اردو دنیا، نومبر 2024
دورِ جدید میں اقدار کی شکست و ریخت اور زوال کے مباحثے
کے سلسلے میں ہوسکتا ہے کہ کچھ لو گ اس خیال کا اظہار کریں کہ اصل مسئلہ کچھ نئی
اقدار کی دریافت ہے اور کچھ اور لوگ شاید یہ سوچیں کہ ماضی کی اکثر اقدار مثلاً
محبت، برابری اور انسانی بھائی چارہ وغیرہ بہت اچھی اقدار ہیں اور مسئلہ صرف انھیں
واپس لانے کا ہے۔
لیکن ان دونوں صورتوں میں ایک بات نظرانداز کردی ہے اور
وہ یہ کہ بڑی حد تک جدید انسانی اقدار میں یقین اور ان کے اثبات کی صلاحیت بھی
کھوبیٹھا ہے۔ ایک قدر اپنی جگہ اہم، گہری یا مناسب ہوسکتی ہے لیکن ایک فرد کے لیے
جو بات سب سے زیادہ اہم ہے وہ خود اس کی ’قدرشناسی‘ اور اقدار کی یافت کی صلاحیت
ہے۔ ہٹلری فاشزم میں بربریت کی فتح کی وجہ صرف یہ تھی کہ لوگ اخلاقی روایت اور
اقدار کو بھول گئے تھے۔ آزادی اور عوامی خوشحالی کی انسانی اقدار اور عیسائیت اور
یہودیت کی اجتماعی ذمے داری اور محبت کی اقدار اس وقت بھی کتابوں میں موجود تھیں
اور مذہبی اسکولوں میں ان کی تعلیم دی جاتی تھی۔لوگوں میں ان اقدار کو اپنے تجربے
میں سمونے اور ان کا اثبات کرنے کی صلاحیت مفقود ہوگئی تھی۔
اسی طرح ’اقدار کے مرکز‘ کی تلاش کے تصور میں بھی ایک
قسم کا مصنوعی پن ہے اور یوں بھی اقدار کے کسی خارجی مرکز کی تلاش کا لازمی نتیجہ یہی
ہوسکتا ہے کہ انسان اجتماعی تصورات اور گروپ کی توقعات کے مطابق اپنی زندگی کو
ڈھالے اور اسے ہر وقت یہ فکر لاحق رہے کہ اس سلسلے میں نو بہ نو فیشن کون سا ہے گویا
اقدار بھی کوئی سامان آرائش ہوں جس میں جدید فیشن کی پابندی ضروری سمجھی جائے اور
یہی رویہ جیساکہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں، سوسائٹی کے کھوکھلے پن اور فرد کے خالی
پن کے احساس کی جڑ ہے۔
ہمارا تو یہ خیال ہے کہ ’اقدار کی بحث‘ بھی ایک گمراہ
کن تصور ہے کیونکہ نظریاتی اور علمی بحث اقدار میں یقین کی بنیاد نہیں بن سکتی۔ ہر
وہ چیز جس کی ایک انسان قدر کرتا ہے مثلاً اپنے بیوی بچوں سے محبت اور اپنے لیے ان
کی محبت، ڈرامہ، موسیقی، کوئی خاص کھیل یا اپنے کام میں فخر کا جذبہ، اس کے لیے
ٹھوس حقیقتوں کا درجہ رکھتی ہیں اور ان کے سلسلے میں کوئی نظریاتی بحث اسے اگر
بدتمیزی نہیں تو غیرضروری یقینا معلوم ہوگی۔ اگر اسے اس سلسلے میں توجہ پیش کرنے
پر مجبو رکیا جائے تو وہ زیادہ سے زیادہ یہی کہے گا ’’میں اپنے بچوں سے محبت اس لیے
کرتا ہوں کہ میں یہ جذبہ اپنے دل میں محسوس کرتا ہوں‘‘ اور اگر اسے اس سلسلے میں زیادہ
پریشان کیا جائے تو شاید وہ یہ کہے کہ ’’اگر آپ خود اس جذبے سے آشنا نہیں تو اس
سلسلے میں آپ سے کوئی بات کرنا بے سود ہے‘‘ اصل زندگی میں کسی چیز کی قدر و قیمت
کا اندازہ ہمارے اندرونی تجربے، عمل اور ردعمل کے سیاق و سباق ہی میں کیا جاسکتا
ہے اور اس کے سلسلے میں نظریاتی یا لفظی بحث کی حیثیت ثانوی ہے۔
ہم یہ ثابت کرکے کہ وہ ہر چیز جس کی طرف کسی خاص شخص کا
کسی خاص وقت رجحان ہے وہی ’اچھی‘ اور سچی‘ بھی ہے، قدر کو ایک نفسیاتی گورکھ دھندا
بن کر پیش نہیں کرنا چاہتے۔ اور نہ ہم اقدار کی وضاحت میں فلسفہ، مذہب اور دوسرے
انسانی علوم کی اہمیت سے انکار کرتے ہیں بلکہ میرا تو یہ خیال ہے کہ ان سب علوم کی
مشترک کوششوں ہی سے اس مسئلے کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے کہ وہ کون سی اقدار ہیں جن
کے مطابق عصر حاضر کا ایک انسان اپنی زندگی گزار سکتا ہے۔
لیکن ہمارا یہ خیال ضرور ہے کہ ایک انسان کا ذاتی
تجربہ، مقاصد، اخلاقی شعور اور اقدار کا اثبات ہی اس مباحثے کی بنیاد اور اس کا
اولین قدم بن سکتا ہے کیونکہ ایک انسان کے اخلاقی فیصلے اس کی قدرشناسی کی قوت ہی
کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ ایک شخص کا حقیقت کا ادراک اور حقیقت سے اس کا ذاتی تعلق
اور اس کے ذاتی عمل اور فیصلے ایک دوسرے میں پیوست ہوتے ہیں اور اسی کی مدد سے وہ
اقدار کا اثبات کرتا ہے اور ان اقدار کے بامعنی اور بااثر ہونے کا دار و مدار بھی
انھیں چیزوں پر ہے اور اسی صورت حال میں وہ اپنے کردار اور فیصلوں کی اخلاقی ذمے داری
بھی قبول کرسکتا ہے اور اسی طرح اس کا ہر قدم خوب سے خوب تر اقدار کی یافت کا وسیلہ
بھی بن سکتا ہے کیونکہ صرف ذاتی تجربہ ہی نئے امکانات کے ادراک اور لطیف امتیازات
کا وسیلہ بن سکتا ہے جب کہ رٹی رٹائی باتوں پر یقین اور دوسروں کی نقالی ایک مخصوص
صورت حال کی انفرادیت اور ندرت کے احساس کو دھندلا کردیتی ہے۔ دوسرے یہ کہ ایک
انسان کا عمل اسی حد تک پرجوش اور پراثر ہوگا جس حد تک وہ اس میں یقین رکھتا ہے
اور اس یقین کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ وہ خود اپنے عمل کا انتخاب اور شعوری
طور پر اپنے نصب العین کا اثبات کرسکتا ہو۔
زرتشت کے خیال کے مطابق انسان کو ’قدرداں‘ یا ’قدرشناس‘
کہنا مناسب ہوگا۔ اس کے الفاظ میں ’قدرشناسی کے بغیر کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی‘
او راس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ قدرشناسی دوسرے لوگوں اور قومو ںکی قدرشناسی
سے مختلف ہو کیونکہ قدرشناسی ایک تخلیقی عمل ہے۔ قدر شناسی ہی اس چیز کا جوہر ہے
جس کی قدر و قیمت متعین کی گئی ہے۔ قدرشناسی ہی اقدار کی خالق ہے، اس کے بغیر زندگی
کھوکھلی ہے۔‘‘
اب ہم زیادہ ٹھوس طریقے سے اس بات پر غور کرنا چاہتے ہیں
کہ ایک انسان کس طرح ایک اخلاقی انتخاب کرتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہر صورت حال میں
ان گنت جبری پہلو بھی ہوتے ہیں لیکن ذاتی فیصلے کے لمحے میں انسان کو ایک ایسا
اندرونی تجربہ ہوتا ہے جو اس جبریت کا پروردہ نہیں بلکہ ایک نئی جست ہے۔
مثال کے طور پر فرض کرلیجیے کہ ایک شخص کو ایک کشتی میں
بیٹھ کر کسی جگہ جانا ہے جہاں اس کو تقریر
کرنے کے لیے بلایا گیا ہے۔ مقررہ مقام پر پہنچنے پر اسے معلوم ہوتا ہے کہ مزدوروں
کی اسٹرائک ہے اور ایک خاص مقام پر اسے آگے جانے سے روکا جاتا ہے۔ اس اسٹرائک کی
وجہ بھی انصاف یا مساوات کا کوئی مسئلہ ہے لیکن اس وقت اس شخص کے سامنے ایک اخلاقی
مسئلہ ہے جو اس کے لیے زیادہ اہم ہے اور وہ یہ کہ وہ اس لائن کو پار کرے یا نہ
کرے۔ ہوسکتا ہے کہ اس وقت وہ اسٹرائک کے حق بجانب یا غیرضروری ہونے کے سوال پر غور
کرے اور اپنی تقریر کی اہمیت اور وعدہ پورا کرنے کی ضرورت سے اس کا مقابلہ کرے۔
ہوسکتا ہے کہ وہ اس بات پر غور کرے کہ آیا کسی اور طریقے سے اس خاص مقام پر وقت
مقررہ پر پہنچنا ممکن ہے یا نہیں۔لیکن فیصلے
کے لمحے میں اسے اس خطرے کے احساس کے ساتھ جو کسی بھی فیصلے کے لیے ناگزیر ہے اسے تمام
تر ذمے داری خود لینی ہوتی ہے اور یہ فیصلہ گویا ایک قسم کی جست ہے جو کسی ادھورے
پن کی تاب نہیں لاسکتی۔ اس میں شک نہیں کہ یہ مثال کسی قدر مبالغہ آمیز ہے کیونکہ
اس صورت میں غالباً بیشتر لوگ تو کسی خارجی اصول کے سہارے سے یہ فیصلہ کریں گے۔
ہوسکتا ہے وہ یہ کہیں ’اسٹرائک توڑنا میرے اصول کے خلاف ہے‘ یا یہ کہ ’چولھے میں
ڈالو اس اسٹرائک کو اور اسٹرائک کرنے والوں کو یہ لوگ تو کوئی نہ کوئی جھگڑا کھڑا
ہی رکھتے ہیں اور اس طرح گویا وہ اپنے فیصلے کی ذمے داری کسی خارجی چیز پر ڈالنے کی
کوشش کریں گے۔ لیکن جو شخص اس انتخاب کے وقت شعور ذات کے تقاضوں کی روشنی میں اپنی
انسانی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے اس کے لیے یہ فیصلہ ایک اضافی قدر کا حامل
ہوگا جس نے وقتی طور پر اس کی قوتوں کو یکجا کردیا ہے اور یہ صرف ذاتی سالمیت کا
احساس نہیں (گوکہ شعور کی پختگی کے ساتھ یہ احساس بھی حاصل ہوسکتا ہے) بلکہ یہ اس
حقیقت کا انکشاف ہے کہ اس قسم کا کوئی فیصلہ ایک قسم کی کمٹ منٹ جس کا ماخذ ایک
’جست‘ ہے گویا کہ وہ شخص خود سے کہہ رہا ہو ’اپنے علم اور شعور کی روشنی میں، میں
اس وقت یہی فیصلہ کرسکتا ہوں کہ یہ عین ممکن ہے کہ آئندہ میرے علم و شعور میں
اضافہ ہو اور اس قسم کی صورت میں، میں کوئی دوسرا فیصلہ کروں۔‘‘
اس کے ساتھ ساتھ اس انتخاب نے صورت حال میں بھی ایک تبدیلی
