے نقوش ثبت کیے ہیں۔انھوں نے فارسی میں سحرِ بابل، ریاض المعارب اور نور الہدیٰ نامی مثنویاں تحریری کی ہیں۔ مجموعی طور پر ان تینوں مثنویوں کے اشعار کی تعداد پانچ ہزار سات سو بیس (5720) ہوجاتی ہے۔ البتہ اردو میں ان کی دو ہی مثنویاں ہیں  جن کے اشعار کی مجموعی تعداد 290 ہے۔پہلی مثنوی میں محبوب سے خط نہ ملنے کی شکایت ہے اور دوسری مثنوی ایک منفرد موضوع کا احاطہ کرتی ہے جس میں ایک ماں کے دکھ کو بیان کیا گیا ہے جو اپنی بیٹی کے شوہر کی بے اعتنائی سے اس قدر غم زدہ ہے کہ وہ چاہتی ہے کہ اس کی بیٹی کا پہلا نکاح فسخ ہو جائے اور وہ کسی دوسرے نوجوان سے شادی کر لے۔ یہ مثنوی شاعر کی عصری حسیت اور سماجی صورتِ حال کی عکاسی کرتی ہے      ؎

چاہتی ہوں میں اپنی دختر کو

یعنی برجِ حیا کے اختر کو

نامزد کوئی اور سے کروں

پہلے شوہر سے فسخ عقد کروں

عادل نے دو کتابوں کے دیباچے بھی مثنوی کی طرز پر لکھے ہیں۔پہلی کتاب راجہ جانوجی بھوسلے کی تصنیف ہے۔ یہ منظوم دیباچہ 101 اشعار پر مشتمل ہے    ؎

اگر یوں ہی منظور ہے سیر ِ گلشن

ہے مطلوب سمعِ صفیر نوازن

ذرا چل کے اب دیکھ دربار اس کا

کہ کیسا ہے محفل میں گلزار ا س کا

جسے دیکھ کر پیرِِ فلک با قدم خم

ادب سے کھڑا بہرِ مجرا دمادم

دوسرا منظوم دیباچہ اپنے اردو کے پہلے مجموعے خزائن الاشعار (1854-55)  کے لیے تحریر کیا تھا۔ جس میں 156 اشعار موجود ہیں۔اس کے چند اشعار ملاحظہ فر مائیں        ؎

خیر جو کچھ کہے گئے اشعار

کیجیے جمع ان کو بے تکرار

دل میں ا س طور جب خیال آ یا

نام تاریخی فکر نے چاہا

کہا عادل نے ناگہاں اک بار

نام اس کا خزائن الاشعار

تصانیف

عادل ناگپوری کی تصانیف میں کلیاتِ عادل 192 صفحات پر مشتمل ہے جو 2006 میں شائع ہوا تھا۔ اس میں دیوانِ اردو، خزائن الاشعار،جیش المضامین، دیوانِ قصائد اور دیوانِ تاریخات شامل ہیں۔ اسے مختلف مخطوطات کی مدد سے مرتب کیا گیا ہے۔ شرح کریما سعدی شیرازی کی مشہور فارسی نظم ہے عادل نے اس کا منظوم اردو ترجمہ 1837 میں اس وقت کیا تھاجب ان کی عمر صرف 14 سال تھی۔

عادل ناگپور ی کو تاریخ گوئی میں بھی مہارت حاصل تھی، انھوں نے ایک مکمل دیوان دیوانِ تاریخات کے نام سے ترتیب دیا تھا جس میں 190 قطعاتِ تاریخ اردو اور فارسی میں موجود تھے۔

 خزائن الاشعار، عادل کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ 1854 میں مرتب کیا تھا۔

جیش المضامین،عادل کا دوسرا مجموعۂ کلام ہے جو 1868 میں مرتب کیا گیا تھا۔

دیوانِ اردو، 48 صفحات پر  اوردیوانِ فارسی 32 صفحات پر مشتمل ہے۔

دیوانِ قصائد میں فارسی کے 18 قصائد  اور اردو کے دو قصائد شامل ہیں۔

ان تصانیف کے علاوہ،سحر ِ بابل ریاض المعارب نور الہدیٰ،چہل حدیث مترجم،نثر المتین فقہ اکبر،مفتاح الفتوح،حقیقت ِ خواب،نصاب گونڈی اور شرح علوم ان کی کتابیں ہیں۔

غرض عادل ناگپوری نے مختلف شعری و نثری اصنافِ میں اپنے تخلیقی جوہر کو نمایاں کر کے ادب کونئی فنی جہات سے آ شنا کیا اور فکری و معنوی اعتبار سے ادبی روایت کو توانائی عطا کی ہے

 

Mohammad Asadullah

30, Gulsitan Colony

Nagpur- 440013 (MS)

Mob.: 9579591149

zarnigar2006@gmail.com

 

تازہ اشاعت

علم طب، ماخوذ ازہمارا قدیم سماج، مصنف: سید سخی حسن نقوی

  ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024 علم طب کی ابتدا بھی ویدک دور ہی میں ہوگئی تھی۔ اتھرووید میں بہت سی بیماریوں اور ان کے علاج کا ذکر موجود ہ...