اردو دنیا، نومبر 2024
موجود ہ دور کو سائنس اور ٹکنالوجی کا دور کہا جاتا ہے،
جدیدٹکنالوجی نے ہمارے رابطے اور معلومات کے طریقے میں انقلاب برپا کردیا ہے،
ٹکنالوجی (Technology) لفظ انگریزی میں یونانی
زبان سے آیا ہے، جس کے معنی کسی فن یا تکنیک کا منظم مطالعہ کے ہیں۔
ٹکنالوجی سے مراد وہ وسائل، طریقے اور نظام ہیں جو
مسائل کو حل کرنے، کام کو بہترین طریقے سے انجام دینے اور انسانی صلاحیتوں کو بہتر
اور کار آمدبنانے کے لیے تیار کیے گئے ہیں، موجودہ صدی میںجدید ٹکنالوجی زندگی کے
ہرشعبے میں داخل ہوچکی ہے، انسانی زندگی کا کوئی شعبہ اس ٹکنالوجی سے خالی نہیں
رہا، ایجادات واختراعات کا سلسلہ جاری ہے،روزانہ ایسی ایسی ایجادات،آلات دنیا کے
سامنے آرہے ہیں جنھیں دیکھ کر عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔
آج سائنس اور ٹیکنالوجی نے اپنی حیرت انگیز ترقی اور
وسعت کی وجہ سے دنیا کو ایک عالمی گاؤں میں تبدیل کردیا ہے، انسانی زندگی کے دھارے
کو موڑ دیا ہے، انسان کی سوچ وفکر، گفتگو، تہذیب وثقافت اور اس کے طرز زندگی کو
بدل دیا ہے، دوریوں اور فاصلوں کو ختم کر دیا ہے، زندگی کے ہر شعبے میں نت نئی تبدیلیاں
نظر آرہی ہیں، سماجیات سے لے کر اخلاقیات تک، معاشیات سے لے کر سیاسیات تک،تعلیم
سے لے کر ادب وثقافت تک، غرضیکہ زندگی کے ہر شعبے میں بڑی تیزی کے ساتھ تبدیلیاں
رونما ہورہی ہیں،اور ان تبدیلیوں کے دور رس اثرات جہاں ایک طرف زندگی کے ہر میدان
اور شعبے میں دیکھے جا رہے ہیں، تو وہیں
دوسری طرف اردو صحافت کے میدان میں بھی دیکھے جا رہے ہیں ۔
ڈاکٹر احسان عالم اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیںکہ:
’’اکیسویں صدی کی آمد کے ساتھ سائنس اور
ٹکنالوجی کے میدان میں کافی ترقی ہوئی، ان ترقیوں کے ساتھ اردو صحافت کے آنگن میں
نئی روشنی آب و تاب کے ساتھ نظر آئی، اردو اخبارات، رسائل و جرائد کی اشاعت اور
طباعت کا مرحلہ آسان سے آسان تر ہوتا چلا گیا، دنیا آج گلوبل ولیج میں تبدیل ہو
چکی ہے اور اس کے ساتھ ہی اردو صحافت کی مسافت پر لگام لگانا آسان ہوتا گیا، کمپیوٹر
کی آمد اور انٹرنیٹ کے پھیلاؤ کے ساتھ اردو صحافت کا دائرہ کافی تیزی سے وسیع
ہوتا گیا، اکیسویں صدی کی شروعات کے ساتھ ہی اردو اخبارات کی ظاہری شکل و صورت اور
خوبصورتی میں کافی اضافہ ہو گیا جو عام قارئین کی توجہ کا مرکز بنا، دہلی، اتر پردیش،
بہار، جموں وکشمیر، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، مغربی بنگال وغیرہ صوبوں میں اردو
صحافت نے کافی ترقی کی، اخبارات اور رسائل بڑے پیمانے پر شائع ہونے لگے۔‘‘
(امام اعظم،ڈاکٹر،اکیسویں صدی میں اردو
صحافت، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی، 2016، ص141)
اکیسویں صدی میں جدیدٹیکنالوجی اور ذرائع ترسیل کا
کنٹرول ہے، ہر پل رونما ہونے والے واقعات اور حادثات کی اطلاع لمحوں میں ساری دنیا
