30/12/24

ناقص تغذے کے اثرات، ماخذ: ہماری غذا، مصنف: شکیل احمد

 اردو دنیا، نومبر 2024

انسان کی خوراک میں غذا کے تمام اجزا مناسب مقدار میں شامل ہونا چاہیے۔ اس سے انسان تندرست اور بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ غذا کی کمی خواہ مقدار کے اعتبار سے ہو یا قسم کے اعتبار سے مضر ہے۔ اسی طرح زیادہ کھانے سے بھی بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ ناقص تغذیہ کا بڑی عمر کے لوگوں کے مقابلے میں بچوں اور خصوصاً شیر خوار بچوں پر زیادہ اثر پڑتا ہے۔ ایسی خوراک کو جس میں سبھی ضروری غذائی اجزا کی مقررہ مقدار موجودہ ہو، متوازن خوراک (Balanced Diet) کہتے ہیں لیکن یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ دنیا کے زیادہ تر لوگ متوازن غذا سے محروم ہیں۔ انسان کے مختلف کاموں کو صحیح طور پر انجام دینے کے لیے توانائی کی ضروری مقدار متوازن غذا سے دستیاب ہوتی ہے۔ غذائی اجزا کے کسی ایک جزو کی مقدار میں کمی بھی، خرابی صحت کا باعث بن سکتی ہے۔

غذا کی مقدار میں کمی سے قلت تغذیہ اور عدم تغذیہ کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ صورت عام طور پر ہنگامی حالات قحط سالی وغیرہ میں ہوتی ہے۔ افراد کو یہ صورت نظام ہضم کے نقص سے جب کہ وہ غذا کو قبول کرنے اور جذب کرکے جزو بدن بنانے کے لائق نہیں ہوتے پیش آتی ہے جگر اور گردوں کے متعدی امراض میں لوگ بھی اس سے دوچار ہوسکتے ہیں۔

نقص غذا کے مندرجہ ذیل پانچ وجوہ ہوسکتے ہیں:

1        غذا کی مقدار کی کمی: اس سے قلت تغذیہ اور بعد میں بھکمری ہوتی ہے۔

2        قسم غذا کا نقص: اس کی وجہ غذا میں کسی ایک ضروری جزو کی کمی ہے۔ اس سے سوئِ تغذیہ ہوتا ہے اور سوکھے اور اسقربوط جیسے امراض پیدا ہوتے ہیں۔

3        غذا کی مقدار کی زیادتی: ضرورت سے زیادہ خوراک نقصان دہ ہے اس سے بدہضمی، فربہی (موٹاپا) جیسی چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔

4        کسی تغذیہ کی زیادتی: اس میں خوراک میں غذا کا کوئی ایک جزو زیادہ ہوجاتا ہے۔ مثلاً چکنائی یا وٹامن ڈی جیسے اجزا کی مقررہ مقدار سے زیادتی نقصان دہ ہے۔

5        غذا میں موجود عفونتی زہر (ٹاکسن Toxin): کچھ غذاؤں میں قدرتی طور پر تھوڑی مقدار میں ٹاکسن موجود ہوتا ہے۔ اس قسم کے زیادہ استعمال سے نقصان کے امکانات ہوتے ہیں۔ ٹاکسن سے جلبلانیت (Lathtrism) پیدا ہوتی ہے۔ یہ ٹاکسن ضعیف مقدارمیں انڈے کی سفیدی، کھیسری دال اور بتھو، پالک وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔

غذا کی بے نظمی کے سماجی اور معاشی وجوہ

پس  ماندہ ممالک میں نقصِ غذا عام ہے، لیکن ان ممالک میں بھی جہاں غلہ اور خورا ک کافی مقدار میں موجود ہے، غربت، تعصب، ناواقفیت اور غلط طریقے سے غذا کو رکھنے کی وجہ سے غذا کی بے نظمی پائی جاتی ہے۔

غذائی بے نظمی کے مرخیاتی

(Pathological) وجوہ:

کافی آمدنی، مناسب رہائش اور غذا اور پرہیز کے بارے میں معلومات رکھنے کے باوجود کسی بیماری کی وجہ سے بھی آدمی کے اندر غذا کی بے نظمی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ مندر ذیل طریقوں سے ہوتی ہے:

1        غذا کا نامناسب استعمال: (الف) بھوک کا کم ہوجانا معدہ کے کینسر اور بے اشتہائی اعصابی امراض وغیرہ میں یہ کیفیت ہوتی ہے۔ (ب) الکوہل جس میں کیلاری تو ہوتی ہے لیکن ضروری غذائیت نہیں ہوتی۔ اس کے کثرت استعمال سے پرانے شرابی ناقص تغذیہ سے زیادہ سوئِ تغذیہ کا شکار ہوتے ہیں۔ (ج) غیرمتوازن پرہیزی غذاؤں کاا ستعمال مثلاً ہاضمے کی خرابی میں دی گئی پرہیزی غذاؤں میں اسکوریک ایسڈ نہیں ہوتا۔ اگر ہم اس کو الگ سے استعمال نہ کریں تو اس کی کمی ہوجائے گی۔(د) عرصہ تک غیراوما (Parenteral) تغذیہ جیسا  کہ عمل جراحی کے دوران نسوں میں گلوکوز چڑھا کر کیا جاتا ہے۔ اس عمل سے جسم میں وٹامن بی کمپلکس کی کمی ہوجاتی ہے۔

2        غذا کے ہاضمے اور استحالے کی خرابی: (الف)  سبز (کوری) سے خون میں لوہے کی کمی ہوتی ہے۔ (ب) اسہال شحمی میں چربی میں حل ہونے والے وٹامن اور استحالہ ٹھیک نہیں ہوپاتا۔ (ج) بھوکے اور بیمار لوگوں کو نامناسب غذا دینے سے آنتوں کی حرکت کے بڑھ جانے سے نقصان کے امکانات ہوتے ہیں (د) جراثیم کش ادویات (Antibiotics) کا اثر عرصے تک جراثیم کش ادویات کے استعمال سے آنتوں کے بیکٹیریا متاثر ہوتے ہیں جس سے ان بیکٹیریا کے ذریعے تیار ہوئے وٹامن جسم کو نہیں مل پاتے۔

3        بیماری میں غذا ناقص استعمال: (الف) جگرکی بیماری (Cirrhosis) میں خصوصاً پروٹین اور وٹامن کے استعمال میں رکاوٹ پڑتی ہے۔ (ب) گردے کی خرابی میں وٹامن ڈی متحوّل مادہ میں تبدیل نہیں ہوتا۔

4        تغذیہ کا جسم سے اخراج: (الف ) انحطاط گردہ کے مرض میں پروٹین پیشاب میں نکل کر ضائع ہوجاتی ہے (ذ) مرمابطیس شکری میں کاربوہائیڈریٹ کا  استحالہ ٹھیک نہیں ہوتا اور شکر پیشاب میںا ٓنے لگتی ہے جس سے سوئِ تغذیہ کے اثرات پیدا ہوتے ہیں۔ (ج) عورتوں میں ماہواری خون کی زیادتی (جریانِ حیض) سے خون میں لوہے کی کمی ہوجاتی ہے۔ (د) شدید اور پرانے اسہال میں پوٹاسیم ضائع ہوجاتا ہے۔

زیادہ غذائیت کی ضرورت کی حالتیں

کچھ حالتوں میں عام حالات کے مقابلے زیادہ غذائیت کی ضرورت ہوتی ہے:

 (الف) عورتوں کو دوران حمل اور درورانِ رضاعت، نوعمر افراد کو نشو و نما کی غرض سے اور مریضوں کو بیماری سے فراغت کے بعد مزید غذا درکار ہوتی ہے اسی طرح سخت جسمانی محنت کرنے والے لوگوں کو اور سرد ممالک کے رہنے والوں کو گرم ملک کے رہنے والوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ غذائیت کی ضرورت ہوتی ہے۔

(ب) بخارا ور خدۂ ورقیہ کی ریزش کی زیادتی (Hyperthyroidish) کے دوران کیلاری کی ضرورت میںا ضافہ ہوتا ہے۔

(ج)  جلنے، ہڈی ٹوٹنے اور عمل جراحی کے بعد جسم کو پروٹین اور اس کو ریک ایسڈ کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔

جسم میں غذا کی بے نظمی عموماً مندرجہ بالا وجوہ سے ہوتی ہے، لیکن اکثر اصل وجہ خوراک میں ایک یا زیادہ تغذیہ کی کمی ہوتی ہے۔ غذا میں صرف حیاتین کی کمی کو ذہن میں نہیں رکھنا چاہیے بلکہ تمام باتوں کا مطالعہ کرکے غذا تجویز کرنی چاہیے۔

پروٹین اور کیلاری کی کمی سے سوئِ تغذیہ

ہمارے ملک میں سوئِ تغذیہ سے بچے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ اس میں غذا میں پروٹین اور کیلاری کی کمی سے پیدا ہونے والے امراض بہت اہم ہیں۔ پروٹین اور کیلاری کی کمی کی وجہ سے غریب طبقے میں بچوں کی بیماری اور موت عام ہے۔ اوائلِ عمری میں سوئِ تغذیہ کا اثر بچے کی آئندہ کی زندگی اور نشو و نما پر بہت برا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف جسمانی بلکہ دماغی اور ذہنی نشو و نما بھی متاثر ہوتی ہے۔ پروٹین کی کمی کا اثر ایک سال کی عمر سے پانچ سال کی عمر کے درمیان بہت پڑتا ہے۔ ایک سال تک چونکہ بچہ ماں کا دودھ پیتا ہے اس کو مناسب پروٹین ماں کے دودھ سے حاصل ہوجاتی  ہے لیکن اپنے ملک کے غریب طبقے میں جہاں ماں کو مناسب غذا اور پروٹین حاصل نہیں ہوپاتی اس کا دودھ بچے کے لیے نوعیت اور مقدار کے لحاظ سے نامکمل ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی اس میں وٹامن کی مقدار بھی کم ہوجاتی ہے۔ بچے کے لیے ماں کا دودھ گو کہ موزوں ترین غذا ہوتی ہے لیکن چھ ماہ کے بعد بچے کی صحیح نشو و نما کے لیے اوپر سے دیگر غذائیں دینا ضروری ہوتا ہے۔ غذا میں پروٹین کی کمی سے بچوں کی نشو و نما رک جاتی ہے۔ دست آنے لگتے ہیں۔ سر کے بالوں کا رنگ ہلکا ہوجاتا ہے اور وہ گرنے لگتے ہیں۔ کھال کا رنگ بدلنے لگتا ہے اور کھال ادھڑنے لگتی ہے، جس سے جگہ جگہ سفید سے نشانات پڑجاتے ہیں۔ بدن میں خون کی کمی ہوجاتی ہے۔ جسم پھول جاتا ہے۔ استسقاء لمحی (Edema) اور خصوصاً ہاتھوں اور پیروں میں ورم ہوجاتا ہے۔ بے حسی، مردہ دلی اور کند دماغی (Apathy) پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ سب بچوں میںیہ باتیں ایک ساتھ پیدا ہوں لیکن یہ علامات عام ہیں۔ کبھی کبھی لاغری اور سوکھے کا مرض ہوجاتا ہے، جس سے نشو و نما رکھنے کے ساتھ ہی جسم کے عضلات کھلنا شروع ہوجاتے ہیں۔

عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ بچوں میں سوئِ تغذیہ کی وجہ غذا میں پروٹین کی کمی ہے جس کو مزید پروٹین خوراک میں دے کر ختم کیا جاسکتا ہے لیکن اس سلسلے میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ چھ ماہ کی عمر کے بعد ضروری نہیں کہ صرف پروٹین کی کمی سے ہی یہ بات پیدا ہو۔ اس صورت میں اگر صرف پروٹین کی کمی کو پورا کیا گیا اور کیلاری کا خیال نہ کیا گیا تو دی ہوئی پروٹین کی کچھ مقدار کا استعمال توانائی کے لیے بھی ہوگا جس کے نتیجے میں نشو و نما اور منسوجات کی ساخت کے لیے پروٹین کی کمی پڑجائے گی۔ ہندوستان میں غذائی جائزہ لینے پر پتہ چلا کہ غریب طبقے کے تقریباً 95 فیصدی بچے سوئِ تغذیہ میں مبتلا ہیں جن میں 70 فیصدی کیلاری کی کمی کا شکار اور 30 فیصدی پروٹین کی کمی کا شکار ہیں۔ اگر ان بچوں کو کیلاری کے لحاظ سے مکمل غذا حاصل ہوجائے تو پروٹین کی کمی آسانی سے پوری کی جاسکتی ہے۔

وٹامن اے کی کمی

سوئِ تغذیہ کا یہ المیہ نہیں ہے کہ وہ کثرت اموات کا باعث ہوتابلکہ وہ نئی پود کو مفلوج اور ہمیشہ کے لیے بیکار کردیتا ہے۔ ان تمام اثرات میں سب سے تکلیف دہ آنکھ کی بینائی پر اثر پڑتا ہے۔ ہمارے ملک میں سیکڑوں ہزاروں افراد نابینا ہیں۔ اس کی وجہ وقت ضرورت پر غذا میں وٹامن اے کی کمی ہے۔ وٹامن اے کی کمی سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہوتے ہیں کیونکہ نشو و نما کے دوران وٹامنوں کی بہت ضرورت ہے۔ وٹامن اے کی کمی  کا پہلا اور ہلکا اثر آشوب چشم ہے (جس میںا ٓنکھ کے سفید دیدہ پر ایک جھلی آجاتی ہے)۔ آنکھوں میں نمی اور چمک کے بجائے خشکی اور بے نوری آجاتی ہے اور ماں کو اس کا احساس ہونے لگتا ہے کہ بچہ رات میں چیزوں کو دیکھنے میں دقت محسوس کرتا ہے جس کی پہچان یہ ہے کہ بعد غروب آفتاب بچہ پیٹ میں اپنی غذا ٹٹول کر کھاتا ہے۔ اس حالت کو رتوندھی کہتے ہیں۔ یہ مرض آسانی سے ختم ہوسکتا ہے۔ اگر فوراً اس پر توجہ دے کر علاج کرلیا جائے۔ مرض کے جڑ پکڑنے میں آنکھ کی قرینہ (پتلی) اس سے متاثر ہوتی ہے اور اس کی دیکھنے کی طاقت ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد قرینہ کے کنارے کٹ جانے سے وہ نرم ہوکر باہر کی طرف نکل آتی ہے۔ آخرکار قرینہ پھٹ کر ضائع ہوجاتی ہے اور اندرونی عدسۂ چشم (Lens of the Eye) بھی ضائع ہوجاتا ہے۔ ایک بار اگر قرینہ خراب ہوجائے تو بہترین علاج کے بعد بھی اس کا درست ہونا ممکن نہیں اور کورپن کو روکا نہیں جاسکتا۔ اس بیماری میں عموماً دونوں آنکھیں متاثر ہوتی ہیں۔ وٹامن اے کی کمی سے کورپن کا مسئلہ پورے ہندوستان میں ہے لیکن اس سے جنوبی ہند اور بنگال زیادہ متاثر ہے۔

وٹامن اے کافی مقدار میں کچھ غذاؤں مثلاً مکھن، انڈے، کلیجی وغیرہ سے حاصل کیا جاسکتاہے لیکن یہ چیزیں چونکہ گراں ہیں اس لیے بہت سی ہرے پتوں والی ترکاریاں اور کچھ پھل جن میں کیروٹین پایا جاتا ہے استعمال کرنے سے جسم میں حیاتین اے کی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے— روزانہ پچاس گرام ہری ترکاریاں جن کی قیمت بہت کم ہوئی، بچوں میں وٹامن اے کی کمی کو پورا کرسکتی ہیں۔ ہری ترکاریوں کے برابر استعمال سے یہ وٹامن جسم میں اکٹھا ہوجاتا ہے اور ناموافق موسم میں جسم میںوٹامن کی کمی کو پورا کردیتا ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب ماں حاملہ ہو اسی وقت اس کو وٹامن  اے اور کیروٹین والی غذائیں افراط سے استعمال کرنا چاہیے تاکہ بچے کے اندر وٹامن اے کافی مقدار میں پہنچے۔ حاملہ عورتوں کو سو گرام روزانہ ہرے پتوں والی ترکاریوں کو خوراک میں شامل کرکے استعمال کرنے سے پیدائش کے وقت بچے کے جگر میں خاصی مقدار وٹامن اے موجود رہے گا۔ چھ ماہ کی عمر سے بچے کی خوراک میں ہری سبزیوں کو پکا کر ان کا عرق دینا چاہیے۔ ایسا کرنے سے ضرورت بھر وٹامن اس کو ملتا رہے گا۔ خصوصاً اس کے نشو ونما کے وقت جب کہ اس کو اس کی سخت احتیاج ہوتی ہے۔ تجربے سے یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ پانچ سا ل کی عمر تک سال میں دوبار وٹامن اے کی بھاری خوراک دے دینے سے بھی بچہ کورپن سے محفوظ رہتا ہے۔ یہ وٹامن اے جگر میں جمع ہوجاتا ہے۔ پتہ چلا کہ 1000 ء 200 انٹرنیشنل اکائی وٹامن اے کے کھلانے سے اس کا اثر چھ ماہ تک برقرار رہتا ہے۔ وٹامن کی بھاری خوراک کا غلط اثر بھی پڑسکتا ہے۔ اس لیے چھ ماہ کے اندر دوسری خوراک ہرگز نہیں دینا چاہیے۔ معمر لوگوں کو وٹامن اے کی بھاری خوراک دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کی کمی ان کے لیے مہلک نہیں ہے۔

قلت الدم (Anaemia)

قلت الدم نقص غذا کا ایک اہم نتیجہ ہے، جس میں سب سے زیادہ حاملہ عورتیں اور دودھ پلانے والی مائیں مبتلا ہوتی ہیں۔ یہ بیماری عموماً غذا میں لوہے کی کمی سے پیدا ہوتی ہے۔ حاملہ عورتیں قلت الدم کا جلد شکار ہوجاتی ہیں۔ حمل کے دوران خون کی بہت کمی ہوجاتی ہے۔ یہ مرض دوران حمل بہت مضر، خطرناک اور ماں کی صحت کے لیے مہلک ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں قلت الدم ماؤں کی بیماری اور موت کا سبب رہتی ہے۔ اس لیے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ حاملہ عورت کو ضرورت بھرپور فولاد ملتا رہے۔ قلت الدم کو روکنے کے لیے نئی غذائیں جن میں ہرے پتوں والی سبزیاں ہوں روز کھانا چاہیے۔ لوہے کی نمکیات بھی مفید ہیں۔ یہ غذائیں قلت الدم کو روکنے کے لیے سستے ذرائع ہیں۔ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ حمل کے آخری سو ایام میں اگر توجہ دی جائے تو عورت قلت الدم کا شکار ہونے سے بچ سکتی ہے۔ اس کے لیے لوہے اور فولک ایسڈ کی گولیاں حاملہ عورتوں کو دی جاتی ہیں۔

قلت الدم کی ایک قسم اور ہے جسے کلان نہوضہ قلت الدم (Megaloblastic anaemia)کہتے ہیں۔ یہ فولک ایسڈ یا وٹامن بی 12 یا دونوں کی کمی سے پیدا ہوتا ہے۔ اس میں اتنے لوگ مبتلا نہیں ہیں جتنے لوہے کی کمی سے پیدا قلت الدم میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ہرے پتوں والی سبزیوں کو استعمال کرکے فولک ایسڈ کی کمی کو پورا کرسکتے ہیں، لیکن وٹامن بی 12کی کمی کو پورا کرنے کے لیے جانوروں سے حاصل غذائیں  مثلاً دودھ، گوشت، انڈے وغیرہ کھانا ضروری ہیں۔ وٹامن بی 12 کی کمی ماں کا دودھ پیتے بچے میں بھی ہوسکتی ہے، جس کی وجہ ما ںکے دودھ میں وٹامن بی 12 کی کمی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ماں کو زیادہ وٹامن کی غذائیں دی جانی چاہیے۔

ناقص تغذیے کے مزیدا مراض

ناقص تغذیہ سے پیدا مندرجہ بالا بیماریوں کے علاوہ غذا میں دوسرے وٹامن، بی مرکب، کی کمی سے بھی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ بیماریاں مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہیں۔ مثلاً منھ اور زبان میں جلن اور سوجن منہ کے دہانوں کے کناروں اور ہونٹوں کا پھٹنا۔ یہ بیماریاں غذا میں وٹامن بی مرکب خصوصاً رائینو فلیون کی کمی سے پیدا ہوتی ہیں۔ تھابامن کی کمی سے مرض بیری بیری (استسقاء کی قسم کی بیماری) پیدا ہوتا ہے۔ یہ بیماری ان لوگوں کو ہوتی ہے جو بہت کوٹا اور صاف کیا ہوا چاول کھاتے ہیں۔ نکوٹنک ایسڈ کی کمی سے درشت جلدی (پیلگرا) ہوجاتی ہے۔ اس مرض میں دھوپ کی وجہ سے ورم جلد پیدا ہوجاتا ہے۔ دوسری علامتیں اسہال (دست)، زبان میں سوجن اور جلن اور کچھ دماغ پر بھی اثر ہوتا ہے۔ مکائی پیداوار کے علاقوں میں جہاں لوگوں کی خاص غذا مکا (جوار) ہے پیلگرا عام طور پر ہوتا ہے، جس کی وجہ جوار میں لیوسین امینوایسڈ کی زیادتی ہے۔ اعتدال سے جوار استعمال کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔

بی وٹامنوں کی کمی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو روکنے کا آسان طریقہ ان غذاؤں کا کھانا ہے جن میں یہ وٹامن پائے جاتے ہیں۔ ثابت اناج اور جنس چپنا مثلاً گیہوں، راگی، جوار، باجرہ، دالیں، گری دار میوے، اور تلہن عام طو پر زیادہ بی وٹامنوں کی غذائیں ہیں۔ ہرے پتوں والی سبزیوں میں خاص طور پر زیادہ رائیو فلیون اور فولک ایسڈ ہوتا ہے۔

پہاڑی علاقوں میں کنٹھ مالا اور گھینگے کا مرض وہاں کی غذا اور پانی میں آیوڈین کی کمی ہے۔ دوسری غذائی بیماری جلبانیت (Lathyrism) ہے۔ اس میں آہستہ آہستہ ٹانگوں میں تشنجی رعشہ اور فالج ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے آدمی لنگڑا اور اپاہج ہوجاتا ہے۔ یہ مرض زیادہ تر نوجوانوں میں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ غذا میں زیادہ کھیسری دال کا استعمال ہے۔ تھوڑی مقدارمیں اس دال کو استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اس کو مستقل غذا کا اہم جز بنا لینے سے یہ بیماری پیدا ہوجاتی ہے۔ کھیسری دال میں ایک جز مواد سامہ (Toxin) ہوتا ہے اسی کی وجہ سے جلبانیت کا مرض (Lathyrisn) پیدا ہوتا ہے۔ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ یہ مواد پانی میں محلول ہے اور آسانی سے الگ کیا جاسکتا ہے۔ اس کو الگ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ دال کو دو گھنٹے گرم پانی میں بھگا دیتے ہیں پھر نتھار کر پانی الگ کردیتے ہیںا ور دال کو دھوپ میں سکھا لیتے ہیں۔ دوسری ترکیب یہ ہے کہ دال کو چاول کی طرح ابال کر اس کا پانی نکال دیتے ہیں۔ دال سے اس طرح مواد سامہ نکال کر اور لوگوں کو کم کھیسری دال استعمال کرنے کی ترغیب دے کر اس مرض پر قابو پایا جارہا ہے۔

 

ماخذ: ہماری غذا، مصنف: شکیل احمد، دوسرا ایڈیشن، جولائی ستمبر 1988، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

حرف ’’ب‘‘ بطور سابقہ اور وسطیہ، مضمون نگار: شمس بدایونی

  فکر و تحقیق،اکتوبر - دسمبر 2024 تلخیص ’بے‘ (ب+ے) کے سابقے سے بننے والے متعدد مرکبات بھی اردو میں موجود ہیں۔ قدیم املا میں یہ متصل یعنی...