27/12/24

چھوٹا کشمیر کا قدآور شاعر: رسا جاودانی، مضمون نگار: شہاب عنایت ملک

 اردو دنیا، نومبر 2024

خوبصورت وادی، چاروں طرف برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ ندی نالے، سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی سڑکیں، سر سبز و شاداب دھان کے کھیت، جائی، چنتہ، سپاردھار سیوج جیسے صحت افزا اور سیاحتی مقامات، حسین و جفاکش لوگ ان سب کا مجسمہ ہے بھدرواہ کی حسین وجمیل وادی جسے عرف عام میں چھوٹا کشمیر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ وادی صدیوں سے بڑی زرخیز رہی ہے اور اس نے بڑے نامور شاعر، نقاد، مورخ اور سیاست دان پیدا کیے ہیں جنھوں نے اپنے کارہائے نمایاں انجام دے کر اس وادی کی چمک دمک میں اضافہ کیا ہے۔ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے اس وادی کو چھوٹا کشمیر تو کہا ہی جاتا ہے لیکن تعلیمی اعتبار سے اسے ریاست جموں و کشمیر کا کیرالہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کے لوگ نہ صرف پڑھے لکھے ہیں بلکہ بڑے بڑے عہدوں پر تعینات ہو کر اپنے فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں۔ اس وادی کو سائنس داں، پروفیسرز، سیاست داں، جج صاحبان اور وائس چانسلرز پیدا کرنے کا شرف بھی حاصل ہے۔ اس خوبصورت وادی سے ایک خوبصورت شاعر رسا جاودانی بھی ابھرے جنھوں نے تقریباً ساٹھ سال شعر و ادب کی خدمات انجام دیں اور پورے بر صغیر میں اپنی اردو اور کشمیری شاعری سے اپنے لیے تو الگ پہچان بنا ہی لی لیکن ساتھ ہی ساتھ بھدرواہ کے نام کو بھی عالمی سطح پر مزید منور کیا۔ کشمیری اور اردو زبان سے تعلق رکھنے والا ہر فرد جانتا ہے کہ بھدرواہ کی سب سے بڑی پہچان رسا جاودانی ہیں۔

خوبصورت وادی کے اس خوبصورت شاعر کے فن پر ریاست اور ریاست سے باہر کے ناقدین نے اتنا کچھ لکھا ہے کہ ان سب کی آرا کو اس مضمون میں شامل کرنا مضمون کو طوالت دینے کے مترادف ہوگا۔ البتہ ہر ناقد نے انھیں اردو اور کشمیری کا دلنواز شاعر قرار دیا ہے اور ان کی شعر شناسی کی تعریف دوٹوک الفاظ میں کی ہے۔ ریاست کے نامور نقاد جناب محمد یوسف ٹینگ نے رسا جاودانی کو کشمیری غزل کاشہنشاہ قرار دیا ہے۔ ٹینگ کے مطابق کشمیری زبان میں فنی محاسن کے ساتھ غزل لکھنے والا واحد شاعر رسا جاودانی ہے۔ موتی لال ساقی کے مطابق رسا کشمیری زبان کا شہسوار ہے۔

رسا جاودانی کے آبا واجداد اننت ناگ کشمیر سے ہجرت کر کے بھدرواہ آئے یہاں ان کی تجارت جب پھیل گئی تو انھوں نے بھدرواہ کو ہی اپنا مسکن بنایا۔ اس خاندان کا شمار اُس وقت کے بھدرواہ کے اعلی ترین خاندانوں میں ہوتا تھا جو غریب پروری کے لیے مشہور تھا۔ رسا جاودانی کے والد خواجہ منور جود یو کا شمار ریاست کے معزز ترین شہریوں میں ہوتا تھا جن کی دربار تک رسائی تھی اور جنھیں اس وقت کے مہاراجہ نے علم پروری کی وجہ سے انعامات سے بھی نوازا تھا۔ خواجہ منور جو دیو کے یہاں ہی رسا جاودانی 1901 میں پیدا ہوئے۔ جب رسا پیدا ہوئے تو ان کے والد خوشی سے پھولے نہیں سمائے انھوں نے پورے بھدرواہ میں بیٹے کی پیدائش پر مٹھائیاں تقسیم کیں۔ نام’عبدالقدوس‘ رکھا جو بعد میں رسا جاودانی بن کر شعر وادب کی محفلوں کو گرما تا رہا۔

رسا جاودانی کا بچپن بڑے ناز و دبدبے کے ساتھ گزرا۔ والد نے بچپن میں انھیں ہر قسم کی سہولیتیں فراہم کیں۔ یہاں تک کہ انگریزی اور فارسی زبانیں سیکھنے کے لیے با ضابطہ گھر پر استاد بھی تعینات کیا۔ یہی وجہ ہے کہ رسا جاودانی کو اردو اور کشمیری زبانوں کے علاوہ انگریزی اور فارسی زبان پر بھی مکمل دسترس حاصل تھی۔ شاعری کا شوق بچپن سے ہی تھا اور انھوں نے شاعری کی شروعات اردو سے کی۔ وہ اردو زبان سے بے حد محبت کرتے تھے اور اس زبان کو فخر ہندوستاں کہتے تھے۔ اردو سے ان کی محبت کا اندازہ اس نظم سے لگایا جا سکتا ہے جو ان کے اردو شعری مجموعے ’نظم ثریا‘ میں موجود ہے بعد میں کشتواڑ میں ایک بزرگ خواب میں آئے جنھوں نے اپنی مادری زبان یعنی کشمیری میں شعر کہنے کو کہا۔ اس کے بعد جب کشمیری شاعری کی شروعات کی تو آناً فاناً کشمیر کے طول و عرض میں رسا جاودانی کا نام گونجنے لگا۔ کھیتوں اور کھلیانوں میں کشمیری عورتیں اپنی پر سوز آواز میں رسا جاودانی کی غزلوں کو موسیقی کا پیرہن عطا کر کے اس درد بھری شاعری کا لطف لینے لگیں۔ اس پر طرہ یہ کہ جب مشہور و معروف موسیقار ’صوفی غلام محمد‘ نے رسا جاودانی کی غزل ’ ژہ لوگُتھ سرمہ چشمن ژیوہ ماہ پروای ویسے‘ کو موسیقی کا پیرہن عطا کیا تو رسا ہمیشہ کے لیے جاوداں ہو گیا۔ راج بیگم شمیمہ دیو، کیلاش مہرہ، غلام نبی ڈولوال ریاست کے وہ مایہ ناز گلوکار ہیں جو رسا جاودانی کی غزلوں کو گانا اپنے لیے فخر محسوس کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ کشمیری زبان کی لافانی گلوکارہ ’راج بیگم‘ اگر کچھ نہ گاتی تو بھی رساجاودانی کی غزل ’مش رو تھیس جاناں ژہ کَر یاد پیمائی بو‘انھیں فن کی دنیا میں زندہ رکھنے کے لیے کافی تھی۔

رسا جاودانی کا بچپن عیش و عشرت میں گزرا لیکن جوانی کی دہلیز انھوں نے مصیبتیں اٹھا کر پار کی۔ کئی ایسی وجوہات تھیں کہ رسا مالی طور پر کمزور ہوئے لیکن اس کے باوجود انھوں نے خود داری کے دامن کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اپنی ذاتی خواہشوں پر قابو پا کر انھوں نے اپنے پورے خاندان کی نہ صرف پرورش کی بلکہ انھیں اعلی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس خاندان کو پوری ریاست میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

رسا جاودانی کی شاعری کو پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ انھیں انسانی قدر یں بڑی عزیز تھیں وہ ایک انسان کو صحیح معنوں میں انسان دیکھنا چاہتے تھے اسی لیے تو کہا ہے        ؎

نسل آدم سے جہاں سے معمور

آدمی اس جہاں میں تھوڑے ہیں

آدمیت کے روپ میں اکثر

ریچھ،بندر،گدھے ہیں،گھوڑے ہیں

ایسی بستی ہو جہاں لوگ ہوںسارے انسان

کوئی ہندو ہو وہاںاور نہ مسلمان کوئی

میں ایک مذہب وحدت کا یوں بنا ڈالوں

کہ لوحِ دِل سے یہ نقش دوئی مِٹا ڈالوں

رسا جاودانی کی طبیعت حساس تھی اگر میں انھیں سادگی اور صفائی کا مجسمہ کہوں تو غلط نہ ہوگا۔ جب بات کرتے تھے تو حلیمانہ اندازکی گفتگو سے لگتا تھا کہ وہ لفظوں کے پھول نچھاور کر رہے ہیں۔وہ آپسی بھائی چارے کے زبردست حامی تھے۔ عمر کے آخری حصے تک وہ دیرینہ دوست نتھو شاہ کی دکان پر بیٹھ کر آپسی بھائی چارے کا درس دیتے رہے۔ یہ درس اُنھوں نے اپنی شاعری میں بھی دیا۔ کہتے ہیں           ؎

طواف کعبہ کو جاؤں، راہِ بنارس سے

خدا سے  ملنے کی خاطر،  بتوں سے  ساز کروں

حاجی یہ رسا سے کہتے ہیں،امسال رسا کعبے کو چلو

وہ بت کا پجاری بے چاراکعبے کی دُنیا کیا جانے

لو یہ کوتاہ نظر یہاں تک پہنچے

کعبہ پہنچے تو کہا،تیرے مکاں تک پہنچے

میری شاعری، میری ساحری

ہے خیال الفت سے بھری

نہیں ہے یہ رجز کی فسوں گری

مگر آشتی کا پیام ہے

رسا نے جب شاعری کی شروعات کی تو انھوں نے اپنی چند غزلیں بغرض اصلاح علامہ سیماب اکبر آبادی اور پنڈت دتاتریہ کیفی کو بھیجیں لیکن دونوں استاد شعرا نے غزلیں یہ کہہ کر واپس لوٹا دیں کہ ان میں اصلاح کی گنجائش نہیںہے۔ اس کے بعد رسا کی اردو شاعری ’رسالہ مخزن لاہور ا‘ور ’رنبیر جموں‘ میں متواتر شائع ہوتی رہی جس کی وجہ سے برصغیر کے ادبی حلقوں میں اُن کی ایک الگ پہچان بن گئی۔ یہی وجہ ہے کہ حفیظ جالندھری جیسے بلند قامت شاعر نے رسا جاودانی کو بھدرواہ کا ہیرا کہا ہے۔ محی الدین قادری زور کے مطابق رسا جاودانی کی غزلوں میں خواجہ میر درد اور مصحفی کا رنگ جھلکتا ہے اورنظموں میں وہ نظیر اکبر آبادی سے متاثر نظر آتے ہیں۔

کشمیری زبان میں رسا جاودانی کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں ’تحفہ کشمیر ‘اور ’نیرنگ غزل‘ جبکہ اردو میں’لالہ صحرا‘اور ’نظم ثریا‘ داد وتحسین حاصل کر چکے ہیں۔  کہا جاتاہے کہ 1947 میں رساجاودانی نے اردو شاعری کے ایک ضخیم مجموعے ’شبنمستان‘ کے عنوان سے ترتیب دیا تھا ابھی وہ اشاعت کے مراحل سے گزر رہا تھا کہ جموں میں فرقہ وارانہ فساد شروع ہوا اور یہ مجموعہ بھی فساد کی نذر ہو گیا۔ بہت سا غیر مطبوعہ کلام بھی ضائع ہو چکا ہے۔ اردو اور کشمیری دونوں زبانوں میں ان کا شعری مواد اگرچہ کہ کم ہے لیکن معیاری اعتبار سے یہ کسی خزانے سے کم نہیں ہے۔ ان کی شعری خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ریاست کی کلچرل اکیڈمی نے انھیں خلعت سے بھی نوازا ہے۔ رسا جاودانی گیان پیٹھ ایوارڈ کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ انھوں نے متعدد ملکی سطح کے مشاعروں میں اپنی ترنم بھری آواز سے جادو جگا کر شعر و ادب کے شیدائیوں سے خوب داد وصول کی۔ ان کے ہم عصر شعرا میر غلام رسول ناز کی، شہ زور کشمیری، مرزا عارف بیگ شوریدہ کاشمیری وغیرہ انھیں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اکثر ان سے فیض بھی حاصل کرتے تھے۔ اُس وقت کے ریاست کے وزیر اعظم بخشی غلام محمد ان کی شاعری کے شیدائی تھے اور اکثر ان کے اشعار سننے کے لیے انھیں سرینگر مدعو کرتے تھے۔ اور اگر کبھی بھدرواہ آتے تو رسا سے ملے بغیر انھیں چین نہیں آتا تھا۔

 رسا جاودانی کو قصیدہ نگاری کے فن پر بھی پوری دسترس حاصل ہے جس کا اندازہ اُس قصیدہ سے لگایا جاتا ہے جو انھوں نے بھدرواہ پر تصنیف کیا ہے اور جو ان کے دوسرے کشمیری شعری مجموعے ’نیرنگ غزل‘ میں شامل ہے۔ محمد یوسف ٹینگ کے مطابق رسانے یہ قصیدہ سودا اور ذوق جیسے قصیدہ نگاروں کی زمین پر لکھ کر ریاست جموں و کشمیر میں قصیدہ نگاری کی روایت کو مستحکم کیا۔ یہ قصیدہ پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کو اپنے وطن عزیز سے بے انتہا محبت ہے۔ وہ اس کے ندی نالوں،آبشاروں اور سرسبز وادیوں کی تعریف بہ بانگ دہل کرتے ہیں۔

رسا جاودانی بڑی حساس طبیعت کے مالک تھے۔ نفاست پسندی اور بے باکی ان کی شخصیت کے اہم جز ہیں۔ یہی خصوصیات ان کی شاعری کے اجزا بھی ہیں۔ انھیں اپنے لخت جگر’خیرات محمد ابن رسا‘ کی جب یاد تڑپاتی ہے تو وہ ’’یہ ماگ سو رتھی تہ پھالگنس منزاگر سو میون ٹوٹھ یار یئیہی ‘‘ جیسی غزل لکھ دیتے ہیں اور جب اس غزل کو ریاست کے نامور گلو کار غلام نبی ڈولوال ریڈیو پر اپنی مخصوص آواز میں گاتے ہیں تو سننے والوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک سیلاب امڈ آتا ہے۔ اس غزل سے معلوم ہوتا ہے کہ رسا اپنے فرزند خیرات ابن رسا سے بے حد محبت کرتے تھے اور جب یہی لخت جگر جدا ہو کر پاکستان جاتا ہے تو شاعر جدائی میں خون کے آنسو روتے ہوئے کہتا ہے کہ اے لخت جگر کم از کم ملاقات کے لیے تو آجاؤ میرا دل تمہیں دیکھنے اور ملنے کے لیے ترس رہاہے۔

رسا جاودانی ایک بہترین گلوکار بھی تھے اپنی اور کشمیری زبان کے شہرہ آفاق شاعر رسول میر کی غزلوں کو جب موسیقی کا پیرہن عطا کرتے تھے تو سننے والوں پر عجیب کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ ابتدا میں ان کے والد رسا کے گانے بجانے کے سلسلے میں ناراض رہتے تھے لیکن بعد میں جب والد سے اجازت مل گئی تو وہ موسیقی کی محفلوں کی جان بن گئے۔ اس سلسلے میں بھدرواہ میں اردو اور کشمیری شاعر وفا بھدرواہی اُن کاساتھ دیتے تھے۔ موسیقی کو اور زیادہ پر اثر بنانے کے لیے وہ گانے کے دوران تانبے کا گلاس بجانا پسند کرتے تھے اور اگر یہ کہا جائے کہ کشمیری موسیقی میں تانبے کا گلاس رساہی کی ایجاد ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ ریاست کے نامور گلوکار مرحوم غلام نبی ڈولوال سے اُن کے گہرے مراسم تھے اور جب رسا کشتواڑ جاتے تو ڈولوال صاحب موسیقی کی محفلیں آراستہ کرتے تھے۔ جن میں ڈولوال کے ساتھ رسا بھی کشتواڑ کے سامعین کو اپنی رسیلی آواز سے محظوظ کرتے۔

1968میں بھدرواہ ایک خوفناک طوفان کی زد میں آگیا۔ اُس طوفان نے پوری بھدرواہ کی وادی کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ رسا جاودانی کا دل بھی تڑپ اٹھا اور انھوں نے ’طوفان‘جیسی عمدہ نظم تحریر کی جسے پڑھ کر پورے طوفان کا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے شاعر اُس وقت ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر پورے طوفان کا مشاہدہ کر رہا تھا۔یہ نظم منظر نگاری اور جذبات نگاری کی ایک عمدہ مثال ہے        ؎

یہ کیا غضب خدایا،محشر یہ کیا دکھایا،طوفاں یہ کیسا آیا،

پانی کہاں سے چھوٹا،یہ کس کا بخت پھوٹا،یہ آسمان ٹوٹا

توبہ غضب کا پانی،یہ زور کی روانی،طوفان ِ نوح ثانی

اشجار بہہ رہے ہیں،مینار بہہ رہے ہیں،گھر بار بہہ رہے ہیں

اِک کم نصیب بُڑھیا،اِک غم نصیب بُڑھیا،ہے ہے غریب بُڑھیا

باہر کا شور سُن کر،نکلی جو گھر سے باہر،آغوش میں تھی دُختر

نکلی تھی بھاگ جائے،غم سے نجات پائے،معصوم کو بچائے

لہروں نے آکے گھیرا، لو چھا گیا اندھیرا

اسی طرح ان کی دوسری نظم بیتے دنوں کی یاد ہے جس میں شاعر ماضی کی خوشگوار یادوں میں کھو جاتا ہے اور حال کے واقعات سے تنگ آکر ماضی کی شادمانیوں سے اپنے دِل کو بہلاتا ہوا نظر آتا ہے       ؎

 وہ شادمانی کا سماں،لوٹیں گے اب وہ دِن کہاں

کتنا حسیں وہ دور تھا،کُچھ وہ زمانہ اور تھا

وہ چاند تارے اور تھے،سارے نظارے اور تھے

 نظم ساون میں رسا نے ساون کے مہینے کی تعریف کی ہے دراصل یہ مہینہ عاشق اور معشوق کے لیے بڑا اہم مانا جاتا ہے۔بہت سے شعرا نے اِس مہینے کے تناظر میں عاشق اور معشوق کی تڑپ کو اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے مگر رسا جاودانی نے روایتی موضوع سے ہٹ کر ساون کے مہینے میں رونما ہونے والے نظامِ قدرت اور مناظر فطرت کی تبدیلیوں کو شعری قالب میں ڈھال کر ایک فطری سماں پیش کیا ہے       ؎

کیا رنگ ہیں گُلوں کے

نغمے ہیں بُلبلوں کے

اے دل جلے پپیہے !

بے چین میرا جی ہے

ہے آگ سی لگائی

ساون کی رُت ہے آئی

تسکین دِل نے پائی

ساون کی رُت ہے آئی

ہر سو ہے خوشنوائی

ساون کی رُت ہے آئی

ہجر و وصال اور عشق کی تڑپ کے موضوع پربھی رسا جاودانی نے بہت سے اشعار لکھے ہیں۔اُن کی غزلوں میں فراق کی تڑپ، تنہائی کا احساس اور وصال کی امید کی خواہش بھی ہے۔کسی جگہ وہ معشوق سے نالاں بھی نظر آتے ہیں اور کسی جگہ محبت اور وصال کی لذت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ عاشق کی بے چینی اور کرب کو بھی اُنھوں نے اپنے مخصوص انداز میں پیش کیا ہے۔ ذیل میں اُن کی غزلوں سے کُچھ اشعار ملاحظہ ہوں          ؎

گر آج وہ نہ آئے کل آئیں گے ضرور

دیتے فریب دِل کو ہم عمر بھر رہے

ہم بن کے تماشا تو گئے اُس کی گلی میں

وہ بہر تماشا بھی لبِ بام نہ آیا

ستارو،رات بیتی جا رہی ہے

وہ میرا مست خواب آئے نہ آئے

وہ سچ مچ بھی سامنے آئے

ہم سمجھتے ہیں خواب دیکھا ہے

آکے مل کے روئیے اے عندلیب

تو فدا گُل پر ہے میں گلفام پر!

کیا کرشمے ہیں نیازِ عشق کے

میں نے دی اُن کو دُعا دُشنام پر 

 رساجاودانی کی شخصیت اور شاعری کا اس مختصر مضمون میں احاطہ کرنا مشکل ہے کیونکہ ان کی شاعری کو سمجھنے کے لیے لا تعداد صفحات کی ضرورت ہے۔ ان کی وفات کے بعد کلچرل اکیڈمی نے ’شیرازہ‘ کے اردو اور کشمیری نمبر شائع کر کے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا۔ شعبہ اردو جموں یونی ورسٹی اور شعبہ اردو کشمیر یونی ورسٹی نے رسا جاودانی کے فن اور شخصیت پر مقالے تحریر کروا کر ایم فل کی ڈگریاں عطا کیں۔ جموں یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر امیتا بھ مٹو نے شعبہ اردو کو تسلسل کے رسا جاودانی نمبر کے لیے خصوصی مالی تعاون دیا۔ یہ نمبر دو جلدوں میں شائع ہوا جس کی ادبی دنیا میں کافی پذیرائی ہوئی۔

27 مئی 1989 کو ادب کا چمکتا ہوا یہ ستارہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوا۔ کینسر کی مہلک بیماری نے ایسے اپنی زد میں لیا کہ علاج و معالجہ کے باوجود درد بڑھتا ہی گیا۔ 27 مئی کو ہزاروں اشک بار آنکھوں نے اپنے محبوب شاعر اور عظیم انسان کو ان کے بھدرواہ کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا۔

 

Prof.Shohab Inayat Malik

HOD Urdu

University of Jammu

Jammu - 180006 (J&K)

Mob.: 9419181351

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

حیات قدیمہ اور عصر ماقبل تاریخ، ماخذ: قدیم ہندوستان کی ثقافت و تہذیب تاریخی پس منظر میں، مصنف: ڈی ڈی کوسمبی، مترجم: بالمکند عرش ملسیانی

  اردو دنیا، نومبر 2024 عہد زریں قدیم ترین اور خالص فطری زندگی کو جو ایک طرح کی حالتِ تکمیل نصیب تھی اس سے انسان کے انحطاط و محرومیت کی ...