پیدا کی ہے خواہ وہ ایک خفیف تبدیلی ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اس طرح ایک شخص نے ایک
مخصوص نقطۂ نظر یا طریقۂ کار کی تائید کرکے اسے مضبوط بنایا ہے اور یہی ایک فیصلے
کا فعال اور تخلیقی پہلو ہے۔
جیسا کہ ہر ایک جانتا ہے، ایک شخص لاشعوری قوتوں سے بیشمار
طریقوں سے اثر پذیر ہوتا ہے لیکن یہ بات اکثر نظرانداز کردی جاتی ہے کہ شعوری فیصلے
بھی، بشرطیکہ وہ جلد بازی میں یا باغیانہ انداز سے نہ کیے گئے ہوں بلکہ صحت مند
انداز سے سوچ سمجھ کر کیے گئے ہوں۔ اکثر لاشعوری قوتوں کے تنددھارے کا رخ موڑنے میںکامیاب
ہوتے ہیں۔ اعصابی علاج کے دوران اکثر اس بات کی بڑی اچھی مثالیں دیکھنے میں آتی ہیں۔
مثلاً ایک شخص جو کافی عرصے سے اپنے والدین کو خدا حافظ کہنے اور ایک خاص نوکری
کرنے کا فیصلہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس دوران میں اکثر کچھ اس قسم کے خواب دیکھتا
ہے کہ جن میں اس بے یقینی کی جھلک ہے۔ان میں سے کچھ خواب اسے گھر چھوڑنے کے خلاف
آگاہ کرتے ہیں اور کچھ اس کے روشن پہلو پر روشنی ڈالتے ہیں اور پھر آخرکار وہ
گھر چھوڑنے کا فیصلہ کرتا ہے اور پھر یکایک اس کے خوابوں میں بھی ایک تبدیلی رونما
ہوتی ہے اور وہ اس کے گھر چھوڑنے کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گویا
کہ اس کے شعوری فیصلے نے لاشعوری قوتوں کے رکے ہوئے دھارے کے بند توڑ دیے ہوں۔ اس
سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری شخصیت ہی وہ صحت اور توانائی کے کچھ ایسے امکانات ہیں
جنھیں بروئے کار لانے کے لیے ایک شعوری فیصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تمثیلی طور پر
انفرادی فیصلہ یہودیوں اور سیسراکی فوجوں کی آپسی لڑائی میں یہودیوں کی یاد دلاتا
ہے۔ ’آسمان کے تاروں نے اس لڑائی میں یہودیوں کا ساتھ دیا‘ لیکن یہ اس وقت ہی
ممکن ہے جب یہودیوں نے خود لڑنے کا فیصلہ کیا۔
اس لیے ایک اخلاقی عمل کو اس قسم کا عمل ہونا چاہیے جس
کا فیصلہ اثبات ایک انسان خود کرے اور جو اس کے گہرے اندرونی مقاصد اور رجحانات کا
آئینہ دارہو، اگر وہ فیصلہ پر خلوص ہوگااور ایمانداری سے کیا گیا ہوگا تو نہ صرف
اس کے شعوری خیالات بلکہ اس کے خواب اور وجدانی بصیرت بھی اس کی تائید کرے گی۔ اس
طرح ایک اخلاقی بصیرت رکھنے والے شخص کے فیصلے اور اعمال شعوری اور غیرشعوری طور
پر ہم آہنگ ہوتے ہیں اور اس کا امکان بہت
کم ہوتا ہے کہ وہ شعوری طور پر تو کسی انسان سے محبت کرے اور لاشعوری طور پر اسی
سے نفرت کرے۔ گوکہ اس میںبھی شک نہیں کہ اس طرح کی سالمیت شاید کبھی بالکل مکمل نہیں
ہوتی۔ انسانی مقاصد کبھی بھی پورے طور سے پاک صاف اور یک طرفہ نہیں ہوتے اس لیے
انسانی عمل میں بھی کچھ نہ کچھ تضاد ضرور ہوتا ہے۔ ایک اخلاقی عمل کا یہ مطلب نہیں
ہوتا کہ اس میں مکمل اتحاد اور ہم آہنگی ہو اور شک و شبہے کا کوئی شائبہ بھی نہ
ہو اگر ایسا ہوتا تو غالباً انسان کے لیے کوئی قدم اٹھانا یا فیصلہ کرنا تقریباً
ناممکن ہوتا کیونکہ اس قسم کے موقع پر رشک و شبہ،کشمکش اور اندرونی جدوجہد تو ایک
لازمی امر ہے لیکن اس فیصلے اور اس قسم کے اقدام میں یہ بات ضروری ہوتی ہے کہ اسے
انسان اپنے پورے خلوص کے ساتھ کرتا ہے اور وہ اس کی ذات کے مرکز اور گہرائیوں کے
آئینہ دار ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ اس میں یہ اعتراض بھی شامل ہوتا ہے کہ اس شخص
کے مقاصد پوری طرح واضح اور صاف نہیں ہیں اور آئندہ اپنے علم اور نئے تجربے کی
مدد سے انھیں زیادہ روشن بنانے کی ذمے داری خود اس کی ہے۔
اخلاقی عمل میں اندرونی مقاصد کی اہمیت کے سلسلے میں جدید
نفسیات کی دریافتیں اور حضرت عیسیٰ کے
اخلاقی تصورات اور ارشادات ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں کیونکہ حضرت عیسیٰ کی اخلاقیات
میں خاص بات یہ تھی کہ انھوں نے ’دس عظیم احکامات‘ کے خارجی اصولوں کے بجائے
اندرونی مقاصد کو اخلاقیات کا مرکز اور
سرچشمہ قرار دیا اور فرمایا کہ ’زندگی کے مسائل کا سرچشمہ انسانی دل ہے‘ اخلاقی
مسئلہ اس طرح طے نہیں کیا جاسکتا کہ ’قتل نہ کرو‘ ’چوری نہ کرو‘ بلکہ اس کے لیے
دوسروں کی طرف اندرونی رجحانات مثلاً غصہ،نفرت، مخالفت، رشک وحسد، دوسروں سے
ناجائز فائدہ اٹھانے کی ہوس وغیرہ سے عہدہ برآ ہونے کی ضرورت ہے جو عام طور پر اس
قسم کے برے اقدام کا باعث بنتے ہیں۔ جب لوگوں کے خارجی عمل اور اندرونی مقاصد اور
رجحانات ایک دوسرے سے بالکل ہم آہنگ ہوں، ان کی زندگی مذہبی الفاظ میں رحمت الٰہی‘
کا نمونہ ہے اور جب لوگوں پر ’رحمت الٰہی‘ ہے ان کے قلب پاک اور مصفیٰ ہیں۔ کیرکے
گارڈ نے اپنی کتاب کا عنوان ’خواہش اور ارادے کی ہم آہنگی پاکیِ قلب ہے‘ رکھا ہے
اور اس کی بنیاد بائبل کے اس ارشاد پر ہے
’اے دوغلے انسانو! اپنے دل کو پاک کرو۔‘
شاید کچھ لوگ اخلاقیات کے اس داخلی تصور سے خائف ہوں کیونکہ اس کی بنیاد
ایک اندرونی آزادی پر ہے جو انسان کو خود اپنے اعمال کا ذمے دار بناتی ہے۔ وہ شاید
ان خارجی اصولوں ’دائمی قدروں‘ سخت گیر قدیم
اخلاقی نقطۂ نظر کی تمنا کریں کونکہ یہ ہمیں ’آزاد فیصلوں کے پریشان کن بارگراں‘
سے نجات دلا سکتے ہیں اور یہ تمنا شاید انھیں یہ کہنے پر اکسائے کہ آپ کے اندرونی
مقاصد اور ذاتی فیصلوں والی اخلاقیات بے راہ روی کا جواز ہے کیونکہ اس کے مطابق ہر
شخص اپنی من مانی کرسکتا ہے لیکن اس قسم کی دلیلں ہمیں ’آزادی‘ کے مسائل سے آزاد
نہیں کرسکتیں کیونکہ جو چیز ایک شخص کے لیے ’اچھی‘ اور ایماندارانہ ہے وہ اس کے
بالکل برعکس نہیں ہوسکتی جو دوسروں کے لیے ’اچھی‘اور ایماندارانہ ہے۔ ڈاکٹر ٹلس نے
اس سلسلے میں یہ کہا ہے کہ ’’اگر تم ان اصولوں کو دریافت کرنا چاہتے ہو جن کی بنیاد
پر کائنات کی تخلیق ہوئی ہے تو انھیں انسان کی ذات میں تلاش کرو‘‘ اور اس تصویر کا
دوسرا رخ بھی درست ہے وہ یہ کہ وہ جو سچائی انسانی تجربے میں منعکس ہے وہ بڑی حد
تک ایک کائناتی حقیقت کا عکس ہے۔‘‘
یہ بات فن کی دنیامیں زیادہ نمایاں طور پر دیکھی جاسکتی
ہے۔ اگر ایک تصویر میں خلوص او رایمانداری نہ ہو یعنی وہ فنکار کے گہرے، ذاتی اور
منفرد تجربات مشاہدات اور تاثرات پر مبنی نہ ہو تو اس کے حسین ہونے کا بھی امکان
نہیں، لیکن اگر وہ اس معنی میں پرخلوص ہے تو اس میں حسن کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور
موجود ہوگا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بچوں کا فن جہاں تک کہ وہ ان کے سیدھے سادے پر
خلوص تجربات اور جذبات کا آئینہ دار ہے، ہمیشہ حسین ہوتا ہے۔ آزادی اور بے ساختگی معمولی خطوط میں بھی لطافت اور
آہنگ پیدا کردیتی ہے۔ سر، تال اور توازن جو کائنات کے بنیادی اصول ہیں اور جن کی
کارفرمائی ستاروں کی گردش سے لے کر ایٹمی ذرات کی حرکات و سکنات تک ہر چیز میں دیکھی
جاتی ہے، حسن کے بنیادی عناصر ہیں اور انسانی جسم اور شخصیت کے دوسرے پہلوؤں کا
حسن بھی انھیں اصولوں کا مرہون منت ہے لیکن جیسے ہی بچہ بے ساختگی سے اپنے جذبات
کا اظہار کرنے کے بجائے دوسروں کی نقل کرنا شروع کرتا ہے یا تعریف و ستائش کی خاطر
تصویریں بناتا ہے۔ ان تصاویر کے خطوط کرخت ہوجاتے ہیں اور ان کا حسن اور لطافت
غائب ہوجاتی ہے۔
’داخلی تنویر‘ کی مذہبی روایت کا بنیادی اصول
یہ ہے کہ ہر شخص کے لیے نقطۂ آغاز خود
اس کی ذات ہے جیسا کہ مائسٹر ایکہارت نے کہا تھا ’’جس شخص نے خود کو نہیں پہچانا
وہ خدا کو بھی نہیں پہچان سکتا۔ روح انسانی عظیم بلندیوں کا گہوارہ ہے اس کی طرف
رجوع کرو‘‘ اس حقیقت کو سقراط سے منسلک کرتے ہوئے کیرکے گارڈ نے لکھا ہے ’’سقراط
کے خیال کے مطابق انسان کی ذات ہی اس کا مرکز ہے کیونکہ تمام کائنات اسی ذات پر
مرکوز ہے اور عرفان ذات ہی عرفان الٰہی ہے۔‘‘ اخلاقیات کی بحث یہاں ختم نہیں ہوتی
لیکن اگر ہم اسے اس مقام سے شروع نہ کریں تو کسی منزل تک پہنچنا بھی ممکن نہیں۔
ماخذ: انسان اپنی تلاش میں، مصنف: رولومے، مترجم: زاہدہ
زیدی، دوسری طباعت: اگست 2009، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں