27/12/24

حیات قدیمہ اور عصر ماقبل تاریخ، ماخذ: قدیم ہندوستان کی ثقافت و تہذیب تاریخی پس منظر میں، مصنف: ڈی ڈی کوسمبی، مترجم: بالمکند عرش ملسیانی

 اردو دنیا، نومبر 2024


عہد زریں

قدیم ترین اور خالص فطری زندگی کو جو ایک طرح کی حالتِ تکمیل نصیب تھی اس سے انسان کے انحطاط و محرومیت کی داستانیں متعدد مختلف ممالک و اقوام کے اساطیر میں پائی جاتی ہیں، چنانچہ یہی حال ہندوستان کا بھی ہے۔ آج کل کے ہندو موجودہ زمانے کو نسلِ انسانی کا عہدِ تاریک (کل یگ) کہتے ہیں۔ مفروضہ طور پر اس سے پہلے تین بہتر دور گزر چکے ہیں۔ ان میں پہلا اور سب سے اعلیٰ زریں ’عہد صداقت‘ (ست یگ یا کرت یگ) تھا۔ اس زمانے میں انسانوں کو نہ کسی حاجت کا علم تھا اور نہ کسی بیماری کا۔ وہ نہ تو محنت کرتے تھے نہ کاتتے تھے کیونکہ یہ مہربان زمین خودبخود ہی بہ افراط چیزیں پیدا کرتی تھی۔ پرامن و پرسکون، سادہ و معصوم اور پاک باطن و نیک کردار مخلوق کی حیثیت سے ہر آدمی ہزاروں سال تک جیتا تھا۔ اس کے بعد انسانی حرص و طمع کی نشو و نما ہوئی۔ لوگ ذاتی املاک میں مسلسل اضافہ اور حاصل کردہ اشیا کی ذخیرہ اندوزی کرنے لگے۔ ان معصیت آمیز سرگرمیوں نے انسان کو ترتیب وار ’ترت یگ‘ ، ’دو اپریگ‘ اور ’کل یگ‘ پہنچا دیا جن میں سے ہر ایک زمانہ پہلے سے بدتر تھا۔ زندگی کے طول کم ہوگئے اور اپنی فطری و بے لوث پاکیزگی سے منحرف ہوجانے کے باعث نسل انسانی جنگ، بیماری، افلاس اور بھوک کے مصائب میں مبتلا ہوگئی۔ بدھ اور جین مذہب کی کتابوں میں بھی اسی طرح کے بیانات موجود ہیں۔ برہمنوں کی تحریروں میں جو سب سے زیادہ قریبی زمانے سے متعلق ہیں مسلسل گردشوں اور لامتناہی ادوارکا ایک مزید نظریہ پیش کیا گیا ہے۔ موجودہ ’عہدِ تاریک‘ (کل یگ) ایک عالمگیر طغیانی پر ختم ہوگا۔ اس سیلاب سے حیات کا تمام وجود تباہ ہوجانے کے بعد زمین سمندر سے پھر برآمد ہوگی اور ایک نیا سنہرا زمانہ شروع ہوگا۔ اس کے بعد اسی طرح ترقی پذیر انحطاط کے دوسرے تین دور گزریں گے اور ایک اور طغیانی پر ختم ہوجائیں گے۔ یہی کچھ ماضی میں ہوا اور یہی مستقبل کے ادوار میں ہوگا۔ تاریخ کی بے معنی تکرار کا یہ افسردہ نظریہ دراصل محض ایک عکس و پرتو ہے اس بے کیف ہندوستانی دیہی زندگی کا جو کہ جیسا پہلے کہا جاچکا ہے موسم کی گردش اور تغیر و تبدل کے تحت گزرتی ہے، اکتوبر میں فصل کی کٹائی کے بعد خوشگوار سردی، صحت اور بہتات کا موسم آتا ہے۔ اس کے بعد ایک بڑھتی ہوئی قلت کا زمانہ شروع ہوتا ہے جس کا اختتام ہوتا ہے،  ایک ایسے دور پر جب کہ خشک جھلسے ہوئے کھیتوں کو تخم ریزی کے لیے محض تیار کرنے کے لیے خراب حالات میں شدید مشققت کی ضرورت ہوتی ہے بالآخر ہولناک مانسونی بارش ساری زمین کو غرقاب کردیتی ہے جس کے بعد موسموں کا یہی دور تسلسل ایسی ہی نوعیت کے ایک اور سال کے دوران خود کو دہراتا رہتا ہے۔

اس مشہور عام اساطیری افسانے باوجود زمانہ بعد کے شاعروں اور پروہتوں کے تخیلات سے باہر نسل انسانی کے کسی حقیقی عہد زریں کا کبھی کوئی وجود نہیں رہا۔ یہ بات ہمیں ان تاریخی دستاویزا ت کی براہِ راست تفہیم و تعبیر سے معلوم ہوئی ہے جو دو ہزار پانچ سو سال قبل مسیح سے شروع ہوتی ہیں اور ہندوستان سے باہر چند مقامات پر موجود ہیں۔ اس سے آگے ماضی کی عقدہ کشائی کے لیے آثارِ قدیمہ سے مدد لینی پڑتی ہے۔ آثارِ قدیمہ کا ماہر جب ایک ایسے مقام پر کھدائی کرتا ہے جہاں حالیہ زمانے میں زمین کو بہت زیادہ الٹا پلٹا نہیں گیا تو اسے واضح طور پر ایک دوسرے سے الگ اور غیرہموار جمی ہوئی تہیں ملتی ہیں۔ ان میں سے زیادہ قدیم تہیں وہ ہوتی ہیں جو زیادہ نیچے ہوتی ہیں اور اس طرح وقت کی ترتیب نمایاں ہوجاتی ہے۔ ان میں سے بہتوں میں انسانی حرکت و عمل کی علامات موجود ہوتی ہیں۔ یہ علامات جسمانی باقیات مثلاً ہڈیاں، کھوپڑی یا ایک واحد دانت کی شکل میںبھی ہوسکتی ہیں جو بڑی حد تک یہ بتا سکتی ہیں کہ ان اجزائے جسمانی کے مالک کس قسم کے انسان تھے۔ بعض خود آدمیوں کے ہڈیوں کے ساتھ اکثر ان جانوروں کی ہڈیاں بھی ملتی ہیں جن کا شکار آدمی کرتا تھا اسی طرح ان جانوروں کی ہڈیاں بھی دستیاب ہوتی ہیں جن کو وہ پالتا تھا۔ مثلاً کتا، مویشی، بھیڑ، گھوڑا، ان تہوں کا  تقابل کرکے یہ بتانا ممکن ہوتا ہے کہ کتا، گھوڑے سے بہت پہلے پالا جاتا تھا اور مویشی اور بھیڑ کسی درمیانی زمانے میں۔ مٹی کے برتن، پتھر کے اوزان دھات کی سب چیزیں ان اشیا کی قبیل سے متعلق ہیں جن کو آدمی بناتا تھا اور اسی لیے ان کو ’حقائقِ مصنوعی‘ کہا جاتا ہے، اگر مصر کی طرح آب و ہوا خشک ہو تو کلری کے آلات ہڈیاں اور ہاتھی دانت کے ہتھیار، ٹوکریاں اونی اور سوتی یا کتانی ریشے فن سے کپڑا تیا رکیا گیا ہو۔ اناج کے دانے اوراق پیپرس کے مخطوطات یا تصاویر قائم و محفوظ رہتی ہیں اور اس طرح ہم اندازاً یہ بتا سکتے ہیں کہ آدمی نے ان مختلف چیزوں کا بنانا کس ترتیب سے سیکھا۔ مزروعہ غلوں کو اگرچہ حقائق مصنوعی کی صف میں شامل نہیں کیا جاتا تاہم وہ بھی انسانی فعل و عمل کی ایسی تخلیق ہیں جیسے مٹی کے برتن۔ قدرتی گھاس کے موٹے سے موٹے بیج منتخب کرکے اور ان کو بار بار بوکر ہزاروں سال میں ان تمام نمکوں کو ارتقا یافتہ شکل میںلایا گیا تھا۔ فعل و عمل رک جاتا تو غلے کی تمام مزروعہ اقسام غائب ہوجاتیں یا پھر چند ہی نباتی نسلوں میں ان کے مضبوط تر جنگی خودرو نمونے ان کی جگہ لے لیتے۔ یہ طبق در طبق آثار ایک تاریخی سلسلے میں بعد میںاگر کوئی بھی الٹ پلٹ ہو مثلاً اوپر کی تہوں میں کوئی گڈھا کھودا گیا ہو۔ تو ایک تربیت یافتہ ماہر اس کو پہچان سکتا ہے اور نظراندازکرسکتا ہے۔ مختلف مقامات پر دریافت ہونے والی اشیا کا تقابل یہ بتلاتا ہے کہ خاص قسم کا اوزار مٹی برتن یا اناج کتنی دور تک پہنچا تھا۔ آخری بات یہ کہ اشیا فلورین کی مقدار کوئلے اور ہڈی کی تابکاری۔ ارضی مقناطیسیت کے مشاہدات، درخت کے تنے میں پڑنے والے حلقوں کی بالیدگی میں موسمی فرق (تاریخ شجری) اور اسی نوع کی دوسری چیزوں کی مدد سے تاریخوں کے تعین کا ایک اچھا خاصا نظام جدید تکنیک فراہم کرتا ہے۔ اس طرح از سر نو مرتب کیا ہوا ماضی (متعدد درمیانی خلا رکھتے ہوئے) سیکڑوں سال پیچھے تک چلا جاتا ہے تاآنکہ ہم ’انسان محض‘ کی اقسام مثلاً ’آدم جاؤ‘ اور ’آدم پیکن‘ تک اور پھر قبلِ انسانی ’عہد سے متعلق‘ ’افریقی سردار‘ کی کھوپڑی تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں سے ہم اثریات کو جوڑ کر ارضیات کے میدان میں داخل ہوتے ہیں یعنی تاریخ کا مطالعہ ختم ہوجاتا ہے اور ذرّات الثدی (دودھ پلانے والے جانور) فقاریہ (ریڑھ کی ہڈی) والے جانور مچھلیوں اور زندگی کی دوسری شکلوں کے ارتقا کا مطالعہ شروع ہوتا ہے۔

لیکن اس تمام تحقیق میں ایک گم گشتہ عہد زریں ایک قدیم اقبال و عظمت کی کوئی شہادت نہیں ملتی آدمی نے یکساں روی یا ثابت قدمی سے ترقی نہیں کی۔ لیکن مجموعی طور پراس نے ترقی ضرور کی اور ایک خاص حد تک وہ نااہل جانور سے ترقی کرکے ایک اوزار ساز اور اوزار کار مخلوق بن گیا جو اپنی کثرت تعداد اور مختلف انواع کی سرگرمیوں کے ذریعے پورے کرۂ ارض پر چھا گئی اور جس کے لیے اب صرف یہی باقی رہ گیا ہے کہ خود پر قابو رکھنا سیکھے۔ لاکھوں سال بعد کھود کر نکالی ہوئی ہڈیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدیم حجری عہد کے کسی بھی آدمی کے لیے چالیس سال کی عمر تک بھی جینا ایک حیرت ناک کارنامہ تھا۔ ہم سے زیادہ صحت مند ہونا تو درکنار وہ ہم سے زیادہ طفیلی کیڑوں مکوڑوں اور مفلوج کن امراض کا شکار تھا جو اس کی زندگی کو کم کردیتے تھے۔ عہد زریں اگر کوئی ہے تو وہ مستقبل میں ہے، ماضی میںکچھ نہیں تھا۔

عصرماقبل کی تاریخ اور حیاتِ قدیمہ

ماہر آثارِ قدیمہ کی دریافتیں ہمیں ازخود یہ نہیں بتاتیں کہ کسی خاص زمانے کے لوگ واقعی کس طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ اس طرز زندگی (پوری ثقافت) کا خاکہ ازسر نو مرتب کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس دنیا کے الگ تھلگ اور افتادہ مقامات پر جو بہت سے مختلف قدیم قبائل باقی رہ گئے ہیں ان کا تقابلی مطالعہ کیا جائے۔ تب رفتہ رفتہ  یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ ایک خاص زمرے کے اوزار کس طرح بنائے گئے اور استعمال کیے گئے اور اس کے بنانے والے ماضی بعید میں کس طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ جب سماجی نظام وجود میں آگیا تو اسی طرح کچھ نہ کچھ سماجی نظام کے متعلق بھی بتایا جاسکتا ہے لیکن کم تیقن کے ساتھ۔ خود یہی حقیقت کہ آسٹریلیا اندرون برازیل میں ایک قدیم ابتدائی قبیلے کا مطالعہ ممکن ہے یہ معنی رکھتی ہے کہ اہلِ قبیلہ کا باہر کی دنیا سے اور بطورِ نتیجہ بیرونی تہذیب سے کچھ رابطہ رہ چکا ہے۔ ایسا ماننا ہی پڑے گا کہ کیونکہ کوئی رابطہ بغیر تغیر نہیں ہوسکتا۔ دوسرے کوئی انسانی گروہ کسی حد تک ایک ہی مقررہ حالت میں نہیں رہ سکتا۔ یا تو ارتقا پاکر کوئی زیادہ اہل و بہتر صورت اختیار کرتے ہیں یا پژمردہ ہوکر ختم ہوجاتے ہیں۔ قبل تاریخ کے لوگ جن کا ہم مطالعہ کرنا چاہتے ہیں روئے زمین سے مٹ چکے ہیں۔ بعض گروہ اپنے بعد ایسے اخلاف چھوڑ گئے ہیں جو آگے بڑھ کر تہذیب حاضرہ تک آگئے اور بعض صفحۂ ہستی سے یکسر غائب ہوگئے۔ دور افتادہ گوشوں میں جو تھوڑے سے باقی رہ گئے ہیں انھوں نے کچھ خیالات ذہنی انداز، توہمات، پوجا پاٹ کے طریقے اور رسم و رواج اس قسم کے پیدا کرلیے ہیں جو ان کی زندگی کے جدید طریقوں کا تجربہ کرنے سے روکتے ہیں۔ ہمارے عہد کے بیشتر وحشی گروہوں کا سماجی ڈھانچہ ایسا سخت اور بے لوچ ہے کہ ہر ایک جدت و بدعت کی ہمت فرسائی کرتا ہے حالانکہ سب کا ایک ہی سماجی ڈھانچہ نہیں ہے۔ کوئی مادہ پرست سماجی نشو و نما پر خیالات کے اثر کو نظرانداز کرنے کی قدرت نہیں رکھ سکتا۔

دنیا کے جن حصوں میں وسیع پیمانے پر کھدائی ہوچکی ہے وہاں کے اثریاتی ریکارڈ سے یہ تسلسل ظاہر ہوتا ہے۔ سب سے نیچے اور اس لیے سب سے قدیم حصے میں چھلے ہوئے پتھر کے بھدے ٹکڑے ہیں۔ یہ اوزار کے طور پر لکڑی اور ہڈی کے ساتھ ہوتے تھے جو کہ اب نابود ہوچکی ہے۔ اس قدیم حجری عہد نے ایک لاکھ سال یا اس سے بھی زیادہ مدت کے دوران پتھر کو چھیل کر اوزار بنانے کی تکنیک میں بہت سست ترقی کی۔ اس کے بعد پتھر کے صاف اور چکنے اوزاروں کا زمانہ (عہد جدید حجری) آیا۔ ان دونوں کے درمیان ’وسطی حجری عہد‘ آیا یہ اصطلاح اب استعمال نہیں ہوتی۔  اس عہد کی حد اور مدت غیرمتعین ہے۔ زمین کی زیریں تہیں جن میں صرف پتھر کے اوزار تھے اور قیاساً ہڈی لکڑی اور سینگ کے بھی وقت گزرنے پر دوسری تہوں کے نیچے دب گئیں جن میں دھات کے اوزاروں اور دھات کے ہتھیاروں کے باقیات تھے۔ سب سے پہلے جس دھات کا وسیع پیمانے پر استعمال ہوا وہ تانبا تھا جس کو ایک معمولی بھٹی کے ذریعے اس کی خام معدنی حالت سے پاک  و صاف کرکے نکالا جاسکتا ہے۔ یہ بھٹی اس آوے سے زیادہ طاقتور نہیں ہوتی جس کی مٹی کے برتن تیار کرنے میں ضرورت ہوتی۔ مٹی کے برتن اواخر عہد حجری والے پتھر کے اوزاروں کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ تانبا اتنا نرم ہوتا ہے کہ پگھلائے اور کوٹے بغیر کارآمد نہیں ہوسکتا اور اس پر بھی اس قدر خستہ و نازک ہوتا ہے کہ اگر کسی دوسری دھات مثلاً رانگ یا ٹین کی مناسب آمیزش نہ کی جائے تو کام نہیں دیتا۔ چونکہ رانگ کے ذخیرے وسیع پیمانے پر موجود نہیں اس لیے ’کانسی کا زمانہ‘ بہت کچھ تحقیق و تلاش پر دلالت کرتا ہے۔ تین ہزار قبلِ مسیح تک یا اس سے قبل ہی طویل فاصلوں پر تجارت کی سرگرمیاں پورے شباب پرآچکی تھیں۔ بہترین قسم کی کانسی نسبتاً کم یاب دھات تھی اور بہت کم لوگوں کے قبضے میں رہتی تھی۔ اس کے یہی معنی ہوئے کہ سماج متفرق طبقات میں بٹ چکا تھا۔ ’کانسی کے زمانے‘ میں خام دھاتوں کے ذخیروں اور عمدہ آبی وسائل پر قابو پانے کے لیے بہت کافی جنگ و جدل ہوئی اور طویل فاصلوں پر چھاپے مارے گئے۔ دوسرے ہزار سال دورِ قبل مسیح میں (ایک ہزار تا دو ہزار ق م) بے شمار قبائل بہت  کافی لیکن متحرک غذائی رسد (عموماً مویشی) کے ساتھ نقل و حرکت میں تھے اور یوریشیائی براعظم میں اِدھر اُدھر گھوم رہے تھے۔ دریائی وادیوں کی قدیم تر زرعی ثقافتیں اس سے ایک ہزار قبل ہی مصر اور میسوپوٹامیہ میں شہری ریاستوں، بادشاہتوں معبدی پیشوائیوں اور جنگ و جدل کے اداروں کو پروان چڑھا چکی تھیں اس طرح کی ترقی و نشو و نما مقامی اور استثنائی تھی۔ موجودہ زمانہ عصریاتی اعتبار سے لوہے کا زمانہ ہے، لوہا ایک کافی ارزاں اور وسیع طور پر ملنے والی دھات ہے جو زراعت کے لیے ایک عالمی امکان فراہم کرسکتی ہے اواخر عہد حجری میں کچھ زراعت ضرور نمودار ہوئی تھی اس لیے ہم ذرائع پیداوار میں ایک جدید حجری انقلاب ’کا نام لے سکتے ہیں لیکن یہ چند مخصوص پسندیدہ علاقوں ہی تک محدود تھا، جہاں گھنے جنگلوں کو صاف کرنا ضروری نہیں تھا مثلاً میسوپوٹامیہ (عراق، مصر، وادی سندھ، ایران کے مرتفع میدان ترکی، فلسطین، ولدی ڈینوب کی چکنی مٹی کے تنگ قطعہ کے بعض حصے اور شاید چین میں زرد چکنی مٹی کے بعض علاقے اگرچہ لوہا جب پہلی بار تیار کیا گیا تو کانسی سے نرم تھا پھر بھی اس کے ذریعے جنگل صاف کیے جاسکے اور سخت تر مٹی میں ہل چلانا ممکن ہوسکا۔یہ پہلی دھات تھی جو بہت سے لوگوں کو دستیاب تھی اور ایک مضبوط جنگ جو طبقے کے اجارہ میں نہیں تھی۔ اولین کسان جنھوں نے کتاں ہیوک (ترکی) اور جیریکو (فلسطین) کے مقام پر قصبے تعمیر کیے۔ ان کا زمانہ سات ہزار ق م سے آٹھ ہزار ق م تک پہنچتا ہے لیکن ان کے غذا پیدا کرنے کے طریقے قریب کے میدان میں وسیع پیمانے پر استعمال نہیں ہوسکتے تھے۔ ان کی کاشت کاری مصر اور عراق کے برخلاف غذا اندوزی اور گلہ بانی کی محض ایک ضمیمہ اس وقت تک بنی رہی۔ جب تک دو ہزار ق م کے اواخر میں لوہا دستیاب نہ ہوگیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوہا تیار کرنے کے سب سے پہلے عمدہ طریقے حتی کہ لوگوں کے اجارے میں تھے جس کی وہ سخت حفاظت کرتے تھے۔ یہ لوگ اس علاقے میںآباد تھے جو اب ترکی کہلاتا ہے 1450 ق م میں بھی لوہا اتنا کمیاب تھا کہ فرعون، طوطن، خامن ایک ٹھوس سونے کے تابوت میں دور ایک ایسے مقبرہ کے اندر دفن کیا گیا جو کانسی، ہاتھی دانت اور دیگر اشیا سے بھرا ہوا تھا لیکن لوہے کا اس کے پاس صرف ایک تعویذ تھا۔ جو اس کی کھوپڑی کے نیچے بندھا ہوا تھا۔ سستے لوہے کی دریافت کے یہ معنی نہیں تھے کہ اس سے لوگوں کی اکثریت کو مسرت حاصل ہوگئی۔ ایشیائے کوچک کی چھوٹی چھوٹی الگ تھلگ قوموں کو کانسے کے زمانے میں بھی اکثر حملہ آوروںکا  سیلاب بہا لے گیا تھا جب زیادہ وافر نفری قوت (اکثر زرخرید اور زمین سے وابستہ زرعی غلاموں کی صورت میں) فراہم ہوسکی تو صرف اسی وقت لوہے کے استعمال کے معنی ہوئے زیادہ غذا— زیادہ جبر و ظلم— تجارتی راستوں سے دور کچھ الگ تھلگ رہنے والے قبائلی ایسے رہ گئے (اور تقریباً آج تک موجودہ ہیں) جو خود کو بدل کر غذا پیدا کرنے کی بجائے غذا تلاش و جمع کرنے کے عہد حجری پر نہایت سختی کے ساتھ قائم رہے۔ وہ تہذیب کی سمت پیش قدمی سے الگ ہوکر رہ گئے پتھر کا گاہ بگاہ استعمال قبل تاریخ کے عہد سے تاریخی دور میں کافی دور تک جاری رہا۔ شاہِ ہیر لڑکی فوج کے بہت سے سنگین لوگ 1066 میں ہسٹنگیز کی جنگ کے دوران پتھر کی کلہاڑی سے مرے تھے اگرچہ 54 ق م میں جولیس سیزر کے حملے سے بہت پہلے ہی انگلستان آہنی عہد میں داخل ہوچکا تھا۔ ایک کل کی حیثیت سے غذا جمع کرنے والے سماج کی خصوصیات بیان کرنا آسان نہیں، عہد حاضر کا رومانی مکتب انشا یقین رکھتا تھا کہ ابتدائی قدیم آدمی لازمی طور پر ایک شریف وحشی ہوگا۔ تہذیب کی آلودگیوں سے پاک فطرت کا ایک طفل معصوم، برائیوں اور حرص و آز سے آزاد، ایک فطری ارضی بہشت کا یہ افسانہ کرسٹوفر کولمبس کے ایک خط سے شروع ہوا جو اس نے کسٹیل کی ملکہ بیلا کے نام لکھا تھا۔ اس سیاح کو جب ہندوستان کے زریں شہروں تک پہنچنے میں ناکامی ہوئی تو وہ یہ ظاہر کرنے کے لیے مضطرب ہوگیا کہ اس نے بہرحال ایک غیرمعمولی چیز دریافت کرلی ہے۔ بعض امریکہ کے جنوبی جزائر کا انسان فطری حالت میں۔ اس طرح ہیجان میں آکر یورپ کی قوت تخیل ایسی چیز مل گئی جو (’باغِ عدن‘ کے بعد)نہ تو انجیل میں موجود تھی اور نہ ان یونانی لاطینی ادبیت عالیہ کی خیالی جدتوں میں جن کی دریافتِ نو ’نشاۃ ثانیہ‘ میں ہوئی تھی۔ ارسو کے سماجی نظریات اور والٹیئر کی اپنے ہم عصر سماج پر بھرپور طنزیات کو اس ’فطری انسان‘ دریافت سے بڑی تقویت ملی کچھ لوگ تو ابتدائی قدیم کمیونزم کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں گویا وہ معاشرے کی ایک معیاری حالت تھی جس میں سب کا حصہ برابر تھا اور سب اپنی ساری ضرورتیں امدادِ باہمی سے پوری کرتے تھے اسی چیز کو انتہا تک لے جائیں تو یہ بھی عہد حاضر کے سرخی مائل لباس میں ’عہد زریں‘ کا ہی ایک افسانہ ہے۔ غذا اکٹھا کرنے والا ابتداً سماج بڑا محدود تھا۔ ہر مقام پر اور ہر زمانے میں اس کی خصوصی نوعیت کا تعین، غذا کی قلت اور غیریقینی فراہمی سے ہوتا تھا۔ گراہم کلارک جیسا محتاط ماہر آثارِ قدیمہ بالائی قدیم عہد حجری میں انگلینڈ اور ویلز کی مجموعی آبادی کا تخمینہ شاید دو سو پچاس نفوس انسانی بتاتا ہے جو دس چھوٹی جماعتوں میں منقسم تھے۔ اس کے اندازے کے مطابق ’وسطی عہدحجری‘ میں پورے برطانیہ عظمیٰ کی آبادی چار ہزار پانچ سو— ’جدید عہد حجری‘ کے کسی ایک دور میں  بیس ہزار اور اس کی تعداد کے دُگنے سے کچھ کم ایک ہزار ق م اور دو ہزار ق م کے درمیان تھی۔ جب کہ کانسی کا زمانہ غدائی، پیداوار کا سلسلہ کافی آگے بڑھ چکا تھا۔ ہندوستان میں اثریاتی شہادت فی الحال اس قدر ناقص ہے کہ ہندوستان کے متعلق اس قسم کے تخمینے پیش کرنا ممکن نہیں۔ بہرحال اگر ہندوستانی تحتی براعظم کے کسی بھی وسیع علاقے میں’عہد حجری‘ کی آبادی ہر دس مربع میل ایک آدمی سے زیادہ تھی تو یہ بھی ایک حیرت خیز بات ہوگی۔ وہ مقامات بھی جہاں قدرت مہربان ہے اس کا فیضان تمام موسموں میں یکساں نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی متواتر سال قلت کے آئیں۔ ایک بڑی مجموعی آبادی متعلق قائم شدہ بستیاں کسی قسم کے غذائی ذخیروں  کے بغیر کسی طرح بھی ممکن نہیں۔ غذا کو محفوظ رکھنے کی منزل غذا کی تلاش و جمع کی زندگی مقابلتاً بعد میں آتی ہے۔ خشک مچھلی اور گوشت کو محفوظ رکھنے کے لیے نمک کی ضرورت پڑتی ہے جو کسی قدر فاصلے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح غذا کو رکھنے والی چیزیں مثلاً ٹوکریاں چمٹے کے تھیلے اور مٹی کے برتن وغیرہ بھی ضروری ہی تمام اقسام کی غذا کو محفوظ بھی نہیں رکھا جاسکتا۔ ذخیرہ کرنے کے لیے مغز والے میوے غلہ اور کچھ پودوں کی جڑیں بہترین چیزیںہیں۔ ان میں سے زیادہ تر پکائے بغیر ہضم نہیں ہوسکتیں جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ آگ پر قدرت حاصل ہو اور کچھ مٹی یا برتن کی دھات موجود ہوں۔ اس منزل تک پہنچنے سے بہت پہلے آدمی نے سماجی زندگی کے خاص طریقے پیدا کرلیے تھے کیونکہ وہ پہلے ہی ہزاروں سال تک اوزار استعمال کرنے والے حیوان کی حیثیت سے زندگی گزار چکا تھا۔

 

ماخذ: قدیم ہندوستان کی ثقافت و تہذیب تاریخی پس منظر میں، مصنف: ڈی ڈی کوسمبی، مترجم: بالمکند عرش ملسیانی، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

حیات قدیمہ اور عصر ماقبل تاریخ، ماخذ: قدیم ہندوستان کی ثقافت و تہذیب تاریخی پس منظر میں، مصنف: ڈی ڈی کوسمبی، مترجم: بالمکند عرش ملسیانی

  اردو دنیا، نومبر 2024 عہد زریں قدیم ترین اور خالص فطری زندگی کو جو ایک طرح کی حالتِ تکمیل نصیب تھی اس سے انسان کے انحطاط و محرومیت کی ...