27/12/24

ریاض الرحمٰن شروانی: حیات و خدمات، مضمون نگار: محمد سلیم قدوائی

 اردو دنیا، نومبر 2024

استاد، مصنف، مبصر اور دانشور پروفیسر ریاض الرحمن شروانی (1924-2019) کا تعلق شمالی ہند کے معروف شروانی خاندان سے تھا۔ یہ خاندان جاگیردارانہ نظام سے وابستہ تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کی روایات میں مذہب، علم اور سیاست کو بھی امتیازی حیثیت حاصل تھی۔ ریاض الرحمن شیروانی کی پیدائش ان کے آبائی وطن حبیب گنج ضلع علی گڑھ میں 10 اپریل 1924 کو ہوئی تھی۔ ان کے دادا مشہور عالم دین اور مصنف صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن شروانی تھے۔ خاندانی روایات کے مطابق ان کی تعلیم و تربیت قدیم و جدید کا بہترین نمونہ تھی۔ پرائیویٹ طور پر انھوں نے مفتی عبداللطیف صدر شعبۂ دینیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے دینی علم، قرآن و حدیث، منطق و علم کلام کی تعلیم  پائی۔ اسکول سے لے کر بی اے تک انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کی۔ تقسیم ہند کے نتیجے میں کچھ ایسے حالات ہوگئے کہ ان کو عارضی طو ر پرپاکستان جانا پڑا جہاں انھوں نے اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے عربی کی تکمیل کی۔ بعد میں علی گڑھ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ عربی زبان کے مطالعے کے لیے وہ حکومت ہند کے وظیفے پر ایک سال کے لیے مصر گئے اور قاہرہ یونیورسٹی میں دکتورہ سہیر قلماوی کے زیرنگرانی جدید عربی ادب کا مطالعہ کیا۔ اس زمانے میں معروف ادیب ڈاکٹر طٰہ حسین قاہرہ یونیورسٹی میں تاریخ و ادب پر لیکچر دیتے تھے جس میں کوئی بھی شریک ہوسکتا تھا۔ پروفیسر شیروانی ان لیکچروں میں پابندی سے شرکت کرتے تھے اور مستفید ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ قاہرہ میں مصر کی ایک تنظیم شبان المسلمین تھی جس میں مختلف اسکالرز لیکچر دیتے تھے، ان پروگراموں میں بھی پروفیسر شیروانی پابندی سے شریک ہوتے تھے، وہاں انھوں نے ممتاز افسانہ نگار محمود تیمور کو سنا اور ان سے متعدد ملاقاتیں کیں۔ دارالعلوم قاہرہ کے استاد الشیخ محمد یونس کے محاضرات میں بھی وہ پابندی سے شریک رہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ 1953 سے 1983 تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ عربی سے وابستہ رہے۔ 1983 سے 1988 تک کشمیر یونیورسٹی سری نگرمیں عربی کے پروفیسر و صدر شعبہ رہے۔ شعبے میں ریسرچ کی شروعات کی۔ ان سے پہلے شعبہ عربی میں ریسرچ کا کام نہیں ہوا تھا۔ عربی  نصاب کی انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ دونوں سطحوں پر مکمل نظرثانی کی اور وہاں کے نصاب میں عثمانی دور کے عربی ادب کو شامل کیا۔ تیسرا اور سب  سے اہم کام یہ کیا کہ وہاں شعبۂ اسلامیات قائم کیا جس کے وہ بانی صدر رہے۔ غرضیکہ تدریس کے شعبے میں ان کی نمایاں کارکردگی رہی۔ پہلے علی گڑھ اور پھر کشمیر یونیورسٹی میں شعبۂ عربی و اسلامیات کو انھوں نے علمی اعتبار و وقار بخشا۔ درس و تدریس کا یہ سلیقہ ان کو اپنے بہترین اساتذہ سے آیا جن میں سید محمد ٹونکی، مفتی عبداللطیف اور پروفیسر عبدالعزیز میمن خاص طور سے قابل ذکر ہیں جس کا اعتراف انھوں نے کھل کر اپنی تحریروں میں کیا ہے۔

بحیثیت مصنف

تدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ پروفیسر شیروانی نے لکھنے کا شغل اپنی آخری سانس تک جاری رکھا اور نہایت بیباکی سے بے تکان لکھتے رہے۔ لکھنا ان کے لیے عبادت اور ریاضت کے درجے میں تھا۔ انھوں نے تعلیم، ادب، مذہب اور قومی سیاست جیسے موضوعات پر تحریروں کا خزانہ پیش کیا۔ ان کی تحریروں میں روانی اور تسلسل کے ساتھ شگفتگی بھی تھی۔ تحریر کی نمایاں خصوصیت سلاست اور بے ساختگی تھی۔ الفاظ پر کمال کی دسترس تھی۔ کتابوں کے علاوہ انھوں نے بے شمار مقالات اور مضامین اردو اور انگریزی  میں لکھے۔ ان گنت مراسلے لکھے اور متعدد کتابوں پر تبصرے کیے۔ پروفیسر شیروانی کی تصانیف میں ان کی نامکمل خودنوشت ’دھوپ چھاؤں‘ نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب 42ء سے 48ء تک کو محیط ہے۔ یہ کتاب یونیورسٹی کے زمانہ طالب علمی کی ہے جس کو مصنف نے اپنی زندگی کا خوشگوار دور بتایا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ سب سے زیادہ پریشانیوں، فکروں، دکھوں اور مایوسیوں اور ناکامیوں سے پر بھی بتایا ہے۔ اس دور میں پروفیسر شیروانی کی شخصیت کی تشکیل ہوئی اور دینی، سماجی اور سیاسی عقائد و نظریات مستحکم ہوئے۔ اس کا پہلا باب شیروانی خاندان کے حسب و نسب سے متعلق ہے۔ اس کتاب میں ابتدائی زندگی، یونیورسٹی میں ہاسٹل کی اقامتی زندگی یونین الیکشن، یونیورسٹی کے ماحول، منٹوسرکل اور یونیورسٹی کے اساتذہ پر اظہار خیال، پاکستان میں ڈیڑھ سالہ قیام کا ذکر وہاں کے حالات پر پرمغز گفتگو پڑھنے کو ملی ہے۔ اس کے علاوہ تقسیم ہند اور ادارۂ سرسید پر روشنی پڑی ہے۔ پروفیسر شیروانی کے ہم خیال لوگوں کی تعداد بہت قلیل تھی،لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنے چند ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر نیشنلسٹ مسلم فیڈریشن بنائی تھی۔ اس تنظیم کی بنیاد ملک کی آزادی و سالمیت اور ہندو مسلم اتحاد پر تھی۔ اسی پلیٹ فارم سے طلبا میں ’مسلم نیشنلزم‘ کو فروغ دینے کی ہر ممکن کوشش کی اور ایسا کرنے میں ان کوشدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ اپنے موقف پر مضبوطی سے ڈٹے رہے۔ ان کو بیک وقت دو محاذوں پر جنگ لڑنا پڑی۔ ایک طرف برطانوی سامراج سے اور دوسری طرف مسلم فرقہ پرستی اور علاحدگی پسندی سے جو اس وقت کے ماحول میں آسان راہ نہیں تھی۔

پروفیسر شروانی کی دوسری اہم تصنیف ’میر کارواں‘ ہے۔ اس کتاب کا نام جواہر لعل نہرو کی تقریر سے مستعار لیا گیا ہے۔ مولانا آزاد کے انتقال پر نہرو نے پارلیمنٹ میں اپنی تعزیتی تقریر میںا ٓزاد کے لیے یہ خطاب استعمال کیا تھا۔ مولانا آزاد کی قائدانہ شخصیت کے لیے اس سے موزوں کوئی لفظ ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ مولانا آزاد سے شیروانی کی عقیدت و محبت کی بنیاد آزاد کے سیاسی افکار و اعمال کی وجہ سے استوار ہوئی اور آزاد کے علاوہ کوئی اور سیاسی لیڈر ان کی نظر میں جچا ہی نہیں۔ یہ کتاب مولانا آزاد کی زندگی اور ان کی خدمات کے اہم گوشوں کا احاطہ کرنے کے علاوہ ان کی اہمیت اور معنویت کو اجاگر کرتی ہے۔ آزاد فہمی کے سلسلے میں بہترین کاوش ہے۔ یہ نہ صرف مولانا آزاد کی شخصیت، فکر اور کارناموں کی تفہیم کرتی ہے بلکہ ان سے متعلق غلط فہمیوں اور غلط بیانیوں کا ازالہ بھی کرتی ہے۔ا س کتاب میں شامل تحریریں ہندوستانی سیاست کے نشیب و فراز میں مولانا آزاد کی خدمات اور کردار کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ پروفیسر شیروانی کے مطابق مولانا آزاد نے زندگی کے جس شعبے میں بھی قدم رکھااس میں درجۂ ا متیاز حاصل کیا۔ سیاست کے  علاوہ صحافت، خطابت، ادب، مذہب سب اس زمرے میں آتے ہیں۔ بلاشبہ یہ کتاب مولانا آزاد جیسی عبقری شخصیت اور ان کی متنوع خدمات کے مطالعے پر مبنی ہے اور ایک دستاویزی حیثیت رکھتی ہے۔

’انسان  کیسے کیسے‘ پروفیسر شیروانی کی یہ کتاب ان کی علمی و غیرعلمی شخصیات کے ذکر پر مبنی ہے جن کو انھوں نے دیکھا اور جس سے وہ مستفید ہوئے، جن ہستیوں کے بارے میںا ظہار خیال کیا گیا ہے ان میں علمابھی ہیں، سیاسی رہنما بھی ہیں، اساتذہ بھی ہیں، خاندانی بزرگ بھی ہیں، ادبا، شعرا اور احباب بھی۔ ان شخصیتوں کی خوبیوں اور خامیوں کے بیان میں توازن و اعتدال برقرار رکھا گیا ہے۔ ان تذکروں میں نہ عقیدت  میں غلو ہے اور نہ مخالفت میں شدت۔ انداز بیان ایسا ہے کہ قاری کے سامنے ان شخصیات کی مکمل تصویر ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ یہ کتاب مضامین  کا مجموعہ ہے خاکوں کا نہیں۔

’انڈیا ونس فریڈم‘ پروفیسر شروانی کی اس کتاب میں مولانا آزاد کی مشہور کتاب ’انڈیا ونس فریڈم‘ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب میں مولانا آزاد کی دور اندیشی اور فکر و آگہی کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا آزاد ہندوستان کے مستقبل کو اپنی چشم بصیرت سے دیکھ رہے تھے۔ یہ کتاب مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت اور تدبر کی غماز ہے۔ پروفیسر شیروانی نے حقائق اور دلائل کی روشنی میں اس کتاب کو مولانا آزاد کی تصنیف قرار دیا ہے۔

ان کتابوں کے علاوہ پروفیسر شیروانی کی تصنیفات میں سیکولرازم کیوں اور مسلمانان ہند سے وقت کے تقاضے نام کے دو کتابچے ہیں جن میں ہندوستان اور مسلمانوں کے تعلق سے مفید پہلوؤں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ ’مقالات قومی سرسید سمینار‘ اور ’ڈاکٹر عبدالعلیم، ادیب عالم‘ کو پروفیسر شیروانی نے مرتب کیا ہے۔ ’مقالات ریاض شیروانی‘ کتابوں کے علاوہ پروفسیر شیروانی نے بے شمار مقالات اور مضامین مختلف اخبارات، رسائل و جرائد کے لیے لکھے اور کچھ یادگاری مجموعوں میں بھی شائع ہوئے۔ ڈاکٹر ابوذر متین نے پروفیسر شیروانی کے بیشتر علمی و ادبی، تنقیدی، تحقیقی، تاریخی، تعلیمی، تبصرہ جاتی مقالات ہے، خطبات اور انٹرویو کو کتابی شکل میں یکجا کردیا ہے، لیکن اس مجموعے میں سیاسی مضامین اور خاکوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ کچھ مضامین دستیاب بھی نہیں ہوسکے۔ ان مقالات میں معلومات، وسعت مطالعہ، قوت یادداشت، معروضیت، تاریخی نقطۂ نظر اور قوت استدلال جلوہ فگن ہے۔ یہ اہم کتاب 7 حصوں میں تقسیم ہے۔ موضوعاتی اعتبار سے سب سے پہلے قرآنی مضامین کو قرآنیات کے تحت جگہ دی گئی ہے۔ دوسرے حصے میں مضامین کا تعلق عربی زبان وادب کے معروف علما اور فضلا سے ہے۔ اردو داں طبقے کے لیے یہ مضامین یقینا معلومات افزا ہیں۔ ادبیات اردو کے تحت 13 شخصیات موضوع بحث ہیں۔ ان میں مفکر، ادیب، شاعر، افسانہ نگار، تنقید نگار اور سوانح نگار شامل ہیں۔ ان کے فنی محاسن کا ذکر کرتے ہوئے تنقیدی جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ چوتھے حصے میں انگریزی ادب کے تحت انگریز شاعر ورڈسورتھ کے شاعرانہ شعور کے ارتقا کا جائز لیا گیا ہے۔ پانچواں حصہ تبصرہ جاتی کتب کے لیے مخصوص ہے۔ چھٹے حصے میں تعلیم سے متعلق مضامین شامل ہیں اور آخری حصہ خطبات اور انٹرویو پر مشتمل ہے۔

’پروفیسر شیروانی اور صحافت‘ پروفیسر شیروانی کا صحافت سے گہرا تعلق رہا۔ وہ کئی اخبارات اور رسائل سے بحیثیت مدیر اور اداریہ نویس منسلک رہے۔ انھوں نے سب سے پہلا اداریہ 1949 میں علی گڑھ سے شائع ہونے والے ہفتہ وار ’نیا ہندوستان‘ کے لیے لکھا۔ 1952 میں عبدالستار خاں شیروانی کی مشترکہ ادارت میں ’جمہور‘ نام کا اخبار نکالا جو 1962 تک پابندی سے نکلتا رہا۔ اس کے اداریے اور شذرات جو عام طور سے سیاسی نوعیت کے ہوتے تھے۔ شاہد شیروانی اور پروفیسر شیروانی دونوں لکھا کرتے تھے لیکن ان پر کسی کانام نہیںہوتا تھا۔ پروفیسر شیروانی کا سب سے بڑا صحافتی کارنامہ رسالہ ’کانفرنس گزٹ‘ کی ادارت ہے۔ اس کا آغاز 1918 میں ہوا تھا، لیکن اس کی اشاعت  درمیان میں کچھ وجوہات کی بنا پر وقفے کے ساتھ ہوتی رہی۔ پروفیسر شیروانی نے اسے 2002 سے نکالنا شروع کیا اور ان کے بے باک اداریوں کی وجہ سے کانفرنس گزٹ نے علمی و ادبی حلقوں میں مقبولیت حاصل کرلی۔ ان کے اداریے، شذرات اور تبصرے نہایت دلچسپی سے پڑھے جاتے تھے ۔ اداریے تو اہم ہوتے ہی تھے۔ ان کے علاوہ اس میں شائع ہونے والے مضامین پر جو حواشی پروفیسر شیروانی لکھا کرتے تھے وہ مختصر ہونے کے باوجود بڑے کارآمد اور معلوماتی ہوتے تھے۔ اس میں لکھے گئے اداریے کو ڈاکٹر فخرعالم ندوی نے ’شذرات شیروانی‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع کردیا ہے۔ یہ کتاب 5 ابواب میں تقسیم ہے۔ پہلا باب کانفرنس گزٹ کے حوالے سے ہے۔ اس میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے ماضی و حال کی جامع داستان بیان کی گئی ہے۔ دوسرا باب مسلم یونیورسٹی سے متعلق ہے۔ اس میں تاریخ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ پروفیسر شیروانی نے اپنے دور طالب علمی کے حالات اور واقعات کو پیش کیا ہے۔  تیسراباب سرسید اور ان کی تحریک سے متعلق ہے۔ سرسید کے علمی کارناموں کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے اور تحریک کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ چوتھے باب میں سماجی اور مذہبی مسائل کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایک صالح نظام کن اعمال سے ابھر کر سامنے آتا ہے۔ آخری باب میں کچھ وفیات کا ذکر ہے جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح مسلم ایجوکیشنل کانفرنس سے رہا ہے۔ کانفرنس گزٹ کی ادارت کے علاوہ پروفیسر شیروانی نے خود اپنا رسالہ ’فکر نو‘ کے نام سے نکالا جو ان کی زندگی کے آخری 3 سالوں تک پابندی سے نکلتا رہا۔ اس کے  اداریے اور تبصرے بھی نہایت دلچسپی سے پڑھے جاتے رہے۔

بحیثیت تبصرہ نگار

پروفیسر شروانی نے متعدد کتابوں پر عالمانہ تبصرے کیے جن کی علمی و ادبی حلقوں میں بھرپور پذیرائی ہوئی۔ انھوں نے پہلا تبصرہ مسلم یونیورسٹی گزٹ کے لیے کیا۔ اس کے بعد ’آجکل‘ مدیر ’جمہور‘ اور ’اردو بک ریویو‘ میں یہ سلسلہ جاری رہا۔ باقاعدہ تبصرہ نگاری پروفیسر آل احمد سرور کی فرمائش پر ’ہماری زبان‘ کے لیے شروع کی جس کا سلسلہ برسوں چلا۔ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے ترجمان کانفرنس گزٹ کی ادارت سنبھالنے کے بعد اس رسالے میں تبصرہ نگاری پابندی سے 2004 میں شروع کی۔ تبصرہ نگاری کے لیے ضروری ہے کہ مبصر کا مطالعہ وسیع ہو اور اس میں بے لاگ تجزیہ کرنے کی صلاحیت اور حق بات کہنے کا حوصلہ ہو۔ پروفیسر شروانی بلاشبہ ان تمام صلاحیتوں کے مالک تھے۔ وہ کتاب کو پوری طرح پڑھ کر، غیرجانب دار ہوکر اور حاضر دماغی کے ساتھ، نہایت دلچسپ انداز میں کتاب کی روح کو بیان کردیتے۔ وہ تعارف و تبصرہ کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک تقریظ محض ثناخوانی اور تبصرہ تجزیہ نگاری تھا۔ اردو کے سنجیدہ قارئین بے چینی سے ان کے تبصروں کا انتظار کرتے تھے۔ پروفیسر شروانی کے کارناموں میں ایک تابناک پہلو،ان کے تبصرے ہیں۔ ان تبصروں کو ڈاکٹر ابوذر متین نے ’کتابوں کے درمیان‘ نام سے کتابی شکل میں شائع کیا ہے جو 1100 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ ضخیم کتاب ایک قابل غور مجموعہ ہے جس میں مختلف موضوعات پر تصانیف کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ اس مجموعے میں تمام دستیاب مطبوعہ تبصرے مختلف علمی و ادبی رسائل و جرائد سے لیے گئے ہیں۔ یہ کتاب موضوعاتی اعتبار سے مرتب کی گئی ہے۔ اس کتاب میں تجزیہ نگاری، انصاف پسندی، غیر جانب داری اور وسعت نظر جیسی خصوصیات موجود ہیں۔ تعارف و تجزیہ اور نقد و جرح کے اعتبار سے ان تبصروں کی اپنی اہمیت ہے۔ ان تبصروں میں علم و فکرکی دنیا آباد ہے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد پروفیسر شروانی نے پنے دادا اور والد کی طرح آل امنڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی ذمے داری بحیثیت سکریٹری سنبھالی اور اس بیمار ادارے کو نئی زندگی بخشی۔ ان کی معاشرتی اور علمی خدمات میں کانفرنس کی سکریٹری شپ خاص اہمیت کی حامل ہے جو امانت و دیانت کے لحاظ سے ایک مثالی نمونہ کہی جاسکتی ہے۔ انھوں نے اپنا وجود کانفرنس کے لیے وقف کردیا۔ وہ کانفرنس کی خدمت اعزازی طور پر کرتے رہے۔ اس کے ملازمین کی مدد اپنی جیب خاص سے کرتے، اس کی عمارت کی دیکھ بھال اور مرمت کے مصارف اپنی جیب سے اٹھاتے۔ اس کے تحت قومی سمینار کرواتے  اور ان کی روداد شائع کراتے، اس کے آرگن کانفرنس گزٹ کو پابندی سے شائع کرتے۔ کانفرنس کے سکریٹری اور مدیر گزٹ کی حیثیت سے پروفیسر شیروانی کی خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ ان کا حلقہ احباب نہایت وسیع تھا اور وہ بہت مہمان نواز واقع ہوئے تھے۔ ان کی قیام گاہ حبیب منزل میں اہل علم کثرت سے آیا کرتے تھے، ان  سے علمی مسائل پر گفتگو ہوتی، نئی مطبوعات موضوع بحث آتیں اور مہمانوں کی خوب خاطر تواضع کی جاتی۔

پروفیسر شروانی بلاشبہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ مکمل ترین علیگ تھے۔ یونیورسٹی کے علاوہ منٹو سرکل میں تعلیم حاصل کرنے والے اور انگلش ہاؤس میں رہنے والے طلبا کومکمل علیگ کہا جاتا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ پر ان کی گہری نظر تھی۔ سرسید اور ان کی تحریک سے ان کو خاص دلچسپی تھی۔ وہ سرسید کی اصلاحی اور تعلیمی تحریک کے معترف ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے مطالعے کی بنیاد پر ان کے کمزور پہلوؤں پر گرفت بھی کرتے تھے۔ علی گڑھ کے سرسید شناسوں  میں ان کو بلند مقام حاصل ہے۔ سرسید کے ساتھ ساتھ پروفیسر شیروانی کو ماہرابوالکلامیات کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔ مطالعاتِ آزاد پر ان کو سند کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی تاریخ، قومی سیاست اور قومی تحریک پر ان کی خاص نظر تھی۔ وہ بنیادی طور پر عربی کے اسکالر تھے، لیکن انھوں نے اردو ادبیات، سیاسیات اور آزادیات پر بہت کچھ لکھا۔ وہ بلاشبہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی تہذیب اور روایات کے مثالی نمائندہ تھے۔ انھوں نے نہایت فعال اور بھرپور زندگی گزاری۔ سادگی، صدق گوئی، شرافت، شائستگی، وضع داری اور علم دوستی ان کی دلکش شخصیت کی اہم خصوصیات تھی۔ استغنا، توکل اوربے نیازی ان کی شخصیت سے عبارت تھی۔ وہ قدیم و جدید کا حسین سنگم تھے۔ وہ مہاتما گاندھی، جواہر لعل نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد کے ہندوستان سے محبت کرتے تھے اور آئین ہند کے سیکولرازم پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ ان کو اپنا وطن اتنا عزیز تھا کہ وہ تقسیم کے بعد پاکستان جاکر ہندوستان واپس آگئے تھے۔ وہ زندگی بھر ہر قسم کی فرقہ پرستی کے خلاف لکھتے رہے لیکن آخر عمرمیں فرقہ پرست طاقتوں سے ان کے یقین کو ٹھیس پہنچائی اور ان کے خوبصورت ہندوستان کو فرقہ پرست ہندوستان بنا دیا جس سے ان کو دلی تکلیف ہوئی۔ وہ ایسے دانشور تھے جن کا دل عصبیت اور تنگ نظری سے پاک تھا۔ پروفیسر شروانی اپنے علمی وادبی ذوق اور بے باک تحریروں کی وجہ سے یاد رکھے جائیں گے۔ میں ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں جنھوں نے پروفیسر شروانی کو قریب سے دیکھا، ان کی محبتوں اور شفقتوں سے لطف اندوز ہوا اوران کے ساتھ نشستوں میں علمی، ادبی اور سیاسی موضوعات پر بہت کچھ سیکھا اور سمجھا۔ آج پروفیسر شیروانی جیسے دانشور کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔

 

Prof. Mohd Saleem Qidwai

C-501, Rosw wood Apartment

Mayur Vihar

New Delhi- 110091

Mob.: 9953529424

mskidwai@hotmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

حیات قدیمہ اور عصر ماقبل تاریخ، ماخذ: قدیم ہندوستان کی ثقافت و تہذیب تاریخی پس منظر میں، مصنف: ڈی ڈی کوسمبی، مترجم: بالمکند عرش ملسیانی

  اردو دنیا، نومبر 2024 عہد زریں قدیم ترین اور خالص فطری زندگی کو جو ایک طرح کی حالتِ تکمیل نصیب تھی اس سے انسان کے انحطاط و محرومیت کی ...