میں پہنچ جاتی ہے، عوامی ذرائع ترسیل کی بے پناہ ترقی نے تمام عالم انسانیت کو
انگشت بدنداں کر دیا ہے، آج ٹی وی،فلم، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، الیکٹرانک میل، موبائل
فون، ویڈیو کانفرنسنگ، سٹیلائٹ چینلز اور ڈیجیٹل صحافت کا دور دورہ ہے، دنیا بھر کی
معلومات محض انگلی کی ایک جنبش کی مرہون منت ہو گئی ہیں۔
آج
ہم جس سماج میں جی رہے ہیں، اسے مکمل طور پر ایک معلوماتی اور ڈیجیٹل سماج بنانے میں
ان جدید وسائل ابلاغ و ترسیل کا بہت بڑا رول ہے، ان کے ذریعے ہرطرح کی معلومات اور
خبریں تیزی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے لگیں،دنیا بھر کی خبریں انٹرنیٹ کے
ذریعے لمحوں میں اِدھر سے اُدھر پہنچ جاتی ہیں، ان ذرائع ترسیل کی قوت اور دسترس
کا اندازہ آسانی سے نہیں لگایا جا سکتا ہے، آج دنیا کی ہمہ جہت ترقی میں عوامی
ذرائع ابلاغ سب سے اہم رول ادا کر رہے ہیں، یہ ہماری سماجی، معاشی، تجارتی، تعلیمی،
تہذیبی، ثقافتی اور سیاسی زندگی پر ہر طرح اثر انداز ہو رہے ہیں، زیادہ تر دانشور
اس بات پر متفق ہیں کہ عوامی ذرائع ابلاغ نے ہماری مادی ترقی کو، مادی وسائل کو،
ہماری تہذیبی اقدار اور فکری میلانات کو شدت سے متاثر کیا ہے ۔
گذشتہ چند برسوں میں مواصلات اور ابلاغ عامہ کی غیر
معمولی توسیع نے عوام کی روایتی زندگی پر گہرا اثر ڈالا ہے اور اس نے ہمارے سماج
کے سامنے ایک بڑا چیلنج کھڑا کر دیا ہے، عوامی ذرائع ترسیل نہ صرف دنیا کا نقشہ
بدل رہے ہیں بلکہ دنیا کی تقدیر کو بھی انھوں نے اپنی مٹھی میں کر لیا ہے، ترسیل
اور کمیونی کیشن ایسی تکنیکیں ہیں جن سے واقف ہوئے بغیر کوئی شخص ترقی نہیں کر
سکتا، خوشی کی بات ہے کہ ہماری نئی نسل اس جانب متوجہ ہوئی بھی ہے، اسے اس میدان کی
وسعت کا اندازہ ہو گیا ہے اور وہ اس امر سے واقف ہے کہ اس میں آزادانہ طور پر کام
کیا جا سکتا ہے، وہ شعبٔہ ابلاغیات یعنی ریڈیو، ٹی وی، صحافت اور فلم سے براہ راست
وابستہ ہونا چاہتی ہے، اس لیے کہ اس میں روزگار کے مواقع موجود ہے۔
زندگی آج جس قدر تیز رفتار ہوئی ہے صحافت کی ترقی کی
رفتار اس سے کہیں تیز ہے، انسان نے زمین پر جتنی سرحدیں بنائی ہیں، چوحدیوں پر
آہنی پر دے لٹکائے ہیں صحافت نے ان گھیروں کو ہمیں توڑنے پر مجبور کیا ہے اور یہ
تغیر کچھ یوں ہی نہیں ہوا، اس کے لیے ذات اور ذہن کے اندر جو دیوار یں اور سرحدیں
تھیں اسے عبور کرنے کا سلیقہ آدمی نے اسی سے سیکھا، اس عبوری عمل میں صحافت نے
انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ اس کے اثرات انسانی علوم پر
بھی پڑے ہیں، تہذیبی تاریخ مرتب کرنے میں بھی اس کا بڑا ہاتھ ہے،تہذیب کے مختلف
ادوار کو، ان کے رد و قبول کو عالمی حافظے میں محفوظ کرنے کا کارنامہ بھی اس نے
انجام دیا ہے، ان کارناموں کے مظاہر کم و بیش دنیا کے سارے ممالک کی زبانوں میں
موجود ہیں، اور یہ مظاہر ہمارے لیے زندہ دستاویز ہیں، جو رونما ہونے والے عالمی
واقعات سے صحافت کے انسلاک کی گواہی دیتے ہیں۔
جدید ٹکنالوجی کے اثرات کی وجہ سے اردو صحافت مسلسل ترقی
کی راہ پر گامزن ہے، اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ آنے والی صدی اردو صحافت کے لیے ایک
خوش آئند صدی ہوگی،اردو اخبارات ورسائل نے اپنی بساط بھرٹکنالوجی کو استعمال کرنے
کی بھرپور کوشش کی ہے اور آج اردو کے اخبارات میں جدید ترین ٹکنالوجی کا استعمال
ہورہا ہے۔ اس نے نہ صرف برصغیر میں اپنا پرچم بلند کیا ہے بلکہ اس نے کئی نئی بستیاں
بسائیں اور نئے آشیانے آباد کیے ہیں۔
عابد انور اپنے ایک تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیںکہ:
’’جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے معاملے میں
کسی بھی زبان کے اخبارات سے اردو کے اخبارات کمتر نہیں ہیں اور خبروں کے معاملے میں
بھی اردو کے اخبارات پیچھے نہیں ہیںخصوصا بین الاقوامی خبروں کے سلسلے میں اردو کے
اخبارات اہل وطن کی تمام زبانوں کے اخبارات سے آگے ہیں، اردو کے اخبارات میں بین
الاقوامی خبروں کوخاص اہمیت دی جاتی ہے اور نمایاں طور پر شائع کیا جاتا ہے،اردو
پروگرام ان پیج نے اپنے خوبصورت نوری نستعلیق کے اخبارات کی طباعت میں انقلاب برپا کیا ہے۔‘‘
(تنزیل اطہر، ڈاکٹر،الیکٹرانک میڈیا اور اردو
صحافت،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،نئی دہلی، 2015،ص123)
آج جدید ٹکنالوجی کی مدد سے اردو خلیجی ممالک سمیت
مغربی ممالک یوروپ افریقی ممالک میں بولی جارہی ہے اور وہاں سے کئی اخبارات بھی
شائع ہورہے ہیں، انٹرنیٹ کی توسیع نے تو ایک انقلاب برپا کردیا ہے، ہر جگہ سے ویب
اور ای اخبارات شائع ہورہے ہیں جو نہ صرف اردو زبان کو فروغ دینے میں معاون ثابت
ہورہے ہیں بلکہ اردو صحافت، شاعری اور ادب کو بھی عوام الناس تک پہنچا رہے ہیں،آج
ہندوستان میں انٹرنیٹ کی زبان اردو ہے ،اگر کسی کو بھی اپنی بات مؤثر انداز میں
کہنی ہوتی ہے تو اردو زبان، اردو شاعری اور اردو جملوں کا سہارا لیتا ہے، یہ کمپیوٹر
اور اطلاعاتی ٹکنالوجی کا ہی کمال ہے کہ فیس بک ہو یا ٹوئٹر ہر جگہ اردو کی دھوم
ہے۔
آن لائن ایڈیشن اور سوشل میڈیا ویب سائٹس کی بدولت
اردو صحافت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے،ایک عام اندازے کے مطابق دو لاکھ سے
زائد اردو کی ویب سائٹس اس وقت موجود ہیں جن سے اردو صحافت کے علاوہ اردو زبان
وادب کی ترویج واشاعت میں مدد مل رہی ہے،اردو سافٹ ویئرس،ڈکشنریز،اردو اخبارات
وجرائد،اردو اکیڈیمیز،کتاب گھر،اردو سیکھنے سکھانے کے ذرائع ان میں شامل ہیں۔
آزادی کے بعد اکیسوی صدی کے آغاز میں پہلی بار اردو صحافت میں جدید ترین ٹکنالوجی
کا استعمال کیا گیا۔ دہلی، ممبئی، کولکاتہ، حیدرآباد، پٹنہ، بنگلور اور ملک کے دوسرے
بڑے شہروں سے نئے نئے اخبارات منظر عام پر آرہے ہیں جو صحافتی معیار اور جدید ترین
ٹکنالوجی کے آئینہ دار ہیں۔ مختلف اقسام کے فونٹس کے استعمال سے اردو اخبارات اور
ان کے مختلف موضوعات پر شائع ہونے والے ایڈیشنز کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے جب
کہ فوٹو شاپ،کورل ڈرا،پیج میکر جیسے سافٹ ویئرس کی بدولت گرافگ ڈیزائننگ،تصاویر کی
صفحے کی مناسبت سے تزئین وترتیب کی جارہی ہے،یہی طریقہ کار میقاتی جرائد اور
کتابوں کی اشاعت کے لیے بھی تیار کیا جا رہا ہے۔
دور
درشن پر 24 گھنٹے تک چلنے والا نیوز چینل ڈی ڈی اردو، سہارا گروپ کا عالمی سہارا
اور اخبار’منصف‘ کا ’منصف ٹی وی ‘ اردو کی توسیع میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔
ای ٹی وی اردو،روبی ٹی وی،4TV
،ٹی نیوزگزشتہ کئی سالوں سے اردو صحافت کو فروغ دینے میں نمایاں کردارادا کررہے ہیں۔
دور درشن اور اردو صحافت کارشتہ مضبوط اور اٹوٹ ہے۔دوردرشن کے اردو پروگراموں
بالخصوص خبرنامے، مباحث، انٹرویوز وغیرہ کے لیے اردو صحافت سے وابستہ اہم شخصیات کی
خدمات سے استفادہ کیا جاتا رہا، اگرچہ کہ اسے خاطر خواہ سرپرستی حاصل نہیں ہے،تاہم
اردو صحافت کا سفر دوردرشن کے ذریعے بھی جاری ہے۔ای ٹی وی اردو ایک قومی ٹیلویژن چینل
ہے، یہ دنیا کے بیشتر ممالک میں دیکھا اورپسند کیا جاتا ہے۔ دکن کا خبر نامہ،خاص
بات،عالمی منظر وغیرہ قبول عام پروگرام ہیں۔
آج اردو کے زیادہ تر اخبارات اپنا آن لائن ایڈیشن
شائع کر رہے ہیں، یہ اردو صحافت کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے
بھی آج ہندوستان میں اردو صحافت کی ترسیل ہو رہی ہے۔ ان کے ذریعے ثقافتی، ادبی،
سماجی، تعلیمی مباحثے، مذاکرے اور تبصرے پیش کیے جارہے ہیں،بیشتر اردو اخبارات نے
ویب سائٹ پر انگریزی ایڈیشن بھی جاری کئے ہیں جس کی بدولت غیر اردو داں افراد بھی
ان اخبارات سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
دور حاضر کے معروف صحافی ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویزرقمطراز
ہیں:
’’اردو صحافت کے روشن امکانات کے ثبوت کے طور
پر دنیا بھر کے اخبارات، جرائدکے آن لائن ایڈیشنس ہیں جن کی تعداد میں ہر لمحہ
اضافہ ہوتا جارہا ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردو زبان وادب، صحافت کو
مستقبل قریب میں کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے،یہ دوسری زبانوں کے شانہ بشانہ ہے۔‘‘
(ہمایوں اشرف، ڈاکٹر، اردو صحافت: مسائل اور
امکانات، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی،2018،ص169)
سوشل میڈیا بھی جدید ٹیکنالوجی کا ایک اہم جز ہے، انٹرنیٹ
بلاگز، سماجی روابط کی ویب سائٹس،پیغام رسانی کے اسمارٹ فون ایپس ،ای میل اور ایس
ایم ایس وغیرہ پر سوشل میڈیامحیط ہے۔سوشل میڈیا کی مقبولیت عصر حاضر میں برقی اور
طباعتی ذرائع ابلاغ سے کہیں زیادہ ہے۔ دراصل سوشل میڈیا کی مقبولیت کا راز اس کی
سرعت اور برق رفتاری میں پوشیدہ ہے۔موجودہ دور میں لوگوں کے پاس وقت کم ہے اور کام
زیادہ۔ سوشل نیٹ ورکس کی موجودگی میں اخبارات اور نیوز چینلوں کی تعداد میں بھی
اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے ذریعے خبررسانی سے وابستہ اداروں کو اپنے قارئین اور ناظرین
کے تبصروں اور آرا سے آگاہی کے بھرپور مواقع ملتے ہیں۔
ڈاکٹر شاہد اقبال اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
’’سوشل میڈیا صحافت میں جو سب سے بڑی انقلابی
تبدیلی لائی وہ یہ ہے کہ اس نے صارفین کو محض قاری ہی نہیں رہنے دیا بلکہ اسے
معلومات یا خبروں کو جمع کرنے ،سجانے اور دوسروں کے ساتھ اشتراک کرنے کے قابل بنا
دیا اور ایک نیا نام ’شہری صحافت‘ دیا، اس طرح سوشل میڈیا نے قارئین؍
سامعین؍ ناظرین اور صحافی
کے درمیان موجود خط کو مبہم اور دھندلا کر دیا،پہلے جو قاری سامع یا ناظر کی حیثیت
رکھتے تھے اب محض خبروں کو پڑھنے،سننے یا دیکھنے تک ہی محدود نہیں رہ گئے ہیں بلکہ
خبروں کی تشکیل، ترسیل،تجزیے وتبصرے میں بھی فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ سماجی ابلاغ
کی یہ دنیا بڑی وسیع ہے اور ذاتیات سے لے کر سماجیات تک، عمرانیات سے لے کر سیاسیات
تک دنیا کے ہر موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔‘‘
(اکیسویں صدی میں اردو صحافت، ص 280-281)
سماجی دنیاکے اثرات اردو صحافت کی دنیا میں بھی دیکھے
جا سکتے ہیں۔ آج سوشل نیٹ ورکس کی بدولت اردو صحافیوں، ادیبوں اور قلمکاروں کی
رسائی دنیا کے گوشے گوشے میں ہونے لگی ہے۔ ان کے ادبی ،علمی ،تحقیقی،تنقیدی مضامین،
تصنیفات و تخلیقات دنیا میں عام ہونے لگی ہیں۔
ان پیج میں مضمون، کلام ٹائپ کر کے بیک وقت ہند و پاک ہی نہیں بلکہ امریکہ،
کناڈا، انگلینڈ، ڈنمارک کے اخبارات و جرائد کوای میل کر دیجیے، کبھی املا کی غلطیوں
کے ساتھ تو کبھی ایڈیٹنگ کے بعد شائع ہو جائیں گے۔ ویسے کاپی پیسٹ کی روایت بھی عام ہونے لگی ہے۔
اخبارات کے اخبارات، مضامین کے مضامین من و عن کاپی پیسٹ ہو جاتے ہیں۔ یہ روایت
بہت قدیم ہے پہلے پڑوسی ملک کے ڈائجسٹ، ناولس حتی کہ قرآنی نسخے، مذہبی کتابیں
ہمارے یہاں انتہائی اخلاص کے ساتھ نقل کر لی جاتی تھی۔ اب انٹرنیٹ کی سہولت کا بھر
پور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ، ای میل، ان پیچ نے اخبارات و جرائد کی
مشکلات کو کم کر دیاہے، ایڈیٹرو سب ایڈیٹرس کے بوجھ کو کم کر دیا ہے۔ یو این آئی،
قندیل آن لائن، بصیرت آن لائن، فکر و خبر، دی وائر، مضامین ڈاٹ کام اور ملت
ٹائمز وغیرہ جیسے آئن لائن خبر رساں ادارے اردو صحافت کی ترویج میں غیر معمولی
خدمات انجام دے رہے ہیں۔
انٹرنیٹ اور ویب سائٹ کی سہولتوں نے مشرق و مغرب کے
اجنبی معاشروں میں اُردو نژاد باشندوں کو زبان اور تہذیب کی اجنبیت کے احساس کو
ختم کرنے کا سنہراموقع فراہم کیا ہے۔اس جدید تر ٹکنالوجی کی مدد سے پیغام کی ترسیل
اُردو والے کو ایک اجنبی ملک میں رہتے ہوئے اپنی لسانی اور ثقافتی جڑوں کی جانب
لوٹ جانے کا موقع فراہم کیا ہے، رسالوں، کتابوں، روزناموں میں دن رات منتقل ہونے
والا مواد ان اردو والوں کی دسترس میں بھی آگیا ہے جو انٹرنیٹ اور ویب سائٹ کی
سہولتوں کو استعمال کرنے کو اپنی عادت اور مشغلہ بنائے ہوئے ہیں۔ دلّی میں اگر’
نوائے وقت ‘اور ’جنگ‘ کی سرخیوں اور اس کی خبروں سے روزانہ واقف ہونا ممکن ہے تو ’
انقلاب‘ اور’ سیاست‘ جیسے ہندوستانی اخباروں کو انٹرنیٹ کے پھیلے ہوئے رابطوں میں
ڈھونڈ کر پڑھ لینا آسان ہو گیا ہے اوراس کی وجہ سے قارئین قومی وبین الاقوامی
واقعات،سماجی ،سیاسی ،معاشی اور تہذیبی معاملات ومسائل سے باخبر رہتے ہیں۔
اکیسویں صدی کو سوشل میڈیا کی صدی کہا جاسکتا ہے۔دنیا
کو گلوبل ولیج بنا نے میں سوشل میڈیا کا بڑا اہم رول رہاہے۔ سوشل میڈیا انٹرنیٹ پر
مبنی ایپلی کیشنز کا ایک گروپ ہے جو نظریاتی اور تکنیکی بنیادوں پر کھڑا ہے،جو
صارفین کو اپنے خیالات کے اظہار کی اجازت دیتا ہے۔ آج انٹرنیٹ کے صارفین کازیادہ
تر وقت سوشل میڈیا سائٹس پر ہی گزرتا ہے۔ آج ہر طبقہ اور عمر کے لوگ سوشل سائٹس
کے ذریعے ایک دوسرے سے متعارف بھی ہو رہے ہیں اور خبروں،معلومات ،تصاویر اور ویڈیو
کلیپنگ کا تبادلہ کر رہے ہیں۔ بلاشبہ سوشل میڈیا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اثر
ہوا ہے مگر اسے ایک انقلابی ،تعمیری اور مثبت اثر کہا جاسکتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا
سائٹس کی بدولت الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی رسائی بھی ملک،زبان اور قوم کے حدود
اور خطوط سے بالا تر ہو کر دنیا کے گوشے گوشے تک ہو رہی ہے۔ جن اخبارات کی رسائی
دوسرے ممالک تک ممکن نہ تھی اب وہ اپنے اخبارات کے لنکس کو سوشل میڈیا سائٹس پر
مربوط کر کے ساری دنیا میں پھیلانے کے قابل ہو چکے ہیں۔
ایک
دور تھا جب پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا کو نہ صرف اپنے اپنے ملک بلکہ دوسرے ممالک کی
پالیسیوں کا احترام اور پابندی کرنی ضروری تھی۔ دوسرے ممالک کی سرحدوں میں داخلے
کے لیے ان اخبارات کو سنسر کی کسوٹی سے گذرنا پڑتا تھا۔ سوشل میڈیا سائٹس کے ذریعے
کوئی بھی اخبار کسی بھی ملک میں سنسر کے بغیر پڑھا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس سائٹس پر
اس ملک میں پابندی عائد نہ ہو۔ اردو صحافت کی تعداد اشاعت گھٹ سکتی ہے مگر سوشل میڈیا
سائٹس کی بدولت ان کے قارئین کی تعداد لاکھوں بلکہ کروڑوں تک پہنچ سکتی ہے۔
اکیسویں صدی کے آغاز سے پہلے تک اردو اخبارات اگر مشرق
وسطی یا امریکی و یوروپی ممالک کو روانہ کیے جاتے تو کم از کم تین دن تا ایک ہفتے
کا وقت درکار ہوتا۔ اور بیشتر اخبارات اپنے ہفتہ واری ایڈیشن ہی بھیجنے کے اہل
ہوتے کیونکہ ایئر چارج کو برداشت کرنے کے وہ متحمل نہ ہوتے۔ اس کے علاوہ ان ممالک
کی پالیسی کی بنا پر بہت سارا مواد تلف کر دیا جاتا۔ اخبار دوسرے ملک کو پہنچنے تک تاریخ کا حصہ بن
جاتا اب سوشل میڈیا سائٹس کی بدولت جس ملک یا شہر میں اخبار شائع ہوتا ہے وہاں کے
قارئین کے ہاتھ پہنچنے سے پہلے ہی سوشل میڈیا سائٹس کی بدولت یہ اردو اخبارات امریکہ
سے چین تک ،جاپان سے سعودی عرب تک پہنچنے لگے ہیں۔یہی نہیں بلکہ قارئین کی رائے
اوررد عمل سے بھی وہ فوری آگاہ بھی ہو جاتے ہیں۔گوگل انالیٹکس کے ذریعے روزانہ،
ہفتہ واری، ماہانہ اور سالانہ اخبارات کے آن لائن صارفین کی تعداد کا اندازہ ہو
جاتا ہے جس سے دنیا بھر میں اخبارات کی
اہمیت اور افادیت مسلم ہو جاتی ہے۔ اخبارات کے آن لائن ایڈیشن کو اڈورٹائزمنٹس
ملنے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیںجو اخبارات کے مالی استحکام کی بنیاد ہے۔
ماہرین کے مطابق جدید ٹیکنالوجی اردو صحافت کو فروغ دینے
کا باعث بن رہی ہے، امریکہ، چین، روس، برطانیہ اور جرمنی سمیت کئی ممالک نے خبروں
کی ترسیل کے لیے اردو سروس شروع کر رکھی ہے۔ ناروے، سویڈن،کناڈا سمیت دنیا کے کئی
ملکوں میں خبروں کی فراہمی کے لیے ہزاروں اردو ویب سائٹس کا استعمال کیا جا رہا
ہے۔ پہلے لوگ ہندوستان کا اردو اخبار پاکستان میں اورپاکستان کا اردو اخبار امریکہ
میں نہیں پڑھ سکتے تھے۔ ڈاک کے ذریعے اگر اخبارات ورسائل منگوائے بھی جاتے تھے تو
خبریں اور مضامین باسی ہو جاتے تھے، لیکن آج جدید ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے ذریعے
کناڈا، امریکہ،برطانیہ میں بیٹھا شخص ایک بٹن دبا کر ہندوستان کے اردو اخبارات
وجرائد،میگزین اور دیگر ویب سائٹ کی ورق گردانی کر سکتا ہے جس کی وجہ سے اردو زبان
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں ذرائع سے بڑی سرعت کے ساتھ پھیل رہی ہے اور دنیا کی
ترقی یافتہ زبانوں میں اپنا نمایاں مقام بنا رہی ہے۔
اردو کے معروف صحافی سہیل انجم اپنی کتاب ’میڈیا،اردو
اور جدید رجحانات ‘ میں لکھتے ہیں:
’’آج اردو کے صحافیوں میں جدید ٹکنالوجی سے
استفادہ کی صلاحیتیں موجود ہیں اور اردو اخبارات کے دفاتر میں جدید ٹکنالوجیز اور
وسائل سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ دہلی میں ایسے کئی اخبارات ہیں جو بیرون ملک کے
پریس کی جانب اپنی کھڑکی کھولے ہوئے ہیں اور وہ اس پر نظر رکھتے ہیں کہ ان اخباروں
میں کیا شائع ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنے قارئین کی پسند کا لحاظ کرتے ہوئے
بہت سی چیزیں لے کر شائع کر دیتے ہیں۔‘‘
(سہیل انجم، میڈیا،اردو اور جدید رجحانات،ایجوکیشنل
پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی،2010،ص101)
اس مختصر سے جائزے کے بعد ہم اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ
جدید ٹکنالوجیز اور وسائل نے اردو صحافت پر ہر اعتبار سے دیرپا نقوش واثرات مرتب کیے
ہیںاور اردو صحافت کو نئی سمتوں اور تغیرات سے آشنا کیا ہے۔
Mohd Suhail
Research Scholar,Department of Urdu
Lucknow University,Lucknow
Lucknow-226020(U.P)
Email:sahilsayeed1990@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں