30/12/24

انسان بحیثیت سماجی حیوان، ماخذ: ابتدائی علم شہریت: شریف الحسن نقوی، ایس این چٹوپادھیائے

 اردو دنیا، نومبر 2024

پرانے زمانے میں آدمی غاروں میں رہتا تھا، لیکن آج وہ خلا کو بھی مسخر کرچکا ہے۔ آدمی کی ترقی کی یہ کہانی نہایت دل چسپ ہے۔ اس کہانی کا لب لباب یہ ہے کہ انسان تنہا نہیں رہ سکتا۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ انسان کا بچہ دوسرے جانداروں کے مقابلے میں بہت کمزور اور لاچار ہوتا ہے اور اس کے پلنے، بڑھنے اور اپنی مدد آپ کرنے کی عمر تک پہنچنے میں اچھا خاصا عرصہ لگتا ہے۔ وہ ایک کنبے میں پیدا ہوتا ہے اور کنبے ہی میں اس کی پرورش ہوتی ہے۔ عمر کے ابتدائی ایام میں والدین ہی اس کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں، اس کی تربیت کرتے ہیں، اس کو اس قابل بتاتے ہیں کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں میں کامیاب ہوسکے مثلاً وہ بالغ ہوکر اپنی اور اپنے کنبے کی پرورش کے لیے روزی پیدا کرسکے۔ قدیم سماج میں بچوں کی پرورش کی تمام تر ذمے داری والدین پر ہوتی تھی، لیکن دورِ حاضر کے ترقی یافتہ سماج میں مختلف دوسری ایجنسیاں بھی ہوتی ہیں جو بچوں کی تربیت اور ان کو اپنے مستقبل کے لیے تیار کرنے کی ذمے داری لیتی ہیں۔ یہ ایجنسیاں آہستہ آہستہ زمانے کے ساتھ عالم وجود میں آئیں۔ جیسے جیسے رہنے سہنے کے طریقے پیچیدہ ہوتے گئے ویسے ویسے ایجنسیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ ان ایجنسیوں کا مطالعہ انسان کی زندگی اور انسان کی کہانی کو سمجھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ انسان کیونکہ سماجی حیوان ہے اس کا اندازہ ان ایجنسیوں کے مطالعے سے ہوگا۔

خاندان: جس خاندانی  زندگی کا تصورجدید میں ہے، وہ انسانی سماج کی ارتقا کے اوائل میں نہ تھا۔ قدیم سماج میں بچے کا تمام تر تعلق قبیلے یا کنبے سے ہوا کرتا تھا۔ اور وہ اس کا سرمایہ متصور ہوتا تھا، خاندان کے تمام بالغان بچے کی پرورش کی کچھ نہ کچھ ذمے داری نبھاتے تھے۔

فطری طور پر بچے کا لگاؤ ماں سے ہوتا تھا، اس سے وہ پیار بھی زیادہ کرتا تھا۔ باپ تو روزی کی تلاش میں شکار گاہ وغیرہ میں چلا جاتا تھا، لیکن ماں بچے کی پرورش کی ذمے داری پوری کرتی تھی۔ وہ بچے کے لیے لازمی اور مرکزی حیثیت رکھتی تھی ، سماج بھی بچوں کی زندگی کے لیے ماں کا وجود بہت اہم سمجھتا تھا۔ اس طرح ماں کی حیثیت کنبے میں مرکزی اور ضروری تھی۔ آہستہ آہستہ ماں کی انفرادیت ابھری اور اس کو خاندان کا سربراہ تصور کیا جانے لگا۔ اس طرح کا خاندان ’مادر سری‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ قدیم سماج میں زیادہ تر ’مادر سری‘ خاندان ہوا کرتے تھے لیکن جیسے جیسے زندگی میں ٹھہراؤ آتا گیا اخلاقی قدروں میں حسن پیدا ہوا اور احساسات میں عمدگی پیدا ہوئی۔ رسمی شادی کا رواج ہوا۔ باپ کا مقام اہم ہوگیا اور خاندان کی نوعیت میں حیرت انگیز تبدیلی بھی ہوئی۔ اس تبدیلی سے بچوں کی پرورش کی ذمے داری کی تقسیم ہوئی۔ والدین کے اہم کردار کا اندازہ ہوا۔ باپ کے اہم کردار اور ا س کی نمایاں حیثیت کی وجہ سے خاندان ’پدرسری‘ ہوگئے۔ خاندان کے سب لوگ اس کی خواہش کے مطابق اس کے حکم کی بجاآوری کرتے، اس میں کوئی چوں و چرا نہ کرتا۔ عورتیں نہ صرف بچوں کی پرورش کرتیں بلکہ کھیتوں اور کھلیانوں میں مردو ںکے دوش بدوش کام کرتی تھیں۔ اس طرح ’خاندان‘ جو فطری طور پر عالم وجود میں آیا تھا، اب وہ سماج کا سب سے چھوٹا یونٹ ہوگیا۔ اس سے  خاندان کے تمام ارکان کو پرورش کا موقع ملتا تھا، اس کو ہر طرح کا تحفظ میسر ہوتا تھا۔ آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ بچے کا بنیادی تعلق اپنے خاندان سے ہوتا ہے۔ اس کے ہر رکن سے اس کا تعلق ہوتا ہے وہ اپنے خاندان میں بولنا سیکھتا ہے۔ خاندان کے دوسرے ارکان کے اطوار و افعال کی نقل کرتا ہے۔ یہ باتیں اس کی زندگی میں بہت اہم ہیں، اس کی زندگی میں اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہ اظہارِ خیالات کے مختلف انداز سیکھتا ہے اور مختلف طریقے اختیار کرتا ہے۔

خاندان کی بدلتی ہوئی شکل

مادری سری‘ خاندان میں بچے ماں کے احکام کے پابند ہوتے تھے، اس کی عزت کرتے تھے، اسی کو قابل احترام تصور کرتے تھے۔ یہاں تک کہ بچوں کے نام ماں کے نام کے مطابق ہوتے تھے۔ لڑکیاں وراثت کا حق رکھتی تھیں، لڑکوں کو اس حق سے محروم رہنا پڑتا تھا۔

جیسے جیسے سماج میں ٹھہراؤ پیدا ہوا، لوگوں نے کھیتی باڑی کو اپنا پیشہ بنایا اور خاندان بڑا ہوتا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ خاندان کا کوئی فرد جو بھی کھیت میں پیدا کرتا یا کماتا وہ تمام افراد خاندان کے گزر اوقات کے لیے ہوتا۔ یعنی ایک فرد خاندان کے دیگر افراد کی کفالت کا ذمے دار ہوتا تھا۔ اس طرح سے متحدہ خاندان یا ملے جلے خاندان کا رواج عالم وجود میں آیا۔ اس طرح کے خاندان آج بھی بہت سے سماجوں میں موجود ہیں، خاص طور پر ایسے خاندان کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں، جیسے جیسے صنعتی ترقی ہوئی، خاندانوں کی شکلوں میں اور بھی تبدیلیاں پیدا ہوئیں، لڑکوں کو جب کسی دوسری جگہ پر ملازمت ملی تو انھیں اپنے خاندان سے علاحدگی اختیار کرنی پڑی۔ اس طرح انھوں نے اپنے اپنے الگ الگ خاندان بنا لیے۔ نتیجہ یہی ہوا کہ خاندان چھوٹے ہوتے گئے۔ دوسرے الفاظ میں متحدہ خاندان کا رواج شہری زندگی کے اثرات سے ختم ہورہا ہے اور اس کی جگہ ایک نیا خاندان رواج میں آرہا ہے۔

خاندان کے کام

خاندان چاہے چھوٹا ہو یا بڑا وہ بچوں کی پرورش کے لیے کچھ نہ کچھ کرتا ہے اور اس وقت تک کرتا ہے جب تک بچہ سن بلوغ کو نہ پہنچ جائے۔ ان کاموں کا ذکر نیچے کیا جاتا ہے۔

.1       جو افراد خاندان میں رہتے ہیں ان کی جسمانی ضروریات پوری ہوتی رہتی ہیں۔ وہ باہمی خوشی اور آرام کے لیے مل جل کر رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔ نسل کو بڑھانے اور آبادی میں اضافہ کرنے کی انسانی خواہشات بھی پوری ہوجاتی ہیں۔ ماں باپ اپنے بچوں کی پرورش کے لیے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرتے ہیں۔ اس طرح خاندان نہ صرف نسل کی تحفظ کا ضامن ہے بلکہ کنبے کی مکمل نگرانی کرتا ہے۔

.2       خاندان ہر فرد کی معاشی ضروریات کو پوری کرتا ہے۔ اس میں تقسیم کار ہوتا ہے اور ہر فرد سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ خاندان کے جملہ کاموں میں ہاتھ بٹائے۔ خاندان کا سرغنہ خاندان کا نظم و نسق اس صورت سے رکھتا ہے کہ تمام افراد کی ضروریات اس کے ذہن میں ہوتی ہیں۔ جذباتی رشتے اس طرح استوار ہوجاتے ہیں اور خاندان کو ایک رشتے میں متحد رکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ خاندان کمسن افرا دکی تعلیم و تربیت کا بھی انتظام کرتا ہے اور اس طرح خاندان کا ہنر نسلاً بعد نسل چلتا رہتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ خاندان کے تمام افرا دکی کوشش اور تعاون سے خاندان کے پاس کچھ پونجی بھی جمع ہوجاتی ہے۔ اس پونجی سے خاندان کے کام کو بڑھانے اور ترقی دینے میں مدد ملتی ہے۔ اس سے خاندان میں جو افراد کمزور یا کسی قسم کی کمی کا شکار ہوتے ہیں ان کو بھی مدد مل جاتی ہے۔ کمزوروں اور لاچاروں کی دیکھ بھال بھی خاندان ہی میں ہوسکتی ہے۔

.3       کسی بھی خاندان کے کچھ نسلی اصول اور قدریں ہوتی ہیں۔ یہ اصول اور قدریں بغیر کسی کوشش اور جدوجہد کے ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ یہ ایک فطری امر ہے۔ اس سے نہ صرف بچوں کی انفرادیت اور شخصیت کی نشو و نما میں مدد ملتی ہے بلکہ ان کے خاندان کی تہذیب، اخلاقیات اور تمدن میں جو بھی خوبیا ںہوتی ہیں وہ آنے والی نسل کے پرامن اور ہم آہنگ ماحول میں اثباتی طور پر اثرانداز ہوتی ہیں۔

.4       خاندان بچوں کو سماجی حیثیت دینے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ افراد خاندان کے آپسی سلوک اور برتاؤ سے سماج کی اعلیٰ خوبیوں کو اجاگر کرتا ہے اور بچے کے اندر سماجی قدروں کا احساس خودبخود پیدا ہوجاتا ہے۔ ان کے اندر فرائض اور حقوق کا احساس بھی خودبخود پیدا ہوجاتا ہے۔ کوئی فرد اس کو بتانے یا سمجھانے کے لیے خصوصی توجہ نہیں دیتا۔  ایک بچہ خاندان ہی میں رہ کر محبت، قربانی، آپس میں ایک دوسرے سے ہمدردی اور وفاداری کے جذبات سے ہمکنار ہوسکتا ہے یعنی یہ جذبات خاندان کے اندر ہی بیدار اور اجاگر ہوتے ہیں۔ ایک شہری کے کردار کی تعمیر کے لیے یہ خوبیاں نہایت ضروری ہیں۔ میزنی کا قول ہے ’’شہریت کا پہلا سبق بچہ ماں کے بوسوں اور باپ کے دلار میں سیکھتا ہے‘‘ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ گھر شہری خوبیوں کا گہوارہ ہے۔

خاندان کے رکن کی حیثیت سے فرد کا رول

موجودہ سماج میں فرد کے کردار و اعمال کی بڑی اہمیت ہے۔ صنعتی وسعت اور ترقی نے سماجی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی پیدا کردی ہے۔ گاؤں کے باشندے صنعت یا کارخانوں میں کام کرنے کے لیے دوسری بستیوں اور شہروں میں رہنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ شہری خاندان ایک اکائی والا خاندان ہوگیا ہے۔ تعلیم کے رواج پکڑنے کے ساتھ ساتھ خاندان مختصر سے مختصر تر ہوتا جاتا ہے لیکن ان افراد میں خوف و ہراس کا احساس رہتا ہے۔ ان کا معاشی تحفظ نہیں ہوتا، بے روزگاری کی وجہ سے چھٹنی ہوتی رہتی ہے۔ خاندان کے اکثر ممبر زیادہ سے زیادہ آزادی چاہتے ہیں۔ اور اس کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے خاندان کے لیے جو جذبۂ وفاداری تھا، اس میں دور حاضر میںنمایاں کمی پیدا ہوگئی ہے۔ طلاق کے سلسلے میں قانون بن جانے کے بعد خاندان میں انتشار پیدا ہوا اور اس انتشار سے چھوٹے بچوں پر بہت بر اثر پڑا وہ مجبور و لاچار ہوگئے۔ گندی بستیوں میں رہنے والوں کی حالت نہایت خراب ہے۔ ان کے اخلاق اور طریقہ زندگی میں بھی پستی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ خاندان کے اخراجات کی کفالت کے لیے کچھ افراد سماجی جرائم کرنا شروع کردیتے ہیں۔ذخیرہ اندوزی، چوربازاری، اسمگلنگ اور عوام کے سرمائے کا غلط استعمال وغیرہ ایسے سماجی جرائم ہیں جن کے اکثر لوگ مرتکب ہوتے ہیں۔ ہمیںاس بات کا پورا پورا خیال رکھنا ہے کہ خاندان کی ضروریات اور اس کی محبت اور احساس ذمے داری کا شکار ہوکر سماج کے عظیم مقصد سے روگردانی نہ کریں۔ ہر فرد کو سماج کے عظیم فوائد کے لیے اپنے فوائد کو ترک کرنا چاہیے۔

خاندان اسی وقت سماج میں اپنا صحیح رول ادا کرسکتا ہے جب اس کی آمدنی اتنی وافر ہو کہ خاندان کی تمام ضروریات بہ آسانی پوری ہوسکیں۔ خاندان کے ماحول کو بچوں کی پرورش اور تربیت کے لیے سبھی سازگار ہونا چاہیے۔ ایسے خاندان میں والدین اپنے بچوں کی صحیح پرورش کرسکتے ہیں اور ان کے عادات و اخلاق کو بہتر بناسکتے ہیں۔ ان کے اندر آپسی لین دین کا جذبہ اجاگر کرسکتے ہیں، ان میں قوتِ برداشت پیدا کرسکتے ہیں اور باہمی تعاون کا جذبہ پیدا کرسکتے ہیں۔ مندرجہ بالا دلائل سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ خاندان میں رہ کر افراد اپنے ذاتی فوائد کو دوسرے افراد کے فائدے کے لیے قربان کرنا سیکھتے ہیں۔ اپنی ضرورت کو پس پشت ڈال کر، دوسروں کی ضرورت کو ترجیح دینا سیکھتے ہیں۔ خاندان کے ممبر آپس میں ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں، پھر محلے کے خاندانوں میں تعلقات وسیع تر ہوجاتے ہیں۔ جب بہت سے خاندان ایک دوسرے کی ضروریات کو محسوس کرنے لگتے ہیں اور ان کے افراد تمام خاندانوں کی فلاح و بہبود کے لیے مشترکہ طور پر جدوجہد کرتے ہیں تو سماج عالم وجود میں آتا ہے۔

سماج

ہم نے سیکھا ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے اور وہ الگ یا تنہا نہیں رہ سکتا۔ انسان خاندان میں پیدا ہوتا ہے اور سماج میں رہتا ہے۔ خاندان سماج کا بنیادی حصہ ہے۔ ’سماج‘ کا وجود کب ہوا؟ یہ سوال مشکل ہے اور اس کا صحیح جواب دینا بھی مشکل ہے۔ ہاں، اتنا کہا جاسکتا ہے کہ انسان کبھی تنہا نہیں رہا۔ اس طرح زمانہ قدیم سے انسان کسی نہ کسی طرح کے سماج میں رہا ہوگا۔ کسی نہ کسی طرح کے ’سماج‘ کا وجود ابتدائے آفرینش سے ہوا ہوگا۔ زیادہ مناسب سوال یہ ہے کہ سماج کی ارتقا کیسے ہوئی اور اس نے کس طرح ترقی کی؟ متعدد مفکرین کا خیال ہے کہ سماج اور اس کے ملحقہ ادارے خدا کی تخلیق ہیں۔ یہ اصول کسی منطق یا تاریخی حقائق پر مبنی نہیں معلوم ہوتے ہابس، لاک اور روسو جیسے مفکرین کا خیال ہے کہ سماج کے عالم وجود میں آنے سے قبل انسان فطری ماحول میں زندگی بسر کرتا تھا۔ بعدہ ایک معاہدے کے نتیجے کے طور پر سماج عالم وجود میں آیا۔ اس بات کو بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ آبادی بڑھنے کے بعد آپسی جھگڑے لڑائی کی وجہ سے رہنا مشکل ہوگیا ہوگا۔ ان ناقابل برداشت حالات سے بچنے کے لیے عوام نے آپس میں عہد و پیمان کیے ہوں گے۔ کچھ ایسے بھی مفکرین ہیں جن کا خیال ہے کہ سماج آہستہ آہستہ بتدریج ترقی پزیر ہوتا گیا۔ انسان شکاری تھا اور شکار کرکے اپنی گزر اوقات کرتا تھا، کچھ زمانے بعد اس نے جانور پالنے شروع کردیے۔ جب اس نے شکا رکے زمانے سے نکل کر جانوروں کی پرورش کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی تو خاندان میں سرمائے اور ملکیت کا تصور پیدا ہوا۔ یعنی خاندان چیزوں کا مالک ہونے لگا۔ جب کھیتی باڑی شروع کی تو انسان نے گروہ بنا کر کھیتوں کے کنارے رہنا شروع کیا۔ اس طرح ایک نئی سماجی تنظیم کا آغاز ہوا، اسی کو ہم سماج کہتے ہیں۔ اس کے نئے قانون، قدریں اور رسم و رواج تھے۔ کھیتی کی ترقی اور نئے نئے تجارتی ذرائع کے عالم وجود میں آنے کی وجہ سے سماج کی شکل میں تبدیلی ہوئی۔ صنعت کی ارتقا نے سماج کو نیا موڑ دیا، جب عوام گاؤں سے نکل کر صنعتی قصبوں اور شہروں میں گئے تو کچھ اور نئے مسائل پیدا ہوئے ان کی نوعیت سماجی تھی، جیسے جیسے صنعت زیادہ ترقی کرتی گئی، یہ مسائل پیچیدہ تر ہوتے گئے۔ اب ایک نیا سماج اور اس کا نیا نظام عالم وجود میں آرہا ہے اور یہ ریاستی حدود سے تجاوز کررہا ہے۔

اس طرح شکاری زمانے سے صنعتی سماج قطعی مختلف ہے۔ آج افراد مختلف انجمنوں کے ارکان ہیں۔ ان انجمنو ںکی تشکیل متعد اور مختلف اغراض و مقاصد کی بنا پر ہوتی ہے۔

سماج میں انسان کی حیثیت

اس طرح واضح ہوتا ہے کہ انسانی زندگی اور وجود سماج میں رہ کر ہی ممکن ہے۔ سماج کی تعمیر اس کے متعدد افراد کے باہمی تعاون سے ہی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ بچے کی بالیدگی کامدار بھی سماج پر ہی ہے۔ جب وہ بڑھتا ہے تو اس کی تمام تر ضروریات کی تکمیل محض خاندان ہی میں ممکن نہیں۔ ان ضروریات کے لیے وہ سماج کا بھی رہین منت ہوتا ہے۔ انسان نے فطرت پر باہمی تعاون سے قابو پالیا ہے جوکام ایک نسل کے لوگ کرتے ہیں وہ سماج کی قدروں کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں، اور ان کے محاصل ہوتے ہیں، یہ قدریں اور محاصل دوسری نسل کو ملتے ہیں اور وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دوسری نسل کے افراد ان محاصل اور قدروں کا تحفظ کرتے ہیں اور ان میں اضافے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح محاصل اور قدروں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور سماج کا ارتقا ہوتا رہتا ہے۔ یہ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ اب مختلف ممالک کے افراد و ارکان کے مابین تعلیمی رشتے قائم ہو گئے ہیں۔ ایک دوسرے کے درمیان سیکھنے سکھانے کا سلسلہ جاری ہوا ہے، اس سے علم کی ترقی ہوئی ہے اور مختلف ممالک کے عوام کے علوم میں اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح دیکھنے میںآتا ہے کہ سماج کے افراد بڑے پیمانے پر ایک دوسرے سے تعلقات اور معاہدے کے ذریعے مستفیض ہورہے ہیں۔ جب فرد اپنے سماج کی کوششوں کے ثمرے سے فائدہ حاصل کرتا ہے تو اس کا بھی فرض ہوجاتا ہے کہ وہ سماج کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں ہو۔ اس کا اہم فریضہ یہ ہے کہ دوسرے افراد سے تعاون کرے، سماج کے لیے کام کرے۔ اپنے بزرگوں اور اسلاف کے محاصل اور قدروں کا تحفظ کرے۔ اس کو کسی حال میں تباہ نہ ہونے دے، ممکن ہے کچھ لوگ سماج کو بے بنیاد سمجھیں۔ لیکن وہ  اس بات سے مطمئن ہوسکتے ہیں کہ سماج کے متعدد ارکان کے مابین معاہدے اور تعلقات ہوتے ہیں۔ یہ انجمنوں کی شکل میں سامنے  آتے ہیں، ارکان ان رشتوں کو بہت مضبوط سمجھتے ہیں اور انھیں مکمل تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔

ان انجمنوں کے متعدد اغراض و مقاصد ہوتے ہیں۔ کچھ عارضی اورکچھ مستقل، اپنے کاموں کے انجام دینے کے لیے ان کے کچھ اپنے اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ انجمنوں کی رکنیت رضا کارانہ ہوتی ہے اس میں ارکان کا اپنا فائدہ ہوتا ہے۔ جن بنیادوں، اغراض و مقاصد کے لیے انجمن کی تشکیل ہوتی ہے اس کو پورا کرنے، ترقی دینے اور اونچا اٹھانے کے لیے اس کے ارکان جدوجہد کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ انجمن کا کوئی رکن اتنا کمزور ہو کہ وہ اپنی فلاح و بہبود کے لیے کوئی کام نہ کرسکتا ہو لیکن اس سے انجمن کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ وہ بہرحال کامیاب ہوتی ہے کیونکہ اس کے دوسرے ارکان بھرپور کوشش کرتے ہیں اور ان کی جدوجہد سے انجمن کو فیض پہنچتا ہے۔ اس کے متعدد ارکان کی قوت، ادراک، فہم اور مقصد کی یکسانیت اس کی کامیابی کا باعث ہوتے ہیں۔ اہل اور قابل ارکان کے مقابلے میں کمزوروں کو زیادہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کیونکہ نفع کی تقسیم برابر ہوتی ہے۔ انجمن کے اغراض و مقاصد کی طرف زیادہ توجہ دی جاتی ہے، نفع کی طرف کم اس لیے ارکان میں قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ان میں شائستگی اور توازن سبھی پیدا ہوتا ہے انجمن کسی بھی رکن کو حتی الامکان مدد دیتی ہے۔ ایک رکن انجمن کے دوسرے ارکان سے تعاون کرنا سیکھتا ہے اور جو بھی توقعات اس سے وابستہ ہوتی ہیں وہ ان کو انجام دیتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی فرد متعدد انجمنوں کا رکن ہوتا ہے۔ کہیں وہ لیڈر ہوتا ہے اور کہیں تقلید کرنے والا رکن ہوتا ہے۔ ان حالات میں وہ دوسروں کی خواہش کا احترام کرنا سیکھتا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے حکم کی دوسروں سے پابندی کروائے، اس کو دوسروں کے نظریات کا احترام کرنا ہوتا ہے۔ اس کے اندر قوت برداشت بھی ہوتی ہے۔ وہ اس بات کی امید نہیں کرسکتا کہ دوسرے اس کے نظریات و خیالات کی موافقت کریں ۔ وہ اپنے نظریات و خیالات کے لیے دلائل پیش کرتا ہے۔ دوسروں کے اندر اعتماد اور یقین پیدا کرتا ہے اور اپنا ہمنوا اور موافق بناتا ہے۔ دوسروں کی بات ماننا، ان پر اعتماد کرنا، اور ان کے خیال سے اتفاق کرنا سیکھتا ہے۔ مختلف انجمنوں کی رکنیت سے وہ اپنے اغراض و مقاصد کے لیے پرخلوص طریقے اور وفاداری سے کام کرنا سیکھتا ہے۔ کبھی کبھی متعدد ذمے داریوں اور وفاداری میں ٹکراؤ ہوجاتا ہے۔ رکن ہونے کی حیثیت سے وہ یہ سیکھتا ہے کہ ان ذمے داریوں اور وفاداریوں میں سے کسے پہلے انجام دے یعنی اس میں قوت انتخاب اجاگر ہوتی ہے۔ اس کے اندر قوتِ فیصلہ پیدا ہوتی ہے۔ وہ یہ جانتا ہے کہ اس کی وفاداری ریاست کے حق میں سب  سے اہم اور لازمی ہے کیونکہ ریاست تمام چیزوں کا مخرج اور مخزن ہے۔

ہم نے سیکھا:

.1       اپنی حفاظت کے لیے اور باہمی امداد کے لیے انسان کی اجتماعی اور منظم حیثیت نہایت ضروری ہے۔

.2       اجتماعی زندگی انسان کو متمول اور غنی بناتی ہے۔

.3       انسانی زندگی اور وجود کو کامیاب بنانے کے لیے فر د اور سماج مل کر کام کرتے ہیں۔ چاہے وہ انفرادی زندگی ہو یا طبقاتی۔

 

ماخذ: ابتدائی علم شہریت: شریف الحسن نقوی، ایس این چٹوپادھیائے، دوسرا ایڈیشن: اگست 2002، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

دیوان مجید کی بازیافت، مضمون نگار: خاور نقیب

  فکر وتحقیق، اکتوبر - دسمبر 2024 تلخیص عبدالمجید بھویاں حیا کا شمار اڈیشا کے قدیم شعرا میں ہوتا ہے۔دیوان مجید ان کے تقدیسی کلام پر مشتم...