اردو دنیا، نومبر 2024
خواجہ حسن ثانی نظامی درگاہ حضرت نظام الدین اولیا کے
سجادہ نشینوں میں سے تھے۔ ان کی پیدائش 15 مئی 1931 کو ہوئی تھی۔ ان کی ابتدائی
تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ گریجویشن کی تعلیم انھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
سے حاصل کی۔ اس پر وہ فخر کرتے ہیں کہ پروفیسر مجیب، ڈاکٹر ذاکر حسین، مولانا اسلم
جیراج پوری جیسے اساتذہ سے انھیں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ان کے لیے فخر کی
بات تھی کہ ان کی تربیت ان کی والدہ ماجدہ خواجہ بانو، والد ماجد خواجہ حسن نظامی
نے کی۔ خواجہ حسن ثانی نظامی اپنے عظیم المرتبت باپ کے کمالات کا نہ صرف پرتو تھے
بلکہ ثانی بھی تھے۔
خواجہ حسن نظامی کے رسوخ اپنے اپنے عہد کے تمام بڑے
لوگوں سے تھے ان میں سب سے بڑا نام گاندھی جی کا تھا۔ جو اکثر خواجہ صاحب سے ملنے
آیا کرتے تھے۔اسی طرح اکبر الہ آبادی جب بھی دہلی آتے تو خواجہ صاحب کے یہاں ہی
قیام کرتے۔ خواجہ حسن ثانی نظامی کے اندر اس دور کے عظیم رہنما، ادیب، مفکرکے
علاوہ اپنے والد کی شخصیت کی دلآویزی، گفتار کی شیرینی، علم ویقین کی توانائی،
خدمت خلق کا جذبہ پوری طرح سمویا ہوا تھا۔ خواجہ حسن نظامی نے تصوف کے بنیادی
افکار اور تعلیمات کو جس دلکش انداز میں سلاست اور بلاغت کے ساتھ اردو زبان کاجامہ
پہنایا ہے اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔
خواجہ حسن ثانی نظامی کے والداردو کے صاحب طرز ادیب
تھے۔ انھیں مصور فطرت بھی کہا جاتا ہے اور شمس العلما کے خطاب سے بھی سرفراز
تھے۔انھوں نے علم وادب کے میدان میں اپنا ایک منفرد مقام بنایا۔ خواجہ حسن ثانی
نظامی کو بھی اپنے دالد کی طرح زبان پر دسترس حاصل تھی۔جب وہ گفتگو کرتے یا کوئی
مضمون لکھتے یا محفل کو خطاب کرتے تو واقعات کی اس طرح منظر کشی کرتے کہ لوگ محسوس
کرتے کہ یہ تمام مناظر یا واقعات ان کے سامنے ہورہے ہیں۔
خواجہ حسن ثانی نظامی دہلی کی ادبی، تہذیبی، ملی اور
سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ وہ دہلی اردو اکادمی، غالب انسٹی ٹیوٹ
اور غالب اکیڈمی کے فعال رکن تھے۔دس سال 2000 تا 2010 تک غالب اکیڈمی کے صدر بھی
رہے۔ خواجہ حسن نظامی میموریل سوسائٹی انھوں نے خود قائم کی جس کے وہ جنرل سکریٹری
اور حکیم عبدالحمید صدر تھے۔ بعد میں علی محمد خسرو اور پھر سید شاہد مہدی اس کے
صدر بنے۔اسی سوسائٹی کے تحت مختلف مواقع پر عرس کرتے اور امیر خسرو کی حیات و تعلیمات
کے عنوان سے سمینار کراتے۔ اپنے والد ماجد کے عرس کے موقع پر خواجہ حسن نظامی کی
ادبی خدمات پر باقاعدہ سمینار کراتے تھے۔
خواجہ حسن ثانی نظامی دو سال ذیابیطس اور امراض قلب کی
تکالیف میں شدت سے مبتلا رہے اور اخیر میں دو مہینہ سخت علیل رہنے کے بعد 15 مارچ
2015 کو صبح سوا تین بجے اپنے گھر واقع بستی حضر ت خواجہ نظام الدین اولیا میں ہمیشہ
ہمیش کے لیے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے اور خواجہ ہال میں واقع ان کے والد خواجہ حسن نظامی کے پہلو میں تدفین
عمل میں آئی۔ ان کے پسماندگان میں بھتیجے اور بھتیجیاں شامل ہیں۔ انھوں نے حضر ت
خواجہ نظام الدین اولیا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شادی نہیں کی تھی۔ان کے انتقال سے
دبستان دہلی کی قدیم روایت کا خاتمہ ہوگیا۔
خواجہ حسن ثانی نظامی اپنے والد کے نقش قدم پر چل کے
تصوف سے متعلق لٹریچر میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔ تصوف۔ رسم اور حقیقت خواجہ صاحب
کی مشہور کتاب ہے جس میں کئی توسیعی خطبے شامل ہیںجو جامعہ ملیہ اسلامیہ اور
گلبرگہ میں دیے گئے۔گلبرگہ میں جو خطبے کا عنوان تھا وہی کتاب کا عنوان بنا۔ اس کے
متعلق خواجہ صاحب عرض حال میں لکھتے ہیں:
’’اس خطبے نے ان حضرات کی غلط فہمیاں دور کردیں
جو بغیر جانے بوجھے تصوف اور اہل تصوف کے مخالف بنے ہوئے تھے۔‘‘(تصوف: رسم اور حقیقت،
ص 7)
پروفیسر خلیق احمد نظامی اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’تصوف کے بنیادی افکار اور تعلیمات کوخواجہ
حسن نظامی نے اس صدی میں جس دلکش انداز میں سلاست اور بلاغت کے ساتھ اردو زبان کا
جامہ پہنایا ہے وہ فقیدالمثال ہے۔ خواجہ حسن ثانی نظامی نے اپنے باپ کے نقش قدم پہ
چل کے تصوف سے متعلق لٹریچر میں قابل قدر اضافہ کیا ہے... انھوں نے تصوف کی تاریخ،
صوفیہ کے نظام حیات، اس کے مقصد ومنہاج، سلوک میں تعلیم وتربیت کی اہمیت، ہندوستانی
سماج پر صوفیہ کے اثرات اور تنظیم سلاسل کی نوعیت پر جس بالغ نظری سے بحث کی ہے اس
سے فکرونظر کے نئے پہلو سامنے آگئے ہیں۔‘‘(ایضاً، ص 7)
خواجہ حسن نظامی کی تصانیف کی تعداد سیکڑوں میں ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ وہ کتابیں بازار سے کمیاب ہوتی گئیں۔ خواجہ حسن ثانی نظامی نے ان
کی کتابوں کی ازسر نو آفسیٹ پر چھاپنے کا اہتمام کیا جس سے واقعی تصوف سے متعلق
ادب میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔ اپنے والد کے رسالے ’منادی‘ کو تاحیات جاری رکھا۔
جس میں خود بھی لکھتے رہے اور اپنے والد کی ڈائری کو بھی شائع کرتے رہے۔
خواجہ حسن ثانی نظامی کو سادہ اور دلکش نثرنگاری کا فن
ورثے میں ملا تھا۔ان کی سادہ نثر کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے حسن اعلیٰ سجزی
کی فارسی کتاب ’فوائدالفواد‘کا ترجمہ نہایت سادہ اور سلیس اردو میں کیا، ان سے
پہلے یہ کام کسی اور سے نہ ہوسکا۔ اس کتاب میں خواجہ صاحب نے یہ التزام رکھا ہے کہ
ایک صفحے پر فارسی متن دیا اور اس کا اردو ترجمہ سامنے دے دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں
وہ کہتے تھے فارسی متن اس لیے دیا جارہا ہے کیونکہ یہ الفاظ نظام الدین اولیا کی
زبان سے نکلے ہوئے ہیں۔ اردو کے ارتقا میں صوفیوں اور خانقاہوں کا اہم رول مانا
جاتا ہے۔اس حقیقت کو خواجہ حسن ثانی نظامی نے نہ صرف اپنی تقریروں میں دلچسپ انداز
میںبیان کیا ہے بلکہ اپنی تحریروں سے اسے ثابت بھی کردیا ہے۔
اس کتاب میں شامل مضمون ’موڈرن صوفی: حکیم ہمدرد۔ ایک
روپ جھلک‘ میں خواجہ حسن ثانی نظامی کا اسلوب تمام مضامین سے جدا ہے۔ اس مضمون میں
انھوں نے حکیم عبدالحمید کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی ہے۔ مضمون کے
شروعات میں ہی انھوں نے حکیم صاحب کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’عزم و ارادے میں آسمان، تواضع و خاکساری میں
زمین، محبت، خلوص اور بے غرضی میں ماں کی گود! اجلا رنگ، اجلا لباس، بڑا دماغ۔
سمائی والادل۔ مروت و لحاظ کی آنکھ۔ کلائی میں طاقت۔ ہاتھ میں سخاوت، رفتار میں
توازن وتیزی۔ گفتار میں ٹھہرائواور مٹھاس! بہت سنجیدہ ہیں۔ لیکن یہ سنجیدگی راہبوں
والی خشک، روکھی پھیکی، سپاٹ اوراُجاڑ سنجیدگی نہیں ہے۔ اس میں رس ہے، تازگی ہے
بھری پری بشریت والی زندگی ہے! ایک سچے صوفی کی پہچان!
طبیب دوا بن جائے، معالج علاج سمجھا جانے لگے، خدا ترسی
اور انسان دوستی مجسم ہوجائیں اور آدمیت خالی خولی لفظ نہ رہے، معنی و مفہوم کی
بہار بھی دکھائے عمل کی قوتیں ہمالہ پہاڑ بن کر سامنے آئیںتو انھیں حکیم عبدالحمید
دہلوی کہا جاتاہے۔‘‘ (ایضاً، ص 175)
حکیم عبدالحمید کی شخصیت کے مختلف پہلو تھے۔ وہ نہ صرف
ایک کامیاب حکیم تھے بلکہ دہلی میں انھیں وہی مقبولیت حاصل تھی جو حکیم اجمل خاں
کو تھی۔ جسے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ 1857 کے بعد اگر حکیم اجمل خاں کی دہلی تھی تو
1947 کے بعد حکیم عبدالحمید کی دہلی تھی۔
وہ ضروت مندوں کا مفت میں علاج کرتے تھے لیکن ان کے نسخوں پر مفت، فری یا اس طرح
کا کوئی ایسا لفظ نہیں لکھتے تھے بلکہ اس پر دستخط کچھ اس انداز سے کرتے کہ ان کے
دواساز پہچان جاتے اور ایسے نسخوں سے قیمت لینے سے انکار کر دیتے۔ حکیم صاحب جس کی
نبض پر ہاتھ رکھ دیتے صحت اس کے استقبال کے لیے بازو پھیلا دیتی۔ حکیم صاحب نے تقسیم
ہند کے اندوہناک منظر کو دیکھا تھا۔ اس کے باوجود انھوں نے دہلی کو اپنا میدان عمل
بنایا۔ انھوں نے بذات خود ایسے کام کیے جو حکومتیں اور ا نجمنیں بھی اتنی خوبی سے
نہیں کرپاتی ہیں۔ خواجہ حسن ثانی نظامی نے حکیم عبدالحمید کی کاوشوں کو بہت خوبی
کے ساتھ اس مضمون میں پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’انھوں نے اپنی محنت اور حق حلال کمائی
عمارتیں بنانے میں بے دریغ خرچ کیا ہے۔ اور نئے زمانے کی دلی میں کسی شخص کو شاہ
جہاں سے تشبیہ دی جاسکتی ہے تو وہ حکیم صاحب کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے... تاہم جو کچھ انھوں نے بنوایا ہے وہ دیکھنے
دکھانے کے قابل عرصہ دراز تک رہے گا۔ میرے ایک افریقی دوست یوسف ہانسا صاحب نے
تغلق آباد میں اسلامک انسٹی ٹیوٹ کی لائبریری کو دیکھنے کے بعد بے ساختہ کہا تھا
کہ یہ کام تو کسی بڑی حکومت کے کرنے کا تھا جو ایک فرد نے کیا ہے!‘‘ (ایضاً، ص 185-86)
ایک ایسا انسان جس کا سالانہ کاروبار کروڑوں میں ہو اس
کی زندگی کتنی سادہ اوردرویشانہ تھی اس کابھی ذکر خواجہ صاحب نے بہت خوب صورت
انداز میں کیا ہے۔ ایک مرتبہ بغیر اطلاع کیے خواجہ صاحب حکیم صاحب سے ملاقات کرنے
ہمدرد دوا خانے کے لال کنواں والے دفتر میں پہنچ جاتے ہیں۔ اتفاق سے حکیم صاحب
دفتر میں نہیں تھے، چونکہ ان کی وہاں لوگوں سے پہلے سے واقفیت تھی لہٰذا سکریٹری
خواجہ صاحب کو حکیم صاحب سے ملاقات کرانے کی غرض سے چھت پر لے گئے۔ اس عجیب منظر
کا ذکر کرتے ہوئے خواجہ صاحب لکھتے ہیں:
’’ایک چھوٹے سے تپتے ہوئے سائبان کے نیچے لکڑی
کا معمولی سا تخت پڑا ہواتھا اور اس پر ایک بوری (Gunnybag) بچھی ہوئی تھی اور
اس پر براجمان یہ کروڑوں روپے سالانہ کاروبار کا مالک لکھنے پڑھنے میں محو تھا۔ حکیم
صاحب نے ہم دونوں کو سیڑھیاں چڑھتے دیکھ لیا اور دور سے پکارے اور تعظیم الدین سے
بولے کہ ان کو اس دیہات میں کہاں لے آئے؟ تعظیم صاحب کے کچھ کہنے سے پہلے میں نے
جرأت کرکے کہا کہ یہ دیہات وہ دیہات ہے جس نے معلوم نہیں کتنے شہر بسا دیے!حکیم
صاحب میرے اس فقرے پر مسکرائے اور خبر نہیں ’’کل یوم ہو فی شان‘‘ کا کون سا لمحہ
تھا کہ انھوں نے سامنے شیلف پر سے ایک فائل اٹھا کرمیرے سامنے ڈال دی۔ یہ ان کے
ذاتی خرچ کی فائل تھی۔ میں نے پورے مہینے کے خرچ کا ٹوٹل پڑھا۔ پچاسی روپے!اسّی
اور پانچ، پانچ کم نوّے، صرف پچاسی روپے ہمدرد دواخانے کے مالک کا خرچ!‘‘(ص 181)
خواجہ حسن ثانی نظامی نے’تصوف: رسم اور حقیقت ‘
میں بہت دلکش اسلوب کا استعمال کیا ہے۔ اس کتاب میں وہ مضامین شامل ہیں جن سے ان
کا دلی لگائو ہے۔ چاہے وہ تصوف سے متعلق ہو، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پیش کیا گیا
پروفیسر محمد مجیب میموریل لکچر ہو یا حکیم عبدالحمید صاحب کی شخصیت پر پیش کیا گیا
لکچر ہو۔ ان تمام مضامین میں ایک ایک جملہ اپنی دلکشی دکھاتا ہے۔ خواجہ صاحب اگر
اپنے دور کی چنداور ہستیوں پر مضامین لکھتے تو وہ اردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ
ہوتا۔ جامعہ سے جو ان کا لگائو تھا، جس کی وجہ سے اکثر جامعہ کے اساتذہ کا ذکر
کرتے نظر آتے تھے۔ پروفیسر محمد مجیب میموریل لکچر کی تمہید میں انھوں نے جس طرح
جامعہ کے تمام اساتذہ کا ذکر کیا ہے اگر سب پر فرداً فرداً ایک ایک ایک مضمون لکھ
کر کتابی شکل میں شائع کردیتے تو نہ صرف اس دور کی جامعہ سے ہم سب روشناس ہوجاتے
بلکہ خواجہ حسن ثانی نظامی صاحب کے دلکش اسلوب سے بھی لطف اندوز ہونے کا موقع
ملتا۔ پھر بھی خواجہ صاحب نے اردو ادب میں جو گراں قدر اضافہ کیاہے وہ قابل ستائش
اور ناقابل فراموش ہے۔
Dr. Aziz Ahmad Khan
House No 9, 2nd Floor
Shadab Colony, Mahanagar,
Lucknow- 226006
Mob- 8684943650
khanaziz07@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں